• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضائل قیام اللیل (خطبہ جمعہ مسجد نبوی )

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فضائل قیام اللیل (خطبہ جمعہ ازمسجد نبوی )

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 03-جمادی الاولی-1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان: "فضائل قیام اللیل" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے نمازِ تہجد کے بارے میں کتاب و سنت کے مطابق فضائل بیان کئے، اور قیام اللیل کا اجر پانے کے خواہشمند حضرات کیلئے نصیحتیں بھی کیں۔

پہلا خطبہ:


یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، ہم اسکی کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی اور بُرے اعمال کے شرسے اسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد اللہ بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درودو سلام بھیجے۔
حمد اور درود و سلام کے بعد!
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، اللہ کا ڈر مینارِ ہدایت ہے اور اس سے رو گردانی بد بختی کا راستہ ہے۔

مسلمانو!
اللہ سبحانہ و تعالی نے مخلوق پیدا کی ، اُسے کسی کی ضرورت نہیں لیکن ساری مخلوق اُسی کی محتاج ہے، اسی محتاجی کی وجہ سےاُس نے اِن پر اپنی عبادت فرض کی، اسی لئے قرآن مجید میں سب سے پہلا حکم نازل کیا تو اپنی عبادت کا، فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی (اور اس کی عبادت اس لیے کرو) کہ تم پرہیزگار بن سکو[البقرة: 21]
تمام انبیاء کرام کو بھی نیک اعمال بجا لانے کا حکم دیا، فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا
اے پیغمبروں کی جماعت! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو [المؤمنون: 51]
اسی طرح موسی علیہ السلام کو فرمایا:
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں لہذا میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو [طه: 14]
اور آخر میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا:
بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ
بلکہ آپ اللہ ہی کی عبادت کیجئے اور اس کے شکرگزار بن کر رہئے [الزمر: 66]
اور تمام کے تمام انبیاء نے اپنی قوموں سے کہا:
اُعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ
اللہ کی عبادت کرو، جس کے علاوہ تمہارا کوئی الٰہ نہیں [الأعراف: 59]
ایسے ہی بنی اسرائیل سے اللہ نے عہد لیتے ہوئے فرمایا تھا:
لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ
اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت مت کرنا[البقرة: 83]
اور قریش کو خاص طور پر فرمایا:
فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ
اس گھر کے رب کی عبادت کرو[قريش: 3]
اور مؤمنوں کو خاص طور پر متوجہ کر کے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو [الحج: 77]
اور اللہ نے اپنے نبی کے صحابہ کا تذکرہ بطور خاص فرماتے ہوئے انہیں انتہائی عبادت گزار کہا، جسکا اثر انکے اعضاء پر بھی واضح تھا، فرمایا:
تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ
تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے ؛ اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے (کثرت) سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر امتیازی نشان موجود ہیں۔ [الفتح: 29]
اگر انسان کو بلند مقام چاہئے تو وہ اللہ کی بندگی ہی میں ہے، اسی لئے سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اِنہیں بھی اُن میں شامل فر مادے، کہا:
وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ
اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل کر [النمل: 19]
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے جب بھی رکوع سے سر اٹھاتے فرماتے:
(أحقُّ ما قال العبد، وكلُّنا لك عبدٌ)
بندے کی جانب سے پیش کردہ حمد کا اے اللہ!توں ہی حق دار، اور ہم سب تیرے ہی بندے ہیں۔ صحیح مسلم
ہر مسلمان فرض نمازوں میں اللہ تعالی سے سترہ (17) بار وعدہ بندگی کرتا ہے ، وہ ہر بار کہتا ہے:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں[الفاتحة: 5]
اللہ کی بندگی ہی جنت میں داخلے کا اصل سبب ہے باقی سب اسی کی شاخیں ہیں ، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: مجھے جنت میں داخلے کیلئے کوئی عمل بتلا دیں، فرمایا:
(اللہ کی عبادت کر، اور شرک سے بچ) بخاری و مسلم
یہ اللہ کا اپنے بندوں پر فضل ہے کہ اس نے عبادات کی مختلف اقسام بنا دیں؛ چنانچہ بندوں کیلئے فرض نماز کے بعد افضل ترین نماز مقرر کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فرض نماز کے بعد افضل ترین نماز "قیام اللیل"رات کی نماز ہے) مسلم
اللہ تعالی کو یہ نماز انتہائی محبوب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اللہ کے ہاں محبوب ترین نماز رات کی نماز ہے) بخاری ، و مسلم
اخلاص سے اس نماز کی ادائیگی علامتِ تقوی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ (15) آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ (16) كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ
بلاشبہ پرہیز گار (اس دن) باغوں اور چشموں میں ہوں گے[15] جو کچھ ان کا پروردگار انہیں دے گا وہ لے رہے ہوں گے۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے[16] رات کو کم ہی سویا کرتے تھے۔ [الذاريات: 15- 17]
رات کو نماز ادا کرنے سے گناہ مٹا دئے جاتے ہیں، خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
(کیا تمہیں خیر و برکات کے اسباب کے بارے میں نہ بتلاؤں؟! -تو سنو -روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے آگ کو پانی ، اسی طرح آدھی رات کے وقت ادا کی گئی نماز بھی) یعنی یہ بھی اسی طرح گناہوں کو مٹا دیتی ہے جیسے آگ کو پانی۔ ترمذی
بندے کیلئے اللہ کی رحمت کا سبب بھی یہ ہی رات کی نماز ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اللہ تعالی اس پر اپنا رحم کرے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے) ابو داود
قیام اللیل کرنے سے اللہ کی بے بہا نعمتوں کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنا لمبا قیام کرتے حتی کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے، اور فرماتے:
(مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں بھی اللہ کا شکر کرنیوالا بندہ بن جاؤں) بخاری
بندہ اللہ کے قریب ترین رات کو ہوتاہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اگر تم اُس وقت ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہو جنہیں اللہ تعالی یاد کرتا ہے تو اُن میں شامل ہو جاؤ) ترمذی
قیام اللیل -اللہ کے حکم سے- فتنوں سے بھی بچا کر رکھتا ہے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات گھبرا کر اٹھے اور فرمایا:
(سبحان اللہ!! اللہ نے کتنے ہی خزانے نازل کئے! اور کتنے ہی فتنے!! ان حجرے والیوں کو کون اٹھائے؟)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو مخاطب کر رہے تھے تا کہ اٹھ کر قیام اللیل کریں، فرمایا :
(اس دنیا میں بہت سی کپڑے پہننے والی خواتین روزِ آخرت برہنہ ہونگی) بخاری
قیام اللیل کرنے سے سینہ کھل جاتا ہے، ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے، اور دل بھی باغ باغ و شادمان رہتا ہے، ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : "قیام اللیل ہی میں روحانی تسکین کا راز پوشیدہ ہے"
قیام اللیل کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (16) فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں [16] کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کچھ چیزیں ان کے لئے چھپا رکھی گئی ہیں یہ ان کاموں کا بدلہ ہوگا جو وہ کیا کرتے تھے [السجدة: 16، 17]
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اطہر سے میں نے جو پہلی بات سنی وہ تھی:
(لوگو! سلام عام کرو ، کھانا کھلاؤ، رشتے ناطے جوڑو، لوگ سوئے ہوئے ہوں تو اٹھ کر قیام اللیل کرو، جنت میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ گے) ترمذی
جو بھی قیام اللیل کرے گا جنت بلند مقام پائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جنت میں کچھ ایسے محل ہیں جن کے اندر سے باہر کا منظر اور باہر سے اندر کا منظر صاف دیکھا جا سکے گا)
ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! یہ کسے ملے گے ؟ فرمایا:
(جو اچھی بات کرے، کھانا کھلائے، باقاعدگی سے روزے رکھے، اور لوگ سوئے ہوئے ہوں تو نماز ادا کرے) احمد
اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام اللیل کرنے کا حکم دیا تا کہ بلند مرتبہ پا سکیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا
اور رات کو آپ تہجد (کی نماز) ادا کیجئے یہ آپ کےلئے زائد (نماز) ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا پروردگار آپ کو مقام محمود پر فائز کردے۔ [الإسراء: 79] اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر یا حضر ؛ ہر حالت میں تہجد ادا کرتے تھے۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کم و بیش آدھی رات قیام اللیل کرنے کا حکم دیا گیا فرمایا:
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (2) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا (3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) جو کپڑا اوڑھے ہوئے (سونے لگے) ہو[1] رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات (نماز میں) کھڑے رہا کیجئے[2] رات کا نصف حصہ یا اس سے کچھ کم کر لیجئے[3] یا اس سے زیادہ کیجئے [المزمل: 1- 4]
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "اسی لئے جب چاہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز پڑھتے ہوئے دیکھ سکتے تھے"
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے قرآن مجید کی آیت پڑھی:
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ
کیا (ایسا شخص بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات قیام اور سجدہ میں عبادت کرتے گزارتا ہے،آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے [الزمر: 9]
اور کہا : یہ آیت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن عمر نے اس لئے کہاکہ عثمان رضی اللہ عنہ کثرت سے قیام اللیل کیا کرتے تھے، حتی کہ کبھی تو صرف ایک رکعت ہی میں مکمل قرآن پڑھ جاتے"
اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی ہو چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، اور قیام اللیل گھر میں افضل ہے، فرمایا: (نفل نماز گھر میں ادا کرنا افضل ہے) بخاری ،مسلم
قیام اللیل جس طرح مَردوں کیلئے سنت ہے اسی طرح خواتین کیلئے بھی سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار رات کے وقت اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دروازہ کھٹکھٹا یا-اس وقت آپکی شادی علی رضی اللہ عنہ سے ہو چکی تھی- اور آپ نے دونوں کو فرمایا:
(کیا تم قیام اللیل نہیں کرتے؟) بخاری، مسلم
امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز کی فضیلت کا علم تھا اسی لئے تو اپنی بیٹی اور چچا زاد کو اللہ کے بنائے ہوئے آرام کے وقت میں بے آرام کیا، تا کہ وہ بھی اس وقت کی فضلیت پا سکیں"
اسی لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاوند کیلئے رحمت کی دعا کی ہے جو اپنی بیوی کو قیام اللیل کیلئے اٹھائے، فرمایا:
(اللہ تعالی اپنے اس بندے پر رحم کرے جو رات کو اٹھ کر نماز ادا کرے اور اپنی بیوی کو بھی نماز کیلئے جگائے) ابو داود
عمر رضی اللہ عنہ رات کے وقت قیام کرتے، اور جب رات کا آخری وقت شروع ہوتا پھر اپنے اہل خانہ کیلئے فرماتے: نماز کیلئے اٹھو، نماز کیلئے اٹھو، اور ساتھ میں یہ آیت بھی تلاوت کرتے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس پر ڈٹ جائیے [طه: 132]
قیام اللیل نوجوانوں کیلئے باعثِ ترقی اور بزرگوں کیلئے باعثِ وقار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر کو انکی نوجوانی میں کہا تھا:
(عبد اللہ بندہ تو اچھا ہے! ـبس ـقیام اللیل اور شروع کر دے) بخاری و مسلم
اسی لئے ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : "جو کوئی بھی قیام اللیل کرے اسے اچھے آدمی ہونے کا لقب دیا جاسکتا ہے"
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کو لڑک پن میں ہی متنبہ کر دیا تھا کہ قیام اللیل ترک نہیں کرنا، فرمایا:
(عبد اللہ ! فلاں کی طرح مت کرنا، اس نے رات کو قیام اللیل شروع کیا اور پھر ترک کر دیا) بخاری
سلف صالحین قیام اللیل اپنے بچپن ہی سے پسند کیا کرتے تھے، اسی لئے تو ابراہیم بن شماس رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے احمد بن حنبل کو لڑک پن میں ہی قیام اللیل کرتے ہوئے دیکھا"
رات کی اتنی فضلیت ہے کہ اللہ نے رات ہی کو اپنی کتاب نازل فرمائی، اسی لئے رات کے وقت تلاوت کرنے سے حفظِ قرآن میں پختگی آتی ہے، فرمانِ نبوی ہے:
(اگر حافظ قرآن دن رات پڑھے تو قرآن اسے یاد رہتا ہے اور اگر نہ پڑھے تو بھول جاتا ہے) مسلم
کسی کو قیام اللیل میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھ کر رشک کرنا چاہئے، فرمانِ رسالت ہے:
(رشک دو چیزوں میں ہے، ایک وہ جسے اللہ نے حفظِ قرآن کی دولت سے نوازا ہے اور وہ دن رات قران کی تلاوت کرتا ہے، اور اسی طرح جسے اللہ نے مال عطا کیا ہے اور وہ اسکی راہ میں دن رات خرچ کرتا ہے) بخاری ، مسلم
رات کے وقت قرآن کی تلاوت فہم و تدبر کیلئے معاون ثابت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا
رات کا اٹھنا یقینا (نفس کو) بہت زیر کرنے والا ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں وقت ہے [المزمل: 6]
قیام اللیل کے وقت قرآن کی تلاوت کا اجر بھی زیادہ ہے، اسی لئے رات کے وقت کی تھوڑی سی تلاوت بھی بندے سے غفلت دور کر دیتی ہے، اگر میانہ روی اختیار کرے تو بندے کو "قانتین" میں شامل کر دیتی ہے، اور اگر کثرت سے تلاوت ہو تو اجر و ثواب کے خزانے سمیٹ لاتی ہے، فرمانِ رسالت ہے:
(جس نے قیام اللیل میں صرف دس آیات تلاوت کیں اسے غافل نہیں لکھا جاتا، اور جو ایک سو آیات کی تلاوت کرے "قانتین" میں شامل ہو جاتا ہے، اور جو ایک ہزار آیات پڑھ کر قیام اللیل کرے اس کے ہاں نیکیوں کے انبار لکھ دئے جاتے ہیں) ابو داود
رات کے وقت دعا کی بھی بہت اہمیت ہے، فرمایا:
(رات کے وقت ایک گھڑی ایسی ہے اس وقت میں اللہ سے مسلمان بندہ جو بھی مانگے عنائت کیا جاتا ہے) مسلم
رات کی آخر ی تہائی میں اللہ تعالی آسمانِ دنیا تک نازل ہوتا ہے، اور فرماتا ہے :
(جو مجھے پکارے گا میں اسکا جواب دوں گا، جو مجھ سے مانگے گا میں اسے عنائت کرونگا، اور جو مجھ سے بخشش طلب کرے گا میں اسے بخش دونگا) بخاری ، مسلم
اور جس نے رات کواٹھ کر مندرجہ ذیل وظیفہ پڑھ کر دعا مانگی یا نماز پڑھی؛ بارگاہِ الہی میں قبول ہوگی ، فرمانِ نبوی ہے:
(جو رات کو بیدار ہو اور کہے: لا إله إلا الله وحده لا شريكَ له، له المُلكُ ولهُ الحمدُ، وهو على كل شيء قدير، الحمدُ لله، وسُبحان الله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حولَ ولا قوة إلا بالله، پھر کہے: اے اللہ مجھے معاف فرما، اللہ اسکی دعا قبول فرماتے ہیں، اور اگر وضو کر کے نماز ادا کرے تو نماز قبول کی جاتی ہے) بخاری۔
رات کے وقت اللہ کے ساتھ تعلق جوڑ کر بہت سی امیدیں لگائی جاسکتی ہیں، اور اسی دوران اللہ کی تسبیح بیان کرنا علامتِ تقوی ہے۔
رات کی عبادت کے آخر میں استغفار کرنا بہتر ہے، کیونکہ اللہ نے انکی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ
اور رات کے آخری حصہ میں استغفار کرنے والے ہیں [آل عمران: 17]
"غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانیوالوں کی توبہ بھی رات کی آخری تہائی میں نازل ہوئی تھی" بخاری


نمازِ عشاء کے بعد سے لیکر فجر تک قیام اللیل کا وقت ہے، جسکی کم از کم مقدار ایک رکعت ہے زیادہ کی کوئی حد نہیں، رات کے آخری حصہ میں نماز ادا کرنا افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(رات کے آخری وقت کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں) مسلم

قیام اللیل کی اہمیت کے پیشِ نظر ، اگر کسی سے قیام اللیل رہ جائے تو اسکی قضا بھی کی جاسکتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(جو شخص نیند کی وجہ سے رات کی عبادت نہیں کر پایا، تو وہ فجر اور ظہر کی نماز کے درمیان ادا کر لے، اس کیلئے ایسے ہی لکھا جائے گا، جیسے اس نے رات کو عبادت کی ہو) مسلم

سوتے وقت مسنون اذکار کا اہتمام قیام اللیل کے لئے انتہائی مفید ہے، عشاء کی نماز کے بعد گپ شپ میں مصروف رہنے سے قیام اللیل مشکل ہو جاتا ہے، اور اگر قیام اللیل کر بھی لے تو خشوع پیدا نہیں ہوتا، اور جو شخص رات کے وقت گناہ کا ارتکاب کرے عام طور پر اسے نیکی کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔

مسلمانو!
یہ دنیا فانی ہے، یہاں تھوڑی دیر کیلئے ہم نے رہنا ہے، اور رات کے وقت نماز ، تلاوتِ قرآن ، دعا، تسبیح ، اور استغفار کرنے سے ایک مسلمان کی آخرت سنور سکتی ہے،اس کے ذریعے اللہ سے ملاقات کی تیاری کی جاسکتی ہے، صحیح بات تو یہ ہے کہ عقلمند اپنی دنیا اور آخرت درست کرنے کیلئے رات کے آخری حصہ کو غنیمت جانتا ہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
اور صبح و شام اپنے پروردگار کا نام یاد کیجیے [الدهر: 25]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں یقینا وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر اپنا احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل ،و صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔


مسلمانو!
کشادگی رزق کے لئے قیام اللیل کیا جائے، کثرت سے سحری کے وقت اٹھ کر استغفار کیا جائے، اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کو اپنا معمول بنایا جائے، اور دن کے شروع اور آخری حصہ میں اللہ کا ذکر کیا جائے۔
مؤمن کیلئے قیام اللیل باعثِ شرف ہے ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو شخص بھی قیام اللیل کرے اللہ تعالی اسکے چہرے پر نور پیدا کردیتا ہے جو ہر مسلمان کو پسند ہے"
قیام اللیل کرنے والے افراد بہت کم ہیں ، اسی لئے عبادات میں سب سے پہلے اسی کو ترک کیا جائے گا، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "سب سے پہلے جس عبادت کو ترک کیا جائے گا، وہ تہجد ہے"
مؤمن رات کو تہجد کیلئے وقت ضرور نکالتا ہے، جبکہ دن کے وقت دیگر عبادات میں مصروف رہتا ہے، اور اللہ کی مخلوق کا بھلا کرتا ہے۔


یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد,
اے اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ اے اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔


دعا:

اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ! پوری دنیا میں تمام کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! انکا مدد گار اور ناصر بن، یا اللہ انکی مدد فرما، یا اللہ انہیں ثابت قدم بنا، یا اللہ انکے نشانے درست فرما، یا اللہ تقوی کی بنیاد پر ان میں اتحاد پیدا فرما۔
یا اللہ ! جو مسلمانوں کے بارے میں غلط سوچ رکھے یا اللہ اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! انکی مکاریوں کو انہیں پر ڈال دے، اور انکے دلوں میں رعب ڈال دے۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
یا اللہ! قول و فعل میں تجھ سے اخلاص کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ ! اپنے ذکر، شکر اور عبادت پر ہماری مدد فرما۔

اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی چیز ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔

مترجم : شفقت الرحمن مبارك على
عربی میں سننے کے لیے :
فضائل قيام الليل
 
Top