• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ حنفی کے فرضی مسائل

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
فقہ حنفی میں ایسے کتنے ہی مسائل ہیں ، جن واقع ہونا عادۃ محال ہے،اگر فقاہت نام ہے قرآن وحدیث کے علاوہ دیگرعلوم کا جس طرح مروجہ فقہ کی کتاب میں مذکور ہیں ، جیسے :اگر کتا بکری کے ساتھ جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والی چیز کا نام کیا ہونا چاہیے اور وہ چیز حلال ہے یا حرام ؟
اسی طرح ایسے مسائل کے بارے میں سوالات جنکا رونما ہونا عادہ محال ہے ، صحابہ کرامؓ تو ایسے مسائل کے بارے میں جواب دینے سے گزیز کرتے تھے جو وقوع پذیر نہیں ہوتے تھے ـ امام دارمی نے اپنی سنن کے مقدمہ (ص 47 ج 1) میں اور حافظ ابن حجر ے فتح الباری(ص 66 ج 13) میں اس سلسلے میں متعدد آثار نقل کئے ہیں ـ
عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں : کہ جو واقعہ ہوا نہیں اس کے بارے میں سوال مت کیا کرو کیونکہ میں نے عمرؓ سے سنا '' يلعن من سأل عما لم يكن " کہ وہ اس شخص پر لعنت کرتے تھے جو ایسی بات کرے معاملے میں سوال کرتا جو ابھی واقع نہیں ہوئی ہوتی تھی ،
بلکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے تو اس نوعیت کی جسارت کو اسباب فتن میں شمار کیا ہے ـ چنانچہ اپنی معرکتہ الاراء تصنیف ازالتہ الخفاء عن خلافتہ الخلفاء کی فصل پنجم میں اسباب فتن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ـ '
'هفتم تعمق مردم درمسائل فقهيه وتكلم برصور مفروضة كه هنوز واقع نه شده است وسابق اين معني راجانز نمي داشتند الخ(ازالة مترجم : ص 499 وج 1)''فتنہ کے دور میں ہونے والا ساتواں عمل یہ ہے کہ مسائل فقہیہ میں غور و خوض کرنا اور مسائل کی فرضی صورتیں جو ابھی واقع نہیں ہوئیں (اپنے ذہن سے تراش کرلوگوں کے سامنے ) بیان کرنا، پہلے حضرات اسے جائز نہیں سمجھتےتھے ''
اس کے بعد انہوں نے دارمی کے حوالے سے ان آثارکو نقل کیا ہے، جن کی طرف ابھی اشارہ کر آئے ہیں ـ حافظ ابن حجررحمہ اللہ بھی رقمطراز ہیں :
وثبت عن جممع من السلف كراهة تكلف المسائل التي يستحيل وقوعها عادة أو يندر جدا(فتح الباري : ص 407 ، ج 10)''کہ سلف کی ایک جماعت ان مسائل کے بارے میں تکلف کو مکرہ سمجھتی ہے جن کا واقع ہونا عادہ محال ہے یا بہت شاذ و نادر ہیں ''
بلاشبہ اس بارے میں فقہا اہل رائے کا مشغلہ بڑا ہی وسیع و عجیب رہا ہے ـ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں ـ مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ
" کتب فقہ میں بعض ایسے مسائل مندرج ہیں کہ محال عادی ہے ( البرهين القاطعة ص 13)
غور فرمایا آپ نے کہ سلف میں جو بات ناپسند تھی فتنہ کے دور میں وہی خوب سے خوب ترہوتی چلی گئی ـع
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
فقہاء عراق اور فقہاء حجاز کے نقطۂ نظر کا فرق اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے جسے خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے :
حضرت قتادہ جب کوفہ تشریف لائے تو غائب شحص کی بیوی اور اس کے مہر کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور قتادہ کے درمیان گفتگو ہوئی، قتادہ نے دریافت کیا کہ کیا کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نفی میں جواب دیا، قتادہ نے کہا جب یہ واقعہ پیش نہیں آیا تو اس کے بارے میں دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے، امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا :
ہم مسائل کے پیش آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے ہیں تاکہ مسائل جب پیش آجائیں تو ہم بآسانی اس سے عہدہ برآہوسکیں ۔"اِنَّانَسْتَعِدُّ لِلْبَلَاءِ فَاِذَا مَاوَقَعَ عَرَفْنَا الدُّخُوْلَ فِیْہ وَالْخُرُوْجَ مِنْه"۔(تاریخ بغداد:۶/۱۰۶، ذکر من اسمہ نعمان)
آج کل حنفی بھائیوں نے یہ کام ترک کر دیا ہے، کیا آج اس بات کی ضرورت نہین ہے کہ ایسے مسائل کے بارے غور و فکر کیا جائے جو مستقبل میں پیش آنے والے ہیں، اور لوگوں نے اس کو فقہ حنفی کی خصوصیات میں شمار کیا ہے تو کیا آج کل حنفی بھائی اس کو بحال کر کے فقہ حنفی کو چار چاند نہیں لگائیں گے؟؟
 
Top