• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فکرِغامدی ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
5۔قرا ء اتِ متواترہ اور اجماع اُمت
غامدی صاحب کے نزدیک قراء ات متواترہ کے بارے میں مروی وہ تمام روایات جو صحاح ستہ میں موجود ہیں‘ سندا ً اور معناً دونوں اعتبارات سے ناقابل قبو ل ہیں۔ سندا ً اس لیے کہ ان تمام روایات کی سند میں ابن شہاب زھری ہے جو ائمۂ رجال کے نزدیک مدلس و مدرج ہے اور معناً ا س لیے کہ ان احادیث کے معنی و مفہوم کا آج تک تعین نہیں ہو سکا۔
غامدی صاحب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ قرآن کو حدیث کی دلیل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ حالانکہ قرآن اپنے ثبوت کے لیے کسی حدیث کا محتاج نہیں ہے۔ غامدی صاحب جس کو ’قرأت عامہ‘ کہتے ہیں کیا وہ حدیث سے ثابت ہے؟ قرآن کا اجماع اور تواتر کے ساتھ امت میں نقل ہونا ہی اس کے ثبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے‘ اور’قراء اتِ عشرہ‘ تواتر اور اجماع کے ساتھ ثابت ہیں۔
مشہور مفسر اور اندلسی عالم ابن عطیہ ؒلکھتے ہیں :
ومضت الاعصار والامصار علی قراء ات الائمۃ السبعة بل العشرة و بھا یصلی لانھا تثبت بالاجماع(۶)
’’ قراء ات سبعہ بلکہ عشرہ بھی ہر زمانے اور ہر شہر میں رائج رہی ہیں اور ان کی نماز میں تلاوت کی جاتی رہی ہے‘ کیونکہ یہ اجماع امت سے ثابت ہیں ‘‘۔
آج بھی مدارس و جامعات اسلامیہ کے ہزاروں طلبہ ان قراء ات کو اپنے شیوخ سے نقل کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض قراء ات تو مغرب و افریقہ کے بلاد اسلامیہ میں اسی طرح رائج ہیں جس طرح ہمارے ہاں روایت حفص‘ اور ان قراء ات کا تواتر کے ساتھ امت میں پڑھا جانا ہی ان کے قرآن ہونے کے ثبوت کے لیے قطعی دلیل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
6۔سبعۃ اَحرف کا مفہوم اور غامدی صاحب کے مغالطے
غامدی صاحب نے ’’سبعة أحرف‘‘ کی روایات پر اعتراض یہ کیا ہے کہ اس کے معنی و مفہوم کے تعین میں علماء کے تقریباً چالیس اقوال نقل کیے گئے ہیں۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں:
’’اول یہ کہ یہ روایت اگرچہ حدیث کی امہاتِ کتب میں بیان ہوئی ہے‘ لیکن اس کا مفہوم ایک ایسا معما ہے جسے کوئی شخص اس امت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ امام سیوطی نے اس کی تعیین میں چالیس کے قریب اقوال اپنی کتاب ’الاتقان‘ میں نقل کیے ہیں ‘‘۔(۷)
غامدی صاحب نے امام سیوطیؒ کا حوالہ نقل کر دیا ہے لیکن کاش وہ امام سیوطیؒ کی کتاب ’الاتقان‘ کھول کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا کر لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام سیوطی ؒنے چالیس نہیں بلکہ سولہ اقوال اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں‘ البتہ ابن حبان ؒ کے حوالے سے امام سیوطیؒ نے پینتیس اقوال کا تذکرہ کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
۱) زجر‘ امر‘ حلال‘ حرام‘ محکم‘ متشابہ‘ امثال
۲) حلال‘ حرام‘ امر‘ نہی‘ زجر‘ مستقبل کی خبریں‘ امثال
۳) وعد‘ وعید‘ حلال‘ حرام‘ مواعظ‘ امثال‘ احتجاج
۴) امر‘ نہی‘ بشارت‘ نذارت‘ اخبار‘ امثال
۵) محکم‘ متشابہ‘ ناسخ‘ منسوخ‘ خصوص‘ عموم‘ قصص
۶) امر‘ زجر‘ ترغیب‘ ترہیب‘ جدل‘ قصص‘ مثل
۷) امر‘ نہی‘ وجد‘ علم‘ سر‘ ظہر‘ بطن
۸) ناسخ‘ منسوخ‘ وعد‘ وعید‘ رغم‘ تادیب‘ انذار
۹) حلال‘ حرام‘ افتتاح‘ اخبار‘ فضائل‘ عقوبات
۱۰) اوامر‘ زواجر‘ امثال‘ أنباء‘ عتاب‘ وعظ‘ قصص
۱۱) حلال‘ حرام‘ امثال‘ منصوص‘ قصص‘ اباحات
۱۲) ظہر‘ بطن‘ فرض‘ ندب‘ خصوص‘ عموم‘ امثال
۱۳) امر‘ نہی‘ وعد‘ وعید‘ اباحت‘ ارشاد‘ اعتبار
۱۴) مقدم‘ مؤخر‘ فرائض‘ حدود‘ مواعظ‘ متشابہ‘ امثال
۱۵) مقیس‘ مجمل‘ مقضی‘ ندب‘ حتمی‘ امثال
۱۶) امر حتم‘ امر ندب‘ نہی حتم‘ نہی ندب‘ اخبار‘ اباحت
۱۷) امرفرض‘ نہی حتم‘ امر ندب‘ نہی مرشد‘ وعد‘ وعید‘ قصص
۱۸) لفظ خاص مرادخاص‘ لفظ عام مراد عام‘ لفظ عام مراد خاص‘ لفظ خاص مراد عام‘ وہ لفظ جس کا معنی واضح ہو‘ وہ لفظ جس کا مفہوم علماء پر ظاہر ہو‘ وہ لفظ جس کا معنی صرف ’الراسخون فی العلم‘ کو ہو۔
۱۹) اظہارِ ربوبیت‘ اثبات وحدانیت‘ تعظیم الوہیت‘ التعبد للہ‘ مجانبۃ الاشراک‘ ترغیب‘ ترہیب
۲۰) سبع لغات مراد ہیں‘ جن میں پانچ بنو ہوازن کی جبکہ دو قریش کی ہیں ۔
۲۱) عرب کے متفرق مشہور قبائل کی سات لغات مراد ہیں ۔
۲۲) سبع لغات ہیں جن میں چار بنو ہوازن کی جبکہ تین قریش کی ہیں ۔
۲۳) سات قبائل کی لغات مراد ہیں: قریش‘ یمن‘ جرہم‘ ہوازن‘ قضاعہ‘ تمیم‘ طی
۲۴) کعب بن عمرو اور کعب بن لوی کی لغات مراد ہیں جو کہ سات ہیں ۔
۲۵) ایک ہی معنی ادا کرنے کے لیے عرب کے مختلف قبائل کی لغات مراد ہیں ۔
۲۶) سات صحابہؓ کی قراء ات مراد ہیں: ابوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علی‘ ابن مسعود‘ ابن عباس‘ ابی ابن‘کعب رضی اللہ عنہم۔
۲۷) ہمز‘ امالہ‘ فتح‘ کسر‘ تفخیم‘ مد‘ قصر
۲۸) تعریف‘ مصادر‘ عروض‘ غریب‘ سجع‘ لغات مختلفہ
۲۹) ایک ہی کلمہ جس کو سات طرح سے اعراب دیا جاسکتا ہے ۔
۳۰) بنیادی حروف تہجی مراد ہیں: الف‘ با‘ جیم‘ دال‘ را‘ سین‘ عین
۳۱) سات اسماء مراد ہیں: رب‘ غفور‘ رحیم‘ سمیع‘ بصیر‘ علیم‘ حکیم
۳۲) سات قسم کی آیات مراد ہیں: وہ آیات جو صفات ذاتیہ پر مشتمل ہوں‘ وہ آیات جو کسی دوسری آیت کی تفسیر کر رہی ہوں‘ وہ آیات جن کی تفسیر سنت میں ہو‘ انبیاء و رُسل کے قصص پر مشتمل آیات‘ اشیاء کی تخلیق کے بارے میں آیات‘ جنت کے اوصاف پر آیات‘ جہنم کے اوصاف پر آیات ۔
۳۳) سات قسم کی آیات مراد ہیں: صانع کے اوصاف پر مشتمل آیات‘ اثبات وحدانیت کی آیات‘ اثبات صفات کی آیات‘ اثباتِ رُسل کی آیات‘ اثبات کتب کی آیات‘ اثبات اسلام کی آیات‘ نفی ٔ کفر کی آیات
۳۴) سات قسم کی صفات ذاتیہ مراد ہیں جن کی کیفیت بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔
۳۵) ایمان باللہ‘ شرک سے اجتناب‘ اوامر کا اثبات‘ مجانبت زواجر‘ ثبات علی الایمان‘ تحریم ما حرم اللہ‘ اطاعت رسول
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غامدی صاحب کے اعتراض کا جائزۃ
ان پینتیس اقوال کو غامدی صاحب نے ایک صحیح متواتر روایت کے انکار کی دلیل بنایا ہے۔ ہم غامدی صاحب سے چند سوالات کرتے ہیں :
٭۔ پہلا سوال یہ ہے کہ بظاہر پینتیس نظرآنے والے یہ اقوال کیا واقعتاً پینتیس ہی ہیں؟ اگر ہم غور کریں تویہ درحقیقت سات اقوال ہیں:
ایک قول تو یہ ہے کہ ’سبعة احرف‘ سے مراد مضامین قرآن ہیں‘ پھر اس میں آگے اختلاف ہے کہ کون سے مضامین مراد ہیں ۔
دوسراقول یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد سات لغات ہیں‘ پھر آگے اس میں اختلاف ہے کہ کن قبائل کی لغات مراد ہیں ۔
تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد صحابہ کی سات قراء ات ہیں ۔
چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات حروف تہجی ہیں ۔
پانچواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے سات نام ہیں ۔
چھٹا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات قسم کے اعراب ہیں ۔
ساتواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد حروف کی ادائیگی کی مختلف کیفیات ہے ۔

اسی لیے امام سیوطی ؒنے ان اقوال کے نقل کرنے کے بعد ابن حبانؒ کا قول نقل کیا ہے:
وھی اقاویل یشبہ بعضھا بعضا(۸)
’’یہ اقوال ایک دوسر ے سے ملتے جلتے ہیں ‘‘۔
اس کے بعد امام سیوطیؒ نے امام مزنی المرسیؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
وقال المرسی ھذہ الوجوہ أکثرھا متداخلة (۹)
’’مرسی نے کہا ہے کہ یہ اقوال ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں ‘‘۔
باہم متشابہ اور متداخل اقوال کو غامدی صاحب نے چالیس اقوال بنا لیا اور اس بنا پر’ ’سبعة أحرف‘ ‘ کی متواتر روایت کا انکار کر دیا۔
٭۔ دوسرا سوال یہ کہ بالفرض ہم مان لیں کہ یہ چالیس اقوال ہیں‘ جیسا کہ غامدی صاحب کا کہنا ہے‘ تو اگر قرآن کی کسی آیت کی تفسیر میں پینتیس یا چالیس اقوال نقل ہو جائیں تو کیا اس بنیاد پر غامدی صاحب قرآن کی اس آیت کا انکار کر دیں گے کہ اس آیت کے معنی و مفہوم کے تعین میں چالیس قوال نقل ہوئے ہیں؟ چالیس تو چھوڑیے اگر ہم بدعتی فرقوں مثلاً باطنیہ‘ روافض اور صوفیاء کی تفاسیر کا مطالعہ کریں تو ہمیں ایک ایک آیت کی تفسیر میں ستر ستر اقوال بھی ملتے ہیں‘ تو کیا ہم صرف اس بنا پر قرآن کی اس آیت کو ماننے سے ہی انکار کر دیں ؟
٭۔ تیسرا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ثابت ہو گا کہ یہ پینتیس اقوال مختلف پینتیس علماء کے ہیں؟ بعض افراد نے ان اقول کو اپنی کتابوں میں نقل تو کر ہی دیا ہے لیکن ان کے قائلین کو کوئی آج تک نہ جان سکا۔ جیسا کہ امام سیوطیؒ نے امام مزنی المرسیؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے :
وقال المرسی ھذہ الوجوہ أکثرھا متداخلة و لا أدری مستندھا ولا عمن نقلت(۱۰)
’’مرسی نے کہا ہے کہ یہ اقوال ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں اور میں نہیں جانتا کہ ان کی سند کیا ہے یا کس سے یہ منقول ہیں؟ ‘‘
ان اقوال کی باہمی مشابہت و مماثلت دیکھنے کے بعد اندازہ یہی ہوتاہے کہ دو چار نامعلوم اور گمنام افراد نے سبعہ احرف کی تشریح میں مختلف احتمالات پیش کیے تھے جنہیں بعد میں آنے والوں نے مستقل اقوال کی حیثیت سے نقل کر دیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایک اور زاویہ سے غامدی صاحب کے اعتراض کا جائزہ
ان پینتیس اقوال میں سے اکثر و بیشتر کی تردید خود سبعہ احرف کی روایات سے ہی ہو رہی ہے‘ کیونکہ اکثرو بیشتر اقوال کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان اقوال کی رو سے’سبعة احرف‘ کا تعلق قرآن کے مضامین یا معانی سے ہے جبکہ’سبعة احرف‘ کی اکثر وبیشتر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ’سبعة احرف‘ کا تعلق الفاظ سے ہے۔ مثلاً حضرت ہشام بن حکیم ؓ اور حضرت عمر ؓ میں آپس میں قراء ت کا اختلاف ہوا توحضرت عمرؓ ‘ حضرت ہشامؓ‘ کو ان کی چادر سے کھینچتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺکے پاس لے آئے اور آپ ؐ سے کہا :
انی سمعت ھذا یقرأ بسورة الفرقان علی حروف لم تقرئنیھا فقال رسول ﷺ: ((ارسلہ اقرأ یا ھشام)) فقرأ علیہ القراء ة التی سمعتہ یقرأ فقال رسول ﷺ : ((کذلک أنزلت)) ثم قال : ((اقرأ یا عمر)) فقرأت القراء ة التی اقرأنی فقال رسول ﷺ: (( کذلک أنزلت ان ھذا القرآن انزل علی سبعة أحرف فاقرء وا ما تیسر منہ)) (١١)
’’میں نے اس (یعنی ہشام بن حکیم ؓ) کو سوره فرقان اُن حروف کے ساتھ پڑھتے سنا ہے جن حروف کے ساتھ آپؐ نے مجھے یہ سورت نہیں پڑھائی۔ رسول اللہﷺ نےفرمایا: ’’اے عمرؓ! اسے چھوڑ دو‘ اور کہا: ’’اے ہشام پڑھو‘‘۔ پس حضرت ہشام ؓنے اس قراء ت کے مطابق پڑھا جو میں نے ان سے سنی تھی تو آپ ؐ نے کہا:’’یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے کہا:’’اے عمر ؓ اب تم پڑھو‘‘ تو میں نے اس سورت کواس قراء ت کے مطابق پڑھا جس پر آپ ؐ نے مجھے پڑھایا تھا تو آپ ؐ نے کہا:’’یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے اور قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے‘ پس اس میں سے جو بھی تمہیں آسان لگے اس کے مطابق پڑھ لو‘‘۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسی لیے امام سیوطی ؒ‘ امام مزنی ؒ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأکثرھا معارضة حدیث عمر و ہشام ابن حکیم الذی فی الصحیح فانھما لم یختلفا فی تفسیرہ و لا أحکامہ و انما اختلفا فی قراء ة حروفہ(۱۲)
’’ان میں سے اکثر اقوال حضرت عمرؓاور حضرت ہشام بن حکیمؓ کی حدیث کے خلاف ہیں جوکہ صحاح میں ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت ہشام بن حکیمؓ‘ کا اختلا ف قرآن کی تفسیریا اس کے احکام میں نہ تھا بلکہ ان دونوں حضرات نے قرآن کے حروف کے پڑھنے میں آپس میں اختلاف کیا تھا‘‘۔
جب خود روایت کے الفاظ سے ہی اس کے معنی کے تعین میں وارد شدہ اقوال کی تردید ہو رہی ہو تو اُن اقوال کو اس روایت کی تشریح و توضیح کے ضمن میں پیش کرنا اور ان میں اختلاف کی بنیاد پر روایت ہی کورد کر دینا کون سی عقل مندی ہے ؟
جہاں تک سبعہ احرف کے معنی و مفہوم کے تعین کی بحث ہے تو اس بارے میں فقہاء و علماء کے بنیادی اقوال دو ہی ہیں :
پہلا قول
پہلا قول وہ ہے جو علماء میں امام رازیؒ کے حوالے سے معروف ہوا‘ کہ سبعہ احرف سے مراد سات وجوہ ہیں جو قراء ات کے تمام اختلافات کو محیط ہیں اور وہ وجوہ اختلاف درج ذیل ہیں: اسماء کا اختلاف (یعنی تذکیر و تأنیث اور جمع و افراد وغیرہ )‘ تصریف افعال کا اختلاف (ماضی‘ مضارع اور امر وغیرہ)‘ وجوہ اعراب کا اختلاف‘ نقص و زیادت کا اختلاف‘ تقدیم و تأخیر کا اختلاف‘ اختلاف ابدال‘ اختلاف لغات (یعنی لہجات کا اختلاف)۔ یہی قول امام مالکؒ ‘ قاضی ابو بکر باقلانی ؒ‘ ابن قتیبہ دینوریؒ‘ علامہ ابن الجزریؒ وغیرہ سے کچھ اختلاف کے ساتھ منقول ہے ۔
دوسرا قول
دوسرا قول علماء میں ابن جریر طبری ؒکے حوالے سے معروف ہوا‘ وہ یہ کہ سبعہ احرف سے مراد مختلف عرب قبائل کی سات لغات ہیں جن میں تھوڑا بہت اختلاف موجود تھا۔ اسی قول کو امام ابو عبید قاسم بن سلامؒ‘ سفیان بن عیینہؒ‘ ابن وھبؒ‘ احمد بن یحییؒ‘ امام طحاویؒ‘ امام ابو حاتم سجستانی ؒ‘ امام بیہقی ؒ‘ علامہ ابن جوزیؒ‘ علامہ ابن لأثیر الجزریؒ‘ ابن عبد البرؒ اور شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ وغیرہ نے کچھ اختلاف کے ساتھ اختیار کیا ہے‘ بلکہ ابن عبد البرؒ نے تو اسے جمہور علماء کا قول قرار دیا ہے۔
ان دونوں اقوال میں بھی قدرِ مشترک یہ ہے کہ ان کے قائلین اس بات پر متفق ہیں کہ’سبعہ أحرف ‘ سے مراد قرآن کے الفاظ کو سات طرح سے پڑھنا ہے۔ پہلے قول کے قائلین کا کہنا یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کو پڑھنے کے سات قسم کے اختلافات ہیں جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ہے کہ اس سے مراد سات لغات میں قرآن کو پڑھنا ہے۔
ہم ان دونوں اقوال میں موجود اختلاف کا انکار نہیں کرتے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اختلاف‘ اختلاف تضاد نہیں ہے بلکہ اختلاف تنوع ہے‘ کیونکہ دونوںگروہوں کے اقوال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کی ایک سے زائدقراء ات ہیں جن کے مطابق قرآن کو پڑھنا صحیح ہے‘ جبکہ غامدی صاحب قرآن کی ایک سے زائد قراء ات کو نہیں مانتے ۔
اس روایت کی شرح میں مذکورہ بالا ان دو کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں ان کی نہ تو کوئی سندہے‘ نہ ہی ان کے قائلین کی کسی کو خبر ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کا علمی وزن رکھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے اقوال پر بحث کرنا صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
7۔امام ابن شہاب زہری ؒ اور غامدی صاحب کے اعتراضات
غامدی صاحب نے سبعہ احرف والی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ ا ن کا کہنا یہ ہے کہ ایسی تمام روایات کی سند میں ایک راوی امام ابن شہاب زہری ؒ ہے جسے وہ مدلس ا ور مدرج قرار دیتے ہیں۔
غامدی صاحب لکھتے ہیں :
’’لیکن یہ روایتیں اس کے بر خلاف ایک دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قرآن قبول کرتا ہے اور نہ عقل عام ہی کسی طرح ماننے کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ صحاح میں یہ اصلاً ابن شہاب زہری کی وساطت سے آئی ہیں۔ ائمہ رجال انھیں تدلیس اور ادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں‘ اس کے ساتھ اگر وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں جو امام لیث بن سعد نے امام مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں تو ان کی کوئی روایت بھی ‘بالخصوص اس طرح کے اہم معاملات میں‘ قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ وہ (امام لیث بن سعد) لکھتے ہیں: اور ابن شہاب سے جب ہم ملتے تھے تو بہت سے مسائل میں اختلاف ہو جاتا تھا اور ہم میں سے کوئی جب ان سے لکھ کر دریافت کرتا تو علم و عقل میں فضیلت کے باوجود ایک ہی چیز کے متعلق ان کا جواب تین طرح کا ہوا کرتا تھا جن میں سے ہر ایک دوسرے کا نقیض ہوتا اور انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں۔ میں نے ایسی ہی چیزوں کی وجہ سے ان کو چھوڑا تھا‘ جسے تم نے پسند نہیں کیا ‘‘۔(۱۳)
اب ہم امام ابن شہاب زہریؒ متوفی ۱۲۵ھ کے بارے میں ائمۂ جرح و تعدیل‘ ائمہ محدثین اور ائمۂ فقہاء اور ان کے معاصر علماء کی آراء نقل کرتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ابن شہاب زہریؒ کے بارے میں ائمۂ جرح و تعدیل‘ ائمہ محدثین اور ائمۂ فقہاء اور ان کے معاصر علماء کی آراء

امام ابن حجرؒ متوفی ۸۵۲ھ کی رائے :
علامہ ابن حجر ؒلکھتے ہیں:
الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ و اتقانہ(۱۴)
’’فقیہ اورالحافظ‘ ہیں‘ ان کی بزرگی اور حافظے کی پختگی پر محدثین کا اتفاق ہے‘‘۔
امام ذہبی ؒ (توفی ۷۴۸ھ کی رائے :
امام ذہبیؒ لکھتے ہیں:
محمد بن مسلم الحافظ الحجة(۱۵)
’’محمد بن مسلم ’الحافظ‘اور ’الحجۃ‘ہیں ‘‘۔
امام ابن حبانؒ متوفی ۲۵۴ھ کی رائے :
امام ابن حبانؒ لکھتے ہیں:
رأی عشرة من أصحاب رسول اللّٰہﷺ و کان أحفظ أھل زمانہ و أحسنھم سیاقا لمتون الأخبار و کان فقیھا فاضلا(۱۶)
’’انھوں نے دس صحابہ کی زیارت کی ہے اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے حدیث کے حافظ تھے اور احادیث کے متون کو بیان کرنے میں سب سے اچھے تھے اور فقیہ اور فاضل تھے ‘‘۔
امام احمد العجلیؒ متوفی ۲۵۷ھ کی رائے :
امام احمد العجلیؒ فرماتے ہیں:
تابعی ثقة (۱۷)
’’تابعی اور ثقہ تھے‘‘ ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کی رائے :
ابن ابی حاتم الرازیؒ لکھتے ہیں:
قال عمر بن عبد العزیز علیکم بابن شھاب ھذا فانکم لا تتبعون أحدا أعلم بالسنة الماضیة منہ(۱۸)
’’حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کہا ہے تم ابن شہابؒ‘ کو لازمی پکڑو (ان سے استفادہ کرو)‘ کیونکہ گزری ہوئی سنن کے بارے میں ان سے بڑھ کر کوئی جاننے والا نہیں ہے‘‘۔
امام مالکؒ متوفی ۱۷۹ ھ کی رائے :
امام ذہبیؒ لکھتے ہیں:
قال ابن القاسم سمعت مالکا یقول بقی ابن شھاب و مالہ فی الدنیانظیر (۱۹)
’’ابن القاسمؒ نے کہا ہے کہ میں نے امام مالکؒ سے سنا‘ وہ کہہ رہے تھے: ابن شہابؒ باقی رہ گئے اور ان کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ہے‘‘۔
امام احمدؒ متوفی ۲۴۲ھ کی رائے :
أحسن الناس حدیثا و أجود الناس اسنادا(۲۰)
’’لوگوں میں حدیث کے اعتبار سے سب سے بہتر اور سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ ہیں‘‘۔
امام ابو حاتم الرازی ؒ متوفی ۲۷۷ھ کی رائے :
أثبت أصحاب أنس الزھری(۲۱)
’’حضرت انس کے اصحاب میں سب سے زیادہ ’ثابت‘ امام زہریؒ ہیں ‘‘۔
قتادہ ؒ متوفی ۱۰۹ھ کی رائے :
مابقی أحد أعلم بسنة ماضیة من ابن شھاب(۲۲)
’’گزشتہ سنن کے بارے میں ابن شہابؒ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی بھی باقی نہیں رہا‘‘۔
یحییٰ بن سعیدؒ کی رائے :
مابقی عند أحد من العلم ما بقی عند ابن شہاب (۲۳)
’’کسی ایک کے پاس بھی وہ علم نہیں رہا جو ابن شہاب ؒ کے پاس ہے ‘‘۔
سعید بن عبد العزیزؒ کی رائے :
ما کان الا بحرا(۲۴)
’’وہ تو علم کا ایک سمندر ہے ‘‘۔
سفیان ثوری ؒ متوفی ۱۶۱ھ کی رائے :
کان الزھری أعلم أھل المدینة(۲۵)
’’امام زہری ؒ اہل مدینہ میں سب سے بڑے عالم ہیں‘‘ ۔
عمروبن دینار ؒ متوفی ۱۲۶ھ‘ کی رائے :
ما رأیت أحدا أنص للحدیث من الزھری(۲۶)
’’ حدیث کی سند بیان کرنے میں زہریؒ سے بڑھ کر میں نے کوئی عالم نہیں دیکھا‘‘۔
ابو ایوب سختیانی ؒمتوفی ۱۳۱ھ کی رائے :
اما م ذہبیؒ لکھتے ہیں:
قال أبو أیوب ما رأیت أعلم منہ(۲۷)
’’ابو ایوب ؒنے کہا: میں نے ان سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا‘‘۔
امام لیث بن سعدؒ متوفی ۱۷۵ھ کی رائے :
کان من أسخی الناس(۲۸)
’’وہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے‘‘۔
روی أبو صالح عن اللیث بن سعد ما رأیت عالما قط أجمع من الزھری(۲۹)
’’ابو صالح امام لیث بن سعدؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب زہریؒ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا ‘‘۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام نسائی ؒ متوفی ۳۰۳ ھ کی رائے :
امام مزی ؒ لکھتے ہیں:
قال النسائی أحسن أسانید تروی عن رسول اللہ أربعة منھا: الزھری عن علی بن الحسین عن الحسین بن علی عن علی ابن أبی طالب عن رسول اللہ ﷺ والزھری عن عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ بن مسعودعن ابن عباس عن عمر عن رسول اللہ ﷺ(۳۰)
’’امام نسائی ؒنے کہاکہ سب سے بہتر اسناد جو کہ اللہ کے رسولﷺسے مروی ہیں وہ چار ہیں: زہریؒ حضرت علی بن حسینؓ سے‘ وہ حسین بن علی ؓسے‘ وہ حضرت علیؓ بن ابی طالب سے اوروہ اللہ کے رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں۔ اور زہریؒ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعودؓ سے‘ وہ ابن عباسؓ سے‘ وہ حضرت عمرؓسے اور وہ اللہ کے رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں ‘‘۔
عمروبن دینار ؒ متوفی ۱۲۶ھ کی رائے :
قال سفیان بن عیینہ عن عمرو بن دینار ما رأیت أنص للحدیث من الزھری(۳۱)
’’سفیان بن عیینہ‘عمرو بن دینار ؒسے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حدیث کی سند بیان کرنے میں زہری ؒسے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا‘‘۔
محمد بن سعدؒ اور محدثین کی رائے :
وقال محمد بن سعد قالوا : و کان الزھری ثقۃ کثیر الحدیث و العلم و الروایة فقیھا جامعا(۳۲)
’’محمد بن سعد ؒنے کہا : محدثین کا کہنا ہے کہ زہری ثقہ راوی ہے اور کثرت سے علم رکھنے والا‘ احادیث کو جاننے والا اور احادیث کو نقل کرنے والا ہے‘‘۔
مکحو لؒ متوفی ۱۰۹ھ کی رائے :
قال عمرو بن أبی سلمة سمعت سعید بن عبد العزیز یحدث عن مکحول قال : ما بقی عن ظھرھا احد اعلم بسنة ماضیة من الزھری (۳۳)
’’عمرو بن ابی سلمہؒ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن عبد العزیز ؒسے سنا‘ وہ مکحولؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: زمین کی پشت پر گزری ہوئی سنت کے بارے میں زہری ؒسے بڑھ کر کوئی عالم باقی نہیں رہا ہے‘‘ ۔
ابو بکر الھذلی ؒ متوفی ۱۶۷ھ کی رائے :
وقال سفیان بن عیینہ قال ابو بکر الھذلی : قد جالست الحسن و ابن سیرین فما رأیت أحدا أعلم منہ یعنی الزھری(۳۴)
’’سفیان بن عیینہ ؒ کہتے ہیں کہ ابو بکر ؒ کہتے ہیں : میں حسن بصریؒ اور ابن سیرینؒ کے ساتھ بیٹھا‘ لیکن میں نے زہری ؒسے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا‘‘۔
یحییٰ بن معینؒ متوفی ۲۳۲ھ کی رائے:
قال الدارمی قلت لہ (یعنی یحیی بن معین ) الزھری أحب الیک فی سعید بن المسیب أو قتادة فقال کلاھما فقلت فھما أحب الیک أو یحیٰی بن سعید فقال کل ثقة (۳۵)
’’امام دارمیؒ کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معینؒ سے کہا کہ زہری ؒ آپ کوسعید بن مسیبؒ سے زیادہ محبوب ہے یا قتادہؓ ؟ تو انھوں نے کہا دونوں‘ تو میں نے پھر کہا کہ وہ دونوں آپ کو زیادہ محبوب ہیں یا یحییٰ بن سعید ؒ‘ تو یحییٰ بن معین ؒنے کہا :یہ سب ثقہ راوی ہیں ‘‘۔
علی بن مدینی ؒ متوفی ۲۳۴ھ کی رائے :
قال علی بن المدینی حفظ العلم علی أمۃ محمد ستة فلأھل مکۃ عمرو بن دینار و لأھل مدینة ابن شہاب الزھری …(۳۶)
’’علی بن مدینیؒ نے کہا ہے کہ حدیث کا علم اُمت محمد میں چھ افراد نے محفوظ کیا: اہل مکہ میں سے عمرو بن دینار ؒنے اور اہل مدینہ میں ابن شہاب الزہریؒ نے۔۔۔۔ ‘‘
امام ابن شہاب زہریؒ کی تعدیل و توصیف سے اسماء الرجال کی کتب بھری پڑی ہیں۔ غامدی صاحب کو امام زہری ؒ کے بارے میں جلیل القدر معاصرو متأخرفقہاء‘ تابعین اور محدثین کے یہ اقوال تو نظر نہ آئے‘ اور اگرکچھ نظر آیا تو وہ امام لیث بن سعدؒ کا وہ قول جسے ابن قیم ؒنے اپنی کتاب ’اعلام الموقعین‘ میں نقل کیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
امام لیث بن سعدؒ کا امام زہری ؒ کے بارے قول
اس قول کے بارے میں ہماری رائے درج ذیل نکات پر مشتمل ہے :
پہلا نکتہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ’اعلام الموقعین‘اسماء الرجال کی کتاب نہیں ہے۔ ہم غامدی صاحب کو یہ مشورہ دیں گے کہ امام زہری ؒ کی شخصیت پر اگر بحث کرنی ہے تو اسماء الرجال کی کتب میں موجود ائمۂ جرح و تعدیل کے اقوا ل کی روشنی میں کریں۔
دوسرا نکتہ
دوسری بات یہ کہ امام لیث بن سعد ؒ کا وہ خط جس کا غامدی صاحب نے حوالہ دیا ہے‘ وہ تقریباً تین صفحات پر مشتمل ہے‘ جبکہ غامدی صاحب نے اس خط میں اپنے کام کی تین چار سطریں اخذ کر لیں‘ حالانکہ اگر اس خط کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام لیث بن سعدؒ نے اتنا لمبا چوڑا جوخط امام مالک ؒ‘ کو لکھا ہے اس کا موضوع امام زہریؒ کی شخصیت نہیں ہے بلکہ اس کا موضوع امام لیث بن سعدؒ اور امام مالکؒ کے درمیان ایک مسئلے میں علمی اختلاف ہے‘ اور وہ یہ کہ امام لیث بن سعدؒ کے نزدیک ’عمل اہل مدینہ‘ کے خلاف فتویٰ دینا جائز ہے‘ جبکہ امام مالکؒ اس کو ناجائز قرار دیتے تھے۔
اس پر امام لیث بن سعدؒ نے امام مالکؒ کو خط لکھا جس میں مدینہ کے علماء کے باہمی اختلاف اور ان کی آراء کے کمزور پہلوؤں کو اجاگر کیا‘ ان علمائے مدینہ میں ایک ابن شہاب زہریؒ بھی تھے ۔ یہ تو ایک فقہی اختلاف ہے جس کی کچھ عبارت کوجناب غامدی صاحب نے درمیان سے اٹھا لیا اور اسے امام لیث بن سعدؒ کی ابن شہاب زہریؒ پر تنقید کے عنوان سے پیش کر دیا‘ جبکہ امام لیث بن سعدؒ نے امام زہریؒ کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کو بیان کرتے وقت اسی مبالغے کاا ظہار کیا ہے جو کہ تمام علمائے جرح و تعدیل سے منقول ہے۔
امام لیث ؒ فرماتے ہیں :

وقال أبو صالح عن اللیث بن سعد ما رأیت عالما قط أجمع من ابن شھاب ولا أکثر علما منہ… (۳۷)
’’ابو صالح‘ امام لیث بن سعد ؒسے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب زہری ؒ سے زیادہ جامع العلوم کسی عالم کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑے کسی عالم کو دیکھاہے…‘‘
کتبت من علم محمد بن شہاب الزہری علما کثیرا(۳۸)
’’میں نے امام ابن شہاب الزہریؒ کے علم میں سے بہت سے کو لکھا ہے‘‘ ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسرا نکتہ
تیسری بات یہ کہ غامدی صاحب کے بقول امام زہریؒ کے بارے میں امام لیث بن سعد ؒنے یہ اعتراض کیا کہ ایک ہی مسئلے میں بعض اوقات ان کے فتاویٰ جات مختلف ہوتے ہیں ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی مسئلے میں امام مالکؒ‘ امام ابو حنیفہؒ‘ امام شافعیؒ اور امام احمدؒ جیسے جلیل القدر فقہاء کی بھی ایک سے زائد آراء منقول ہوتی ہیں‘ کیونکہ فتویٰ حالات کے مطابق ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک شخص کو دیکھ کر مفتی ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیتا ہے اور بعض اوقات دوسرے شخص کو اس کے حالات کے مطابق بالکل اس کے برعکس فتویٰ دیتا ہے‘ جیسے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک نوجوان کو روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے روک دیا جبکہ ایک بوڑھے شخص کو اس کی اجازت دے دی ۔بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک عالم ایک مسئلے میں ایک فتویٰ دیتا ہے‘ بعد میں اس کی رائے تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ اس کے بالکل برعکس فتویٰ دیتا ہے‘ جیسا کہ امام شافعیؒ کے بارے میں معروف ہے کہ ان کی ایک قدیم رائے ہے اور ایک جدید رائے ہے۔
چوتھا نکتہ
چوتھی بات یہ ہے کہ امام لیث بن سعد ؒنے امام زہریؒ پر جو جرح کی ہے وہ ان کے فتاویٰ جات کے اعتبار سے ہے نہ کہ ان کی حدیث بیان کرنے کے اعتبار سے۔ اگر وہ حدیث کے معاملے میں بھی ایسا ہی کرتے کہ کبھی ایک روایت کو کچھ الفاظ کے ساتھ اور کبھی اس کے بالکل برعکس الفاظ کے ساتھ نقل کرتے تو امام لیثؒ اس کا ضرور تذکرہ فرماتے۔ جتنی جرح نقل کر کے غامدی صاحب امام زہری ؒکی شخصیت کو متنازعہ بنانا چاہتے ہیں اتنی جرح تو ائمۂ رجال کے ہاں حدیث کے مسئلے میں امام ابو حنیفہ ؒ پر بھی موجود ہے‘ لیکن اس جرح کے باوجود امام ابوحنیفہؒ کی ایک فقیہ کی حیثیت سب کے نزدیک متفق علیہ اور مسلّم ہے۔ اس لیے امام زہریؒ کے فتاویٰ پر جرح سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ وہ حدیث میں بھی مجروح ہوں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ’’فلاں شخص محدث نہیں ہے‘‘ اور اس دعوے کے ثبوت کے لیے اگر اس کے پاس کوئی دلیل بھی ہو تو وہ یہ کہ’’فلاں شخص فقیہ نہیں ہے ‘‘۔
پانچواں نکتہ
پانچویں بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے امام زہری ؒ کے بارے میں امام لیث بن سعدؒ کی جو ایک رائے نقل کی ہے اگر کسی ایک شخص کی رائے پر ہی کسی کے علمی مقام و مرتبہ کے تعین کا انحصار ہے تو ایسی آراء تو ہر فقیہ اور محدث کی ذات یا اس کی کتب کے بارے میں موجود ہیں‘ تو کیا ایسی ایک شاذ رائے کی وجہ سے ان کے تمام علمی کام اور مرتبے کا انکار کر دیا جائے گا؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top