• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم توحید

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
فہم توحید

تالیف:​
الشیخ عبداللہ بن احمد الحویل حفظہ اللہ​
ترجمہ وتخریج:​
ابو عمرو حافظ طاہر اسلام عسکری حفظہ اللہ​

دارالامۃ للنشر والتوزیع
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
فہرست
تقریظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
دیباچہ مترجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طاہر اسلام خالد لطیف
تقدیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ
تقدیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالد بن عبداللہ المصلح حفظہ اللہ
مقدمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبداللہ بن احمد الحویل
توحید کی تعریف
توحید کی اقسام
چند اہم فوائد
توحید کی اہمیت و فضلیت
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں
لا الہ الا اللہ کی شرائط
محمدﷺاللہ کے رسول ہیں
شرک کی تعریف اور اقسام
شرک اکبر کی اقسام
شرک اکبر اور شرک اصغر کی مثالیں
شرک کی تاریخ
شرک کی سنگینی اور اس کی سزا
نواقض اسلام
طاغوت کا انکار
اصول ثلاثہ(تین بنیادی اصول)
کفر
نفاق
دوستی اور دشمنی(الولاءوالبراء)
الولاءوالبراء کے باب میں لوگوں کی اقسام
اسلام
ارکان اسلام
ایمان
ارکانِ ایمان
احسان
اسلام،ایمان اور احسان میں باہمی تعلق
عبادت
توحید عبادت سے متعلق ایک اہم ضابطہ
محبت کی اقسام
خوف
امید
توکل
دعا
دم اورجھاڑ پھونک(الرُّقیٰ)
تعویذ گنڈے(التَّمَائِم)
تبرک
اسباب کے باب میں چند اہم ضابطے
توسل و وسیلہ
غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا
غیر اللہ کی نذر و نیاز
استعانت،استغاثہ اور استعاذہ
شفاعت
زیارت قبور
جادو
غیب دانی اور علم نجوم
بدفالی اور بدشگونی
علم نجوم
ستاروں کے اثر سےبارش برسنے کا عقیدہ
ریاکاری
جب عمل میں ریاءشامل ہو جائے
جب عمل میں ریاء کی امیزش ہو جائے
حصول دنیا کی خاطر عبادت کرنا
غیر اللہ کی قسم کھانا
واؤ(اور)کے ذریعے مخلوق کو خدا شریک بنانا
اگر(لَوْ)کااستعمال
زمانے کو برا بھلا کہنا
الفاظ کے متعلق دو مفید ضابطے
بدعت
توحید کی دعوت
توحید اور عقیدہ کی اہم کتابیں
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
تقریظ

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ(مدیر شعبہ تحقیق و تالیف دارالسلام لاہور)​

’’فہم توحید‘‘ایک عربی کتاب’’التوحید المیسر‘‘کا اردو ترجمہ ہے۔عربی کتاب جناب عبداللہ بن احمد الحویل(الریاض)کی تالیف ہے اسے اردو کا جامعہ پہنانے والےحافظ طاہر اسلام عسکری صاحب ہیں جو ابھی نوجوان ہیں اور علم و ادب اور تحریر و انشاءکااچھا ذوق رکھتے ہیں جس کا ایک بہترین نمونہ زیر نظر کتاب ہے۔’’اللھم زد فزد‘‘
؎اللہ کرے زورقلم اورزیادہ​
فاضل نوجوان کی یہ علمی کاوش اور ترجمہ کی سلاست و روانی دیکھ کربلاشبہ کہا جا سکتا ہے۔
؎بالائے سرش زہوش مندی
می تافت ستارہ بلندی​
فاضل مؤلف کے بقول یہ کتاب علمائے اسلام کی توحید کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں سے ہی مرتب کی گئی ہے۔اگر یہ بات صحیح ہےتب بھی فاضل مؤلف کی سعی قابل صد تحسین ہےکہ انھوں نے اس بکھرے ہوئے مواد کوجس حسن ترتیب،اختصار اور جامعیت کے ساتھ مرتب کیا ہے،وہ اپنی مثال آپ ہے۔
کتاب کیا ہے؟توحید سے متعلقہ اہم مباحث کا خلاصہ اور اس کے اطلاقات کابہترین تجزیہ ہے۔اطلاقات کا مطلب ہےکہ عقائد سے لے کر عبادات تک اور اس کےارکان سے لے کر اجزاء تک میں توحیداوراس کے مقتضیات کے جوجوپہلوہوسکتے ہیں اور اس طرح توحید کی ضد شرک کے جوجوپہلو ہوسکتے ہیں،اس کے مباحث ان تمام پہلوں کو محیط ہیں اور دوسری خوبی اس کتاب کی جامعیت اور اختصار ہے،توحید وشرک کے یہ مباحث بلاشہ سمندروں کی سی گہرائی اور وسعت رکھتے ہیں لیکن فاضل مؤلف نے ہر مبحث کو چند صفحات میں قلم بند کرکے اس کو’’دریابکوزہ‘‘کامصداق بنا دیا ہے۔
ان دو خوبیوں کی وجہ سےیہ کتاب اثبات توحید و سنت اورابطال شرک وبدعت کے موضوع پر ایک نہایت منفرد کاوش،بغایت مفید اور طالبان صادق کے لیے ایک رہنما کتاب بن گئی ہے۔
یہ کتاب اس لائق ہے کہ اس کا عربی ایڈیشن مدارس دینیہ کے منتہی طلبا وطالبات کو درساًپڑھایا جائےاور اس کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائےاوراس کا اردو ایڈیشن بھی باشعور عوامی حلقوں میں زیادہ سے زیادہ پہنچایا جائے۔
حافظ طاہر اسلام صاحب نے اس کو اردو کے حسین قالب میں ڈھال کر بلاشہ ایک نہایت وقیع دینی و علمی خدمت سر انجام دی ہے جس پر وہ تحسین و تبریک کے سزاوار ہیں،اللہ تعالیٰ ان کی یہ خدمت قبول فرمائے اور اسے شرک و بدعت کی گھمبیر تاریکیوں میں توحید و سنت کا ضوفشاں آفتاب بنائے۔آمین

دیباچہ مترجم

الشیخ عبداللہ بن احمد الحویل حفظہ اللہ کی کتاب’’التوحید المیسر‘‘جس کا اردو قالب’’فہم توحید‘‘کے زیر عنوان آپ کے ہاتھوں میں ہے،متعدو خصوصیات کی حامل ہے۔جن میں سے نمایاں ترین یہ ہیں۔
1:یہ انتہائی جامع ہے اور عقیدہ کے تمام پہلوں کا احاطہ کرتی ہےتوحید و شرک کے مباحث سے متعلقہ شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہو،جو اس میں نظر انداز ہوا ہو۔تقریباً تمام ضروری مسائل اس میں بیان کر دیے گئے ہیں۔
2:کتاب مذکورہ کی دوسری خوبی یہ ہےکہ اس میں بیان کردہ ہر مسئلہ مدلل و مبرہن ہے۔ہر بات قرآن وحدیث کے محکم استدلال اور کتاب و سنت کے قوی استشہاد کی بنیاد پر پیش کی گئی ہے۔خود ساختہ فلسفوں اوربے جا تاویلوں سے کام نہیں لیا گیا،جیسا کہ اہل بدعت کا طریق کار ہے۔
3:زیر نظر کتاب کا تیسرا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ جامع اور مدلل ہونے کے ساتھ ساتھ مختصر بھی ہے۔حشو وزوائد سے مکمل طور پر پاک ہے۔اس پہلو سے یہ عوام کے لیے بطور خاص مفید ہےجو تفصیلی بحث سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہےکہ وہ جزئیات و تفصیلات کامطالعہ کر سکیں۔اختصار کی وجہ سے بعض مقامات پر اگرچہ تشنگی کا احساس ہوتا ہےکیونکہ اصلاًیہ کتاب عرب معاشرے کو سامنے رکھتے ہوئے تحریر کی گئی ہےجہاں دینی معلومات کی شرح ہماری نسبت زیادہ ہے تاہم ان مقامات کو کسی بھی عالم دین سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
راقم سطور نےترجمے کو آسان اور عام فہم بنانے کی مقدور بھر سعی کی ہے،لیکن اسے اپنی علمی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا پورا احساس ہےاس لیے ناطرین اور خصوصاً ارباب علم و تحقیق کی خدمت میں التماس ہے کہ جہاں کوئی خامی یا کوتاہی نظر آئے اس کی نشاندہی فرمائیں تاکہ آئندہ اشاعتوں میں اس کی اصلاح کی جاسکے۔فاضل مؤف نے کتاب میں بیان کردہ احادیث کے تفصیلی حولہ جات نہیں دیے محض کتاب کا نام ذکر کیا ہے ،ترجمے میں احادیث کا مکمل حوالہ بیان کر دیا گیا ہے۔بعض اختلافی مباحث میں مؤلف نے غالباًاختصار کے پیش نظر اپنے تئیں راجح نقطہ نظر ہی ذکر کیا ہے،مترجم نے حواشی میں دوسرے موقف کی نشاندئی کر دی ہےتاکہ مسئلہ کا معتدل و متوازن تصور سامنے آسکے۔
بارگاہ الہیٰ میں التجا ہےکہ وہ اس سعی وکاوش کو قبول فرما کراسے شرک کی وادیوں میں سرگردہ و راہ گم کردہ انسانیت کے لیے باعث ہدایت اور مترجم و جملہ معاونین کے لیے نجات اخروی کا ذریعہ بنائے کہ نخل جستجو کی شادابی و ثمر باری اسی خدائے لم یزل کی نظر اجابت پر موقوف ہے۔
الاحقر الانام
طاہر اسلام خالد لطیف​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
تقدیم
اَلْحَمْدُلِلَّہِ وَاشْکُرُہُ وَاُصَلِّیْ وَاَسَلِّمُ عَلیٰ مُحَمَّدِِوَّآلِہِ وَصَحْبِہِ وَبَعْدُ

میں نے اس رسالے کا مطالعہ کیا جو شیخ عبداللہ بن احمد الحویل نے ’’التوحید المیسر‘‘کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔مطالعے سے معلوم ہواکہ یہ توحید و عبادت کی تعریف و فضائل پر مشتمل ایک بہترین رسالہ ہے۔اس میں عبادت کی مختلف اقسام کو مثالوں سے واضح کیا گیا ہےجن کا مستحق صرف خدائے بزرگ وبرتر ہی ہے۔پھر شرک کی مختلف اقسام اور ان امور کا تذکرہ کیا گیا ہےجو توحید میں نقض کا باعث بنتے ہیں۔ہماری جانب سے پرزور تاکید ہےکہ اس رسالے کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا جائےاور اسے ان علاقوں میں تقسیم کیا جائےجہاں جہالت اور کورانہ تقلید کی بنا پر شرک مختلف صورتوں میں سرایت کر چکا ہے،ممکن ہے باری تعالیٰ اس کے ذریعےان لوگوں کو نفع پہنچائے جن سے وہ خیر وبھلائی کا ارادہ رکھتا ہے۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ وسلم
عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین رحمہ اللہ​

تقدیم
الحمد للہ رب العالمین،واصلی و اسلم علی المبعوث رحمۃ للعالمین،نبینا محمد وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین و بعد۔

بردارگرامی الشیخ عبداللہ بن احمد الحویل کی کتاب’’التوحید المیسر‘‘کے مندرجات پڑھنے کا موقع ملا۔یہ دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی کہ توحید جیسے جلیل القدر علم کو انتہائی آسان اور عام فہم اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔متلاشیانِ علم کے لیے سہولت اور آسانی فراہم کرنا،مقاصد شریعت میں شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (سورۃ القمر:۲۲)
’’بلا شبہ ہم نے قرآن کونصیحت کے لیے آسان کر دیا ہے،پس کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘
رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے:
((اِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوْا مُعَسِّرِیْنَ))
(سنن الترمذی،کتاب الطھارت عن رسول اللہ،باب ما جاءفی البول یصیب الأرض،ح:۱۴۷۔وسنن ابی داؤد،کتاب الطھارت،باب الأرض یصیبھا البول،ح:۳۸۰۔طبع دارالمعارف بتصحیح الألبانی)
’’تمہیں محض آسانیاں فراہم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے،مشکل وتنگی میں مبتلا کرنے کی خاطر نہیں‘‘
نیز آپﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنْتًا وَلَا مُتَعَنْتًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا))
(صحیح مسلم کتاب الطلاق،باب ان تخییر امراتہ لا یکون طلاقا الا بالنیۃ،ح:۱۴۷۸)
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے نہ تکلیف پہنچانے والا بنا کر بلکہ اس نے تو مجھے آسانی سے سکھانے والے کی حیثیت میں مبعوث فرمایا ہے‘‘
گویا اس شریعت مبارکہ کی بنیاد اس کے علم و عمل میں آسانی پر رکھی گئی ہے اور اس کی عمومیت کے لیے یہی موزوں تھا کہ یہ تمام لوگوں کے لیے ہے۔
ہمارے بھائی شیخ عبداللہ نے جو خدمت سرانجام دی ہےوہ ایک عمدہ کاوش ہےجس پر وہ شکریہ کے مستحق ہیں خاص طور پر موصوف نے’’علم توحید‘‘کی تسہیل و تقریب پرجو محنت کی ہے وہ لائق ستائش ہے۔توحید کا علم اصل العلوم کی حیثیت رکھتا ہےاور اسی کے ذریعے انسان اللہ عزوجل کےاس حق سے روشناس ہوتا ہےجس کی ادائیگی سے اس کی دنیا وآخرت سنورتی ہے۔
میں مؤلف اور ہم سب کے لیے باری تعالیٰ سےقول و عمل کی پختگی اور توفیق ربانی کا سوال کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ رب ذوالجلال ہمیں اس مبارک کاوش سے نفع پہنچائے۔
خالد بن عبداللہ المصلح حفظہ اللہ​
۱۴۲۴ھ/۵/۱۰​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
مقدمہ(از مؤلف)​
الحمد للہ رب العالمین،واصلی و اسلم علی المبعوث رحمۃ للعالمین،نبینا محمد وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین و بعد۔
یہ ایک مفید اور مختصر رسالہ ہےجو توحید کے باب میں مطلب خیز،جامع مسائل اور عمدہ فوائد پر مشتمل ہے۔عقیدہ توحید کے بغیرکوئی عمل اللہ کے ہاں مقبول ہوگا اور نہ اللہ تعالیٰ بندے سے راضی ہوگاحتیٰ کے وہ توحید کے اعتقاد پر پختگی سے کار بند نہ ہوجائے۔میں نے اس مختصر رسالے میں ایسے قواعد و ضوابط اور تقسیمیں بیان کی ہیں جن سے قاری کے لیے متفرق معلومات یکجا ہو جائیں گی،بکھرے ہوئے نکات مجتمع ہو کر سامنے آجائیں گے اور توحید کا علم اس کے ذہن میں منظّم ومرتب شکل میں نقش ہو جائے گا۔
یہ ایک مسلمہ اصول ہےکہ کسی چیز کو اسی صورت میں جانا جا سکتا ہےجب دوامور سے واقفیت حاصل کر لی جائے

(1)اس شے کی حقیقت
(2)اس کی ضد کا بیان
اس اصول کوپیش نظر رکھتے ہوئے میں نے پہلے حقیقت توحید کی توضیح و تشریح کی ہےاوراس کے اصول و اقسام پر روشنی ڈالی ہے۔پھر دوسرے نمبر پر میں نے توحید کی ضد یعنی شرک کا بیان کیا ہےشرک کی تعریف و توضیح کرتے ہوئےاس کی مختلف صورتیں اور ان کے احکام بیان کئے ہیں،کیونکہ بقول شاعر
الضِّدُّ یُظْھِرُ حُسْنہٗ الضِّدُّ
وَبضِدِّھَاتَتَمَیَّزَ الْاشْیَاءُ
’’کسی شے کی خوبصورتی کو اس کی ضد ہی اجاگر کر سکتی ہے اور اشیاءاپنے عکس ہی کی بنا پر ممتاز ہوتی ہیں‘‘
الغرض جب تک شرک کی قباعت اور خطرے سے آگاہی نہ ہوتو توحید کا جمال و خوبصورتی اور فضیلت آشکار نہیں ہو سکتی۔میں نے اس مختصر رسالے میں کچھ ایسے اہم نکات کا تذکرہ کیا ہےجن کی معرفت سے کوئی موحد مستغنی نہیں ہو سکتا۔
میں نے مسائل کی ترتیب وتنسیق اور تقسیم میں انتہائی محنت کی ہےاور مختلف اصطلاحات کی تعریف وتوضیح کاخاص اہتمام کیا ہےساتھ ساتھ دلائل کابھی بالاختصار ذکر کر دیا ہے،تاکہ ان مختصر اوراق کو یاد کرنے اور سمجھنے میں سہولت رہے۔
میں نے بے جا طوالت اور ناروااختصار سے بچنے کی سعی کی ہےاور اس رسالے کوان کے مابین درمیانی روش پر رکھا ہے۔اگر میں کسی درست نتیجے تک پہنچا ہوں تو یہ صحت و درستی صرف اللہ ذوالجلال کی عنایت ہےاوراگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہےتو وہ میری اور شیطان کی جانب سے ہے۔
میں نے اس کتابچے کا مواد موحد اور محقق اہل علم کی کتب و نگارشات سے جمع کیا ہے اور اس کا نام’’التوحید المیسر‘‘رکھا ہے۔مولائے قدیر کی بارگاہ میں عرض پرداز ہوں کہ وہ اسے مفید و نافع بنائے اور روز قیامت میرے میزان حسنات میں شامل فرمادے۔آمین
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم
عبداللہ بن احمد الحویل
الریاض​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
توحید کی تعریف

ازروئے لغت:
یہ وَحَّدَ یُوَحِّدُ(باب تفعیل) سے مصدر ہے۔ یُوَحِّدُ الشَّیْءَکے معنی ہیں کسی چیز کو ایک بنانا،یکتا قرار دینا اور یکجا کرنا
مثال:
جب آپ کہتے ہیں کہ گھر سے سوائے محمد کے اور کوئی نہیں نکلاتوآپ گھر سے نکلنے کے بارے میں محمد کو اکیلا اور یکتا قرار دیتے ہیں یعنی صرف وہ نکلااور کوئی نہیں۔
اسی طرض جب آپ یہ کہیں کہ مجلس سے کوئی کھڑا نہ ہوا سوائےخالد کےتو اس صورت میں آپ نے مجلس سے اُٹھنے اور کھڑا ہونے میں خالد کو تنہا اور منفرد قرار دیا۔
شرعی تعریف:
اللہ تبارک و تعالیٰ کو
1:ربوبیت
2:الوہیت اور
3:اسماء و صفات
میں منفرد اور یکتا ماننا توحید کہلاتا ہے۔
توحید کی اقسام

توحید تین قسموں میں منقسم ہے:
1: توحید ربوبیت 2: توحید الوہیت 3 :توحید اسماءوصفات

اب ان میں سے ہرقسم کی تعریف مع دلیل پیش خدمت ہے۔
توحید ربوبیت:
اللہ عزوجل کو تخلیق ملک(بادشاہت)اورتدبیر میں منفرد اور یکتا ماننا۔یاہم یوں بھی کہے سکتے ہیں کہ:اللہ تعالیٰ کو اس کے افعال میں منفرد اور یکتا تسلیم کرنا۔
اللہ کے افعال کی مثالیں:
پیدا کرنا،رزق دینا،زندہ کرنا،موت دینا،بارش برسانا،سبزہ اورشجر اگانا وغیرہ
دلیل:
اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ(سورۃ الاعراف:۵۴)’’اور آگاہ رہو،خلق اور امر اسی کے لیے خاص ہے‘‘
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ(سورۃ النور:۴۲)
’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(سورۃ یونس:۳۱)
’’اِن سے پوچھو ، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جان دار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ۔ کہو ، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟‘‘
توحید الوہیت(اسے توحید عبادت بھی کہا جاتا ہے)
بندے کے تمام افعال عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کیا جائے،مثلاًنماز،روزہ،زکوۃ،حج،توکل،نذر،خوف،امیداور محبت دغیرہ
دلیل:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(سورۃ الذاریات:۵۴)
’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہےکہ وہ صرف میری بندگی کریں‘‘

وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَيْا(سورۃ النساء:۳۶)
’’اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘‘

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(سورۃ الانبیاء:۲۵)
’’ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے ۔ اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو‘‘
توحید اسماءوصفات
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ رب العزت کو ان صفات کمال اور اوصاف جلال سے متصف مانا جائےجو خود اس نے یا اس کے رسولﷺنے اس کے لیے بیان فرمائی ہیں اور اس باب میں کسی قسم کی تکییف وتمثیل اور تحریف و تعطیل سے کام نہ لیا جائے
تکییف:
یہ ہے کہ صفات الہیہ کی کیفیت بیان کی جائے۔مثلاً یہ کہ وہ عرش پر کس طرح مستوی ہے۔
تمثیل:
اس سے مراد یہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ کو مخلوق کی صفات کے مثل قرار دیا جائے۔
تحریف:
اس کا مطلب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مفہوم بدل دیا جائے مثلاًغضب الہی کے معنی ارادہ انتقام کر لیے جائیں۔
تعطیل:
صفات خداوندی کے انکار کو کہتے ہیں۔یعنی اللہ تعالیٰ کو صفات سے عاری قرار دینا۔
دلیل:
لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ(سورۃ الشوری:۱۱)
’’اس کی مانند کوئی شے بھی نہیں اوروہی سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘
وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْۤ اَسْمَآىِٕهٖ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(سورۃ الاعراف:۱۸۰)
’’اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے ، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
چند اہم فوائد
1:
توحید کی مذکورہ بالا تینوں قسمیں باہم لازم و ملزوم ہیں،کوئی قسم بھی دوسری سے الگ اور جدا نہیں ہو سکتی۔لہذا جو شخص توحید کی کسی ایک قسم کو مانتا ہےاور کسی ایک کا بھی انکار کر دیتا ہے تو اسے موحد قرار نہیں دیا جا سکتا۔
2:
آپ کو جاننا چاہیےکہ جن کفار سے رسول معظمﷺنے جنگ کی وہ توحید ربوبیت کے اقرار ی تھے،وہ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق و رازق ہے،زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے،وہی نفع نقصان کا مالک ہے اور وہی تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے،لیکن اس کے باوجود انہیں مسلمان قرار نہیں دیا گیا۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(سورۃ یو نس:۳۱)
’’اِن سے پوچھو ، کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یہ سماعت اور بینائی کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں؟ کون بے جان میں سے جاندار کو اور جان دار میں سے بے جان کو نکالتا ہے؟ کون اِس نظمِ عالم کی تدبیر کر رہا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ ۔ کہو ، پھر تم (حقیقت کے خلاف چلنے سے) پرہیز نہیں کرتے؟‘‘
3:
توحید الوہیت ہی پیغمبروں کی دعوت کا اصل موضوع ہےکیونکہ یہی وہ اساس ہےجس پر اعمال کی عمارت استور ہوتی ہے۔جب تک یہ کامل طور پر موجود نہ ہو،اعمال کا کوئی فائدہ نہیں۔اس لیے کہ جب عقیدہ توحید ثابت نہ ہوگاتواس کے اعتقاد کی ضدیعنی شرک پایا جائے گا۔انبیاءکرام اور ان کی امتوں کے مابین تنازع اور جھگڑے کا مرکز و محور یہی توحید الوہیت تھی۔لہذٰا اس کی طرف خاص متوجہ ہونا چاہیےنیز اس کے مسائل کی تحقیق اور اس کے اصولوں کو سمجھنے کا خصوصی اہتمام کر نا چاہیے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
توحید کی اہمیت و فضیلت


توحید اسلام کا سب سے عظیم رکن ہے
ارکان اسلام میں عقیدہ توحید کو اہم ترین مقام حاصل ہےیہ دین کے عظیم ستونوں میں سب سے بڑا ستون ہے۔کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتاتاآنکہ وہ توحید کی گواہی دے،اللہ کی عبادت کا اقرار کرےاور اللہ کے سواہر شے کی عبادت کی نفی کر دے۔
رسول اکرمﷺکا فرمان ہے:
((بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ:
شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ،
وَإِقَامِ الصَّلَاةِ،
وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ،
وَالْحَجِّ،
وَصَوْمِ رَمَضَانَ))
صحیح بخاری کتاب الایمان،باب دعائکم إیمانکم،ح:۸،صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب بیان أرکان الإسلام،ح:۱۶))

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:
اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں۔
اورنماز قائم کرنا
اور زکوٰۃ ادا کرنا
اورحج کرنا
اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا‘‘

توحید ضروری امور میں اہم ترین اور اولین فریضہ ہے
عقیدہ توحیداپنے عظیم مقام و مرتبے اورانتہائی اہمیت کی وجہ سے تمام اعمال پر مقدم اور تمام ضروری امور پر سبقت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلےاس کی دعوت دی جاتی ہے۔نبی مکرمﷺ نے سیدنا معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
((وَإِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ ، فَلْیَکُن اَوَّلَ، مَاتَدْعُوْھُم إِلَیہ شَھَادَۃُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وفی روایۃ:إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ،))
’’تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو۔تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی گواہی کی طرف دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود(برحق)نہیں۔دوسری روایت میں ہےکہ تم انہیں سب سے پہلےاس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کر لیں‘‘
توحید کے بغیر عبادات قابل قبول نہیں:
توحید عبادت کے صحیح ہونےکی بنیادی ترین شرط اور اس کی قبولیت کی اساس ہے جیسے طہارت کے بغیرنماز کو نماز قرار نہیں دیا جاسکتا،ایسے ہی عبادات اس وقت تک عبادت کہلانے کی مستحق نہیں،جب تک اس کے ساتھ توحید نہ ہو۔جس طرح طہارت میں حدث(ہوا خارج ہونے)سے نماز فاسد ہو جاتی ہےبعینہ اسی طرح اعتقاد و عمل میں شرک کی آمیزش سےعبادات فساد کا شکار ہو جاتی ہیں۔توحید نہ ہو تو عبادت شرک بن جاتی ہے۔شرک عمل کو فاسد اور تباہ وبرباد کر دیتا ہےاور اس کا مرتکب ہمیشہ کے لیے دوزخ کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
توحید دنیا وآخرت میں امن و ہدایت کا باعث ہے:
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ ارشاد ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَؒ(سورۃ الانعام:۸۲)
’’حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا‘‘
یہاں ظلم سے مراد شرک ہےجیسا کہ رسول اکرمﷺنے وضاحت فرما ئی ہے
((صحیح بخاری،کتاب التفسیر،سورۃ الانعام،باب ولم یلبسواإیمانھم بظلم،ح:۴۶۲۹))
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’مراد یہ ہےکہ جن لوگوں نے عبادت کو اللہ وحدہ لاشریک کے لیے خالص کر دیا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا،یہی لوگ روز قیامت امن میں ہوں گے اور دنیا وآخرت میں ہدایت سے سرفراز کیے جائیں گے‘‘
پس جو شخص کامل توحید پر کاربند رہتا ہےاسی کو مکمل امن اور کامل ہدایت نصیب ہوتی ہےاور وہی بلا عذاب جنت میں داخل ہوگا۔امر واقعہ یہ ہےکہ شرک سب سے بڑا ظلم اور توحید حقیقی عدل ہے۔
توحید جنت میں داخلے اور جہنم سے نجات کا سبب ہے:
رسول اللہﷺنے فرمایا:
((مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ مِنَ الْعَمَلِ))
(صحیح البخاری،کتاب احادیث الانبیاءباب قولہ تعالیٰ یا اھل الکتاب لا تغلوا فی دینکم،ح:۳۴۳۵،صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب الدلیل علیٰ ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعاً،ح:۲۸))
’’جو شخص اس بات کی گواہی دےکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ یکتا ہےاس کا کوئی شریک نہیں اور محمدﷺاللہ کے بندے اور رسول ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام بھی اللہ کے بندے،اس کے رسول اوراس کا کلمہ ہیں جو اس نے سیدہ مریم علیھا السلام کی طرف ڈالا تھااوروہ اس کی بھیجی روح ہیں اور یہ کہ جنت برحق ہے اور جہنم بھی برحق ہے۔تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ(بہرحال)جنت میں داخل فرمائے گاخواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں‘‘
نیز آپﷺنے فرمایا:
((فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ))
(صحیح البخاری،کتاب الصلوۃ،باب المساجد فی البیوت،ح:۴۲۵۔نیز کتاب الرقاق،باب العمل الذی یبتغی بہ وجہ اللہ،ح:۶۴۲۳۔وصحیح مسلم،کتاب المساجد،باب الرخصۃ فی التخلف عن الجماعۃ لعذر،ح:۲۶۳/۳۳)
’’جو شخص محض رضائے الہیٰ کی خاطر’’لا الہ الا اللہ‘‘کا اقرار کرے،اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ حرام کر دیتا ہے‘‘
توحید دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ ہے:
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’التَّوْحِیْدُ مَفْزَعُ اَعْدَائِہِ وَاَوْلِیَاءِہِ‘‘
(الفوائد لا بن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ۔ص:۷۹)
توحید خدا کے دشمنوں اور دوستوں ہر دو کے لیے مصیبت کے وقت جائے پناہ ہے‘‘
۱:
دشمنوں کے لیے تو اس طرح کہ اس کے ذریعےدہ دنیا کی مشکلات و مصائب سے نجات پاتے ہیں۔قرآن مجید میں ہے:
فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَۙ(سورۃ العنکبوت:۶۵)
’’جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکا یک یہ شرک کرنے لگتے ہیں‘‘
۲:
اور اللہ کے دوستوں کا معاملہ یہ ہےکہ باری تعالیٰ عقیدہ توحید کی برکت سےانہیں دنیا و آخرت کےرنج و ملال اور پریشانیوں سے چھٹکارا دیتا ہے۔اپنے بندوں کے باب میں خداکی یہی سنت ہےپس مصائب دنیا کو دور کرنے اور ان سے خلاصی دلانے میں توحیدکی مثل کوئی شے نہیں۔یہی وجہ ہے کہ دعائےکرب توحید پر مبنی ہےاور سیدنا ذوالنون(یونس علیہ السلام)کی دعا بھی توحید پر مشتمل تھی۔مصیبت میں مبتلا جو شخص بھی یہ دعا کرتا ہے،باری تعالیٰ اسے لازماً اس مشکل اورتکلیف سے نجات دلاتا ہے۔
انسان کو عظیم مصائب اور جانکاہ مشقتوں میں مبتلا کرنے کا سبب سوائےشرک کے اور کچھ نہیں اور ان سے نجات اور خلاصی کا ذریعہ توحید کے علاوہ اور کوئی نہیں۔پس توحید مخلوق کی جائے پناہ ہے،یہی اس کا ملجا و ماویٰ ہے اور یہی اس کی حفاظت اور امداد کی ضامن ہے
توحید،تخلیق جن و انس کی اصل حقیقت ہے:
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(سورۃ الذاریات:۵۶)
’’میں نے جنوں اور انسانوں کومحض اس لیے پیداکیا ہے کہ وہ صرف میر ی بندگی کریں‘‘
یہاں لِيَعْبُدُوْنِ کے معنی ہیں:لِیُوَحِّدُوْن یعنی وہ مجھے ہر اعتبار سے یکتا اور منفرد تسلیم کریں۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسولوں کی بعثت،کتب سماویہ کا نزول،شریعتوں کے مقرر کرنے اور مخلوق کو وجود بخشنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ توحید الہیٰ کا اقرار کیا جائےاور صرف اس کی پرستش کی جائے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں
دلیل:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُؕ(سورۃ آل عمران:۱۸)
’’اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، اور (یہی شہادت ) فرشتوں اور سب اہلِ علم نے بھی دی ہے۔ وہ انصاف پر قائم ہے۔ اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی خدا نہیں ہے‘‘
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ(سورۃ محمد:۱۹)’’پس اے نبی ﷺ ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے‘‘
لا الہٰ الا اللہ کا مفہوم:
لا الہٰ الا اللہ کے معنی ہیں:
’’لَا مَعْبُوْدَ بِحَقِِّ اِلَّا اللَّہُ‘‘
’’اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود برحق نہیں‘‘
چند باطل معانی:

لا الہٰ الا اللہ کے کچھ ایسے مفاہیم بھی بیان کئے جاتے ہیں جو قطعی طور پر باطل ہیں مثلاً
’’ لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللَّہُ‘‘
’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں‘‘
لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اس کا مفہوم یہ نکلے گاکہ ہر معبود اللہ ہےخواہ وہ معبود برحق ہو یامعبود باطل۔
’’ لَاخَالِقَ اِلَّا اللَّہُ‘‘
’’خدا کے سوا کوئی خالق نہیں‘‘
یہ اس کے مفہوم کا ایک جزو تو ہےلیکن اصل مقصود نہیں،کیونکہ اگر لا الہٰ الا اللہ سے یہی مراد ہوتی تو رسول اکرمﷺاورآپﷺکی قوم کے مابین جھگڑا کیو ں ہوتااس لیے کہ وہ لوگ بھی خدا کے خالق ہونے کا اقرار
کرتے تھے۔

’’لَا حَاکِمِیَّۃََ اِلَّا اللَّہِ‘‘
’’حق حاکمیت خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں‘‘
یہ بھی اس کے مطلب کا محض ایک حصہ ہےلیکن صرف اتنا تسلیم کر لینا توحید کے لیے کافی نہیں اور نہ حقیقی طور پر مطلوب ہے۔اس لیے اگر خدا کو حاکمیت میں یکتا اور منفرد تو تسلیم کر لیا جائےلیکن پوجا اور پرستش کسی اور کی کی جائےتو توحید ثابت نہ ہوگی۔
ارکان لا الہٰ الا اللہ:

اس کے دو رکن ہیں:
1:نفی(لَا اِلٰہ)
اس سے مراد یہ ہےکہ خدا کے سواہر اس شے کی عبادت کی نفی کردی جائے،جس کی پرستش کی جا رہی ہے۔
2:اثبات(الا اللہ)
یعنی عبادت کا اثبات صرف خدائے واحد کے لیے کیا جائےجس کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔
دلیل:
اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ’’تو جس نے طاغوت کا انکار کیا‘‘یہ نفی ہے۔

وَ يُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ’’اور اللہ پر ایمان لایا‘‘یہ اثبات ہے۔
فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا’’اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا‘‘(سورۃ البقرہ:۲۵۶)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِيْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ(سورۃ الزخرف:۲۶)
’’یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’ تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں‘‘یہ نفی ہے۔
اِلَّا الَّذِيْ فَطَرَنِيْ (سورۃ الزخرف:۲۷)
’’میں صرف اسی کو پوجتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا‘‘یہ اثبات ہے
فَاِنَّهٗ سَيَهْدِيْنِ’’بے شک وہی میری رہنمائی فرمائے گا‘‘
انسان کو لاالہٰ الا اللہ کہنا کب فائدہ ہوگا:
1:
جب وہ اس کے مفہوم و مراد سے باخبر ہو۔
2:
اس کے تقاضے کے مطابق عمل پیرا ہو۔
اس کا تقاضا یہ ہےکہ اللہ عزوجل کے علاوہ ہرایک کی عبادت ترک کردی جائےاورصرف اس کی بندگی کی جائے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
لا الہٰ الا اللہ کی شرائط

اجمالی تذکرہ:
لا الہٰ الا اللہ کہنے والے کویہ کلمہ اس وقت تک کوئی فائدہ نہ دے گاجب تک وہ اس کی شرائط کو پورا نہ کرے۔
یہ شرائط آٹھ ہیں:
1:علم جو کہ جہالت کے منافی ہے۔
2:یقین جو کہ شرک کی ضد ہے۔
3:اخلاص جو کہ شرک کے منافی ہے۔
4:صدق و سچائی جو کہ جھوٹ اور کذب کی ضد ہے۔
5:محبت جو کہ بغض کے برعکس ہے۔
6:انقیاد واطاعت جو کہ ترک یعنی اطاعت چھوڑنے کے منافی ہے۔
7:قبول جو کہ رد کرنے کی ضد ہے۔
8:ہر اس شے کا انکار،جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جارہی ہے۔

مذکورہ شرائط کے جامع اشعار:
عِلْمٌ یَّقِیْنٌ وَّاِخْلَاصٌ وَّصِدْقُکَ مَعَ​
مُحِبًّ وَّ انْقِیَاد وَّ القُبُوْلِ لَھَا​
وَزِدْ ثَامِنُھَا الْکُفْرَانُ مِنْکَ بِمَا​
سِوَی الْاِ الٰہِ مِنَ الْاَوْثَانِ قَدْاُلِھَا​
’’لا الہٰ الا اللہ کے نافع ہونے کے لیے ضروری ہےکہ تم یہ کلمہ علم،یقین،اخلاص اور صدق دل سے کہو،نیز یہ بھی لازم ہےکہ اس کے ساتھ محبت واطاعت اوراسے قبول کرنے کا جذبہ ہو۔پھر اس میں آٹھویں چیز کا بھی اضافہ کر لوکہ تم ہر اس شے کا انکار کرو گےجسے خدا کے سوا بت بنا کر پوجا جا رہا ہے‘‘
شرائط کا مفصل تذکرہ:

اب مندرجہ بالاشرائط کی تفصیل بیان کی جارہی ہے:
1 علم منافیٔ جہالت:
معنی و مفہوم:اس سے مراد یہ ہےکہ نفی اور اثبات کے پہلو سے لا الہٰ الا اللہ کے مفہوم کا علم ہونا چاہیے۔
دلیل:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ(سورۃ محمد:۱۹)
’’تو جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں‘‘
2 :یقین منافیٔ شک:
معنی و مفہوم:اس کا مطلب یہ ہےکہ لا الہٰ الا اللہ کہنے والے کواس بات کا پختہ یقین ہوکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے۔
دلیل:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(سورۃ الحجرات:۱۵)
’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں‘‘
3 اخلاص منافیٔ شرک:
معنی و مفہوم:
اس کے معنی یہ ہیں کہ عبادت کی تمام قسمیں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر دی جائیں اور کوئی عبادت بھی غیر اللہ کے لیے بجا نہ لائی جائے۔
دلیل:اللہ عزو جل کا فرمان ہے:
وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ حُنَفَآءَ(سورۃ البینۃ:۵)
’’اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں ، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے بالکل یکسو ہو کر‘‘
4 صدق منافیٔ کذب:
معنی و مفہوم:اس سے مراد یہ ہے کہ کلمہ توحید کہنے والا اپنے اس قول میں سچا ہو اوراس کے دل و زبان میں موافقت اور ہم آہنگی پائی جائے۔
دلیل: اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
الٓمّٓۚ۔اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ۔وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ(سورۃ العنکبوت:۱۔۳)
’’ا۔ل۔م۔کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون‘‘
5: محبت منافیٔ بغض
معنی و مفہوم:اس کا مفہوم یہ ہےکہ کلمہ کہنے والا اللہ اور رسول اللہﷺسے محبت رکھتا ہونیز وہ اس کلمے اور اس کے مراد و معنی کوبھی محبوب جانتا ہو۔
دلیل:اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ۠ كَحُبِّ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ(سورۃ البقرہ:۱۶۵)
’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدِّ مقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘
6: انقیاد منافیٔ شرک
معنی و مفہوم:اس کا مطلب یہ ہےکہ صرف اللہ ہی کی عبادت کی جائے،اس کی شریعت کی پابندی کی جائے،اس پر ایمان لایا جائے اور اس کے برحق ہونے کا اعتقاد رکھا جائے۔
دلیل:اللہ عزو جل کا فرمان ہے:
وَ اَنِيْبُوْۤا اِلٰى رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ(سورۃ الزمر:۵۴)
’’اور رجوع کرو اپنے رب کی طرف اوراس کے مطیع بن جاؤ‘‘
7 قبول منافیٔ رد:
معنی و مفہوم:اس کے معنی یہ ہیں کہ کلمۂ توحید اور اس کے معانی و مفاہیم کو قبول کیا جائے یعنی عبادت کو باری تعالیٰ کے لیے خالص کر دیا جائے اور اس کے ماسوا ہر ایک کی عبادت ترک کر دی جائے۔
دلیل:فرمان الہیٰ ہے:
اِنَّهُمْ كَانُوْۤا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ۙ۔وَ يَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْۤا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍؕ(سورۃ الصافات:۳۵،۳۶)
’’یہ وہ لوگ تھے کہ جب اِن سے کہا جاتا ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے ۔ ‘‘ تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے،اور کہتے تھے ’’ کیا ہم ایک شاعر مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں‘‘ ؟‘‘
8:ہر اس ہستی کا انکار،جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے
معنی و مفہوم:اس سے مراد یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت سے بیزاری کا اظہار کیا جائے اور اس کے باطل ہونے کا عقیدہ رکھا جائے۔
دلیل:اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ يُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى(سورۃ البقرہ:۲۵۶)
’’جو کوئی طاغوت کا اِنکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا ، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا‘‘
 
Top