• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کتاب کا نام
فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

مصنف
حافظ محمد زبیر

(شعبہ تحقیق اسلامی‘ قرآن اکیڈمی، لاہور)
ناشر
مکتبہ خدام القرآن لاہور،36۔کے‘ ماڈل ٹاون، لاہور
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پیش لفظ

زیرنظر کتاب المورد اسلامک ٹرسٹ کے سرپرست‘ ماہنامہ اشراق کے مدیر اور ’ آج ‘ ٹی وی کے نامور سکالر علامہ جاوید احمد غامدی کے بعض اہم اصول دین کے علمی‘ تحقیقی اور تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ہے۔
اس کتاب کے مصنف حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ تعالیٰ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ تنظیم اسلامی کے متحرک کارکن بھی ہیں اور مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے شعبہ تحقیق سے منسلک ہیں۔ اس حصے کے مضامین ایک علمی مجلے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘میں ایک علمی مناقشہ کے تناظر میں شائع ہو چکے ہیں۔ مذکورہ مجلے کی ادارتی پالیسی کے سبب بعض مضامین کی تفصیلی کتروبیونت کر دی گئی تھی جس سے بہت سے اہم دلائل اور مباحث سامنے آنے سے رہ گئے تھے۔ کتاب کے اس حصے میں وہ مضامین معمولی حک و اضافے کے ساتھ اپنی اصلی شکل میں شامل کیے گئے ہیں۔
علامہ غامدی کے فکری تفردات اور تجدد پسندانہ نظریات آج کل علمی حلقوں میں بحث و نزاع کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اسلام کے روشن خیال‘ اعتدال پسند اور جدید ایڈیشن کو چونکہ یہ نظریات بہت اپیل کرتے ہیں اس لیے علامہ صاحب کو ایسے حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ان حالات کا نوٹس لیتے ہوئے دینی حلقوں میں تقریباً ہر طرف سے ان کے افکار کے خلاف تنقیدی مضامین لکھے گئے ہیں۔ لیکن حافظ زبیر صاحب کے یہ مضامین اس لحاظ سے سب سے منفرد ہیں کہ ان میں ان اصولوں سے بحث کی گئی ہے جن پر علامہ صاحب کے متجددانہ نظریات کی اساس ہے۔ گویا جن شاخوں پر اسلام کے اس جدید ایڈیشن کا آشیانہ تعمیر کیا گیا ہے‘ حافظ صاحب موصوف نے اس کی جڑوں پر تیشہ رکھ دیا ہے۔
حافظ عاطف وحید​
انچارج اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ سنٹر ‘قرآن اکیڈمی ‘لاہور​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مقدمہ

’الشریعہ ‘کے جنوری کے شمارے میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کے غامدی صاحب پر لکھے جانے والے تنقیدی مضمون کے جواب میں غامدی صاحب کی تائید میں لکھے جانے والے دو خطوط نظروں سے گزرے، ان میں سے ایک خط المورد کے ریسرچ ایسوسی ایٹ اور غامدی صاحب کے شاگرد خاص جناب طالب محسن صاحب کا تھا۔ اپنے اس خط میں جناب طالب محسن صاحب‘ غامدی صاحب کے ناقدین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ غامدی صاحب پر ہونے والی تنقیدیں عام طور پر طعن وتشنیع اور تضحیک و استہزاء پر مبنی ہوتی ہیں اور صاحب ِ تنقید اپنے لیے قلمی جہاد کا جوازفراہم کرتے ہوئے نوک قلم سے اپنے ہی علم و تقویٰ کا خون کر ڈالتا ہے۔
غامدی صاحب کے ناقدین کے لیے طالب محسن کی یہ نصیحت واقعتا قابل توجہ ہے لیکن کاش کہ طالب محسن صاحب، جناب غامدی صاحب کو بھی یہ نصیحت کر سکتے کیونکہ ان کی کتاب ’برھان‘ میں اسی نوع کی تنقیدیں جا بجا موجود ہیں، خصوصاً ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور پروفیسر طاہر القادری صاحب پر تنقید کے ضمن میں دلیل و تحقیق کی بجائے زبان و ادب کے جوہر زیادہ دکھائے گئے ہیں جسے علمی تنقید و تحقیق کی بجائے ادبی تنقید کا نام دیا جائے تونامناسب نہ ہو گا۔
اگر طالب محسن صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ غامدی صاحب کے ساتھ اس قسم کی تحریروں سے زیادتی ہوئی ہے تو واضح رہے کہ غامدی صاحب نے بھی دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے طعن و تشنیع اور تضحیک و استہزا ء سے کم پر اکتفا نہیں کیا‘ اگرچہ غامدی صاحب اپنی ان تنقیدوں کو فن بلاغت کی لطیف اصطلاحات کا نام دے کرخود اپنے اور اپنے متبعین کے ضمیر کو مطمئن ہی کیوں نہ کرتے رہیں ۔
اصولی طور پر طالب محسن صاحب کی بات سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ مسلم معاشرے میں بحث مباحثے کے دوران کسی مسئلے میں حق بات معلوم کرنے کے لیے ادبی و ذاتی تنقید کی بجائے علم و تحقیق کی روشنی میں متعین دلائل کو مثبت تنقیدکی بنیاد بنایا جائے ،لیکن دوسروں کو حق بات کی نصیحت کرنے سے پہلے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہواس لیے میرا طالب محسن صاحب اور ان کے ممدوح غامدی صاحب کو عاجزانہ مشورہ یہی ہے کہ وہ دوسروں پر برہان قائم کرنے کے لیے تضحیک و استہزاء پر مبنی ادبی و اخباری کالموں کو ’برہان ‘نہ بنائیں بلکہ مسلّمہ اصولِ تحقیق و دلائل کی روشنی میں مثبت تنقید کرتے ہوئے ایک نئی ’برہان ‘ کے ذریعے تنقید کے میدان میں لوگوں کے لیے ایک نمونہ قائم کریں تا کہ ان کے فکر و فلسفہ کی مخالفت کرنے والوں کے لیے قولی حجت کے ساتھ ساتھ فعلی حجت بھی قائم ہو جائے ۔
غامدی صاحب کی ’برہان‘جس قسم کی تنقیدوں سے بھری پڑی ہے کیا یہ اصولی تنقیدیں ہیں؟ قرآن کی کسی ایک آیت کے ترجمے کوبنیاد بناکریا ’مسئلہ بیعت‘ پرتنقید کرکے اگر غامدی صاحب کے متبعین یہ سمجھتے ہیںکہ انہوں نے اصولی تنقید کا حق ادا کر دیا ہے تو یہ ان کا زعم باطل ہے۔ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ جیسی تنقید انہوں نے دوسروں پر کی ہے ویسی ہی تنقید ان پر ہو رہی ہے۔ غامدی صاحب کی موجودہ ’برہان ‘جب تک موجو د رہے گی ان کے مخالفین کو اس قسم کی ادبی، جذباتی اور بقول ان کے جزوی تنقید کا جواز فراہم کرتی رہے گی ۔
جاوید احمد غامدی صاحب اور اہل سنت کے اصولوں کا مختصر تقابلی جائزہ
جہاں تک طالب محسن صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ غامدی صاحب پر کوئی علمی یا اصولی تنقید نہیں ہوئی تو ان کایہ کہنا قطعاً درست نہیں ہے۔ اصل مسئلہ غامدی صاحب پرعلمی و اصولی تنقیدکے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ اصول ِ تنقید کا ہے۔ اگر غامدی صاحب علمائے اہل سنت کے ان ا صولوں ہی کو نہیں مانتے جن کی بنیاد پر نقد ہوئی ہے توظاہرہے کہ ان کے نزدیک واقعی ابھی تک ان پر تنقید ہوئی ہی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جن اصولوں کی روشنی میں علماء نے ان پر تنقید کی ہے وہ ان اصولوں ہی کے قائل نہیں۔ غامدی صاحب اہل سنت سے الگ ہیں۔ ان کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ۔اس کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں :
1۔اہل سنت کے ہاں اعتزال (قرآن وسنت کی نصوص سے استدلا ل کرتے وقت اہل علم کے ہاں سلف صالحین کے معروف طریق کار یعنی ان کے متفقہ اصول تفسیر و اصول فقہ کو نظر انداز کرنا اور اس کے برعکس کسی نئے انداز کو اختیار کرنا)ایک طرح کی گالی ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک یہی نادر انداز فخر کا باعث ہے۔اس اصول کے تحت وہ آئے روز نت نئی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں ۔
2۔اہل سنت‘ قرآن و سنت کی کسی نص کے مفہوم پر صحابہؓ اور ما بعد کے زمانوں کے اجماع کو حجت سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف رائے دینے کو ’اتباع غیرسبیل المؤمنین‘ میں شمار کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ صحابہ ؓ اور ساری امت خطاپر اکٹھی ہو سکتی ہے ! اور یہ ممکن ہے کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں کوئی شرعی مسئلہ کسی صحابیؓ یا تابعیؒ ‘عالم یا فقیہ کو سمجھ نہ آیا ہو اور پہلی دفعہ ان پر یا ان کے امام صاحب پرمنکشف ہوا ہو۔اس اصول کے تحت انہوں نے بہت سے اجماعی موقفات کے برعکس اپنی رائے کا اظہار کیا۔
3۔اگر کسی مسئلہ میں اہل سنت کے علماء کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی دلیل حدیث ہے تو غامدی صاحب فرماتے ہیں حدیث سے مستقل بالذات دین ثابت نہیں ہوتا یعنی حدیث سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ جبکہ علمائے اہل سنت کے نزدیک قرآن کی طرح حدیث سے بھی مستقل بالذات دین ثابت ہوتا ہے ۔غامدی صاحب کے بقول حدیث صرف قرآن و سنت(یعنی ستائیس قسم کے اعمال اور سنت سے مراد غامدی صاحب کی سنت ہےجبکہ اہل سنت کے نزدیک سنت اور حدیث ایک ہی شیء ہیں۔) کی شارح ہے اور دین میں کسی ایسی نئی چیز کو ثابت نہیں کرتی جو کہ قرآن اور سنت (ستائیس قسم کے اعمال) میں نہ بیان ہوئی ہے۔
4۔اہل سنت کہتے ہیں کہ قرآن کی طرح حدیث بھی دین اور اللہ کی شریعت کو ثابت کرنے والی ہے کیونکہ یہ وحی خفی ہے ،جس طرح قرآن وحی جلی ہے اسی طرح حدیث بھی وحی کی ایک قسم ہے اور اسے وحی خفی کہتے ہیں ۔ غامدی صاحب یہ تو مانتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوئی ہے لیکن وہ حدیث کو وحی کی حیثیت دینے سے انکاری ہیں۔وہ حدیث کوحجت کہتے ہیں لیکن اس کو وحی نہیں مانتے۔
5۔اہل سنت کے موقف کے مطابق اسلام کے بنیادی مصادر شریعت ،کتاب ( قرآن مجید) اور سنت رسول ﷺ ہیں جبکہ غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ
جہاں تک سنت کا معاملہ ہے تو سنت رسولﷺ کی نہیں ہوتی بلکہ سنت سے مراد سنت ابراہیمی ہے یعنی دین کی وہ روایت جو حضرت ابراہیم ؑسے جاری ہوئی ۔
اسی طرح غامدی صاحب کے نزدیک کتاب سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ کتابِ الٰہی ہے یعنی تورات ، انجیل ،اور صحف ابراہیم بھی اس میں شامل ہیں ۔
6۔جمیع اہل سنت قرآن کی عشرہ قراء ات کو مانتے ہیں‘ ان کی تلاوت کو عبادت قرار دیتے ہیں اور ان سے مسائل شرعیہ کا استنباط کرتے ہیں جبکہ غامدی صاحب قرآن کی عشرہ قر اء ات کو فتنہ عجم قرار دیتے ہیں۔
7۔جمیع اہل سنت کے نزدیک عقل و فطرت سے شریعت کا کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوتا‘ شریعت صرف و صرف اللہ کے حکم سے ثابت ہوتی ہے
لیکن غامدی صاحب فطرت انسانی سے حلال و حرام(طیبات و خبائث) ‘ أوامر و نواہی(معروف و منکر) اور جائز و ناجائز(مباحات فطرت) کی ایک طویل فہرست کا اثبات کرتے ہیں۔
8۔اہل سنت کے نزدیک دین یعنی قرآن وسنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ قطعی و ظنی خبر ہے جبکہ غامدی صاحب قرآن وسنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ اجماع صحابہ ؓ اور قولی و عملی تواتر ہے۔
9۔غامدی صاحب کے نزدیک عربی معلی‘ نظم قرآن ‘ زبان کی ابانت اور قرآن کا عرف وغیرہ قرآن کی تفسیر کے قطعی اصول ہیں جبکہ اہل سنت کے نزدیک یہ تمام چیزیں قرآن کو سمجھنے و سمجھانے میں مفید توہیں لیکن قرآن کا قطعی مفہوم صرف تین ہی صورتوں میں متعین ہوتا ہے ایک تفسیر القرآن بالحدیث کے ذریعے‘ دوسرا قرآن کی لغت کے معنی و مفہوم میں مروی صحابہ ؓ کے اقوال کے ذریعے اور تیسرا قرآن کی کسی آیت کے مفہوم پر امت کے اجماع کے ذریعے۔
10۔اہل سنت کے نزدیک قرآن کی کسی آیت کی حدیث کے ذریعے تخصیص و تقیید اور اس پر اضافہ جائز ہے جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک حدیث نہ تو قرآن کی کسی آیت کی تخصیص کر سکتی ہے اور نہ ہی اس پر اضافہ۔

راقم نے سطوربالا میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب تک غامدی صاحب پرکتاب و سنت اور حدیث واجماع کے اصولوں کی روشنی میںعلماء نے جو تنقید کی ہے اس کو غامدی صاحب کے پیروکار علمی تنقید شما ر کیوں نہیں کرتے ؟وجہ صاف ظاہر ہے کہ اہل سنت اور ان کے مابین اصولی اختلاف ہے۔
اس سے بھی آگے بڑھ کران کے مصادر دین علیحدہ ہیں، ان کے اصول علیحدہ ہیں ۔
اہل سنت کے ہاں کتاب و سنت حضرت محمد ﷺ سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہو جاتی ہے یعنی اہل سنت کے نزدیک کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جو آپﷺ پر نازل ہوا۔ اور سنت سے ان کی مراد آپﷺ کی سنت ہوتی ہے ۔ جبکہ غامدی صاحب کی کتاب وسنت حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوتی ہے اور(ان کے بعد کے تمام اسرائیلی انبیاء کو شامل کرکے)محمد ﷺ پر ختم ہوتی ہے ۔
اہل سنت کے علماء حضرت ابراہیمؑ سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک آنے والے تمام انبیاء و رُسل کو مانتے ہیں اور ان پر نازل کردہ اصل کتب مثلاً تورات ، انجیل اور صحف ابراہیم کو بھی کلامِ الٰہی مانتے ہیں لیکن جب وہ کتاب و سنت کو اپنی کتب میں بطور مآخذ شریعت بیان کرتے ہیں تو کتاب سے ان کی مراد ’قرآن مجید‘ اور سنت سے مراد ’سنت رسولﷺ‘ ہوتی ہے ۔یہاں تک ہم نے طالب محسن صاحب کی خدمت میں یہ بات پیش کی ہے کہ انہیں علماء کی طرف سے غامدی صاحب پر ہونے والی تنقید ،تنقید کیوں نہیں نظر آتی۔ غامدی صاحب کے اصولوں پر تفصیلی بحث اِن شاء اللہ آئندہ صفحات میں پیش کی جائے گی ۔
یہ کتاب ان مضامین پر مشتمل ہے جو کہ ما ہنامہ’ الشریعہ‘ اور ماہنامہ ’میثاق‘ میں شائع ہوئے۔ بعد میں تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع ۲۰۰۶ء کے موقع پر انہی مضامین کو یکجا کر کے کچھ اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ ایک کتاب کی شکل دے کر شائع کر دیا گیا۔
یہ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن تھا جس کو ایک طرف تو علمی و فکری حلقوں میں کافی پذیرائی ملی جبکہ دوسری طرف عوام الناس کی طرف سے اسے آسان فہم بنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔ لہٰذاجس حد تک ہو سکتا تھا میں نے اپنی طرف سے اس کتاب کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوشش کی‘ اور اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔
چونکہ یہ کتاب چند اصولی و فکری ابحاث پر مشتمل ہے اس لیے ممکن ہے کہ شاید عام قارئین اس سے ایک حد تک ہی استفادہ کر سکیں۔ کچھ ہی عرصے بعد کچھ مزید اضافوں اور تبدیلیوں کے ساتھ اس کتاب کا تیسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع کیا گیا۔ اب اس کتاب کا چوتھا فی الحال انٹر نیٹ ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے۔اس دوران غامدی صاحب سے براہ راست تین‘ چار نشستیں بھی ہوں جن میں ان کے فکر کو مزید گہرائی میں سمجھنے کا موقع ملا ۔اس ایڈیشن میں کافی اضافے اور تہذیب و تنقیح بھی کی گئی ہے۔
اسلوب تنقید کو ممکن حد تک نرم بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور ذات کو موضوع بحث بنانے کی بجائے افکار و نظریات کوہدف تنقید بنایا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود انسان کمزور ہے۔
امید ہے کہ قارئین اور اہل علم اس کتاب کے مضامین‘ اسلوب تنقید اور اصلاح و تنقیح وغیرہ کے حوالے سے اپنے مفید مشوروں سے نوازیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
باب اول:
دین کے منتقل و حجت ہونے کا بنیادی ذریعہ

اجماع یا خبر واحد؟​
فصل اول:
دین کی روایت ایک نظر میں
دین ودنیا میں عام طور پر کسی بھی علم کے حصول کے لیے معتبر بنیادی ذرائع صرف دو ہی ہیں۔ ایک براہ راست مشاہدہ و حواس سے حاصل شدہ علم اور دوسرا خبرہے ۔
مثلا بازار میں جاتے ہوئے آپ نے دیکھا کہ ایک شخص کو سرعام ڈاکوؤں نے قتل کر دیاہے ‘اب آپ کو اس شخص کے قتل کا علم براہ راست مشاہدے سے ہوا یا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ جائے وقوعہ پر موجودنہ ہوں اور آپ کو اس شخص کے قتل کی خبر مل جائے۔یہ خبر بعض اوقات ایک شخص کے ذریعے پہنچتی ہے اور بعض اوقات دو‘ تین ‘ چار یا ایک بہت بڑی تعداد کے ذریعے۔ مخبرین کی تعداد چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو‘دنیا اس کو خبر ہی کہتی ہے۔
انبیاء پر نازل کی جانے والی وحی بھی اللہ ہی کی طرف سے ایک خبر ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے۔کسی نبی کا خواب بھی مشاہدہ و خبر ہی کی ایک ملی جلی قسم ہے جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے خواب دیکھا تھا کہ آپ صحابہؓ کے ساتھ عمرہ کر رہے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو خواب میں ذبح کرتے دیکھا۔ اسی طرح بعض اوقات ایک عام شخص کو بھی بذریعہ خواب کسی بات کا علم ہو جاتا ہے لیکن ایک نبی اور عامی کے خواب میں اصل فرق یہ ہے کہ نبی کاخواب دوسروں کے حق میںبھی وحی و حجت کا درجہ رکھتا ہے جبکہ ایک عام آدمی کا خواب خود اس کے لیے تو کسی اہمیت کا حامل ہو سکتاہے لیکن دین میں کسی دوسرے شخص کے لیے کوئی شرعی دلیل نہیں بن سکتا۔
انبیاء کے لیے علم کے حصول کی ایک خاص شکل الہام بھی ہے یعنی اللہ سبحانہ و تعالی کسی نبی کے دل میں کوئی بات ڈال دیں ۔انبیاء کا یہ علم وحی کی حیثیت سے ایک شرعی دلیل ہے۔ عام افراد کے لیے اسی عمل کو اصطلاحاً وجدان یا الہام ہی کہتے ہیں۔ دین اسلام میں وجدان یا ایک عامی کے الہام کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے
اگرچہ صوفیاء کے ایک قلیل طبقے نے اس کو ایک مستند ذریعہ علم قرار دیا ہے۔اگرکوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ سبحانہ و تعالی یا اللہ کے نبیﷺ نے یہ بات الہام کی ہے تو اس بات کو معلوم کرنا کہ واقعتاً اس شخص کووہ بات اللہ یا اس کے رسول ﷺ ہی کی طرف سے الہام کی گئی ہے، ایک ناممکن أمر ہے اور اس کا کوئی معیار بھی اس دنیا میں موجود نہیں ہے کہ جس پر اس کو پرکھا جا سکے کہ یہ بات اللہ ہی کی طرف سے الہام ہے یا شیطانی وساوس ہیں۔ اسی لیے کسی بھی بڑے سے بڑے عالم دین یا بزرگ و صوفی کا وجدان امت مسلمہ کے حق میں کسی شرعی دلیل کے مترادف نہیں ہے۔
دنیاوی علوم کے حصول کا ایک اور ذریعہ عقل بھی ہے۔ فلسفے میں اس ذریعہ علم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دین میں عقل‘ احکام الہی کوحاصل کرنے کا ذریعہ تو نہیں ہے لیکن ان کو سمجھنے میں اس کی حیثیت مسلم ہے۔
معتزلہ کے نزدیک عقل سے اللہ کا حکم معلوم ہوسکتا ہے جبکہ غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ قرآن میں مذکور’ معروف و منکر ‘ اور ’طیبات و خبائث‘ کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا ۔اہل سنت ماتریدیہ (یعنی احناف ) اشاعرہ (یعنی مالکیہ و شوافع) اور سلفیہ (یعنی حنابلہ و اہل الحدیث) کے نزدیک دین اسلام کا کوئی بھی حکم نہ تو عقل سے ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی فطرت سے ۔
فطرت سے دین اسلام کا کوئی بھی حکم ثابت نہیں ہوتا، اس موضوع پرتقریبا ایک سو دس صفحات کا ایک مقالہ اس کتاب میں شامل کیاگیا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ہمارا موضوع اس وقت دین اسلام ہے ۔اس دنیا میں دین اسلام کے تنہاء ماخذ اللہ کے رسولﷺ ہیں ۔اللہ کا دین قرآن کی صورت میں ہو یا قرآن کے علاوہ ‘ وہ ہمیں محمد ﷺ کے بتانے سے ہی ملا ہے ۔جب تک آپﷺ کتاب اللہ کو قرآن قرار نہ دیں تو اس وقت تک وہ قرآن نہیں بنتا‘یعنی قرآن بھی آپؐ کے بتانے سے ہی قرآن بنا ہے ۔
امام غزالی ؒ لکھتے ہیں:
’’و اعلم أنا إذا حققنا النظر بان أن أصل الأحکام واحد و ھو قول اللہ تعالی ۔۔۔ إلا أنا إذا نظرنا إلی ظھور الحکم فی حقنا فلا یظھر إلا بقول الرسول علیہ السلام لأنا لا نسمع الکلام من اللہ تعالی و لا من جبرئیل فالکتاب یظھر لنا بقول الرسول۔‘‘(المستصفی: ص ۸۰‘ دار الکتب العلمیۃ‘ بیروت)
’’جان لو!جب ہم غور سے جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام احکام کی اصل ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالی کا قول ہے۔۔۔مگر جب ہم اپنے حق میں کسی حکم کے ظاہر ہونے کی صورت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ کا کوئی بھی حکم ہمیں اللہ کے رسولﷺ کیقول کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ ہم اللہ کا کلام نہ توبراہ راست اللہ تعالی سے سنتے ہیں اور نہ ہی حضرت جبرئیل ؑ سے۔پس اللہ کی کتاب بھی آپؐ کے قول سے ہی ہمیں معلوم ہوتی ہے۔‘‘
آپؐ کے زمانے میں یہ دین قرآن و سنت کی صورت میں موجود تھا اورآپؐ اس دین یعنی دین اسلام کو اپنے اقوال ‘ افعال اور تقریرات کے ذریعے صحابہ ؓ تک پہنچارہے تھے۔ اللہ کے رسولﷺ سے ہم تک دین کا علم کیسے منتقل ہوا ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔
دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ کیا ہمارا دین اس بارے میں ہماری رہنمائی کرتاہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اللہ تعالی سے قرآن و سنت کی صورت میں جو دین حاصل کیا ہے وہ قیامت تک آنے والے آپؐ کے ہر ہر امتی تک کن ذرائع سے پہنچے گا ؟
تیسر اتحقیق طلب سوال یہ ہے کہ دین نے ایسے کون سے ذرائع بیان کیے ہیں کہ جن ذرائع سے دین اسلام آپؐ کی طرف سے کسی امتی تک پہنچ جائے تو اس امتی کے لیے اس ذریعے کی صورت میں ملنے والے دین کو‘ دین اسلام سمجھ کر قبول کرنا واجب ہے ؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ آج ہمارے سامنے نہیں ہیں لہذا ہم آپؐ کے اقوال و افعال کے براہ راست مشاہدے سے اس دین کا علم حاصل نہیں کر سکتے جو آپﷺ پر قرآن وسنت کی صورت میں نازل ہواہے یا جسے آپﷺ کے اجتہاد کی صورت میں اللہ کی تصویب و تائید حاصل ہوئی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص محض اپنی عقل سے غور و فکر کرتے ہوئے اس دین کو معلوم کر لے کہ جو آپؐ پر نازل ہواتھا تو یہ بھی ناممکن ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ دین جو آج سے چودہ سو سال پہلے محمد ﷺ پر نازل ہواتھا میں اپنے وجدان سے معلوم کر لوں تو دین اسلام کے علم کے حصول کی یہ صورت بھی قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی معیار نہیں ہے کہ جس کو وہ اپنے دل میں محسوس کر رہا ہے وہ واقعتا وہی ہے جو اللہ کے رسولﷺ پر نازل ہوا تھا یا وہ شیطانی وساوس ہیں۔
پس دین کے علم کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہمارے پاس باقی رہ جاتا ہے اور وہ خبر ہے۔ اب یہ خبر قطعی بھی ہی ہو سکتی ہے اور ظنی بھی۔
دوسرے اور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات دین کا بنیادی موضوع ہے کہ دین آپؐ سے قیامت تک آنے والے ہر ہر امتی تک کیسے پہنچے گا اور دین نے اس کو بیان بھی کیا ہے۔ یہ کہنا کہ دین اسلام کے منتقل ہونے کے ذرائع کیا ہیں ؟ یہ ایک عقلی یا تاریخی بحث ہے، عقل و شرع دونوں کے خلاف ہے۔ جس طرح کسی چیز کا دین ہونا یا نہ ہونا ایک اہم بحث ہے، اتنی ہی اہمیت کی حامل یہ بات بھی ہے کہ وہ دین ہم تک کیسے پہنچے گا۔دین ہویا دین کے ہر ہر امتی تک پہنچنے کا ذریعہ ہو‘ دونوں کی اہمیت عقلی اعتبار سے برابر ہے۔
جناب غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’دین اس دنیا میں اللہ پروردگار عالم کی ہدایت ہے جو اس نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسانوں کو دی ہے۔اس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمدﷺ ہیں۔چنانچہ دین کا تنہا مأخذ اس زمین پر اب محمدﷺ ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف انھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کوان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف انھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر وتصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں ‘ وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے۔‘‘ (میزان:ص۹)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دین کیاہے ؟
اس اعتبار سے غامدی صاحب کا یہ قول صد فی صد درست ہے کہ دین صرف وہی ہے کہ جس کو اللہ کے رسولﷺ نے اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب سے دین قرار دیا ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا عبارت کی اہمیت اس وقت بالکل ختم ہو جاتی ہے جب ہم اس دین کے پہنچنے کے ذرائع کو ایک عقلی و تاریخی بحث بنا دیتے ہیں۔
کیونکہ ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں اس کے اعتبار سے‘ اللہ کے رسولﷺ کے دور میں کیا چیز دین تھی؟ سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ دین ہمیں کس طرح ملا ہے یا دوسرے الفاظ میں وہ دین آج کہاں ہے؟ کیونکہ ایک چیز کو اصولی طور پر دین مان سے لینے اس وقت تک فرق نہیں پڑتا جب تک ہم دین کے ذرائع کی بحث بھی دین کی روشنی میں ہی نہ کرلیں۔
جب تک سوا ل صحیح نہ ہو تو اس کا جواب بھی درست نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے اس دنیا میں اللہ کے رسولﷺ کی ذات ہی دین اسلام کا تنہا ماخذ ہے۔ لیکن یہ اس سوال کا جواب ہے کہ دین اسلام کے مآخذ کیا ہیں؟
ہمارے خیال میں اصل سوال یہ ہے کہ آج، جس زمانے میں، مَیں زندگی گزار رہا ہوں، میرے لیے دین اسلام کے مآخذ کیا ہیں؟ یعنی جو دین اللہ کے رسولﷺ کو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی ملا ہے آج مجھے وہ کہاں ملے گا؟ آج میں اسے کہاں تلاش کروں؟ کیا اللہ تعالی نے محمد ﷺ پر نازل کردہ دین کی حفاظت اس طرح سے کی ہے کہ آج بھی مجھے وہ دین اسی طرح مل جائے جس صورت میں وہ آپؐ پر نازل ہوا تھا یا اللہ تعالی کا یہ فضل صرف صحابہؓ کی جماعت ہی کے لیے تھا۔ میرے سامنے آج اللہ کے رسولﷺ نہیں ہیں کہ میں ان کے اقوال‘ افعال اور تقریرات کا براہ راست مشاہدہ کر کے دین آپ کی ذات سے اخذ کر سکوں۔ آپؐ کی حیات میں آپؐ صحابہ کرامؓ کے لیے حقیقتاً دین کا تنہا ماخذ تھے۔ اس لیے یہ کہنا کہ دین کا تنہا ماخذ اللہ کے رسولﷺ ہیں نظری و اصول طور پر بالکل صد فی صد درست بات ہے لیکن صرف یہ کہنا آج کے مسلمان کا مسئلہ اس لیے حل نہیں کرتا کہ اس کے سامنے آپؐ کی ذات موجود نہیں ہے۔ آپؐ نے قرآن اور اپنے اقوال، افعال اور تقریرات کے ذریعے جو دین اس امت کو دیا ہے وہ آج کہاں ہے؟
اس سوال کا جواب جب ہم اصول فقہ کی کتابوں میں تلاش کرتے ہیں تو مآخذ شریعت کے عنوان کے تحت مذکور بحث کے مطالعے سے ہمیں یہ معلوم ہو جاتاہے کہ اہل سنت کا جواب کیا ہے۔ پس یہ کہنا کہ دین کے ذرائع کی بحث عقل یا تاریخ کا مسئلہ ہے، ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ اللہ کے رسولﷺ کے صحابہ ؓ کے لیے تو دین کے مآخذ واضح تھے یعنی آپؐ کے اقوال، افعال و تقریرات، جبکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے دین کے مآخذ کیا ہیں؟ یہ عقل و تاریخ سے طے ہو گا۔
عقل و تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ صحابہؓ کے لیے خبر واحد مستقل بالذات ماخذ دین تھی کیونکہ صحابہؓ دو صورتوں میں اللہ کے رسولﷺ سے دین حاصل کر رہے تھے یا تو براہ راست آپؐ کی مجلس میں موجود ہوتے تھے یا کسی دوسرے صحابی سے اس کی خبر پاتے تھے۔ پہلی صورت میں بھی آپؐ کی خبر ان کے لیے خبر واحد تھی جبکہ دوسری صورت بھی عموماً خبر واحد ہی کی ہوتی تھی جیسا کہ صحابہ ؓ آپؐ کے ارشادات و افعال اور موقع بموقع نازل ہونے والی قرآنی آیات کی خبر اپنی بیویوں کو جا کر دیتے تھے تو یہ خبر واحد ہی تھی۔ اس خبر واحد سے قرآن بھی ثابت ہورہا تھا اور حلال وحرام‘ عبادات بھی اور معاملات بھی۔ آداب بھی اور حدود وتعزیرات بھی۔
اس عقل و تاریخ کو کیا ہو گیا ہے کہ آج ہمیں یہ کہتی ہے کہ ہمارے لیے خبر واحد مستقل بالذات ماخذ دین نہیں ہے بلکہ صحابہؓ کا اجماع اور پھر اس اجماع ِ صحابہ کی ہر دور میں اجماع ہی کے ذریعے سے حکایت و روایت ہے۔
جب تک صحابہ ؓ کا کسی بات پر اجماع نہیں ہوا تھا اور کسی ایک صحابیؓ نے کسی دوسرے صحابی ؓسے مثلا تحویل قبلہ سے متعلق قرآن کی نئی نئی نازل شدہ آیات سنی تو اس صحابیؓ کے لیے وہ خبر واحد مستقل بالذات ماخذ دین تھی یا نہیں اور اس خبر واحد سے قرآن اور تحویل قبلہ جیسا حکم ثابت ہو جاتا تھا یا نہیں۔ اگر تو جواب اثبات میں ہے اور یقینا ہے تو آج اس خبر واحد سے
قرآن یا تحویل قبلہ جیسے احکامات کے اثبات میں کیا رکاوٹ ہے؟ کیاصحابہؓ کے دور میں جس قسم کی خبر واحد سے مستقل بالذات دین ثابت ہو جاتا تھا‘ امام شافعیؒ‘ امام مالکؒ ‘ امام احمدؒ اور امام بخاری ؒ وغیرہ کے زمانے میں اس خبر واحد سے دین ثابت نہیں ہوتا تھا۔ کیاذریعہ دین پر حَکم ہے کہ وہ دین کو مستقل بالذات یا غیر مستقل بالذات بنا دیتا ہے۔ کیا جس چیز پر صحابہؓ کا اجماع نہ ہواس کو ہم مستقل بالذات دین شمار نہیں کریں گے؟
احادیث ‘ سیرت وتاریخ کی کتب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت عثمان ؓ کے جمع قرآن کے واقعہ سے پہلے قرآن کی قراء ات کے بارے میں صحابہؓ میں بہت اختلافات تھے اور بعض صحابہؓ دوسرے صحابہؓ کی قراء ت کا انکار بھی کرتے تھے اور سرحدی علاقوں میں ایسے جھگڑے بہت بڑھ گئے تھے۔ یہ تمام صحابہؓ جو کہ قرآن کی ایک قراء ت پر متفق نہیں تھے تو کیا قرآن صحابہؓ کے اس دور میں ثابت نہیں تھا یا وہ مستقل بالذات ماخذنہیں مانا جاتا تھا۔ یقینا ایسا نہیں تھا۔ آج بھی تمام امت قرآن کی کسی ایک روایت پر متفق نہیں ہے بلکہ کہیں روایت حفص ہے تو کہیں روایت ورش‘ بعض ممالک میں روایت قالون رائج ہے تو بعض علاقوں میں روایت دوری پڑھی جاتی ہے‘ اس کے باوجود قرآن ثابت ہے ۔مستقل بالذات دین کے ثبوت کے طریقے جو خود دین نے بیان کیے ہیں وہ اجماع نہیں ہے بلکہ خبر ہے۔ اگر اس خبر پر اجماع بھی حاصل ہو جائے تو یہ ایک اضافی فائدہ ہے۔ یہی ہمارے اس باب کا موضوع ہے۔
غامدی صاحب جس کو ذریعہ قرار دے رہے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ ایک ذریعہ ہونے کے علاوہ آج کے دور میں ہمارے لیے مآخذ دین بھی ہیں۔ دین نے صحابہؓ کے لیے بھی اور قیامت تک آنے والے امتیوں کے لیے مآخذ دین( یعنی دین کو اخذ کرنے کی جگہوں) کو بیان کر دیا ہے۔
قرآن اور سنت دونوں میں یہ بات صراحت سے بیان ہوئی ہے کہ دین کے اللہ کے رسول ﷺ سے امت تک منتقل ہونے کا اصل ذریعہ خبر ہے اور بذریعہ خبر اگر دین اسلام کی کوئی بات اللہ کے رسول ﷺ کی نسبت سے کسی امتی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے اس بات کودین کی حیثیت سے قبول کرنا واجب ہے‘ چاہے وہ خبرقطعی ہو یا ظنی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصل دوم
دین کی روایت کا بنیادی ذریعہ: قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید نے صریحاً اور اشارتاً دین کی روایت و ذریعہ کو ایک موضوع کے طور پر بیان کیا ہے۔ قرآن مجید میں اس کے درج ذیل دلائل ہیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلی دلیل
ارشاد باری تعالی ہے:
ائتونی بکتب من قبل ھذا أو أثرة من علم۔(الأحقاف :۴)
تم(اپنے موقف کے حق میں) کوئی کتاب اس(قرآن) سے پہلے کی یا (سابقہ انبیاء) کی بچی کھچی منقول علمی روایت لے آؤ۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ لکھتے ہیں:
’’أثارة‘ اس روایت کو کہتے ہیں جو سلف سے منقول ہوتی چلی آ رہی ہو۔ الأثارة البقیة من العلم توثروھم علی اثارة من العلم أی بقیة منہ یاثرونھا من الأولین(أقرب الموارد)۔ اس کے ساتھ’ من علم‘ کی قید اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ اس روایت کی بنیاد محض وہم و گمان پر نہیں بلکہ علم پر ہو۔ اگر تم مدعی ہو کہ خدا نے تمہارے معبودوں کو اپنی خدائی میں شریک بنایا ہے تو اپنے اس دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے یا تو اس قرآن سے پہلے کی کوئی کتاب پیش کرویا کوئی ایسی روایت جس کی بنیاد وہم و گمان پر نہیں بلکہ علم پر ہو۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کا کوئی شریک ہے یا نہیں؟ اس باب میں اصلی گواہی خود خدا ہی کی ہوسکتی ہے کہ اس نے اپنا شریک کسی کو بنایا ہے یا نہیں اور بنایا ہے تو کس کو؟ خدا کی گواہی کو جاننے کا واحد ذریعہ اس کی نازل کردہ کتابیں ہیں یا وہ روایات و آثار جو اس کے نبیوں اور رسولوں سے صحیح طور پر سلف سے خلف کو منتقل ہوئے۔ فرمایا کہ اس طرح کی کوئی چیز ہو تو اس کوپیش کرو‘ محض وہم کی بنیاد پر ایک ہوائی قلعہ تعمیر کر کے اپنی عاقبت نہ خراب کرو۔ یہاں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالی کا نازل کردہ علم یا تو اس کی کتابوں کے ذریعہ سے خلق کو منتقل ہوا ہے مثلا تورات و انجیل وغیرہ کے ذریعے سے یا روایات و آثار کے ذریعے سے، مثلا حضرت ابراہیم ؑ اور دوسرے انبیاء کی تعلیمات بعد والوں کو روایات ہی کے ذریعے پہنچیں۔‘‘ (تدبر القرآن : الأحقاف : ۴)
طوالت کے خوف سے ہم اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں باقی مفسرین کی آراء نقل نہیں کر رہے ہیں۔اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کے پہنچنے کا ذریعہ بھی دین ہی کا موضوع ہے اور قرآن نے اس کو بیان کیا ہے۔قرآن کی اس آیت کے مطابق اللہ کی کتاب اور رسولوں کی طرف منسوب اخبار ‘چاہے عقائد کی صورت میں ہو یا اعمال و عبادات کی شکل میں‘ دین اسلام کاماخذ ہیں۔
یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ عقیدہ بھی خبر ہی سے ثابت ہوتا ہے‘ چاہے وہ متواتر ہو یا خبرآحاد۔​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری دلیل
ایک اور جگہ سورہ توبہ میں اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ﴿١٢٢﴾
پس کیوں نے ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت نکلی تاکہ وہ دین کا گہرا فہم حاصل کریں اور تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جبکہ وہ ان کی طرف لوٹ کر جائیں شاید کہ وہ(یعنی قوم والے اس طرح) ڈر جائیں۔
اس آیت مبارکہ میں ’طائفة‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ عربی زبان میں ایک قلیل جماعت کے لیے استعمال ہوتا ہے، چاہے وہ فرد واحد ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ قرآن مجید میں سورۃ الحجرات کی آیت مبارکہ
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾
میں طائفتان کا لفظ دو اشخاص کے لیے بولا گیا ہے جیسا کہ شان نزول کی روایات میں ہے۔
اگر اس کو جمع کے معنی میں بھی استعمال کریں تو پھر بھی تین سے جمع شروع ہو جاتی ہے اور تین راویوں کی روایت کوبھی محدثین کی اصطلاح میں خبر واحد ہی کہتے ہیں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ کے رسول ﷺ سے دین اسلام کو حاصل کرنے اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کو بتلانے کے لیے خبر واحد کو حجت مانا گیا ہے۔ احادیث، سیرت اور آثار صحابہؓ کی کتابوں میں بکثرت ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض قبائل سے ایک فرد اور بعض سے ایک سے زائد افراد اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، دین اسلام کے احکامات سیکھتے اور واپس جا کر اپنی قوم کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top