• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے اسباب وعوامل

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے اسباب وعوامل

یہ موضوع شروع کرنے سے پہلے کچھ باتیں عرض کرنامناسب ہے؟
تنقید کے دوطریقے ہوتے ہیں تعمیری تنقید اورتخریبی تنقیدجس کو بالفاظ دیگر مثبت تنقید اورمنفی تنقید کہہ سکتے ہیں۔ منفی تنقید سے ہماری مراد غلط تنقید اورتنقیص وتوہین نہیں ہے۔

ایک مصورتصویر بناتاہے۔تصویر اچھی ہے لیکن کچھ خامیاں ہیں۔ ایک شکل تویہ ہے کہ دوسری تصویر بناکر سامنے رکھ دی جائے جوان خامیوں سے مبراہو۔یہ میری نگاہ میں تعمیری تنقید اورمثبت تنقید ہے۔
دوسری شکل یہ ہے کہ تصویر میں جوخامیاں موجود ہین ان کی نشاندہی کردی جائے اوربتایاجائے کہ اس میں فلاں فلاں نقص اورخامی ہے۔اگرچہ تنقیدی دنیا میں ثانی الذکر طریقہ کار زیادہ معروف ہے لیکن ترجیح ہرحال میں اول الذکر طریقہ کارکوہی حاصل ہے۔اس طریقہ تنقید میں خون جگرصرف کرناپڑتاہے۔صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ عمل میں لاکر بتاناپڑتاہے ۔

فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تعلق سے مخالفانہ پروپیگنڈہ کے تعلق سے توبہت پہلے سے آگاہ تھا۔ ابھی حال میں ایک فورم پر اس موضوع پر معلمی کی تصنیف کے کچھ اقتباسات پڑھنے کو ملے جس میں معلمی نے فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے اسباب بیان کئے ہیں۔

پڑھ کرحیرت بھی ہوئی اوراس سے زیادہ افسوس بھی ہواکہ ان کے جیسے اہل علم بھی ضد اورتعصب میں آکر حقائق اورتاریخ کو اس درجہ مسخ کرسکتے ہیں لیکن کیاکیاجائے۔اگران جیسوں سے غلطیاں نہ ہوں توپھرتنقید کی دنیاویران نہیں ہوجائے گی۔ویسے راقم الحروف کے نزدیک اس کی دوسری توجیہہ یہ ہے کہ معلمی جس زمانے میں تانیب الخطیب لکوثری کا رد لکھ رہے تھے توبوجوہ چند اپنے خیالا ت میں متشدد اورفقہ حنفی اورامام ابوحنیفہ کے لئے مخالفانہ جذبات سے متاثر تھے۔لیکن تنکیل کی تصنیف سے فراغت اورردوکد کے ماحول سے نکلنے کے بعد ان کو ان کے اپنے ہی ضمیر نے ملامت کی اوردیگر کتابوں مثلاتاریخ البخاری وغیرہ میں امام ابوحنیفہ کااچھے انداز میں ذکر کیاہے۔جس پر مقبل الوادعی بھی حیرت کااظہار کئے بغیر نہ رہ سکے کہ جومعلمی تانیب الخطیب میں ہمیں نظرآتے ہیں تاریخ البخاری میں اپنی تعلیقات میں ان کا انداز بدلابدلاہواہے۔دیگر کچھ افراد کی شہادت بھی ہے کہ ان کے انتقال سے کچھ پہلے جب ان سے ملاقات ہوئی تووہ تنکیل میں اپنی تحریر اورانداز بیان پر نادم اورشرمندہ تھے۔

میں نے اس مضمون مین جوکہ شاید کچھ طویل ہوگیاہے۔ کوشش کی ہے کہ اس موضوع پر تعمیری اورتخریبی دونوں قسم کی تنقید کروں تاکہ قارئین کے سامنے دونوں پہلوآجائیں۔پہلے تعمیری تنقید کے طورپر فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تاریخی اورحقیقی اسباب بیان کئے گئے ہین اورتخریبی تنقید کے زیرعنوان معلمی کی بیان کردہ وجوہات پر رد کیاگیاہے۔وماتوفیقی الاباللہ

1:امام ابوحنیفہ کااخلاص

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کے اندر اپنے کام کے تعلق سے اخلاص ہوتاہے۔خداکی رضامقصود ہوتی ہے خداکے بھی اس کے نام اورکام کو زندہ اورباقی رکھتاہے۔ہم میں سے کون نہیں جانتاکہ امت محمدیہ کثیرالتصانیف امت ہے۔ لیکن اس کے باوجود چند کتابوں کو جوعالمگیرمقبولیت حاصل ہوئی وہ بعدوالوں کوحاصل نہ ہوسکی۔اس کی بڑی وجہ ان کتابوں کے مصنفین کا اخلاص اورنالہ نیم شب ہے۔
عطارہورومی ہورازی ہوغزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتابے آہ سحرگاہی

ہم یہ نہیں کہتے کہ جن کے مذاہب مٹ گئے یاپھرزیادہ مقبول نہ ہوئے ان کے موسسین کے اندراخلاص نہ تھاایسی بات سے خداکی پناہ۔ہوسکتاہے اس کی کچھ دوسری وجوہات ہوں گی۔ اللہ پاک نے دنیاکو اسباب وعلل کاکارخانہ بنایاہے۔ان کے مذہب کے مقبول نہ ہونے یامٹنے کی دوسری وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان کے موسسین کے اخلاص میں شبہ نہیں کیاجاسکتا۔
ہماراکہنایہ ہے کہ جولوگ فقہ حنفی ککی توسیع اورنشرواشاعت اوراکثر بلادوامصار میں قبولیت عامہ کو صرف سلطنتوں کی پشت پناہی کا ثمرہ سمجھتے ہیں وہ لوگ یقیناغلطی پر اورفاش غلطی پرہیں۔ اس قبولیت عامہ کا مرجع اورمنبع امام ابوحنیفہ کااخلاص اورخداکی رضاجوئی ہے۔

عن وکیع بن الجراح "کان واللہ ابوحنیفۃ عظیم الامانۃ ،وکان اللہ فی قبلہ،جلیلاعظیمایوثررضاہ علی کل شی ولواخذتہ السیوف فی اللہ تعالیٰ لاحتمل،فرضی اللہ عنہ رضاالابرار،فلقد کان واللہ منھم(مناقب الائمۃ الاربعۃ 60)
حدیث مین آتاہے کہ بندہ اعمال کرتارہتاہے یہاں تک اللہ کی نگاہوں میں محبوب ہوجاتاہے پھراللہ فرشتوں سے کہتے ہیں کہ میں اس بندے سے محبت کرتاہوں تم بھی اس سے محبت کرو اورپھراس بندے کی محبت سے زمین والوں کے دلوں کومعمور کردیاجاتاہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِيلَ فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ قَالَ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ ثُمَّ يُنَادِي فِي السَّمَاءِ فَيَقُولُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ قَالَ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نےفرمایا "اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر فرماتے ہیں میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر،چنانچہ جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور (ساتھ ہی) آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں تم بھی اس سے محبت کرو،چنانچہ آسمان والے (سب کے سب) اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر زمین میں اس کے لیے قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔(صحیح مسلم)
یہ امام ابوحنیفہ کااخلاص ہی تھاکہ انہوں نے زندگی بھراپنے مخالفین سے الجھنے کی کوشش نہیں کی۔اگرکسی نے کچھ غلط سلط کہابھی تواس کو سناان سناکردیایااس کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی۔اورمعاملہ خداکے سپرد کردیا۔اللہ کو اپنے بندے کی اداپسند آئی کہ اس کی خاموشی کابدلہ پورے عالم میں شہرت سے دیا۔

جعفر بن حسن کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب میں دیکھاتوپوچھاکہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیافرمایا۔میری مغفرت فرمادیا۔انہوں نے پوچھاعلم کی وجہ سے۔ توفرمایاکہ فتوی تومفتی کے اوپر بہت ہی سخت معاملہ ہے۔پھرانہوں نے پوچھاکہ کس وجہ سے مغفرت ہوئی توفرمایاکہ لوگوں کے میرے بارے میں ایساکہنے کی وجہ سے جومجھ میں نہیں تھی(یعنی ایسی برائیاں میری جانب منسوب کرنے کی وجہ سے جس سے میں بری تھا)(مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص52)

عباد تمارکہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہ کو خواب مین دیکھاتوپوچھاکہ کیامعاملہ پیش آیا۔انہوں نے کہاکہ اپنے رب کی وسیع رحمت کا معاملہ ہوا۔میں نے پوچھاکہ علم کی وجہ سے۔ انہوں نے جواب دیاکہ ہائے افسوس علم کیلئے توسخت شرائط ہیں اوراس کی اپنی آفتیں ہیں بہت کم لوگ اس سے بچ سکتے ہیں۔پھرمیں نے پوچھاکہ توپھرکس وجہ سے رحمت کا معاملہ ہوا۔فرمایاکہ میرے بارے میں لوگوں کی ایسی ایسی باتوں کے کہنے کی وجہ سے جس سے میں بری تھا۔(المصدرالسابق)

أَخْبَرَنِي إبراهيم بن مخلد المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو بكر أَحْمَد بن كامل، إملاء، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل السلمي، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن الزبير الحميدي، قال: سمعت سفيان بن عيينة، يقول: شيئان ما ظننت أنهما يجاوزان قنطرة الكوفة، وقد بلغا الآفاق: قراءة حمزة، ورأي أَبِي حنيفة.
(تاریخ بغداد15/475اسنادہ صحیح)
سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے بارے میں میراگمان تھاکہ وہ کوفہ کی حدود سے بھی تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ دنیابھر میں پھیل چکی ہیں۔ایک حمزہ کی قرات دوسرے ابوحنیفہ کے اجتہادات۔
فقہ حنفی کی قبولیت عامہ کی انشاء اللہ یہی بنیادی اوراولین وجہ ہے۔



2:رضائے الہی

حقیقت یہ ہے کہ فقہ حنفی سے جس طرح اسلامی ممالک اوربلادوامصار معمور رہے وہ صرف اللہ کی مرضی اورمنشاء سے ہی تعبیر کی جاسکتی ہے۔ ورنہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ کسی کے اجتہاد کو اتناقبولیت عام بخش دے۔
ہم دنیا میں ایسے کتنے ہی واقعات سے واقف ہیں کہ بہت سارے اشخاص جونہ صرف نہایت قابل اورعالم وفاضل تھے لیکن دنیاان کے فیض سے محروم رہی اوربہت سارے افراد بھلے ہی علمی اعتبار سے کم درجہ کے ہوں لیکن ان سے زیادہ فیض پہنچا۔اوراس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کی کوئی ادااللہ کوپسند آجاتی ہے اوراللہ اس کے فیض کو عام کردیتے ہیں اوراس کیلئے صدقہ جاریہ بنادیتے ہیں۔

خدانخواستہ ہماراکہنایہ نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ علم یاعمل کے اعتبار سے کسی سے کمترتھے بلکہ وہ علم وعمل کی جس بلندی پر تھے وہ تاریخ اورکتب سوانح میں مذکور ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت اورلوگوں کے قبول عام کو صرف رضائے الہی کا ثمرہ سمجھناچاہئے ۔اس کی جانب بعض علمائے نے رضائے الہی اوربعض نے سرالہی سے تعبیر کرکے اشارہ کیاہے۔چنانچہ امام ابن الاثیر لکھتے ہیں۔

ويدل على صحة نزاهته عنها، ما نشر الله تعالى له من الذِّكْر المنتشر في الآفاق، والعلم الذي طبق الأرض، والأَخْذ بمذهبه وفقهه والرجوع إلى قوله وفعله، وإن ذلك لو لم يكن لله فيه سرّ خفي، ورضى إِلهيّ، وفقه الله له لما اجتمع شطرُ الإسلامِ أو ما يقاربهُ على تقليده، والعمل برأيه ومذهبه حتى قد عُبِدَ اللهُ ودِيْنَ بفقهه، وعُمل برأيه، ومذهبه، وأُخذَ بقوله إلى يومنا هذا ما يقارب أربعمائة وخمسين سنة (جامع الاصول12/952)

ایک دوسری وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ فقہ حنفی بواسطہ امام حماد،ابراہیمی نخعی، علمقہ واسود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال پرمنتہی ہوتی ہے ۔اورصرف فقہ حنفی ہی کیوں کہئے۔ بلکہ تمام فقہاء کوفہ کافقہ وفتاویٰ میں اصل مرجع حضرت عبداللہ بن مسعود ہی ہی اوروہی دراصل فقہ کوفی کے بانی مبانی ہیں۔اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ ابن ام عبد جوتمہارے لئے پسند کریں میں بھی اس کوتمہارے لئے پسند کرتاہوں۔اورجوابن ام عبد ناپسندکریں میں بھی اس کوتمہارے لئے ناپسند کرتاہوں۔

رَضِيْتُ لأُمَّتِي مَا رَضِيَ لَهَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ(مستدرک حاکم3/317)

ایک دوسری روایت میں یہ لفظ بھی آیاہے۔

قَدْ رَضِيْتُ لَكُم مَا رَضِيَ لَكُمُ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ(مستدرک حاکم 3/319)

رَضِيتُ لأُمَّتِي مَا رَضِيَ لَهُمُ ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ ، وَكَرِهْتُ لأُمَّتِي مَا كَرِهَ لَهَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ "
(فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل)
اوریہ سمجھنامشکل نہیں کہ جواللہ کے رسول کی پسند ہوگی وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بھی پسندیدہ ہوگی ۔

فقہ حنفی مراد حق ہے اوراس کی قبولیت میں رضائے الہی کو دخل ہے اس کی جانب حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی اپنے بعض رسالوں میں اشارہ کیاہے۔ وہ اپنے مکاتیب میں لکھتے ہیں۔

ایک روز اس حدیث پر ہم نے گفتگو کی کہ ایمان اگرثریاکے پاس بھی ہوتا تو اہل فارس کے کچھ لوگ یاان میں کاایک شخص اس کوضرورحاصل کرلیتا۔فقیر (شاہ صاحب)نے کہاکہ امام ابوحنیفہ اس حکم میں داخل ہیں کیونکہ حق تعالیٰ نے علم فقہ کی اشاعت آپ ہی کے ذریعہ کرائی اوراہل اسلام کی ایک جماعت کو اس فقہ کے ذریعہ مہذب کیا۔ خصوصا اس اخیر دور میں کہ دولت دین کا سرمایہ یہی مذہب ہے۔سارے ملکوں اورشہروں میں بادشاہ حنفی ہیں۔قاضی حنفی ہیں ۔اکثر درس علوم دینے والے علماء اوراکثرعوام بھی حنفی ہیں۔ (کلمات طیبات مطبع مجتبائی ص168)
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ایک دوسرے مقام پر اپنے مکاشفات ذکر کرتے ہوئے لکھاہے۔

"مذہب کا معاملہ بھی ایساہی ہوتاہے کہ کبھی ایک ملت کی حفاظت کی طرح حق تعالیٰ کی عنایت خودکسی مذہب کی حفاظت کی طرف بھی متوجہ ہوتی ہے۔ اس معنی کرکہ اس مذہب کے نگہبان وپیرو ہی اس وقت ملت کی جانب سے مدافعت کرنے والے ہوتے ہیں۔یایہ کسی علاقے میں انہی کا شعارحق وباطل کے درمیان وجہ فرق ہوتاہے۔اس صورت حال کے پیش نظرملاء اعلی یاملاء اسفل میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ملت دراصل یہی مذہب ہے"۔
آگے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ

جب یہ تمہید ذہن نشیں ہوگئی توآگے کہتاہوں۔مجھے ایسانظرآتارہاکہ مذہب حنفی میں کوئی خاص بات اوراہم راز ہے ۔میں برابر اس مخفی راز کو سمجھنے کیلئے غوروفکر کرتارہاحتی کہ مجھ پر وہ بات کھل گئی جسے بیان کرچکاہوں۔میں نے دیکھاکہ معنی دقیق کے اعتبار سے اس مذہب کو ان دنوں تمام مذاہب پر غلبہ وفوقفیت حاصل ہے۔ اگرمعنی اولیٰ کے اعتبار سے بعض دوسرے مذاہب اس پر فائق بھی ہیں۔اورمیرے سامنے یہ بات بھی آئی کہ یہی وہ راز ہے جس کابسااوقات بعض ارباب کشف کسی درجہ میں ادراک کرلیتے ہیں اورپھراس کو تمام مذاہب کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں اوربعض مرتبہ یہی رازتصلب وپختگی کی بابت الہام کے طورپر اورکبھی خواب کی صورت میں اس طورپر ظاہر ہوتاہے کہ اس سے اس مذہب پر عمل کے سلسلہ میں تحریض ہوتی ہے"۔
(فیوض الحرمین105،بحوالہ فقہ ولی اللہی150)

یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کے بیشترادوار میں اسلامی مملکتوں کے سربراہ حنفی رہے ہیں اورسرحدوں کی حفاظت،دشمنان دین اسلام سے مقاتلہ،دارالاسلام کی توسیع اوراحکام شرعیہ کانفاذ انہی کے ہاتھوں میں رہالہذا حنفی مذہب کی بقاء اورحفاظت خود مرضی الہی رہی ہے۔

ایک دوسرے مقام پر حضرت شاہ صاحب نے فروعات فقہیہ میں اپنی قوم کی مخالفت کومراد حق کی مخالفت قرارددیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں

ان مراد الحق فیک ان یجمع شملامن شمل الامۃ المرحومہ بک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وایاک ان تخالف القوم فی الفروع فانہ مناقضۃ لمراد الحق(فیوض الحرمین ص62)
حق تعالیٰ کی مراد تم سے یہ ہے کہ امت مرحومہ کی شیرازی بندی کی جائے اورخبردار اپنی قوم کی فروعات میں مخالفت سے بچتے رہناکیونکہ وہ حق تعالیٰ کی مراد کے خلاف ہیں۔

یہ تھوڑے سے نصوص یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ رضائے الہی کےعنوان سے میں نے جوفقہ حنفی کی نشرواشاعت کا سبب بیان کیاہے ۔وہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے اوریہ راقم الحروف کی اختراع نہیں بلکہ دیگر سابق علماء کی تحقیق سے استمداد واستفادہ ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
قابل اورباصلاحیت شاگرد

حقیقت یہ ہے کہ شخصیت کتنی بھی عظیم کیوں نہ ہو لیکن تاریخی طورپر اس کانام اورکام جاری رہنے کیلئے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جواپنی ذات کی قربانی دے کر اپنے استاد یاتحریک کے موسس کے کام کو آگے بڑھاسکیں۔ایسے شاگردوں کاملنااورایسے افراد کا تحریک سے جڑنامحض فضل ربانی اورعطائے ایزدی ہے۔ ورنہ تاریخ کی کتنی ہی نامور ہستیاں ایسی ہیں جوباوجود علم وفضل کا پہاڑ ہونے کے محض اس لئے صرف کتابوں میں دفن ہوکر رہ گئی کہ ان کے بعد انکے کام کوآگے بڑھانے والے مخلص شاگرددستیاب نہ ہوئے ۔یاان کے شاگردان کے علمی امانت کے لائق امین نہ بن سکے۔

حضرت لیث بن سعد علم حدیث وفقہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ مجتہد ہیں۔مصر میں ان کا مذہب بھی ایک عرصے تک رائج رہا۔ان کی فقاہت کی تعریف موافق ومخالف سبھی نے کی ہے وہ امام مالک کے ہم عصر تھے۔ ان دونوں میں بعض امور کے تعلق سے اختلاف بھی تھاجس پر دونوں میں مشہور خط وکتابت بھی ہوئی جس کو پڑھ کر آج بھی آنکھوں میں ٹھنڈک اترتی ہے اوردل کوسکون ملتاہے کہ ہمارے اسلاف اختلاف میں بھی کتنے مہذب اورشائستہ طریقہ کاراختیار کرتے تھے۔

لیث بن سعد کے بارے میں امام شافعی کہتے ہیں

الليث أفقه من مالك إلا أن أصحابه لم يقوموا به

(طبقات الفقہاء 78،تاریخ دمشق لابن عساکر50/358،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال24/275،سیراعلام النبلاء7/216،الوافی بالوفیات24/312،تہذیب التہذیب8/463،مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار2/504)

یہ دیکھئے امام شافعی کااعتراف کہ لیث امام مالک سے زیادہ فقیہہ تھے۔انہوں نے امام مالک کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیاتھااوران کے بڑے قدرشناس تھے کہتے ہیں کہ جب علماء کا ذکر ہوتوامام مالک ستاروں کے مانند ہیں۔لیکن فقہی تقابل میں انہوں نے امام مالک پر لیث بن سعد کو ترجیح دی ۔اوراس کے ساتھ ہی ایک چھپے ہوئے سوال کاجواب بھی دے دیا۔

جب لیث بن سعد مصری زیادہ فقیہہ ہیں توپھران کو وہ شہرت وہ مقام وہ متعبین کی کثرت کیوں نصیب نہ ہوئی جوامام مالک کاخاصہ بنی تواس کا جواب امام شافعی یہ دیتے ہیں کہ

أن أصحابه لم يقوموا به

کہ ان کے شاگردان کے کام اورمشن کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے اس وجہ سے ان کا علم اوران کی فقاہت ضائع چلی گئی اوران کانام اورکام اورکارنامہ گمنامی کی نذر ہوگیا۔

امام ابوحنیفہؓ کو اللہ نے ایسے باصلاحیت مخلص اورمحبت کرنے والے شاگردوں سے نوازاجنہوں نے اپنے استاد کے منہج کو اپنامنہج بنایااوراپنے استاد کے علمی کارنامہ کو دنیابھر میں مشتہر کیا۔انہوں نے اپنے استاد سے بجاطورپر علمی اختلاف بھی کیا،استاد کے دلائل اورنظریہ پر تنقید بھی کی لیکن اسی کے ساتھ استاد کی ذات سے چمٹے رہے۔متصل رہے۔ ان کو چھوڑانہیں ان سے جدائی اختیار نہیں کی۔

یوں توامام ابوحنیفہ کے شاگردوں کی تعداد تقریباً700تک پہنچتی ہےلیکن جوشاگردان سے بطورخاص وابستہ رہے وہ ہیں۔

امام ابویوسف،امام محمد بن الحسن،امام زفر،امام حسن بن زیاد
امام ابویوسف علیہ الرحمہ نے جب دیکھاکہ اوزاعی نے امام ابوحنیفہ کے سیر کے مسائل پر تنقید کی ہے توانہوں نے اس کا مدلل جواب لکھاجوالردعلی الاوزاعی کے نام سے مشہور ہے۔اسی طرح انہوں نے اپنے استاد کی مرویات کو کتاب الآثار کے نام سے جمع کیا۔ اسی طرح اپنے سابق استاد ابن بی لیلی اورامام ابوحنیفہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف کو دلائل کے ساتھ واضح کیااوراپنارجحان بھی بتایا۔

امام محمد نے استاد کے مسلک اورمنہج پر کتابیں لکھیں۔جوظاہرالروایۃ کے نام سے مشہور ہے۔اہل عراق اوراہل مدینہ کے اختلافات پر الحجۃ علی اہل المدینہ لکھی اوراس کے علاوہ دیگر کتابیں لکھ کر استاد کے نام اورکام کوآگے بڑھایا۔

امام زفر نے اہل بصرہ کی اہل کوفہ سے عداوت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ سے برگشتگی کو حکمت سے دورکیااوراہل بصرہ کو بھی آپ کا محب ومطیع اورفرمانبرداربنادیا۔
امام ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
"زفربصرہ کے قاضی بنائے گئے تو انہوں نے فرمایاکہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اہل بصرہ اورہمارے مابین حسد وعداوت پائی جاتی ہے۔لہذا آپ کا سلامت بچ نکلنادشوار ہے۔جب بصرہ میں قاضی مقرر ہوکر آئے تو اہل علم جمع ہوروزانہ آپ سے فقہی مسائل میں مناظرہ کیاکرتے تھے۔جب ان میں قبولیت اورحسن ظن کا رجحان دیکھتے تو کہتے یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ اہل بصرہ متعجب ہوکر پوچھتے کیاابوحنیفہؒ ایساکہہ سکتے ہیں امام زفرجواب دیتے جی ہاں اوراس سے بھی زیادہ۔
اس کے بعد تومعمول ساہوگیاکہ جب بھی زفراہل بصرہ کا رجحان تسلیم وانقیاد دیکھتوکہتے کہ یہ ابوحنیفہ کاقول ہے اس سے اہل بصرہ اورمتعجب ہوتے چنانچہ امام زفر کااہل بصرہ سے یہی رویہ رہا یہاں تک کہ بغض وعداوت چھوڑ کر وہ امام صاحب کے معتقد ہوگئے ۔پہلے برابھلاکہتے تھے اب رطب اللسان رہنے لگے۔
(الانتقاءلابن عبدالبر)
عبدالبرکے اس بیان میں یہ بات غلط ہے کہ امام زفر بصرہ کے قاضی بناکر بھیجے گئے تھے بلکہ جب ان کو قاضی بنانے کا فرمان صادر ہواتو انہوں نے اپناگھر منہدم کردیااورروپوش ہوگئے۔بصرہ وہ اپنے بھائی کے میراث کے سلسلہ میں گئے تھے۔ اہل بصرہ کوان سے اتنی عقیدت ہوگئی کہ انہوں نے پھران کو بصرہ سے باہر جانے نہیں دیا۔علامہ کوثری لمحات النظرفی سیرۃ الامام زفر میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔(دیکھئے ص25)

مغرب میں امام ابوحنیفہ کے مذہب اورمسلک کوپھیلانے والے اسد بن فرات ہیں۔اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااوراسی کے ساتھ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے کے خرمن علم سے بھی خوشہ چینی کی تھی۔ ان کا رجحان احناف کی جانب زیادہ تھاانہوں نے مغرب میں فقہ حنفی کو پھیلایا۔(امام ابوحنیفہ مصنف ابوزہرہ ص757)

نوٹ: فقہ حنفی کوپھیلانے سے کسی کو یہ شبہ نہیں ہوناچاہئے کہ وہ لوگوں کو اس کی تلقین کرتے تھے کہ فلاں مسلک چھوڑدو اورحنفی بن جاؤجیساکہ آج کل غیرمقلدین کرتے ہیں کہ وہ مختلف حیلے بہانے سے لوگوں کوسلفی بناتے ہیں۔ بات یہ ہوتی تھی کہ لوگ مسائل پوچھنے آتے تھے وہ جواب دیتے ہیں یہ جوابات زیادہ تر فقہ حنفی سے ماخوذ ہوتے تھے اس طرح فقہ حنفی رواج پایانہ کہ باقاعدہ اوردانستہ مسلک کی نشرواشاعت کی جاتی تھی۔
امام حسن بن زیاد نے مختلف موضوعات پر خصوصاقضاء کے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھ کر اس موضوع کے خس وخاشاک کو صاف کیااوربعد والوں کیلئے راہ ہموار کی۔
پھران چراغوں سے نئے چراغ جلے اوران چراغوں نے مزید چراغ جلائے اورپوری دنیافقہ حنفی سے منور ہوگئی اوراس کی ضیاء پاشیوں نے پوری دنیا کو اپنے احاطہ میں لے لیا۔

بات صرف ان چاروں کی ہی نہیں ہے بلکہ دیگر افراد کی بھی ہے جوفقہ حنفی سے جڑے رہے۔
مثلاعبداللہ بن المبارک کی ذات گرامی کی لے لیں انہوں نے بھی فقہ حنفی کی خدمت کی ہے اورامام ابوحنیفہ کے مسائل پر مبنی کتاب لکھی ہے۔اس سلسلے میں جب ان سے پوچھاگیاکہ آپ نے امام ابوحنیفہ کے مسائل پرکتاب لکھی ہے لیکن امام مالک کے مسائل پر کتاب نہیں لکھی توعبداللہ بن مبارک نے جواب دیاکہ میں اس کو علم نہیں سمجھتا۔
سَلَمَةَ بْنَ سُلَيْمَانَ يَقُولُ: قُلْتُ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: وَضَعْتَ مِنْ رَأْيِ أَبِي حَنِيفَةَ وَلَمْ تَضَعْ مِنْ رَأْيِ مَالِكٍ قَالَ: لَمْ أَرَهْ عَلَمًا
(جامع بیان العلم وفضلہ2/1107)
اس حوالہ سے مقصود امام مالک کی تنقیص شان نہیں ۔بلکہ یہ مراد ہے کہ فقہ حنفی کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک عبداللہ بن المبارک ہیں۔
شیخ ابوزہرہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تحت لکھتے ہیں۔
جب سیاسی قوت کمزور پڑگئی تو وہ علماء کی ہی جدوجہد تھی جس نے مختلف امصاروبلاد میں فقہ حنفی کو زندہ رکھا۔اس ضمن مین علماء کی کوشش ایک نہج پر قائم نہیں رہی بلکہ رفتار زمانہ کے پیش نظر کبھی اس میں قوت رونماہوئی اورکبھی کمزوری واقع ہوئی۔جن بلاد وامصار مین علماء اثرورسوخ کے حامل تھے وہاں یہ مذہب پھلاپھولااوربرگ وبار لایالیکن جہاں علماء کمزورتھے وہاں مذہب بھی کمزورپڑگیا۔(حیات حضرت امام ابوحنیفہ756)
نوٹ:بعض محدثین نے کچھ ایسے حوالے جات پیش کئے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ آخر میں عبداللہ بن المبارک امام ابوحنیفہ سے متنفر ہوگئے تھے ۔لیکن یہ باتیں چند وجوہ کی بنیاد پر قابل اعتبار نہیں ہے۔انشاء اللہ ہم وقت فرصت اس پر کلام کریں گےاوربتائیں گے کہ اس میں کیاخلل ہے ؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
5: تصنیفی خدمات

اس کا تعلق اگرچہ ماقبل سے ہی ہے لیکن اس کے باوجود اس کو اس کی اہمیت کے پیش نظرالگ سے ذکرکیاگیاہے۔کسی بھی مسلک اورمذہب کو تابندہ اورزندہ رکھنے میں تصنیفی خدمات بہت اہم کرداراداکرتی ہیں۔تصنیفی خدمات سے اندازہ ہوتاہے کہ کسی مذہب کاخدوخال کیاہے۔ اس کے نقوش کیاہیں۔ اس کی بنیاد اوراصول کیاہیں ۔اگرتصنیفی خدمات نہ ہوں اوراس کے جاننے والے فناء کے گھاٹ اترجائیں توپھریہ مذہب سرے سے نیست ونابود ہوجاتاہے ۔کسی مذہب کے دوام کیلئے دونوں چیزیں ضروری ہیں یعنی اس مذہب کے جاننے والے اوراس مذہب کی تصانیف۔

اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے بھی یہی نظام قائم کیاہے چنانچہ ایک جانب انبیاء اوررسولوں کو بھیجااوردوسری طرف صحائف اورکتب بھی نازل فرمائیں ۔ کتابوں میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک کوئی ان کو عملی طورپر برت کرنہ بتائے سمجھنامشکل ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ محض تصنیفی خدمات یاپھر محض اس مذہب کے جانکار رہنے سے کسی مذہب کو دوام نصیب نہیں ہوتادونوں چیزوں کا ہوناضروری ہے۔

مذاہب اربعہ زندہ اورپایندہ ہیں تواس کی وجہ یہی ہے کہ ہردور میں اس مذہب کے علماء اورفقہاٗء بھی رہے ہیں اورانہوں نے تصنیفی خدمات کے ذریعہ پیش آمدہ واقعات اورحوادث میں لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیاہے۔

محمد بن جریرالطبری،ابن حزم ظاہری کی کتابیں موجود ہیں لیکن چونکہ اس مذہب کے جاننے والے واقف کار علماء نہیں ہیں لہذا یہ مذہب فناء کے گھاٹ اترگیا۔
ابن خلدون اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
آج ظاہریہ کامذہب بھی مٹ مٹاگیا کیونکہ اس کے امام ختم ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت سے طلبہ جوان کے مذاہب کامطالعہ کرناچاہتے ہیں اوران کتابوں سے ان کا فقہ اورمذہب سیکھناچاہتے ہیں وہ اپناوقت ضائع کرتے یہں اوراس سے جمہور کی مخالفت اوران کے مذہب سے انکار بھی لازم آتاہے ۔ہوسکتاہے کہ وہ اس مذہب کی وجہ سے بدعتیوں مین شمار کرلئے جاءیں کیونکہ وہ اساتذہ کی چابی کے بغیرکتابوں سے علم کو نقل کررہے ہیں۔
(مقدمہ ابن خلدون ص283)
ائمہ اربعہ میں سے ائمہ ثلاثہ کی تصانیف تومشہور ہیں۔لیکن امام ابوحنیفہ کی تصانیف کے تعلق سے تاریخی نقوش اتنے دھندلے ہیں کہ کچھ کہنامشکل ہے۔ویسے ماقبل کے مورخین نے اس تعلق سے کچھ کتابوں کے نام لئے ہیں تواس بناء پر کہاجاسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ نے کچھ کتابوں کی تصنیف ضرورکی لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچ سکی جیساکہ دیگر علماء کے ساتھ بھی ہواہے ۔

ان کے شاگردوں نے جوکتابیں لکھیں ان مین سے کچھ ہم تک پہنچی ہیں اوربیشتر ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔

ان کے شاگردوں میں نمایاں نام امام ابویوسف کاہے۔ انہوں نے درج ذیل کتابیں لکھی ہیں۔ابن ندیم نے امام ابویوسف کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتب کانام لکھاہے۔
كتاب الصلاة كتاب الزك كتاب الصيام كتاب الفرائض كتاب البيوع كتاب الحدود كتاب الوكالة كتاب الوصايا كتاب الصيد والذبائح كتاب الغصب والاستبراء ولأبي يوسف املاء رواه بشر بن الوليد القاضي يحتوي على ستة وثلثين كتابا مما فرعه أبو يوسف كتاب اختلاف الأمصار كتاب الرد على مالك بن أنس كتاب رسالته في الخراج إلى الرشيد كتاب الجوامع ألفه ليحيى بن خالد يحتوي على أربعين كتابا ذكر فيه اختلاف الناس والرأي المأخوذ به.
(الفہرست لابن ندیم 1/253)
اس فہرست میں ابن ندیم نے کتاب الردعلی مالک بن انس کانام لیاہے لیکن ایسالگتاہے کہ یاتوسبقت قلم سے ایساہوگیاہے صحیح نام ہوناچاہئے کتاب الرد علی سیرالاوزاعی۔

امام زفر کی کتابوں کا ابن ندیم نے کوئی تذکرہ نہیں کیاہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے بھی کچھ کتابیں لکھی ہیں۔ ابن ندیم نے امام زفر کے ترجمہ مین صرف اتنالکھ کر چھوڑدیاہے کہ ولہ من الکتب ان کی چند کتابیں ہیں۔ کون کون سی ہیں یہ نہیں بتایا۔
الفہرست کے محقق نے حاشیہ میں لکھاہے کہ ان کی ایک کتاب مجرد فی الفروع کے نام سے ہے۔اس کے علاوہ جیساکہ مولانا عبدالرشید نعمانی نے ثابت کیاہے کہ ان کی ایک اورکتاب کتاب الآثار کے نام سے ہے جس کاحاکم نے بھی ذکر کیاہے۔امام زفر کاانتقال 155ہجری میں ہوگیاتھایعنی اپنے استاد امام ابوحنیفہ کے انتقال کے محض5سال بعد۔لہذاان کی زیادہ تصانیف نہ ہوناکوئی مستبعد نہیں ہے۔
امام محمد بن الحسن کی درج ذیل کتابوں کاابن ندیم نے ذکر کیاہے۔
ولمحمد من الكتب في الأصول كتاب الصلاة كتاب الزكاة كتاب المناسك كتاب نوادر الصلاة كتاب النكاح كتاب الطلاق كتاب العتاق وأمهات الأولاد كتاب السلم والبيوع كتاب المضاربة الكبير كتاب المضاربة الصغير كتاب الاجارات الكبير كتاب الاجارات الصغير كتاب الصرف كتاب الرهن كتاب الشفعة كتاب الحيض كتاب المزارعة الكبير كتاب المزارعة الصغير كتاب المفاوضة وهي الشركة كتاب الوكالة كتاب العارية كتاب الوديعة كتاب الحوالة كتاب الكفالة كتاب الإقرار كتاب الدعوى والبينات كتاب الحيل كتاب المأذون الصغير كتاب مة كتاب الديات كتاب جنايات المدبر والمكاتب كتاب الولاء كتاب الشرب كتاب السرقة وقطاع الطريق كتاب الصيد والذبائح كتاب العتق في المرض كتاب العين والدين كتاب الرجوع عن الشهادات كتاب الوقوف والصدقات كتاب الغصب كتاب الدور كتاب الهبة والصدقات كتاب الأيمان والنذور والكفارات كتاب الوصايا كتاب حساب الوصايا كتاب الصلح والخنثي والمفقود كتاب اجتهاد الرأي كتاب الإكراه كتاب الاستحسان كتاب اللقيط كتاب اللقطة كتاب الآبق كتاب الجامع الصغير كتاب أصول الفقه ولمحمد كتاب يعرف بكتاب الحج يحتوي على كتب كثيرة كتاب الجامع الكبير كتاب أمالي محمد في الفقه وهي الكيسانيات كتاب الزيادات كتاب زيادة الزيادات كتاب التحري كتاب المعاقل كتاب الخصال كتاب الاجارات الكبير كتاب الرد على أهل المدينة كتاب نوادر محمد رواية بن رستم.

(الفہرست لابن ندیم 1/254)
حقیقت یہ ہے کہ امام محمد نے اپنی تصانیف کے ذریعہ ہی فقہ حنفی کا نام زندہ اورروشن رکھاہے اورانہی کی کتابیں فقہ حنفی کا دارومدار ہیں۔اگرکہاجائے کہ فقہ حنفی کو زندہ رکھنے میں ایک بڑاسبب اوراہم کردار امام محمد بن الحسن کی کتابوں اورتصنیفی خدمات کا ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔

امام حسن بن زیاد لولوئی۔یہ بھی بڑے مرتبہ کے فقیہہ تھے۔یحیی بن آدم جوبڑے درجہ کے مجتہد ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر فقیہہ نہیں دیکھا۔ان کی تصنیفی بقول امام طحاوی درج ذہیں۔
قال الطحاوي وله من الكتب كتاب المجرد لأبي حنيفة روايته كتاب أدب القاضي كتاب الخصال كتاب معاني الإيمان كتاب النفقات كتاب الخراج كتاب الفرائض كتاب الوصايا.
(الفہرست لابن ندیم1/255)
پھراس کے بعد امام ابویوسف،امام محمد ،امام زیاد بن حسن کے شاگردوں اورپھران کے شاگردوں نے جوتصنیفی خدمات انجام دی ہیں ۔اس کیلئے توسفینہ چاہئے اس بحربیکراں کیلئے۔اوراس کے بعد بھی حالت یہی ہوگی۔ورق تمام ہوااورمدح باقی ہے۔

مشہور مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں۔
ان کے(امام ابوحنیفہ) فقہ پر کثرت سے کتابیں لکھی گئیں اورشافعیوں سے مناظرہ کی مجلسیں بھی خوب گرم رہیں اوراختلافی مسائل میں انتہائی نفیس ومفید مذاکرات ہوئے اورانہوں نے گہرے وسنجیدہ نظریات پیش کئے۔(مقدمہ ابن خلدون ص625)
اصول فقہ کے باب میں ابن خلدون حنفیہ کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
پھر(امام شافعی کے بعد)اس پر فقہائے احناف نے کتابیں لکھیں اوران قواعد کی تحقیق کی اوران میں تفصیل سے گفتگو کی۔ اسی طرح اہل کلام نے بھی اس پر کتابیں لکھیں مگراس موضوع پر فقہاء کی کتابیں فقہ کیلئے زیادہ موزوں اورفروع کے مناسب ہیں کیونکہ وہ ہرجزئی مسئلہ میں کثرت سے امثلہ وشواہد پیش کرتے ہیں اورفقہی نکات پر مسائل اٹھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقہائے حنفیہ اس میں بڑے ماہر تھے ۔وہ فقہی نکات کے دریامین غوطہ لگاکر مقدوربھرمسائل فقہ سے ان قوانین کے موتی چن لیتے ہیں جیساکہ انہی کے امام میں سے ابوزید دبوسی کازمانہ آیاتوانہوں نے قیاس پر سب سے زیادہ لکھااوران بحثوں اورشرطوں کو تکمیل تک پہنچادیا جن کی قیاس مین ضرورت پڑتی ہے۔ ان کی تکمیل سے اصول فقہ کی صنعت مکمل ہوگئی اوراس کے مسائل مرتب اورقواعد تیار ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حنفیہ بھی اس علم پر بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔پہلے علماء میں ابوزید دبوسی کی اورپچھلے علماء میں سیف الاسلام بزدوی کی بہترین کتاب ہے۔جو اس فن کے تمام مسائل کی جامع ہے۔ ابن ساعاتی حنفی نے کتاب الاحکام اوربزدودی کی کتاب کو ایک جگہ ترتیب سے جمع کردیااوراس کا نام البدائع رکھا۔اس کی ترتیب انتہائی بہترین ہے اوریہ بے حد نادرکتاب ہے۔اس زمانے کے علماء کے مطالعہ میں یہی رہتی ہے اوروہ اسی کے مسائل پر تبادلہ خیالات کرتے ہیں۔بہت سے علمائے عجم نے اس کی شرحیں لکھی ہیں۔
(مقدمہ ابن خلدون 632)
جن کو اس تعلق سے زیادہ معلومات چاہئے وہ کشف الظنون،معجم المولفین ،المدخل الی مذھب الحنفی اوردیگر کتابوں کا مطالعہ کریں۔جس سے یہ حقیقت بخوبی کھل کر واضح ہوگی کہ علماء احناف نے تصنیف وتالیف اورپیش آمدہ مسائل میں لوگوں کی رہنمائی ہردور میں جاری رکھااوریہی وجہ ہے کہ امت کا ایک بڑاطبقہ فقہ حنفی سے وابستہ رہاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
فقہ حنفی کی اپنی خصوصیات

دنیامیں کوئی چیز کبھی بھی محض خارجی سہارے کی بناء پر زندہ نہیں رہتی ۔اورجوچیز محض خارجی تاثیر کی بناء پر زندہ رہتی ہے وہ جلد ہی درگورہوجاتی ہے۔یہ اللہ کانظام اوراللہ کی سنت ہے۔جوبھی چیز دیر تک پایندہ اورتابندہ رہتی ہے اس میں صالحیت کے ساتھ نافعیت کاہوناازحد ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نافع اورغیرنافع کا فرق اس طرح بیان فرمایاہے۔

فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (سورہ رعد)

سیلاب میں جھاگ اتناہوتاہے کہ پانی کہیں نظرنہیں آتاہرطرف جھاگ کی فرمانروائی ہوتی ہے لیکن جھاگ میں چونکہ نفع رسانی کی صلاحیت نہیں لہذا تھوڑے ہی عرصہ کے بعد جھاگ سمٹ کر ایک طرف ہوجاتاہے اورختم ہوجاتاہے اورپانی اپنی جگہ مدت دراز تک برقراررہ کرلوگوں کیلئے کارآمد ہوتاہے۔

سونے کو گلانے کیلئے کچھ دیگر چیزوں کااستعمال کیاجاتاہے لیکن سوناجونافع ہے وہ باقی رہ جاتاہے اوردیگرملاوٹی اورغیرنافع چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔فقہ حنفی ہردور میں بیشترمسلمانوں کا مسلک ومذہب رہاہے یہ ا س کی نافعیت کی بڑی مثال ہے۔

فقہ حنفی کی ایک مزید خصوصیت یہ ہے وہ صیقل شدہ ہے۔ یعنی حکومت اورکارقضاء اس کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے پیش آمدہ مسائل کاحل اس نے پیش کیاہے اورلوگوں کو جو مختلف طرح معاملات پیش آتے ہیں اس میں رہنمائی کی ہے۔ تیرہ صدیوں سے وہ تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہوچکی ہے اس معاملے میں اگرکوئی دوسری فقہ اسکے ساتھ شریک ہوسکتی ہے تووہ صرف فقہ مالکی ہے۔

فقہ مالکی اورفقہ حنفی میں ایک مابہ الامتیاز فرق یہ ہے کہ فقہ مالکی کادائرہ کار صرف اندلس اوران کے اطراف ہی رہے ہیں جہاں کی تہذیب اومعاشرت ایک جیسی ہے۔جب کہ فقہ حنفی نے مختلف الاذہان اورمختلف ممالک وقبائل کو اپنے سانچے میں ڈھالاہے۔ایک جانب اگروہ عراق اوردارالسلام بغداد میں حکومت کا سرکاری مذہب ہے تواسی کے ساتھ وہ ترک اورروم میں بھی کارقضاءوافتاء انجام دے رہاہے۔ اگرایک جانب چینی مسلمان فقہ حنفی کے حلقہ بگوش ہیں تودوسری طرف ہندی مسلمان بھی اسی کے دائرہ اطاعت مین داخل ہیں۔

بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگرکوئی مذہب اورمسلک تجربات کی بھٹی میں تپ تپ کر کندن ہواہے تووہ صرف فقہ حنفی ہے ۔اگرفقہ حنفی میں جان نہ ہوتی تو وہ تاریخ کے اتنے رگڑے نہیں سہہ سکتی تھی۔وہ اب تک زندہ ہے پایندہ ہے تویہ اسکی نافعیت اورتاریخ کی کسوٹی پر ثابت ہونے والی صداقت ہے۔

اس سلسلہ میں یہ بتادیناشائد نفع سے خالی نہ ہوگاکہ حضرت مولانا مناظراحسن گیلانی نوراللہ مرقدہ یہ کہتے تھے کہ فقہ حنفی اورمالکی تعمیری فقہ ہیں اورفقہ شافعی وحنبلی تنقیدی ہیں اوراس کی توجیہہ وہ یہ کرتے تھے۔
"لوگ جانتے ہیں کہ حنفی اورمالکی فقہ کی حیثیت اسلامی قوانین کے سلسلہ میں تعمیری فقہ کی ہے اورشافعی وحنبلی فقہ کی زیادہ تر ایک تنقیدی فقہ کی ہے۔ حنفیوں کی فقہ کومشرق اورمالکی فقہ کو مغرب میں چوں کہ عموماحکمتوں کے دستوالعمل کی حیثیت سے تقریباًہزارسال سے زیادہ مدت تک استعمال کیاگیاہے اس لئے قدرتاان دونوں مکاتب خیال کے علماء کی توجہ زیادہ تر جدید حوادث وجزئیات وتفریعات کےادھیڑبن میں مشغول رہی۔بخلاف شوافع وحنابلہ کے کہ بہ نسبت حکومت کے ان کا زیادہ ترتعلیم وتعلم،درس وتدریس اورتصنیف وتالیف سے رہا اس لئے عموماتحقیق وتنقید کا وقت ان کو زیادہ ملتارہا۔"
(شاہ ولی اللہ نمبرص200)
(یہاں پر یہ بتادیناضروری ہے کہ فقہ حنفی نے اجتہاد وتقلید کے مابین ایک مناسب خط کھینچاہےجو افراط وتفریط سے عاری اوراعتدال وتوازن پر مبنی ہے۔ انہوں نے ایک جانب اجتہاد مطلق کے باب کوبند کیاتودوسری جانب عوام پر تقلید کو ضروری قراردیااورپیش آمدہ مسائل کی رہنمائی کیلئے اجتہاد فی المذہب کے باب کے مفتوح قراردیا۔کیونکہ واقعات وحوادث بے شمار ہیں اورکوئی شخص کتناہی ذہین کیوں نہ ہو لیکن وہ تمام پیش آمدہ واقعات اوراس کے جزئیات نہیں بتاسکتالہذااس کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ اجتہاد فی المذہب کا سلسلہ جاری رہے۔)
فقہ حنفی کی ایک اورخصوصیت جواس کو دیگر فقہ سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ امام ابویوسف،امام محمد اورامام زفر اگرچہ خود اپنی جگہ مجتہد مطلق تھے لیکن ان کے اقوال بھی امام ابوحنیفہ کے اقوال کے ساتھ ہی کتابوں میں ذکر کئے گئے ہیں لہذا یہ سب مل ملاکر فقہ حنفی ہوگئے ہیں۔ جس کی وجہ سے فقہ حنفی کادائرہ بہت وسیع ہوگیاہے۔شیخ ابوزہرہ اس تعلق سے لکھتے ہیں۔

" صرف امام ابوحنیفہ کے اصحاب وتلامذہ کے افکار وآراء ہی ان کے اقوال سے مخلوط نہیں ہوئے بلکہ آگے چل کر لوگوں نے ان میں ایسے اقوال کوبھی داخل کردیا جو امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب سے منقول نہ تھے۔ ان مین سے بعض اقوال کو حنفی مسلک سے وابستہ سمجھاگیااوربعض کو نہیں۔ بعض علماء نے کچھ اقوال کوراجح اوربعض کومرجوح قراردیا۔اس طرح اختلاف وترجیح میں اضافہ ہوتارہا اوریہ سب کچھ بڑےدقیق اورمحکم قواعید پر مبنی تھا۔اس طرح فقہ حنفی میں وسعت پیداہوئی اوراس کا دامن اتناوسیع ہوگیاکہ اس میں زمانہ کے لوازمات اورعام حالات کاساتھ دینے کی صلاحیت پیداہوئی۔(حیات حضرت امام ابوحنیفہ ص724)
آگے چل کر شیخ ابوزہرہ لکھتے ہیں کہ فقہ حنفی کی ترقی کا باعث تین عوامل ہوئے
1:حنفی مذہب کے دائرہ کے مجتہد اورتخریج مسائل کرنے والے فقہاء۔
2اامام صاحب اورآپ کے اصحاب سے منقول اقوال کی کثرت
3تخریج مسائل کی سہولت اورمخرجین کے اقوال کامعتبرہونا
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
: داعیان دین کی کوششیں اورکاوشیں:

یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت عباسیہ کے خلفاء حنفی مذہب سے ارادت اورعقیدت رکھتے تھے۔سلطنت عباسیہ کے قاضی اورچیف جسٹس وغیرہ حنفی ہواکرتے تھے۔یہ حکومتیں کفر کی سرزمین پر لشکرکشی کیاکرتی تھی۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہزاروں افراد اسلام لے آتے تھے۔ان نومسلموں کواسلامی تعلیمات سکھانے کی ذمہ داری قاضیوں کی ہواکرتی تھی ۔یہ قاضی چونکہ خود بھی حنفی ہوتے تھے لہذا ان کو مسائل فقھیہ کی تعلیم بھی فقہ حنفی کے مطابق دیاکرتے تھے۔اس طرح رفتہ رفتہ تھوڑے ہی عرصہ میں فقہ حنفی نے ایک بڑی اوروسیع جگہ پیداکرلی ۔بالخصوص نومسلمین تمام کے تمام فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان نومسلمین قبائل میں سے آگے چل کر جنہوں نے سلطنت وحکومت کی باگ ڈورسنبھالی۔ جیسے کہ سلجوقی،مغل،آل عثمان وغیرہ ۔وہ سب کے سب بھی حنفی ہوئے۔اس کے علاوہ بھی دیگر داعیان دین جنہوں نے انفرادی طورپر دعوت دین کاعلم بلند کیاوہ زیادہ تر حنفی تھے۔

جب چنگیز خان کی قیادت میں تاتاریوں نے عالم اسلامی کوروند دیاتواس وقت عالم اسلام زوال کا شکار تھا۔ اورایسالگتاتھاکہ اس کے دن پورے ہوچکے ہیں لیکن خداکی رحمت جوش میں آئی اورفاتحین نے مفتوحین کے مذہب کوقبول کرلیا۔

چنگیز خان کی حکومت اس کے بیٹوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔چنگیز کے بڑے بیٹے کی نسل جوجی خان مین سے برکہ خان نے اسلام قبول کیااس طرح کہ اسکو خود اسلام کی طرف رغبت ہوئی ا وراس نے مسلم تاجروں سے اس کے حوالے سے پوچھااوراسلام قبول کرلیااوراپنے چھوٹے بھائی کوبھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

چنگیز خان کا پوتاقازان بن ارغوان امیرتوزون کی تلقین سے اوران کے ہاتھ پرمشرف بہ اسلام ہوا۔چنگیز خان کے خاندان کی تیسری شاخ جو بلادمتوسطہ پر قابض تھی اس میں سے تیمورخان نےایک مسلم داعی شیخ جمال الدین کاشغر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔(بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص331)

حقیقت یہ ہے کہ مغل اورترک تمام کے تمام حنفی گزرے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے جن کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاوہ سبھی کے سبھی حنفی تھے لہذا اس اثر سے انہوں نے بھی فقہیات میں حنفی مسلک کواپنایا۔

اسی طرح ہم ہندوستان مین دیکھیں کہ حضرات صوفیاء کرام کے وجود بامسعود سے ہندوستان مین اسلام کی نشرواشاعت ہوئی ۔صرف خواجہ اجمیر ی کے تعلق سے بعض مورخین نے لکھاہے کہ 90لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ان کی وجہ سے ہوئے۔پھران کے خلفاء اورمریدین نے دوردراز کے مقامات پر جسطرح اسلام کو پھیلایاوہ تاریخ کاحصہ ہے۔

سیر الاولیاء کے مصنف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اوران کے خلفاء کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ملک ہندوستان اپنے آخری مشرقی کنارہ تک کفروشرک کی بستی تی ۔اہل تمرداناربکم الاعلیٰ کی صدالگارہے تھے۔اورخداکی خدائی میں دوسری ہستیوں کوشریک کرتے تھے اوراینٹ ،پتھر ،درخت،جانور،گائے وگوبرکوسجدہ کرتے تھے۔کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اورمقفل تھے۔سب دین وشریعت کے خم سے غافل،خداوپیغمبر سے بے خبرتھے۔ نہ کسی نے قبلہ کی سمت پہچانی۔نہ کسی نے اللہ اکبرکی صداسنی،آفتاب اہل یقین حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا یہاں پہنچناتھاکہ اس ملک کی ظلمت نوراسلام سے مبدل ہوگئی۔اوران کی کوشش وتاثیر سے جہاں شعائرشرک تھے وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظرآنے لگے۔ جوفضاء شرک کی صداؤںسے معمورتھی وہ وہ نعرہ اللہ اکبر سے گونجنے لگی۔اس ملک میں جس کو اسلام کی دولت ملی اورقیامت تک جوبھی اس دولت سے مشرف ہوگا۔ نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد دراولاد نسل درنسل سب ان کے نامہ اعمال میں ہوں گے اوراس میں قیامت تک جوبھی اضافہ ہوتارہے گا اوردائرہ اسلام وسیع ہوتارہے گا۔ قیامت تک اس کاثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری کی روح کو پہنچتارہے گا۔
(سیر اولیاء ص47،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص28-29)

سیر الاقطاب کے مصنف لکھتے ہیں
ہندوستان میں ان کی وجہ سے اسلام کی اشاعت ہوئی اورکفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی۔(سیرالاقطاب101)
یہ صرف صوفیانہ خوش عقیدگی نہیں ہے بلکہ دیگر مورخین نے بھی اس کااعتراف کیاہے۔ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتاہے۔
اجمیر میں عزلت گزریں ہوئے اوراسلام کا چراغ بڑی آب وتاب سے روشن کیااوران کےانفاس قدسیہ سے جوق درجوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی۔(ائین اکبری،سرسید ایڈیشن ص270،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص30)
یہ سب صوفیائے کرام چونکہ حنفی تھے لہذا نومسلم بھی فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔

برصغیر ہندوپاک میں کس طرح اسلام پھیلا۔اس پرپروفیسر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام بہت اچھی اورمستند کتاب ہے۔اس کا مطالعہ کیاجائے۔ہم اس مختصر مضمون میں کچھ اشارے کردیتے ہین بالخصوص ہندوستان کے تعلق سے۔

کشمیر جوبرہمنوں کا گڑھ تھااس کو سید علمی ہمدانی نے اپنی دعوتی کوششوں سے اسلام کے مرکز میں تبدیل کردیااوراس طرح تبدیل کیاکہ آبادی کاتوازن ہی بالکل الٹ دیا۔جہاں کبھی برہمن اکثریت میں تھے اب وہ اقلیت میں آگئے۔سید علی ہمدانی حنفی تھے لہذا ظاہرسی بات ہے کہ ان کے اثر سے اسلام قبول کرنے والے بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔

خواجہ خواجگان شیخ چشتی اجمیری نے جس طرح ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت کی ۔اس کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں۔
"سلسلہ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت وتبلیغ اسلام پر پڑی تھی۔اوراس کے عالی مربت بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہاتھ پر اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ تاریخ کے اس اندھیرے مین اس کا اندازہ لگانابھی مشکل ہے"(تاریخ دعوت وعزیمت جلد سوم)
پنجاب کے مغربی صوبوں کے باشندوں نے خواجہ بہاء الحق ملتانی اوربابافرید پاک پٹن کی تعلیم سے اسلام قبول کیا۔یہ دونوں بزرگ تیرہویں صدی عیسوی کے قریب خاتمہ اورچودھویں صدی عیسوی کے شروع میں گزرے ہیں۔ بابافرید گنج کے بارے میں مصنف نے لکھاہے کہ انہوں نے سولہ قوموں کو تعلیم وتلقین سے مشرف بہ اسلام کیا۔(پریچنگ آف اسلام)
اس کے علاوہ تمل ناڈو کے بارے میں آتاہے کہ وہا ں نویں صدی میں ایک بزرگ مظہر نامی آکربسے تھے اوران کے ساتھ 900مریدین کی تعداد تھی۔ انہوں نے وحشیوں کو زیربھی کیااوراپنے اخلاق وکردارسے ان کو اسلام کی جانب مائل بھی کیا۔بنگال وبہار میں بھی اسلام کی شاعت صوفیاء کرام کے ہی زیر اثر ہوئی۔اوریہ بات مخفی نہیں ہے کہ صوفیاء کرام میں سے تمام کے تمام حنفی تھے لہذا ان کے وابستگان بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
انڈونیشیااورملیشیاء میں حنفیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جب کہ وہاں پر کوئی لشکر کشی نہیں ہوئی وہاں تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا۔گمان غالب یہ ہے کہ یہ تاجربھی حنفی ہوں گے اوران کے اثر سے اسلام قبول کرنے والوں نے فقہ حنفی کو اپنایاہوگا۔

یہ اگرچہ انتہائی مختصر جائزہ ہے لیکن اس سے اتنی بات ثابت ہورہی ہے کہ صوفیاء کرام اورداعیان دین کی فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں اہم کرداراورحصہ ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حکومت وسلطنت کااثر
عمومی طورپر مورخین نے بھی فقہ حنفی کے شیوع اوراقطارعالم مین انتشار کاایک حکومت وسلطنت کی سرپرستی قراردیاہے۔اورامام ابویوسف کے عباسی سلطنت میں قاضی القضاۃ(چیف جسٹس)بننے کو بڑی وجہ قراردیاہے۔
ابن حزم لکھتے ہیں
مذہبان انتشرا فی بدء امرھمابالریاسۃ الحنفی بالمشرق والمالکی بالاندلس(وفیات الاعیان 2/216)
دومذہب ابتداء میں حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے پھیلے مشرق مین حنفی اوراندلس میں مالکی مذہب۔

ابن خلدون لکھتے ہیں:
امام ابوحنیفہ کے ماننے والے آج عراقی، سندھی، چینی ،ماوراء النہر اورتمام عجمی شہروں کے مسلمان ہیں۔ کیونکہ ان کامذہب خصوصیت سے عراق اوردارالسلام کامذہب تھااورسرکاری مذہب کو ہی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ اس ضمن میں لکھتے ہیں۔
وَكَانَ أشهر أَصْحَابه ذكرا أَبُو يُوسُف تولى قَضَاء الْقُضَاة أَيَّام هَارُون الرشيد فَكَانَ سَببا لظُهُور مذْهبه وَالْقَضَاء بِهِ فِي أقطار الْعرَاق وخراسان وَمَا وَرَاء النَّهر(الانصاف فی اسباب الاختلاف ص39)
اس سے انکار نہیں کہ یہ بھی فقہ حنفی کے نشرواشاعت کاایک سبب ہے لیکن اسی کو مکمل سبب قراردینانہ صرف امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے کام ،کار،کارنامہ کے ساتھ ظلم ہے بلکہ ان تمام فقہائے احناف کے ساتھ ظلم ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی فقہ حنفی کی خدمت میں لگادی۔

دورحاضر میں یہ ایک طرفہ تماشاہے کہ کچھ لوگ حنفیوں کی کثر ت تعداد پر توفوراًان آیتوں کی تلاوت شروع کردیتے ہیں جن میں اکثریت کو گمراہ بتایاگیاہے لیکن اسی کے ساتھ پورے تن من دھن سے اپنی جماعت کی تکثیر کی بھی کوشش کرتے ہیں اورکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔

یہ بھی کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے کہ ہمارے کچھ مہربان فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تمام اسباب وذرائع کونگاہ میں رکھنے کے بجائے بس ایک ہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ فقہ حنفی کے پھیلنے میں سلطنت وحکومت کاکام ہے۔ان سے بس اتناساسوال ہے کہ چلوفقہ حنفی کے انتشار وشیوع میں توسلطنت وحکومت کاہاتھ ہے اورنام نہاد سلفیت جوککرمت (جھاڑجھنکار)کی طرح پھیل رہی ہے اس میں زرسیاہ(پٹروڈالر)کاکتناعمل دخل ہے؟

مستشرقین کایہ عمومی الزام رہاہے کہ اسلام تلوار سے پھیلاہے لیکن مستشرقین خودیہ بھول جاتے ہیں کہ عیسائیت کس طرح پھیلی ہے۔اس کامشہور طنزومزاح نگار اکبرالہ آبادی نے اچھاجواب دیاہے۔وہ کہتے ہیں
یہی کہتے رہے تیغ سے پھیلااسلام
یہ نہ ارشاد ہواتوپ سے کیاپھیلاہے؟


فقہ وحنفی پر حکومت وسلطنت کی پشت پناہی کاالزام دینے والوںسے بھی ہمیں اکبرکی زبان میں بس اتناہی کہناہے
یہی فرماتے رہے حکومت سے پھیلی حنفیت
یہ نہ ارشادہواپٹروڈالر سے کیاپھیلاہے؟

یہ شاید بہتوں کومعلوم نہ ہوکہ سرکاری استبداد اورظلم وجور کاستم کابھی فقہ حنفی کوہی کرناپڑاہے۔دیگرمسالک اس سے بہت حد تک بچے رہے ہیں۔
اندلس وغیرہ میں فقہ حنفی رواج پذیرتھی لیکن وہاں کے سلطان نے شاہی استبداد سے کام لے کر فقہائے احناف کو اپنی مملکت سے جلاوطن کردیا۔مقدسی احسن التقاسیم میں بعض اہل مغرب کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
ایک مرتبہ سلطان کے سامنے دونوں فریق جمع ہوئے سلطان نے پوچھاامام ابوحنیفہ کہاں کے ہیں۔کہاگیاکوفہ کے ۔پھراس نے پوچھاامام مالک کہاں کے ہیں جواب دیاگیامدینہ کے۔ تواس نے کہاکہ ہمارے لئے صرف امام دارالہجرت کافی ہیں ۔اس کے بعد اس نے تمام فقہائے احناف کوملک سے باہر نکل جانے کاحکم دے دیااورکہنے لگامیں اپنی سلطنت مین دومذہب پسند نہیں کرتا۔(احسن التقاسیم)
مصر میں فقہ مالکی شافعی اورحنفی سبھی موجود تھے لیکن فاطمی حکمرانوں کے دورمیں صرف فقہ حنفی کووہاں کے حکام نے نشانہ بنایا۔اوراس کی وجہ سیاسی تھی کیونکہ فقہ حنفی سلطنت عباسیہ کاسرکاری مذہب تھااورعباسی خلفاء اورفاطمی حکمرانوں میں ہمیشہ چپقلش رہتی تھی دونوں دینی سیادت وقیادت کے دعویدار تھے۔ایک سنیوں کا نمائندہ تودوسراشیعوں کا نمونہ تھا۔اس وجہ سے فاطمی حکمرانی کے دورمیں جوطویل عرصہ تک ممتد رہا۔فقہ حنفی کونشانہ بنایاگیا۔

اسی طرح فارس یعنی موجود ایران پوراکاپورافقہ حنفی پر عمل پیرتھا۔لیکن ایک جانب وہاں صفوی خاندان کے حکمرانوں نے شیعت کی کوشش وترویج میں جم کر حصہ لیاتودوسری جانب سلطنت عثمانیہ سے چپقلش کی وجہ سےحنفیوں پر زندگی تنگ کردی اوران کو ہرطرح سے ستایاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ وہ شہراوربلاد وامصار جوکبھی فقہائے احناف کے گڑھ ہواکرتے تھے ویران اورسنسان ہوگئے۔اورفارس جوکبھی علمی رہنمائی میں اسلامی دنیاکا نقیب اوررہنماتھاعلمی تنزلی سے ایسادوچارہواکہ کل تک جوزمانہ کےا مام تھے وہ غیروں کے پیروکار بن گئے۔

ہم نے یہ کچھ وجوہات اس لئے بیان کی ہیں کہ تاکہ فقہ حنفی کے انتشاراورشیوع کے تعلق سے مخالفانہ پروپیگنڈہ کرنے والے اپنے نظریات پر نظرثانی کریں۔ سنجیدگی سےغورکریں اورسمجھیں کہ مورخین کے چند بیانات کوجس طرح وہ اپنی دلیل بنائے ہوئے ہیں وہ اس موضوع کے موضوعی اورغیرجانبدارنہ مطالعہ میں کہاں تک درست اورباصواب ثابت ہوتاہے۔

اللہ ہم سب کو اپنی مرضیات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین​
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ہم سابق میں عرض کرچکے ہیں کہ مثبت تنقید کے بعد معلمی کی بیان کردہ وجوہات درباب انتشارفقہ حنفی میان اقطاع عالم پر بھی گفتگو ہوگی لہذا اب معلمی کی بیان کردہ وجوہات پرتنقیدی نگاہ ڈالی جارہی ہے۔


فقہ حنفی کی نشرواشاعت اورمعلمی کے بیان کردہ وجوہات پر ایک نگاہ

معلمی نے تانیب الخطیب کے رد میں پہلے طلیعۃ التنکیل لکھی پھر تنکیل لکھی۔یہ طرزتصنیف نہایت عجیب وغریب اورانوکھاتھا۔بہت سارے افراد کایہ بھی خیال ہے کہ معلمی ا س ذریعہ سے شیخ کوثری کے رد کااندازہ کرناچاہ رہے تھے اوران کی تنقید کے وار سے بچنے کی یہ کوشش تھی۔پھران کے انتقال کے بعد پوری کتاب طبع ہوئی۔

معلمی کی یہ کتاب دوسرے انسانی امور کی طرح غلطیوں سے مبرانہیں ہے لیکن افسوس ہے کہ بعض مقامات پر انہوں نے جوش تنقید میں حقائق اورواقعات کو غلط رخ دینے کی دانستہ کوشش کی ہے
معلمی کی غلط بیانی اورحقیقت کی پردہ پوشی کی مثال واضح ہو کہ وہ تنکیل میں لکھتے ہیں کہ
اب موجودہ زمانہ میں جوامام ابوحنیفہ کے تعلق سے قیل وقال شروع ہواہے اس کی وجہ علامہ زاہد الکوثری کاتانیب الخطیب میں محدثین اورحفاظ حدیث پرجارحانہ حملہ ہے۔
حالانکہ معلمی ہندوستان میں دائرہ المعارف میں تصحیح کتب کاکام کرچکے تھے۔ یہ بات ان کو اچھی طرح معلوم ہوگی کہ ہندوستان میں غیرمقلدین نے بطورخاص تاریخ بغدادکا وہ حصہ چھپوایاجس میں مثالب امام ابوحنیفہ مذکور ہیں۔ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ کی مکمل طباعت سے قبل وہ حصہ خاص طورپر چھپوایاگیاجس میں امام ابوحنیفہ پر نقد ہے۔لیکن ان سب کو چھوڑکر معلمی کا علامہ کوثری کو الٹاالزام دینابدترین قسم کی خیانت اور الٹاچورکوتوال کوڈانٹے والی مثال ہے۔

اگرمعلمی کویہ معلوم نہیں تھاتوبھی ان کو اس لئے معلوم ہوناچاہئے تھاکہ شیخ زاہد الکوثری نے تانیب کے مقدمہ میں اس کی صراحت کی تھی اورصرف اس کی ہی نہیں بلکہ یہ بھی بتادیاکہ اس کے اسپانسر کون تھے۔ نصیف نام کے جدہ کے کوئی غیرمقلد تھے انہوں نے اپنے خرچ پر تاریخ بغداد کاوہ حصہ میں مطاعن ومثالب ابوحنیفہ مذکور ہیں۔خاص طورپرچھپوایااورہندوستان میں تقسیم کرایا۔

شیخ زاہد الکوثری نے اس سلسلے میں غیرمقلدین کی جن کوششون کی مثال دی ہے۔اس سے پڑھ کرعبرت حاصل ہوتی ہے اوریہ یقین ہوجاتاہے کہ غیرمقلدین کا امام ابوحنیفہ سے محبت اورعدم عداوت کا دعویٰ کتناغلط ہے۔ان لوگوں نے اولامصرسے تاریخ بغداد چھپوانی چاہی ۔جب تاریخ بغداد کاتیراہواں جلد چھپ رہاتھاجس میں امام ابوحنیفہ کاتذکرہ ہے توازہر کے شیوخ اورمصرکے وزارت داخلہ نے اس کی اشاعت پرپابندی لگادی اوراس شرط پراجازت دی کہ اس پر شیخ الازہر کے تعلیقات اورخطیب بغدادی کے رد میں الملک المعظم عیسی ایوبی نے جورد لکھاتھااس کو بھی طبع کیاجائے۔ بھاری دل کے ساتھ غیرمقلدوں نے چھاپالیکن اس سے ان کا پورامنصوبہ ہی خاک میں مل گیا۔
یہ تمام باتیں تانیب اورترحیب میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود معلمی کا یہ کہے چلے جاناکہ اب جوباتیں امام ابوحنیفہ کے خلاف ہورہی ہیں اس کی ذمہ داری امام زاہد الکوثری پر ہے۔ حقیقت سے بعید اورصریح کذب ہے۔
بہرحال فی الحال اس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ معلمی کی ایک غلطی کوواضح کیاجائے۔

تنکیل میں سفیان ثوری اواوزاعی کی جانب منسوب یہ کلمہ کہ امام ابوحنیفہ اسلام میں پیداہونے والے سب سے اشام مولود ہیں پر کلام کرتے ہوئے انہوں نے فقہ حنفی کی نشرواشاعت کی وجوہات بھی بیان کی ہیں۔ وہی ہمارامطمح نظربھی ہے اس سے پہلے جس قول پر بحث ہوئی ذرااس کو بھی دیکھ لیجئے۔

{..ومن ذلك أن الخطيب ساق عدة روايات عن الثوري والاوزاعي قال : (( ما ولد في الإسلام مولود أشأم على هذه الأمة من أبي حنيفة )) فقال الأستاذ ص 72 : (( لو كان هذا الخبر ثبت عن الثوري والأوزاعي لسقطا بتلك الكلمة وحدها في هوة الهوى والمجازفة كما سقط مذهباهما بعدهما سقوطا لا نهوض لهما أمام الفقه الناضج وقد ورد : لا شؤم في الإسلام . وعلى فرض أن الشؤم يوجد في غير الثلاث الواردة في السنة وأن صاحبنا مشئوم فمن أين لهما معرفة انه في أعلى درجات المشئومين ... . ))
أقول : لم يريدا الشؤم الذي نفاه الشرع وإنما أرادا الشؤم الذي يثبته الشرع والعقل .
إذا كان في أخلاق الإنسان وأقواله وأفعاله ما من شأنه ديانة وعادة وقوع الضرر والمصائب بمن يصحبه ويتبعه ويتعدى ذلك إلى غيرهم ووقع ذلك ولم يزل ينتشر ودلت الحال على أنه لن يزال في انتشار صح أن يقال إنه مشئوم وإذا ظن أن ما يلحق الأمة من الضرر بسبب رجل آخر صح أن يقال : إنه لم يولد مولود أشأم على الأمة منه .
كان الثوري والأوزاعي كجمهور الأئمة قبلها وفي عصرهما يريان الإرجاء و رد السنة بالرأي والقول ببعض مقالات الجهمية كل ذلك ضلالة من شأنها أن يشتد ضررها على الأمة في دينها ودنياها ورأيا صاحبكم واتباعه مخطئين أو مصيبين جادين في نشر ذلك ولاتزال مقالاتهم تنتشر وتجر إلى ما هو شر منها حتى جرت قوما إلى القول بأن أخبار الآحاد مردودة مطلقا وآخرين إلى رد الأخبار مطلقا كما ذكره الشافعي ثم جرت إلى القول بأن النصوص الشرعية لا يحتج بها في العقائد ! ثم إلى نسبه الكذب إلى أنبياء الله عز وجل واليه سبحانه كما شرحته في قسم الاعتقاديات .
شاهد الثوري والأوزاعي طرفا من ذلك ودلتهما الحال على ما سيصير إليه الأمر فكان كما ظنا وهل كانت المحنة في زمن المأمون والمعتصم والواثق إلا على يدي أصحابكم ينسبون أقوالهم إلى صاحبكم ؟ وفي كتاب ( قضاة مصر ) طرف من وصف ذلك . وهل جر إلى استفحال تلك المقالات إلا تلك المحنة ؟ وأي ضر نزل بالأمة أشد من هذه المقالات ؟
فأما سقوط مذهبيهما ، فخيرة اختارها الله تبارك وتعالى لهما ، فان المجتهد قد يخطئ خطأ لا يخلو عن تقصير ، وقد يقصر في زجر أتباعه عن تقليده هذا التقليد الذي نرى عليه كثيراً من الناس منذ زمان طويل ، الذي يتعسر أو يتعذر الفرق بينه وبين اتخاذ الإجبار والرهبان أرباباً من دون الله ، فقد يلحق المجتهد كفل من تلك التبعات ، فسلم الله تعالى الثوري والأوازعي من ذلك ، فأما ما يرجى من الأجر على الاتباع في الحق فلهما من ذلك النصيب الأوفر بما نشراه من السند علماً وعملاً ، وهذه الأمهات الست المتدالة بين الناس حافلة بالأحاديث المروية من طريقهما وليس فيها لصاحبكم ومشاهير أصحابه حديث واحد ! ...


اوزاعی اورسفیان ثوری سے اس طرح کی روایتیں مروی ہیں کہ اسلام میں ابوحنیفہ سے زیادہ "منحوس"شخص کوئی نہیں ہوا۔
اس پرعلامہ کوثری نے کہاکہ
اولاتواسلام نحوست کاقائل نہیں ہے
ثانیا اگرنحوست ہے بھی یاہوسکتی ہے توصرف تین چیزوں میں
تیسرے اس کی دلیل کیاہے کہ فلاں شخص سےز یادہ اسلام میں کوئی اشام نہیں ہوا۔

اب معلمی بجائے اس کے کہ صحیح بات کااعتراف کرتے کہتے کہ جوش تنقید میں ابن عینیہ اوراوزاعی کی زبان پھسل گئی اوراس میں انہوں نے حدود شرع سے تجاوز کیا۔تاویلات کرنی شروع کردیں۔ حالانکہ یہی تاویلات اگرامام کوثری کی جانب سے ہوئی ہیں توان کو اس پرسوسواعتراضات ہیں۔

اب ذرادیکھئے معلمی نے اس "غلط "بات کی کیا"صحیح"تاویل کی ہے پڑھئے اورپڑھ کر سردھنئے۔
أقول: لم يريدا الشؤم الذي نفاه الشرع وإنما أرادا الشؤم الذي يثبته الشرع والعقل، إذا كان في أخلاق الإنسان وأقواله وأفعاله ما من شأنه ديانة وعادة وقوع الضرر والمصائب بمن يصحبه ويتبعه ويتعدى ذلك إلى غيرهم ووقع ذلك ولم يزل ينتشر ودلت الحال على أنه لن يزال في انتشار صح أن يقال إنه مشيءوم وإذا ظن أن ما يلحق الأمة من الضرر بسبب رجل آخر صح أن يقال: إنه لم يولد مولود أشأم على الأمة منه.
(التنکیل 1/472)
اس پورے پیراگراف میں جوپہلاجملہ ہے۔وہ بیت الغزل ہےان کی اس تاویلی غزل کا۔لیکن اس بیت الغزل پرتبصرہ کرنے سے پہلاان کے اس جملہ پرتبصرہ کرتے چلیں۔
أقول: لم يريدا
میں کہتاہوں(معلمی)ان دونوں نے شوم سے اس کاارادہ نہیں کیا۔
یہ معلمی کوبالتحقیق اوربالجزم کہاں سے معلوم ہوگیاکہ انہوں نے واقعتااسی کاارادہ کیاہےجس کامعلمی کوخیال آیاہے اوردوسری شق نہیں ہوسکتی۔کیامعلمی کوالقاء ہوایاالہام یادونوں نے خواب میں آکر اپنے مراد کی وضاحت کردی ۔اس مقام پر توصرف اتناکہاجاسکتاہے کہ اس کا یہ مطلب بھی لیاجاسکتاہے۔ اس کا یہ محمل بھی ہوسکتاہے۔ اس کاراجح معنی یہ ہے۔وغیرہ وغیرہ۔لیکن ان سب کے بجائے بالجزم یہ کہہ دینامعلمی کاہی کام ہے کہ ۱۳۰۰ صدی پہلے کے بزرگ نے جوکچھ کہاتھااس کاظاہری معنی مراد نہیں بلکہ باطنی معنی مراد ہے۔
میں نے معلمی کی بیت الغزل کے بارے میں کہاتھاذرادوبارہ پڑھئے۔
أقول: لم يريدا الشؤم الذي نفاه الشرع وإنما أرادا الشؤم الذي يثبته الشرع والعقل
میں (معلمی)کہتاہوں کہ ان دونوں نے وہ شوم مراد نہیں لیاجس کی شریعت نفی کرتی ہے بلکہ وہ شوم مراد لیاہے جس کاشریعت اورعقل اثبات کرتی ہے۔

صنعت تضاد شعروادب میں ایک قابل تحسین صنعت ہے لیکن ایک نقد کی کتاب میں کوئی صنعت تضادبرتے تواس کو بس امام ابوحنیفہ کی شدت عداوت میں عقل ماءوف ہونے سے ہی تعبیرکیاجساسکتاہے۔
شوم یانحوست کی وہ کون سی قسم ہے جس کاشریعت انکار کرتی ہے اورشریعت اورعقل اقرارکرتی ہے۔ایسی کسی نحوست کا ذکر پورے قرآن اورحدیث میں نہیں ہے۔ معلمی نے خود سے ایک نئی شریعت گڑھ لی ہوتواس کی بات الگ ہے لیکن شریعت کے وسیع ذخیرے میں کہیں بھی کسی بھی قسم کے نحوست کاانکار کے ساتھ اثبات نہیں ہے۔
آگے چل کر معلمی جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ حقیقت میں حدیث شوم کی مکمل معنوی نفی ہے۔کسی شخص کے تعلق سے نحوست کااعتقاد ہی اسی وقت کیاجاتاہے جب اس سے دوسروں کوضررپہنچتاہے چاہے وہ کسی بھی قسم کاہو۔ کسی اچھے اورنافع شخص کوکوئی بھی منحوس اورمشئوم نہیں کہتا۔اس کے باوجود جب شریعت نے نحوست کی نفی کی ہے توصاف واضح ہے کہ اگرچہ کوئی شخص اپنی ذات میں کتناہی نقصاندہ ہواوردوسروں کو اس کی وجہ سے نقصان پہنچے لیکن نحوست کاعقیدہ باطل اورغلط ہے۔کیاحجاج بن یوسف ثقفی،مسیلمہ بن کذاب اوردیگر مدعیان نبوت اورشرارامت سے امت کونقصان نہیں پہنچالیکن کس نے انکو منحوس کہا۔یاکس نے ماقبل میں یہ تاویل کی ہے کہ جس سے امت کونقصان پہنچے وہ منحوس ہے اوراس کومنحوس کہنادرست ہے ۔

معلمی کایہ کہناکہ اس کو شریعت اورعقل بھی ثابت کرتی ہے شریعت پر محض بہتان ہے اوراپنی عقل کے وہ خود مالک ہیں جوچاہیں سوچیں لیکن دوسروں کی عقل پرخواہ مخواہ کی تہمت نہ لگائیں۔
معلمی کی یہ مضحکہ خیز تاویل پڑھئے
إذا كان في أخلاق الإنسان وأقواله وأفعاله ما من شأنه ديانة وعادة وقوع الضرر والمصائب بمن يصحبه ويتبعه ويتعدى ذلك إلى غيرهم ووقع ذلك ولم يزل ينتشر ودلت الحال على أنه لن يزال في انتشار صح أن يقال إنه مشيءوم وإذا ظن أن ما يلحق الأمة من الضرر بسبب رجل آخر صح أن يقال: إنه لم يولد مولود أشأم على الأمة منه.
کیاآپ نے قبل ازیں ایسی مضحکہ خیز تاویل پڑھی ہے۔آپ میں سے نہ جانے کتنوں نے اس حدیث کی تاویل اورتشریح پڑھی ہوگی لیکن ایسی انوکھی ،اورنادر تاویل کہیں پڑھی ہے؟اسے محفوظ کرلیجئے یہ تاویل کہیں اورنہیں ملے گی یہ صرف معلمی کی ہی کتاب میں مل سکتی ہے۔

معلمی نے یہ بتاناضروری سمجھا کہ اس سخت جرح کی وجہ بیان کی جائے لیکن جووجہ انہوں نے بیان کی ہے اس کو پڑھ کر سفیان ثوری اورامام اوزاعی کے علم وفضل پر شک ہونے لگتاہے کہ آیاکتب تاریخ وتراجم میں جوان کے فضائل ومناقب منقول ہیں وہ درست بھی ہیں یانہیں!کیونکہ جووجہ بیان کی ہے اس کو ایک معمولی طالب علم بھی درست نہین سمجھے گا۔

كان الثوري والأوزاعي كجمهور الأئمة قبلها وفي عصرهما يريان الإرجاء و رد السنة بالرأي والقول ببعض مقالات الجهمية كل ذلك ضلالة من شأنها أن يشتد ضررها على الأمة في دينها ودنياها ورأيا صاحبكم واتباعه مخطئين أو مصيبين جادين في نشر ذلك ولاتزال مقالاتهم تنتشر وتجر إلى ما هو شر منها حتى جرت قوما إلى القول بأن أخبار الآحاد مردودة مطلقا وآخرين إلى رد الأخبار مطلقا كما ذكره الشافعي ثم جرت إلى القول بأن النصوص الشرعية لا يحتج بها في العقائد ! ثم إلى نسبه الكذب إلى أنبياء الله عز وجل واليه سبحانه كما شرحته في قسم الاعتقاديات .

شاهد الثوري والأوزاعي طرفا من ذلك ودلتهما الحال على ما سيصير إليه الأمر فكان كما ظنا وهل كانت المحنة في زمن المأمون والمعتصم والواثق إلا على يدي أصحابكم ينسبون أقوالهم إلى صاحبكم ؟ وفي كتاب ( قضاة مصر ) طرف من وصف ذلك . وهل جر إلى استفحال تلك المقالات إلا تلك المحنة ؟ وأي ضر نزل بالأمة أشد من هذه المقالات ؟

معلمی لکھتے ہیں کہ ارجاء اورسنت کو رائے سے ردکرنااوردیگر باتوں کو وہ گمراہی سمجھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی معلوم تھاکہ یہ گمراہی مزید آگے بڑھے گی ۔بعض لوگ مطلقاخبرواحد کو ہی رد کردیں گے،پھربعض لوگ نصوص شرعیہ سے عقائد میں حجت نہیں پکڑیں گے پھر بعض لوگ انبیاء کی جانب کذب کی نسبت کریں گے۔ثوری اوراوزاعی نے اس قسم کاخیال کرکے اورآگے جوکچھ ہونے والاہے جیساکہ خلق قرآن میں علماء کی سخت آزمائش ہوئی وغیرہ کاخیال کرکے یہ بات کہی۔
یہ معلمی کی دوسری لچر اورباطل تاویل ہے اورلچرپوچ ہونے میں پہلے کے مماثل ہے۔کیاکسی پر جرح مایکون کے بھی اعتبار سے کیاجاتاہے۔کیاکسی مجرم کوسزاآئندہ ہونے والے واقعہ کے اعتبار سےبھی دیاجاتاہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو فراست سے معلوم ہوگیاتھاکہ ابولولو مجوسی انکاقتل کرے گاانہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہابھی کہ یہ مجھے قتل کی دھمکی دے رہاہے جب کسی نے کہاتوپھراس کو سزاکیوں نہیں دیتے یاگرفتارکیوں نہیں کرتے توفرمایاکہ جرم سے پہلے سزاکیسی؟
کیااگرکسی کے متعبین اس کے بارے میں غلو کریں، یااس کے بتائے راستے سے ہٹ کر اپنی الگ راہ بنالیں تواس کاالزام متبوع پر آئے گا اوراس وجہ سے اس پر جرح کی جائے گی ؟اگرایسی بات ہے توپھرتمام انبیاء کرام پر جن کی امت گمراہی ہوئی ۔گمراہی کاالزام آئے گا۔نعوذباللہ من ھذہ الخرافات والھذیانات ۔

اگرکچھ لوگوں نے خلق قرآن کا عقیدہ اختیار کیا۔اگرکچھ لوگ سنت اورحدیث کے بارے میں راہ راست سے ہٹ گئے اگرکچھ لوگوں نے نصوص شرعیہ کووہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق ہیں توکیااس کا الزام امام ابوحنیفہ پر آئے گااورمایکون کے اعتبار سے امام ابوحنیفہ پر جرح کی جائے گی۔اگرایساہے توجارح اورجارح کی جانب سے دفاع کرنے والا دونوں جاہل اورجہالت مین شریک ہیں۔

امام زاہد الکوثری کو تعصب کو طعنہ دینے سے پہلے معلمی اگرخلوص دل کے ساتھ اپنے تعصب پر غورکرتے توانہیں اچھی طرح معلوم ہوجاتاکہ ان کےدل میں تعصب زیادہ ہے اوربہت ہے ۔لیکن انسان کو اپنی آنکھ کاشہتیردکھائی نہیں دیتااوردوسروں کی آنکھ کا تنکابھی کھٹکنے لگتاہے۔

شیخ زاہد الکوثری کاکہنایہ ہے کہ یہ دونوں کلام ان سے ثابت نہیں،کیونکہ یہ دونوں بزرگ اس طرح کی زبان استعمال کرنے سے بری ہیں۔ہاں یہ بعد کے کسی راوی کاکام ہوسکتاہے ۔اگریہ ماناجائے کہ انہوں نے اس طرح کی بات کہی ہے تو اس سے ان کی ذات ہی مجروح ہوگی ۔

اولاجرح دراصل غیبت ہے جیساکہ علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔لیکن ضرورت کی وجہ سے جائز ہے۔

شریعت کااصول ہے کہ ضرورت کو ضرورت کے بقدر ہی رکھاجائے۔

ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ اگرایک کلمہ سے بات پوری ہوسکتی ہوتو دوکلمہ نہیں کہناچاہئے۔ اگرکسی پر مختصرجرح سے کام چل سکتاہے تو توطویل جرح نہیں کرناچاہئے۔اگرکسی پر ضعیف کے اطلاق سے مقصدپوراہورہاہوتوپھرضعیف لیس بالقوی نہیں کہناچاہئے۔

اب ہمیں دیکھناہے کہ کیااس جرح میں تشدد ،اسراف اورمبالغہ آمیزی نہیں ہے؟
جس شخص کا دماغ تعصب سے خالی ہوگااورمحدثین کی اندھی تقلید کاقائل نہ ہوگاوہ یہی کہے گاکہ اس میں جرح کم اوردل کابخارزیادہ نکالاگیاہے۔

شیخ زاہدالکوثری نے یہ بھی کہاکہ اگر یہ دونوں بات انہوں نے کہیں توان کی ذات بھی اسی طرح ساقط الاعتبار ہوجائے گی جیساکہ ان کے مذاہب ساقط اورعدم پذیر ہوگئے اورپھرکبھی ان کے مذہب کو ارتقاء اوریاوجود کا لباس پہننانصیب نہیں ہوا۔
لو كان هذا الخبر ثبت عن الثوري والأوزاعي لسقطا بتلك الكلمة وحدها في هوة الهوى والمجازفة كما سقط مذهباهما بعدهما سقوطا لا نهوض لهما أمام الفقه الناضج
اب بجائے اس کے کہ وہ یہ بتاتے کہ ان دونوں مذہبوں کے ختم ہونے کی وجوہات اورعوامل کیاتھے، یہ بتاتے کہ اگرچہ یہ دونوں مذاہب ختم ہوگئے ہیں لیکن شریعت کی ترویج اورنشرواشاعت مین ان دونوں کاحصہ بھی کم اہمیت کاحامل نہیں۔پھریہ بھی بتاسکتے تھے کہ کسی مذہب کے ختم ہونے سے صاحب مذہب کی تنقیص نہیں ہوتی۔لیکن اس کے بجائے انہوں نے فقہ حنفی پر کیچراچھالناشروع کردیا۔
یہ باتیں میں اس لئے کہہ رہاہوں کہ معلمی نے تنکیل کے شروع میں علامہ کوثری کو یہ نصیحت کی ہے کہ وہ بجائے ا سکے کہ ائمہ حدیث پر جرح کرتے ان کے اقوال کے دوسرے محامل بیان کرسکتے تھے اس کا مطلب یہ بھی ہوتاہے وہ بھی ہوتاہے لیکن اس کے بجائے انہوں نے ائمہ حدیث پر طعن شروع کردیا۔
(دیکھئے تنکیل ص188 تا192جہاں انہوں نے ابن عیینہ کے ایک قول کی تشریح میں علامہ کوثری کو نصیحت کی ہے۔)
لیکن افسوس ہے کہ معلمی بھی بس انہی لوگوں جیسے نکلے خودرافضیحت دیگراں رانصیحت پر عامل ہوتے ہیں۔اگروہ اپنی نصیحت پر دھیان رکھتے تویہاں فقہ حنفی کے انتشاروسعت اورقبولیت عامہ پر چھینٹے اڑانے کی جگہ ان دونو ں مذاہب کے تعلق سے وہ باتیں بیان کرتے جو ماقبل میں ذکر کیاگیاہے۔
وہ ان حضرات کی فضیلت اورفقہائے احناف کی عدم فضیلت پر یہ فرق بیان کررہے ہیں
وهذه الأمهات الست المتدالة بين الناس حافلة بالأحاديث المروية من طريقهما وليس فيها لصاحبكم ومشاهير أصحابه حديث واحد

معلمی نے جہاں تک یہ بیان کیاہے کہ کتب حدیث سفیان ثوری اوراوزاعی کی حدیث سےبھرے ہوئے ہین اورحنفیوں کی ان کتب حدیث میں کوئی حدیث نہیں ہے تو اس پر سنجیدگی اورتعصب سے خالی ہوکر غوروفکر کرتے توانہیں معلوم ہوجاتاکہ اس میں حنفیوں کا علم حدیث میں کی کمی اورقلت اطلاع کا قصورنہیں( جیساکہ بعض جاہلین مغالطہ دیتے ہیں)بلکہ یہ محدثین کرام کا تحامل اورتعصب ہے جیساکہ غیرجانبدار محدثین بھی ہمیشہ اس کو بیان کرتے رہے ہیں۔
عن عباس بن محمد الدوری قال:سمعت یحیی بن معین یقول: اصحابنایفرطون فی ابی حنیفۃ واصحابہ ،فقیل لہ اکان ابوحنیفہ یکذب فقال :کان انبل من ذلک(جامع بیان العلم وفضلہ ،باب ماجاء فی ذم القول فی دین اللہ بالرای والظن والقیاس علی غیراصل ص1081)

ونقمواایضا علی ابی حنیفۃ الارجاء،ومن اھل العلم من ینسب الی الارجاء کثیر،لم یعن احد بنقل قبیح ماقیل فیہ کماعنوابذلک فی ابی حنیفہ لامامتہ،وکان ایضا مع ھذا یحسد وینسب الیہ مالیس فیہ،ویختلق علیہ مالایلیق بہ (المصدرالسابق )
واما سائراھل الحدیث فھم کالاعداء لابی حنیفۃ واصحابہ(الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ ص333)
شیخ جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں۔
وقد تجافی ارباب الصحاح الروایۃ عن اہل الرای ،فلاتکاد تجد اسما لھم فی سند من کتب الصحاح اوالمسانید اوالسنن وان کنت اعد ذلک فی البعض تعصبا،اذیری المنصف عندھذاالبعض من العلم والفقہ ،مایجدر ان یتحمل عنہ، ویستفاد من عقلہ وعلمہ ولکن لکل دولۃ من دول العلم سلطۃ وعصبۃ ذات عصبیۃ ،تسعی فی القضاء علی من لایوافقھا ولایقلدھافی جمیع مآتیھا،وتستعمل فی سبیل ذلک کل ماقدرلھامن مستطاعھا،کماعرف ذلک من سبرطبقات دول العلم،ومظاہرمااوتیتہ من سلطان وقوۃ۔ولقد وجد لبعض المحدثین تراجم لائمۃ اہل الرای ،یخجل المرء من قراءتھا فضلاًعن تدوینھا،وماالسبب الاتخالف المشرب، علی توھم التخالف ورفض النظرفی المآخذ والمدارک،التی قدیکون معھم الحق فی الذہاب الیھا،فان الحق یستحیل ان یکون وقفا علی فئۃ معینۃ دون غیرھا،والمنصف من دقق فی المدارک غایۃ التدقیق ثم حکم بعد۔( الجرح والتعدیل ص24)
شیخ قاسمی نے اپنے قول "وقد تجافی ارباب الصحاح الروایۃ عن اہل الرای کی تشریح میں لکھاہے۔
کالامام ابی یوسف،والامام محمد بن الحسن،فقد لینھمااہل الحدیث، کماتری فی میزان الاعتدال،ولعمری لم ینصفوھما،وھماالبحران الزاخران وآثارھماتشھد بسعۃ علمھما وتبحرھما بل بتقدمھاعلی کثیرمن الحفاظ وناھیک کتاب الخراج لابی یوسف وموطاالامام محمد
( الجرح والتعدیل ص24)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اب اس کے بعد معلمی نے فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تعلق سے جوکچھ کہاہے اسے پڑھئے اورپھرغورکیجئے کہ کیایہ کسی صاحب علم کاکلام ہے یامحض ظن وتخمین کی بنیاد پر استدلال کاقصرتعمیر کیاگیاہے جس میں بدگمانی کاگاڑااورچونابھی شامل ہے۔
أولاً :أولع الناس به لما فيه من تقريب الحصول على الرئاسة بدون تعب في تعب في طلب الأحاديث مسماعهما وحفظهما والبحث عن رواتها وعللها وغير ذلك ، إذ رأوا أنه يكفي الرجل يحصل له طرف يسير من ذلك من ثم يتصرف برأيه ، فغذا به قد صار رئيساً !
لوگ اپنی خوشی اوررغبت سےاس جانب آئے کہ محدثین کی طرح دوردراز کاسفر،حدیث کے حفظ کی مشقت ،روات کی تلاش اورعلل کی وجوہات کی تفتیش میں نہیں پڑناہوگااوربغیرکسی مشقت کے علمی منصب حاصل ہوجائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ پہلاسبب درحقیقت کوئی سبب نہیں بلکہ معلمی کا بغض ہے۔اسلام کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ جب متحرک اوربااثرشخصیات پیداہوتی ہیں تودوسرے حلقے ٹوٹ کر اس سے جڑنے لگتے ہیں۔امام ابوحنیفہ کی عظیم شخصیت جب منصہ شہود پر جلوہ گرہوئی توبہت سے محدثین ان سے جڑگئے اورفقہ وافتاء کواپناشیوہ بنالیا۔

امام شافعی کی شخصیت جب جلوہ گرہوگئی توبہت سے فقہائے اہل الرائے اورامام مالک کے شاگرد ان کے طریقہ تفکیر سے متاثر ہوئے۔یہ اسلام کی پوری تاریخ رہی ہے۔اس کو اس سے تعبیر کرناکہ فقہ حنفی سے جولوگ وابستہ ہوئے وہ اس لئے کہ ان میں طلب حدیث کی مشقت برداشت کرنے کایارانہ تھااوربغیرمشقت علمی منصب حاصل کرنے کا جذبہ اورخواہش تھی ۔ان تمام حضرات کی نیتوں پر حکم لگاناہے جو فقہ حنفی سے وابستہ تھے جواپنی جگہ گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی طورسے بے بنیاداورمحض معلمی کی من گھڑت ہے۔ورنہ معلمی کو چاہئے کہ اپنے دعوے کی دلیل پیش کرتے ۔

دوسرے یہ بات بھی ذہن میں رہناچاہئے کہ بدنی مشقت سے ذہنی مشقت بدرجہازیادہ شدید ہوتی ہے۔کیافقہاء کرام نے استنباط احکام میں مشقتیں برداشت نہیں کیں۔ کیافقہائے کرام نے حصول علم کیلئے بیس بیس تیس تیس سال تک ایک ہی استاد کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کرکے علم حاصل نہیں کیا۔

امام ابویوسف کا لڑکا فوت ہوگیالیکن اسکے باوجود انہوں نے اپنے استاد کی مجلس درس میں ناغہ نہیں کیا۔ امام محمد رات رات بھرجاگ کرفقہی مسائل کی ترتیب وتالیف میں منہمک رہاکرتے تھے ۔جب کسی نے کہاکہ آپ سوتے کیوں نہیں توجواب دیاکہ شہروالے میرے بھروسے پر سوتے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہواتومحمد سے پوچھ لوں گاتومیں کیسے سوجاؤں۔

اورکیامحض حصول علم حدیث میں مشقت برداشت کرنے سے آدمی مجمع الفضائل ومنبع الکمالات ہوجاتاہے۔خطیب بغدادی اوردوسروں نے محدثین پر اسی کاتورونارویاہے کہ ضعیف موضوع ،غرائب اورعلوسند کی تلاش میں پوری زندگی صرف کردیتے ہیں لیکن اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ حدیث کا جومقصود اورمفہوم ہے یعنی فقہ حدیث اس کی جانب توجہ کریں۔

رسمت فِي هَذَا الْكتاب لصَاحب الحَدِيث خَاصَّة وَلغيره عَامَّة مَا أقوله نصيحة مني لَهُ وغيرة عَلَيْهِ وَهُوَ أَن يتَمَيَّز عَمَّن رَضِي لنَفسِهِ بِالْجَهْلِ وَلم يكن فِيهِ معنى يلْحقهُ بِأَهْل الْفضل وَينظر فِيمَا أذهب فِيهِ مُعظم وقته وَقطع بِهِ أَكثر عمره من كتب حَدِيث رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم وَجمعه ويبحث عَن علم مَا أَمر بِهِ من معرفَة حَلَاله وَحَرَامه وخاصه وعامه وفرضه وندبه وإباحته وحظره وناسخه ومنسوخه وَغير ذَلِك من أَنْوَاع علومه قبل فَوت إِدْرَاك ذَلِك فِيهِ

معلمی دوسری وجہ بیان کررہے ہیں
ثانياً: ولي أصحابكم قضاء القضاة فكانوا يحرصون على أن لا يولوا قاضياً في بلد من بلدان الإسلام إلا على رأيهم ، فرغب الناس فيه ليتولوا القضاة ، ثم كان القضاة يسعون في نشر المذهب في جميع البلدان .
دوسرے میں یہ ہے کہ فقہائے احناف چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز ہوئے اوروہ اپنے شاگردوں اورفقہ حنفی سے نسبت رکھنے والوں کو ہی قاضی بناتے تھے۔اورپھریہی قاضی آگے چل کر فقہ حنفی کی نشرواشاعت کرتے تھے۔

معلمی نے یہاں پر واضح طورپرعلمی خیانت کی ہے۔جوچیز لازم تھااس کو متعدی بنادیاہے۔تمام مورخین نے اتناہی لکھاہے کہ چیف جسٹس فقہائے احناف ہواکرتے تھے اوروہی حنفیوں یافقہ عراقی سے نسبت رکھنے والوں کو ہی قاضی بناتے تھے اوراس کی وجہ سے فقہ حنفی کی نشرواشاعت ہوئی ۔لیکن یہ کسی نے بھی نہیں لکھاکہ قضاۃ فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں کوشش کرتے تھے۔میں نے اب تک جتنی بھی تاریخ پڑھی ہے اورجس نے بھی اس تعلق سے لکھاہے ا س میں کسی نے بھی یہ بات نہیں لکھی۔ ظاہر ہے کہ جوش تعصب میں یہ معلمی کا دروغ بے فروغ ہے اورکچھ نہیں۔
اگرچیف جسٹس ایساکرتاہے کہ وہ جس مکتب فکر سے وابستہ ہے اسی کے دیگروابستگان کو قاضی بنتاہاہے تواس مین غلط کیاہے؟اس کا ظاہری مطلب تویہی نکلتاہے کہ چیف جسٹس کی منشاء یہ ہوگی کہ پوری مملکت میں ایک ہی طرح کےقوانین نافذ ہوں ۔اوراختلافات کم سے کم ہوں۔اگرایک ہی مکتب فکر سے وابستہ قاضی رہیں گے تو ان میں اختلافات نسبتاًکم ہوں گے۔
دوسرے یہ بات بھی سرے سے غلط ہے کہ خلافت عباسیہ میں صرف حنفی فقہاء قاضی بنتے تھے۔معمولی سی مثال لیں۔امام طحاوی کے عہد میں مصرمیں قاضی کون تھا؟ابوعبیدکیاوہ حنفی تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ قضاۃ پر لکھی گئی کتابوں کا اگرجائزہ لیاجائے تویہ طلسم ہی ٹوٹ جاتاہے کہ حنفی چیف جسٹس صرف حنفیوں کوہی قاضی بناتے تھے۔ اسی دور میں بہت سارے قضاۃ غیرحنفی بھی تھے۔ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیشتر قاضی حنفی ہی ہواکرتے تھے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ثالثاً : كانت المحنة على يدي أصحابكم واستمرت خلافة المأمون وخلافة المعتصم وخلافة الواثق ، وكانت قوى الدولة كلها تحت غشارتهم فسعوا في نشر مذهبهم في الاعتقاد وفي الفقه في جميع القطار ، وعمدوا إلى من يخالفهم في الفقه فقصدوه بأنواع الأذى الذي ولذلك تعمدوا أبا مسهر عبد الأعلى بن مسهر عالم الشام وارث فقه الأوزاعي (1) وافمام أحمد بن حنبل حامل راية فقه الحديث (2) وأبا يعقوب البويطي خليفة الشافعي (3) وابن عبد الحكيم وغيره من المالكية بمصر
معلمی تیسراسبب جوبیان کیاہے ۔اس کے بارے میں اگرہم نرم سے نرم الفاظ بھی استعمال کریں تویہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تاریخ اسلامی اورفتنہ خلق قرآن سے ان کی ناواقفیت اورجہالت ہے۔اگرمعلمی کا گمان یہ ہے کہ جوکچھ وہ فرمائیں ہم اسے غیرمقلدین کی طرح مستند مان لیں تویہ ہونے والانہیں ہے۔ہم نے بھی خلق قرآن کے عقیدہ پر بہت کچھ پڑھاہے لیکن کسی بھی قابل ذکر کتاب میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ وہ اپنے فقہی مسلک میں مخالفین کو تکلیف دیاکرتے تھے اورزبردستی اس کو قبول کرنے مجبورکیاکرتے تھے۔بات جوکچھ بھی تھی اورجتنی بھی تھی وہ محض خلق قرآن کے عقیدہ کے تعلق سے تھی جس کا نام بھی معلمی نے اس پیراگراف میں ذکر کیاہے اورجن کاذکر نہیں کیاہے لیکن کتب تاریخ میں وہ موجود ہے ۔معلمی نے تنکیل میں ایک اورمقام پر اس کااشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ امام علی بن المدینی سے الانتقاء میں جوامام ابوحنیفہ کی توثیق مذکور ہے وہ محض معتزلہ کے ڈر سے انہوں نے توثیق کردی تھی۔(التنکیل2/582)
لگتاہے کہ خودمعلمی نے معتزلہ کی پوری تاریخ نہیں پڑھی۔ معتزلہ حریت فکر کے داعی تھے۔ وہ عامیوں کیلئے بھی تقلید کو جائزنہیں سمجھتے تھے وہ ہرایک کو دلیل سے بات سمجھنے کی تلقین کیاکرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ وہ محدثین پر قلت فکر،جمود کاطعنہ دیاکرتے تھے کہ وہ اپنے سے پیشرومحدثین کے طرز فکر پر سختی سے گامزن ہیں۔تو وہ دوسروں کو فقہی مسائل میں مختلف رائے رکھنے پر ایذاء کیوں دیں گے؟۔بہرحال تاریخی جہت سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ معتزلہ نے کسی کوفقہی مسائل میں الگ رائے رکھنے پرتکلیف دی ہوبلکہ یہ معلمی کا دوسرا دروغ بے فروغ ہے۔

مسئلہ خلق قرآن میں سب سے زیادہ غلو مامون الرشید کوتھا۔اوردوسری طرف اس کی سب سے زیادہ مخالفت امام احمد بن حنبل نے کی۔ امام احمد بن حنبل کے تعلق سے ہزاروں صفحات لکھے گئے ہیں لیکن کہیں بھی ایسامذکورنہیں ہے کہ ان کوکسی نے فقہ حنفی کے مطابق رائے رکھنے پر مجبور کیاہو ۔یاکہاہو کہ وہ امام ابوحنیفہ کی توثیق کریں۔ تجریح کے الفاظ واپس لے لیں۔

مامون الرشید خود بھی حریت فکر کاداعی تھاچنانچہ جب کسی نے اس کے سامنے امام ابوحنیفہ کے آراء کے خلاف کتاب لکھی اوریہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امام ابوحنیفہ کی آراء احادیث کے خلاف ہیں۔ تواس نے یحیی بن اکثم،اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ اوربشربن المریسی کو بلاکر کہاکہ تم یاتواس کا شافی جواب لکھو یاپھرتم کوکارقضاء سے الگ کردیاجائے گا۔ یہ لوگ نہ لکھ پائے توعیسی بن ابان نے شاندار کتاب لکھی اوراس میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیا جوامام ابوحنیفہ کی آراء پر کئے گئے تھے۔عرض کرناصرف اتنامقصود ہے کہ مامون الرشید کے سامنے جب کسی نے فقہ حنفی پر اعتراض کیاتواس نے اس کوپابند سلاسل نہیں کردیابلکہ فقہائے احناف کو اس کا جواب دینے کیلئے کہا۔اسی طرح فقہائے احناف نے بھی مامون سے اس کی سفارش نہیں کی کہ اس کو قید کردیاجائے یااس کی گردن اڑادی جائے بلکہ اس کے بالمقابل انہوں نے جواب دینے کی کوشش کی اورجواب دیا۔لہذا یہ داستان طرازی کرنا کہ مامون یامعتزلہ محدثین کوفقہ حنفی کے مطابق رائے رکھنے کیلئے زبردستی کرتے تھے نہایت غلط بات ہے اوراس کو کم ازکم کھلاجھوٹ ہی کہاجاسکتاہے۔
پھر معلمی نے جوکچھ کہاہے کہ فقہائے احناف نے سلاطین عباسیہ کے زورپر دیگرکو حنفی بنایاتوجب معتزلہ کا زورٹوٹ گیااورامام احمد اوردیگر محدثین کی وقعت وعزت سلاطین عباسیہ کے دربارمیں بحال ہوگئی ۔معتزلہ کانام ونشان مٹ گیاتوفقہ حنفی کیوں نہیں نابود ہوگیاوہ کیوں باقی رہا؟کیااس سوال پر معلمی نے غورکیاہے جو فقہ حنفی اورمعتزلہ دونوں کو انہوں نے یکساں کرنے کی کوشش کی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ معتزلہ کے خلق قرآن کے مسئلہ میں جس کوامام ابوحنیفہ غلط قراردے چکے تھے تشدد برتنااورسلطنت کا سہارالے کر دیگر فقہاٗ اورمحدثین کو زبردستی اسکا قائل بنانافقہ حنفی کیلئے نقصان کا باعث ہوانہ کہ اس کی وجہ سے فقہ حنفی کی نشرواشاعت ہوئی۔

رابعاً: غلبت الأعاجم على الدولة فتعصبوا لمذهبكم لعلة في سبيلها وما فيه من التوسع في الرخص والحيل !
یہ چوتھاسبب جو معلمی نے بیان کیاہے وہ ان کے فقہ حنفی سے تعصب کا منہ بولتاثبوت ہے۔ کوئی ایک تو ثبوت پیش کیاجائے تاریخ سے کہ کسی بادشاہ نے فقہ حنفی کواس لئے اپنایاہوکہ اس میں رخصت اورحیل موجود ہے اوراسی وجہ سے اس نے فقہ حنفی کو اپنایا۔۔
فقہ حنفی میں بعض مباح حیل اورجائزرخصتوں کی وجہ سے(جس کی تفصیل شیخ ابوزہرہ نے اپنی قیمتی کتاب الامام ابوحنیفہ میں بیان کی ہے)یہ داستان تراشناکہ بادشاہوں نے اسے اسی وجہ سے قبول کیا۔ایساہی ہے جیسے کہ کسی شخص کے دامن پر لال رنگ دیکھ کر یہ قیاس کرلیناکہ وہ خونی اورقاتل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایساایک بھی واقعہ موجود نہیں ہے کہ کسی بادشاہ نے فقہ حنفی کواس لئے قبول کیاکہ اس میں رخصتیں بہت ہیں اورحیل موجود ہیں بلکہ وجہ یہ رہی ہے کہ اس سے قبل سے وہ اوران کے آباء واجداد فقہ حنفی سے وابستہ تھے لہذا وہ بھی اسے سے جڑے رہے۔ اس میں صرف ایک مثال ایسی ہوسکتی ہے کہ سلطنت عباسی کی۔

مثلاہندوستان کے مغل بادشاہ حنفی تھے کیااس لئے کہ انہوں نے کتب فقہ میں دیکھ کر معلوم کیاتھاکہ فقہ حنفی میں حیل اوررخصتوں کی بہت گنجائش ہے بلکہ اس لئے وہ حنفی تھے کہ ان کے آباء واجداد بھی حنفی تھے۔
سلاطین عثمانیہ حنفی تھے کیاوہ اس لئے حنفی ہوئے کہ فقہ کاتقابلی مطالعہ کرکے ان پر روشن ہواکہ خواہشات نفسانیہ کے پوراکرنے کیلئے فقہ حنفی بہت موزوں ہے یاان کے آباء واجداد بھی فقہ حنفی سے وابستہ تھے اس لئے وہ بھی حنفی ہوئے۔

کیاسلطنت عباسی میں سے کسی بھی بادشاہ کے بارے میں یہ ملتاہے کہ اس نے فقہ حنفی اس لئے قبول کیاکہ اس میں رخصتیں بہت زیادہ ہیں۔امام ابویوسف کے تعلق سے بعض لوگوں نے رنگ آمیزی کی ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ داستان ہے یافقط زیب داستان۔اگرکوئی شخص صرف کتاب الخراج کامطالعہ کرلے تواس کو معلوم ہوجائے گاکہ امام ابویوسف کے تعلق سے داستان گویوں نے جوکچھ کچھ داستان تراشاہے وہ محض داستان ہی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

جس شخص نے بھی فقہ اربعہ کا تقابلی مطالعہ کیاہے وہ اچھی طرح جانتاہے کہ ہرمسلک میں بعض امورمیں نرمی اوربعض امور مین سختی ہے لہذامطلقاکسی کے بارے میں کہناکہ اس مین رخصتیں بہت زیادہ ہیں ایک بے بنیاد اورفقہ تقابلی سے ناواقفیت کا اظہار ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
خامساً : تتابعت دول من ألعاجم كانوا على هذه الوتيرة .
معلمی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح دیگر بادشاہ فقہ رخصتوں اورحیل کی وجہ سے فقہ حنفی کی جانب مائل ہوئے تھے اسی طرح عجمی بادشاہان بھی حیل اوررخصتوں کی وجہ سے فقہ حنفی کی جانب مائل ہوئے اورا س کو اپنایا۔

لیکن یہ معلمی کا دروغ بے فروغ ہے۔جس کیلئے ان کے پاس تاریخ کی کوئی شہادت نہیں!جیساکہ سابق میں ذکر کیاجاچکاہے کہ بیشتر عجمی بادشاہان کے آباء واجداد فقہ حنفی سے وابستہ تھے اس لئے وہ فقہ حنفی سے جڑے۔
اس کے علاوہ معلمی کی جرات دیکھیں کہ تمام بادشاہوں پر یہ حکم لگادیاکہ انہوں نے اگرفقہ حنفی کو قبول کیاتوخواہشات نفسانی کیلئے۔ حالانکہ اس میں ایسے بھی بادشاہان گزرے ہیں جو نہایت متقی ،پرہیزگاراوردیگر اسلامی اوصاف واخلاق سے وابستہ تھے ۔لیکن معلمی نے ایک ہی جملے سے سبھوں کے تمام اوصاف پر پانی پھیردیا۔

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑازمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نماآشیانہ میں​

حضرت نورالدین زندگی کی ذات وہ ہے جس کے بارے میں ان کے معاصر ابن اثیر لکھتے ہیں کہ خلفاء راشدین اورعمربن عبدالعزیز کے استثناء کے ساتھ وہ سب سے بہتر ہیں۔

عثمانی سلطنت کے بانی عثمان خان ہیں ۔
محمد فاتح ،فاتح قسطنطنیہ ہیں
ناصرالدین ہیں
اورنگ زیب عالمگیر ہیں۔
اورنہ جانے کون کون ہیں
لیکن معلمی کی نگاہ میں سب کے سب خواہشات نفس کے اسیر ہیں۔

معلمی کویہ معلوم ہوناچاہئے کہ ان میں بعض خامیوں کے باوجود انہوں نے ہی اسلامی سرحدوں کی حفاظت کی۔ دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردیا۔معتصم باللہ کا خلق قرآن کے تعلق سے عقیدہ جوبھی ہو لیکن جب ایک عورت نصرانیوں کی قید میں اسے مدد کیلئے پکارتی ہے تو اس کیلئے اپنی شمشیر بے نیام کردیتاہے اورجب تک اسے رہانہیں کروالیتاچین سے نہیں بیٹھتا۔انہی لوگوں نے یورپ کے سیل بلاخیز کو روکاہے۔انہوں نے ہی یوروپ کے اندرگھس کر اسلام کاپرچم لہرایاہے۔
غیرمقلدین نے اس کے مقابلے میں کیاکیاہے؟ہے کوئی تاریخ ان کے پاس؟ہے کوئی نام ان کے پاس؟

سادساً : قام أصحابكم بدعاية لا نظير لها واستحلوا في سبيلها الكذب حتى على النبي - صلى الله عليه وسلم - ، كما نراه في كتب المناقب .

معلمی کا تعصب کتنامکشوف ہے اس کے باوجود بھی بعض لوگ جہالت سے اس کے اعتدال کی تعریف میں رطب اللسان ہے
علماء کرام نے ہمیشہ ان چیزوں کو تعصب کے زمرے میں شمار کیاہے اوروضع حدیث کا ایک سبب کسی امام کے تعصب میں حدیث گھڑنابھی بیان کیاہے۔لیکن اس چیز کو فقہ حنفی کی نشرواشاعت سے کیاتعلق ہے۔کیاماقبل میں کسی بھی قابل ذکر عالم نے یہ بیان کیاہے کہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں وضاعین حدیث کا ہاتھ تھا۔میرے علم کی حد تک ایک بھی قابل ذکر مورخ نے یہ سبب نہیں بیان کیاہے۔ پھرمعلمی پر یہ کہاں سے الہام اورالقاء ہواکہ فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں ایک بڑاسبب وضع حدیث ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جب مذاہب اربعہ میں مناظرہ ومجادلہ کے بعد تعصب کی روح بیدار ہوئی اورانہوں نے دلائل کے بجائے فضائل پر زوردیناشروع کردیاتوبعض جاہل لوگوں نے اپنے اپنے امام کی فضیلت میں وضع حدیث کاکام شروع کردیا۔اس کو صرف امام ابوحنیفہ سے خصوصیت نہیں ہے۔

لوگوں نے وضع حدیث میں صحابہ کرام کے تعلق سے بھی حدیثیں وضع کی ہیں ۔حضرت ابوبکرکی مدح میں موضوع احادیث ہیں۔ حضرت عثمان کی مدح وذم میں موضوع احادیث ہیں۔ حضرت علی کے مدح وذم میں موضوع احادیث ہیں۔ حضرت معاویہ اوردیگر صحابہ کرام کی شان میں موضوع احادیث ہیں؟کیااس کے بارے میں بھی معلمی وہی نقطہ نظررکھناچاہیں گے جوکہ فقہ حنفی کے بارے میں رکھتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے قرآن کے فضائل میں بھی احادیث وضع کی ہیں۔ جب ان سے پوچھاگیاتووضع کرنے والے نے کہاکہ لوگ فقہ وغیرہ کی جانب زیادہ توجہ دینے لگے ہیں اس لئے لوگوں کو قرآن کی جانب مائل کرنے کیلئے احادیث وضع کررہاہوں۔ کچھ لوگ کارخیر کیلئے حدیث وضع کرناجائز سمجھتے تھے۔

کیانشرقرآن بھی موضوع احادیث کا محتاج ہے ؟اگرمعلمی کی منطق استعمال کریں تو ایساہی ہے لیکن اگرعقل سلیم کو کام میں لائیں توہرگزنہیں۔یہ مقصود نہیں کہ قرآن اورفقہ حنفی میں کسی قسم کاتقابل ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ فقہ حنفی اگرپھیلاہے تواس کے کچھ دیگر اسباب ہیں جن کو آخر میں بیان کیاجائے گا۔لیکن وضع حدیث کو سبب یاتووضاعین حدیث سے جہالت یاپھرتعصب کی کارفرمائی ہے۔

سابعاً : تمموا ذلك بالمغالطات التي ضرب فيها الكوثري المثل القصي في (التأنيب) كما شرحت أمثلة من ذلك في ( الطليعة ) وفي هذا الكتاب ، ومر بعضها في هذه الترجمة نفسها .
اگرکوئی اس کے جواب میں یہ غزل پڑھناشروع کردے کہ محدثین کے مذہب کوکسی زمانہ میں اس لئے مقبولیت ہوئی کہ وہ ابوحنیفہ کو ابوجیفہ کہتے تھے۔ یہ کہاکرتے تھے کہ ابوحنیفہ کے اسلام میں شک ہے یایہ کہاکرتے تھے کہ ان سے زیادہ منحوس کوئی پیدانہیں ہوا اوراسی طرح کے سب وشتم کی وجہ سے انہوں نے اپنے مذہب کو آگے بڑھایاتوجوجواب اس کا غیرمقلدین دیں گے وہی جواب اس کابھی سمجھ لیں۔

حقیقت یہ ہے کہ معلمی کا میدان علم بہت محدود ہے معلمی کو جرح وتعدیل میں بھلے ہی کچھ دستگاہ ہو لیکن فقہیات میں ان کا دامن بھی ترنہیں ہواہے۔یہ کوئی بڑاکمال نہیں ہے کہ کوئی شخص حافظ ابن حجر اوردیگر مختلف مسالک کے علماء کی کتابوں کے اعتراضات حنفیہ پر نقل کردے۔ یہ ہرعربی خوان کرسکتاہے اوریہی معلمی نے تنکیل میں کیاہے؟اصل چیز ہے کہ مجتہدین امت کے مدارک اجتہاد کو سمجھنا،ان کی فقہی گہرائی اورگیرائی تک رسائی حاصل کرنااورپھرکسی مسئلے پر کلام کرنا۔اوریہ چیز معلمی کے علم سے باہر کی بات ہے!
فأما النضج الذي يدعيه الأستاذ فيظهر نموذج منه في قسم الفقهات ، بل في المسألة الأولى منها !
وقد كان خيراً للأستاذ ولصحابه ولنا وللمسلمين أن يطوى الثوب على غزة ويقر الطير علي مكناتها ويدع ما في (
تاريخ بغداد ) مدفوناً فيه ويذر الضئيل بين مسلمي الهند مقصوراعليهم..}اهـ
اب چاہے معلمی اوران کے قبیل کے اورقبیلہ کے دیگر لوگ اس پر کتنابھی ناک بھوں چڑھائیں لیکن فقہ حنفی تجربات کی بھٹی میں گھسی گھسائی اورمعیارکے کندن میں تپی تپائی ہے ۔تاریخ اسلامی کے بیشترادوار میں یہ حکومت اورسلطنت کامذہب رہاہے لہذایہ صدیوں کے تجربات کاامین ہے؟اورتجربہ غلط نہیں ہوتا۔

معلمی صاحب نے دوسرے پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اسے دیکھ کر لڑنے جھگڑنے والوں کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔تم ہمیں ایک کہے گاتوہم سے دس سنے گا۔
وہ شیخ زاہد الکوثری کو یہ تونصیحت کرتے ہیں کہ وہ تاریخ بغداد میں جوکچھ ہے اسے مدفون رہنے دیں اسے کریدنے کی جرات نہ کریں۔ لیکن معلمی اپنے مسلکی بھائیوں کویہ نصیحت کرنابھول جاتے ہیں کہ وہ تاریخ بغداد سے امام ابوحنیفہ کا ترجمہ خاص طورپرمثالب والانشرنہ کریں۔وہ یہ نصیحت کرنابھول جاتے ہیں کہ ہندوستان میں اس ترجمہ کوبطورخاص نشرکرنادرست بات نہیں؟وہ یہ نصیحت کرنابھول جاتے ہیں کہ ائمہ کرام کے ادب واحترام سے جونصوص وارد ہوئی ہیں ان کا لحاظ رکھاجائے ۔ان کاجوش حمیت بس اسی وقت جاگتاہے جب کوئی ان ہفوات کے جواب دیناچاہے۔
جہاں تک ہماراتعلق ہے کہ ہم معلمی کی اس نصیحت کے بارے میں کیاکہناچاہیں گے توہماراموقف صاف ہے۔
ہم ایسی کل نصیحت قابل ضبطی سمجھتے ہیں​
کہ جس میں خودرافضیحت اوردیگررانصیحت کی آمیزش ہو۔
والسلام
 
Top