• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فلسطینیوں پر مظالم کب ختم ہوں گے؟

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
فلسطینیوں پر مظالم کب ختم ہوں گے؟​

خالد المعینا: پیر 1 صفر 1436هـ - 24 نومبر 2014م

ایک امریکی صحافی نے یروشیلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں پیش آنے والے حالیہ واقعات، جن کے نتیجے میں متعدد افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں، پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''اسرائیل میں تشدد کا یہ سلسلہ کب ختم ہو گا؟'' اب ایک امریکی صحافی ہی اس طرح کا سوال کر سکتا ہے۔

کوئی بھی اور انصاف پسند اگر اس صورت حال پر سوال پوچھتا تو وہ کچھ یوں ہوتا: ''فلسطینیوں پر مظالم کا کب خاتمہ ہو گا؟''

گذشتہ چند سال کے دوران نیتن یاہو کی حکومت انسانیت کے تمام بنیادی اصول وقوانین کو بھلا بیٹھی ہے اور وہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں عوام پر بدترین جبر وتشدد کی پالیسی کو بروئے کار لارہی ہے۔

نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کی قیادت میں اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے، زندہ جلایا ہے، شہریوں پر تشدد کیا ہے اور فلسطینی عوام سے غیر انسانی سلوک کیا ہے۔ اس بدترین مایوسی کے عالم میں لوگ تشدد کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ ایک یہودی صومعے پر حالیہ حملہ فلسطینیوں کی اسی مایوسی کا مظہر تھا اور انھوں نے خود پر اور اپنے بچوں پر سفاکانہ حملوں کا بدلہ چکانے کے لیے یہ انتقامی اقدام کیا تھا۔

اب یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ تشدد کون چاہتا ہے؟ یہ نیتن یاہو کی حکومت ہے جو بڑے منظم انداز میں مقبوضہ سرزمین کے عوام کو مایوسی میں کیے جانے والے اقدامات پر مجبور کر رہی ہے تاکہ وہ بآسانی بیوقوف بنائے جانے والے امریکی عوام کو یہ باور کرا سکے کہ اسرائیل جو بھی اقدامات کر رہا ہے ، وہ دراصل اپنے دفاع میں کر رہا ہے۔

نیتن یاہو یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ایپک اور دوسری اسرائیلی نواز لابیاں مشرق وسطیٰ میں امریکا کی خارجہ پالیسی کا تعیّن کرتی ہیں۔ وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ امریکی ارکان کانگریس کی اکثریت کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور وہ کوئی ایک لفظ بھی ادھر سے ادھر نہیں کہتے ہیں۔ وہی دراصل ان کے حامی اور مؤید ہوتے ہیں۔

یہ ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ امریکا ایسی طاقت ایک روگ ریاست اسرائِیل کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ اس ریاست نے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کو پامال کیا ہے اور امریکا کی مدد سے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں جبرو استبداد کو پھیلایا ہے۔ اسرائیل کو اس جبرو استبداد سے رکوانے کے لیے کوئی بین الاقوامی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

عربوں کی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان قیام امن کی کوششیں اب پس منظر میں چلی گئی ہیں، اسرائیلیوں نے تاریخ کو گہنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے پاس 2002ء میں سعودی عرب کے اس وقت ولی عہد اور اب شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی جانب سے پیش کردہ عرب امن منصوبے کے مطابق عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا بہترین موقع تھا۔

بدقسمتی سے انھوں نے اس منصوبے کو پیش کیے جانے کے اگلے روز ہی رام اللہ میں مرحوم یاسر عرفات کے ہیڈکوارٹرز پر حملے سے مسترد کر دیا تھا۔ اب امن عمل مردہ ہو چکا ہے۔ نیتن یاہو بڑے منظم انداز میں اور خاموشی سے سیکڑوں فلسطینیوں کو قتل کر رہے ہیں۔

چند ایک اسرائیلی مرتے ہیں تو فاکس اور دوسرے ٹیلی ویژن چینل اُلو کی طرح واویلا شروع کر دیتے ہیں: ''ایک اسرائیلی مارا گیا''۔ ہم ایک طویل عرصے سے یہی شورو غوغا سن رہے ہیں مگر امریکا نے ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کیے ہیں۔

امریکی حکومت اپنے دعوے کے بموجب کوئی دیانت دار ثالث ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اس صورت حال میں فلسطینیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ہے کہ وہ جوابی اقدام کریں اور جبرو استبداد کے حامل قابضین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ وہی قابضین جو ان کی نسل کشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ان کے وجود کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن فلسطینی موجود رہیں گے۔ انھیں ہراساں کرنے کے حربے اور فوجی کارروائیاں بزدل نہیں بنا سکتی ہیں یا اسرائیلی ناانصافیوں اور جبرو استبداد کے خاتمے کے لیے ان کی آوازوں کو خاموش نہیں کرا سکتی ہیں۔

ح
 
Top