• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ حنفیہ میں بحق نبی و اولیاء دعاء کرنے کے متعلق حکم

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ: أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك.
امام محمد رحمہ اللہ نے جامع صغیر میں فرمایا اور مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعاؤں میں یوں کہے میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر، اور مکروہ ہے اپنی دعا میں کہے "بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك" «« ترجمہ: محمد یوسف احمد تاؤلی، مدرس دار العلوم دیوبند »»
فرماتے ہیں کہ انسان کا اس طرح دعا کرنا مکروہ ہے کہ تجھ سے عزت عرش کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر سوال کر رہا ہوں، اپنی دعا میں بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك کہنا مکروہ ہے۔ «« ترجمہ: عبد الحلیم قاسمی بستوی، مفتی دار العلوم دیوبند »»
امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ یہ بات مکروہ ہے، کہ کوئی شخص اپنی دعا ان الفاظ سے کرے اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك، اور یہ بات مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعا میں اس طرح کہے کہ بحق فلاں یعنی الہٰی فلاں بزرگ حق سے میری دعا قبول فرما، یا یوں کہے کہ الہٰی بحق انبیاء وبحق رسول میری یہ دعا قبول فرما۔ «« ترجمہ: سید امیر علی »»
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 01 صفحه 252 »» بداية المبتدي في فقه الإمام أبي حنيفة »» أبو الحسن برهان الدين المرغيناني (المتوفى: 593هـ) »» طبع علی نفقة حامد إبراهيم كرسون
●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

قَالَ (وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ: أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) وَلِلْمَسْأَلَةِ عِبَارَتَانِ: هَذِهِ، وَمَقْعَدُ الْعِزِّ، وَلَا رَيْبَ فِي كَرَاهَةِ الثَّانِيَةِ؛ لِأَنَّهُ مِنْ الْقُعُودِ، وَكَذَا الْأَوْلَى؛ لِأَنَّهُ يُوهِمُ تَعَلُّقَ عِزِّهِ بِالْعَرْشِ وَهُوَ مُحْدَثٌ وَاَللَّهُ تَعَالَى بِجَمِيعِ صِفَاتِهِ قَدِيمٌ. وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ. وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ - رَحِمَهُ اللَّهُ - لِأَنَّهُ مَأْثُورٌ عَنْ النَّبِيِّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -. رُوِيَ أَنَّهُ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ «اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك؛ وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك، وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ» وَلَكِنَّا نَقُولُ: هَذَا خَبَرُ وَاحِدٍ فَكَانَ الِاحْتِيَاطُ فِي الِامْتِنَاعِ (وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ فِي دُعَائِهِ بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك) ؛ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْمَخْلُوقِ عَلَى الْخَالِقِ.
امام محمد رحمہ اللہ نے جامع صغیر میں فرمایا اور مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعاؤں میں یوں کہے میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر، اس کی دو عبارتیں ہیں، ایک تو یہی ہے اور دوسری "مَقْعَدُ الْعِزِّ" اور دوسری کے مکروہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ یہ قعود سے ماخوذ ہے اسی طرح پہلی بھی مکروہ ہے کیونکہ یہ موہم ہے کہ عزت الہٰی کا تعلق عرش سے ہے حالانکہ عرش حادث ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ قدیم ہے۔ اور ابو یوسف رحمہ اللہ سے منقول ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی کو فقیہ ابو للیث نے لیا ہے اسلئے کہ یہ نبی علیہ السلام سے منقول ہے۔ مروی ہے کہ آپ کی دعا میں یہ کلمات ہیں الہٰی میں آپ کے عرش کی عزت کی گرہ بندی کے مقام کا آپ کی کتاب سے رحمت کی انتہاء کا آپ کے اسم اعظم و عظمت و کبریائی اور آپ کے کلمات تامہ کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے تو احتیاط رکنے میں ہے اور مکروہ ہے اپنی دعا میں کہے "بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك" اسلئے کہ مخلوق کا کوئی حق خالق پر نہیں ہے۔ «« ترجمہ: محمد یوسف احمد تاؤلی، مدرس دار العلوم دیوبند »»
ترجمہ: فرماتے ہیں کہ انسان کا اس طرح دعا کرنا مکروہ ہے کہ تجھ سے عزتِ عرش کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر سوال کر رہا ہوں، اس مسئلے کے دو الفاظ ہیں یہ (أسالك) اور مقعد عز، دوسرے کی کراہیت میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ قعود سے مشتق ہے، اسی طرح پہلی عبارت بھی مکروہ ہے ، کیونکہ یہ عرش سے باری تعالیٰ کی عزت کے متعلق ہونے موہم ہے، حالانکہ عرش محدث ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی جملہ صفات کے ساتھ قدیم ہیں۔
حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اس دعا میں کوئی حرج نہیں ہے، فقیہ ابو اللیث رحمہ اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے، کیونکہ یہ نبی کریم علیہ السلام سے ماخوذ ہے، روایت میں آتا ہے کہ آپ کی دعا کے کلمات میں سے یہ کلمات بھی ہیں۔ اے اللہ میں تجھ سے عزتِ عرش کی گرہ بندی کا، آپ کی کتاب سے رحمت کی انتہاء کا، آپ کے اسم اعظم کا، آپ کی عظیم کبریائی اور کلمات تامہ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے، لہٰذا اس طرح کے واسطے نہ دے کر ہی سوال کرنے میں احتیاط ہے۔ اپنی دعا میں بِحَقِّ فُلَانٍ أَوْ بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك کہنا مکروہ ہے، کیونکہ خالق پر مخلوق کا کوئی حق نہیں ہے۔ «« ترجمہ: عبد الحلیم قاسمی بستوی، مفتی دار العلوم دیوبند »»
امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ یہ بات مکروہ ہے، کہ کوئی شخص اپنی دعا ان الفاظ سے کرے اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك: اس دعا کی عبارت ان دو طریقوں سے ہے، ایک طریقہ تو یہی ہے، اور دوسرا طریقہ کی عبارت بمقعد بِمَقْعَدُ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك، مگر اس دوسرے طریقہ کی عبارت سے مکروہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ کیونکہ لفظ مقعد مادہ قعود سے مشتق ہے ۔ اسی طرح پہلی عبارت بھی مکررہ ہے، کیونکہ یہ لفظ یہ وہم پیدا کرتا ہے کہ عزت الہٰی عز وجل کا تعلق عرش سے ہے، حالانکہ عرش تو حادث اور فانی چیزوں میں سے ہے، اور اللہ تعالیٰ تو اپنی تمام صفتوں کے ساتھ قدیم ہے۔ اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے نوارد میں روایت ہے کہ دونوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت یعنی مقعد ہو یا معقد ہو کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسی قول کو فقیہ ابو اللیث رحمہ اللہ نے شرح جامع صغیر میں پسند کیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان ہی الفاظ سے مروی ہے، چنانچہ مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں اسی طرح فرماتے تھے اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك؛ وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك، وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ: (الہٰی! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بطفیل تیرے عرش کی جگہوں کے، جن میں تیری عزت وابستہ ہے، اور بطفیل منتہائے رحمت کے تیری کتاب سے، اور تیرے اسم اعظم اور کلمات تامہ کے طفیل سے) ۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ خبر الواحد ہے اور اس سے منع کرنے ہی میں احتیاط ہے۔ اور یہ بات مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعا میں اس طرح کہے کہ بحق فلاں یعنی الہٰی فلاں بزرگ حق سے میری دعا قبول فرما، یا یوں کہے کہ الہٰی بحق انبیاء وبحق رسول میری یہ دعا قبول فرما، کیونکہ کسی مخلوق کا خالق پر حق نہیں ہے۔ «« ترجمہ: سید امیر علی »»
عربی:
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 07 صفحه 235 »» الهداية في شرح بداية المبتدي مع شرح العلامة عبد الحي اللكنوي »» أبو الحسن برهان الدين المرغيناني (المتوفى: 593هـ) »» إدارة القرآن والعلوم الإسلامية ۔ باكستان
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 07 صفحه 241 ۔ 242 »» الهداية في شرح بداية المبتدي مع شرح العلامة عبد الحي اللكنوي »» أبو الحسن برهان الدين المرغيناني (المتوفى: 593هـ) »» مكتبة البشری ۔ كراتشی ۔ باكستان
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 11 صفحه 277 ۔ 281 »» الهداية مع شرحه البناية »» أبو الحسن برهان الدين المرغيناني (المتوفى: 593هـ) »» دار الفكر - بيروت، لبنان
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 10 صفحه 77 »» الهداية مع شرحه فتح القدير »» أبو الحسن برهان الدين المرغيناني (المتوفى: 593هـ) »» دار الكتب العلمية

اردو:
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 13 صفحہ 390 ۔ 392 »» اشرف الہدایہ شرح اردو ہدایہ »» محمد یوسف احمد تاؤلی، مدرس دار العلوم دیوبند »» دار الاشاعت ۔ کراچی
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 13 صفحہ 428 ۔ 429 »» احسن الہدایہ ترجمہ و شرح اردو ہدایہ »» عبد الحلیم قاسمی بستوی، مفتی دار العلوم دیوبند »» مکتبہ رحمانیہ ۔لاہور
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 07 صفحہ 818 ۔ 820 »» عین الہدایہ (جدید) »» سید امیر علی »» دار الاشاعت ۔ کراچی

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

شرح بدر الدين العيني الحنفي (المتوفى: 855هـ)
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 11 صفحه 277 ۔ 281 »» البناية في شرح الهداية »» بدر الدين العيني الحنفي (المتوفى: 855هـ) »» دار الفكر - بيروت، لبنان
شرح كمال الدين المعروف ابن الهمام الحنفي (المتوفى: 861هـ)
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 10 صفحه 77 ۔ 81 »» فتح القدير شرح الهداية »» ابن الهمام الحنفي (المتوفى: 861هـ) »» دار الكتب العلمية

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

(وَ) كُرِهَ (قَوْلُهُ فِي دُعَائِهِ بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) وَلَوْ بِتَقْدِيمِ الْعَيْنِ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ لَا بَأْسَ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ أَبُو اللَّيْثِ لِلْأَثَرِ وَالْأَحْوَطُ الِامْتِنَاعُ لِكَوْنِهِ خَبَرَ وَاحِدٍ فِيمَا يُخَالِفُ الْقَطْعِيَّ إذْ الْمُتَشَابِهُ إنَّمَا يَثْبُتُ بِالْقَطْعِيِّ هِدَايَةٌ وَفِي التَّتَارْخَانِيَّة مَعْزِيًّا لِلْمُنْتَقَى عَنْ أَبِي يُوسُفَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَدْعُوَ اللَّهَ إلَّا بِهِ وَالدُّعَاءُ الْمَأْذُونُ فِيهِ الْمَأْمُورُ بِهِ مَا اُسْتُفِيدَ مِنْ قَوْله تَعَالَى - {وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا} [الأعراف: 180]- قَالَ وَكَذَا لَا يُصَلِّي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ إلَّا عَلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -.
(وَ) كُرِهَ قَوْلُهُ (بِحَقِّ رُسُلِك وَأَنْبِيَائِك وَأَوْلِيَائِك) أَوْ بِحَقِّ الْبَيْتِ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْخَلْقِ عَلَى الْخَالِقِ تَعَالَى وَلَوْ قَالَ لِآخَرَ بِحَقِّ اللَّهِ أَوْ بِاَللَّهِ أَنْ تَفْعَلَ كَذَا لَا يَلْزَمُهُ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ الْأَوْلَى فِعْلَهُ دُرَرٌ.

اور اپنی دعا میں یوں کہنا مکروہ ہے کہ بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك اگرچہ عین کی تقدیم ہو قاف پر، اور ابو یوسف سے روایت ہے کہ دعا میں بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك کہنا مکروہ نہیں، اور اسی قول کو فقیہ ابو اللیث نے پسند کیا ہے بدلیل اثر کے، اور زیادہ احتیاط اس دعا کی امتناع میں ہے، اس واسطے کہ خبر واحد ہے اس امر میں جو دلیل قطعی کے مخالف ہے، اس واسطے کہ متشابہ تو قطعی سے ثابت ہوتا ہے کذ افي الهداية، اور تاتارخانیہ میں منسوب بمنتقی ابو یوسف سے عن ابی حنیفہ منقول ہے کہ کسی کو دعا مانگنا لائق نہیں، مگر بذریعہ ذات اور صفات اور اسماء الہٰی کے، اور دعا ء ماذون فیہ اور مامور بہ وہ ہے جو حق تعالیٰ کے اس قول سے مستفاد ہے کہ حق تعالیٰ کے اسماء حسنی ہیں سو اُنہیں اسماء سے دعا کیا کرو، کہا اور اس طرح صلوة اور درود کوئی کسی کو نہ کہے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یعنی بالاستقلال لفظ صلوة درست نہیں لیکن بالتبع درست ہے ۔
اور مکروہ ہے ، یوں کہنا دعا میں اس بِحَقِّ رُسُلِك وَأَنْبِيَائِك وَأَوْلِيَائِك یا بِحَقِّ الْبَيْتِ الله ( بحق اپنے رسولوں کے اور بحق اپنے انبياء کے اور بحق اپنے اولیاء کے دعا قبول کر)، اس واسطے کہ خلق کا کچھ حق ثابت نہیں خالق تبارک و تعالیٰ پر اور اگر ایک نے دوسرے سے کہا کہ بحق خدا یا بخدا ایسا کرو تو اُس پر یہ کرنا لازم نہیں اگرچہ ویسا کرنا بہتر ہے کذا في الدرر، یعنی واجب نہیں مستحب ہے۔ «« ترجمہ: غایۃ الاوطار ترجمہ در المختار »»
عربی:
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 01 صفحه 662 »» الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار »» علاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) »» دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 01 صفحه 747 »» الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار »» علاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) »» طبع متحلی كرد بل 1272هـ 1856 م
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 01 صفحه 928 »» الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار »» علاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) »» لتهيو گرافك کمپني بهادر 1243هـ 1827 م
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 07 صفحه 566 ۔ »» الدر المختار مع رد المحتار على الدر المختار »» علاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) »» دار عالم الكتب – الرياض


اردو:
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 04 صفحہ 224 ۔ 225 »» غایۃ الاوطار ترجمہ در المختار »» مولوی خرم علی صاحب مرحوم بہ تکمیل مولانا محمد احسن نانوتوی »» مطبع نامی منشی نول کشور واقع لکھنؤ »» اشاعت: 1871 ء
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 04 صفحہ 224 ۔ 225 »» غایۃ الاوطار ترجمہ در المختار »» مولوی خرم علی صاحب مرحوم بہ تکمیل مولانا محمد احسن نانوتوی »» مطبع نامی منشی نول کشور واقع لکھنؤ »» اشاعت: 1886 ء


●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِكَ، وَلِلْمَسْأَلَةِ عِبَارَتَانِ بِمَعْقِدٍ وَمَقْعَدٍ وَالْأُولَى مِنْ الْعَقْدِ وَالثَّانِيَةُ مِنْ الْقُعُودِ، وَلَا شَكَّ فِي كَرَاهَةِ الثَّانِيَةِ لِاسْتِحَالَتِهِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى وَكَذَا الْأُولَى، وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - لِمَا رُوِيَ أَنَّهُ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - كَانَ مِنْ دُعَائِهِ أَنْ يَقُولَ: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلْكَ بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِكَ، وَالْأَحْوَطُ الِامْتِنَاعُ لِكَوْنِهِ خَبَرَ وَاحِدٍ فِيمَا يُخَالِفُ الْقَطْعِيَّ، وَيُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ: بِحَقِّ فُلَانٍ، وَكَذَا بِحَقِّ أَنْبِيَائِكَ وَأَوْلِيَائِكَ أَوْ بِحَقِّ رُسُلِكَ أَوْ بِحَقِّ الْبَيْتِ أَوْ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ؛ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْمَخْلُوقِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى، كَذَا فِي التَّبْيِينِ.
وَيَجُوزُ أَنْ يَقُولَ فِي الدُّعَاءِ: بِدَعْوَةِ نَبِيِّكَ، هَكَذَا فِي الْخُلَاصَةِ.
وَالدُّعَاءُ الْمَأْذُونُ فِيهِ وَالْمَأْثُورُ بِهِ مَا اُسْتُفِيدَ مِنْ قَوْله تَعَالَى: {وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا} [الأعراف: 180] كَذَا فِي الْمُحِيطِ.

اس طرح دعا میں کہنا اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِكَ مکروہ ہے اور یوں دعا کرنے میں دو عبارتیں ہیں ایک معقد العز دوسرے مقعد العز پس پہلا لفظ عقد سے ماخوذ ہے اور دوسرا قعود سے پس دوسرے کے مکروہ ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی شان مستحیل ہے اور اسی طرح اوّل بھی مکروہ ہے مگر امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ام میں کچھ ڈر نہیں ہے اور اس کو فقیہ ابو اللیث رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرماتے تھے اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلْكَ بِمَقْعَدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِكَ، مگر احوط یہی ہے کہ منع کیا جائے اس واسطے کہ یہ خبر واحد معارض القطعی ہے اور اگر اپنی دعا میں بحق فلاں یا بحق انبیاء ایک یا اولیاء ایک یا بحق رسلک یا بحق بیت اللہ یا بحق شعر الحرام کہے تو مکروہ ہے اس واسطے کہ مخلوق کا کچھ حق اللہ تعالیٰ پر نہیں ہے كذا في التبيين اور جائز ہے کہ یوں کہے کہ بِدَعْوَةِ نَبِيِّكَ، كذا في الخلاصه اور دعائے مازون و ماثور وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس کلام پاک سے مستفاد ہے قال اللہ تعالیٰ وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا، یہ محیط میں ہے۔ «« ترجمہ: سید امیر علی »»
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 05 صفحه 392 ۔ 393 »» الفتاوى الهندية »» لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي »» دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 05 صفحه 318 »» الفتاوى الهندية »» لجنة علماء برئاسة نظام الدين البلخي »» مطبعة الاميرية ببولاق مصر
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 09 صفحہ 26 ۔ 27 »» فتاوی عالمگیری اردو (الفتاوى الهندية) »» مترجم: سید امیر علی »» مکتبہ رحمانیہ ۔ لاہور
«« ترجمہ : سید امیر علی »»

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

وَيُكْرَهُ لِلرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ أَسْأَلُك بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك وَبِحَقِّ فُلَانٍ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ عَلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى جَلَّ شَأْنُ وَكَذَا يُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَرُوِيَ عَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ لِوُرُودِ الْحَدِيثِ وَهُوَ مَا رُوِيَ «عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ» (وَجْهُ) ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ أَنَّ ظَاهِرَ هَذَا اللَّفْظِ يُوهِمُ التَّشْبِيهَ لِأَنَّ الْعَرْشَ خَلْقٌ مِنْ خَلَائِقِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى جَلَّ وَعَلَا فَاسْتَحَالَ أَنْ يَكُونَ عِزَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَعْقُودًا بِهِ وَظَاهِرُ الْخَبَرِ الَّذِي هُوَ فِي حَدِّ الْآحَادِ إذَا كَانَ مُوهِمًا لِلتَّشْبِيهِ فَالْكَفُّ عَنْ الْعَمَلِ بِهِ أَسْلَمُ.
اور یہ مکروہ ہے، کہ کوئی شخص اپنی دعا میں یہ کہے کہ تیرے انبیاء اور رسولوں کے حق کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں ، یا کسی اور کے حق کے واسطے سے سوال کرتا ہوں، کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ جل شانہ پر کسی کا کوئی حق نہیں۔ اور اسی طرح یہ مکروہ ہے کہ کوئی شخص اپنی دعا میں کہے کہ میں تجھ سے عزت عرش کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں۔ اور ابو یوسف سے مروی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ حدیث وارد ہوئی ہے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں کہا کرتے " اے اللہ میں تجھ سے عزت عرش کی گرہ بندی کا، آپ کی کتاب سے رحمت کی انتہاء کا، آپ کے اسم اعظم کا، آپ کی عظیم کبریائی اور کلمات تامہ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں " اس کی وجہ روایت کا ظاہر ہے، کیونکہ ان الفاظ کے ظاہر سے تشبیہ کا وہم ہوتا ہے، کیونکہ عرش اللہ تبارک و تعالیٰ جل و علا کی مخلوقات میں سے خلق ہے اور اس سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی عزت اس کے عرش سے گرہ بندی سے قرار پاتا ہے اور یہ خبر آحاد میں سے ہے، جو موہم بالتشبیہ ہے، لہذا اس پر عمل سے رکنا ہی ضروری ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 06 صفحه 504 »» بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع »» علاء الدين الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) »» دار الكتب العلمية »» الطبعة 2003م
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 05 صفحه 126 »» بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع »» علاء الدين الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) »» دار الكتب العلمية »» الطبعة 1986م


●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

(فصل) كره أبو حنيفة و صاحباه أن يقول الرجل أسألك بحق فلان أو بحق أنبيائك ورسلك أو بحق البيت الحرام والمعشر الحرام ونحو ذلك اذ ليس لا حد علی الله حق وكذلك كره أبو حنيفة ومحمد أن يقول الداعي اللهم اني أسألك بمعاقد العز من عرشك أو بمقاعد وأجازه أبو يوسف لما بلغه الاثر فيه وأما ما ورد من قول الداعي اللهم اني اسألك بحق السائلين عليك وبحق ممشاي اليك فالمراد بالحق الحرمة أو الحق الذي وعده بمقتضی الرحمة والله أعلم
امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ( قاضی ابو یوسف اور محمد بن حسن الشیبانی) مکروہ قرار دیتے ہیں، اگر کوئی شخص یوں کہے کہ میں تجھ سے بحق فلاں سوال کرتا ہوں، یا بحق تیرے انبیاء و رسولوں کے سوال کرتا ہوں، یا بحق بیت الحرام اور معشر الحرام کے سوال کرتا ہوں، یا اس طرح اور کچھ کہے، کیونکہ اللہ پر کسی کا کوئی حق نہیں، اور اسی طرح امام ابو حنیفہ اور امام محمد مکروہ قرار دیتے ہیں اگر کوئی دعا کرنے والے یوں کہے اللهم اني أسألك بمعاقد العز من عرشك أو بمقاعد اور امام ابو یوسف اس کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ یہ اثر مروی ہے ، جس میں دعا کرنے والے کا یہ قول اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس حق کی وجہ سے جو مانگنے والوں کا آپ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور آپ سے سوال کرتا ہوں اپنے اس چلنے کے حق کی وجہ سے، تو اس میں یہاں حق سے مراد حرمت ہے یا وہ حق جس کا مقتضی الرحمہ ہونے کا وعدہ ہے ، واللہ اعلم۔
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 02 صفحه 285 »» إتحاف السادة المتقين شرح إحياء علوم الدين »» مرتضى الزَّبيدي (المتوفى: 1205هـ) »» مؤسسة التاريخ العربي

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَالدُّعَاءُ بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) أَيْ يُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَلِلْمَسْأَلَةِ عِبَارَتَانِ بِمَعْقِدِ وَبِمَقْعَدِ فَالْأُولَى مِنْ الْعَقْدِ وَالثَّانِيَةُ مِنْ الْقُعُودِ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ عُلُوًّا كَبِيرًا، وَلَا شَكَّ فِي كَرَاهِيَةِ الثَّانِيَةِ لِاسْتِحَالَةِ مَعْنَاهَا عَلَى اللَّهِ تَعَالَى، وَكَذَا الْأُولَى؛ لِأَنَّهُ يُوهِمُ أَنَّ عِزَّهُ مُتَعَلِّقٌ بِالْعَرْشِ وَالْعَرْشُ حَادِثٌ، وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ يَكُونُ حَادِثًا ضَرُورَةً وَاَللَّهُ مُتَعَالٍ عَنْ تَعَلُّقِ عِزِّهِ بِالْحَادِثِ بَلْ عِزُّهُ قَدِيمٌ؛ لِأَنَّهُ صِفَتُهُ وَجَمِيعُ صِفَاتِهِ قَدِيمَةٌ قَائِمَةٌ بِذَاتِهِ لَمْ يَزَلْ مَوْصُوفًا بِهَا فِي الْأَزَلِ، وَلَنْ يَزَالَ فِي الْأَبَدِ، وَلَمْ يَزْدَدْ شَيْئًا مِنْ الْكَمَالِ لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الْأَزَلِ بِحُدُوثِ الْعَرْشِ وَغَيْرِهِ، وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ لِمَا رُوِيَ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - كَانَ مِنْ دُعَائِهِ «اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك، وَمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى، وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ» وَالْأَحْوَطُ الِامْتِنَاعُ لِكَوْنِهِ خَبَرَ وَاحِدٍ فِيمَا يُخَالِفُ الْقَطْعِيَّ إذْ الْمُتَشَابِهُ يَثْبُتُ بِالْقَطْعِيِّ، وَلَوْ جُعِلَ الْعِزُّ صِفَةً لِلْعَرْشِ كَانَ جَائِزًا؛ لِأَنَّ الْعَرْشَ مَوْصُوفٌ فِي الْقُرْآنِ بِالْمَجْدِ وَالْكَرَمِ فَكَذَا بِالْعِزِّ، وَلَا يَشُكُّ أَحَدٌ أَنَّهُ مَوْضِعُ الْهَيْبَةِ، وَإِظْهَارُ كَمَالِ الْقُدْرَةِ، وَإِنْ كَانَ اللَّهُ تَعَالَى مُسْتَغْنِيًا عَنْهُ.
قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: (وَبِحَقِّ فُلَانٍ) أَيْ يُكْرَهُ أَنْ يَقُولَ فِي دُعَائِهِ بِحَقِّ فُلَانٍ، وَكَذَا بِحَقِّ أَنْبِيَائِك، وَأَوْلِيَائِك أَوْ بِحَقِّ رُسُلِك أَوْ بِحَقِّ الْبَيْتِ أَوْ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ؛ لِأَنَّهُ لَا حَقَّ لِلْخَلْقِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى، وَإِنَّمَا يَخُصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ غَيْرِ وُجُوبٍ عَلَيْهِ، وَلَوْ قَالَ رَجُلٌ لِغَيْرِهِ بِحَقِّ اللَّهِ أَوْ بِاَللَّهِ أَنْ تَفْعَلَ كَذَا لَا يَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَأْتِيَ بِذَلِكَ شَرْعًا، وَإِنْ كَانَ الْأَوْلَى أَنْ يَأْتِيَ بِهِ.

امام محمد رحمہ اللہ فرمایا: دعا میں کہنا (اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِكَ،) یعنی مکروہ ہے کہ کوئی اپنی دعا میں یوں کہے (اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِكَ،) اس کی دو عبارتیں ہیں "بِمَعْقِدِ" اور "بِمَقْعَدِ" پہلی عقد سے موخوذ ہے اور دوسری قعود تعالیٰ سے، اللہ تعالیٰ اس سے بالکل منزہ ہے، دوسری کے مکروہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے قعود محال ہے۔ اور اسی طرح پہلی بھی مکروہ ہے کیونکہ یہ موہم ہے کہ عزت الہٰی کا تعلق عرش سے ہے حالانکہ عرش حادث ہے، وَمَا يَتَعَلَّقُ بِهِ يَكُونُ حَادِثًا ضَرُورَةً وَاَللَّهُ مُتَعَالٍ عَنْ تَعَلُّقِ عِزِّهِ بِالْحَادِثِ بَلْ عِزُّهُ قَدِيمٌ؛ لِأَنَّهُ صِفَتُهُ وَجَمِيعُ صِفَاتِهِ قَدِيمَةٌ قَائِمَةٌ بِذَاتِهِ لَمْ يَزَلْ مَوْصُوفًا بِهَا فِي الْأَزَلِ، وَلَنْ يَزَالَ فِي الْأَبَدِ، وَلَمْ يَزْدَدْ شَيْئًا مِنْ الْكَمَالِ لَمْ يَكُنْ لَهُ فِي الْأَزَلِ بِحُدُوثِ الْعَرْشِ وَغَيْرِهِ،
ابو یوسف رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ پہلی صورت میں دعا میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اسی کو فقیہ ابو للیث نے لیا ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک یہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے مروی ہے، اور وہ دعا یہ ہے: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَبِمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ (الہٰی! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بطفیل تیرے عرش کی جگہوں کے، جن میں تیری عزت وابستہ ہے، اور بطفیل منتہائے رحمت کے تیری کتاب سے، اور تیرے اسم اعظم اور کلمات تامہ کے طفیل سے)، اور زیادہ احتیاط اس دعا کی امتناع (رکنے) میں ہے، اس واسطے کہ خبر واحد ہے اس امر میں جو دلیل قطعی کے مخالف ہے، اس واسطے کہ متشابہ تو قطعی سے ثابت ہوتا ہے۔ اگر لفظ عز کو عرش کی صفت قرار دی جائے تو یہ دعا جائز ہوگی، کیونکہ توصیف عرش کی لفظ کرم اور مجد کے قرآن میں ثابت ہے، اسی طرح عزت ہے، وَلَا يَشُكُّ أَحَدٌ أَنَّهُ مَوْضِعُ الْهَيْبَةِ، وَإِظْهَارُ كَمَالِ الْقُدْرَةِ، وَإِنْ كَانَ اللَّهُ تَعَالَى مُسْتَغْنِيًا عَنْهُ.
امام محمد رحمہ اللہ فرمایا (وَبِحَقِّ فُلَانٍ ،یعنی بحق فلاں یعنی الہٰی فلاں بزرگ حق سے میری دعا قبول فرما) یعنی یہ مکروہ ہے اگر کوئی شخص یوں کہے بحق فلاں یعنی الہٰی فلاں بزرگ حق سے میری دعا قبول فرما، اور اسی طرح یہ مکروہ ہے کہ اگر کوئی شخص یوں کہے : بحق تیرے انبیاء کے اور اولیاء کے سوال کرتا ہوں، یا بحق تیرے رسولوں کے سوال کرتا ہوں، یا بحق بیت الحرام کے سوال کرتا ہوں،اور معشر الحرام کے سوال کرتا ہوں، اس واسطے کہ خلق کا کچھ حق نہیں خالق تبارک و تعالیٰ پر۔مگر اللہ تعالی نے حق کو اپنی رحمت سے مخصوص کیا ہے جس کے لئے اس نے چاہا، ، جو اللہ تعالی پر واجب نہیں،۔( یعنی کسی کاحق خالق تعالیٰ پر وجوباً ثابت نہیں، لیکن تفضیلاً و کرماً ثابت ہے)۔ اور اگر ایک نے دوسرے سے کہا کہ بحق خدا یا بخدا ایسا کرو تو اُس پر یہ کرنا شرعاً لازم نہیں اگرچہ ویسا کرنا بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 06 صفحه 31 »» تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ »» فخر الدين الزيلعي الحنفي (المتوفى: 743 هـ) »» المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

(قَوْلُهُ: لِاسْتِحَالَةِ مَعْنَاهَا عَلَى اللَّهِ) أَيْ؛ لِأَنَّهُ وَصَفَ اللَّهَ تَعَالَى بِمَا هُوَ بَاطِلٌ، وَهُوَ الْقُعُودُ، وَهُوَ التَّمَكُّنُ عَلَى الْعَرْشِ، وَذَلِكَ قَوْلُ الْمُجَسِّمَةِ، وَهُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ. اهـ. (قَوْلُهُ: وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ إلَخْ) قَالَ الْكَرْخِيُّ فِي مُخْتَصَرِهِ قَالَ أَبُو يُوسُفَ لَا أَكْرَهُ هَذَا أَوْ أَكْرَهُ بِحَقِّ فُلَانٍ وَبِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك وَبِحَقِّ الْبَيْتِ وَالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، وَهَذَا النَّحْوِ إلَى هُنَا لَفْظُ الْكَرْخِيِّ. اهـ غَايَةٌ (قَوْلُهُ: أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ) وَبِهِ قَالَتْ الثَّلَاثَةُ. اهـ عَيْنِيٌّ
(یہ قول : اللہ تعالیٰ کے لئے یہ معنی محال ہے) یعنی کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے ساتھ متصف کرنا ہے، جو کہ باطل ہے، جو قعود (بیٹھنا) ہے، جو کہ عرش پر تمکن کرنا ہے، اور یہ قول مجسمہ کا ہے، جو کہ باطل قول ہے۔ ( اور یہ قول: ابو یوسف سے مروی ہے۔۔۔۔) الکرخی نے اپنی کتاب "مختصر" میں کہا ہے کہ امام ابو یوسف نے کہا کہ یہ مکروہ نہیں یا یہ مکروہ اگر کوئی شخص یوں کہے کہ میں تجھ سے بحق فلاں سوال کرتا ہوں، یا بحق تیرے انبیاء و رسولوں کے سوال کرتا ہوں، یا بحق بیت الحرام اور معشر الحرام کے سوال کرتا ہوں، کرخی نے اس طرح کے لفظوں میں بیان کیا ہے۔ ( یہ قول: کہ اس میں کچھ حرج نہیں) عینی نے کہا کہ یہ تین ائمہ کا کلام ہے، کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 06 صفحه 31 »» حاشية الشِّلْبِيِّ علی كنز الدقائق مع تبيين الحقائق »» شهاب الدين الشِّلْبِيُّ (المتوفى: 1021 هـ) »» المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

وَيُكْرَهُ اسْتِخْدَامُ الْخُصْيَانِ وَوَصْلُ الشَّعْرِ بِشَعْرِ آدَمِيٍّ، وَ قَوْلُهُ فِي الدُّعَاءِ أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك خِلَافًا لِأَبِي يُوسُفَ وَ قَوْلُهُ أَسْأَلُك بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك
اور مکروہ ہے خصیوں (ہیجڑوں) سے خدمت لینا، اور مکروہ ہے آدمی کے بالوں میں بال جوڑنا، اور مکروہ ہے، اپنی دعاؤں میں یوں کہنا کہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر، ابو یوسف کے برخلاف، اور مکروہ ہے اپنی دعا میں کہے کہ بحق فلاں یعنی الہٰی فلاں بزرگ حق سے میری دعا قبول فرما، یا یوں کہے کہ الہٰی بحق انبیاء وبحق رسول میری یہ دعا قبول فرما۔
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 04 صفحه 222 ۔ 223 »» ملتقى الأبحر مع شرحه مجمع الأنهر »» ابرهيم بن محمد بن ابرهيم الحلبي (المتوفى: 956هـ) »» دار الكتب العلمية

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●
(وقَوْلُهُ فِي الدُّعَاءِ أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ) بتقديم العين علی القاف (الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك خِلَافًا لِأَبِي يُوسُفَ) فعنده لا بأس به وبه أخذ أبو الليث رحمه الله تعالی للأثر والأحوط الامتناع لكونه خبر واحد فيما يخالف القطعي (و) يكره (قَوْلُهُ أَسْأَلُك بِحَقِّ أَنْبِيَائِك) وأوليائك (وَرُسُلِك) أو بحق البيت إذا لا حق للخلق علی الخالق، ولو قال لآخر بحق الله أو بالله أن تفعل.
وكذا لا يلزمه ذلك وإن كان الأولی فعله. (قلت): وهذا مما يكثر وقوعه فليحفظ، وفي الخلاصة لا يقول بحق نبيك بل يقول بدعوة نبيك، وفي نسخة لاينبغي، ولم يذكر الكراهة

مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعاؤں میں یوں کہے میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، بمعقد :عین کی قاف پر تقدیم کے ساتھ ، یعنی تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر، برخلاف ابو یوسف رحمہ اللہ کے، کیونکہ ان کے نزدیک اس دعا میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسی کو فقیہ ابو للیث نے لیا ہے اسلئے کہ یہ نبی علیہ السلام سے ایک اثر منقول ہے۔ اور زیادہ احتیاط اس دعا کی امتناع (رکنے) میں ہے، اس واسطے کہ خبر واحد ہے اس امر میں جو دلیل قطعی کے مخالف ہے، اس واسطے کہ متشابہ تو قطعی سے ثابت ہوتا ہے اور مکروہ ہے ، یوں کہنا دعا میں اس بِحَقِّ رُسُلِك وَأَنْبِيَائِك وَأَوْلِيَائِك یا بِحَقِّ الْبَيْتِ الله ( بحق اپنے رسولوں کے اور بحق اپنے انبياء کے اور بحق اپنے اولیاء کے ، یا بحق بیت اللہ دعا قبول کر)، اس واسطے کہ خلق کا کچھ حق ثابت نہیں خالق تبارک و تعالیٰ پراور اگر ایک نے دوسرے سے کہا کہ بحق خدا یا بخدا ایسا کرو تو اُس پر یہ کرنا لازم نہیں اگرچہ ویسا کرنا بہتر ہے۔
میں (علاء الدین الحصکفی) کہتا ہوں: اس کا وقع بکثرت ہے، فليحفظ، اور "الخلاصة" میں ہے کہ بحق نبيك (حق اپنے انبياء کے) نہیں کہے بلکہ یوں کہے کہ بدعوة نبيك تیرےنبی کی دعوت کے طفیل ۔ اور ایک نسخہ میں جو مجھ تک نہیں پہنچا، اس میں مکروہ ہونے کا ذکر نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 04 صفحه 223 »» الدرّ المنتقی في شرح ملتقى الأبحر مع شرحه مجمع الأنهر »» علاء الدين الحصكفي الحنفي (المتوفى: 1088هـ) »» دار الكتب العلمية

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

(وَ) وَيُكْرَهُ (قَوْلُهُ فِي الدُّعَاءِ أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك) بِتَقْدِيمِ الْعَيْنِ أَوْ بِتَقْدِيمِ الْقَافِ عِنْدَ الطَّرَفَيْنِ لِأَنَّ الْكَرَاهَةَ فِي الْقَوْلِ الثَّانِي ظَاهِرَةٌ لِاسْتِحَالَةِ الْقُعُودِ وَكَذَا فِي الْأَوَّلِ لِأَنَّهُ يُوهِمُ تَعَلُّقَ عِزِّهِ بِالْعَرْشِ الْمُحْدَثِ وَاَللَّهُ تَعَالَى بِجَمِيعِ صِفَاتِهِ قَدِيمٌ (خِلَافًا لِأَبِي يُوسُفَ) فَإِنَّهُ يُجَوِّزُ الْأَوَّلَ عِنْدَهُ لِدُعَاءٍ مَأْثُورٍ وَهُوَ اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَبِمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ وَبِهِ أَخَذَ أَبُو اللَّيْثِ وَالْأَئِمَّةُ الثَّلَاثَةُ وَقِيلَ وَجْهُ الْجَوَازِ جَوَازُ جَعْلِ الْعِزِّ صِفَةً لِلْعَرْشِ الْعَظِيمِ كَمَا وُصِفَ بِالْمَجْدِ وَالْكَرَمِ.
(وَ) يُكْرَهُ (قَوْلُهُ أَسْأَلُك بِحَقِّ أَنْبِيَائِك وَرُسُلِك) أَوْ بِحَقِّ الْبَيْتِ أَوْ بِحَقِّ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ إذْ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى وَإِنَّمَا يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ غَيْرِ وُجُوبٍ عَلَيْهِ،

مکروہ ہے کہ آدمی اپنی دعاؤں میں یوں کہے میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، یعنی تیرے عرش سے عزت کی گرہ بندی کا واسطہ دے کر، بمعقد :عین کی قاف پر تقدیم، یا بمقعد:قاف کی عین کے ساتھ ، دوسری کے مکروہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے قعود محال ہے۔ اور اسی طرح پہلی بھی مکروہ ہے کیونکہ یہ موہم ہے کہ عزت الہٰی کا تعلق عرش سے ہے حالانکہ عرش حادث ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی تمام صفات کے ساتھ قدیم ہے، برخلاف ابو یوسف رحمہ اللہ کے، کیونکہ ان کے نزدیک پہلی صورت میں دعا میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ ان کے نزدیک یہ نبی علیہ السلام سے ماثور ہے، اور وہ دعا یہ ہے: اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِمَعْقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِك وَبِمُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِك وَبِاسْمِك الْأَعْظَمِ وَجَدِّك الْأَعْلَى وَكَلِمَاتِك التَّامَّةِ (الہٰی! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں بطفیل تیرے عرش کی جگہوں کے، جن میں تیری عزت وابستہ ہے، اور بطفیل منتہائے رحمت کے تیری کتاب سے، اور تیرے اسم اعظم اور کلمات تامہ کے طفیل سے)۔اور اسی کو فقیہ ابو للیث اور تین ائمہ نے لیا ہے اسلئے اور وجہ کہی گئی ہے کہ اگر لفظ عز کو عرش کی صفت قرار دیجئے نہ صاحب عرش کی تو یہ دعا جائز ہوگی، جیسے کہ توصیف عرش کی لفظ کرم اور مجد کے ثابت ہے۔
اور یہ مکروہ ہے کہ ہے اگر کوئی شخص یوں کہے : بحق تیرے انبیاء ورسولوں کے تجھ سوال کرتا ہوں، یا بحق بیت الحرام کے سوال کرتا ہوں،اور معشر الحرام کے سوال کرتا ہوں، اس واسطے کہ کسی کا کچھ حق نہیں اللہ تعالیٰ پر۔ مگر اللہ تعالی نے حق کو اپنی رحمت سے مخصوص کیا ہے جس کے لئے اس نے چاہا، ، جو اللہ تعالی پر واجب نہیں،۔( یعنی کسی کاحق خالق تعالیٰ پر وجوباً ثابت نہیں، لیکن تفضیلاً و کرماً ثابت ہے)۔
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 04 صفحه 223 »» مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر »» عبد الرحمن شيخي زاده، داماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) »» دار الكتب العلمية

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

قوله: "ومن دعائه" أي دعاء قضاء الحاجة بعد الصلاة أو من دعائه صلى الله عليه وسلم الذي علمه لرجل ضرير البصر أتى إليه فقال: يا رسول الله ادع الله لي أن يعافيني فقال: إن شئت أخرت ذلك فهو أعظم لأجرك وإن شئت دعوت الله فقال: ادع الله فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوأه ويصلي ركعتين ويدعو بهذا الدعاء اهـ وله طرق كثيرة قال الطبراني بعد ذكر طرقه والحديث صحيح قوله: "إني توجهت بك الخ" يشكل هذا على ما قالوه إنه يكره للرجل أن يقول اللهم إني أسألك بأنبيائك وأجيب بأن السمع خص هذا والحق عدم الخصوصية لما ورد في إستسقاء عمر بالعباس وما قيل في وجه الكراهة أنه لا حق لأحد على الله تعالى فيه نظر لأن للعباد المخلصين عليه حقا فضلا منه وكرما جعله على نفسه وعليه استحقاقا ذاتيا لهم، وتمامه في ابن أمير حاج.
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 01 صفحه 399 »» حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح »» الطحطاوي الحنفي – (المتوفي 1231 هـ) »» دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 01 صفحه 399 »» حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح »» الطحطاوي الحنفي (المتوفي 1231 هـ) »» قديم


●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●

قال سلمة بن ورد : إني رأيت أنس بن مالك يسلم على النبي صلى الله عليه وسلم ثم يسند ظهره إلى جدار القبر ثم يدعو ، وهذا مما لا نزاع فيه بين العلماء وإنما نزاعهم في وقت السلام عليه قال أبو حنيفة رحمه الله : يستقبل القبلة عند السلام أيضاً ولا يستقبل القبر وقال غيره : يستقبل القبر عند السلام خاصة ولم يقل أحد من الأئمة الأربعة أنه يستقبل القبر عند الدعاء ، إلا حكاية مكذوبة عن مالك ؛ ومذهبه بخلافها ، وكذلك الحكاية المنقولة عن الشافعي رحمه الله كان يقصد الدعاء عند قبر أبي حنيفة رحمه الله ـ فإنها من الكذب الظاهر بل قالوا : إنه يستقبل القبلة وقت الدعاء ولا يستقبل القبر حتى يكون الدعاء عند القبر ، فإن الدعاء عبادة كما ثبت في الترمذي مرفوعاً " الدعاء هو العبادة " فالسلف من الصحابة والتابعين جردوا العبادة لله تعالى ، ولم يفعلوا عند القبر منها شيئاً إلا ما أذن فيه النبي صلى الله عليه وسلم من السلام على أصحابها والاستغفار لهم والترحم عليهم .والحاصل : أن الميت قد انقطع عمله وهو محتاج إلى من يدعو له ويشفع لأجله ولهذا شرع في الصلاة عليه من الدعاء له وجوباً واستحباباً ما لم يشرع مثله في الدعاء للحي،
سلمان بن ورد نے کہا: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پھیجتے دیکھا، پھر دیکھ اکہ انہوں نے اپنی کمر قبر کی جانب دیوار کی طرف پھیر لی اور پھر دعا کی۔ اور اس مسئلہ میں علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں، اختلاف صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنے کے وقت میں ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: سلام کے وقت بھی اپنا رخ قبلہ کی جانب کیا جائے، اور قبر کی جانب رخ نہ کیا جائے، جبکہ دوسرے کہتے ہیں: کہ خاص خاص سلام کے وقت اپنا رخ قبر کی جانب کیا جائے، اور ان چاروں ائمہ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ دعا کے وقت اپنا رخ قبر کی جانب کیا جائے، سوائے امام مالک رحمہ اللہ سے منسوب ایک جھوٹی کہانی کے، اور امام مالک کا مذہب اس جھوٹی کہانی کے خلاف ہے۔ اور اسی طرح امام شافعی سے منقول ایک کہانی کا معاملہ ہے، کہ وہ دعا کے لئے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی قبر کا قصد کیا کرتے۔ یہ بالکل ظاہر و سفید جھوٹ ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دعا کہ وقت اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا جائے، اور قبر کی طرف رخ نہ کیا جائے، حتی کہ دعا قبر پر کی جائے، تب بھی، کیونکہ دعا عبادت ہے ، جیسا کہ ترمذی میں مرفوعاً ثابت ہے: " دعا عبادت ہے"۔ اسلاف میں صحابہ و تابعین عبادت کو اللہ کے لئے مجرد رکھا ہے، اور انہوں نے قبر پر کوئی ایسا کام نہیں کیا، سوائے اس کے کہ جس کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہ پر سلام کرنا، ان کے لئے استغفار کرنا اور رحم کی دعا کرنا ہے۔
اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ میت کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے لئے دعا کرنے والے کا محتاج ہے، اور
ملاحظہ فرمائیں: عکس »» جلد 01 صفحه 171 ۔ 172 »» زيارة القبور للإمام البركوي (من رسائل البركوي) »» محيي الدين محمد البركوي الحنفي (المتوفي: 980 هـ) »» دار الكتب العلمية

●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●● ●●●●●
 
Last edited:
Top