• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فطرانہ

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
فطرانہ
تحریر : شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری
فطرانے کی فرضیت پر اجماع ہے۔(الاجماع لابن المنذر : ٤٩)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں پر فطرانہ فرض قرار دیا ہے، وہ غلام ہو ، آزاد ہو، مرد ہو ،عورت ہو،چھوٹا ہو یا بڑا ہو، فطرانے کی مقدار ایک صاع ''کھجور ''یا ''جو''ہے۔''(صحیح البخاری : ١٥٠٣، صحیح مسلم : ٩٨٤)
تنبیہ :
فطرانہ مسلمان غلام پر فرض ہے ، کافر پر نہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لیس فی العبد صدقۃ الّا صدقۃ الفطر ۔
''غلام پر سوائے صدقہ فطر کے زکوۃ واجب نہیں۔''(صحیح مسلم : ٩٨٢)
یہ حدیث عام ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث نے تخصیص کر دی ہے کہ عبد سے مراد مسلمان غلام ہے۔
فائدہ :
سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أمرنا رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم بصدقۃ الفطر قبل أن تنزل الزّکاۃ ، فلمّا نزلت الزّکاۃ لم یأمرنا ولم ینھنا ، ونحن نفعلہ ۔
''زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہئ فطر ادا کرنے کا حکم دیا ، زکوٰۃ کا حکم نازل ہو اتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ہمیں حکم دیا اور نہ منع فرمایا ، البتہ ہم اسے ادا کرتے رہے۔''
(مسند الامام احمد : ٦/٦، سنن النسائی : ٢٥٠٩، سنن ابن ماجہ : ١٨٢٨، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/١٥٩٩، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٢٣٩٤) اور امام حاکم رحمہ اللہ (١/٤١٠٠) نے ''صحیح'' کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
حافظ خطابی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وھذا لا یدلّ علی زوال وجوبھا ، وذلک أنّ الزّیادۃ فی جنس العبادۃ لا یوجب نسخ الأصل المزید علیہ، غیر أنّ محلّ الزّکوات الأموال ومحلّ زکاۃ الفطر الرّقاب ۔
''اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدقہ فطر واجب نہیں رہا، کیونکہ عبادت میں کسی اضافے سے اصل منسوخ نہیں ہوتی۔یہ فرق بھی ملحوظ رہے کہ زکوۃ مال پر اور صدقہ فطر جان پر فرض ہے۔'' (معالم السنن : ٢/٢١٤)
صدقہ فطر کے مسائل :
1 حجازی صاع دو سیر چار چھٹانک کا ہوتا ہے ، اس کا اعشاری وزن 2.099 بنتا ہے ۔
2 خوراک ،مثلاً گندم ، جو ، کھجور ، پنیر ، کشمش وغیرہ ، بہتر ہے کہ اس میں فی کس ایک صاع فطرانہ ادا کیا جائے ،روپے،پیسے یا چاندی وغیرہ بھی فطرانے میں ادا کی جاسکتی ہے۔
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ:٣/١٧٣، وسندہ صحیح)
یہی مذہب امام بخاری رحمہ اللہ کابھی ہے۔(صحیح البخاری :باب العرض فی الزکوۃ)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس بہ بأس أن یعطی زکاۃ رمضان فضۃ ۔
''صدقہ فطر میں چاندی بھی ادا کی جاسکتی ہے، اس میں حرج نہیں۔''
(تاریخ ابن معین : ٢٣٢٦، ٢٧٦٥)
3 صدقہ فطر نماز ِ عید سے پہلے اد اکیا جائے ۔(صحیح البخاری : ١٥٠٣،صحیح مسلم :٩٨٤)
سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیںکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ لغویات اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے کے لیے اورمساکین کو کھانا کھلا نے کے لیے فرض کیا گیاہے ۔نما ز عید سے پہلے ادا کریں گے تو قبول ہوگا، بعد میں ادا کریں گے تو عام صدقہ قرار پائے گا۔''
(سنن ابی داود : ١٦٠٩، سنن ابن ماجہ : ١٨٢٨، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (١/٤٠٩) نے ''صحیح'' کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے۔
4 صدقہ فطر عید سے ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جا سکتاہے ، نافع رحمہ اللہ سے پوچھا گیاکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطرکب ادا کرتے تھے، فرمایا : جب صدقہ وصول کرنے والا بیٹھ جاتا، عرض کیا، وہ کب بیٹھتا تھا ؟فرمایا ، عید الفطر سے ایک دو دن پہلے ۔''(صحیح ابن خزیمۃ : ٢٣٩٧، وسندہ صحیح)
5 فطرانہ صرف مساکین کا حق ہے ۔
(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : س٢٥/٧١۔٧٨، زاد المعاد لابن القیم : ٢/٤٤)
فطرانہ متشرع اور نمازی مسلمانوں کا حق ہے ، اہل حق کے دینی مدارس پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔
6 فطرانہ چوں کہ ہر مسلمان پر فرض ہے، اس لئے صاحب نصاب کی شرط لگانا درست نہیں۔
7 فطرانہ کا مقصد روزہ میں ہونے والی کمی کوتاہی کی معافی، بے فائدہ اور فحش کلامی کی تطہیر اور مساکین سے تعاون ہے ۔
فطرانہ شکرکی بہترین اور بے مثال صورت ہے ، اللہ کی رضا و خوشنودی کا باعث ہے ، گھرمیں خیر و برکت اور امن وسکون کا ذریعہ ہے ، ہر قسم کی برائی اور شر سے بچنے کا محفوظ راستہ ہے ، محبت ومودّت اس سے جنم لیتی ہے ، نفرتوں ، کدورتوں کا قلع قمع ہوتاہے ، انسانی ہمدردی کا شاندار مظاہرہ ہوتا ہے اورباوقار معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف کر کے ہمیں صالحین میں شامل فرمالے ۔ آمین!
 
Top