• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۔ چلتے پانی کا پنگھٹ، جہاں لوگ پانی پینے پلانے کے لئے آئیں۔جب اونٹ پانی کے پنگھٹ پر پہنچ جاتے توعرب کہا کرتے: شرعت الإبل۔میں اونٹوں کو پانی کے پنگھٹ پر لایا۔ ایک ضرب المثل بھی ہے: أَہْوَنُ السَّقِیِّ : التَّشْرِیْعُ۔ مراد یہ کہ اونٹوں کو چلتے پنگھٹ پر لے جاؤ تاکہ وہ پانی پی لیں۔کیونکہ بغیر ڈول نکالے یہی طریقہ زیادہ آسان تھا۔اس معنی میں شریعت جسم وقلب کو سیراب کرنے والی ایسے شے ہے جیسے پانی پیاسے کے حلق وجسم کو سیراب کردیتا ہے۔قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال اسی معنی میں ہوا ہے۔
{لکلّ جعلنا منکم شرعۃ و منھاجاً}تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک شریعت او رایک راہ عمل متعین کر دی ہے۔

یہ آیت اصل میں اس آیت {شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً} کی تفسیر ہے کہ سبھی ملتوں کا دین واصول مساوی اورایک ہی تھا جس میں نسخ نہیں ہوا۔جیسے معرفت باری تعالی اور دیگر اصول جیسے:{ ومن یکفر باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ }(۔۔النسائ:۱۳۶)۔نیز اس سوال کا جواب بھی کہ جب تمام انبیاء کرام اور کتابوں کا دین ایک ہے اور سب ایک دوسرے کی تصدیق کرتے آئے ہیں تو پھر شریعت کی تفصیلات میں فرق کیوں ہے؟ جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے مختلف قوموں کے لئے مختلف زبانوں اورمختلف حالات میں مختلف ضابطے بنائے۔ کیونکہ پچھلی شریعتوں میں بعض فروعی احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تھیں تو دوسری میں حلال تھیں۔بعض میں کسی مسئلے میں شدّت تھی تو دوسری میں تخفیف۔ لیکن سب کی دعوت اور دین ایک ہی تھا۔ آپﷺ نے بھی اس کی وضاحت یوں فرمائی تھی۔

{نَحْنُ مَعَاشِرُ الأنْبِیَاء إِخْوَۃٌ لِعَلاّتٍ، دِینُنُا وَاحِدٌ}ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ہمارا دین ایک ہے۔(صحیح بخاری)

علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں مگر باپ ایک ہی ہو۔ مطلب یہ کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں (دستور اور طریقے) مختلف تھیں۔ شریعت محمدیہ کے بعد اب سابقہ شریعتیں منسوخ ہو گئی ہیں۔ اب دنیا کے خاتمے تک دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ ایک اور مقام پہ ارشاد ربانی ہے:

{ثم جعلناک علی شریعۃ من الأمر فاتبعھا ولا تتبع أھواء الذین لا یعلمون} (الجاثیہ:۱۸) پھر ہم نے آپ کو دین کی ظاہر راہ پر قائم کر دیا۔ سو آپ اسی پر رہیں اور نادانوں کی خواہشات پہ نہ چلیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اصطلاحاً:
وہ احکام جو اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کو دئے جن میں عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اور شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مختلف تعلیمات بھی شامل ہیں ان پر لوگ گامزن ہوں اور اپنی دینی ، دنیوی اور أخروی سعادتوں کو سمیٹ سکیں۔انہیں احکام شرعیہ کہا جاتا ہے۔

ان لغوی اور اصطلاحی معنوں میں ذرا غور کریں تو ان میں ایک گہرا تعلق یہ بھی ہے کہ شریعت۔ جو احکام کے مجموعے کا نام ہے۔۔بہت ہی پختہ، ٹھوس اور ناقابل تغیر ہے جس کی بنیاد انتہائی مضبوط اور مستقیم ہے۔یہ ایسا نظام ہے جو زمانہ وحالات میں اپنے مقصد سے کبھی بھی انحراف نہیں کرتا۔یہ اس شارع کی مانند ہے جو بالکل سیدھی ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں۔ اس اعتبار سے یہ پنگھٹ کے مشابہ ہے کہ یہ نفس وعقل دونوں کو غذا مہیا کرتی ہے جو ان کی حیات ہے ۔کیونکہ چشمہ بھی بدن کی زندگی کے لئے ایک ذریعہ حیات بنتا ہے۔

رسول کریم ﷺ کے حوالہ سے جب مسلمان شریعت کا نام لیتے ہیں تو اس سے مراد کسی سابقہ نبی کی شریعت نہیں۔ سیدنا موسی وعیسی علیہما السلام کے عہد میں ان کی شریعت اسلام تھی ۔ آپ ﷺ کے رسول بننے کے بعد اب آپ کی دی ہوئی شریعت اسلام ہے۔ اس لئے سابقہ شریعتیں منسوخ ہونے کے بعد الٰہی دین نہیں رہیں اور نہ ہی وہ قابل عمل ہیں۔اس لئے نماز میں قرآن کی بجائے توراۃ یا انجیل کی تلاوت سے نماز نہیں ہوگی خواہ وہ اصولا کلام الٰہی ہو۔ قرآن کی موجودگی میں عبادت، ثواب اور اجر کے لئے ان کتب کی تلاوت حرام اور ناجائز ہے اور ایسا کرنا نبی کریم ﷺ کی رسالت میں مداخلت ہے۔یہی وجہ ہے شیخ الإسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے جن عقائد واعمال کو سمجھایا ہے اس آیت کی رو سے سبھی شریعت کہلاتے ہیں۔ اسی طرح سنت ۔۔شریعت کی مانند ہے۔ یعنی جسے آپ سنت بنائیں وہ شریعت ہے۔ عقائد کو بھی آپ ﷺ نے سنت وشریعت قرار دیا اور کبھی عمل کو بھی۔ اور کبھی اس سے دونوں مراد ہوتے ہیں۔چنانچہ یہ شریعت دو قسم کے احکام رکھتی ہے:
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پہلی قسم: یہ وہ احکام ہیں جو ناقابل تغیر اور اٹل ہیں خواہ حالات وواقعات کیسے ہی ہوں۔ جیسے نماز ، روزہ، حج، زکوۃ یا حدودوغیرہ۔ یہ اپنی موجود ہ ہیئت واحکام کے ساتھ مفید ہیں اور اجتماعی ومعاشرتی مضبوط روابط کاذریعہ بھی۔

دوسری قسم: ان احکام کی ہے جن کا تعلق عام دنیاوی حالات ومعاملات سے ہے۔ مثلا تعلیم وتربیت، تجارت وصنعت، صلح وجنگ اور تعزیرات وغیرہ۔ چونکہ حالات کبھی یکساں نہیں رہتے اور قابل تغیر ہوتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں شریعت نے اٹل اصول نہیں دئے اور نہ ہی جزئی تفاصیل دی ہیں بلکہ ان کے لئے عام اصول وقواعد بنا دئے ہیں تاکہ امت کے آگے بڑھنے کا راستہ کھلا رہے اور غلط و صحیح کے درمیان امتیاز بھی کرتی رہے۔ رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام ، خلفاء راشدین اور اسلاف مختلف حالات میں اپنے فہم واجتہاد سے ایسے قوانین بناتے رہے جن میں ان کلی اصولوں کی پابندی لازمًارہی جو شریعت نے مقرر کئے مگر ان کے معانی ومفہوم کی وسعت وہمہ گیریت سے وہ اپنے گونا گوں حالات میںبھرپور فائدہ اٹھاتے۔(ماخوذ وملخص از مقدمہ اسلام کا فوجداری نظام از استاذ محمد عودہ)

٭…اس لئے اسلامی حکومت کا تعلق محض معاملات کے قانونی حصے سے نہیں ہوتا بلکہ شریعت کے ہر نوع کے قانون سے ہوتاہے۔ساری شریعت کے نفاذ میں حکومت کو مستعد اور بیدار رہنا ہوگا۔ حدود وقصاص کا نفاذ کرنا، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کے احکام پر عمل کرانا بھی حکومت کا فرض ہوگا اور مسلمانوں میں غیر دینی مشرکانہ اور خرافانہ نظریات کی آمد کا قلع قمع بھی کرنا ہوگا۔جو چیزیں فرض کی حد تک ہیں ان کا سختی سے نفاذ ہوگا اور جو مندوب ہیں اس میں نصیحت کی جائے گی۔یہ لفظ وضعی قوانین کے لئے بھی استعمال نہیں ہوتا۔اور نہ ہی فاسد عقائد یا اللہ کی شریعت کے مخالف مذاہب ونظریات کے لئے بولا جاتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عام افراد کے ہاں لفظ شریعت کے تین معانی ہیں:​

شرع مّنَزَّل: جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی اور جسے آپﷺ ہی نے پیش کیا۔ جس کی اتباع لازم اور مخالفت قابل تعزیر ہے۔

شرع مؤدَّل: مجتہدین وعلماء کی آراء ۔ جیسے: مذہب شافعی و حنفی وغیرہ۔ جاہل کے لئے ان کی پیروی کو جائز سمجھا جاتا ہے مگر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ عوام کو کسی مذہب کی پیروی پر مجبور کرے بلکہ شرع اسلامی ہی کی دعوت دے۔

شرع مبدَّل: جو اللہ ورسول نے نہیں کہا ان کی طرف وہ بات یا عمل منسوب کردینا۔یا اس کی مراد غلط لینا۔یا اسے بدل کر دین بنادینا۔ ایسا شخص بلانزاع کفر کا مرتکب ہواہے ۔مثلاً: وہ یہ کہے: خون، مردار یا{ ما أہل لغیر اللہ بہ} ۔حلال ہے یا سود حلال ہے۔ وغیرہ۔
فقہ اور شریعت میں فرق: ان دونوں کے مابین عموم وخصوص کی نسبت ہے۔ شریعت سے مراد ہر وہ حکم جو اللہ تعالی نے شریعت بنا کر اپنے بندوں کو عقائد، عبادات، معاملات یا اخلاق وغیرہ کو دئے۔اور فقہ، شریعت کے مقابلے میں خاص ہوگئی۔ کیونکہ اس میں ضرورۃً شریعت کے عقائد اورعملی احکام ہی پیش نظر رہتے ہیںجیسے : توحید وشرک، سنت وبدعت یاوضو ، طہارت اور تمام عبادات کے احکام یا بیوع ومعاملات کے احکام یا دیگر فقہی مسائل۔ فقہ، شریعت کا جزو ہے نہ کہ شریعت کے تمام احکام اس میں شامل ہیں۔ کبھی فقہ کے لفظ سے شریعت بھی مراد لی جاتی ہے اور کبھی اس کے برعکس۔اطلاق عام اور ارادہ خاص کے طور پر ایسا کرنایہ جائز ہے۔

قانون (KANUN)

یہ یونانی لفظ ہے جو سریانی زبان کے ذریعے عربی زبان میں آیا۔ بعض اہل لغت نے اسے رومی یافارسی لفظ قرار دیا ہے۔ابتداء میں قانون کا لفظ مِسْطَرَۃ کے معنی میں مستعمل ہوا جو لائنیں کھینچنے کے پیمانے کو کہتے ہیں۔ ابن منظور افریقی (م: ۷۱۱ھ)؁ نے قانون کا معنی: مِقْیَاسُ کُلِّ شَئٍ۔ لکھا ہے یعنی یہ لفظ ۔۔ہر چیز کا ٹھیک اندازہ کرنے کا آلہ۔۔ کے لئے مستعمل ہوا جورفتہ رفتہ وہ عام معنی اختیار کر گیا جسے قاعدہ کہتے ہیں۔ جیسے قانون فطرت، حرکت کا قانون، کشش وجذب کاقانون اور قانون صحت وغیرہ بمعنی قاعدہ کے کلمات ہیں۔ انہیں قانون تو کہاجاتا ہے مگر یہ بدلتے رہتے ہیں کیونکہ طبعی قانون کو آج مأخذ بنانا اور کل اس کا متضاد آنا ممکن ہے جن کا ابھی تک علم نہیں ہوسکا۔کچھ کی تردید میں متضاد قانون بھی آچکے ہیں۔طبعی قانون کو انسانی فلاح کا ضامن سمجھنا انسانیت کی تذلیل، اس سے دشمنی اور حیوانیت کے نچلے درجے تک گرنا ہے۔رسم ورواج بھی بعض سوسائٹیوں کا قانون رہے ہیں۔ایک شخص نے کسی چیز کو رواج دیا تو اس کے کچھ پیروکاروں نے اسے پسند کرکے اس کے بعد بھی اسے جاری رکھا جو بعد میں رسم ورواج نام پا کر قانون بن گیا۔اس کی پابندی بھی دراصل حیوان کی طرح لگی بندھی زندگی والی عادت ہے اس لئے یہ قانون بھی خلاف عقل اور سفیہانہ ہے۔اس کا نفسیاتی اثر یہ ہے کہ عقل ، اصول پسندی کے جوہر سے خالی ہوجاتی ہے یا اس کا اثر بہت ہی کم نمایاں ہوتا ہے۔اس میں ایک اندھا دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلتا ہے۔خواہ وہ بینا ہی کیوں نہ ہو مگر رواج خود اندھا ہوتا ہے جو اس نابینا عقل کی قیادت کرتا ہے۔ پھر اس نابینا قائد سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟اس لئے یہ قانون بھی غلط، گمراہ کن اور مضر ہے۔

نفسیاتی ماحول بھی انسانی مزاج پر بڑی قوت سے اثرانداز ہوتا ہے۔ یہی رجحان ایک قانون کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔مثلاً: ستی کی بجائے نکاح بیوگان کی تحریک چلی، رجحان بڑھا تو ہندوؤں نے نکاح بیوگان کا قانون لیا اور اسے پالیمنٹ سے پاس کرالیا۔ یہی حال ہمارے ہاں نظام زکو ۃ کے نفاذ کا ہوا ہے۔ شیعہ حضرات نے رجحان دیکھا تو اپنے لئے عشر کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ۔جو ان کا حق سمجھ کرپاس کردیا گیا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
لفظ قانون کے مختلف استعمال:


۱۔گزشتہ چند صدیوں سے فقہ کی بجائے ان احکام کو جو اسلامی ممالک میں نافذ ہیں۔ قوانین(Law) کہا جانے لگا ہے۔ جس سے مراد حکومتی قوانین کی دفعات کا مجموعہ ہے۔جیسے قانُونُ الْجَزَائِ العُثْمَانِی۔ سلطنت عثمانی کا قانون سزا۔ یا القَانُونُ الْمَدَنِیُّ الْعِرَاقِی۔ عراق کا دیوانی قانون۔عثمانی خلافت میں یہ لفظ سرکاری احکام کیلئے اکثر استعمال ہوتا تھا۔ جنہیں حکومت خود جاری کرتی تھی تاکہ یہ احکام، شرع اسلامی کے ان احکام سے علیحدہ سمجھے جائیں جو شرع کے معروف دلائل پر قائم ہیں۔ یہ فرق ملحوظ رہے تو حکومت کاوہ قانون جو شرع سے متصادم ہو مثلاً سود شرعاً حرام ہے لیکن قانوناً جائز ہے ۔ سمجھ آسکتا ہے ۔آج کل یہ لفظ یورپین زبانوں میں صرف قانون کلیسا کیلئے بولا جاتا ہے۔

۲۔ لفظ قانون کا ایک اور عام معنی آئین (Constitution)کابھی ہے۔جسے انگریزی میںقانون (Ordinance) یا اندھا کالا قانون کہہ دیتے ہیں۔ بعض مخصوص حالات میں یہ لفظ ہر اس قاعدے کے لئے بولا جاتا ہے جن کا تعلق عام معاملات کے ضابطوں اور قاعدوں (Rules) سے ہو۔ مثلاً کہا جاتا ہے۔سینٹ نے غلّہ کی سمگلنگ روکنے کا قانون منظور کر لیا ہے۔

۳۔ فقہی اصولوں کیلئے بھی اس لفظ کا استعمال قدیم سے ہے۔ ابو القاسم ابن جزی المالکی(م۷۴۱ھ؁) نے فقہ مالکی کے بارے میں ایک کتاب لکھی۔ جس کانام انہوں نے الْقَوَانِینُ الفقہیۃُ فی تلخیصِ المَذہَبِ المالِکیۃِ رکھا۔ یافقہائے اسلام اپنی اصطلاح میں لفظ قانون کی بجائے شرع یا شریعت کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔اس لئے اسلامی قانون کا اصول فقہ سے بھی گہرا تعلق ہے۔

۴۔ بعض دفعہ لفظ شریعت ، قانون کے معنوں میں بھی مستعمل ہوتا ہے۔ مثلاً: شرائع اسلام، قوانین اسلام کے معنی میں آتا ہے۔ اسی طرح لفظ حکم،قانون شرعی کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔اور حاکم کو شارع کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

جب قانون کا لفظ پہلے تین معنی میں استعمال ہو تو اس کی درج ذیل نمایاںخصوصیات بن جاتی ہیں۔

٭۔ اس کا تعلق دنیاوی معاملات سے ہو جاتا ہے۔ عبادات سے نہیں۔ جبکہ فقہ اسلامی کے قواعد میں دین اور دنیا دونوں پر بیک وقت بحث ہوتی ہے۔

٭۔ ایسے قانون حکومت نافذ کرتی ہے۔

٭۔ جج کے فیصلے کی طرح کسی خاص معاملے یا شخص کے لئے قانون نہیں بنایا جاتا بلکہ بغیر کسی تفریق و خصوصیت کے تمام انسانوں یا انسانوں کے کسی طبقے کے لئے وضع کیا جاتا ہے۔

۵۔اسی طرح لفظ قانون بعض علوم کی کتابوں کیلئے نام کے طور پر استعمال کیا گیاہے جیسے: القانون-علم طب میں ابن سینا (م۴۲۸ھ)؁ کی کتاب اور القانون-علم ہیئت و نجوم میں ابوریحان البیرونی (م۴۴۰ھ؁)کی کتاب اورقانون الرسول-فقہ و کلام میں امام غزالی (م۵۰۵ھ؁) کی کتاب وغیرہ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قانون کیسے بنتا ہے؟:​

قانون سے مراد وہ احکام ہیں جو انتظامیہ کے اعلیٰ ارکان ادنی ارکان کے لئے وضع کرتے ہیں۔ یا انسان کے خارجی افعال کے متعلق وہ عام قاعدہ ہے جس کی تعمیل ملک کی مرکزی حکومت لوگوں سے کراتی ہے۔ SALMOND اپنی کتاب Jurisprudence(ص ۳۹ ) میں لکھتا ہے:

قانون اصول و قواعد کا ایسا مجموعہ ہے جسے ملک کی حکومت تسلیم کر کے اس کے ذریعے عدل وانصاف قائم کرتی ہے یااس قانون کو ملک کی عدالتیں تسلیم کر کے ان پر عمل کرتی اور کراتی ہیں۔

قانون کی نشوونما :
قانون کی ابتداء اس وقت ہوئی جب خاندان اور قبیلہ وجود میں آئے۔ اس وقت خاندان کے سربراہ کا قول ہی پورے خاندان کے لئے قانون کا درجہ رکھتا تھا اور قبیلے کاقانون ہوا کرتا تھا۔ قانون اسی طرح سوسائٹی کے نشوو ارتقاء کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ ریاست وجود میں آ گئی۔ ابتدائً ًہوتا یہ تھا کہ ہر خاندان وقبیلے کی عادات وروایات دوسرے خاندان وقبیلے سے مختلف ہوتیں۔مگر جب ریاست وجود میں آ گئی تو عادتوں اور روایات میں ہم آہنگی پیدا ہو گئی۔ اس طرح قانون وجود میں آتا رہا۔

شریعت وقانون میں فرق:
اس حیثیت سے تو شریعت ،قانون سے ہم آہنگ ہے کہ دونوںسوسائٹی کے معاملات کی تنظیم کرتے ہیں مگر شریعت، قانون سے یوںمختلف ہے کہ شرعی قواعد دائمی اورناقابل تغیر ہیں جبکہ قانون نہیں۔ یہ امتیازی خصوصیت شریعت کو حاصل ہے قانون کو نہیں۔ اس لئے ان دونوں میں نہ کہیں مماثلت ہے اور نہ ہی دونوں مساوی درجے کے ہیں۔ شریعت کے اس امتیاز کے دوتقاضے ہیں۔

۱۔ شریعت اسلامیہ کے قواعد اور اس کی دفعات میں اس قدر عمومیت اور اس قدر لچک ہے جو معاشرتی ارتقاء کی ہر نو بہ نو تغیر پذیر صورت حال میں سوسائٹی کی تمام متنوع ضروریات کا حل پیش کرتی ہے۔

۲۔ شریعت اسلامیہ کے قواعد اور دفعات میں پہلے ہی سے اس قدر رفعت اور ارتقاء ہوتی ہے جو کسی بھی وقت سوسائٹی کے معیار سے فروتر نہ ہوں۔ ان محاسن کے ساتھ باقی فرق آپ خود ملاحظہ کیجئے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شریعت:​

۱۔ شریعت ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نازل کردہ ہے۔

۲۔ شریعت ، اللہ کی تخلیق اور آئین الٰہی کے تفصیلی ضابطوں کا نام ہے۔ جس میں اس کی قدرت، کمال اور عظمت کی جھلک اور اس کے ماضی و مستقبل کے تمام ممکنات پر محیط علم کی روشنی موجود ہے۔ جو تمام مسائل و معاملات کا احاطہ کر گئی ہے۔ اس کا فیصلہ ہے کہ اس شریعت میں کوئی ترمیم و بتدیلی ممکن نہیں۔

۳۔ شریعت، سوسائٹی کی ایجاد نہیںبلکہ خود سوسائٹی شریعت کی ساخت ہے۔لفظ شریعت ایک مقدسHoly لفظ ہے۔ جس کے ساتھ لفظ اسلامی کی قید درست نہیں۔ کیونکہ شریعت اسلامی ضابطوں کے سوا دنیا میں موجود مذاہب یا نظریات قوانین کے لئے مستعمل ہی نہیں یہ تو خالصتًا اسلامی اصطلاح ہے جو اپنے مفہوم سے ہی پہچانی جا سکتی ہے۔

۴۔شریعت میں ظلم، نقصان یا خواہش نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ اس میں ایجابی اور سلبی احکام ہیں۔ وہ امر ونہی کرتی ہے۔ ترغیب وترہیب بھی کرتی ہے۔شریعت میں عام عقائد، ایمان باللہ،وبالرسل، عالم الغیب، عبد کا اپنے رب سے تعلق، اخلاق مومن، مختلف نظامہائے حیات موجود ہیں۔دل مسلم میں اس کا احترام ووقار ہے۔ اس میں دنیاوی واخروی جزا ہے۔اور داخلی وخارجی عمل کا احتساب بھی ہے۔

۵۔ اس لئے حضرت انسان کو خود بدلنا ہو گانہ کہ شریعت کو۔چاہے حالات و زمانہ میں کتنی ہی تبدیلی کیوں نہ آجائے۔ Natural Lawsجس طرح اٹل ہیں اسی طرح اللہ کی یہ نازل کردہ شریعت بھی تمام لوگوں ، گروہوں اور حکومتوں کے لئے ایک مکمل اور ناقابل تغیر قانون ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قانون:​

۱۔ قانون انسان کی ایجاد ہے۔ انسان کے بس کا روگ ہی نہیں کہ شریعت سازی کر سکے۔

۲۔قانون میں انسانی نقص، عجز، ضعف، اورقلت موجودہے۔ جسے ہمہ وقت ترمیم و تبدیلی سے دو چار ہونا پڑتاہے جو کمال کا نہیں نقص کا اظہار ہے۔ یہ اس وقت کمال کو پہنچ سکتا ہے جب انسان خود کمال کو پہنچ جائے۔

۳۔سوسائٹی قانون بناتی ہے اور اسے بتدریج اپنی عادات، روایات اور تاریخ کے رنگ میں رنگ لیتی ہے۔ گویا قانون سوسائٹی کے معاملات کی تنظیم کے لئے تو ہوتا ہے مگر سوسائٹی کی راہنمائی کے لئے نہیں ہوتا۔ نتیجۃً قانون سوسائٹی کے ارتقاء سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور اس کی ترقی کے تابع ہوتا ہے۔ایسا قانون اور اس کے قواعد سوسائٹی کے پیش رو نہیں بلکہ اس کے پیرو ہوتے ہیں۔ یا اس معیار کے ہوتے ہیں جس معیار پر اس وقت سوسائٹی ہوتی ہے۔

۴۔قانون میں ظلم وزیادتی اور خواہشات کی بھرمار ہے۔نقصان سے یہ روکتا ہے مگر خیر کو بہت کم رواج دیتا ہے۔حکومت بچانے کیلئے قانون میں معاشرے کی اجتماعی، اقتصادی حالت پر گرفت زیادہ ہوتی ہے۔قانون کا دلی احترام دلوں میں بہت کم ہوتا ہے۔اس میں اتھاٹیز ہی اعزاز واکرام دیتی ہیں۔ کچھ خارجی کاموں پر اس کی دل چسپی ہوتی ہے۔

۵۔ قانون ایک بچہ کی مانند کمزور و ناتواں پیدا ہوتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ نشوونما پکڑ کر طاقتور ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بھرپور شباب کو پہنچ جاتا ہے۔ پھر جس سوسائٹی میں یہ قانون نافذ ہے وہ معاشرہ جس قدرتیزی کے ساتھ ارتقاء پذیر ہے۔ اسی قدر تیزی کے ساتھ یہ قانون بھی ارتقاء پذیر ہوتا ہے۔ قانون ابتدا ء میں آج کے قانون سے مختلف تھا۔وہ ہزاروں سال پر محیط،تغیر و ارتقاء کے تدریجی عمل سے گزر کر اس مقام پر پہنچا ہے جس پر وہ آج موجودہے۔

بہرحال شریعت، کی نشوو نما قانون کی طرح نہیں ہوتی بلکہ یہ آسمان سے بذریعہ وحی نازل ہوئی ہے۔اس لئے قانون کا مقابلہ نازل شدہ شریعت سے نہیں ہوسکتا۔ آدم علیہ السلام کے زمین پر اترتے ہی یہ بھی ہمراہ آگئی۔بعد میں ہر خاندان، جماعت، قوم یا ریاست کیلئے یہ اپنے احکام وقوانین کو منظر عام پر لاتی رہی۔ اس لئے قانون کے برعکس شریعت ہرانسان کے لئے ہوتی ہے۔ خواہ وہ حکمران ہو یا رعایا کا عام فرد۔عربی ہوں یا عجمی، مشرقی ہوں یا مغربی، یا اس کے رسم و رواج کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ خواہ لوگوں کی عادات ،روایات اور تاریخ میں کتناہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ یہ ایسا عالم گیر الٰہی قانون ہے جس کے بارے میں ماہرین قانون سوچتے تو رہے ہیں مگر کوئی عالمی قانون اس کے مقابلے میں اب تک وجود میں نہیں لاسکے۔قانون کے برعکس شریعت قابل تغیر ہوتی ہے اور نہ ہی قابل ترمیم۔اس کی عبارات و نصوص میں اس قدر عمومیت او رلچک پیدا کر دی گئی ہے کہ کبھی کسی ترمیم وتغیر کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور نہ ہی نئے حالات و تغیرات میں اس کا دامن تنگ ہو سکتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
شریعت وفقہ میں فرق:​

۱۔ان دونوں میں عام وخاص کی نسبت ہے۔ جہاں فقیہ کا اجتہاد حکم الٰہی کے مطابق ہوتا ہے وہاں شریعت اور فقہ ایک ہی ہوجاتے ہیں۔اور جہاں مجتہد کا اجتہاد خطا کرجاتا ہے وہاں شریعت، فقہ سے الگ ہوجاتی ہے۔اسی طرح شریعت ان احکام میں بھی فقہ سے علیحدہ ہوجاتی ہے جن کا تعلق عقیدہ واخلاق سے ہو یا گذشتہ اقوام کے واقعات ہوں۔

۲۔ شریعت کے مصادر صرف قرآن وسنت ہیں۔ مگر فقہ کے مصادر قرآت وسنت اجماع اور قیاس ہیں۔

۳۔ شریعت عقائد، عبادات اخلاق اور اقوام ماضیہ کے واقعات پر مشتمل ہے جبکہ فقہ صرف عبادات ومعاملات پر۔

۴۔شریعت کامل ہے اور ہر قسم کے تغیر وتبدل سے محفوظ۔کیونکہ یہ قاعدوں اور عام اصولوں پر مشتمل ہے جن سے ہماری زندگی کے ان احکام کو لیا جاتا ہے جن کے بارے میں نص خاموش ہے۔رہی فقہ یہ امت کے مجتہدین حضرات کی آراء ہیں جو شرعی ضرورت کے تحت حالات واقعات کی تبدیلی کے ساتھ قابل تغییر بھی ہیں۔

۵۔ شریعت ، مختلف علوم پر مشتمل ہے اور علم فقہ ان علوم میں کا ایک ہے۔جس کے مباحث صرف مکلفین کے افعال اور ان کا حکم ہیں یعنی واجب ہے یا مندوب، مباح ، حرام یا مکروہ ۔یہی افعال ہی تو ہیں جنہیں علم فقہ کا موضوع کہا جاتا ہے۔

۶۔ شریعت عام ہے جسے عموماً شریعت، اس کے مقاصد، اس کی نصوص میں اس وقت محسوس کیا جاسکتا ہے جب وہ عالم بشریت سے مخاطب ہوتی ہے۔اللہ تعالی نے اپنے رسول محترم سے فرمایا:

{وما أرسلنک إلا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا} سبأ:۲۸۔ ہم نے آپ جو سبھی انسانوں کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے۔

جبکہ فقہ کے احکام عام بھی ہوسکتے ہیں اور خاص بھی۔

۷۔ شریعت تمام انسانیت کے لئے ضروری ہے کیونکہ ہر انسان جس میں تکلیف کی شروط پائی جائیں اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس کے عقیدہ، عبادت، اخلاق وسلوک کو مانے۔ جبکہ فقہ آراء مجتہدین کا نتیجہ ہے۔ ایک مجتہد کی رائے دوسرے مجتہد کو پابند نہیں کرتی بلکہ اس کے مقلد کو بھی ۔کیونکہ جب وہ کسی دوسرے مجتہد کی رائے کو بہتر پاتا ہے تو وہ اسے ہی مانتا ہے۔اسی وجہ سے یہ ایک اصول ہے:

العَامِیُّ لاَ مَذْہَبَ لَہُ، وَإنَّمَا مَذْہَبُہُ مَذْہَبُ مَنْ یُفْتِیْہِ۔ ایک عام آدمی کا کوئی مذہب نہیں ہوا کرتا اس کا مذہب وہی ہے جو اسے فتوی دے دے۔

یعنی وہ ضروری نہیں سمجھتا کہ میں کسی خاص مذہب کا دائمی پیرو کار بن کر رہوں۔ کیونکہ وہ کبھی کسی مسئلہ میں ایک مفتی کا کہنا مان رہا ہوتا ہے اور کبھی دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے مفتی کا۔

۸۔ شریعت ایک جامع ومکمل اور ہر زمان ومکان میں رہنے والی ہے ۔ رہی فقہ جو مجتہد کا استنباط ہے اور جو کبھی معاشرے کے مسائل کا علاج بھی کسی زمانہ یا حالت میں پیش کردیتی ہے مگر ایسا بھی ہے کہ وہ دوسرے مقام وزمان میں حل پیش کرنے سے قاصر ہو۔ مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نے عراق میں قدیم مذہب کے مطابق کچھ کہا اور لکھا بھی۔مگر عراق سے واپسی پر مصر کے لئے جب براستہ مکہ گذرے اور دیگر علماء ومحدثین کرام سے ان کی ملاقات ہوئی تو بہت سے ان مسائل سے رجوع کرلیا جن کا اظہار وہ عراق میں کیا کرتے۔ اسے مذہب جدید کہاجانے لگا۔مگر اپنی کتب کو انہوں نے مصر میں لکھا اور وہیں اصول بھی لکھے۔اس لئے وہ اپنی عراقی کتب کو مٹا ڈالنے اور ان کی روابت کو حرام قرار دیتے۔ فرمایا کرتے: لَیْسَ فِی حِلٍّ مَنْ رَوَی عَنِّی الْقَدِیمَ۔ یہ حلال ہی نہیں کہ کوئی مجھ سے قدیم مذہب روایت کرے۔(البحر المحیط از زرکشی: ۴؍۵۸۴) ۔

۹۔ شرعی احکام صائب اور دائمی ہیں ہیں جن میں کوئی خطأ نہیں مگر فقہاء ومجتہدین کے احکام کبھی کبھار خطا والے ہوتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ اور اصول فقہ میں فرق:​

تعریف ، موضوع اور غرض وغایت میں دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ہر ایک کی اپنی تاریخ و نشو ونما ہے۔ان کا موازنہ اور باہمی فرق ان کتب کا مطالعہ کرکے پہچانا جاسکتا ہے۔

انتباہ: : شریعت کے لئے’’محمڈن لاء‘‘کی اصطلاح استعمار نے اسلام دشمنی کی بناء پر خود گھڑی ہے جو دیگر اصطلاحات کی طرح ہمارے ہاں تسلیم شدہ ہے۔ دراصل یہ اصطلاح ،شریعت کے وحی الٰہی اور آئین الٰہی کو تسلیم نہ کرنے کا اظہار ہے اور اسی کی دعوت ہے۔ استعمار نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے یہ اصطلاح وضع کی اور اپنے سمجھنے کے لئے بنائی مگر ہمارے ہاں اس کا استعمال ایک غلامی کی یادگار بن گیا ہے۔ لاء کالجز میں پڑھائی جانے والی ہماری قانونی کتب(law books) کے عنوانات اسی سوچ کے غماز ہیں۔ اس اصطلاح سے استعمار نے یہ باور کرایا کہ میں شریعت کو وحی الٰہی نہیں مانتا بلکہ اسے محمد ﷺ کی خود ساختہ کہتا ہوں اور جو دیگر قوانین کی طرح وقت کے ساتھ ساتھ قابل تغیر بھی ہے۔ جب کہ مسلمان اپنے ایمان وعقیدے کی بنیاد پر اسے محض ایک بڑ سمجھتا ہے اور یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت، قرآن کا آپ ﷺ پر نزول، پھر آپ کا معلم کتاب ہونا ، اس کے گوہر حکمت کو چن کر آپ کا امت کو دینا نیز آپ ﷺ کا قرآن کے ذریعے فرد وسوسائٹی کا تزکیہ کرنا یہ سب مسلمان پر اس کے رب کا فضل وکرم ہے جس نے اپنی اہمیت ،افادیت اور ہمہ گیریت کی بناء پرتمام خود ساختہ قوانین کو زیرکردیا ہے۔

مقام عبرت : شریعت اپنے نفاذ کے لئے اپنی تدریس وتبلیغ بھی چاہتی ہے۔ہمارے تدریسی مناہج میں سب کچھ ہے مگر شریعت نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ اس کی تدریس وتبلیغ میں اہل دین ہی بٹ گئے۔ ہماری تعبیرات شریعت نے اہل وطن کو شریعت کے محاسن سے بہرہ مند ہونے کے ہر نادرموقع سے محروم کردیا۔فاضلین ومفتی حضرات کے اژدحام کے باوجود معاشرے نے انہیں وہ مقام نہ دیا جو ایک انگریزی قانون پڑھنے والے کو دیا گیا۔شاید اس کاسبب نئے دور اور اس کے تقاضوں سے ان فاضلین کی رجعت قہقری تھی۔ وکلاء کی اکثریت تو حسرت سے اپنی اس خواہش کی تکمیل چاہتی رہی کہ کسی طرح اسلام کے عدالتی نظام کو اہل دین سمجھا اور پڑھا سکیں تاکہ اس کی تنفیذ کی کوشش میں وہ پیش پیش رہیںمگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس کی وجوہات میں ایک بنیادی اور اہم وجہ وسعت نظری سے محرومی اور حزبیت سے لگاؤ ہے۔ ہر قیادت اور جماعت، اصلاح امت کے لئے اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے لگی۔اسے صرف اپنے اتباع ہی سب سے زیادہ عزیز ہوگئے۔ملزم بھی وہی بنے۔شریعت کے دائرے میں جب تک ہم رہے خوش نصیبی اور برکتیں ہمارا ساتھ دیتی رہیں اور جب سے ہم نے شریعت سے منہ موڑا ذلت وادبار نے مستقل بسیرا کرلیا۔کیسی عبرت ہے ہماری تاریخ میں؟ یہ شریعت ہی تھی جس نے مسلمانوں کو اقوام عالم میںسرفراز کیا مگر شریعت کو ترک کرنے سے ہر قسم کی ترقی ان سے روٹھ گئی اور زندگی کے ہر میدان میں پسپائی ان کا مقدر بن گئی۔ {ورفعنا فوقکم الطور} جیسے حالات ہمارے بھی بن گئے۔ ضعف دو چند ہوگیا۔ ملت اسلامیہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ دل پراگندگی اور انتشار کا شکار ہیں ۔
 
Top