• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فکر فراہی: تنزل یا ارتقاء؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
مولانا امین احسن اصلاحیؒ راوی ہیں:
’’ ایک مرتبہ داڑھی کے مسئلہ پر بحث چھڑ گئی۔ مولانا دین میں اس کی اہمیت واضح کر رہے تھے اورمیں ان کے سامنے یہ بات پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ دین میں فی الواقع داڑھی کی وہ اہمیت نہیں ہے جو اس کو دی جا رہی ہے۔ مولانا کچھ دیر تک تو مجھے ان احادیث کا مطلب سمجھاتے رہے جو اس بارہ میں وارِد ہیں، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ میں داڑھی کی اہمیت کا کسی طرح قائل نہیں ہو رہا ہوں تو فرمانے لگے کہ ’’اچھا فرض کیا کہ اس کی دین میں بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے، لیکن کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے یہ چھوٹی سی چیز بہت بڑی بڑی چیزوں کا پتہ دیتی ہے۔‘‘ میں نےعرض کیا کہ وہ کیسے؟ فرمایا: ’’جس طر ح راکھ کی ایک چٹکی اڑا کر ہم ہوا جیسی عظیم الشان چیزکا پتہ چلا لیتے ہیں کہ اس کا رُخ کدھر ہے اسی طرح کسی شخص کے چہرے پر داڑھی ہونے یا نہ ہونے سے ہم یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ اس کا میلان کس طرف ہے ؟ اسلام کی طرف یا غیر اسلام کی طرف۔‘‘ مولانا کے اس جواب کے بعد میں خاموش ہوگیا اور میں نے محسوس کیا کہ داڑھی چاہے دین میں بجائے خود بہت زیادہ اہمیت رکھنے والی چیز نہ ہو لیکن جہاں تک ایک مسلمان کا تعلق ہے یہ اس کے دل کے رجحانات کے لئے ایک بیرو میٹر (Barometer) کا کام ضرور دیتی ہے اور اگر یہ بات ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ دین میں اس کی بڑی اہمیت ہے اور ہونی چاہیے۔‘‘ (دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی: ص17)

جناب عمار خان ناصر لکھتے ہیں :
“دین میں ڈاڑھی کی حیثیت کے بارے میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے دو قول ہیں ۔ قولِ جدید کے مطابق یہ ان کے نزدیک کوئی دینی نوعیت رکھنے والی چیز نہیں ، جبکہ قولِ قدیم یہ ہے کہ اسے دین کے ایک شعار اور انبیاء کی سنت کی حیثیت حاصل ہے ۔”(ماہنامہ اشراق ، شمارہ جنوری 2011 ، ص 45)

وضاحت: محترم عمار خان ناصر صاحب اس میں استاذ گرامی کے قول قدیم کو اقرب الی الصواب سمجھتے ہیں۔ یہاں مقصود عمار صاحب کی رائے کا بیان نہیں ہے بلکہ فراہی سوچ میں تبدیلی، ارتقاء یا تنزل کا جائزہ لینا ہے؟

وضاحت دوم: فراہی صاحب کے نزدیک ڈاڑھی فروعی مسئلہ نہیں ہےبلکہ دین کی سمت متعین کرتا ہے۔ اور یہ ایک فکر ہے۔ ہمارے ہاں متقدمین اور سلف صالحین میں بھی ہمیں یہ طرز عمل ملتا ہے کہ بعض اوقات وہ اہل بدعت سے امتیاز کے لیے بظاہر ایک فروعی مسئلے کو بطور اپنا عقیدہ نقل کر دیتے ہیں جیسا کہ امام طحاوی نے عقیدہ طحاویہ میں اہل سنت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے مسح علی الخفین کو بھی بیان کیا ہے۔ اب مسح علی الخفین کا عقیدے سے کیا تعلق ہے؟ یہ اس لیے کہ یہ عمل اس وقت کے اہل سنت کا امتیاز تھا اور اس لیے بھی کہ مسح علی الخفین کا فقہی مسئلہ دین پر غور کرنے کی ایک جہت اور منہج متعین کر دیتا تھا۔ پس اسی طرز پر فراہی اور اصلاحی صاحب نے ڈاڑھی کو دین کا بیرو میٹر قرار دیا ہے۔ ان کے بقول یہ بیرو میٹر یہ بتلاتا ہے کہ صاحب کا رخ کس سمت میں ہے؟​
 
Top