فیس بک پر ایک اور بھی پوسٹ چل رہی ہے کہ جس سے شک ہوتا ہے کہ شاید سارے سیاستدان ایک جیسے ہوتے ہیں
آئینی ترمیم اور مولانا فضل الرحمن کا کردار }حصہ اول{
_______________________________________
میں پچھلے چار مضمونوں میں مولانا فضل الرحمن کے اکیسویں آئینی ترمیم سے متعلق کردار سے متعلق تفصیل بیان کر چُکا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن نے اس ترمیم کے مخالف ووٹ نہ دے کر اس آئینی ترمیم کو کیسے اسے unopposed اور غیر متنازعہ منظوری دلائی ہے، فرزندان توحید کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ اس مدارس اور اسلام دشمن ترمیم پر مولانا "نیوٹرل" ہیں، ورنہ ایسے موقعے پر آپ کا مخالف ووٹ تک کاسٹ نہ کر سکنا چہ معنی دارد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟۔ میں اس سے متعلق مزید کسی تفصیل میں گئے بغیر اس وقت مولانا کے ایک بیان کے متعلق بات کرنے لگا ہوں جو مولانا نے آج اس پریس کانفرنس میں دیا ہے۔
آج ترمیم منظور ہونے کے بعد مولانا نے ایک پریس کانفرنس کی اور حکومتی دھوکہ دہی کی داستان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آج تو ہمارے حکومت سے مزاکرات ہو رہے تھے اور ہم بیٹھے ٹیم سے مزاکرات کر ہی رہے تھے کہ ہم نے ٹی وی پر دیکھا کہ کہ اسی دوران ترمیم منظور ہونا شروع ہو گئی۔ ہم نے اسی وقت انہیں دکھایا کہ دیکھو ادھر آپ ہم سے بات کر رہے ہیں ادھر ترمیم منظور ہو رہی ہے، یہ بھلا کیسی بات ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ جو دورکنی حکومتی کمیٹی مزاکرات کر رہی تھی اس میں اسحاق ڈار اور پرویز رشید شامل تھے۔ یہ دونوں خود تو مولانا سے ملاقات کر کے اسمبلی پہنچے اور اپنا ووٹ بھی کاسٹ کیا، بلکہ آرمی ایکٹ میں تبدیلی کی قرار داد پرویز رشید نے ہی پیش کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری بات یہ کہ دو دن پہلے سے سے سارے ٹی وی چینل چلا چلا کر بتا رہے ہین کہ آج ترمیم منظور ہو گی، قومی اسمبلی کے سیشن کا پچاس ٹی وی چینلز پر دو دن پہلے سے اعلان ہو رہا تھا۔ آج صبح سے بار بار دکھا رہے تھے کہ اب اتنے ممبر پہنچ گئے اب اسپیکر پہنچ گئے اب وزیر اعظم پہنچ گئے، یہ کمال نہیں کہ باقی ساری دُنیا اسمبلی میں پہنچ گئی لیکن اُڑتی چڑیا کی اذدواجی زندگی کے حالات تک جاننے والے مولانا کو یہی نہیں پتہ کہ آج ترمیم منظور ہونی ہے؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسری بات ، میرے بچے اسکول میں پڑھتے ہیں اگر کسی دن ایمرجنسی ہاف ڈے بھی ہوتا ہے، تو مجھے مطلع کر دیا جاتا ہے کہ آج آپ کے بچوں کا ہاف ڈے ہے ان کو لے جائیں، چُھٹی، یا کوئی ٹیبلو تک ہوتا ہے تو ہمیں مطلع کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی ان نرسری کلاس کے بچوں سے بھی گئی گزری تو نہیں۔ اسی لئے جب بھی اسمبلی سیشن شروع ہوتا ہے تو تمام پارلیمانی لیڈروں کو مطلع کر دیا جاتا ہے، اور جب ترمیمی بل کے لئے سیشن شروع ہو رہا ہو وہ تو ایک نہایت سنجیدہ وقت ہے اس کے لئے تو بدجہ اتم مطلع کیا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا سوائے عوام کو بے وقوف بنانے کے کچھ بھی نہیں۔
جن بھولے بھالے مخلص، عقیدت مندوں کو مولانا سچائی کا پیکر اور اپنی آخری امید نظر آتے ہیں ان کے لئے یہ جھوٹ چشم کشا ہونا چاہئے۔ اگر اس کردار کو منافقت اور اس کردار ادا کرنے والے شخص کو منافق نہیں کہتے تو ہمیں اپنی ڈکشنریوں میں منافقت کی تعریف تہتر کے آئین کے تناظر میں تبدیل کرانی پڑے گی۔۔
بشکریہ ابومحم