• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی: خصوصیات اور محاسن

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ اسلامی: خصوصیات اور محاسن

فقہ اسلامی:
…دین اسلام کا صحیح فہم وادراک فقہ کہلاتا ہے۔ دین کے مصادر اس فقہ کا اصل ہیں۔ جن میں غوطہ زن ہوکر فقہ مستنبط کی جاتی ہے۔یہ مصادر قرآن وسنت ہیں جو دوش بدوش چلتے ہیں اور اجتہادی مسائل میں اجماع وقیاس صحیح کے بھی راہنما ہیں۔

… اس علم و ادراک کا صحیح نور علماء حق ہی کو عطا ہوتا ہے جو اسی کی روشنی میں چلتے، اپنے آپ کو مستقیم بناتے اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔یہ علماء حق فقہاء ، محدثین اور مجتہدین سبھی میں پائے جاتے ہیں۔

…اس فقہ کا علم ہمیں براہ راست قرآن وسنت رسول ﷺسے حاصل ہوجاتا ہے یا پھر بالواسطہ فقہاء ومحدثین اور علماء کی دینی وعلمی بصیرت سے۔

…شریعت کا ہر فقہی حکم کا مقصد مسلمان کی بھلائی ہے۔یہ کل پانچ ہیں اور مقاصد خمسہ کہلاتے ہیں ۔

…یہ فقہ ہربالغ ، عاقل ،مسلم مرد وعورت سے متعلق ہے اور جنین ونوزائیدہ بچے کے لئے بھی۔جو فاتر العقل، نابالغ اور غیر مسلم ہیں ان کے لئے نہیں۔ہاں غیر مسلم سے تعلقات کے بارے میں اسلامی فقہ ہمیں ضرور آگاہ کرتی ہے۔

… فقہ اسلامی تاابد رہنے والی ہے۔ اسے زندہ مسائل سے واسطہ ہے۔ اور انسانوں کی تہذیب وثقافت کو بہتر اور بامقصد بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

… اجماع واجتہاد کے دروازے جس طرح سابق میں کھلے تھے آج بھی اپنی زندہ دلی کے ساتھ معاشرتی اورمعاشی معاملات کو بے لاگ اور مکمل ذہنی آزادی کے طریقے سے پیش کرنے کو تیار ہے۔

…بہت سے مسائل جو شریعت میں واضح اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور جنہیں سمجھنے کے لئے نہ تو کسی عالم یا فقیہ ومحدث کے اجتہاد واستنباط کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی کسی مسلکی فقہ کی۔ ان سے مستفید ہونا فرض ہے اور انہیں اختلافی بنانے کی کوشش ایک کھلا انحراف۔کیونکہ یہ براہ راست ہمیں قرآن وسنت سے مل چکے ہیں۔ ان سادہ مسائل کا فہم بھی فقہ کہلاتا ہے مثلاًوضو کاصحیح طریقہ جاننا اور نماز کو سنت رسول ﷺکے مطابق پڑھنا۔

… جو مسائل قرآن وسنت میں غیر واضح ہیں یاوہ نئے ہیں ان میں علماء وفقہاء کی کاوشوں کے نتائج سے مستفید ہونا بھی فقہ ہے۔ کیونکہ وہ ان کا حل کتاب وسنت سے ہی علتEffective Cause) (تلاش کرکے دیتے ہیں اور صحیح حکم بھی بتا دیتے ہیں۔فقہاء کرام کے ان فیصلوں یا فتاوی میں یہ اختلاف بھی ہوسکتا ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ کے کون سے افعال شرعی کہلائے جائیں گے اور کون سے غیر شرعی۔ اس لئے فقیہ یا مجتہد کے فیصلوں کا نفاذ نہیں بلکہ ا اطلاق ہوتا ہے یہی اسلامی فقہ ہوتی ہے۔

… فقہ اسلامی چاروں مذاہب کے استنباطات وفتاوی وغیرہ سے مستفید ہوکر بغیر مذہبی تعصب کے اقرب الی الصواب کو قبول کرتی ہے۔

… قرآن وسنت میں وارد احکام ، شریعت کے اڑھائی فی صدکے لئے نہیں بلکہ کل کیلئے ہیں اورسبھی اسلامی فقہ کی اساس اورفقہ کے لئے کافی وشافی ہیں۔اس میں از خود علتیں نکال کرمسائل کو فرض کرنے کی گنجائش نہیں۔ یہ بھی دینی خدمت نہیں کہ احکام قرآن وحدیث میں معارضہ یا مخالفت قائم کی جائے۔کیونکہ اس لڑکھڑاہٹ میں قیاس اور ذاتی رائے، قرآن وحدیث پر مقدم ہوجاتے ہیں اور احادیث صحیحہ توڑ مروڑ دی جاتی ہیں جن سے تاویلات کے عجیب وغریب انبار لگ جاتے ہیں یا پھر باقی ماندہ اشیاء کو خلاف قیاس کہہ کر چھوڑ دیا جاتاہے۔

… الفاظ قرآن وحدیث میں جو شرعی احکام ہیں وہ سب مطابق عقل اور قیاس صحیح کے موافق ہیں جن میں رہتی دنیا تک کے تمام نزاعات کے بہتر فیصلوں کی گنجائش موجود ہے۔ ان میں کوئی بھی شرعی حکم یا کوئی بھی فرمان نبوی، میزان عدل ، قیاس صحیح، عقل سلیم اور فطرت مستقیمہ سے ہٹا ہوانہیں۔جس طرح کوئی انسان ایسا نہیں جس کی طرف آپ ﷺ رسول نہ ہوں اسی طرح کوئی حکم۔ جس کی کسی بھی وقت امت کو ضرورت پڑنے والی ہو۔ ایسا نہیں جس کا بیان آپ ﷺ نے نہ فرمایا ہو۔

… فقہ اسلامی میں ہمیں علماء وفقہاء کی فہم وفراست یکساں نظر نہیں آتی بلکہ اس میں بڑا تفاوت ہے۔جو وسعت دینی اور سبھی سے مستفید ہونے کا عندیہ ہے۔ایک ہی آیت یا حدیث کو ایک فقیہ سمجھ کر اس سے صرف ایک مسئلہ مستنبط کرتا ہے اور دوسرا دس مسئلے یا ان سے بھی زیادہ۔ بعض فقہاء کا فہم صرف الفاظ تک محدودرہتا ہے انہیں بیان ، ایماء ، اشارہ، تنبیہ، یا اعتبار وغیرہ تک رسائی نہیں ہوپاتی۔ مفرد لفظ سے جو معنی بھی ان کے ذہن میں آتا ہے بس یہی ان کی فقہ ہوتی ہے۔اس لئے فقہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے کہ صرف ایک ہی لفظ سے بے شمار مفاہیم ومعانی سے وہ کسی کوآگاہ کردے اور فہم وفراست کے اعلی مقام ومرتبہ تک پہنچا دے۔ مثلاً:ایک آیت کو سمجھنے کے بعد عموماً ذہن میں وہ بات نہیں آپاتی جو دو آیتوں کو ملاکر سمجھ آتی ہے۔ آیت: حملہ وفصالہ ۔۔ اور آیت حولین کاملین کو ملا کر سیدنا ابن عباسؓ نے یہ فقہ حاصل کی کہ عورت کے حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے ۔

… اجتہادی مسائل میں مجتہدین کرام کے اپنے علمی ظرف اور بصیرت میں نمایا ں فرق ہوتا ہے اور اختلاف رائے بھی ۔ ان آراء کو پڑھنے کے بعد کسی نہ کسی مجتہد کی کسی خاص پہلو میں لاعلمی، غلطی، خطا کا علم ہوجاتا ہے لہٰذا مجتہد سے غلطی ہونے کا امکان ہے جب کہ فقہ اسلامی میں فقہائے کرام کی کثرت رائے سے یہ خیرہمیشہ درست ملتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خصوصیات

ماضی میں دین اس سے بہت بلند تھا کہ صحابہ اورفقہاء وعلماء اس میں ذاتی رائے دیں۔یا اپنی عقل وقیاس کو اس پر مقدم کریں۔یہی وجہ ہے کہ ایسے علماء کی مقبولیت وشہرت زمان ومکان سے بے نیاز ہوگئی۔ رب العالمین نے ان کا ذکر جمیل ان کی وفات کے بعد بھی جاری رکھا۔ ان کے مخلص شاگردوں کی ایک جماعت بتوفیق الٰہی ان کی اتباع میں انہی کے مطابق ہی کام کرتی رہی۔تعصب یاکسی کی طرف داری نام کو نہ تھی۔وہ اپنے بزرگوں کی طرح حجت ودلیل کا ساتھ دیا کرتے۔جدھر حق ہوتا ادھر وہ اپنا منہ موڑلیتے۔حق کا دامن پکڑتے اور اسی کے گردا گرد وہ گھومتے۔ حق کو دلیل سے پہچانتے نہ کہ رجال سے۔

٭… فقہ اسلامی ،مجموعی طور پر قرآن وسنت کے دلائل سے آراستہ ہوتی ہے۔باقی مآخذ انہی پر انحصار کرتے ہیں۔ ضعیف وموضوع دلائل پرمبنی فقہی مسائل اس کی لغت میں نہیں۔ حقیقت حال پر مبنی فقاہت اس کی نظر میں صحیح فقہ ہے۔ نہ کہ مفروضہ مسائل ۔

٭… فقہ اسلامی میں صحابہ کرام کی اتباع کی جاسکتی ہے اس لئے کہ وہ عادل تھے دوسروں کی نہیں۔کیونکہ ان پر نقد کی جاتی ہے۔اسی طرح علم، اخلاق اور راستی میں بھی ان کے بعد کوئی نسل نہیں۔صحابہ میں کوئی مبتدع نہیں تھا مگر ٹیکنیکلی تابعین میں مبتدع تھے۔جیسے جہم بن صفوان صغار تابعین میں سے تھا۔ تابعین نے بھی صحابہ کرام کی اتباع کرنے کا کہا مگر کسی نے سعید بن المسیب ، سفیان ثوری ، حسن بصری، یا ابن سیرین رحمہم اللہ کی اتباع کا نہیں کہا۔صحابہ کرام کی اتباع سے مراد ان کا متفق علیہ یا اجماعی طریقہ کاریا عمل ہے۔ انفرادی عمل نہیں۔مثلاً صحابہ کرام نے مرتکب کبیرہ کو غیر مسلم نہیں کہا۔ اور نہ ہی غیر مسلم کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد: دو دین جزیرۃ العرب میں نہیں رہ سکتے۔اس حدیث کا مطلب بھی ہم نے الٹا لیا کہ غیر مسلم اگر نظر بھی آئے تو اسے مار دینا چاہئے چہ جائیکہ وہ سعودی عرب میں ہی کیوں نہ ہو؟ جبکہ خلفاء راشدین کے عہد میں غیر مسلم جزیرۃ العرب میں رہتے تھے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو اسی جزیرہ کے عیسائیوں سے معاہدہ کیا۔ کیاصحابہ کرام کی تعبیر رسول کی تعبیر کے عین مطابق تھی یا ہماری توجیہ زیادہ درست ہے؟
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…اتباع، دین کی مدلل بات کے قبول کرنے کو کہتے ہیں۔اور تقلید بے دلیل بات کے قبول کرنے کو۔ فقہ اسلامی کی تاویل وتفہیم میں ائمہ اربعہ کا اختلاف بہت ہی نمایاں ہے۔ چاروں الگ الگ فقہیں اس کی شاہد ہیں۔اور ہر امام دوسرے سے علم میں بھی بڑھا ہوا ہے۔ سینکڑوں ، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں۔نیز ان میں کوئی بھی علم صحابہ سے بڑھا ہوا نہیں ہے۔اس لئے نابینا اگرکسی سے پوچھ کر اپنا منہ قبلہ کی طرف کرلیتا ہے تو اس لئے کہ اس کے پاس اس سے زیادہ قدرت نہیں مگر کیا اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں کو بھی قبلہ بتاتا پھرے؟ اس لئے تقلیدی مسئلہ کو حق جان کر دوسروں کو بتانا اور زبردستی منوانا نیز فتوی بازی کرنا یہ دین میں جبر اور سینہ زوری ہے اور مسیطر بننا ہے۔جب دوسرا حق پر ہو سکتا ہے تو پھر امن کو آگ نہیں لگانی چاہئے۔

٭…عام خیال یہی ہے کہ فقہ صرف چار ائمہ کرام کی فقاہت تک محدود ہوگئی ہے ۔نیز باب اجتہاد بھی بند ہے خواہ علم وتخصص فقہ میں لوگ کتنے ہی کیوں نہ آگے بڑھے ہوئے ہوں۔یہ خیال درست نہیں کیونکہ علم فقہ ، صحابہ رسول نے آگے پھیلایا اور ہزاروں شاگرد تیار کئے ۔چنانچہ یہ علم ان چار ائمہ میں کیسے محصور ہوسکتا ہے؟۔مدینہ منورہ کے فقہاء سبعہ ہی کو لے لیجئے ان کا شاید ہی کوئی ثانی تھا۔نیز مکہ، عراق، بصرہ ، شام اور مصر کے فقہاء تابعین کی ایک الگ طویل فہرست ہے جن کے اجتہادات اور فقاہت بھی اپنا بے مثل مقام رکھتے ہیں۔یہ سب فقہاء متخصص تھے اور ان کے بعد بھی رہے۔یوں علم فقہ خاصا پھلا پھولا۔اسے محض ائمہ اربعہ تک محصور رکھنا درست فقہی رویہ نہیں۔ اسی جمود نے ہمیں یہ دن دکھائے کہ ہمارا مسلمان وکیل اسلامی فقہ سے استفادہ کی بجائے بدلتے حالات میں بدلتے جدید قوانین ونظریات سے مستفید ہورہا ہے۔

٭… فقہ اسلامی کو تازہ بتازہ اور متحرک رکھنے کے لئے اصول یہ دیا گیاہے کہ اسے اہل علم سے دریافت کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:{ فاسئلوا أہل الذکر إن کنتم لا تعلمون} (النحل:۴۳)۔ اہل علم سے سوال کیا کرو اگر تمہیں علم نہ ہو۔ اس آیت میں اہل علم کا لفظ جمع کے لئے ہے اس سے مراد کوئی مخصوص عالم یا فقیہ نہیں اور نہ ہی خاص وقت کے علماء وفقہاء اس سے مرادہیں۔اس لئے امام مہدی کا ظہور ہو یا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ، ان دونوں کی حیات کا بھی ہر لمحہ اسی کے سایہ تلے گذرے ہوگا۔یہ درست ہے کہ ماضی میں بعض فقہاء کی فقہ کو عروج ملا مگر فقہ اسلامی سے علماء وفقہاء کا تمسک اس فقہ کوپیچھے چھوڑ گیا ۔ ایسا اب بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

٭… فقہ اسلامی کا ہر پہلو ہماری زندگی کے ذاتی ، اجتماعی اور معاشرتی حالات پرمحیط ہے۔ بے شمار مسائل و آداب زندگی اس سے معلوم ہوتے ہیں۔ عبادات کی تفاصیل بھی موجود ہیں۔ معاملات زندگی پر بھی سیر حاصل مباحث ہیں۔ رشتوں کا تقدس ،وراثت کے مسائل، نکاح وطلاق ، تجارت و معیشت، قانون ودستور، نماز و عبادات کے دیگر پہلو ،سبھی کے بارے میں اسلامی فقہ ہماری راہنمائی کرتی ہے۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پرعمل کرنے کے لئے مسلمان قلبی طور پر تیار ہو اور اتباع رسول کوغیر معمولی اہمیت دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
محاسن

۱۔ دین ودنیا :
شریعت میں دین ودنیا دونوں کے احکام نازل فرمائے گئے۔فقہ اسلامی اس اعتبار سے مالا مال ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی نے اپنی حیات طیبہ میں دین ودنیا دونوں کے بارے میں بے شمار فقہی احکامات ارشاد فرمائے۔ حدیث و فقہ کا لٹریچران دونوں موضوعات کوزیر بحث لاتا ہے۔ عبادات اور معاملات دونوں موضوعات فقہ اسلامی کا حصہ ہیں۔ ان کے علم کاحصول دونوں علوم دینیہ میںشمار ہوتے ہیں۔

۲۔ فقہی برکتیں:
معاملات کو چلانے میں اسلام کے آفاقی اصول ، اس کے مصادر قرآن وسنت اگر پیش نظر رہیں اور ان کو بغیر کسی تاثر وتاثیر کے مناسب تفسیرو اجتہاد سے نمٹایا جائے تو اسلامی فقہ کی برکتیں اسی طرح آج بھی نمایاں طور پر سامنے آسکتی ہیں۔جس طرح قرون اولی میں یہ سب کچھ دیکھا گیا۔ ان برکتوں کے مظاہر میں ہم دیکھتے ہیں کہ:
ائمہ اربعہ کے علاوہ بہت سے دیگر فقہاء بھی ہیں جنہوں نے اپنی اپنی مصطلحات، قاعدے، اصول اوراستنباطات واجتہادات پیش کئے ہیں۔ یہی وہ بنیادی محاسن ہیں جو فقہ اسلامی کے ہیں کہ اس نے ہر باشعور، معتدل مزاج اور ماہر علم کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی جس نے اپنے فہم اور عقل سلیم کے ذریعے دین پر نہ صرف تدبر کیابلکہ غور وخوض کرکے نئی نئی فقہی، اصطلاحی اور استدلالی راہیں نکالیں۔

۳۔ دین میں توسع:
فقہی کاوشوں کا مطالعہ یہی باور کراتا ہے کہ بذات خود دین میں بہت توسع ہے اوردین اپنی خدمت کے لئے معتدل سوچ کو کھپانے کا اہتمام ہر دور میں کرتا آیا ہے۔ اسی نعمت کو پاکر دین ہر دور میں سرخرو ہوا اور مسلمان فقہاء نے حالات، در پیش چیلنجز کا مقابلہ اجتہاد اور غوروفکر سے آخر کر ہی ڈالا۔ اس کی وسعت کا اندازہ صرف اس فقہی لٹریچر کو دیکھ کر ہوسکتا ہے جس میں مفروضہ مسائل نہیں۔

۴۔ مجتہد معصوم نہیں:
فقہ اسلامی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے اسلام کے چشمہ صافی قرآن وسنت سے سیراب ہونا سیکھا ہے جس کا دینے والا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔ اہل اسلام کو متحد ومتفق رکھنے کے لئے جو سرمایہ اطاعت واتباع دیا وہ رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔ شریعت اور اس کے فہم میں اطاعت واتباع اپنے آخری رسول ﷺ کی کرائی گئی ہے۔ تاکہ استنباط واجتہاد میں اختلاف رائے کو اتباع رسول سے ختم کردیا جائے جو ایمان کا لازمہ ہے۔ آپ ﷺ کے علاوہ شریعت میں کسی اور کو معصوم قرار نہیں دیااور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دی ہے کہ اپنی طرف سے کسی کو معصوم قرار دے۔ اس لئے فقہی اختلافات میں کسی عالم، مجتہد یا امام وغیرہ کو معصوم نہیں گردانا جا سکتا۔

۵۔ ضرورت اجتہاد:
ائمہ اسلاف کی تاریخ اور ان کے فقہی مناہج کو بغور پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شروع شروع میں فقہاء کا فقہی مسلک یہ تھا کہ اجتہادی امور میں تقلید اور جمود کو پنپنے کا موقع ہی نہ دیا جائے بلکہ صحابہ کرام اور ائمہ اسلام کے اجتہادات سے وقتی مصلحتوں کے مطابق فائدہ اٹھایا جائے۔ اور فقہی فروع میں جمود اور فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ بس اصل نظر کتاب اللہ وسنت رسول اللہﷺ پرہی مرکوز رہے۔ اسلاف کوکتاب وسنت میں اگر کسی مسئلہ یا وقتی حادثہ کے متعلق صراحت نہ ملتی تو اس کا فیصلہ محض شخصی رائے کے مطابق نہ کرتے۔ کسی علاقہ کے علماء نے اپنے مخصوص حالات وافکارکو امت پرزبردستی مسلط نہیں کیا۔ بلکہ صحابہ کرام اور اسلاف کی وسعت نظر پر حاضر فقہاء کی نگاہ رہی اور یہی اصل ہد ف رہا۔۔ جمود اور شخصیت پرستی سے انہوں نے امت پر تنگی اور مشکل پیدا نہیں کی۔

نیز جب نصوص نہ ہوں اور کتاب وسنت سے نئے مسائل کا حل صراحۃً نہ ملے تو پھر اجتہاد کے سوا چارہ نہیں۔ صحابہ کرام نے بھی اجتہاد فرمایا، ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ مجتہدین نے بھی بوقت ضرورت اجتہاد سے کام لیا۔ لہٰذا آج بھی اہم معاملات ومسائل کو اجتہاد ہی کے ذریعے سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ محدثین وفقہاء کرام کا یہی مسلک تھا۔

٭٭٭٭٭​

فقہ اسلامی ۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
 
Top