• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اختلاف اقوال اور فتویٰ :
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ مسلم علماء و فقہاء کے ہاں ہر دور میں اجتہاد ہوا ہے۔ ان اجتہادی کوششوں میں آپس میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔اس لئے فتویٰ دینے میں فقہاء کے مختلف اقوال و اجتہادات مفتی کے سامنے آجائیں تو ایسی صورت میں مفتی کو کیا کرنا چائیے؟ مولانا عبد الحی لکھنوی ؐ امام الکلام میں فرماتے ہیں:

{مَنْ نَظَرَ بِنَظَرِ الاِنْصَافِ وَغَاصَ فِي بِحَارِ الْفِقْہِ وَالأصولِ مُتَجَنِّبًاً عَن الاعْتِسافِ، یَعلمُ عِلماً یقینیا أن أکثرَ المسائلِ الفرعیۃِ والأصلیۃِ التی اختلَف العلماء ُفیہا۔ فَمذہبُ المحدثینَ فِیہا أقوٰی مِن مذاہبِ غیرِہِم وإنِّي کُلَّمَا أَسِیرُ فِي شُعَبِ الاختلافِ أجِدُ قَولَ المحدثین فیہِ قَریباً مِن الانصافِ ، فللہِ دَرُّہُم عَلیہ شُکرُہُم۔ کیف لا! وَہُم وَرَثَۃُ النبيِّ ﷺ ونُوَّابُ شریعتِہِ صِدْقاً، حَشَرَنَا اللہُ فِي زُمْرَتِہِم، وَأمَاتَنَا عَلَی حُبِّہِمْ وَسِیْرَتِہِمْ}جو نظر انصاف رکھتا ہے اور کتب فقہ و اصول کے سمندروں میں غوطہ زن ہوتا ہے وہ یقینا جان لے گا کہ بیشتر فروعی و اصولی مسائل میں علماء کا احتلاف ہے۔ لہٰذا محدثین کرام کا نکتہ نظر ہی اوروں کے نقطئہ نظر سے قوی تر ہوتاہے۔ میں جب بھی اختلافی مسائل سے گزرتا ہوں تو مجھے محدثین کا فیصلہ ہی انصاف کے قریب ترین نظر آتا ہے۔ بخدا ان کا کیا کہنا ، اللہ ہی ان کو جزا دے گا۔ وہ کیوں نہ دے یہی تو سچے وارث نبی ہیں اور شریعت کے کھرے نمائندے۔ اللہ ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے اور ان کی محبت وسیرت پر ہی ہمیں دنیا سے اٹھائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
آخری گذارش

ہمارے علماء ودانش ور حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ صراط مستقیم وہی ہے جس پر جناب رسالت مآب ﷺ چلے۔

{ وأن ہذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ، ذلکم وصیکم بہ لعلکم تتقون}۔ (الأنعام: ۱۵۳) نیز اس کی یہ بھی ہدایت ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر مت چلو کہیں وہ تمہیں اس کی راہ سے بھٹکا نہ دیں۔

آپ ﷺ ہی اللہ کے پیامبر، اس کے احکام کے شارح، اسی کی شریعت کے حامل اور اس کے محرم راز و مفسر تھے تو کیا یہی کافی نہیں کہ تمام راہوں کو چھوڑ کر آپﷺ ہی کا بتایا ہوا صراط مستقیم ہی اپنا لیا جائے جس میں کوئی پیچ وخم نہیں اور جس میں کوئی کمی نہیں جب کہ دوسرے راستے اختیار کرنے سے منع فرمایا جن میں پڑنے سے آدمی بھٹک جاتا ہے ، ہدایت گم ہو جاتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ہم نے جناب سیدنا علیؓ ، امام ابو حنیفہؒ، بریلی اور دیوبند وغیرہ مقامات و شخصیات کے نام سے جو فرقے اور مسلک ایجاد کئے ہیں ان کا جواز کیا ہے؟۔ کون سی ایسی ضرورت پڑگئی کہ ایسے مسالک کا ایجاد کرنا امت کیلئے ناگزیر ہوگیا؟ آیات واحادیث اور ائمہ کرام کے بے شمار اقوال وغیرہ تو ان فرقوں کی تردید میں مل جاتے ہیں مگر ان کا جواز آخر کہاں سے لیا گیا؟ مزیدیہ چند باتیں بھی قابل غور ہیں:

٭… کیا ہماری اس محبت و عقیدت کا یہ غلو کہیںلوگوں کی نظر میں دیگر غیر معصوموں کو معصوم تو نہ بنا دے گا۔کہ وہ غیر نبی کو معصوم قرار دے کر اسے بھی نبی بنا لیںـ یا نبی کا درجہ دے بیٹھیں۔

٭… کیا ہم نے یہ سوچا کہ ان شخصیات کو معصومیت کا درجہ دے کر کہیں انہیں رسول اکرم ﷺکے مقابل تو کھڑا نہیں کردیا ؟ اگرانہیں معصومیت کا مقام ہی دینا ہے تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی کذاب کے دعوے کو اور اس کے چیلوں کو اور اباحیت و تجدد کی آڑ میں قرآن مجید کی من مانی تاویل کرنے والوں کو اور رسولِ اکرم ﷺکی احادیثِ پاک کے منکروں کو اورآپؐ کی سیرت سے نفرت کرنے والوں کو ہم کیوں کافر قرار دے رہے ہیں اورانہیںکیا دلائل فراہم کر رہے ہیں؟

٭…ہم نے غور کیا: کہ ایک فرقہ سے نکلنے والے کئی فرقے، ان کے منتشر افکار اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیری فتوے، کیا یہ سب کچھ رحمت ہے یا زحمت؟

٭… ہم نے سوچا کہ یہ قرآن مجید کا ہمارے لئے پہلا اور زندگی کا آخری درس ہے:کہ

{وَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ¡} نہ تم مرو مگر مسلم ہوکر۔(آل عمران: ۱۰۲)

یہ کہاں کہا ہے کہ:

’’ولا تموتن إلا وأنتم حنفیون‘‘ نہ تم مرو مگر حنفی بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم جعفریون‘‘ نہ تم مرو مگر جعفری بن کر۔
’’ولا تموتن إلا وأنتم دیوبندیون‘‘ نہ تم مرو مگر دیوبندی بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم وہابیون‘‘ نہ تم مرو مگر وہابی بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم بریلویون‘‘ نہ تم مرو مگر بریلوی بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم شیعیون‘‘ نہ تم مرو مگر شیعہ بن کر۔

’’ولا تموتن إلا وأنتم نقشبندیون‘‘ نہ تم مرو مگر نقشبندی بن کر۔ وغیرہ

ہماری اہل درد سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ ان فرقوں اور ناموں کو خیر باد کہنے کی قربانی دیں۔ جس کی اﷲ کے نزدیک بہت بڑی قیمت ہے۔ اور یہی وقت ہے قربانی دینے کا، تاکہ تھکی ماندی، اور شکست خوردہ امت کو مزید انتشار سے بچایا جا سکے اور دشمن کا تر نوالہ بننے سے مسلمان محفوظ ہوں۔ اسلئے کہ ربِ ذوالجلال کی عدالت میں معاملہ بڑا سخت ہے۔اگر وہاں یہ پوچھ لیا گیا کہ میرے رسولﷺ نے دین کیا دیا تھا اور اُمتیوں نے اس کے حصے بخرے کر کے اسے کیا بنا دیا۔ آخر کیا جواب ہو گا ہمارے پاس؟

٭۔ نیز قرآن کی اس آیت کو ہم {واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا }کے سیاق (Context) میں ضرور پڑھیں اور سوچیں کہ جو مسلم اتفاق و اتحاد کو پارہ پارہ کرکے مختلف گروہوں میں بٹ کر جینا چاہتے ہیں روز قیامت ان کا کیا حشر ہو گا۔ آئیے! غور کریں کہ ایسی صورت میں ہم اللہ کی نظر میں کیا ہیں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ فَأمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ أَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ¢}( آل عمران:۱۰۶) جس دن کچھ چہرے سفید ہونگے اور کچھ کالے ۔ رہے وہ جن کے چہرے کالے ہونگے (انہیں کہا جائیگا) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا۔ لہٰذا اپنے کفر کی پاداش میں اس عذاب کوچکھو۔

سوچئے کیا عذر ہوگا ہمارے پاس اس کفر کا؟
٭۔ اسی طرح ایک مسلمان جب مرتا ہے تو بمصداق حدیث رسول ﷺ اس سے قبر میں منکر نکیر (دو فرشتے) تین سوالات کرتے ہیں جن میں ایک سوال یہ بھی ہے :

مَا دِیْنُکَ؟ تیرا دین کیا ہے؟

اگر مرنے والے کا جواب ’’دینی الإسلام‘‘ میرا دین اسلام ہے۔ تو اس کی نجات ممکن ہے۔اور اگر اس کا جواب یہ ہے کہ میرا دین شیعہ ہے، حنفی ہے، وہابی ہے یا دیو بندی، بریلوی و اہل حدیث ہے یانقشبندی ، تو تمام ائمہ اسلام کا اتفاق ہے کہ اس کی نجات نہیں ہو گی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امت کا المیہ:
امت کا انتشار جس سے عالم اسلام آج کرہ نار بنا ہوا ہے اس میں دو طرح کی گروہ بندیاں نظر آتی ہیں۔

ایک گروہ کے وہ فرقہ باز ہیں جن میں الحاد گھس آیا ہے اور تجدد کے نام پر قرآنی آیات کی من مانی تاویل اور دینی مسائل کی خود ساختہ تشریح کرتے ہیں۔ اور distortionتحریف بھی۔ رسولِ اکرم ﷺکا اسوۂ حسنہ ایک ماڈل کے طور پر انہیں ایک لحظہ پسند نہیں۔یہ اسوہ ان کے نزدیک کیا حیثیت رکھتا ہے وہ ان کے حلیوں، باتوں ، تحریروں یا مشتعل نفسیات سے بخوبی جانا جا سکتا ہے۔ اہلِ دین کو گالیاں دے کر، انہیں برا بھلا کہہ کے، ان کے مقام و مرتبہ کو گرا کر اور نفرت آمیز تحریریں پیش کر کے یہ اپنا چھوٹا قد اونچا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام کا بڑا خیر خواہ،داعی اور بزعمِ خویش بڑا صاحب بصیرت وہمدرد بھی خود کوسمجھتے ہیں اوراپنے نفس کی شرارتوںکو چھپاتے ہیں۔ انہیں پرکھنا ہو تو ان کے حلیوں، باتوں اور عملوں کو سیرتِ رسول کے سامنے رکھ کر پرکھ لیجئے۔ بآسانی معلوم ہو جائے گا کہ یہ کس طبقے کے لوگ ہیں۔ اور کس کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں؟

دوسرا گروہ وہ ہے جو اپنی دھڑے بندیوں اور فقہی مسالک میں منقسم ہے۔ ان میں باعمل، نیک، متقی اور متواضع بزرگوں کی کمی نہیں۔ جو خوفِ خدا بھی رکھتے ہیں۔ اور امتِ رسولؐ کا درد بھی۔ مگر دھڑے بندی کی سب سے بڑی کمزوری کو وہ اپنے لئے سب سے بڑی طاقت و حمایت سمجھتے ہیں۔ان میں بڑے قدکاٹھ کے علماء بھی شامل ہیں۔

ان مذہبی بزرگوں اوردوسرے آزاد منش طبقے سے ایک عاجزانہ سوال یہ ہے کہ ایک غیر مسلم اگراسلام قبول کرنا چاہے تو کیا یہ مسالک اور ہماری عصبیتیں ومادر پدر آزادی اس کے اسلام کی قبولیت میں کشش کا باعث بنیں گی یا نفرت کا؟ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نارتھ امریکہ، جاپان ودیگر غیر مسلم ملکوں میں لوگوں کی اکثریت اسلام قبول کرنے سے اس لئے باز رہی کہ مسلکی عصبیتوں نے وہاں جو رنگ دکھائے وہ ناقابل بیان ہیں۔ اور مسلمانوں کی آزادی وبے راہ روی نے جو انہیں شرمندہ کیا وہ الگ المیہ ہے۔ ہمارے اخلاق و رویے کو دیکھ کر وہ توبہ توبہ کرتے ہوئے یہ سوال کرتے ہیں کہ کون تم میں مسلمان ہے اور کون کافر؟۔ یہ مادر پدر آزادی جو تمہارا اسلام دیتا ہے اور جوآزادی مغرب دے رہا ہے آیاان دونوں میں کوئی فرق بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ہم بھلے ہی سہی ورنہ ہمیں تو تمہارے اسلام سے شرم آتی ہے۔ بتائیے آپ کے پاس کون سا اسلام ہے؟ اللہ کا دیا ہوا دین یا اپنا حزبی مذہب؟

٭…کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان تمام فرقہ بندیوں کو خدا حافظ کہہ کے قرآن وسنت رسول کی بنیاد پر ہم ایک ہو جائیں؟ اگر حکومت وقت بھی تھوڑی سی مخلصانہ دلچسپی لے تو معتدل مزاج ، صاحب مروت، روادار ، صحیح معنوں میں عالم اور قدیم وجدید پر گہری نظر رکھنے والے علماء پر مشتمل ایک اعلی اختیاراتی بورڈ بنائے جو مدارس ، سکول وکالج اور یونیورسٹیز کا نصاب مسلکی بنیاد پر نہیں بلکہ دینی اور دنیوی واخروی بہتری کے لئے بنائے تاکہ مستقبل کی نسلیں تعصبات کی بجائے دینی محبت اور حمیت لے کر اٹھیں۔ اسی طرح یہ بورڈ ہر فقہ سے فائدہ ضرور اٹھائے مگر قرآن وسنت کو زندہ کرے۔ یہ نہ اجتہاد کی دعوت ہے اور نہ مذاہب خمسہ کے خلاف علم بغاوت۔ یوںتقریب بین المذاہب کی کوششیں کامیاب ہوسکتی ہیں اور بتدریج تعصب کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس بورڈ کو قرآن مجید کا یہ اصول بطور ایک ماٹو کے ہمیشہ پیش نطر رکھنا چاہئے کہ:

{إِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَہُمْ وَکَانُوا شِیَعاً لَسْتَ مِنْہُمْ فِی شَیْئٍ}(الانعام :۱۵۹)بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور مختلف گروہوں میں بٹ گئے، تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

٭٭٭٭٭​
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
بهت عمده كاوش....جزاكم الله خيراً
 
Top