• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کے مصادر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قائم مدارس مسالک کی بنیاد پر بنے ہیں جن میں صرف اپنی فقہ اس لئے پڑھائی جاتی ہے تاکہ چند مخصوص مسائل میں دوسروں کے اعتراضات کے جواب طلبہ جان سکیں اور ترجیح بھی قائم کرسکیں۔احادیث رسول کا مطالعہ جتنی عجلت سے کرایا جاتا ہے اس سے حدیث کا صحیح علم کہاں حاصل ہوتاہے۔ مسلک کی محبت دیانتداری اور صحیح علم سے محروم کردیتی ہے۔اس لئے ایک رسول کا انتخاب خواہش نفس نہیں بلکہ اطاعت ہے جوآسان ہے مگر چار یا پانچ علماء وفقہاء کی آراء میں سے چناؤ کرنا مشکل ہے۔اطاعت صرف رسول کی بات یا عمل میں ہوتی ہے نہ کہ کسی اور کی بات میں۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ یہ سب چیزیں مسلکوں کی نظر میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں؟ اور تقلید سب سے زیادہ اہم؟

باقی صحیح کون ہے اور غلط کون؟ اس مسلکی لڑائی کو ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ جلسے ، جلوس ، مناظرہ بازی، فلائرز ، بینرزاورتصنیفات ، نیز دروس وتدریس میں مسابقت اور سب سے آخر میں اپنی جماعت ، گروہ اور مسلک کی دعوت وغیرہ جس میں أدع إلی سبیل ربک کی بات کم ہے اور أدع إلی سبیل جماعتک کی زیادہ۔

دنیا بھر میں مسلمانوں کے پاس اب اسلام کو متعارف کرانے کے لئے یہی فقہی مسلک ہی تو رہ گئے ہیں۔مگر کیا اہل دین کے مسائل میں کمی آئی ہے یا ان میں اضافہ ہوا ہے؟۔باقی صحیح اسلام کہاں ہے؟ اس کے اپنے بھی متلاشی ہیں اور غیر بھی۔ایک عام مسلمان کواگر صحیح دین سمجھنے میں اتنی کنفیوژن ہے تو غیر مسلم کے لئے اسے قبول کرناکون سا آسان ہوگا؟۔

٭٭٭٭٭
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خیر القرون کا علم اورفقہی آزادی

صدیق اکبرکا علم واجتہاد:
سید الانبیاء رﷺ نے جو علم چھوڑااس کے بارے میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا کہ یہ سارا علم میرے پاس ہے اور استنباط مسائل یا اجتہاد میرے لئے ممکن ہے۔تو اس کے سب سے زیادہ مستحق صحابہ کرامؓ تھے۔ جو آپ کے ساتھ سفرو حضر میں رہے۔ آپ کے ارشادات کو جنہوں نے بغور سنا۔ آپ کے اعمال کو انہوں نے بغور دیکھا۔مگر ان میں سے ایک نے بھی یہ دعوی نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے بارے میں یہ مبالغہ آرائی انہوں نے کی۔ان صحابہ کرامؓ میں بھی اگر علمی اعتبارسے تفریق کی جائے تو جناب ابو بکر صدیقؓ سب سے زیادہ مستحق تھے جو دعویٰ کرتے کہ رسول اللہﷺ کا سارا علم میرے پاس ہے۔ یا صحابہ کرام ہی دعویٰ کرتے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ ہی آپ کا سارا علم جمع کئے ہوئے ہیں۔ مگر نہ خلیفۃ الرسول ابوبکرؓ نے کبھی یہ دعویٰ کیا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے یہ مبالغہ آرائی کی۔ ایک اور صحابی رسول سیدنا عمران بن حصینؓ نے یہی علم دوسروں کو دے دیا تھا۔ (ابوداؤد،ترمذی)

نصوص کے بارے میں ان کی احتیاط پرامام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کَانَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَوَّلُ مَنِ احْتَاطَ فِی قَبُولِ الأخْبَارِ۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جو اخبار کو قبول کرنے میں بڑے محتاط رہے۔

امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خلافتِ صدیقی میں ایک دادی نے خلیفۃ الرسول سے میراث کا حصہ مانگا تو فرمایا:اللہ کی کتاب میں تو تمہارا کوئی حصہ مذکورنہیں۔ میرے علم کی حد تک سنتِ رسول میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ ہاں میں لوگوں سے اس معاملہ میں مزید دریافت کروں گا۔ چنانچہ سیدناابوبکرؓ نے جب جناب مغیرہ ؓبن شعبہ اورجناب محمد ؓبن سلمہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے شہادت دی کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے دادی کو ایک چوتھائی حصہ میراث دلوائی تھی۔ یوں سیدناابوبکرؓ نے دادی کو حصہ دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرتدین کے بارے میں سیدنا ابو بکر کا موقف اجتہادی تھا۔ سیدنا عمر اور دیگر صحابہ انہیں کہتے رہے کہ ان کے خلاف تلوار اٹھانا مناسب نہیں کیونکہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں۔ اس موقع پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
وَاللّٰہِ لَوْ مَنَعُونِیْ عَقَالاً کَانُوا یُؤَدُّونَہُ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَیہِ۔
اللہ کی قسم یہ لوگ اگر رسول اکرم ﷺ کو اونٹ کی عقال دیتے تھے اور مجھے دینے سے انکار کرہے ہیں تو میں ان کے خلاف ضرور لڑوں گا۔ اسی طرح یہ قول بھی:
وَاللّٰہِ لَا أُفَرِّقُ بَینَ مَا جَمَعَہُ اللّٰہُ مِنَ الصَّلاۃِ وَالزَّکٰوۃِ۔
بخدا میں ان چیزوں میں تفریق نہیں کروں گا جنہیں اللہ تعالیٰ نے جمع کیا ہے۔ یہ قول ان کے اجتہادی موقف اور منصب کو واضح کرتا ہے کیونکہ انہوں نے دلیل نص سے دی تھی اس لئے سبھی صحابہ نے مانا۔

تاہم سیدنا ابوبکرؓ، جو سفروحضر بلکہ بچپن سے لیکر جوانی اور جوانی سے لیکر بڑھاپے تک تقریباً تمام اوقات آپ کے رفیق خاص رہے۔ حتی کہ رات کے وقت بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اور راتوں کو بیدار رہ کر مسلمانوں کے حالات پر غوروفکر کرتے رہے۔آپﷺ ان کے بارے میں اکثر یوں فرماتے: میں،ابوبکرؓ اور عمرؓ آئے۔ میں،ابوبکرؓ اور عمرؓ داخل ہوئے۔ میں،ابوبکرؓ اور عمر ؓ باہر نکلے۔شب اسراء میں آپ ﷺ نے جبریل امین سے کہا: مکی لوگ میری تصدیق نہیں کررہے ٖ جبریل امین نے عرض کی تو کیا ابوبکر آپ ﷺ کی تصدیق نہیں کررہے وہی تو صدیق ہیں۔(طبقات ابن سعد) مگر اس اعزاز اور دائمی رفاقت کے باوجود حضورﷺ کی فرمائی ہوئی بعض سنن رسول سے ناواقف تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فاروق اعظمؓ کا علم واجتہاد:
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی مجتہدصحابہ میں سے تھے۔انہوں نے اجتہاد کی ضرورت پر قاضی شریح رحمہ اللہ کو گائیڈ لائن بھی دی۔شرابی کی سزا شریعت نے مقرر نہیں کی تھی بلکہ حسب حال اجتہاد پر اسے چھوڑ دیا تھا۔زمانہ فاروقی میں جب عراق ، شام اور مصر کے علاقے فتح ہوئے تولوگوں میں شراب نوشی بھی عام تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس انحرافی لہر کو روکنے کے لئے اور شرابی کو رسوا کن سزا دینے کے لئے اجتہاد کیا اورچیف آف آرمی سٹاف ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا:
أُدْعُ الشَّارِبِینَ وَاسْألْہُمْ: أَحَلاَلٌ الْخَمْرُ اَمْْ حَرَامٌ؟ فَإنْ زَعَمُوا أَنَّہَا حَلاَلٌ فَاقْتُلْہُمْ کَمُرْتَدِّیْنَ، وَإِنْ قَالُوا إِنَّہَا حَرَامٌ فَاجْلِدْہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً۔
ان شرابیوں کو بلاؤ اور ان سے پوچھو: کیا شراب حلال ہے یا حرام؟ اگر وہ سمجھیں کہ یہ حلال ہے تو پھر انہیں مرتدین کی طرح قتل کردو اور اگر کہیں حرام ہے تو پھر انہیں اسی کوڑے لگاؤ۔

زمانہ وحال کے بدلنے پران کا یہ اجتہاد بھی ہے کہ لفظ واحد سے دی گئی تین طلاق تین ہی شمار ہوں گی۔

صحیح مسلم میں ہے: زمانہ نبوی ، خلافت صدیقی میں اور دو سال خلافت فاروقی میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعجَلُوا فِی أَمْرٍ کَانَتْ لَہُمْ فِیہِ أَنَاۃٌ، فَلَو أَمْضَینَاہُمْ عَلَیہِمْ؟ فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ۔
لوگوں نے ایک ایسے معاملے کو جس میں انہیں سوچنے یا رجوع کرنے کا موقع دیا اس میں جلدی کردی۔ کیا خیال ہے پھر ہم اسے نافذ ہی نہ کردیں؟ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر اس فیصلہ کو نافذ کردیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس سب کچھ کے باوجود سیدنا عمررضی اللہ عنہ بعض شرعی وحدیثی مسائل سے ناواقف تھے۔انہیں دروازے پرتین بار آواز دے کر لوٹ جانے والی حدیث معلوم نہ تھی آخر انہیں ابوموسیٰ اشعریؓ سے معلوم ہوئی۔ نیز انہیں دیت جنین کا مسئلہ معلوم نہ تھاوہ مغیرۃ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوا۔ اسی طرح انگلیوں کی دیت والی حدیث معلوم نہ ہونے کی وجہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انگوٹھے اور اس کے پاس والی انگلی کی دیت میں پچیس اونٹ کا حکم جاری کر دیا۔آخر دوسرے صحابہ کرام کے ذریعے انہیں علم ہوا کہ آپ ﷺ نے ہر انگلی پر دس دس اونٹ دیت مقرر فرمائی تھی۔ یوں سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ مجوس سے جزیہ لینا ہے یا نہیں؟ سیدنا عبد الرحمن بن عوف ؓ سے انہیں اس کی خبر ملی۔

دیت زوج میں عورت میراث پا سکتی ہے یا نہیں؟ ضحاکؓ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنے دیہات سے انہیں لکھ کر بھیجا کہ رسالت مآب ﷺ نے میراث دلائی ہے۔انہوں نے اسے مانا۔کیا انبیاء کے نام رکھے جا سکتے ہیں؟ سیدناعمررضی اللہ عنہ اس سے منع فرمایا کرتے تھے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے جب اس کے جواز کا علم ہوا تو رجوع کرلیا۔نماز میں شک پڑنے پر نمازی کیا کرے؟ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب حدیث بتائی تو علم ہوا۔یہی صحابی تھے جنہوں نے طاعون کی حدیث سنا کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو شام کے سفر سے روکا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عثما ن ذو النورین کا علم واجتہاد:
امیر المومنین سیدنا عثمانؓ بن عفان رضی اللہ عنہ بھی مجتہد تھے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آذربائیجان سے مدینہ صرف اس لئے تشریف لائے تاکہ امیر المؤمنین ذو النورین کو یہ اطلاع دیں کہ کس طرح قرأت قرآن میں اختلاف رونما ہورہا ہے۔ شامی مقداد بن اسود اور ابوذر رضی اللہ عنہما کی قرأت پر اور عراقی عبد اللہ بن مسعود اور ابوموسیٰ اشعری کی قرأت پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ہرایک اپنے آپ کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہہ رہا ہے۔ انہوں نے آتے ہی یہ عرض کی:
یَا أَمِیرَ الْمُؤمِنِینَ! أَدْرِکْ ہٰذِہِ الأمَّۃَ قَبْلَ أَنْ تَخْتَلِفَ فِی کِتَابِہَا کَمَا اخْتَلَفَ الَْذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ فِی کُتُبِہِمْ۔
امیرا لمؤمنین! اس امت کا خیال کیجئے اس سے پہلے کہ وہ اپنی کتاب میں اس طرح کا اختلاف کربیٹھیں جس طرح ان سے پہلے وہ اپنی کتب میں اختلاف کربیٹھے۔چنانچہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر انہوں نے صحابہ کرام کو جمع کرکے مشورہ کیا اور کمیٹی تشکیل دے کر اپنی اجتہادی رائے دی کہ قرآن کریم کو ایک حرف اور ایک خط میں لکھا جائے ۔رومن امپائر کے ساتھ جنگ کے لئے بحری فوج اور اس کے بیڑے کی تیاری کا اولین اجتہادی مشورہ بھی انہی کا تھا۔

مگر انہیں متوفی عنہا زوجہا کے محل عدت کی حدیث معلوم نہ تھی۔ جو فریعہ ؓبنت مالک رضی اللہ عنہا نے بتائی۔ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو انبیاء کے مال میں وراثت جاری نہ ہونے کی حدیث معلوم نہ تھی۔وہ اس سے بھی لاعلم تھے کہ آگ سے عذاب دینے کی ممانعت بھی شریعت میں موجودہے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا علم واجتہاد:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی افتاء میں اعلی مقام پر تھے اور لوگوں کے فیصلے انتہائی منفرد مگر بھرپور صلاحیتوں اور خوبیوں سے کرتے تھے۔انہیں قرآن کریم کی عربی لغت کا علم بھی تھا اور سنت نبویہ کا بھی۔ انہیں شرعی مصادر کی مکمل درایت حاصل تھی حتی کہ اسباب ورود حدیث، ناسخ ومنسوخ کی معرفت، مجمل ومبین، مطلق ومقید وغیرہ اصول فقہ کا بھی ادراک رکھتے تھے۔جب بھی کوئی فیصلہ وفتوی دینا ہوتا تو فوراً کتاب وسنت کی طرف ہی رجوع فرماتے۔

ایک شخص کی دوبیویاں تھیں دونوں نے ایک ہی رات لڑکا اور لڑکی جنے۔ صبح ہوئی تو لڑکے کے بارے میں وہ جھگڑ بیٹھیں۔ معاملہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ انہوں نے فرمایا: دونوں مائیں اپنا اپنا دودھ وزن کریں جس کا دودھ زیادہ ہوگا وہی لڑکے کی ماں ہوگی۔

دو آدمی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک نزاع لائے۔ ایک نے کہا: اللہ کے رسول! اس شخص کی گائے نے میرا گدھا مار دیا ہے۔ دوسرا بولا: جانوروں کی کون ضمانت دے۔آپ ﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا: علیؓ! تم بتاؤ کیا فیصلہ کرنا چاہئے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا تمہارے جانور بندھے تھے یا کھلے تھے؟ یا ایک بندھا تھا اور دوسرا کھلا تھا؟ دونوں نے کہا گدھا بندھا تھا اور گائے کھلی تھی اور گائے کا مالک بھی موجود تھا۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا:

صَاحِبُ الْبَقَرَۃِ ضَامِنُ الْحِمَارِ۔ گائے والا ہی گدھے کا ضامن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی فیصلہ کو ہی صادر فرمادیا۔

زر بن حبیش کہتے ہیں: دو آدمی کھانا کھانے بیٹھے۔ ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین۔ اتنے میں کوئی راہ گیر آگیا انہوں نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی۔ اس طرح سب نے مل کر آٹھ روٹیاں کھائیں۔ راہ گیر نے چلتے وقت یہ کہتے ہوئے انہیں آٹھ درہم دیئے جو میں نے کھایا ہے یہ پیسے اس کے عوض ہیں۔ دونوں میں اب یہ توتکار شروع ہوئی۔ پانچ روٹیوں والے نے کہا میرے پانچ درہم ہیں اور تمہارے تین۔ تین ر وٹیوں والے نے کہا: نہیں ۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ درہم ہم میں برابر تقسیم ہوں گے۔ دونوں اپنے معاملے کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے آئے اور سارا قصہ سنایا۔ سیدنا علی ؓ نے تین روٹی والے سے فرمایا: سنو ! تمہارے ساتھی نے جو تمہیں پیش کش کی ہے اس پر راضی ہوجاؤ۔ اس لئے کہ اس کی روٹیاں تمہاری روٹیوں سے زیادہ تھیں۔ وہ کہنے لگا ایسا ہو ہی نہیں سکتا الا یہ کہ کوئی صحیح تر بات ہو۔ اس پر سیدنا علی ؓ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو سنو! تمہارا حق صرف ایک درہم کا ہے اور باقی سات درہم تمہارے ساتھی کے ہیں۔ آدمی کہنے لگا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟۔ آپ نے فرمایا: یہی ہی ہے تمہارا حق۔ کہنے لگا: آپ مجھے صحیح بات سمجھائیے تاکہ میں اسے قبول کرسکوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چوبیس روٹیوں کی تہائی آٹھ روٹی بنتی ہیں۔ جنہیں تم تین افراد نے کھایا ہے۔ اور یہ بھی تم میں کوئی نہیں جانتا کہ کہ کس نے کم کھایا ہے اور کس نے زیادہ۔ اس لئے تم سب کھانے میں برابر ہو۔ پھر فرمایا: تم نے ان کا تیسرا حصہ یعنی آٹھ روٹیاں کھائیں۔ اور تمہاری نو میں تین روٹی تھیں۔ تمہارے ساتھی نے بھی تیسرا حصہ یعنی آٹھ روٹیاں کھائیں۔ اور اس کی پندرہ میں پانچ روٹیاں تھیں۔ اس نے آٹھ کھائیں باقی سات رہ گئیں۔ جنہیں درہم والے نے کھالیں اور تمہاری نو میں سے صرف ایک کھائی۔اس لئے اب تمہیں ایک کے بدلے ایک درہم ملے گا اور اسے سات کے بدلے سات درہم۔ آدمی کہنے لگا: بات سمجھ آگئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دیگر صحابہ کا علم:
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو لیجئے۔ ان کے پاس بلا شبہ سنتِ رسول کا خاصا علم تھا۔ مگر تھے وہ بھی انسان۔ کچھ مسائل سنت ایسے تھے جو صحابہ کرام کے مابین متفق تھے مگر وہ بھول گئے یا ان تک حدیث نہیں پہنچی۔ یا انہیں ناسخ کا علم نہیں ہو سکااوروہ الگ نکتہ نظر رکھتے تھے۔ مشہور حنفی محقق امام زیلعیؒ نے نصب الرایہ میں ان کے چند ایسے مسائل کی تفصیل دی ہے۔ مثلاً:

…معوّذتین کو وہ قرآن مجید کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔مگر صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے اتنا کہا تھا: یہ دو سورتیں شر اور خرابی سے بچنے کے لئے نازل کی گئی ہیں۔

…رکوع میں دونوں ہاتھوں کو ملا کر دونوں گھٹنوں کے درمیان دے دیتے تھے۔جسے تطبیق کہتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اس کی اجازت دیتے تھے۔ حالانکہ یہ پہلے تھا پھر منسوخ ہو گیا۔ مگر ان دونوں کو معلوم نہ ہو سکا۔

…سجدہ میں اپنی کہنیاں بھی زمین پہ رکھتے تھے۔

…آپﷺ نے آیت "وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَوَالأُنْثٰیٰ" کس طرح پڑھی۔ ابنِ مسعودؓ اسے بھول گئے تھے۔

…رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین یعنی دونوں ہاتھوں کو کان اور مونڈھے کے درمیان تک اٹھانا نہیں جانتے تھے۔

… انہیں اس عورت کے مہر کے بارے میں حدیث معلوم نہ تھی جس کا خاوند حق مہر مقرر کئے بغیر فوت ہو گیا۔ عرصہ بعدسیدنا معقلؓ بن یسار سے یہ مسئلہ انہیں معلوم ہوا۔

…جنبی کے لئے تیمم کرنے کی اجازت، شریعت میں موجود ہے مگر ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس حدیث سے بھی ناواقف تھے۔

… سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کورسول اکرم ﷺکی نماز ظہر وعصر میں قراء ت کرنے کی حدیث کا علم نہیں تھا۔

… محافظ حدیث رسول سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مسح خفین کی حدیث سے لا علمی تھی۔ کیا روزہ دار حالت جنابت میں صبح کرسکتا ہے یا نہیں؟یہ مسئلہ بھی انہیں معلوم نہیں تھا۔

… ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والی حدیث معلوم نہیں تھی۔ اسی طرح مسح خفین والی بھی۔

نصوص جب ان صحابہ تک نہ پہنچ سکیں تو جس بات کے وہ قائل ہوئے برابر وہ اسی کے قائل رہے۔ ان کو نص پہنچی ہی نہیں یا خیال میں نہیں آئی۔ یا یہ بھی کہ وہ ایک حکم کے قائل رہے اور انہیں ناسخ معلوم ہی نہ ہو سکا۔ مثلا:

… محب سنت رسول سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما موزوں کے مسح میں وقت مقرر کرنے( توقیت) کے قائل نہیں تھے بلکہ اجازت دیتے تھے کہ جب تک چاہے آدمی مسح کرتا رہے۔اس مسئلے میں جو احادیث تھیں وہ ان تک نہ پہنچیں۔ وہ خواتین کو غسل کے وقت بال کھولنے کا حکم دیا کرتے حالانکہ ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ کی حدیث میں جو اجازت دی گئی وہ ان کو نہ پہنچی۔

… ممتازصحابیہ سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کومستحاضہ والی حدیث کا علم نہیں تھا وہ استحاضہ میں نماز ہی نہیں پڑھتی تھیں۔

…سیدنا ابن عمر اورسیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم دونوں دریا کے پانی سے جواز طہارت کے قائل نہ تھے۔

… سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نیندکوناقض وضو نہ سمجھتے تھے خواہ سونے والا جیسے اورجس قدرسوتا رہے مگر اسکا وضو نہیں جاتا۔

…وہ برتن جن میں شراب پی جاتی تھی حرمت خمر کے بعد ان کا استعمال ممنوع تھا۔ بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ مگر حضرات صحابہ میں ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہمادونوں منع ہی سمجھتے رہے۔ انہیں ناسخ کا علم نہ ہو سکا۔

…قربانی کا گوشت تین دن سے زائد رکھنا آپ نے ممنوع قرار دیا تھا۔ حالات کے بہتر ہونے کے بعد آپ نے اجازت مرحمت فرما دی۔ جناب علی وابن عمر رضی اللہ عنہما اسے ممنوع ہی سمجھتے رہے۔ انہیں ناسخ نہ پہنچ سکا۔

… اسی طرح نکاح متعہ آپ ﷺنے حرام فرما کر منسوخ کردیا ۔بہت سے صحابہ کو اس کے منسوخ ہونے کی اطلاع ہی نہ ہو سکی وہ اسے جائز ہی کہتے رہے۔جن میں عبد اللہ بن مسعود، ابن عباس، اسماء بنت ابی بکر، سیدنامعاویہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صحابہ کا سنہری اصول:
یہ سب معلومات فقہی کتب میں بے شمار ایسی مثالوں کے ساتھ موجود ہیں۔ بعض علماء نے ان کی کچھ نہ کچھ تاویلیں کی ہیں مگر اس سے انکار نہیں کہ ان مقدس ہستیوں کو حدیث رسول نہیں پہنچ سکی۔جس کی وجہ سے ان میں یہ اختلاف رائے ہوا ۔ علم اور اس کا آزادانہ اظہار ان کے جذبہ اطاعت رسول کو کم نہ کر سکا اور نہ ہی صحیح بات کی قبولیت میں کوئی ہچکچاہٹ۔ ان کا ایک اصول یہ تھا کہ مسئلے کی وضاحت جب حدیث رسول سے ہوجائے توپھر بلاتامل اسے قبول کرلینا چاہئے۔ وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے مزاج اور گھٹی میں تسلیم واطاعت کاجذبہ ہمہ وقت زندہ ہوتا تھا۔آج ہمارے جو حالات ہیں ان کا تقاضا یہی ہے کہ یہ تفاصیل لکھی جائیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ائمہ فقہاء کا علم:
غر ض یہ کہ سیدنا ابوبکرؓ و دیگر صحابہء کرامؓ جو اکثرو بیشتر آپ ﷺکے ساتھ رہے، ان کے علم کا جب یہ حال تھاکہ وہ رسول اکرمﷺ کے ساتھ رہتے ہوئے اور علم کی محبت رکھتے ہوئے آپ کی کم وبیش احادیث اور سنتوں کو نہیں جانتے تھے یا لا علم رہے تو بعد والے علمأو ائمہ کا کیا حال ہوگا؟ اس لئے جس طرح ہم سیدناابوبکرؓو دیگر صحابہء کرامؓ کے بارے میں یہ مبالغہ آرائی نہیں کرسکتے کہ وہ جناب رسالت مآب رسول اکرمﷺ کی تمام احادیث وغیرہ کا علم رکھتے تھے اسی طرح امت کے کسی امام، عالم، مجتھد کے بارے میں بھی یہ مبالغہ آرائی انتہائی نامناسب ہو گی۔ کہ فلاں امام وغیرہ کے پاس شریعت کا سارا علم تھا۔یا یہ سمجھنا کہ بعد کے ائمہ فقہاء صحابہ سے افضل تھے مثلاً:
اَبُو حَنِیْفَۃَ أَفْضَلُ مِنْ عَلِیٍّ یا یُقَلِّدُ الشَّافِعِیَّ وَلاَ یُقَلِّدُ أَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ۔ (الفتاوی الکبری۶/۲۰۰)
کیونکہ بہت سے فقہی مسائل ایسے ہیں جن کی دلیل ان ائمہ حضرات کو نہ مل سکی، یا وہ بے خبر رہے یا لا علم تھے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اہم دینی معاملات میں ان ائمہ کبار سے ایک مسئلہ بھی منقول نہیں۔

٭٭٭٭٭​


فقہ اسلامی ۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
 
Top