• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فوجی عدالتیں اور اسلام

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
ابھی کل پارلیمنٹ اور سینٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق ترمیم کی گئی ہے جس کااسلامی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا کیونکہ ان میں سیکولر طبقہ نے موجودہ فضا کا سہارا لے کر اسلام کے خلاف ترمیم پاس کی ہے جس سے دین بیزار اور دین پسند لوگوں میں دوریاں اور بڑھیں گی جس سے الٹے اثرات ہو سکتے ہیں
میرے خیال میں اسکو اسلام سے لنک کرنے کی بجائے پاکستان سے لنک کرتے تو وہ حالات کے مطابق درست تھا پھر اس میں کسی کو اپنے سے بے انصافی نہ دکھائی دیتی اور میرے خیال میں فساد اور بد امنی کی جڑ ہی بے انصافی ہوتی ہے تو اس ترمیم کے متعلق میں یہی کہوں گا کہ

میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم صاحب کا ان عدالتوں پر بیان

لنک
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
Last edited by a moderator:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
انوکھا انصاف (سلیم صافی) جنگ 06-01-2015
(1) لشکرجھنگوی، سربراہ ملک اسحٰق (2) سپاہ محمد پاکستان سربراہ علامہ سید محمد رضا نقوی (3) جیش محمد،سربراہ مولانا مسعود اظہر (4) لشکر طیبہ، سربراہ حافظ محمد سعید (5) سپاہ صحابہ پاکستان، سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی (6) تحریک جعفریہ پاکستان، سربراہ علامہ ساجد نقوی (7) تحریک نفاذ شریعت محمدی، سربراہ مولانا صوفی محمد (8) تحریک اسلامی سربراہ علامہ حامد علی موسوی (9) القاعدہ، سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری (10) ملت اسلامیہ پاکستان، سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی (11) خدام الاسلام، سربراہ مولانا مسعود اظہر (12) اسلامی تحریک پاکستان، سربراہ علامہ ساجد علی نقوی (13) جمعیت الانصار، سربراہ مولانا فضل الرحمٰن خلیل (14) جمعیت الفرقان، سربراہ کمانڈر جبار (15) حزب الحریر، سربراہ نوید اظہر حسین بٹ (16) خیرالناس انٹرنیشنل ٹرسٹ، سربراہ ابو شعیب (17) بلوچستان لبریشن آرمی، سربراہ حیربیار مری (18) اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ آف پاکستان (19) لشکر اسلامی، سربراہ منگل باغ (20) انصارالاسلام، سربراہ قاضی محبوب (21) حاجی نامدار گروپ، سربراہ حاجی نامدار (22) تحریک طالبان پاکستان، سربراہ مولانا فضل اللہ (23) بلوچستان ری پبلکن آرمی سربراہ براہمداغ بگٹی (24) بلوچستان لبریشن فرنٹ، سربراہ ببرک بلوچ (25) لشکر بلوچستان (26) بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ، سربراہ خیربخش مری (27) بلوچستان مسلح دفاع تنظیم (28) شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی گلگت سربراہ آغاضیاء الدین (29) مرکز سبیل آرگنائزیشن سربراہ آغاضیاء الدین (30) تنظیم نوجوانان سنت گلگت سربراہ قاضی نثار (31) پیپلز امن کمیٹی لیاری (32) اہل سنت والجماعت (33) الحرمین فاونڈیشن (34) رابطہ ٹرسٹ (35) انجمن امامیہ گلگت بلتستان سربراہ آغا راحت حسین (36) مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن گلگت بلتستان سربراہ شفاعت اللہ طارق (37) تنظیم اہلسنت و الجماعت گلگت سربراہ احمد رضا خان بریلوی (38) بلوچستان بنیاد پرست آرمی (39) تحریک نفاذ امن (40)تحفظ حدوداللہ (41)بلوچستان واجا لبریشن آرمی (42) بلوچستان ری پبلکن پارٹی آزاد (43) بلوچستان یونائیٹڈ آرمی (44) اسلام مجاہدین (45)جیش اسلامی (46) بلوچستان نیشنل لبریشن آرمی (47)خانہ حکمت (48)تحریک طالبان سوات (49)تحریک طالبان مہمند (50)طارق گیدڑ گروپ (51)عبداللہ عزام بریگیڈ (52)ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (53)اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (54) اسلامک جہاد یونین (55)313 بریگیڈ (56) تحریک طالبان باجوڑ (57)امربالمعروف و نہی عن المنکر حاجی نامدار گروپ (58) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (59) یونائیٹڈبلوچ آرمی (60)جئے سندھ متحدہ محاذ یہ وہ ساٹھ تنظیمیں ہیں جنھیں حکومت پاکستان نے کالعدم قرار دیا ہے ۔ یہی فہرست میاں نوازشریف کی حکومت نے اس داخلی سلامتی پالیسی کی دستاویز میں دی ہے جسے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے پیش کیا ہے ۔ انصاف اور قانون کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان سب کالعدم تنظیموں اور ان کے سربراہوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے لیکن ہماری سیاسی قیادت نے جو ایکشن پلان بنا یا ہے ، اس کی رو سے مذکورہ فہرست میں درج صرف ان تنظیموں کے وابستگان کے کیس فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیںگے جن کی تنظیم کے ساتھ اسلام یا کسی مسلک کا لفظ درج ہے لیکن پیپلز امن کمیٹی‘ بلوچستان لبریشن آرمی یا بلوچستان یونائیٹڈ آرمی کے وابستگان کے کیسز کو فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا جائے گا کیونکہ اکیسویں آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ ان عدالتوں میں صرف ان دہشت گردوں کے کیسز کی سماعت ہوگی جو مذہب اور مسلک کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں ۔ عذیر بلوچ جیسے لوگ خواہ سو انسانوں کے قتل کے ملزم کیوں نہ ہوں لیکن انہیںملٹری کورٹس میں پیش نہیں کیا جائے گا کیونکہ انہوں نے مذہب یا مسلک کے نام پر بندوق نہیں اٹھائی لیکن لشکرطیبہ یا اہلسنت والجماعت کے ایک قتل یا اقدام قتل کے ملزم فوجی عدالتوں میں پیش کیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے مذہب کے نام پر جرم کیا ہے۔ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی یا جے یو پی کے کسی کارکن کا کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد کسی خلاف قانون حرکت میں ملوث پایا گیا تو حکومت اس کے کیس کو فوجی عدالتوں میں بھیج سکے گی کیونکہ وہ مذہب کے نام پر جرم کرتا ہے لیکن اے این پی، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے کارکن کو اسی طرح کے جرم کے بعد بھی ان عدالتوں میں نہیں بھیجا جاسکے گا کیونکہ وہ مذہب کا نام استعمال نہیں کرتا ۔ کراچی میں کوئی ہزار بندوں سے بھتہ لے لے‘ کوئی درجن بھر لاشوں کو بوری میں بند کردے یا پھر بلوچستان میں کوئی فوج سے لڑے یا آبادکاروں کو گولیوں سے چھلنی کردے لیکن وہ ملزم فوجی عدالتوں میں پیش نہیں کئے جائیں گے ۔ گویا اس ملک میں اب مذہبی اور فقہی عصبیت سنگین جرم لیکن لسانی اور علاقائی عصبیت اب کم تر جرم ہے ۔ حالانکہ جرم ‘ جرم ہے ۔ وہ مذہب کی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے‘ لسانی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے اور ذاتیات کی بنیاد پر ہو تو بھی جرم ہے۔ قتل ‘ قتل ہے اور ڈاکہ ڈاکہ ہے‘ چاہے جس نام سے بھی ہو۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا جرم ہے ‘ چاہے جس بھی نام سے ہو۔ اسی طرح خلاف قانون اور کالعدم قرار پانے والی تنظیموں میں تفریق کا دنیا کے کسی اور ملک میں تصور نہیں لیکن یہاں ایک طرح کی کالعدم تنظیموں کے سربراہ کو ہر طرح کی آزادی میسر ہے لیکن دوسری طرح کی کالعدم تنظیم کے سربراہ کا نام آتے ہی لوگ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔ ہم نے تو مذہبی کالعدم تنظیموں میں بھی تفریق کر رکھی ہے ۔ ایک قسم کی کالعدم تنظیم کے وابستگان قابل گردن زدنی قرار پائے ہیں تو دوسری طرح کی کالعدم تنظیم کے لوگ ریاست کے چہیتے ہیں ۔ سید منور حسن حکیم اللہ محسود کو شہید کہیں تو قیامت برپا ہوتی ہے لیکن ریٹائرڈ جنرلز بالاجماع مولانا فضل اللہ‘ بیت اللہ محسود ‘ مولوی فقیر محمد اور منگل باغ کو مجاہد قرار دیتے رہیں تو پھر بھی محترم قرار پاتے ہیں ۔ سزا ملنی چاہئے لیکن ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے ہر مجرم کو یکساں ملنی چاہئے ۔ فوجی عدالتیں اگر ضروری ہیں تو پھر خوف اور دہشت پھیلانے اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے ہر طرح کے ملزم کو اس کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے ۔ میڈیا پر اگر کالعدم تنظیموں اور ان کے وابستگان کو کوریج دینے پر پابندی ضروری ہے تو پھر سب پر یکساںلگادی جائے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ریاست تو ان کو آزاد چھوڑ دے اور میڈیا سے کہہ دیا جائے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کرے۔ حیرت ہوتی ہے کہ پوری ملکی سیاسی قیادت نے ایک ایسے ایکشن پلان پر صاد کردیا کہ جو تضادات اور ابہامات کا مجموعہ ہے ۔ اس پلان میں جنگ کا اعلان تو کردیا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کیاگیا ہے کہ جنگ کس کے خلاف ہوگی ۔ دہشت گرد کی واضح تعریف سامنے لائی گئی ہے اور نہ انتہاپسند کی ۔ مدارس کے نظام میں اصلاحات کی بات کی گئی ہے لیکن یہ وضاحت موجود نہیں کہ کس طرح کی اصلاحات کی جائیں گی۔ میڈیا کو انتہاپسندوں اور اس کے ہمدردوں کے موقف کی تشہیر سے منع کیا گیا ہے لیکن یہ رہنمائی کوئی نہیں کر رہا کہ انتہاپسند کون ہیں اور ان کے ہمدرد کون ہیں؟۔ میں ان لوگوں میں شامل ہوں کہ جو مذہب کو تزویراتی اور سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کے قبیح عمل کے نتائج کو بری طرح بھگت چکے ہیں۔ میری تعلیم، ہوئی میرے رشتہ دار متاثر ہوئے، مجھے بھائیوں جیسے عزیز دوستوں کے جنازوں کو کاندھا دینا پڑا اور اپنی ثقافت اور روایات کے جنازے نکلتے دیکھے۔ افغان پالیسی پر تنقید کی وجہ سے مجھے باہر کے ایجنٹ کے طعنے بھی سننے پڑے۔ میدان صحافت میں اترتے ہی ان کا ناقد ہونے کی وجہ سے مجھے 1999ء میں افغان طالبان کی قید بھی کاٹنی پڑی اور میں ہی تھا کہ جو بتاتا اور سمجھاتا رہا کہ القاعدہ‘ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا نظریاتی منبع ایک ہی ہے ۔ مدارس کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی بھی میں 2002ء سے اپنی تحریروں میں کر رہا ہوں لیکن اگر امتیازی قوانین کے ذریعے ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی گئی تو خیر کی بجائے شر برآمد ہوگا۔ اس ملک میں رہنے والا ہر فرد برابر کا شہری ہے اور سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہئیے ۔ ہمارے ملک میں فساد کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں سب شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق نہیں ہوتا۔ ایک طبقے کے لوگوں کے لئے جو چیز جرم قرار پاتی ہے، دوسرے طبقے کے لوگوں کے لئے وہ فیشن ہے۔ خوف اور دہشت جو بھی، جس نام پر بھی پھیلائے، سنگین سزا کا مستحق ہے۔ انسان کا قتل جو بھی، جس نام پر بھی کرے، قاتل ہے ۔ ریاست کے خلاف بندوق جو بھی، جس نام پر بھی اٹھائے، باغی ہے ۔ کالعدم جو بھی ہو، خلاف قانون ہے۔ اگر قانون اندھا بن کر ان سب کو ایک نظر سے دیکھے تو رحمت کا ذریعہ بنے گا لیکن اگر وہ مجرموں میں تفریق کرے، تو انتشار کا موجب ہوگا۔ موجودہ حکمران اور پالیسی ساز کسی کی سنتے ہیں اور نہ سنیں گے لیکن متنبہ کرنا اپنا فرض تھا، باقی ان کی مرضی

Copy and WIN :
http://bit.ly/copy_win
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
بلوچستان کے دہشت گردوں کی خبر کا لنک

یہ خبر محترم عمران الہی بھائی نے شیئر کی تھی مگر یہ یاد رہے کہ فوجی عدالتیں ان کے لئے نہیں کیونکہ یہ اسلام کو پسند نہیں کرتے اور اسلامی جماعت نہیں ہے
اسی طرح یہ بھی دیکھیں
پس اسلامی لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو سکتے ہیں کہ کیا پاکستان صرف غیر اسلامی لوگوں کا ہے اسلامی لوگوں کا نہیں ہے
 

اٹیچمنٹس

Last edited by a moderator:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
فوجی عدالتوں کی ترمیم سے دینی اور غیر دینی جماعتوں میں دوری، لڑائی اور اختلاف پیدا کرنے کی سیکولر طبقے کی کوشش کی جھلکیاں
secular pakstan.jpg


پس ہمارا مشوری یہی ہے کہ ان خطرناک حالات میں صرف سیکولر طبقے (خصوصا پیپلز پارٹی) کے اجنڈے پر بھی غور کریں اور ترمیم کے گئی عدالتوں کی بجائے ایسی فوجی عدالتیں ترتیب دی جائیں جن میں تمام طبقات خصوصا اسلامی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہونی چاہئے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
پس ہمارا مشوری یہی ہے کہ ان خطرناک حالات میں صرف سیکولر طبقے (خصوصا پیپلز پارٹی) کے اجنڈے پر بھی غور کریں اور ترمیم کے گئی عدالتوں کی بجائے ایسی فوجی عدالتیں ترتیب دی جائیں جن میں تمام طبقات خصوصا اسلامی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہونی چاہئے
فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے

آج اخبار میں سرخی لگی ہے کہ فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے سے منظوری دی گئی ہے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ غلط ہے
ہم نے بچپن سے قائد اعظم کے چودہ نکات پڑھے ہیں جن میں یہ بھی پڑھتے آئے ہیں کہ
کوئی قانون کسی خاص طبقے کے بارے ہو تو اس طبقے کے غالبا تین چوتھائی لوگوں کی حمایت ضروری ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں جو قانون بنایا گیا ہے اس سے متعلقہ طبقہ اسلامی طبقہ ہے مگر پارلیمنٹ میں جب یہ منظور ہوا تو اسلامی جماعتیں یعنی فضل الرحمن اور جماعت اسلامی نہ صرف نہیں تھیں بلکہ خبر میں ہے کہ انہوں نے بائیکاٹ کر رکھا تھا پس قائد اعظم کے نکات کے مطابق بھی یہ قانون درست طریقے سے پاس نہیں ہوا

نوٹ: یہ ساری پوسٹیں ایک رائے ہے کوئی بھائی اس رائے پر تبصرہ اور اصلاح کر دے جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
Orya Maqbool Jan - Official
‏5 جنوری‏ کو ‏11:54 ﺷﺎﻡ‏ بجے

ایم کیو ایم کا صولت مرزا پاکستان کے ان چند دہشتگردوں میں سے ایک ھے جس پر باقاعدہ دہشتگردی کی عدالت میں مقدمہ چلا، ثبوت پیش ہوئے اور مئی 1999 میں موت کی سزا سنادی گئی۔ صولت مرزا پر جو بہت سے قتل کے کیس تھے ان میں سے ایک کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے ایم ڈی کا قتل بھی شامل تھا۔
مشرف آیا، ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہوئی اور صولت مرزا کی پھانسی پر عملدرامد روک دیا گیا۔ پھر زرداری آیا جس نے آرڈیننس کے زریعے پھانسی کی سزا ہی ختم کردی۔
پچھلے مہینے سانحہ پشاور ہوا اور پھانسیوں کا موسم شروع ہوگیا۔ پیلے مرحلے میں جنہیں پھانسی ملی وہ مشرف پر قاتلانہ حملے کے ملزم تھے۔
آج وفاقی حکومت نے آرڈر جاری کرکے صولت مرزا کی پھانسی پر ایک دفعہ پھر عملدرامد روک دیا۔
اگر قتل ایک جرم ھے تو پھر پھانسی صرف مخصوص لوگوں کو ہی کیوں؟ معاشرے کی ہر برائی بشمول دہشتگردی کے پیچھے کہیں نہ کہیں معاشرتی ناانصافی کا عمل دخل ضرور ہوتا ھے۔ یہ سمجھنے کیلئے آئن سٹائن ہونا ضروری نہیں کہ آج اگر صرف تحریک طالبان کو پھانسیاں دی گئیں اور صولت مرزا جیسوں کو معاف کردیا گیا تو اس سے دہشتگردی مزید پھلے پھولے گی۔
پھر چند سال بعد آپ ایک دفعہ پھر سر پکڑ کر بیٹھے ہونگے اور سوچ رھے ہونگے کہ یہ دہشتگردی کیسے رکے گی۔
ناانصافی کو ناانصافی سے ختم کرنے کی کوشش بھی دہشتگردی کی ہی ایک شکل ھے!!!
ربط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کہی ھمارے ساتھ کوئی بڑی سازش تو نہیں ہو رہی ہے - پشاور کے اسکول میں جن بچوں کو شہید کیا گیا - کہی یہ کوئی سازش تو نہیں تھی - کہی ھمارے حکمران اور فوج ان کی سازش کا حصہ تو نہیں بن گئے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top