• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فضَائلِ صحَابہ رضی اللہ عنھم (صحیح روایات کی روشنی میں)

شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
فضَائلِ صحَابہ رضی اللہ عنھم

تالیف: حافظ شیر مُحمّد
تحقیق وتخریج: حَافظ ز بیر عَلی زئیؒ​

فہرست
تعارف
اللہ تعالیٰ سےمحبت
اللہ کی محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ تقویٰ
رسول اللہ ﷺسےمحبت
قرآن مجید سے محبت
حدیث سے محبت
سنت سے محبت
سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے محبت
صحابہ اکرام سے محبت
خلفائے راشدین سے محبت
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے محبت
سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے محبت
امیرالمومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت
※ عشرہ مبشرہ سے محبت
※ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سےمحبت
※ سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ سے محبت
※ اُم المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے محبت
※ سیدہ عائشہ رضی عنہا سے محبت
※ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت
※ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا ابوطلحہ الانصای رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے محبت
※ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سےمحبت
※ تابعین عظام رحمہم اللہ اجمعین سے محبت
※ امام ابن شہاب الزہری رحمتہ اللہ علیہ سے محبت
※ علمائے حق سے محبت
※ اللہ کے مومن بندوں سے محبت
※ والدین سے محبت
※ اولاد سے محبت
※ ہمسایوں سے محبت
※ محبت ہی محبت
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تعارف

الحمدللہ رب العالمیٰن والصلوࣿۃ والسلام علیٰ رسولہ الأمین، أمابعد؛
جون ۲۰۰۴ء میں ماہنامہ الحدیث حضرو ضلع اٹک کا پہلا شمارہ شائع ہوا جس میں
"رسول ﷲﷺ سے محبت" والا مضمون چھپا تھا اور بعد میں یہ سلسلہ دسمبر ۲۰۰۷ء میں اختتام پذیر ہوا۔
ان مضامین میں قرآن مجید اور صحیح روایات کی روشنی میں ثابت شدہ فضائل پیش کئے گئے جنھیں قارئینِ الحدیث نے بےحد پسند کیا۔ بعد میں یہ سلسلے کو “محبت ہی محبت” کے نام سے شائع کیا گیا۔ اب اسے "صحیح فضائل کا مجموعہ “ کے عنوان سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
بہت سے لوگ فضائل و مناقب میں ضعیف، موضوع اور بےاصل روایات علانیہ بیان کرتے رہتے ہیں اور اللہ کی پکڑ کا انھیں کوئی ڈر نہیں ہوتا۔
ایک دن ساری مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش ہونا اور خاص طور پر جن و انس کو اپنے اقوال و افعال کا حساب دینا ہے۔
اس دن مجرمین کہیں گے: ہائے ہماری تباہی! یہ کیسی کتاب ہے جس میں ہر چھوٹی بڑی بات درج ہے اور وہ اپنے اعمال کو اپنے سامنے حاضر پائیں گے-
دیکھیے سورۃ الکہف(٤٩)
ہر عالم اور غیر عالم پر ضروری ہے کہ صرف وہی بات بیان کرے جو سچی، صحیح اور ثابت ہو-
آپ کے ہاتھوں میں اس کتاب میں صحیح فضائل کا مجموعہ پیش کردیا گیا ہے تاکہ خطباء، واعظین، علماء اور عوام صحیح روایات پڑھیں اور یہی روایات آگے لوگوں میں پھیلائیں-
عقائد، احکام، اعمال اور فضائل کی بنیاد قرآن مجید، صحیح احادیث، اجماع اور صحیح ثابت آثار سلف صالحین ہی پر ہے -
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس کوشش کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنی رحمت و فضل کے سائے میں ڈھانپ لے۔ آمین
حافظ زبیر علی زئیؒ
٣۔فروری ٢٠٠٨ء
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ تعالیٰ سے محبت

اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور تمام مخلوقات کا خالق ہے- اسی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا اور ان کی زوجہ حوا علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور پھر ان دونوں سے انسانوں کی نسل جاری فرمائی- اللہ نے انسانوں اور تمام جاندار مخلوقات کے لئے طرح طرح کی رزق اور نعمتیں پیدا کیں اور وہی مشکل کشا اچھا حاجت روا اور فریاد رس ہے-
ارشاد باری تعالیٰ:
{وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ }(النحل: ١٨)
"اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے"
بے شمار نعمتوں اور فضل و کرم والے رب سے محبت کرنا ہر انسان پر فرض ہے-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّـهِ ؕ} { البقرہ: ١٦٥}
"اور اہل ایمان سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتےہیں"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" اللہ تمہیں جو نعمتیں کھلاتا ہے ان کی وجہ سے اللہ سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو -" ( سنن الترمذی:٣٧٨٩،سندہ حسن، ماہنامہ الحدیث :٢٦)
اللہ تعالی فرماتا ہے:
{وَاشْكُرُوا لِلَّـهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ} (البقرہ :١٧٢)
" اور اللہ کا شکر ادا کرتے رہو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو" -
( کامل ایمان والے ) مومن وہ ہیں جب ان کے سامنے نے اللہ تعالی کا ذکر کیا جاتا ہے ہے تو ان کے ( دل خوف و امید کے ساتھ) لرز جاتے ہیں -
دیکھئے سورۃالانفال(٢)
نبی کریمﷺ کا ارشاد ِمبارک ہے کہ:
{ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ} (صحیح بخاری: ١٦، صحیح مسلم:٤٣)
" جس شخص میں تین چیزیں ہوں تو اس نے ایمان کی مٹھاس پالی (اول) یہ کہ اس کے نزدیک ایک ہر چیز سے زیادہ اللہ اور رسول محبوب ہوں (دوم) وہ جس سے محبت کرے صرف اللہ ہی کے لیے محبت کرے (سوم) وہ کفر میں لوٹ جانا اس طرح نہ پسند کرے جیسے وہ آگ میں گرنانا پسند کرتا ہے ہے-"
ایک ماں جتنی اپنے بچے سے محبت کرتی ہے اللہ تعالی اس سے بہت زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے-
دیکھئے صحیح بخاری(٥٩٩٩) وصحیح مسلم(٢٧٥٤)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
میرے بندوں کو بتا دو کہ بیشک میں گناہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں - (الحجر:۴۹)
اللہ فرماتا ہے :
{قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ } (الزمر:٥٣)
" (میری طرف سے) کہہ دو:اے میرے( اللہ کے) بندو! جنہوں نے نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ بے شک اللہ (شرک کے سوا) سارے گناہ معاف فرماتا ہے، بیشک وہ غفورالرحیم ہے-
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
جو لوگ میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو ان کے لیے میری محبت واجب ہے-
(مسند احمد، زوائد عبداللہ بن احمد سند ٣٢٨/٥ وسندہ صحیح)
اللہ سے محبت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ انسان ہر وقت اللہ پر توکل اور اسی پر صابر اور شاکر رہے-
ایک دفعہ ایک اعرابی( بدو) نے رسول اللہ ﷺ پر تلوار تان کر پوچھا: تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ آپﷺ نے نے (کمال اطمینان سے) فرمایا: اللہ'، تو اس اعرابی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔(مسند احمد ٣٩٠/٣ح ١٥١٩٠وھوحدیث صحیح ،صحیح ابن حبان، الاحسان :٢٨٧٢،٢٨٨٣)
[ تنبیہ : اس روایت کے راوی ابو بشر جعفر بن ابی و حشیہ نے سلیمان بن قیس الیشکری سے کچھ نہیں سنا لیکن وہ ان کی کتاب/ صحیفے سے روایت کرتے تھے اور کتاب سے روایت کرنا چاہے بطورِ وجادہ ہی ہو، صحیح ہے بشرطیکہ کتاب کے درمیان واسطے پر جرح یا محدثین کا انکار ثابت نہ ہو۔ واللہ اعلم، غورث بن الحارث الأعرا بی کا قصہ اختصار کے ساتھ صحیح بخاری(٢٩١٠) وصحیح مسلم(٨٤٣) میں بھی موجود ہے۔ غورث نے واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تھا کہ " میں اس کے پاس آیا ہوں جو سب سے بہتر ہے" یہ اس کی دلیل ہے کہ غورث مسلمان ہوگئے تھے۔
اللہ کے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ اپنے رب سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے کہ وفات کے وقت بھی فرما رہے تھے:
اللھم الر فیق الأعلیٰ
اے میرے اللہ! اپنی بارگاہ میں اعلیٰ رفاقت عطا فرما۔ ( صحیح بخاری:۴۴۶۳ و صحیح مسلم: ۲۴۴۴)

اللہ سے محبت کی چند نشانیاں درج ذیل ہیں:
(۱) توحید وسنت سے محبت اور شرک و بدعت سے نفرت
(۲) نبی کریمﷺسے والہانہ محبت اور آپ کا دفاع
(۳) صحابہ کرام، تابعین عظام، علمائے حق اور اہل حق سے محبت
(۴) کتاب و سنت سے محبت اور تقوی کا راستہ
(۵) گناہوں اور نافرمانی سے اجتناب
(۶) ریا کے بغیر، خلوصِ نیت کے ساتھ عبادات میں سنت کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہماک
(۷) معروف (نیکی) سے محبت اور منکرو مقروہ سےنفرت
(۸) کتاب وسنت کے علم کا حصول اور کتاب وسنت کے مقابلے میں ہر قول و فعل کو رد کر دینا
(۹) انفاق فی سبیل اللہ(اللہ کے راستے میں اس کی رضامندی کے لیے مال خرچ کرنا)
(۱۰) خوف و امید کی حالت میں میں کثرتِ اذکار اور دعواتِ ثابتہ پر عمل

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ کہ وہ ہمارے دل اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی محبت سے بھر دے اور ہمیں ہمیشہ کتاب وسنت پر گامزن رکھے۔ آمین۔
(٨ شوال ۱۴۲۷ھ)
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ "تقویٰ"


اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ
تم میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔
(الحجرٰات:۱۳)
تقویٰ وقایۃ سے ماخوذ ہے وقایۃ ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جس سے سر کو ڈھانپا جاتا ہے۔ اس لیے ہر وہ احتیاط اور رویہ وقایۃ ہے جس کے ذریعے سے نقصان دہ چیزوں سے بچا جا سکتا ہے۔ تقاۃ بھی اسی کے ہم معنی ہے۔ اس اعتبار سے تقویٰ کا مطلب اور مفہوم یہ ہوا کہ انسان اللہ کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرے، اللہ کے تمام حکموں کو بجا لائے اور
اس کی منع کر چیزوں سے باز رہے۔ یعنی انسان ہر وقت اللہ کا خوف اور ڈر اپنے دل میں رکھے اور ہر کام سے پہلے قرآن و حدیث کو مدِنظر رکھے۔ تقویٰ سے انسان کے دل اور دماغ میں ایسی نورانیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ حق اور باطل کو پہچان سکتا ہے۔ ظلمت اور تاریکی کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور انسان اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ محبوب اور مقرب بندہ بن جاتا ہے۔
قرآن مجید میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی رغبت دلائی ہے۔ سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
اے ایمان والو! اللہ سے (ایسے) ڈرو (جیسا) اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم کو موت اس حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو۔
( آل عمران: ۱۰۲)
حَقَّ تُقَاتِهٖ کی تفسیر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ فرمائی ہے:
"أن یطاع فلا یعصیٰ وأن یذکر فلا ینسیٰ وأن یشکر فلا یکفر "
“ تقویٰ کا حق یہ کہ اللہ کی اطاعت ہر کام میں کی جائے، اس کی نافرمانی نہ کی جائے انسان ہمیشہ اس کو یاد رکھے اور کبھی نہ بھولے اور ہمیشہ اس کا شکر ادا کرتا رہے ناشکری نہ کرے۔”
(تفسیر ابن ابی حاتم ۷۲۲/۳ ح ۳۹۰۸ وسند صحیح، مستدرک الحاکم ۲۹۴/۲ ح ۱۳۵۹صححہ علیٰ شرط الشیخین ووافقہ الذہبی، الطبرانی فی الکبیر ۸۵۰۱، الطبری فی تفسیرہ۹/۴| ح ۷۵۳۴ وقال ابن کثیر فی تفسیرہ ۷۷/۱: ” وھٰذا إسناد صحیح موقوف”)
دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
پس جتنی تم میں طاقت ہے اتنا اللہ سے ڈرو۔
(التغابن: ۱۶)
یہ درحقیقت حَقَّ تُقَاتِهٖ ہی کی تفسیر و تشریح ہے۔ انسان کی نجات کا دارومدار تقویٰ پر ہے۔
اور اس سے انسان کا رزق بھی بڑھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالٰیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے آسانیاں پیدا کردیتا ہے اور ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ (طلاق:۲۔۳)
تقویٰ اختیار کرنے سے انسان کے اندر بصیرت اور حق و باطل (کے درمیان فرق) کی پہچان پیدا ہوتی ہے اور انسان کے سارے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں ارشاد باری تعالٰی ہے :
إِن تَتَّقُوا اللَّـهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں ( حق اور باطل کے درمیان) فرق کرنے والی بصیرت عطا فرمائے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور فرما دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالٰی بڑے فضل والا ہے (الانفال:۲۹)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا من اکرم الناس؟ لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے آپ ﷺ نے فرمایا (اتقاھم) جو ان میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے
(صحیح بخاری:۳۳۵۳،صحیح مسلم:۲۳۷۸)
تقویٰ اختیار کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان دنیا کی رنگینیوں سے (دور رہنے کی کوشش کرے) اور خوش رنگ اور دل کو لبھانے والی چیزوں سے بچے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
"إن الدنیا حلوۃ خضرۃ وأن اللہ مستخلفکم فیھا فینظر کیف تعملون، فاتقوا الدنیا واتقوا النساء فإن أول فتنۃ بنی إسرائیل کانت"
بےشک دنیا شریں اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ اس میں تمھیں جانشین بنانے والا ہے پس وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ ( اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو) دنیا (کے دھوکے) سے بچو اور عورتوں (کے فتنے میں مبتلا ہونے) سے بچو، کیوں کہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں کے بارے میں تھا۔
(مسلم:۲۷۲۲)
تقویٰ اختیار کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان ہمیشہ ہدایت کے راستے پر چلتا رہے اپنے آپ کو حرام چیزوں سے بچا کر رکھے۔ تقویٰ کا اصل معیار یہ ہے کہ انسان شک والی چیزوں کو بھی چھوڑ دے اور ایسی چیزوں کو اختیار کرے جن میں ذرہ برابر بھی شک نہ ہو۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دع ما یریبک إلٰی مالا یربیک
ایسی چیز چھوڑ دو جو تم کو شک میں ڈال دے اور اسے اختیار کرو جو تمھیں شک میں نہ ڈالے۔
(سنن ترمذی:۲۵۱۸ وإسنادہ صحیح وصححہ ابن خزیمہ:۲۳۴۸ وابن حبان، الموارد:۵۱۲ والحاکم ۱۳/۲، والذہنی وقال الترمذی:” وھٰذا حدیث صحیح)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فمن اتقی الشبھات استبر الدینہ وعرضہ
جو شخص شبہے والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور عزت (دونوں ) کو بچا لیا۔
( صحیح بخاری:۵۲، صحیح مسلم:۵۹۹)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو تقویٰ کے نور سے روشن کر دے۔ آمین
[الحدیث:۹ ماخوذ]
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
رسول اللہ ﷺ سے محبت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا :
فوالذي نفسي بیدہ لا یؤمن أحدکم حتّی أکون أحب إلیہ من والدہ و ولدہ
پس اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی (شخص) اس وقت تک (پورا) مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے والد( و والدہ) اور اپنی اولاد سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرے۔ ( صحیح البخاری:۱۴)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
لا یؤمن أحدکم حتّی أکون أحب إلیہ من والدہ و ولدہ والناس أجمعین
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (پورا) مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے والد
(و والدہ)، اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرے۔
(البخاری :١٥، و مسلم:۴۴، و ترقیم دار السلام:١۶۹)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:
إن رجلاً سأل النبي ﷺ عن الساعة، فقال: متى الساعة؟، قال:
((وماذا اعددت لها؟)) قال: لا شيء إلا اني احب الله ورسولهﷺ، فقال: ((انت مع من احببت))
قال انس: فما فرحنا بشيء فرحنا بقول النبي ﷺ:
((انت مع من احببت،)) قال انس: فانا احب النبيﷺ وابا بكر , وعمر وارجو ان اكون معهم بحبي إياهم وإن لم اعمل بمثل اعمالهم

ایک آدمی نے نبی ﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟
آپﷺ فرمایا: تو نے اس (قیامت) کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس (صحابی) نے کہا: کوئی (خاص) چیز نہیں نہیں إلا یہ کہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہوں۔
تو آپ ﷺنے فرمایا: تو جس سے محبت کرتا ہےاس کے ساتھ ہی ہوگا۔
انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہمیں نبی ﷺ کے اس قول: توجس کے ساتھ محبت کرتا ہے ( قیامت کے دن) اس کے ساتھ ہی ہوگا، سے زیادہ اور کسی بات کی خوشی نہیں ہوئی- انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میں نبی ﷺ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہم سے محبت کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس محبت کی وجہ سے میں ان کے ساتھ ہی ہوگا اگرچہ میں نے ان جیسے اعمال نہیں کئے۔ (صحیح البخاری:٣٦٨٨،مسلم:٢٦٣٩/١٦٣،وترقیم دار السلام:٦٧١٣)

خلاصہ: رسولﷲ ﷺ سے محبت کرنا جزو ایمان ہے۔ اے اللہ قرآنِ مجید حدیث، رسول اللہﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی رضی اللہ عنھم اجمعین، تابعین،تبع تابعین، محدثین، آئمہ مسلمین، سلف صالحین رحمھم اللہ اور تمام اہلِ ایمان کی محبت سے ہمارے دلوں کو بھردے۔
( آمین ثم آمین)
[الحدیث :١]
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
قرآن مجید سے محبت

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے اپنے آخری رسول محمد ﷺ پر نازل فرمایا۔
ارشادِ باری تعا لیٰ ہے:
وَهَـٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
اور یہ مبارک کتاب ہم نے اتاری ہے_پس اس کی اتباع کرو اور تقوی اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الانعام :١٥٥)
نبیﷺ نے فرمایا:
والقرآن حجۃ لک أو علیک
اور قرآن (اگر تو اس پر عمل کرے تو) تیری دلیل ہے، ہے یا (اگر تو اس کے مخالف چلے تو) تیرے خلاف دلیل ہے- (صحیح مسلم :٢٢٣، دارالسلام:٥٣٤)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
بے شک جو کتاب اللہ پڑھتے، نماز قائم کرتے اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے، خفیہ وعلانیہ (اللہ کی راہ میں)خرچ کرتے ہیں، اور ایسی تجارت کی امید رکھتے ہیں جس میں کوئی خسارہ نہیں - تاکہ اللہ انہیں پورا بدلہ اور (بلکہ) اپنے فضل سے انہیں (بہت) زیادہ دے دے، بے شک وہ معاف کرنے والا اور قدردان ہے-
(فاطر :۲۹، ۳۰)
نبی ﷺ نے فرمایا:
من قرا حرفا من كتاب الله فله به حسنة، والحسنة بعشر امثالها، لا اقول الم حرف، ولكن الف حرف ولام حرف وميم حرف
جو (مسلمان) کتاب اللہ سے ایک حرف پڑے تو اسے اس کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے، (اللہ کے ہاں) ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے- میں یہ نہیں کہتا ہے کہ (الم) ایک حرف ہے- بلکہ الف (ایک) حرف ہے، لام (دوسرا) حرف ہے، م( تیسرا) حرف ہے- ( سنن الترمذی:٢٩١٠،و قال : حسن صحیح غریب)
ایک روایت میں آیا ہے : قرآن پڑھنے والے سے( قیامت کے دن) کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا جس طرح دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل سے پڑھتا تھا، اسی طرح ترتیل سے پڑ ھ، تیرا ٹھکانہ (جنت میں) وہ بلند مقام ہے جہاں تو آخری آیت پڑھے گا۔(سنن الترمذی؛ ٢٩١٤و قال :حسن صحيح)

میرے بھائیوں قرآن سے محبت کرو، قرآن مجید پر عمل کرو، قرآن کی خوب تلاوت کرو۔ قرآن مجید کی تعظیم کرو،
ایک روایت میں آیا ہے کہ نبیﷺ ایک تکئے (سرھانے) پر بیٹھے ہوئے تھے (یہودیوں کی محرف) تورات لائی گئی تو آپ تکئے سے اتر آئے اور اس تکئے پر تورات رکھوائی۔ ( سنن ابی داؤد:۴۴۴۹ و سندہ حسن)
قرآن مجید تو ہمارے پیارے رب کا پیارا کلام ہے۔ اس کی ہر لحاظ سے عزت و تکریم کرنا ہم پر فرض ہے۔
[الحدیث :٢]
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
حدیث سے محبت

رسول اللہﷺکے قول، فعل، تقریر اور سنت کو محدثین کی اصطلاح میں حدیث کہتے ہیں۔ یعنی حدیث ہمارے پیارے نبیﷺ کا کلام اور سنت ہے، اصولِ فقہ اور اصولِ حدیث میں سنت اور حدیث کو مترادف سمجھا جاتا ہے۔
(دیکھئے التقریر التحبیر ٢٩٧/٢ وتعر یفات الجرجانی ص ۵۴ و علوم الحدیث /ڈاکٹر صحی صالح ص١٧، ۲۴ ومعجم مصطلحات الحدیث و لطائف الاسانید ص١٨٣ )
سنت کے معلوم کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ یعنی حدیث ہے۔ ہر مسلمان جو رسول اللہﷺ سے محبت کرتا ہے۔ وہ آپ کی صحیح و ثابت ہر حدیث سے بھی محبت کرتا ہے، یہ ہمارے ایمان کا لازمی تقاضا ہے- اللہ فرماتا ہے:
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت كی۔ (النساء:٨٠)

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ
"پس جس نے محمدﷺکی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔"(البخاری: ۷۲۸۱)

آپ ﷺ کی وفات کے بعد اب قیامت تک آپ ﷺ کی اطاعت آپ کی احادیث پر عمل کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يُوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلَالٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ
قریب ہے کہ کوئی آدمی تکیہ پر ٹیک لگا ہو، اسے میری حدیثوں میں سے کوئی حدیث سنائی جائے تو وہ کہنے لگے: ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ ہے۔ ہم اُس میں جو حلال پائیں گے اُسے حلال سمجھیں گے اور اُس میں جو حرام پائیں گے اُسے حرام سمجھیں گے، خبردار( ُسن لو) بیشک رسول اللہﷺ نے جیسے حرام قرار دیا وہ اسی طرح حرام ہے جیسے اللہ نے کیاہے۔
(ابن ماجہ:١٢واسنادہ حسن، الترمذی:۲۶۶۴ وقال:"حسن غریب" وصححہ حاکم ١۔١٠٩)

(مروی ہے کہ) امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا:
اللہ کی طرف سے پیغام بھیجنا اور اس کے رسول پراللہ کا پیغام پہنچانا اور ہمارے اوپر اس کا تسلیم کرنا ہے۔
(صحیح البخاری ج٨ص ٦٢۴ قبل ح ۷۵۳۰ طبع: مکتبہ قدسیہ لاہور)

صحیح العقیدہ مسلمان کا کیا عقیدہ و عمل ہوتا ہے کہ وہ پیارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی صحیح و ثابت شدہ احادیث کو سر آنکھوں پر رکھتا ہے۔
[الحدیث :۷]
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
سنت سے محبت

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ (آل عمران:٣١)
اس آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے نبی کریمﷺکی اتباع ضروری ہے۔ آپﷺکی اتباع کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ آپ کی احادیث پر عمل کیا جائے۔ صحیح احادیث پر عمل کرنے سے ہی آپﷺ کی اتباع اور اللہ کی اطاعت ہو سکتی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے :
مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ
جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء :٨٠)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من اطاعني دخل الجنة
جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (صحیح البخاری :۷۲۸۰)
ایک اور حدیث مین آیا ہے کہ
فمن اطاع محمدًا ﷺ فقد اطاع الله ومن عصٰى محمدًا ﷺ فقد عصى الله
پس جس نے محمد کی اطاعت کی تو یقینا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نےمحمد کی نافرمانی کی تو یقیناً اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ (البخاری :۷۲۸۱)
سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
ألا إني أوتیت الکتاب و مثلہ معہ
سن لو، بے شک مجھے کتاب دی گئی ہے اور (حجت ہونے میں ) میں اس کے ساتھ اس جیسی (چیز ) کی گئی ہے۔
(احمد فی مسندہ ١٣١/٤ح١٣٠٦و المسوعتہ الحدیثیتہ٤١٠/٢٨،ابوداؤد :٤٦٠٤واسنادہ صحیح )
صحیح ابن حبان (الاحسان:١٢) میں یہ روایت دوسری سند کے ساتھ (إني أوتیت الکتاب وما بعدله) کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ (نسختہ مؤسستہ الرسالتہ١٨٩/١ح١٢)
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی طرح نبی ﷺ کی حدیث بھی شرعی حجت ہے۔
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ہونے کے بعد، خطبہ دیتے ہوئے علانیہ فرمایا کہ
اطیعوني ما أطعت اللہ ورسولہ فإذا عصیت اللہ ورسولہ فلا طاعۃ لئ علیکم
جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو، اور جب میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت (لازم) نہیں ہے۔ (السیرۃ لمحمد بن اسحاق بن یسارص٧١٨ وسندہ حسن، السیرۃ لابن ہشام ٣١١/٤)
اس صحیح تاریخی خطبے سے کئی باتیں معلوم ہوئیں:
اول: اللہ کی اطاعت کی طرح رسول اللہﷺ کی (احادیث صحیحہ کی) اطاعت فرض ہے۔
دوم: قرآن و حدیث کے مقابلے میں میں ہر شخص کی بات مردود ہے۔
سوم: تقلید ناجائز ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺکی حدیث سننے کے فوراً بعد اس پر عمل کیا تھا۔
سالم بن عبداللہ بن عمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن عمر إنما انصرف من حديث عبدالرحمٰن
بے شک (سیدنا) عمر رضی اللہ عنہ( سیدنا) عبدالرحمٰن (بن عوف) رضی اللہ عنہ اللہ کی بیان کردہ حدیث ( عن النبی ﷺ) کی وجہ سے واپس آئے تھے۔ ( صحیح البخاری: ٦٩٧٣)
سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے بہت سی احادیث بیان کی ہیں۔
دیکھئے صحیح بخاری ۴۹۸۷، ۴۱۶۰۔۔۔)
وصحیح مسلم(۱۴۰۹، ۱۲۰۴۔۔۔)
وصحیح ابن خزیمہ(۱۵۱، ۱۵۲۔۔۔)
و صحیح ابن حبان(الاحسان: ۴۳، ۱۱۸) وغیرہ

سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
ما كنت لأدع سنة النبي صلى الله عليه وسلم لقول أحد
نبیﷺکی سنت (حدیث) کو میں کسی شخص کے قول کی بنیاد پر نہیں چھوڑ سکتا۔ ( صحیح البخاری:۵۶۳)

خلفائے راشدین کے اس متفقہ طرز عمل اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث حجت اور معیار حق ہے۔ لہٰذا ہر شخص پر یہ فرض ہے کہ وہ آپ ﷺ کی صحیح و ثابت سنت (احادیث) سے محبت کرے، اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی کا یقین ہے۔
امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے صاف صاف اعلان فرمایا ہے:
جس نے رسول اللہ ﷺ کی (صحیح) حدیث رد کر دی وہ ہلاکت کے کنارے پر ہے۔
(الحدیث حضرو: ۲ ص ۵ و مناقب الامام احمد لابن الجوزی ص ۱۷۲، وسند صحیح)
[الحدیث:۱۰]
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے محبت

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو صحابیوں کا خاص طور پر نام لیا ہے: سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ،
ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کو تعجب ہو کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کس طرح صحابی بن گئے ؟
عرض کیا ہے کہ صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے دنیاوی زندگی کے ساتھ حالتِ ایمانی میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ ملاقات کی ہو۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا۔ لوگوں کو آپ انجیل کی تعلیم اور آنے والے نبی ( احمد یعنی محمد ﷺ ) کی خوش خبری دیتے تھے۔ کافروں نے آپ کو شہید کرنے کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے نبی اور رسول عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو آسمان پر اپنے پاس اُٹھا لیا۔
کافروں نے ایک دوسرے آدمی کو صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا جس کی شکل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہو گئی تھی۔ یہود و نصاریٰ اپنی حماقت و جہالت کی وجہ سے یہ عقیدہ گھڑ بیٹھے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام سُولی پر چڑھا کر قتل کر دئیے گئے تھے۔
حالانکہ یہ عقیدہ سراسر باطل اور بہت بڑا جھوٹ ہے۔ حق صرف یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو سُولی ہرگز نہیں دی گئی بلکہ اللہ نے انھیں اپنے پاس اُٹھا لیا۔
مشہور جلیل القدر تابعی امام حسن بصری رحمہ اللہ (متوفی ۱۱۰ھ) فرماتے ہیں:
واللہ إنہ الآن لحيّ عنداللہ ولکن إذ انزل آمنوا بہ أجمعون
اللہ کی قسم ! وہ (عیسیٰ) اب اللہ کے پاس زندہ ہیں لیکن جب آپ نازل ہوں گے تو سب آپ پر ایمان لے آئیں گے۔
(تفسیر ابن جریر الطبری ۱۴/۶ وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ ۳۸۰/۹ ح ۱۰۷۹۸، وسندہ صحیح )
مشہور عالم اور متکلم ابوالحسن الاشعری (متوفی ۳۲۴ ھ) اپنی مشہور کتاب میں فرماتے ہیں:
واجمعت الأمۃ أن اللہ عزوجل رفع عیسی إلی السماء
اور اس پر اُمت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسی (علیہ السلام ) کو آسمان کی طرف اُٹھا لیا۔
(الابانہ عَن اصول الدیانہ ص ۳۴ دوسرا نسخہ ص ۱۲۴)

اس مناسب سے دس احادیث اور دس آثار پیشِ خدمت ہیں:
(۱): سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے ابوالقاسم الصادق المصدوق (رسول اللہ ﷺ ) کو فرماتے ہوئے سنا:
یخرج الأ عور الدجال مسیح الضلالۃ قبل المشرق فی زمن اختلاف من الناس وفرقۃ، فیبلغ ماشاءاللہ أن یبلغ من الأرض في أربعین یوماً، اللہ أعلم ما مقدارھا ؟ فیلقی المؤمنون شدۃ شدیلۃ ، ثم ینزل عیسی بن مریم علیہ السلام من السماء فقول الناس فإذا رفع رأسہ من رکعتہ قال: سمع اللہ لمن حمدہ ، قتل اللہ المسیح الدجال و ظھر المؤمنون ،إلخ
لوگوں کے اختلاف و تفرق کے دور میں مشرق کی طرف سے مسیح ضلالت: کانا دجال نکلے گا پھر چالیس دنوں میں جہاں اللہ چاہے وہ زمین پر پہنچے گا، اس کی مقدار اللہ ہی جانتا ہے۔ پس مومنوں کو بہت زیادہ تکلیفیں پہنچیں گی پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ پھر لوگ (نماز کے لئے) کھڑے ہوں گے، جب آپ رکوع سے سر اُٹھائیں گے تو فرمائیں گے: اللہ نے اس کی سن لی جس نے حمد بیان کی ، اللہ نے مسیح دجال کو قتل کر دیا اور مومنین فتحیاب ہو گئے۔
( کشف الاستار عن زوائدالبرّ ۱۴۲/۴ ح ۳۳۹۶ وسند صحیح)
سیدنا ابوہریرہؓ سے نزولِ مسیح کی روایات کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث:۳ ص ۴۰۔۴۶، ص ۳۵۔۴۴، ۶ ص ۲۳۔۲۵
معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہؓ سے نزولِ مسیح کی روایات متواتر ہیں۔
تنبیہ: درج بالا حدیث سے دیگر مسائل کے ساتھ دو اہم باتیں واضح طور پر ثابت ہوتی ہیں:
(۱) عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔
(۲) نبی اور رسول کے ساتھ ﷺ لکھنا اور کہنا دونوں طرح صحیح اور مسنون ہے۔

(۲): سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاریؓ سے روایت ہے کہ پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہو جائیں گے تو مسلمانوں کا امیر (امام مہدی ) ان سے کہے گا: آئیں ہمیں نماز پڑھائیں۔
وہ کہیں گے: نہیں ، تم ایک دوسرے کے امیر ہو اللہ نے اس اُمت کو یہ بزرگی بخشی ہے۔ (صحیح مسلم:۱۵۶/۲۵۷، الحدیث:۶ ص ۲۴)
یاد رہے کہ پہلی نماز تو امام مہدی پڑھائیں گے اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے لیکن دوسری نمازیں خود عیسیٰ علیہ السلام پڑھائیں گے جیسا کہ دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے لہٰذا احادیثِ صحیحہ میں کوئی تعارض نہیں ہے۔

(۳): سیدنا نواس بن سمعانؓ کی بیان کردہ طویل حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اچانک عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا۔ وہ زرد رنگ کی دو چادریں لپیٹے ہوئے، اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے پَروں پر رکھے ہوئے، شہر دمشق کے سفید منارہ کے پاس اُتریں گے۔ الخ (صحیح مسلم:۲۹۳۷، نیز دیکھئے الحدیث: ۶ص ۲۶)
اس حدیث سے بھی کئی مسئلے ثابت ہوتے ہیں جن میں سے دو درج ذیل ہیں:
(۱): مسجدوں میں منارے بنانا جائز ہے۔
(۲): زرد کپڑے پہنا جائز ہے۔

(۴): سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس نازل ہوں گے۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی ۲۱۷/۱ ح ۵۹۰ وسندہ صحیح، نیز دیکھئے الحدیث: ۶ ص ۲۶)

(۵): سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
دجال میری اُمت میں نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ (راوی کہتے ہیں:) میں نہیں جانتا کہ چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے یا چالیس سال پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا گویا وہ عروہ بن مسعود ہیں۔
وہ دجال کو تلاش کر کے اسے ہلاک کر دیں گے پھر سات سال تک لوگ اس طرح رہیں گے کہ دو شخصوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہوگی۔ (صحیح مسلم: ۲۹۴۰، الحدیث:۶ ص ۲۷)

(۶): سیدنا ابوسریحہ حذیفہ بن اسید الغفاریؓ سے روایت ہے کہ نبﷺ نے فرمایا:
جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہو جائیں قیامت نہ ہوگی۔ پھر آپ نے ان کا ذکر فرمایا: دھواں، دجال، دابہ، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا، یاجوج و ماجوج کا نکلنا، تین جگہ سے زمین کا دھنس جانا ایک مشرق میں، ایک مغرب میں، اور ایک جزیرۃ العرب میں اور سب سے آخر میں آپ نے اس آگ کا ذکر کیا جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر ان کے محشر کی طرف لے جائے گی۔ ( صحیح مسلم:۲۹۰۱، الحدیث:۶ ص ۲۸)

(۷): اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
پھر عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور وہ اسے (دجال کو) قتل کر دیں گے۔ اس کے بعد وہ زمین میں چالیس سال تک امام عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے۔ ( مسند احمد ۷۵/۶ ح۲۴۹۷۱ وسندہ حسن، الحدیث:۲ ص۲۸)

(۸): سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کو جب معراج ہوئی تو آپ نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلامھم) سے ملاقات کی اور باہم قیامت کا تذکرہ ہوا۔ سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) سے قیامت کے بارے میں سوال کیا لیکن انھیں کچھ معلوم نہ تھا پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیا تو انھیں بھی کوئی علم نہ تھا پھر عیسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:
میرے ساتھ قیامت سے قبل (نزول کا؛ وعدہ کیا گیا ہے لیکن اُس کا وقت اللہ کو ہی معلوم ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام نے دجال کے خروج کا ذکر کیا اور فرمایا: میں نازل ہو کر اسے قتل کروں گا۔"
( سنن ابن ماجہ: ۴۰۸۱ وسندہ حسن صححہ الحاکم ۳۸۴/۲ ووافقہ الذہبی)
اس حدیث کے راوی مؤثر بن عفازہ ثقہ و صدوق ہیں لہٰذا بعض الناس کا انھیں مجہول قرار دینا غلط ہے۔ اس حدیث سے دو بڑے مسئلے ثابت ہوتے ہیں:
(۱): بنی اسرائیل والے عیسیٰ بن مریم الناصری علیہ السلام ہی نازل ہوکر دجال کا قتل کریں گے۔
(۲): سوائے اللہ کے قیامت کا علم کسی کو بھی نہیں ہے۔

(۹): سیدنا جمع بن جاریہؓ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ابن مریم (علیہ السلام) دجال کو لَدّ کے دروازے کے پاس قتل کریں گے۔ (سنن الترمذی:۲۲۴۴ وسندہ حسن، الحدیث:۶ ص ۲۹، ۳۰)

(١٠): سید نا ثوبانؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
عصابتان من اُمتي أحرز ھما اللہ من النار: عصابۃ تغزو الھند و عصابۃ مع عیسیٰ بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام
میری اُمت کے دو گروہوں کو اللہ نے آگ ( کے عذاب) سے بچا لیا ہے: ایک گروہ جو ہند کے خلاف جہاد کرے گا اور دوسرا گروہ عیسیٰ بن مریم علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہوگا۔( التاریخ الکبیر البخاری:٧٢/٦،٧٣ وسندہ حسن لذاتہ، النسائی:٤٢/٦،-٤٣ح٣١٧٧ بسند آخر)

ان دس روایات اور دیگر احادیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول والی احادیث متواتر ہیں۔ متعدد علماء مثلاً امام ابو جعفر محمدبن جریر بن یزید الطبری السنی، حافظ ابن کثیراور ابو الفیض الادریسی الکتانی وغیرہ ہم نے نزولِ مسیح کی احادیث کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے۔
دیکھیے تفسیر طبری(٢٠٤/٣) و تفسیر ابن کثیر ( ۵۷۷/۱، ۵۸۲) نظم المتناثر من الحدیث المتواتر (ص٢٤١) اور الحدیث:٣ ص ۴۰

نزولِ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا عقیدہ آثارِ سلف صالحین سے بھی ثابت ہے -مثلاً :
۱۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ فرماتے تھے کہ عیسیٰ بن مریم جوان ہیں، تم میں سے جو اُن سے ملاقات کرے تو انہیں میری طرف سے سلام کہہ دے۔ (دیکھیے مصنف ابن ابی شیبہ ۱۵۶/۱۵، ۱۵۷ح ۳۷۵۱۱ وسندہ صحیح)

٢۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول شروع میں گزر چکا ہے کہ جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو سب ان پر ایمان لے آئیں گے۔
نیز دیکھئے تفسیر ابن جریر(٥٤/٢٥و سندہ صحیح )

٣۔ مفسرِ قرآن امام قتادہ بن وعامہ رحمہ اللہ( متوفی ١١٧ھ) نے (قبل موته) کی تفسیر میں فرمایا: "قبل موت عیسیٰ" عیسیٰ کی موت سے پہلے۔ ( تفسیر ابن جریر ١٤/٦،وسندہ صحیح)
یعنی امام قتادہ کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام پر ابھی تک موت نہیں آئی۔ نیز قتادہ رحمہ اللہ نزولِ مسیح کے قائل تھے۔
دیکھیے تفسیر ابن جریر(٥٤/٢٥وسندہ صحیح)

۴۔ ثقہ تابعی ابو مالک غزوان الغفاری رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ اس وقت ہے جب عیسی بن مریم نازل ہوں گے تو اہلِ کتاب میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا مگر آپ پر ایمان لے آئے گا۔ ( تفسیر ابن جریر١٤/٦، وسندہ صحیح)

۵۔ ابراہیم (بن یزید الحعی، متوفی ٩٥ھ) رحم اللہ نے فرمایا: مسیح آ ئیں گے تو صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ١٤٥/١٥ح،٣٧٤٨٧و سندہ حسن)

۶۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے خروج کا ذکر فرمایا۔ (دیکھئے کتاب الفتن للامام نعیم بن حماد الصدوق:۱۶۴۵، وسندہ حسن، دوسرا نسخہ ص ۴۰۲، ۴۰ ح ۱۳۴۲)

۷۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے (قبل موته) کی تفسیر میں "موت عیسٰی" فرما کر یہ ثابت کردیا کہ ابھی تک عیسیٰ علیہ السلام پر موت نہیں آئی۔
دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر(٣٥٩/٥٠وسندہ حسن)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ قیامت سے پہلے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کے قائل تھے۔ دیکھئے تفسیرابن جریر(٥٤/٢٥وسندہ حسن )

۸۔ اسماعیل بن عبد الرحمٰن السدی (تابعی) رحمہ اللہ نے قیامت سے پہلے عیسیٰ بن مریم کے خروج کو قیامت کی نشانی قرار دیا۔ ( تفسیرطبری٥٤/٢٥ و سندہ حسن)

۹۔ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ عیسیٰ بن مریم نبیﷺ کےساتھ(حجرۂ نبویہ) میں دفن ہوں گے۔ ( سنن الترمذی: ٣٦١٧،وقال “حسن غریب” و سندہ حسن)

یاد رہے کہ حجرۂ نبویہ میں صرف چار قبروں کی جگہ ہے۔ اس وقت وہاں تین قبریں موجود ہیں:
نبی کریمﷺ کی قبر، سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہٗ کی قبر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قبر۔
چوتھی قبر کی جگہ خالی ہے جہاں سیدنا عیسی ٰعلیہ السلام آسمان سے نزول کے بعد دنیا میں طبعی عمر گزار کر، وفات کے بعد دفن کیے جائیں گے۔

١٠۔ امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نزولِ عیسیٰ بن مریم کے قائل تھے۔
دیکھئے کتاب الام( ج٥ص٢٧٠، التوقف فی الإ یلاء)
سلف صالحین سے کوئی بھی اس عقیدے کا مخالف نہیں لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ عقیدہ سلف صالحین کے اجماع سے ثابت ہے۔

اللہ کے رسول اور نبی سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہونا وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر تمام اہل ایمان متفق ہیں۔
ابو جعفر احمد بن سلامہ الاطحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و نؤمن بأشراط الساعۃ: من خروج الدجال و نزول عیسی علیہ السلام من السماء
اور ہم قیامت کی نشانیوں میں سے خروجِ دجال اور عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ (العقیدہ اللطحاویہ مع شرح ابن ابی العز الحنفی ص۴۹۹)

بعض تقلیدیوں نے یہ جھوٹا دعویٰ کر رکھا ہے کہ
"جب عیسی علیہ السلام( آسمان سے) نازل ہوں گے تو فقہ حنفی کے مطابق عمل کریں گے۔۔۔"
حالانکہ نزولِ مسیح کی حدیث کے راوی امام محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی دئب المدنی رحمہ اللہ (متوفی ۱۵۸ھ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی کتاب اور نبیﷺ کی سنت کے مطابق امامت فرمائیں گے۔ دیکھئے صحیح مسلم (١٥٥/٢٤٦،دارلسلام:٣٩٤)

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے فضائل بے شمار ہیں، آپ اللہ تعالیٰ کے رسول، نبی اور روح اللہ ہیں۔
آپ سے محبت اور قیامت سے پہلے آسمان سے آپ کے نزول کا عقیدہ رکنِ ایمان ہے۔
وما علینا إلا البلاغ
[ الحدیث/۴۲، ۴۳]
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
صحابۂ کرام سے محبت

(رضی اللہ عنہم اجمعین)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت جزو ایمان ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
"محمدﷺاللہ کے رسول ہیں اور آپ کے جو ساتھی ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں، آپ دیکھتے ہیں کہ وہ رکوع اور سجدے میں پڑے اپنے رب کا فضل اور رضامندی تلاش کر رہے ہیں، ان کا نشان یہ ہے کہ ان کے چہروں پر سجدے کااثر ہے-(قیامت کے دن ان کے چہرے چمک رہے ہوں گے۔" (الفتح:٢٩)

اور فرمایا:
لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
"اللہ (تعالیٰ) مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ (بعیت رضوان والے) درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ (تعالیٰ) جانتا ہے، پس اللہ نے ان پر سکون نازل فرمایا، اور قریب والی فتح (مبین) عطاء فرمائی"(الفتح:١٨)

تیسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
"مہاجرین و انصار میں سے سابقین، اولین اور احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے اللہ راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، اللہ تعالی نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں، جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ سب اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ عظیم الشان کامیابی ہے" (التوبہ:١٠٠)

رسول اللہﷺفرماتے ہیں:
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ.
"میرے صحابہ کو برا نہ کہو، ہو اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو بھی ان (صحابہ) کے کے خرچ کردہ ایک مد(مٹھی بھر) یا آدھے (جو، غلہ) کے برابر نہیں ہوسکتے" (صحیح بخاری :٣٦٧٣،صحیح مسلم :٢٥٤١/٢٢٢،دارالسلام:٦٤٨٨)

آپﷺ نے فرمایا:
((أکرموا أصحابي)) میرے صحابہ کی عزت کرو۔ (النسائ فی الکبریٰ :٣٨٧/٥ح،٩٢٢٢،سندہ حسن)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کے بیٹے محمد بن الحفیہ نے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کے بعد لوگوں میں کون سب سے بہتر ہے؟
انھوں نے فرمایا: ابوبکر ، پھر پوچھا: ان کے بعد کون ہے؟ انھوں نے فرمایا عمر ، (صحیح بخاری :٣٢٧١)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کو خیر ھٰذہ الأمتہ بعد نبیھا ﷺ قرار دیا ہے فرمانِ علی رضی اللہ عنہ میں عبرت ہے ایسے لوگوں کے لئے جو صرف علی رضی اللہ عنہ کی محبت کا دم بھرتے ہیں لہٰذا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں پر لازم ہیں کہ وہ ابوبکر اور عمر اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کریں۔

مشہور اور تابعی میمون بن مہران فرماتے ہیں:
"ثلاث ارفضوھن: سب أصحاب محمد ﷺ والنظر فی النجوم والنظر فی القدر "
تین چیزوں کو (ہمیشہ کے لئے) چھوڑ دو۔
محمدﷺ کے صحابہ کو برا کہنا، نجومیوں کی تصدیق کرنا اور تقدیر کا انکار کرنا۔
(فضائل الصحابۃ للامام احمد بن حنبل ۶۰/۱ ح ۱۹، و إسناد صحیح، قالہ الشیخ الصالح وصی اللہ عباس المدنی المکی حفظہ اللہ)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا:
"اہلسنت والجماعت کے نزدیک تمام صحابہ عدول (ثقہ و قابل اعتماد) ہیں، اللہ نے اپنی کتابِ عزیز میں ان کی ثنا بیان فرمائی، سنت نبویہ میں ان کے تمام اخلاق اور افعال کی مداح موجود ہے۔ انھوں نے اللہ سے اجر و ثواب لینے کے لئے اپنی جانیں اور مال و دولت، رسول اللہﷺ پر قربان کردئے۔" (اختصار علوم الحدیث ص١٧٦، ١٧٧نوع:٣٩)

اے اللہ، ہمارے دلوں میں صحابۂ اکرام کی محبت اور زیادہ کر دے۔
رضی اللہ عنھم اجمعین (آمین)
[الحدیث:۲]
 
Top