• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کے چند مسائل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رفع حرج کی مثالیں:

…پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کا استعمال
…نمازی جس طرح بھی نماز پڑھنے کی استطاعت رکھتا ہے ویسے ہی پڑھ لے۔ جوکھڑا نہیں ہوسکتا وہ بیٹھ کر اور جو بیٹھ کر نہیں وہ پہلو پہ لیٹے لیٹے پڑھ لے۔
… رمضان میں مسافر اور بیمار کو روزہ نہ رکھنے اجازت۔ جب صحت یاب ہو تو ان کی قضا دے دے۔
…موزوں اور جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت اس لئے کہ ان کے اتارنے اور پاؤں کو دھونے میں مشقت ہے۔
… طلاق کی اجازت، رجوع کی اجازت اور طلاق کی تعداد کا تعین کہ تین تک نہ پہنچ پائیں۔
…لعان کی اجازت۔ وغیرہ

۲۔قلتِ تکلیف:
کم سے کم اعمال دیئے جائیں تا کہ لوگ دین کو بآسانی اور خوشی سے اپنا سکیں۔

۳۔تدریج:
کسی بھی بدعادت کو چھڑانے اور اسے اچھائی کی طرف لانے کا تدریجی پہلو نظر انداز نہ کیا جائے۔

آج ان تینوں پہلوؤں کو نظر انداز کرکے شریعت یا فقہ اسلامی کو بہت مشکل بنادیا گیا ہے اور ایسے مسائل پیش کئے جاتے ہیں جن کا فقہ سے یا شریعت کے مزاج سے کوئی تعلق نہیں۔ آپﷺ کا یہ ارشاد گرامی گو سخت ہے مگر اسی مزاج کی نشان دہی کرتا ہے:
لَاطَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوفِ۔
اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت فرض نہیں۔ بلاشبہ اطاعت تو معروف میں ہوا کرتی ہے۔

اس کی وضاحتی مثال یہ ہے کہ کسی سفر میں مسلمانوں کے( أولی الأمر) امیر نے ان سے کہا : آگ میں کود جاؤ۔ کچھ نے ارادہ بھی کرلیا مگر آپﷺ کو جب علم ہوا تو فرمایا: اگر یہ کود جاتے تو ہمیشہ آگ میں ہی رہتے۔اس لئے کہ یہ صحیح اسلامی فقہ نہیں ہے۔اس واقعہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ:

…ان کا کودنا کیا اپنے امام اور اولی الأمر کے فرمان کے مطابق نہیں تھااور کیااس کی بجاآوری وہ اپنے اوپر واجب نہیں سمجھتے تھے؟

… آپ ﷺ کے سخت ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ ـانہوں نے اپنی سمجھ پر زور کیوں نہ دیااور صرف أولی الأمر کے حکم پر اللہ کی نافرمانی کرنے کے لئے تیار ہوگئے؟۔

… اطاعت کے حکم کو انہوں نے عام بنا دیاجس میں وہ چیز بھی داخل کردی جو شارع کی منشاء کے خلاف تھی بلکہ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ حرکت دین کے خلاف ہے۔

… باوجود اس کے انہوں نے اعلیٰ بات یا اعلیٰ پہلو سمجھنے کی کوشش نہ کی اور خود کو ہلاک کرنے اور اپنی جانوں پر عذاب کرنے کی ٹھان لی اور وہ بھی بغیر ثبوت اور دلیل کے کہ یہ اللہ و رسول کی اطاعت بھی ہے یا نہیں؟

لہٰذا جب معمولی غلطی پر اس قدرسخت وعید ہے کہ وہ اگر ایسا کر لیتے تو جہنمی بن جاتے تو پھر ان لوگوں کی سزا کا تصور تو بہت بھیانک نظر آتا ہے جو کھلے عام ان احکام کے خلاف فتوے دیں یا کسی عمل سے باز رکھیں جو ہادی برحق نے کرکے دکھا دیا ہو۔

یہی دین کا مزاج ہے اور ہر عمل میں کار فرما ہے۔ اس کے بغیر دین کی صحیح اشاعت نہیں ہوسکتی۔ اولی الامرکی اطاعت کیجئے مگر آنکھیں کھول کر۔ بند آنکھیں کسی گڑھے میں گرا سکتی ہیں اوربے بصیرتی بہت بڑا اندھا پن ہے۔ نیز یہ علم مسلمان کو خواہشات کا بندہ بھی نہیں بننے دیتا اور نہ ہی طوق و سلاسل کے بوجھ تلے دبنے دیتا ہے۔یہ اتنا آسان دین ہے کہ لوگ فکری ہم آہنگی کے ساتھ شریعت کے جھنڈے تلے جمع ہو سکتے ہیں۔ اس لئے تو شریعت اپنی وسعت کے باوجود فکری اتحاد پر اکساتی ضرور ہے مگر اس کی اجازت نہیں دیتی کہ چار افراد رائے دیں اور پھر ہر ایک کی رائے پر سختی سے جمود اختیار کر کے اسے مذہب بنالیا جائے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اس انتشار فکر اور تعصب نے مسلمانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔

دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ کتاب اللہ کو ہم نے مشکل کتاب کہہ دیا اور اس کے فہم کے لئے سولہ یا ساٹھ علوم کی شرط عائدکر دی ۔ عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ قرآن اگر سمجھنا اتنامشکل ہے تو پھر یہ اترا کیوں؟ اور اترا تو کس کے لئے؟ یہ سوچ ہدی للناس کا کیا مفہوم دیتی ہے؟

احادیث رسول کو بھی اہل سنت کے ایک بڑے طبقے نے مشکل موضوع بنادیا۔ روایت ودرایت کا سہارا لے کر صحیح حدیث کی ایسی تاویلات کیں کہ لوگ کیا ایک طالب علم بھی متنفر ہوجائے۔ مگر اپنی فقہ کی انتہائی دقیق، مشکل اور پیچیدہ کتب کو آسان سجھا دیا اور اس کے مسائل بھی آسان فقہ لگے۔وہاں اختلاف بھی اتحاد نظر آیا۔مگر ایسا رویہ حدیث ِ رسول کے ساتھ نہ برتا جاسکا۔ کاش کچھ محنت قرآن وحدیث کی تفہیم پر بھی صرف ہوتی۔ اور آسان قرآن یا آسان حدیث مسلمان کو باور ہوتی۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ان پبلشرز کو جو اب قرآن وحدیث کے علم کوسہل اور خالص صورت میں پیش کر کے ایسی غلط فہمیاں دور کررہے ہیں۔ ان مطبوعہ کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فقہاء عظام کی آراء میں خدا خوفی اور وسعت علمی ہے۔ وہ محترم بھی رہے اور اختلاف کا حق بھی دیا۔ نہ انہیں ایک دوسرے پر غصہ آیا اور نہ ہی وہ گستاخ ٹھہرے اور نہ ہی کسی نے ان سے تعاون کو حرام قرار دیا۔

٭٭٭٭٭​

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے کسی نے چلتے چلتے یہ کہا: مجھے کوئی حدیث بیان کردیجئے تاکہ میں آپ کو یاد رکھ سکوں۔ انہوں نے فرمایا: اگر مجھے یاد ہی رکھنا ہے تو تم مجھے یاد کرلینا کہ میں نے ان سے اس طرح حدیث رسول پوچھی تھی مگر انہوں نے نہ سنائی۔


فقہ اسلامی ۔ایک تعارف ، ایک تجزیہ
 
Top