• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اہل حدیث کی چند خوبیاں ۔۔۔ از عبد السلام مبارکپوری رحمہ اللہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مولانا عبد السلام مبارکپوری رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف ’’ سیرۃ البخاری ‘‘ کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ مولانا نے سیرت بخاری کے متعلق مباحث کو بڑی خوبی سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت امام کے نکات حدیثیہ اور دقائق فقہیہ کو بھی خوب واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسی سلسلہ میں کتاب کے اندر ایک مستقل فصل ’’ فقہ البخاری ‘‘ کے عنوان سے موجود ہے ۔
جس میں آپ نے بالخصوص امام بخاری کے منہج کی وضاحت کے ساتھ ساتھ بالعموم تمام اہل حدیث اور محدثین کرام کی ہاں فقہی استنباطات میں پائی جانی والی بعض خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔
پوری فصل تو کافی طویل ہے جس کو مکمل لکھنا بہت مشکل تھا اس لیے ارادہ ہےکہ اس طویل مبحث سے چند نکات قارئین کے گوش گزار کیے جائیں تاکہ اختصار سے طوالت اور اجمال سے تفصیل جاننے کا شوق اصل کتاب تک پہنچنے کا ذریعہ بن جائے ۔
اختصار کی نوعیت یہ ہےکہ جو لیا گیا ہے وہ مصنف کے الفاظ ہی ہیں جہاں اختصار کی ضرورت محسوس ہوئی وہاںسرے سے عبارت کو ہی حذف کردیا گیا ہے ۔ یہ کام بالکل نہیں کیا کہ ایک لمبی عبارت کو اپنے الفاظ میں مختصر کرکے بیان کردیا گیا ہو ۔ لیکن پھر بھی بہر صورت وہ حضرات جو اس تحریر کا ناقدانہ جائزہ لینا چاہتے ہیں انہیں اصل کتاب کا مطالعہ کرکے اپنے تجزیہ کی بنیاد اس پر رکھنی چاہیے ۔ اصل کتاب کے اندر مولانا عبد العظیم بستوی حفظہ اللہ کے گرانقدر حواشی بھی ہیں لہذا قارئین سے التماس ہے کہ اس اختصار کو اصل کتاب ( سیرۃ البخاری ۔ صدی ایڈیشن ) کے قائم مقام بالکل خیال نہ کیا جائے ۔
اسی طرح اس بات کی وضاحت بھی مناسب رہے گی کہ موضوع کا عنوان ’’ فقہ اہل الحدیث کی خوبیاں ‘‘ یہ محقق کی طرف سے قائم کردہ ہے جس کو یہاں برقرار رکھا گیا ہے ۔
آئندہ شراکتوں میں مواد پیش خدمت ہے :
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فقہ اہل الحدیث کی خوبیاں

(ماخوذ و مختصر از ’’ سیرۃ البخاری ص 426 و ما بعدہا )
تمہید
امام بخاری کے لیے افقہ الناس یا سید الفقہاء یا امام الدنیا فی الفقہ کا لقب عام طور پر ایسا ہی غیر مانوس خیال کیا جائے گا جس طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لیے اہل حدیث یا عامل بالحدیث ہونے کا لقب حالانکہ امام بخاری کے افقہ الناس یا سید الفقہاء سے ملقب ہونےکے لیے کسی خارجی شہادت کی ضرورت نہیں ۔ لیس الخبر کالمعاینۃ ۔ امام بخاری کی دقیقہ سنجی اور دقت نظری کی بین شہادتیں مرور ِ دہور پر بھی اب تک موجود ہیں جن کا سلسلہ امام بخاری تک ہزاروں طرق سے پہنچتا ہے اس وجہ سے کوئی ضرورت نہیں کہ زور ِ طبیعت سے برجستہ جوابات کے دل ِ خوش کن قصے تصنیف کرکے امام بخاری کی طرف منسوب کیے جائیں ۔ ( جیساکہ عموما معتقدین کا قاعدہ ہے ۔ ) نہ حیرت الفقہ کی تصنیف کی ضرورت ہے ۔ تاہم ان لوگوں کے لیے جن کے دماغ جن کی طبیعتیں اقوال الرجال کی خوگر ہیں ، اس عینی شہادت کے علاوہ کتب اسماء الرجال اور مستند تواریخ میں بکثرت شہادتیں موجود ہیں ۔ صرف ان فقہاء و محدثین و شیوخ کے اقوال جمع کیے جائیں جن کا فضل و کمال مسلم ہے تو ایک بسیط کتاب بن جائے ۔ امام اسحاق بن راہویہ ، محمد بن بشار جن کا لقب بندار ہے ، امام دارمی ، علی بن مدینی ، امام ابو حاتم رازی ، قتیبہ بن سعید ، امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ، علی بن حجر ، ابو سہل فقیہ ، اسماعیل بن اویس ، امام احمد بن حنبل یہ وہ لوگ ہیں جن کے کمالات علمیہ کا چار دانگ عالم میں شہرہ ہے ۔ اکثر ان میں وہ ہیں جن کے کمالات علمیہ پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ کوئی تو ان میں امام بخاری کو سید الفقہاء کا لقب دیتا ہے ، کوئی افقہ خلق اللہ کہتا ہے ۔ کوئی فقیہ ہذہ الأمۃ کوئی امام مالک سے تشبیہ دیتا ہے ، کوئی امام احمد بن حنبل پر ترجیح ۔
لیکن یہ صدا ہمارے کانوں میں غیر مانوس معلوم ہوگی کیونکہ وہ فقہ جس سے ہمارے کان آشنا ہیں ، ان قیاسی مسائل کے انبار کا نام ہے جو کسی امام کے قول کو ماخذ بنا کر اس سے استخراج کیے گئے ہیں یا کسی فقیہ کے قواعد مقررہ پر تفریع کیے گئے ہیں ، اسی کو عموما فقہ کہاجاتا ہے اور اسی تخریج کا نام فقاہت ہے جس سے بڑے بڑے فتاوے تیار ہوکر ملک میں رائج ہیں ۔ امام بخاری کی فقاہت کا اندازہ اسی وقت کیاجاسکتا ہے کہ فقہ سے کسی قدر مفصل بحث کی جائے اور اہل ملک کے خیالات سے غلط فہمی کا پردہ اٹھایا جائے ۔اس لیے ہم یہاں کچھ بسط سے کام لینا غیر مناسب نہیں سمجھتے ۔
فقہ اہل الحدیث کی خوبیاں
1
سب سے اعلی اور مقدم خصوصیت جو فقہ اہل حدیث کو حاصل ہے ، وہ مسائل فقہ کا ان مصالح اور اسرارپر مبنی ہونا ہےجس کو قرآن نے نصاب بتایا ہے ۔ یا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یا آپ کی تقریر سے یااس موقع سے جس محل میں حدیث وارد ہوئی تھی ، خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے سمجھا تھا ، بخلاف اہل الرائے کے کہ اکثر مسائل کی بنا ان کے اپنے قائم کردہ مصالح پر ہے یا کسی مظنہ حرج وغیرہ پر جو اجتہاد کے وقت خیال میں آئے اور ان قائم کردہ مصالح پر تخریج در تخریج کی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے اکثر مقامات پر قوانین شریعت سے اس قدر بعد ہوجاتا ہے کہ ایک سمجھ دار آدمی حیران ہوکر رہ جاتا ہے ۔
2
ایک دوسری خصوصیت فقہ اہل حدیث کو بہ نسبت فقہ اہل الرائے کے جو حاصل ہے ، وہ مسائل کا یسیر العمل ہونے کے ساتھ اعتدال کا جامع ہونا ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد جگہ آیا ہےکہ خدا تم لوگوں کے ساتھ آسانی چاہتا ہے ، سختی نہیں چاہتا ۔ ( حاشیہ ) جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ میں نرم اور آسان شریعت لے کر آیا ہوں ۔ ( حاشیہ ) بے شبہ اسلام کو تمام اور مذہبوں کے مقابلہ میں یہ فخر حاصل ہے کہ وہ رہبانیت سے نہایت بعید ہے ، اس میں عبادات شاقہ نہیں ۔
اس کے مسائل آسان اور یسیر التعمیل ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قوانین شریعت ہوا پرستی سے نہایت دور رکھے گئے ہیں ۔ فقہائے محدثین نے اپنے اجتہاد و استنباط میں اس کی نہایت نگہداشت کی اور ان کے مسائل اجتہادیہ اس افراط و تفریط دونوں سے نہایت محفوظ رہے ، نہ تو وہ زن ِ مفقود الخبر کے لیے نوے برس بیٹھنے کا حکم دیتے ہیں کہ زن مفقود الخبر اپنے اوپر نان و نفقہ و معاشرت کی تکلیف گوارا کرکے نوے برس تک بیٹھی رہے اور جب قبر میں پاؤں لٹکائے تو نکاح کی اجازت ملے ۔
اولا تو اس قدر عمر پانا شاذو نادر ہے ۔ ثانیا جوانی کے وقت سے وہ رنج و کوفت میں رہبانیت اختیار کرے اور جب قبر میں پاؤں لٹکائے تو عروس بننے کی اجازت دے دی جائے ۔
نہ اس قدر وسعت کہ اگر کوئی شخص کسی عورت کو کسی طرح ایسے الفاظ سکھائے جس کا معنی ایجاب ہو اور وہ عورت نہ سمجھتی ہو ۔ اگر اس عورت نے وہ کلمہ دو شخصوں کے سامنے کہا اور مرد نے قبول کرلیا تو یہ نکا ح ہوگیا اور عورت قید نکاح میں آگئی ، خواہ گواہ بھی ان الفاظ کو نہ سمجھتے ہوں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
3
فقہ کا بہت بڑا حصہ جس سے دنیوی ضرورتیں متعلق ہیں ، معاملات کا حصہ ہے اور یہی وہ موقع ہےجہاں ہر مجتہد کی دقت نظر اور نکتہ شناسی کا پورا اندازہ ہوسکتا ہے ۔ امام المحدثین نے تمدن و مصالح عباد کی رعایت کے ساتھ نصوص قرآنیہ و صحیح صحیح احادیث سے مسائل استنباط کرنے میں کمال سعی کی اور ان کونہایت کامیابی ہوئی ۔ امام المحدثین کے زمانہ میں سلطنت کا دائرہ نہایت وسیع ہوگیا تھا قوموں کے میل جول سےہزاروں صورتیں معاملات کی نئی پیدا ہوگئی تھیں ۔
اس کے سوا احادیث صحیحہ کے جمع اور منتخب نہ ہونے سے بہت سےمسائل پہلے مجتہدین کے ایسے مروج ہوگئےتھے جوصحیح نہ تھے ۔ امام المحدثین نے بہت بڑا کام پہلے یہ کیا کہ صحیح صحیح حدیثوں کو منتخب کیا اور عملی طور سے یہ دکھایا کہ انہیں سے تمام مسائل اور احکام استنباط کیے جاسکتے ہیں ۔ ( حاشیہ ) ایک ہی حدیث سے متعدد مسائل متعدد ابواب میں مستنبط کرکے استنباط کے اصول و طریقے بتائے ۔ اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ فقہ جو شرعی قانون ہے ، اس کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو محض انسانی رائے ہو اور مجتہد کو اس کے ساتھ وہی نسبت ہے جودنیا کے تمام مقننین کو ہوا کرتی ہے ۔ ( حاشیہ ) ... یہ دعوی کبھی نہیں کیا جاسکتا کہ امام بخاری معصوم تھے اور ان سے خطا اجتہادی نہیں ہوئی ہوگی جبک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ اور ان کے بعد کے آئمہ اس سے بری نہیں تو امام المحدثین کیوں کر بری ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے ہم خوش اعتقادی کی محویت میں امام بخاری کو معصوم بنا کر دوازدہ معصوم کا عدد پورا کرنا نہیں چاہتے ۔
مجتہد گاہ مصیب است و گہے خاطی لیک ہر چہ دروے نہ خطا حکم پیمبر گیرند
امام بخاری پہلے حدیث کی تنقید کرتے ہیں اور اس کی صحت ہر طرح جانچتے ہیں ۔ صحت کے یقین ہونے پر بھی احتیاطا اطمینان کے لیے استخارہ کرتے ہیں ۔ اطمینان ہونے پر حدیث کو اکثر کسی مسئلہ فقہیہ کے تحت ذکر کرتے ہیں جس کا نام ترجمۃ الباب ہے ۔ گو اس ترجمۃ الباب میں کبھی کسی مجمل آیت کی تفسیر اور تاویل صحیح حدیث سے کرتے ہیں ، کبھی مطلق کی تقیید ، کبھی عام کی تخصیص ، کبھی خاص کی تعمیم ، کبھی کسی آیت کے دو احتمالوں میں سے ایک کی تعیین ، کبھی غیر ثابت احادیث و آثار کی تردید ، کبھی اہل زمانہ کے مروجہ رسوم و عادات کو قرآن و حدیث کےمعیار سے جانچ کر اس کی صحت و غلطی کا اندازہ کرتے ہیں ۔ کبھی صحیح حدیث کی تائید ، کبھی کسی ضعیف حدیث کی صحت کی شہادت میں دوسری صحیح حدیث پیش کرتے ہیں ۔ کبھی ایک حدیث سے دوسری حدیث کے دو احتمالوں میں سے ایک کی تعیین کرتے ہیں ، کبھی دو متعارض حدیثوں کے دو محل دلیل سے بتا دیتے ہیں جس سے ظاہری تعارض رفع ہو جاتا ہے جیساکہ ان کا مفصل بیان گزر چکا ہے لیکن زیادہ تر تراجم ابواب میں مسائل فقہیہ کا استنباط ملحوظ ہے ۔ ( حاشیہ )​
4
اور بڑی خصوصیت جو فقہ اہل حدیث کو حاصل ہے ، وہ یہ ہے کہ عموما ان کے استدلال میں نصوص کا پہلو قوی ہوتا ہے اور یہ خصوصیت فقہ اہل حدیث کو صرف احادیث نبویہ کی خدمت کی بدولت حاصل ہوئی ہے ۔
امام بخاری نے صحیح حدیثوں کو جمع کیا اور ان پر استنباط مسائل کے لیے مجتہدانہ نظر ڈالی تو اہل الرائے کے بہت سے مسائل خلافِ نصوص ِ احادیثِ صحیحہ پائے ۔ اس لیے انھوں نے استنباط مسائل کے ساتھ اہل الرائے کے مسائل پر تعریضیں کیں ۔​
اس کے علاوہ کبھی وہ اگلے آئمہ کے اختلافی مسائل کی ترجیح بھی استدلالی پہلوسے بیان کرتےہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام المحدثین کی نگاہ ایک اور اہم کام پر لگی ہوئی تھی جس کا رنگ ان کی اکثر تالیفات میں پایا جاتا ہے اور اوسط ذہن کا آدمی بھی جس کی نگاہ کسی قدر وسیع ہو ، یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ صرف اجتہاد و استنباط مسائل ، ترتیب و تہذیب ِ فقہ اہل حدیث اور تدوین و تنقیدِ احادیث ہی ان کا اہم مقصد نہیں بلکہ ایک ضروری مقصد یہ بھی ہے کہ اہل تخریج کے مسائل قیاسیہ ( جو عجمیوں اور نومسلموں میں بوجہ نہ ملنے احادیث کے یا کسی اور دوسری وجہ سے بزور و شور مروج ہوگئے تھے ، عجمیوں کی آنکھیں کھلیں تو انھوں نے اسی کو پایا اور اس پر ان کا بے طرح جمود ہو چلا جس کے بہت سے اور اسباب تھے ) کی جانچ پڑتال کریں ۔
امام بخاری نے ایسے وقت میں جب کہ عراق میں جمود زور پکڑتا جارہا تھا ، دماغ و ہمت سے کام لیا اور عجمیوں و اتباع اہل الرائے کے اس غفلت اور جمود کے اٹھانے میں بڑی سعی کی ۔ احادیث صحیحہ سے جہاں فقہی مسائل اخراج کیے وہاں بڑا حصہ اپنی تصنیفات کا ان قیاسی مسائل کی تردید میں نظر کیا جو نصوص حدیثیہ کے خلاف اہل الرائے میں مروج تھے ۔ اور فی الحقیقت یہ ہمت کی بات تھی کیونکہ اہل الرائے کی مسائل قیاسیہ کی ترویج میں بعض سلطنتوں کی شرکت بھی تھی ۔ ان کی تردید کرنی سلطنت سے مقابلہ کرنا تھا ۔ امام المحدثین نے زیادہ تر تدوین احادیث میں ان کی تعریضا ًاور کنایتاً تردید کی ۔ والكناية أبلغ من التصريح –
۔(ختم شد )۔
 
Top