• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کے مصادر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سمعی دلائل سے مراد قرآن وسنت سے احکام معلوم کرنے کا وہ طریقہ ہے۔ جس میں صحیح ذوق اورعقل سلیم کی گنجائش ہو مگرفاسد قیاس، وہم وظن اور باطل رائے کی جگہ نہ ہو اسی طرح مختلف حیلوں اور غیر معقول اعذار سے سمعی دلائل کو بھی رد کرنے کا نام فقہ نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہؒ اپنے فتاوی میں ارشاد فرماتے ہیں:
وَالاِجْتِہَادُ لَیْسَ ہُوَ أَمْرً ا وَاحِدًا لاَ یَقْبَلُ التَّجَزِّیْ وَالاِنْقِسَامُ بَلْ قَدْ یَکُونُ الرجل مجتہدا فی فن أو باب أو مسئلۃ دون فن وباب ومسئلۃ، وکل أحد فاجتہادہ بحسب وسعہ۔۔۔
اجتہادکوئی ایسا کلیہ نہیں ہے جو تقسیم در تقسیم کو قبول نہ کرے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی فن ، باب یا مسئلہ میں مجتہدہو اور کسی دوسرے میں نہ ہو۔ ہر شخص کا اجتہاد اس کی ہمت ووسعت کے مطابق ہے۔(فتاویٰ ج ۲۰ص۲۱۲ )

یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص ہر فن مولا ہو یا اسے دیگر فنون کی بھی لازماً مہارت ہو بلکہ ہر کوئی اپنے اپنے فن میں مجتہد بن سکتا ہے۔ ایک ماہر لسانیات ہو سکتا ہے تو دوسرا ماہر اقتصادیات، ایک علم الفرائض میں مجتہد بن سکتا ہے تو دوسرا عبادات میں۔ اکثر مجتہدین ایسے ہی مجتہد ہیں۔ بعض مسالک میں عبادات میں فتوی ایک مجتہد کا ہے ، قضاء میں کسی اور مجتہدکا قابل ترجیح ہے اور سیر میں کسی اور کا۔ بہر حال مجتہد کے لئے اتنا جاننا ضروری ہے کہ جس فن، جس باب اور جس مسئلہ میں وہ اجتہاد کرنا چاہتا ہے اس فن، باب اور مسئلہ میں اس کے سامنے سمعی دلائل کون سے ہیں۔ باقی مجتہد کے لئے دو تین درجن شرائط حقیقت میں غیر متعلقہ ہیں جو شاید اس لئے ہیں کہ مسلمان خوف زدہ رہیں اور بعض مذاہب کی قید سے نجات نہ پا سکیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اجتہاد کی اقسام:
اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ عام اجتہاد ۲۔ خاص اجتہاد

۱۔عام اجتہاد سے مراد وہ اجتہاد ہے جو احوال ظاہری سے تعلق رکھتا ہو۔ اور

۲۔خاص اجتہاد سے مراد وہ اجتہاد ہے جس کا تعلق احوال باطنی سے ہو یعنی وہ حالات جو اوپری سطح(Face value)پر دکھائی نہ دیتے ہوں مگر وہ گہری سطح(under current)میں موجود ہوں۔ پہلے کا تعلق بصارت سے ہے اور دوسرے کا بصیرت سے۔مثلاً صلح حدیبیہ کے وقت جو بظاہر حالات تھے وہ تمام تر اہل اسلام کے خلاف تھے کیوں کہ دس سالہ ناجنگ معاہدہ مخالفین کی یک طرفہ شرطوں کو مان کر کیا جارہا تھا۔ صلح کے اس ظاہری پہلو کی بناء پر اسے قبول کرنا صحابہ کے لئے سخت گراں تھا حتی کہ عمر فاروقؓ نے اس معاہدہ کو دَنِیَّۃ قرار دیا۔

قرآن کی اس آیت نے اس معاملہ پر تبصرہ کرکے حقیقت کو یوں واضح کیا: {فعلم ما لم تعلموا}۔ پس اللہ نے جانا جو تم نے نہ جانا۔ جس کا مطلب ہے کہ تم صرف دکھائی دینے والی باتوں کو جانتے تھے مگر اسی کے ساتھ کچھ بظاہر نہ دکھائی دینے والی باتیں بھی وہاں موجود تھیں اور اللہ کی راہنمائی سے اللہ کے رسول نے ان بظاہر نہ دکھائی دینے والی باتوں کی بنیاد پر صلح کا یہ معاہدہ کر لیا۔ چنانچہ دوسال سے بھی کم مدت میں اہل اسلام کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے بڑھ کر دس ہزار تک پہنچ گئی۔یا

اجتہاد کی یہ دو قسمیں بھی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انفرادی اجتہاد
اجتماعی اجتہاد

۱۔زمانہ سابق میں مجتہداپنے تمام تر وسائل کے باوجودکسی بھی مسئلے میں اجتہاد انفرادی طور پر کرتا۔ جس میں دیگر مجتہدین کی شرکت ناممکن ہوتی۔ ایک فرد کا اجتہاد مقامی سطح پر یا جہاں تک اس کے شاگردوں اور اتباع کا اثر رسوخ ہوتا وہ پہنچ پاتا۔ اس لئے اس زمانہ میں دیگر مجتہدین کی موجودگی انہیں ایک جگہ اکٹھا نہ کرسکی تاکہ باہمی نقاش سے کوئی متفقہ رائے بن پاتی۔ایسے اجتہاد کو انفرادی اجتہاد کا درجہ حاصل ہے مگراس کی آج ضرورت نہیں۔

۲۔ اجتماعی اجتہاد جو دنیا بھر میں پھیلے مختلف علماء وفضلاء کی اجتہادی آراء سے مستفید ہونے کا نام ہے۔ موجودہ دور میں جدید آلات ووسائل اس میں بڑے معاون ہیں۔یہاں استدلال ونقاش کی بڑی گنجائش ہے اور افہام وتفہیم کی بھی۔اورآپس میں مل بیٹھ کر متفقہ رائے قائم کرنا بھی ممکن ہے۔اس لئے عصر حاضر میں انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہاد کی ضرورت واہمیت ہے۔ حکومت سعودیہ نے مکہ مکرمہ میں جو علماء کا بورڈ بنایا ہے اس میں دنیا بھر کے متخصص علماء اس کے ممبر ہیں جو کسی بھی ایسے مسئلہ کو جس کی وضاحت قرآن وحدیث میں نہ ہواس پر ان کے اجتہادات قابل تحسین ہیں۔ مثلاً: بینکنگ میں سود شامل ہے اس بورڈ کی کوشش ہے کہ ایسا بینکنگ نظام بنایا جائے جس میں سود کسی بھی صورت میں داخل نہ ہوسکے۔ یہی حال انشورنس کا ہے۔ نیز کلوننگ، تبدیلی اعضاء وغیرہ یہ ایسے مسائل ہیں جن پر اجتہاد ہوا ہے اور ہورہا ہے کیونکہ ان کی وضاحت قرآن وسنت میں موجود نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اجتہاد ومجتہدکی شرائط:

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے عِقْدُ الْجِیْدِ میں اجتہاد اور مجتہد کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجتہد میں پانچ قسم کے علوم کا ہونا ضروری ہے:

الْمُجْتَہِدُ مَنْ جَمَعَ خَمْسَۃَ أَنْوَاعٍ مِنَ الْعِلْمِ، عِلْمُ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، وَعِلْمُ سُنَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ، وَأَقَاوِیْلَ عُلَمَائِ السَّلَفِ مِنْ إجْمَاعِہِمْ وَاخْتِلاَفِہِمْ، وَعِلْمُ اللُّغَۃِ وَعِلْمُ الْقِیَاسِ۔
مجتہد وہ ہے جس میں پانچ علم ہوں۔ کتاب اللہ کا علم، سنت رسول کا علم، علماء سلف کے اجماعی اور اختلافی اقوال، لغت کا علم اور قیاس واستنباط کا علم۔

اس تعریف کی مزید تفصیل کے لئے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو شخص اجتہاد کا راستہ اپنانا چاہتا ہے وہ یہ یاد رکھے کہ اجتہاد چونکہ فہم وفراست اور ذہانت کے استعمال کا نام ہے اور اس میں غلطی کا امکان بھی ہے۔ اس لئے اس کے لئے یہ ضروری ہے :

۱۔نیک نیت ہواور صحیح عقیدہ والا بھی، اللہ اوررسول کے علاوہ کسی شخصیت یا گروہ کے تعصب میں مبتلا نہ ہو۔

۲۔ وہ اپنے اجتہاد کی ذمہ داری خود قبول کرے۔ اپنے اجتہاد کو اللہ ورسول کی طرف منسوب نہ کرے۔ اس لئے کہ اللہ ورسول کی طرف غلط بات منسوب کرنا شرعاً حرام ہے۔ یہ قطعا جائز نہ ہوگا کہ اجتہاد ،مجتہد کا ہو اور اسے اللہ ورسول کا حکم قرار دے دیا جائے۔ ایسا کہنا گویا خود کو معصوم کہلوانا ہے۔ قرآن وحدیث کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام جیسی برگزیدہ ہستیاں بھی کئی بار اجتہادی خطا سے دو چار ہوئیں۔ اللہ چاہتا تو ان سے یہ غلطی نہ ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے از خود یہ غلطی کروائی تاکہ دنیا یہ سمجھ لے کہ نبی بشر ہوتا ہے کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں اور نہ ہی خدائی اختیارات رکھتا ہے دوسرا یہ کہ نبی سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے تو امتی تو بالأولی خطا کر سکتے ہیں۔ جب نبی کی خطا اللہ تعالیٰ کی بات نہیں ہے تو غیر نبی کی اجتہادی خطا کو اللہ کی بات کہنا بالأولی حرام ہے۔ ہماری اس ساری گفتگو کی دلیل ملاحظہ کیجئے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
… سیدنا نوح علیہ السلام نے أہل سے مراد۔۔ نسبی اہل سمجھا تو ان کی خطا پر اللہ نے مطلع کیا اور فرمایا: {إنی أعظک أن تکون من الجاہلین}۔ یہ باتیں نادانوں کی سی ہیں دوبارہ مت کیجئے گا۔

… سیدنا داؤد علیہ السلام کے اس فیصلہ پر کہ بچہ بڑی عمر والی خاتون کو دے دیا جائے جناب سیدنا سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بچہ کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے اور ہر عورت کو ایک ایک حصہ دے دیا جائے جس پر بڑی عمر والی عورت بخوشی راضی ہوگئی مگر چھوٹی عمر والی خاتون نے کہا یہ بچہ میرا نہیں ہے یہ بڑی کا ہے اسے کاٹو مت بلکہ بڑی کو ہی دے دو ۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے وہ بچہ چھوٹی کو ہی دے دیا۔ چونکہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے فیصلے کی اساس بڑی عمر والا ہونا تھا جو کہ درست نہیں تھی اس لئے ان کا اجتہاد درست نہیں تھا اور {فہمنہا سلیمان} ہی قابل تسلیم ٹھہرا۔

… اساری بدر کے معاملے میں سیدنا ابوبکر ؓ کا مشورہ معاف کرنے کا تھا اور سیدنا عمرؓ کا قتل کرنے کا۔ مگر رسول اکرم ﷺ نے مشورہ صدیقؓ کو پسند فرما کر ان قیدیوں سے فدیہ لیا اور رہا کردیا۔ آیات جو بعد میں اتریں ان سے واضح ہوا کہ آپ ﷺ اور جناب صدیق اکبرؓ کی رائے مبنی بر رضاء الٰہی نہ تھی۔ قرآن نے اس کی نشان دہی کردی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان واقعات واجتہادات سے یہ معلوم ہوا کہ:

٭… اگر اجتہادی خطا کا ازالہ ممکن ہو تو اس کا ازالہ فوری ہونا چاہئے جیسا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کیا۔ اور اگرناممکن ہو توپھر وہ اجتہاد نافذ العمل رہے گا جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں ہوا۔ عدالت بھی اپنے فیصلہ کی اجتہادی غلطی معلوم ہونے پر اپنا فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔

٭… سیدنا داؤد علیہ السلام کی موجودگی میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اجتہاد کیا اور جناب رسول اکرم ﷺ کی موجودگی میں شیخین محترمین نے اجتہاد کیا۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام اور جناب عمرؓ کا اجتہاد درست تھا جب کہ دونوں دوسروں کی نسبت چھوٹے تھے۔ داؤدعلیہ السلام والد اور سلیمان علیہ السلام ان کے بیٹے تھے ۔علم میں داؤدعلیہ السلام اپنے بیٹے سے بڑھ کر تھے مگر جزوی فہم میں سلیمان علیہ السلام اپنے والد سے بڑھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ ہر لحاظ سے سیدنا عمرؓ سے بڑھ کر تھے اور ابو بکر ؓ بھی۔ مگر اجتہادی معاملہ میں چھوٹے لوگوں کی رائے مبنی بر صواب ثابت ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ بڑے امام کی رائے بھی بڑی ہو اور صرف نام کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے مقابل کسی چھوٹے کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے۔

٭… امام ابوحنیفہؒ مجموعی فہم میں قاضی ابویوسفؒ سے برتر ہیں اسی طرح امام شافعیؒ اپنے شاگرد امام مزنیؒ سے۔ مگر ہر ایک کے فقہی مسائل کو دیکھا جائے تو بیشتر مسائل میں ان شاگردوں کا فہم اپنے اساتذہ کے فہم سے زیادہ صائب نظر آتا ہے۔ مثلاً قاضی ابویوسفؒ اپنی کتاب الخراج میں لکھتے ہیں:

مال غنیمت کی تقسیم میں امام محترم جناب ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جو مجاہد گھوڑے پر سوار ہو اسے دو حصے ملیں گے ایک اس مجاہد کا اور دوسرا اس کے گھوڑے کا۔ اس کے بعد قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑ سوار کو تین حصے دئیے ۔ ایک حصہ مجاہد کا اور دو حصے گھوڑے کے۔ امام ابوحنیفہؒ نے یہ حدیث سن کرمسترد کردی اور فرمایا: لاَ أُفَضِّلُ بَہِیْمَۃً عَلَی رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔ میں کسی چوپائے کو مسلمان مرد پر فضیلت اور برتری نہیں دے سکتا۔ قاضی ابویوسفؒ لکھتے ہیں: خود ہمارے شیخ محترم نے بھی تو چوپائے اور مجاہد کو برابر کا درجہ دے دیا ہے۔

٭… بعینہ امام شافعیؒ نے اپنے شیخ محترم امام مالکؒ کے کئی مسائل کی تغلیط کی ہے۔ یہ جزوی فہم کا اختلاف ہے جو فقہی کتب میں جا بجا آیا ہے۔ اور بعض اوقات مجموعی فہم پر اہمیت حاصل کرلیتا ہے اور اسے ماننا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ ائمہ کرام میں سے کسی نے اپنے اجتہاد کو شریعت قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کوئی مجتہد نہیں جانتا کہ اس کی اجتہادی رائے عین اللہ کی رضا کے مطابق ہے یا کہ نہیں ہے ۔ان کے اقوال اس بارے میں شاہد ہیں۔

٭۔ اس لئے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی، فقہ حنبلی اور فقہ جعفری کی اسی معنی میں کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے کہ وہ عین شریعت ہے۔ اسلامی شریعت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تضاد نہیں جب کہ فقہی اجتہادات میں تضادات نہ صرف قولی ہیں بلکہ اصولی ہیں۔ ایک چیز اگر فقہ حنفی میں حرام ہے تو فقہ شافعی میں وہ حلال ہے۔ فقہ حنفی میں ایک عمل نکاح ہے یا زنا، تو فقہ شافعی میں وہ زنا ہے یا نکاح۔ اگر ان اجتہادات کو شریعت مانا جائے تو خدانخواستہ شریعت تضادات کا مجموعہ ہوئی جو بالکل غلط ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے کہ شریعت مطہرہ میں ایک چیز بیک وقت حلال بھی ہو اور حرام بھی۔ نکاح بھی ہو اور زنا بھی۔ لہٰذا یہ فقہی مذاہب مختلف آراء کا مجموعہ توہیں مگر شریعت نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دیگر شرائط اجتہاد ومجتہد:

۳۔ مجتہد کو عربی زبان کا اتنا علم ہو کہ وہ عبارات ، الفاظ اور کلام میں وارد مختلف اسالیب کو سمجھ سکتا ہو۔ کیونکہ قرآن مجید شریعت کا اصل منبع ہے، اور سنت رسول اس کی شارح، دونوں عربی زبان میں ہیں۔

۴۔ اسے کتاب وسنت کی نصوص جیسے آیات احکام وناسخ ومنسوخ کا اتنا علم ہو کہ ان سے احکام کو اخذ کرسکتا ہو۔ اگر کوئی مسئلہ در پیش آجائے تو وہ اس سے متعلق قرآن میں جتنی آیات اور سنت میں جتنی احادیث ہیں ان سب کو اپنے ذہن میں تازہ کرسکتا ہو۔ اگر اسے قرآن وسنت کا اتنا علم نہ ہو تو وہ مجتہد نہیں ہوسکتا اور نہ اسے اجتہاد کرنا چاہئے۔

۵۔ صحیح اور ضعیف حدیث کی پہچان کا اسے علم ہو جیسے اسناد کی معرفت اور علم رجال وغیرہ۔

۶۔ اجماع اور مواقع اجماع کا علم ہو مبادا کہ وہ کسی ایسے مسئلہ میں فتوی دے بیٹھے جس پر اجماع موجود ہو۔

۷۔ اسے صحابہ کرام ، تابعین اور بعد کے فقہاء کے مابین مسائل میں اختلاف، اس کے اسباب اور دلائل کا علم ہو تاکہ وہ ان میں صحیح کو غیر صحیح سے اور کتاب وسنت سے قریب تر کو غیر قریب سے الگ پہچان سکے۔

۸۔ اسے اصول فقہ اور ان کے مابین اختلاف کا اور شریعت کے مآخذ سے احکام کو صحیح طور پر اخذ کرنے کے طریقے کا علم ہو۔وجوہ قیاس ، اس کی معتبر شرائط اور فقہی قواعد کی بھی اسے معرفت ہو۔مقاصد شریعہ کا بھی صحیح ادراک اسے ہو

۹۔ اسے شریعت کے مقاصد، اس کے احکام کی علتوں اور ان کے پیچھے کار فرما حکمتوں کا علم ہو اور وہ یہ جان سکتا ہو کہ لوگوں کے مفادات میں سے کون سے شریعت کی نگاہ میں معتبر ہیں اور کون سے غیر معتبر؟۔

۱۰۔ اجتہاد کرتے وقت وہ کسی مخصوص فکر ، شخصیت سے متاثر یا تعصب مذہبی کا شکار نہ ہو۔

درجہ بالا شروط بعض علماء کے ہاں مقید اجتہاد کی ہیں۔ مثلاً مسئلہ مسح علی الخفین کی جو رعایت شریعت میں رکھی گئی ہے کیا وہ رعایت آج کے صنعتی موزوں کے لئے بھی ہے ؟ یا انجکشن کی سوئی جسم میں داخل ہونے سے وضوء ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ تو ایسے مسائل کے حل کے لئے اور اجتہاد کے لئے مذکورہ پانچ علوم کافی ہیں۔ایسا آدمی اپنے علم کی بنیاد پر قدیم فقہی ذخیرہ میں ایک ایسا جزئیہ پا سکتا ہے جس میں فقیہ نے یہ فتوی دیا ہو کہ بچھو کسی کے جسم میں ڈنک داخل کردے تو اس کی وجہ سے اس کا وضو ٹوٹے گا یا نہیں۔ مگر غیر مقید اجتہاد کے لئے یہ شروط کافی نہیں۔ ایسے اجتہاد کے لئے ان شروط کے علاوہ ایک مزید شرط بھی حدیث میں آئی ہے وہ یہ کہ: وعَلَی الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(جامع العلوم والحکم از ابن رجب حنبلی ص: ۹۸) عقل مند ودانا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کو خوب جاننے والا ہو۔ یعنی حالات زمانہ سے واقفیت رکھتا ہو اور ملکہ اجتہاد رکھتا ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اختلاف ہو تو حق ایک کے ساتھ ہوگا:
بعض فقہاء کہتے ہیں اجتہاد کرنے والوں کے جتنے اقوال ہیں وہ سب درست اور صحیح ہیں۔ ان کا استدلال یہ حدیث ہے : أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ بِأَیِّہِمْ اقْتَدَیْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ۔ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پا جاؤگے۔ یہ حدیث محدثین کے نزدیک موضوع اور من گھڑت ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی ناقابل تسلیم ۔کیونکہ اگر اختلاف رحمت ہوتا تو پھر اتفاق ایک زحمت ہی ٹھہرتا۔ اس بارے میں صحیح مسلک امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ اور دیگر جمہور فقہاء کا ہے اور وہ یہ کہ مختلف اقوال میں سے حق صرف ایک قول میں ہے۔ جو اگرچہ ہمارے لئے غیر متعین ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں متعین ہے کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک چیز کسی شخص کے لئے بیک وقت حلال بھی ہو اور حرام بھی۔ صحابہ کرام اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کی غلطی واضح کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے پر اعتراض بھی کیا کرتے تھے۔ اگر ہر مجتہد کا اجتہاد صحیح اور برحق ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو غلط ٹھہراتے اور آپس میں اعتراضات کرتے۔مسلک اعتدال والی بات یہی ہے نہ کہ سب کو حق پرست کہہ کر سیاسی بات کہنا یا عوامی بننا۔

شیخ لکھنویؒ کا فیصلہ:
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ مسلم علماء فقہاء کے ہاں ہر دور میں اجتہاد ہوا ہے۔ ان اجتہادی کوششوں میں آپس میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔اس لئے فتویٰ دینے میں فقہاء کے مختلف اقوال اجتہادات مفتی کے سامنے آجائیں تو ایسی صورت میں مفتی کو کیا کرنا چائیے؟ مولانا عبد الحی لکھنوی ؒ امام الکلام میں فرماتے ہیں:
جو نظر انصاف رکھتا ہے اور کتب فقہ و اصول کے سمندروں میں غوطہ زن ہوتا ہے وہ یقینا جان لے گا کہ بیشتر فروعی و اصولی مسائل میں علماء کا اختلاف ہے۔ لہٰذا محدثین کرام کا نکتہ نظر ہی اوروں کے نقطئہ نظر سے قوی تر ہوتاہے۔ میں جب بھی اختلافی مسائل سے گزرتا ہوں تو مجھے محدثین کا فیصلہ ہی انصاف کے قریب ترین نظر آتا ہے۔ بخدا ان کا کیا کہنا ، اللہ ہی ان کو جزا دے گا۔ وہ کیوں نہ دے یہی تو سچے وارث نبی ہیں اور شریعت کے کھرے نمائندے۔ اللہ ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے اور ان کی محبت وسیرت پر ہی ہمیں دنیا سے اٹھائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس لئے بقول بعض کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے غیر تحقیقی بات ہے۔ علماء نے اسے مستقل ایک عمل سمجھا ہے اور امت میں روز اول سے ہی جاری ہے اور جاری رہے گا۔ مولانا بحر العلوم عبد العلی حنفیؒ نے ایسے لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جو کہتے ہیں کہ اجتہاد مطلق ائمہ اربعہ تک تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے: یہ سب محض بے عقلی کی باتیں ہیں جس پر وہ کوئی دلیل نہیں دے سکے۔ ہٰذَا کُلُّہُ ہَوَسٌ مِنْ ہَوَسَاتِہِمْ، لَمْ یَأتُوا بِدَلِیْلٍ وَلاَ یَعْبَأُ بِکَلَامِہِمْ (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، جلد ۲)۔ ہمارے ایک معاصر دانش ور لکھتے ہیں: عجیب بات ہے کہ دور عباسی کے جن علماء کے نام پر کچھ لوگ اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کا دعوی کرتے ہیں انہْوں نے خود کبھی صراحۃً یا کنایۃً ایسی بات نہیں کہی۔ بلاتشبیہ میں کہوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہم نبی آخر الزمان مانتے ہیں کیوں کہ آپ ﷺ نے خود اپنی زبان سے یہ اعلان فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ مگر فقہاء اربعہ یا اس دور کے کسی بھی بڑے فقیہ نے کبھی ایسی بات نہ کہی اور نہ لکھی۔

یاد رکھئے! عالی دماغ انسانوں کی پیدائش کبھی بند نہیں ہوتی وہ ہمیشہ جاری رہتی ہے۔چنانچہ خود نظام فطرت کے تحت اسلام کے بعد کی تاریخ میں بار بار اعلی صلاحیت کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امام الغزالی (م: ۱۱۱۱ء) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ(م: ۱۳۲۸ء) شاہ ولی اللہ دہلوی(م:۱۷۶۲ء) وغیرہ۔ یہ کہنا امت کی تصغیر ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد اس صلاحیت کے لوگ امت میں پیدا نہیں ہوئے حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اپنے وسیع مطالعہ، اپنی اعلی ذہنی استعداد اور اپنی بے داغ اسلامیت کے ساتھ اس قابل تھے کہ وہ مجتہد مطلق کا کردار ادا کرسکیں۔چونکہ یہ دین بہتے چشمے کی طرح ہے اس لئے کسی بھی مجتہد وقت کے اجتہاد کو اس زمانہ وحالات میں تو اہمیت ہوگی مگر یہ ضروری نہیں کہ اس کی وفات کے بعد حالات بدلنے پر بھی اس کے اجتہادات من وعن قبول کئے جائیں۔ہاں مجتہد کے نہیں بلکہ مجتہدین کے اجتہادات اگر مفید ہوں تو ان سے فائدہ ضرور اٹھایا جاسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک غلط فہمی:
تمام مسالک یا دینی مسائل کا احاطہ کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس لئے وہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا اسے کسی نہ کسی کی تقلید بہر حا ل کرنی چاہئے۔ ورنہ وہ خواہش نفس کے مطابق اپنی پسندیدہ چیز کا انتخاب کرسکتا ہے ۔نیز وہ تقوی و دیانت داری کے اس اعلی مقام کو بھی نہیں پاسکتا جس پر ہمارے بزرگ تھے۔

ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ آٹھ سالہ درس نظامی پڑھنے کے بعد بھی ایک عالم صرف ایک ہی مسلک کو بمشکل جان پاتا ہے اسے کیا علم کہ دیگر مذاہب کے علماء کے اصول فقہ اور استنباطات کے استدلال کیا ہیں؟ ہاں اگر وہ تمام ائمہ فقہاء کو پڑھتا تو شاید اس کی آنکھیں ان سب کے ادب واحترام میں جھک جاتیں اورکتب میں جو لے دے ہوئی ہے وہ ان کے بارے میں نہ صرف معذرت کرتا بلکہ ان سے اجتناب بھی۔
 
Top