مقدمہ
’الشریعہ ‘کے جنوری کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے غامدی صاحب پر لکھے جانے والے تنقیدی مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھے جانے والے دو خطوط نظروں سے گزرے، ان میں سے ایک خط المورد کے ریسرچ ایسوسی ایٹ اور غامدی صاحب کے شاگرد خاص جناب طالب محسن صاحب کا تھا۔ اپنے اس خط میں جناب طالب محسن صاحب‘ غامدی صاحب کے ناقدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ غامدی صاحب پر ہونے والی تنقیدیں عام طور پر طعن وتشنیع اور تضحیک و استہزاء پر مبنی ہوتی ہیں اور صاحب ِ تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جوازفراہم کرتے ہوئے نوک قلم سے اپنے ہی علم و تقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے۔
غامدی صاحب کے ناقدین کے لیے طالب محسن کی یہ نصیحت واقعتا قابل توجہ ہے لیکن کاش کہ طالب محسن صاحب، جناب غامدی صاحب کو بھی یہ نصیحت کر سکتے کیونکہ ان کی کتاب ’برھان‘ میں اسی نوع کی تنقیدیں جا بجا موجود ہیں، خصوصاً ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور پروفیسر طاہر القادری صاحب پر تنقید کے ضمن میں دلیل و تحقیق کی بجائے زبان و ادب کے جوہر زیادہ دکھائے گئے ہیں جسے علمی تنقید و تحقیق کی بجائے ادبی تنقید کا نام دیا جائے تونامناسب نہ ہو گا۔
اگر طالب محسن صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ غامدی صاحب کے ساتھ اس قسم کی تحریروں سے زیادتی ہوئی ہے تو واضح رہے کہ غامدی صاحب نے بھی دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے طعن و تشنیع اور تضحیک و استہزا ء سے کم پر اکتفا نہیں کیا‘ اگرچہ غامدی صاحب اپنی ان تنقیدوں کو فن بلاغت کی لطیف اصطلاحات کا نام دے کرخود اپنے اور اپنے متبعین کے ضمیر کو مطمئن ہی کیوں نہ کرتے رہیں ۔
اصولی طور پر طالب محسن صاحب کی بات سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسلم معاشرے میں بحث مباحثے کے دوران کسی مسئلے میں حق بات معلوم کرنے کے لیے ادبی و ذاتی تنقید کی بجائے علم و تحقیق کی روشنی میں متعین دلائل کو مثبت تنقیدکی بنیاد بنایا جائے ،لیکن دوسروں کو حق بات کی نصیحت کرنے سے پہلے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہواس لیے میرا طالب محسن صاحب اور ان کے ممدوح غامدی صاحب کو عاجزانہ مشورہ یہی ہے کہ وہ دوسروں پر برہان قائم کرنے کے لیے تضحیک و استہزاء پر مبنی ادبی و اخباری کالموں کو ’برہان ‘نہ بنائیں بلکہ مسلّمہ اصولِ تحقیق و دلائل کی روشنی میں مثبت تنقید کرتے ہوئے ایک نئی ’برہان ‘ کے ذریعے تنقید کے میدان میں لوگوں کے لیے ایک نمونہ قائم کریں تا کہ ان کے فکر و فلسفہ کی مخالفت کرنے والوں کے لیے قولی حجت کے ساتھ ساتھ فعلی حجت بھی قائم ہو جائے ۔
غامدی صاحب کی ’برہان‘جس قسم کی تنقیدوں سے بھری پڑی ہے کیا یہ اصولی تنقیدیں ہیں؟ قرآن کی کسی ایک آیت کے ترجمے کوبنیاد بناکریا ’مسئلہ بیعت‘ پرتنقید کرکے اگر غامدی صاحب کے متبعین یہ سمجھتے ہیںکہ انہوں نے اصولی تنقید کا حق ادا کر دیا ہے تو یہ ان کا زعم باطل ہے۔ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسی تنقید انہوں نے دوسروں پر کی ہے ویسی ہی تنقید ان پر ہو رہی ہے۔ غامدی صاحب کی موجودہ ’برہان ‘جب تک موجو د رہے گی ان کے مخالفین کو اس قسم کی ادبی، جذباتی اور بقول ان کے جزوی تنقید کا جواز فراہم کرتی رہے گی ۔
جاوید احمد غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصولوں کا مختصر تقابلی جائزہ
جہاں تک طالب محسن صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ غامدی صاحب پر کوئی علمی یا اصولی تنقید نہیں ہوئی تو ان کایہ کہنا قطعاً درست نہیں ہے۔ اصل مسئلہ غامدی صاحب پرعلمی و اصولی تنقیدکے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اصول ِ تنقید کا ہے۔ اگر غامدی صاحب علمائے اہل سنت کے ان ا صولوں ہی کو نہیں مانتے جن کی بنیاد پر نقد ہوئی ہے توظاہرہے کہ ان کے نزدیک واقعی ابھی تک ان پر تنقید ہوئی ہی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جن اصولوں کی روشنی میں علماء نے ان پر تنقید کی ہے وہ ان اصولوں ہی کے قائل نہیں۔ غامدی صاحب اہل سنت سے الگ ہیں۔ ان کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں :
1۔اہل سنت کے ہاں اعتزال (قرآن وسنت کی نصوص سے استدلا ل کرتے وقت اہل علم کے ہاں سلف صالحین کے معروف طریق کار یعنی ان کے متفقہ اصول تفسیر و اصول فقہ کو نظر انداز کرنا اور اس کے برعکس کسی نئے انداز کو اختیار کرنا)ایک طرح کی گالی ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک یہی نادر انداز فخر کا باعث ہے۔اس اصول کے تحت وہ آئے روز نت نئی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں ۔
2۔اہل سنت‘ قرآن و سنت کی کسی نص کے مفہوم پر صحابہؓ اور ما بعد کے زمانوں کے اجماع کو حجت سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف رائے دینے کو ’اتباع غیرسبیل المؤمنین‘ میں شمار کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ صحابہ ؓ اور ساری امت خطاپر اکٹھی ہو سکتی ہے ! اور یہ ممکن ہے کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں کوئی شرعی مسئلہ کسی صحابیؓ یا تابعیؒ ‘عالم یا فقیہ کو سمجھ نہ آیا ہو اور پہلی دفعہ ان پر یا ان کے امام صاحب پرمنکشف ہوا ہو۔اس اصول کے تحت انہوں نے بہت سے اجماعی موقفات کے برعکس اپنی رائے کا اظہار کیا۔
3۔اگر کسی مسئلہ میں اہل سنت کے علماء کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل حدیث ہے تو غامدی صاحب فرماتے ہیں حدیث سے مستقل بالذات دین ثابت نہیں ہوتا یعنی حدیث سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ جبکہ علمائے اہل سنت کے نزدیک قرآن کی طرح حدیث سے بھی مستقل بالذات دین ثابت ہوتا ہے ۔غامدی صاحب کے بقول حدیث صرف قرآن و سنت(یعنی ستائیس قسم کے اعمال اور سنت سے مراد غامدی صاحب کی سنت ہےجبکہ اہل سنت کے نزدیک سنت اور حدیث ایک ہی شیء ہیں۔) کی شارح ہے اور دین میں کسی ایسی نئی چیز کو ثابت نہیں کرتی جو کہ قرآن اور سنت (ستائیس قسم کے اعمال) میں نہ بیان ہوئی ہے۔
4۔اہل سنت کہتے ہیں کہ قرآن کی طرح حدیث بھی دین اور اللہ کی شریعت کو ثابت کرنے والی ہے کیونکہ یہ وحی خفی ہے ،جس طرح قرآن وحی جلی ہے اسی طرح حدیث بھی وحی کی ایک قسم ہے اور اسے وحی خفی کہتے ہیں ۔ غامدی صاحب یہ تو مانتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوئی ہے لیکن وہ حدیث کو وحی کی حیثیت دینے سے انکاری ہیں۔وہ حدیث کوحجت کہتے ہیں لیکن اس کو وحی نہیں مانتے۔
5۔اہل سنت کے موقف کے مطابق اسلام کے بنیادی مصادر شریعت ،کتاب ( قرآن مجید) اور سنت رسول ﷺ ہیں جبکہ غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ
جہاں تک سنت کا معاملہ ہے تو سنت رسولﷺ کی نہیں ہوتی بلکہ سنت سے مراد سنت ابراہیمی ہے یعنی دین کی وہ روایت جو حضرت ابراہیم ؑسے جاری ہوئی ۔
اسی طرح غامدی صاحب کے نزدیک کتاب سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ کتابِ الٰہی ہے یعنی تورات ، انجیل ،اور صحف ابراہیم بھی اس میں شامل ہیں ۔
6۔جمیع اہل سنت قرآن کی عشرہ قراء ات کو مانتے ہیں‘ ان کی تلاوت کو عبادت قرار دیتے ہیں اور ان سے مسائل شرعیہ کا استنباط کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب قرآن کی عشرہ قر اء ات کو فتنہ عجم قرار دیتے ہیں۔
7۔جمیع اہل سنت کے نزدیک عقل و فطرت سے شریعت کا کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوتا‘ شریعت صرف و صرف اللہ کے حکم سے ثابت ہوتی ہے
لیکن غامدی صاحب فطرت انسانی سے حلال و حرام(طیبات و خبائث) ‘ أوامر و نواہی(معروف و منکر) اور جائز و ناجائز(مباحات فطرت) کی ایک طویل فہرست کا اثبات کرتے ہیں۔
8۔اہل سنت کے نزدیک دین یعنی قرآن وسنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ قطعی و ظنی خبر ہے جبکہ غامدی صاحب قرآن وسنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ اجماع صحابہ ؓ اور قولی و عملی تواتر ہے۔
9۔غامدی صاحب کے نزدیک عربی معلی‘ نظم قرآن ‘ زبان کی ابانت اور قرآن کا عرف وغیرہ قرآن کی تفسیر کے قطعی اصول ہیں جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ تمام چیزیں قرآن کو سمجھنے و سمجھانے میں مفید توہیں لیکن قرآن کا قطعی مفہوم صرف تین ہی صورتوں میں متعین ہوتا ہے ایک تفسیر القرآن بالحدیث کے ذریعے‘ دوسرا قرآن کی لغت کے معنی و مفہوم میں مروی صحابہ ؓ کے اقوال کے ذریعے اور تیسرا قرآن کی کسی آیت کے مفہوم پر امت کے اجماع کے ذریعے۔
10۔اہل سنت کے نزدیک قرآن کی کسی آیت کی حدیث کے ذریعے تخصیص و تقیید اور اس پر اضافہ جائز ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث نہ تو قرآن کی کسی آیت کی تخصیص کر سکتی ہے اور نہ ہی اس پر اضافہ۔
راقم نے سطوربالا میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک غامدی صاحب پرکتاب و سنت اور حدیث واجماع کے اصولوں کی روشنی میںعلماء نے جو تنقید کی ہے اس کو غامدی صاحب کے پیروکار علمی تنقید شما ر کیوں نہیں کرتے ؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ اہل سنت اور ان کے مابین اصولی اختلاف ہے۔
اس سے بھی آگے بڑھ کران کے مصادر دین علیحدہ ہیں، ان کے اصول علیحدہ ہیں ۔
اہل سنت کے ہاں کتاب و سنت حضرت محمد ﷺ سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہو جاتی ہے یعنی اہل سنت کے نزدیک کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جو آپﷺ پر نازل ہوا۔ اور سنت سے ان کی مراد آپﷺ کی سنت ہوتی ہے ۔ جبکہ غامدی صاحب کی کتاب وسنت حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوتی ہے اور(ان کے بعد کے تمام اسرائیلی انبیاء کو شامل کرکے)محمد ﷺ پر ختم ہوتی ہے ۔
اہل سنت کے علماء حضرت ابراہیمؑ سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک آنے والے تمام انبیاء و رُسل کو مانتے ہیں اور ان پر نازل کردہ اصل کتب مثلاً تورات ، انجیل اور صحف ابراہیم کو بھی کلامِ الٰہی مانتے ہیں لیکن جب وہ کتاب و سنت کو اپنی کتب میں بطور مآخذ شریعت بیان کرتے ہیں تو کتاب سے ان کی مراد ’قرآن مجید‘ اور سنت سے مراد ’سنت رسولﷺ‘ ہوتی ہے ۔یہاں تک ہم نے طالب محسن صاحب کی خدمت میں یہ بات پیش کی ہے کہ انہیں علماء کی طرف سے غامدی صاحب پر ہونے والی تنقید ،تنقید کیوں نہیں نظر آتی۔ غامدی صاحب کے اصولوں پر تفصیلی بحث اِن شاء اللہ آئندہ صفحات میں پیش کی جائے گی ۔
یہ کتاب ان مضامین پر مشتمل ہے جو کہ ما ہنامہ’ الشریعہ‘ اور ماہنامہ ’میثاق‘ میں شائع ہوئے۔ بعد میں تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع ۲۰۰۶ء کے موقع پر انہی مضامین کو یکجا کر کے کچھ اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ ایک کتاب کی شکل دے کر شائع کر دیا گیا۔
یہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن تھا جس کو ایک طرف تو علمی و فکری حلقوں میں کافی پذیرائی ملی جبکہ دوسری طرف عوام الناس کی طرف سے اسے آسان فہم بنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔ لہٰذاجس حد تک ہو سکتا تھا میں نے اپنی طرف سے اس کتاب کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوشش کی‘ اور اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔
چونکہ یہ کتاب چند اصولی و فکری ابحاث پر مشتمل ہے اس لیے ممکن ہے کہ شاید عام قارئین اس سے ایک حد تک ہی استفادہ کر سکیں۔ کچھ ہی عرصے بعد کچھ مزید اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ اس کتاب کا تیسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع کیا گیا۔ اب اس کتاب کا چوتھا فی الحال انٹر نیٹ ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے۔اس دوران غامدی صاحب سے براہ راست تین‘ چار نشستیں بھی ہوں جن میں ان کے فکر کو مزید گہرائی میں سمجھنے کا موقع ملا ۔اس ایڈیشن میں کافی اضافے اور تہذیب و تنقیح بھی کی گئی ہے۔
اسلوب تنقید کو ممکن حد تک نرم بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور ذات کو موضوع بحث بنانے کی بجائے افکار و نظریات کوہدف تنقید بنایا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود انسان کمزور ہے۔
امید ہے کہ قارئین اور اہل علم اس کتاب کے مضامین‘ اسلوب تنقید اور اصلاح و تنقیح وغیرہ کے حوالے سے اپنے مفید مشوروں سے نوازیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭