• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سلف وخلف میں اکثر مجتہدین ایسے ہوگذرے ہیں جنہوں نے کسی مسئلہ پر کچھ کہا یا کیا تو وہ بدعت تھی مگرانہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ بدعت ہے۔یا تو ضعیف احادیث کی وجہ سے انہوں نے ایسا کہہ دیا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ احادیث صحیح ہیں یا آیات کا مفہوم انہوں نے ایسا ہی لے لیاجو ان آیات کا تھا ہی نہیں۔یا انہیں کوئی رائے سوجھی مگراس مسئلہ میں وارد نصوص ان تک نہ پہنچ سکیں۔اس لئے جو بندہ اپنے رب سے جس قدر بھی ڈرتا ہے وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد میں شامل ہوجاتا ہے:{ربنا لا تؤاخذنا إن نسینا أو أخطأنا} اور صحیح روایت میں ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: قد فعَلْتُ۔ میں نے ایسا کردیا۔(الفتاوی الکبری ۱۹؍۱۹۱)

سوال یہ ہے کہ ن مذہبی اختلافات سے بچنے اور تمام فقہاء کرام کو ان کا جائزمقام واحترام دینے کی آخر سبیل کیا ہے؟ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کا ایک صائب مشورہ ہے کہ:

ہرمذہب کے تین حصے کرلیجئے۔

وہ حصہ جس میں حق واضح ہو اور کتاب وسنت کے موافق ہو شرح صدر سے اس کے مطابق فتوے دیجئے۔

دوسرا وہ حصہ جو مرجوح ہے اور دلائل کے اعتبار سے بہت کمزور۔ اس کے مطابق نہ فتوی دیا جائے اور نہ ہی مسائل بتائے جائیں بلکہ اس حصے کو تو ذہن سے ہی نکال دینا چاہئے۔

تیسرا حصہ وہ جس میں دلائل کی کشش دونوں طرف موجود ہے اس میں جیسے طبیعت چاہے فتوی دیا جاسکتا ہے یا اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی خیال میں رہے کہ مذہبی فقہ کے مراتب مختلف ہیں۔ نیز بیشتر مسائل میں استاد شاگرد کا اصولی ونظری اختلاف بھی موجود ہے جو اس کی استدلالی حیثیت کومشکوک بنا دیتا ہے اس لئے یہ مذہبی فقہ کسی بھی مقام پر رد وقبول کے لئے معیار نہیں قرار پا سکتی۔ ہاں اگر مقدار وپیمانہ کا تعین ہو جائے تو درایت کے اعتبار سے مذہبی فقہ قابل قبول ہو سکتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مسلکی فقہ کی اشاعت کے اسباب

۱۔ قاضیوں کا کردار: ان مذاہب کی فقہی اشاعت میں اپنے اپنے علاقے میں متعین قاضیوں کا بڑا کردار تھا۔ جو چیف جسٹس کی طرف سے متعین ہوتے تھے۔ اس بات کو ذرا تفصیل سے شاہ عبدالعزیزؒدہلوی بستان المحدّثین صفحہ ۱۱ میں یوں فرماتے ہیں:

این دو مذہب در عالم از راہ ریاست و سلطنت رواج و اشتہار گرفتہ اند؟ مذہب ابو حنیفہؒ ومذہب مالک ۔ؒزیراکہ قاضی ابو یوسف قضاء کل ممالک بدست آوردہ، از طرف او قضاۃ میر فتند۔ پس بر ہر قاضی شرط میکرد کہ عمل وحکم بمذہب ابوحنیفہؒ نماید… امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کے مذاہب دنیا میں اقتدار اورمنصب کی بدولت رواج پا گئے اور مشہور ہوئے۔اسلئے کہ قاضی ابو یوسفؒ نے تمام اسلامی ریاستوں کی قضا اپنے ہاتھ میں لی ہوئی تھی۔ انہی کی طرف سے قاضی مامورہوتے۔جنہوں نے ہر قاضی کے لئے یہ شرط رکھی کہ عمل اور تمام فیصلے حنفی مذہب کے مطابق کرنا ہوں گے۔

حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی ؒ نے گو اس کی وجوہات کچھ اور بتائی ہیں ان کی زبانی سنئے:

وکَانَ وَأَشْھَرُ أَصْحَابِہِ ذِکْرًا أبُو یُوسُفَ، فَوَلّٰی قَضَائً أیَّامَ ھَارُونَ الرَّشِیدِ، فَکَانَ سَبَبًا لِظُھُورِ مَذْھَبِہِ، وَالْقَضَائُ بِہِ فِی أقْطَارِ الْعِرَاقِ وَخُرَاسَاَن وَمَا وَرَائَ النَّھْرِ الخ"۔ حجۃ اﷲ البالغہ۔ ۱۵۱ )امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں بڑے مشہور و معروف شاگرد امام ابو یوسفؒ تھے۔ جنہیں ہارون رشید کے عہد میں چیف جسٹس کا منصب ملا۔ یہی منصب ہی ان کے مذہب کو عام کرنے اور اسی مذہب کے مطابق عراق و خراسان اور ماوراء النھرکے علاقوں میں قضاء و فیصلہ جات نافذ ہوئے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۔فقہاء کے میلانات:
ماضی میں کچھ فقہاء ایسے پیدا ہوئے جن کے پاس اتنی احادیث نہ تھیں جن سے وہ مسائل کا استنباط کرتے۔ بلکہ وہ اپنے اساتذہ کے بارے میں بہت خوش گمان او رمعتقد تھے اور انہی کے بتائے ہوئے قواعد و اصول کے مطابق بے دھڑک فتوے دے دیا کرتے تھے۔ اور دوسرے علماء کے اقوال دیکھنا، سننا بھی ان کوپسند نہ تھا۔ (حجۃ اللہ البالغہ) اس رجحان کا تذکرہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی درجہ بالا کتاب میں کیا ہے۔ اس سے فقہی مسائل کی حقیقت کا اور ان کے معیار کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اندلسی مورخ اور عالم علامہ ابن خلدونؒ کے مقدمہ تاریخ سے ہم پہلے روشنی ڈال چکے ہیں۔ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ:

…کچھ فقہاء قرآن وحدیث کو ہی اپنے استنباط (deduction)کا محور سمجھتے۔ ان کا زیادہ میلان حدیث کی طرف رہا۔

…بعض فقہاء، حدیث و سنت کا مزاج نہ رکھنے کے باعث عقل و رائے کے ذریعے استنباط کیا کرتے۔

…کچھ فقہاء نے ان مسائل کے بارے میں اپنی بروقت فقہیات پیش کیں۔ جو وقوع پذیر ہو چکی تھیں۔ یا ہورہی تھیں۔

…بعض فقہاء نے مفروضہ مسائل یا مستقبل میں امکانی حد تک پیش آنے والے مسائل کے بارے میں اپنی فقہیات پہلے سے ہی پیش کردیں۔ اور ہر دور میں تخریج در تخریج کرتے گئے۔

بعض فقہاء نے اس خوش گمانی میں کہ ہمارے اسلاف کے وضع کردہ فقہی قواعد واصول ہی بہتر ہیں۔ انہیں یہ درجہ دے دیا:

أَنَّ کُلَّ آیَۃٍ تُخَالِفُ قَولَ أَصْحَابِنَا فَإنَّہَا تُحْمَلُ عَلَی النَّسْخِ أَو عَلَی التَّرجِیحِ، وَالأَوْلٰی أَنْ تُحْمَلَ عَلَی التَّأوِیْلِ مِنْ جِہَۃِ التَّوفِیقِ۔ مِنْ مَسَائِلِہِ أَنَّ مَنْ تَحَرَّی عِنْدَ الاِشْتِبَاہِ وَاسْتَدْبَرَ الْکَعْبَۃَ جَازَ عِندَنَا لأِنَّ تَأویلَ قَولِہِ تَعالٰی{ فولوا وجوہکم شطرہ} إِذَا عَلِمْتُمْ بِہِ، وَإِلٰی حَیثُ وَقَعَ تَحَرِّیْکُمْ عِنْدَ الاِشْتِبَاہِ۔ اصول کرخی:۱۲ )ہر وہ آیت قرآنیہ جو ہمارے فقہاء کے اقوال کے خلاف ہے اسے یا تو نسخ پر محمول کیا جائے گا یا ترجیح پر۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ اسے تاویل پر محمول کیا جائے تاکہ موافقت پیدا ہو جائے۔ مثلا کوئی شخص شک کی وجہ سے کعبہ کا صحیح رخ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے اورپشت کرکے بیٹھ جاتا ہے تو یہ بیٹھنا جائز ہوگا۔کیونکہ اللہ کے اس فرمان (اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو) کی تاویل یہی ہوگی کہ جب تم شبہ کے وقت کوشش کرکے اس کی سمت جان لو۔تو اسی طرف رخ پھیر لو۔

قیاسی مسائل اور ان کی بے محل تخریج بھی ماضی میں عام رہی۔ جس کی وجہ سے ان فقہاء کے پاس ایسا ذخیرہ جمع ہوگیا جس کا پڑھنا اور جاننا یا اس سے مستفید ہونا وقت کا ضیاع ہی محسوس ہوتا ہے۔ بلکہ ایک سعی لاحاصل بھی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۔ غلو:
ان ائمہ کرام کو رب ذوالجلال نے علمی اور فقہی مقام عطا فرمایا جس اخلاص اور محبت الٰہی میں ڈوب کر دین کی اشاعت وترویج اور فقہ واجتہاد کا کام ان بزرگوں نے کیا یہی انشاء اللہ تعالی روز قیامت ، میدان محشر میں ان کی سرخروئی اور جنت میں رفع درجات کا باعث ہوگا۔ ان سے محبت، ان کا احترام ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض، نفرت اور ان کی ذرہ برابر توہین کا ارتکاب اپنی عاقبت کو تباہ کرنے کا نام ہے۔ اسی طرح ان ائمہ کرام کو ان کے مقام ومرتبہ سے اٹھا کر نبوت کے مقام پر لے جانا، اور انہیں معصوم عن الخطا سمجھنا اور ان کی ہر بات کو وحی کا درجہ دینا یا ان ائمہ میں سے کسی ایک کے علم کو حرف آخر سمجھنا اور دیگر ائمہ کرام کے علم سے خود بھی اور دوسروں کو بھی محروم کرنا ، یہ سب کچھ بھی شرعی، اخلاقی اور دینی اعتبار سے ہرگز ہرگز درست نہیں۔ قرآن مجید کا دیا ہوا یہ سبق ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہے کہ:{یا أہل الکتاب لا تغلوا فی دینکم} اے کتاب والو! اپنے دین میں غلو مت کرو۔ اسی طرح یہ آیت بھی: { وفوق کل ذی علم علیم}۔ ہر عالم کے اوپر ایک اور عالم ہوتا ہے۔ جس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ علم کی حد بندی نہیں کی جاسکتی اور نہ علماء کرام کی۔ہمارے ا سلاف نے اورمعاصر معتدل علماء نے اس کو محسوس کرتے ہوئے اس بے اعتدالی اور غلو کا نہ صرف نوٹس لیا ہے بلکہ اعترا ف کرتے ہوئے اس کی نشاندہی بھی فرمائی ہے۔ دیکھئے آگے بحث تقلید۔

طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَرُبَّ اِنْسانٍ مِنْکُمْ یَبْلُغُہُ حَدیثٌ مِنْ اَحَادیثِ نَبِیِّکُمْ فَلاَ یَعْمَلُ بِہِ، وَیَقولُ: إِنَّمَا عَمَلِی عَلَی مَذْہَبِ فُلاَنٍ لاَ عَلَی الْحَدیثِ، ثُمَّ اخْتَالَ بِأَنَّ فَہْمَ الْحَدیثِ وَالْقَضَائُ بِہِ مِنْ شَأنِ الْکُمَّلِ الْمَہَرَۃِ، وَأنَّ الأئِمَّۃَ لَمْ یَکُونُوا مِمَّنْ یَخْفٰی عَلَیْہِمْ ہَذَا الْحَدِیثُ فَمَا تَرَکُوہُ إِلاَّ لِوَجْہٍ ظَہََرَ لَہُمْ فِی الدِّیْن ِمِنْ نَسْخٍ وَمَرْجُوحِیَّۃٍ۔(تفہیمات ج۱، ص۲۱۵) تم میں بہت سے طالب علموں کو رسول کریم ﷺ کی حدیث مل جاتی ہے لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ یہ کہتے ہیں: اس حدیث کے ہوتے ہوئے پھر بھی میرا عمل فلاں امام کے مذہب پرہے۔ پھر بہانہ یہ بناتے ہیں کہ حدیث سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا کامل اور ماہر لوگوں کا کام ہے نہ کہ ہمارا۔ اور یہ بھی کہ ان ائمہ کرام سے یہ حدیث پوشیدہ نہ تھی کوئی وجہ ضرور ہوگی جس کی بناء پر ان ائمہ نے اس پر عمل نہیں کیا۔

آگے نتیجہ میں فرماتے ہیں: بھائی یہ قطعا دینی رویہ نہیں اور نہ ہی علم کی شان ہے بلکہ تم صرف جناب رسالت مآبﷺ کی اطاعت کرو خواہ وہ مذہب کے مخالف ہو یا موافق۔ کیونکہ اللہ کی مرضی یہی ہے کہ تم کتاب وسنت کی اطاعت کرو۔

مستقبل میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بارے میں جو غلو آمیز باتیں کی گئیں وہ بھی مذہبی داستان کے علاوہ کچھ نہیں۔ مثلاً:

… یہ کہ جناب خضر ؑ نے پانچ سال تک جناب امام ابو حنیفہؒ کے دراقدس پہ روزانہ صبح حاضری دے کر علم حاصل کیا۔

…سیدنا امام ابو حنیفہؒ کی وفات پر سیدنا خضرنے نہایت تضرع و زاری سے بارگاہ خداوندی میں مزید علم کے حصول کی درخواست کی۔ صرف اتنی اجازت ملی کہ ان کی قبر پہ جا کر سیکھ آیا کرو۔ چنانچہ پچیس سال تک قبر مبارک پر حاضر ہو کر علم حاصل کرتے رہے۔

…سیدنا خضرعلیہ السلام نے جو علم شریعت امام عالی مقام سے حاصل کیا تھا۔ وہ انہوں نے سیدنا امام قشیری کو سکھا دیا۔ امام قشیری نے اسے لکھ کر ایک صندوق میں بند کر کے دریائے جیحون میں ڈال دیا۔تاکہ جب سیدنا عیسٰی علیہ السلام آسمان سے نزول فرمائیں تو انہی کتب کو نکال کر اس پر عمل درآمد فرمائیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۴۔ ایک اور نمونہ:
بر صغیر میں معاصرعلماء احناف کے سرخیل مولانا انور شا ہ کشمیری ؒ کی یہ آہ اور حسرت بھی اس قابل ہے جس پر غور کیا جاسکتا ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ایک تحریر میں فرماتے ہیں: میں نے ایک مرتبہ جناب سید انور شاہ کشمیری ؒ کو مغموم حالت میں سحری کے وقت سر پکڑے دیکھا تو عرض کی : حضرت مزاج کیسا ہے۔؟ فرمانے لگے کیا مزاج پوچھتے ہو، عمر ہی ضائع کردی۔ میں نے عرض کی حضرت بات کیا ہے؟ فرمایا: ہماری عمر کا، ہماری تقریروں کااور ہماری ساری کد وکاوش کا خلاصہ یہ رہا ہے کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں اور امام ابوحنیفہؒ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں۔ یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔ اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوںکہ کس چیز میں عمر برباد کی؟ ( وحدت امت ص:۱۶ )
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۵۔ تلخ یادیں:
حرم پاک میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ عالم اسلام اپنی فرقہ واریت میں اپنے عروج پر تھا اور شاہی سرپرستی بھی اسے تھپکی دیتی رہی۔ ترکی کے بادشاہ فرح بن برقوق نے نویں صدی ھجری کے اوائل میں جب حرم پاک میںچار مصلے قائم کیے تو دنیا یہ تماشہ دیکھتی تھی کہ شوافع اگر نماز باجماعت پڑھ رہے ہیں تو احناف ایک طرف بیٹھے ہیں۔ اس لئے کہ ان کا امام ابھی حنفی مصلے پر نہیں آیا اورنہ ہی ان کی نمازکا وقت ہواہے۔ بعینہٖ اسی طرح حنبلی اورمالکی بھی اپنے اپنے امام اور اپنے مصلے پر نماز پڑھنے کا شوق رکھتے تھے۔اللہ کا شکر ہے کہ اسلام کی یہ بھیانک تصویر اب حرم کعبہ میں نظر نہیں آتی …ورنہ میڈیا تو اسے مزید شہ دیتا۔

۶۔ تقلید:
مسلمانوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ لفظ تقلیدبھی شاید صلاۃ و صیام یا اطاعت و اتباع کی اصطلاح کی طرح ایک دینی اصطلاح ہے جب کہ یہ ایک نئی مذہبی اصطلاح ہے۔ ایک با شعور آدمی اگر اس کے معنی و مفہوم کو جان لے تو وہ نہ صرف لفظ تقلید، مقلد و غیر مقلد جیسی اصطلاحات کے استعمال سے گریز کرے گا بلکہ اس اصطلاح پر فخر محسوس کرے گا جسے قرآن مجید نے استعمال کیا ہے یا رسولِ اکرم ﷺنے۔

لغوی معنی : لفظ "تقلید"کا مادہ ق ل د ہے۔ اسی سے لفظ"قلادہ" ہے جو گلے کے پٹے کو کہتے ہیں۔ اور اسی سے باب تفعیل کے وزن پر تقلید کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں تقلید کا مطلب ہے گلے میں پٹہ ڈالنا۔ اور مقلّد اس جانور کو کہتے ہیں جس کے گلے میں کوئی انسان پٹہ ڈال کر اپنی رسی سے اسے کھینچتا جائے اور جانور اس کے پیچھے چلتا جائے۔ عربی زبا ن کی تمام قدیم وجدید لغات وقوامیس یہی معنی بتاتی ہیں۔

اصطلاحی معنی: علمائے فقہ میں ملا علی القاری ؑنے شرح قصیدہ أمالی میںاس کی تعریف یہ کی ہے:

التَّقْلِیدُ: قَبُولُ قَولِ الْغَیرِ بِلاَ دَلِیلٍ۔کسی غیر کی بات کو دلیل کے بغیر قبول کر لینا تقلید کہلاتا ہے۔

امام غزالیؒ نے کہا:
ہُوَ قَبُولُ قَولٍ بِلاَ حُجَّۃٍ۔کسی کی رائے کو بغیر دلیل کے قبول کرنا تقلید ہے۔

اور کسی نے کہا:
ہُوَ الْعَمَلُ بِقَولِ مَنْ لَیْسَ قَولُہُ إِحْدَی الْحُجَجِ بِلاَحُجَّۃٍ۔کسی شخص کے ایسے قول پر جو حجت نہ ہو بلا کسی دلیل کے عمل کرنا تقلید کہلاتا ہے۔

کمال الدین ابن الہمام(م: ۸۶۱) اپنی معروف کتاب التحریر فی أصول الفقہ (ص: ۳۴۰، مطبعہ امیریہ ۱۳۱۷ھ) میں لکھتے ہیں:

التَّقْلِیْدُ الْعَمَلُ بِقَولِ مَنْ لَیْسَ قَولُہُ إِحْدَی الْجُجَجِ بِلاَحُجَّۃٍ۔ تقلید اس شخص کے قول پر بلاحجت عمل کرنے کا نام ہے جس کا قول کوئی حجت کی حیثیت نہیں رکھتا۔

اس تعریف سے قول رسول بھی نکل گیا اور اجماع امت بھی۔اور مفتی کے قول سے ایک عام فرد کا عمل بھی تقلید سے نکل گیا۔اس لئے کہ قول رسول، اجماع امت اور قول مفتی تو حجت قائم کرتے ہیں۔اسی لئے تقلید کی اگر کوئی بھی حجت ہو تو یہ بذات خود تقلید کی معنوی نفی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی امام فقیہ یا مجتہد نے عام وخاص کے لئے تقلید کو جائز قرار نہیں دیا۔ امام بخاریؒ نے تقلید شخصی کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اس آیت کو دلیل بنایا: {ولا تقف ما لیس لک بہ علم} کہ جس چیز کے بارے میں تمہارے پاس علم ہی نہیں تو اس کے پیچھے مت پڑو۔ اس لئے کہ عمل سے قبل علم ضروری ہے۔ جب کہ مقلد بے علم ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کی بات کو صحیح یا غلط جانے بغیر ماننا درست نہیں۔ دین کے معاملے میں تو محتاط ہونا ہے۔ مقلد جب قول امام پر عمل کرتا ہے تو اسے کچھ علم ہی نہیں ہوتا۔ کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ مقلّد: کسی کی بات کو بغیر دلیل کے قبول کئے عمل کرنے والا شخص مقلد کہلاتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تبصرہ:

اس میں اب کونسی معقولیت ہے؟ کہ ایک مسلمان کوکسی امتی عالم یا فقیہ کے ساتھ ایسے الفاظ سے جوڑ دیا جائے جس میں اس کے شعور ، شخصیت، احترام اور اشرف المخلوقات ہونے کا تصور ہی ختم ہوجائے؟ ایسا تو رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی اللہ نے نہیں چاہا۔اور نہ آپﷺ نے چاہا۔ اگر کسی عالم یا فقیہ کے ساتھ کسی کو جوڑنا بھی تھا تو کوئی اور مناسب لفظ ہو سکتا تھا جس میں انسانی توقیر تو ہوتی۔ اس میں انسانی آزادی اور ذہنی اڑان پر پابندی ہے۔ جب کہ دین اللہ ورسولؐ کے ذریعے بھی یہ پابندی نہیں لگانا چاہتا۔ {لا إکراہ فی الدین} دین میں کوئی جبر نہیں۔بلکہ تدبر اور تفکر کی دعوت دیتا ہے۔ لفظ تقلید، شخصیت پرستی کے مفہوم کو اجاگر کرتا ہے جبکہ لفظ اطاعت و اتباع، شخصیت پرستی کی جڑ کاٹتا ہے۔ اس لیے خود کو متبع رسول کہنا اور کہلواناہی زیادہ موزوں ہے۔

ہماری رائے ہے کہ اگراس لفظ کا استعمال انسانی عزت، شرافت اور وقار کے مناسب حال ہوتا تو قرآن میں یا رسول اکرمﷺکی زبان میں اس کا استعمال ضرور ملتا۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس لفظ کے نامناسب مفہوم کی وجہ سے اللہ تعالی نے اسے نہ قرآن میں استعمال کیا ہے اورنہ رسول کریم انے اپنی زبان میں، بلکہ اس جیسی اصطلاحات تو بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ’’خیر القرون‘‘ کے بعد کی پیداوار ہیں۔

تقلید کی ابتداء:
تقلید کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی؟ اسے حضرت شاہ ولی اﷲ محدّث دہلوی ؒ کے لفظوں میں ملاحظہ کیجئے۔ حضرت قدس سرہٗ فرماتے ہیں:

اعْلَمْ أَنَّ النَّاسَ قَبْلَ الْمِائَۃِ الرَّابِعَۃِکَانُوا غَیرَ مُجْمَعِینَ عَلَی التَّقْلِیدِ الْخَالِصِ لِمَذْہَبٍ وَاحِدٍ بِعَیْنِہِ۔آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ مسلمان چوتھی صدی ہجری سے قبل کسی ایک مذہب کی تقلید خالص پر متفق نہ تھے۔

یعنی جناب رسالتمآب ﷺ اصحابِ کرام ؓ،اور اسلاف کی ان ساری چار صدیوں میں موجودہ تفریق نہ تھی۔ سب قَالَ اﷲ ُو قَالَ الرَّسولُ کے متلاشی اور اسی پر عمل پیرا تھے۔ بالفرض اگر تقلید کا جواز{ فاسئلوا أھل الذکر إن کنتم لا تعلمون} اہل علم سے پوچھ لیا کرو اکر تمہیں علم نہ ہو۔ سے بھی لے لیا جائے جب کہ آیت میں اہل علم یعنی علماء کی بات کی گئی ہے نہ کہ ایک عالم کی۔ تو بھی سوال یہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا امام ابو حنیفہ ؒسن ۸۰ھ میں پیدا ہوئے ۔امام مالکؒ ۹۳ھ میں پیدا ہوئے۔ امام شافعیؒ ۱۵۰ھ اور امام احمدؒ ۱۶۴ھ میں پیدا ہوئے۔ ان بزرگوں کی پیدائش سے قبل کے مسلمان اپنے آپ کو کیا کہلواتے تھے؟ اوروہ کس کی اقتداء کرتے تھے؟ خود یہ ائمہ کرام کس کی اقتداء کرتے تھے؟ اس اقتداء کو کیا کہا جاتا تھا؟ یہ الزام کہ اگریہ اقتداء جسے تقلید کہا جاتاہے، نہ کی جائے ،تو آدمی خود علامہ یا مجتہد ہونے کا دعوی کرتا ہے یاوہ خواہش کا غلام بن جاتا ہے۔ فقہ، مالکی، حنفی، شافعی اور حنبلی کی تمام معتبر کتب میں بے شمار مسئلے ایسے پائے جاتے ہیںجوان ائمہ کرام اور ان کے عظیم شاگردوںکے ما بین مختلف فیہ ہیں۔یعنی شاگرد اپنے استاد کی تقلید نہیں کرتا بلکہ اپنی مستقل رائے رکھتا ہے۔ ان کے بارے میں کیا رائے دی جائے؟ بتائیے یہ خواہشِ نفس ہے اور کیا ان شاگردانِ خاص نے اپنے استادِ محترم کے خلاف رائے دیکر کوئی جرم کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر یہ پابندی وناراضگی کیوں؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تقلید کا حکم:

یہ بحث بھی فضول لگتی ہے کہ تقلید ضروری ہے یا نہیں؟ آپ مقلد ہیں یا غیر مقلد؟شریعت میں تقلید کو علماء نے بنیادی طور پر مذموم بتایا ہے۔کوئی مسلمان یہ حیثیت ہی نہیں رکھتا کہ امت کے کسی بڑے عالم یا مجتہد کو یہ مقام دے دے کہ اس کی پیروی بے سوچے سمجھے شروع کر دی جائے؟ بلکہ اطاعت کو ہی اپنے لئے باعث اعزاز سمجھتا ہے۔ تقلیدکا لفظ ہی عصبیت کا نام ہے۔ مزید یہ کہ جن کی تقلید کی جارہی ہے انہوں نے کب اور کہاں فرمایا ہے کہ میری تقلید کرو؟ کیا ان کے شاگردوں نے کی؟ صحابہ رسول ہوں یا تابعین وہ اس لفظ سے نا آشنا تھے چہ جائیکہ ان کے دور میں اس کے جواز کی صورت ملتی ہو۔

تقلید کے بارے میں علماء دو رائے رکھتے ہیں۔
جو فریق اس کو بالکل ناجائز سمجھتا ہے۔ وہ قرآنی آیات واحادیث کو پڑھ کر کپکپا اٹھتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے ہم کیسے اپنے آپ کو کسی بھی عالم یا مفتی کے حوالے کردیں؟ اور اگر کرنا بھی ہے تو کیوں نہ رسول ہی کے حوالے کریں؟ کیوں نہ ہم اطاعت و اتباع کے الفاظ و اصطلاحات کا استعمال کریں جو اﷲ و رسول نے ہمیں عطا کئے ہیں۔ جن کے معنی ہیں افعال و احکام میں اسوہ رسول ﷺ کی فرمانبرداری۔ پھریہ الفاظ صرف اﷲ و رسولﷺ کیلئے مستعمل ہوئے ہیںنہ کہ دوسروں کیلئے ۔ قرآن مجید میں ہے:

{أَطِیْعُوا اﷲَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ}اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔

{قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اﷲَ فَاتَّبِعُونِی}آپ کہئے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔

ان الفاظ کی اتنی زبردست اہمیت ہے کہ چالیس سے زائد مقامات پر قرآن میں آئے ہیں۔ اﷲ و رسول کی اطاعت و اتباع کا اس لئے کہا گیا ہے تاکہ دین خالص رہے اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہونے پائے ۔ مزید یہ کہ رسول معصوم ہوتا ہے اور غلطیوں سے مبرا بھی ۔ اور کوئی معصوم نہیں۔دوسرے سے غلطی کا امکان ہے اور بلا شبہ اس سے غلطیاں ہوئی ہیں۔شاہ صاحبؒ دو ٹوک الفاظ میںفرماتے ہیں:

إِنْ آمَنْتُمْ بِنَبِیِّکُمْ فَاتَّبِعُوہُ خَالَفَ مَذْہَبًا أَو وَافَقَہُ۔(تفہیمات۱؍۲۰۲)اگر تم اپنے نبی ﷺ پر ایمان لائے ہو تو پھر آپ ﷺ ہی کی اطاعت کرو خواہ وہ مذہب کے خلاف ہو یا موافق۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تقلید کے نتائج :

چونکہ تقلید شخصیت پرستی کا نام ہے اس لئے جب شخصیات کو ایک دوسرے پر فوقیت دی جائے گی تو لامحالہ حب علیؓ اور بغض معاویہؓ کی کیفیت تو پیدا ہو گی۔ اس تقلید کی گرویدگی نے مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اورجو کام مسلمانوں سے کروائے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

وَتَرَی الْعَامَۃَ سِیَّمَا الْیَومَ فِی کُلِّ قَطْرٍ یَتَقَیَّدُونَ بِمَذْہَبٍ مِنْ مَذَاہِبِ الْمُتَقَدِّمِینَ، یَرَوْنَ خُرُوجَ الإنْسَانِ مِنْ مَذْہَبِ مَنْ قَلَّدَہُ وَلَو فِی مَسْئَلَۃٍ، کَالْخُرُوجِ مِنَ الْمِلَّۃِ کَأَنَّہُ نَبِیٌّ بُعِثَ إِلَیہِ، وَافْتَرَضَتْ طَاعَتُہُ عَلَیہِ، وَکاَن أَوَائِلُ الأمَّۃِ قَبْلَ الْمِائَۃِ الرَّابِعَۃِ غَیرَ مُتَقَیِّدِینَ بِمَذْہَبٍ وَاحِدٍ۔ ہر علاقہ کے عوام مروجہ مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے ہیں۔ ایک معمولی سے مسئلہ میں بھی تقلید سے آزاد ہوکر کسی کا سوچنا ان کے نزدیک ایسا ہے جیسا کہ کوئی ملت اسلامیہ سے نکل گیا ہو گویا ان کا امام ایک نبی مبعوث ہے جس کی اطاعت ان پر فرض ہے۔ ایک ہی مذہب کی پیروی کا یہ انداز قرون اولی میں نہیں تھا۔

یہ عبارت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تفہیمات ۱؍۱۵۱ سے لی گئی ہے اصل دین کو اجاگر کرنے کی وہ کوشش جو شاہ صاحب مرحوم نے ایک تحریک کی صورت میں چلائی تھی افسوس ان کے معتقدین میں باقی نہ رہی۔ سلطان العلماء شیخ عز بن عبد السلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

یہ حیران کن بات ہے کہ مقلد فقہاء کو جب اپنے امام کے بتائے ہوئے مسئلے کی کمزوری کا علم ہوجائے اور جس کے عذر ومداوے کی کوئی صورت بھی نہیں ہوتی تب بھی وہ اپنے امام کی تقلید کئے جاتے ہیں۔ اس تقلید اور مذہبی جمود کے باعث انہیں کتاب وسنت اور صحیح قیاس کو ترک کرنے میں بھی کوئی باک نہیں ہوتا بلکہ اس سلسلے میں دفاع امام کے لئے دور از کار قیاس وباطل تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔

علماء سلف کے ان اقوال کی روشنی میں جو نقصان مسلم امہ کو پہنچا اس میں:

… سلف صالحین کے طریقہ کار کو چھوڑدیا گیا جنہیں قرآن کریم نے خود متعارف کرایا تھا کہ{ والسابقون الأولون من المہاجرین والأنصار والذین اتبعوہم بإحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ}( التوبۃ:۱۰۰) یعنی یہ تین قسم کے لوگ تھے۔ اولا: مہاجرین میں السابقون الاولون۔ ثانیاً: مہاجرین کے مددگار۔ انصاراور ثالثًا: وہ جو انہی کی احسن طریقے سے پیروی کرتے رہے۔اور انہی کے منہج پہ چلتے ہیں۔مگر

… ہم نے اپنے فقہاء کی دوسرے فقہاء پر برتری ثابت کی۔

…انہیں معصوم قرار دے کر اپنے عقیدے کو خراب کیا۔

…دوسرے فقیہ کو کم تر جانا۔

… ہم نے فقہ اسلامی کو اختلافات اور جھگڑوں کی تاریخ بنا کر اسے نئی طبیعتوں کے لئے بوجھل کر دیا۔

…ان کے نام سے گروہ بندیاں کیں۔

…ہم نے نہ سوچا کہ دنیا اپنے سائنس دانوں کی (Theories + Research) پڑھ کر اپنی (Theory)دے دیتی ہے اور پہلے کی تھیوری کو غلط یا قدیم قرار دے کر رد بھی کردیتی ہے مگر اس کے باوجود ان کے ہاں پہلے سائنس دان کا احترام قائم رہتا ہے۔ کیا ہم ایسا
نہیں کرسکتے۔

اس رویے کے جو بھیانک نتائج سامنے آئے وہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ کی زبانی سنئے:

فقہ کے مذاہب اربعہ جب مشخص و مدوّن ہو گئے اور تقلید شخصی کا التزام ہو گیا تو سوال پیدا ہوا کہ ان چاروں اماموں میں افضل کون ہے حضرت امام ابو حنیفہؒ یا حضرت امام شافعیؒ؟ اب بحث شروع ہوئی ا ور بحث نے جنگ و قتال کی شکل اختیار کی۔ چنانچہ ہلاکو خان کو اسلامی ممالک پر حملہ کی سب سے پہلی ترغیب خراسانیوں کے اسی جھگڑے سے ملی تھی۔حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آ کر بلاوا بھیجا اور شہر کے پھاٹک کھول دیئے۔ جب تاتاریوں کی تلوار چل گئی تو اس نے نہ شافعیوں کو چھوڑا نہ حنفیوں کو۔‘‘ {فَجَاسُوا خِلالَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْداً مَفْعُولاً} (ملخص ترجمان القرآن۲/۴۹۴)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مقلد وغیر مقلد ؟

مقلد و غیر مقلد کی پھبتی بھی ہمارے ہاں عام ہے۔ یہ کون ہوتے ہیں؟ مسجد میں نہ آنے والا مسلمان تو اس قسم کی پھبتیوں سے ناواقف اور نالاں ہے مگر ہمارا عام مسلمان بھی ان کا استعمال بڑے فخریہ طور پر کرتا ہے۔ یہ کیا نام وصفات ہیں؟ ان کا جواب صرف یہی ہے کہ یہ سب اصطلاحات رد عمل کے طور پر ابھری ہیں نہ کہ کسی قابل فخرجدوجہد کا ثمرہ ہیں۔اب ان کی تعریف ملاحظہ فرمائیے:

مقّلد: وہ ہوتا ہے جو کسی بھی امام، یا مجتہد یا قائد کے افکار و نظریات کی روشنی میں قرآن و حدیث کو سمجھے۔اور اسی امام یا مجتہد کی فکر کا پابند رہے اور اپنے آپ کو اسی کی طرف منسوب کرے اور باقی ائمہ مجتہدین کو چھوڑ دے اور ان کے علم سے فائدہ نہ اٹھائے۔

غیر مقّلد: وہ ہوتا ہے جو ایسا نہ کرے۔ یہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔
أ۔ وہ غیر مقلد جو قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے کسی امام یا مجتہد کی فکر کا پابند نہ ہو۔ بلکہ اسلاف کا جو دین کو اخذ کرنے کا طریقۂ کار رہا ہے اس کا بھی وہی معروف طریقہ ہو۔ قرآن کے بعد صحیح حدیث ہی اس کامرکزہو۔ وہ اپنے آپ کو کسی عالم کا یا بخاری ؒومسلم ؒکا مقلد نہیں کہلاتا بلکہ ا س کی بات جو قرآن یا صحیح حدیث سے ثابت ہے یا صحیح سند کے ساتھ مروی ہے اس کا متبع کہتا ہے۔عوام کا تو یہ کام ہی نہیں کہ وہ اجتہاد کریں یہ تو علماء کاکام ہے کہ وہ دین کو اس کے اصل سرچشمہ سے لے کرانہیں دیانتداری سے بتائیں۔

ب۔ یہ غیر مقلد وہ ہوتا ہے جو نہ تو کسی امام یا مجتہد کی فکر کا پابند ہوتا ہے اور نہ ہی قرآن و حدیث کو سمجھنے اور جاننے کے ثابت شدہ اصولوںکا۔ بلکہ اس کی اپنی ایک آزاد فکر ہوتی ہے اور نادر قسم کا اجتہاد اس سے اگلواتی ہے۔ جو سبیل المؤمنین نہیں ہوتا۔ وہ نصوص یعنی قرآن وحدیث کے مفہوم کو بدلنے کے لیے لغت کا سہارا لیتا ہے۔اور قرآنی تفسیر ہو یا حدیث رسول ان دونوں کے فہم میں اس کا طرز استدلال معروف تفسیری وحدیثی اصول وقواعد سے ہٹ کر ہوتا ہے تا کہ وہ دور کی کوئی کوڑی لا سکے جو تفسیری وحدیثی انحراف ہے۔
 
Top