تبرک
لغت کی رو سے تبرک کے معنی ہیں:
’’کَثْرَۃُ الشَّیًٔ وَ ثُبُوْتُہٗ‘‘یعنی کسی شے کی کثرت اور اس کا ثبوت ودوام۔
شرعی اعتبار سے اس کا مفہوم ہےکہ کسی شےسے برکت طلب کی جائے،اس کی امید کی جائے اوراس کا اعتقاد رکھا جائے۔
تبرک کی اقسام:
اس کی دو قسمیں ہیں:
1:مشروع تبرک
2:ممنوع تبرک
مشروع تبرک:
اس میں درج ذیل امور شامل ہیں:
1:
نبی مکرمﷺاورآپﷺکے جسم مبارک سے جداہونے والی اشیاء سے تبرک لینا،یہ آپﷺکی حیات طیبہ کے ساتھ خاص تھا اور آپﷺکی حیات مبارکہ ہی میں ممکن تھا۔
(١)
2:
مشروع اقوال و افعال سے تبرک لینا،یعنی اگر انسان انھیں بجا لائے تواسے خیروبرکت حاصل ہوتی ہے۔
مثلاً تلاوت قرآن،ذکر الہٰی اور علم و حکمت کی مجلسوں میں شریک ہونا۔
3:
ان مقامات سے تبرک لینا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بابرکت بنایا ہے۔مثلاً مساجد اور مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور ملک شام کے مقدس و متبرک مقامات۔ان سے حصول برکت کے یہ معنی ہیں کہ وہاں خیر وبھلائی کے کام کئے جائیں اور شریعت کے مقرر کردہ اعمال کے ذریعے باری تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔یہ مقصود نہیں کہ ان کی دیواروں اورستونوں کو چھوا اور چوما چاٹا جائے۔
4:
ان اوقات و لمحات سے برکت حاصل کرنا جنہیں اللہ تعالیٰ نے فضل وبرکت کی زیادتی کے ساتھ خاص کیا ہےمثلاًماہ رمضان المبارک،عشرہ ذی الحجہ،شب قدر اور ہر رات کا آخری تہائی حصہ۔
ان اوقات میں طلب خیر وبرکت کا طریقہ یہ ہےکہ زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کے ذریعے اللہ کی بندگی کی جائے۔
5
:کھانے پینے کی جن اشیاء میں باری تعالیٰ نے برکت رکھی ہے،ان سے تبرک حاصل کیا جائے۔مثلاًزیتون کا تیل،شہد،دودھ،کلونجی اور آب زمزم۔(فائدہ:آب زمزم کے بارے میں صحیح بات یہ ہےکہ اسے ایک جگہ سے دوسرے مقام پر منتقل کرنے سے اس کی خیروبرکت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی)
ممنوع تبرک:
اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1:مختلف مقامات اور جمادات سے تبرک ،اس کی کئی صورتیں ہیں:
۱:جن جگہوں کا مبارک ہونا شرعاً ثابت ہےوہاں کی دیواروں کو چھونا،کھڑکیوں اور ستونوں کو چومنا اور ان مقامات کی مٹی سے حصول شفا کا اعتقاد رکھنا۔
۲:نیک او صالح لوگوں کی قبروں اور مزاروں سے برکت کا طالب ہونا۔
۳:ان مقامات سے تبرک لیناجو بعض تاریخی واقعات کے حوالے سے معروف ہیں۔مثلاًرسول اکرمﷺکی جائے ولادت(مولد)،غار حرا اور غار ثور وغیرہ
2:مختلف اوقات اور زمانوں سے تبرک،اس میں درج ذیل امور شامل ہیں:
۱:جن اوقات اور لمحات کی فضیلت اور برکت شرعاً ثابت ہے،ان میں غیر مشروع اعمال اوربدعت پر مبنی عبادات بجا لانا۔
۲:ان اوقات اور زمانوں سے خیر وبرکت کا حصول چاہنا،جن کا متبرک ہونا شریعت سے ثابت ہی نہ ہو۔
مثلاً
میلاد النبیﷺکے دن عید منانا،شب معراج،شب براءت اور دیگر ایسی راتوں میں خصوصی عبادت کرنا جومختلف تاریخی حوادث و واقعات کے حوالے سے مشہور ہیں۔
3:صالحین اور ان کے آثار سے تبرک،واضح رہے کہ رسول اللہﷺکی ذات مقدسہ اور آپﷺکے آثار کے سوا کسی انسان کی ذات یا آثار سے تبرک لینا ممنوع ہے اور نبی کریمﷺکا معاملہ بھی آپﷺکی حیات طیبہ کے ساتھ خاص تھا۔(٢)
تبرک سے متعلق چند اہم قواعد و ضوابط:
1:تبرک،عبادت ہے اور عبادات میں اصل ممانعت ہےحتیٰ کہ اس کی مشروعیت اور جواز کی دلیل مل جائے۔
2:برکت سراسر اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوتی ہے۔وہی اس کا مالک اور عطا کرنے والا ہےلہذا کسی غیر سے برکت کا طلب کرنا درست نہیں۔
3:جن اشیاء کا متبرک ہونا شرعاً ثابت ہے،ان سے صرف اس شخص کو برکت حاصل ہوسکتی ہےجو توحید پر کاربند ہو اور اللہ اور رسول اللہﷺپر پختہ ایمان رکھتا ہو۔
4:جن چیزوں کی برکت ازروئے شریعت ثابت ہےان سے تبرک لینے کے لیےجائز طریقے اپنانے چاہئیں اور ایسے طور طریقوں سے اجتناب کرنا چاہیے،جو سلف صالحین سے ثابت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)((فاضل مؤلف کا یہ کہنا محل نظر ہےکہ رسول اللہﷺکےآثار سے تبرک محض آپﷺکی حیات مبارکہ میں ہی ممکن تھا۔کتب احادیث میں ایسی بہت سی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین نبی کریمﷺکی وفات کے بعد بھی آپﷺکے آثار سے حصول برکت کے خواہاں رہتے تھے۔ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا محمد بن سیرین رحمہ اللہ نےسیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے پاس نبی مکرمﷺکے کچھ بال ہیں جو ہمیں صحابی رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ یان کے اہل خاندان کی جانب سے ملے ہیں۔اس پر سیدنا عبیدہ کہنے لگےکہ اگر میرے پاس ان بالوں میں سےایک بال ہی بھی ہوتو وہ میرے لیے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز سے عزیز ہے(صحیح بخاری،کتاب الوضوءباب الماءالذی یغسل بہ شعر الانسان،ح:۱۶۸)
اسی طرح مسلم شریف میں روایت ہے کہ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضور پاکﷺکا ایک جبہ مبارک تھا،حضرت عائشہ کی وفات ہوئی تو وہ جبہ سیدنا اسماء رضی اللہ عنہا نے لے لیا اور ان کا بیان ہےکہ ہم شفا پانے کے لیے اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے تھے۔(صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم استعمال آینۃ الذھب والفضۃ علی الرجال،ح:۲۰۶۹)
صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کے مطابق ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول معظمﷺککے کچھ بال مبارک تھےچنانچہ جب کوئی بیمار ہوجاتاتو وہ پانی کا برتن ام المومنین کے ہاں بھیجتا۔سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہانبی کریمﷺکے بابرکت بالوں کو دو کر ان کا پانی دے دیتیں،جس سے بیمار شفا پاتے(صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب مایذکر فی الشیب،ح:۵۸۹۶)
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی روایات و آثار مروی ہیں جنھیں طوالت سے بچتے ہوئے بیان نہیں کیا گیا۔تاہم مندرجہ بالا روایات صحیحہ سےیہ امر روزروشن کی طرح واضح ہوجاتا ہےکہ
آثار نبویﷺسے تبرک محض نبی کریمﷺکی حیات طیبہ ہی سے خاص نہیں بلکہ آپﷺکی وفات کے بعد بھی ان سے خیر وبرکت حاصل کی جاسکتی ہےجیسا کہ صحابہ و سلف کا طریق کار تھا۔
البتہ یہاں ایک نقطہ قابل توجہ ہےکہ اہل علم کے مطابق آج کے دور میں رسول اللہﷺ کے آثار(لباس،بال مبارک وغیرہ)کا وجود کسی حتمی و قطعی دلیل سے ثابت نہیں کیا جاسکتا،لہذٰا اس باب میں کوئی یقینی بات کہنا ممکن نہیں۔(التوسل انواعہ و احکامہ،علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ،ص:۱۴۶)))
مترجم۔
(٢)((علماء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ اولیاء و صالحین سے تبرک ممنوع ہےکیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے نبی مکرمﷺکے علاوہ کسی کے آثار سے یہ معاملہ نہیں کیا۔ان میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر ہستی موجود تھی جسے انبیاءکرام کے بعد افضل البشر ہونے کا اعزاز حاصل ہےلیکن کسی صحابی سے یہ ثابت نہیں اس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات یا آپ کے آثار سے تبرک لیا ہو۔اسی طرح دیگر کبار صحابہ مثلاًسیدنا عمر فاروق،سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی کسی کے تبرک لینے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
امام شاطبی رحمہ اللہ کے مطابق اس طرح کے تبرک کے ترک پر صحابہ کرام کا اجماع ہے(الاعتصام للشاطبی ۲/۸)۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے بھی تصریح کی ہے کہ رسول اکرمﷺکے علاوہ کسی سے تبرک لینا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا تابعین سے ثابت نہیں۔دلیل کی قوت کے علاوہ شرکیہ خرافات کے سدباب کے حوالے سے بھی یہ نقطہ نگاہ مناسب ہے،کیونکہ اولیاءاکرام اور مشائخ عظام کے تبرکات کی اجازت دے دی جائےتو پھر معاملہ ایک حد پر نہیں رکتا،بلکہ غلو اور مبالغہ امیزی کی زد میں آکر صریح شرک تک پہنچ جاتا ہے،جیسا کہ فی زمانہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
البتہ بعض اہل علم اولیاء و صالحین کو رسول مکرمﷺپر قیاس کرتے ہوئے ان سے حصول تبرک کو جائز قرار دیتے ہیں۔تبرک کے مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو۔
(التبرک انواعہ و أحکامہ،ڈاکڑ ناصر بن عبدالرحمن بن محمد الجدیع۔التبرک المشروع والتبرک الممنوع،ڈاکڑ علی بن نافع العلیانی۔مؤخر الذکر کتاب کا ترجمہ بنام’’جائز اور ناجائز تبرک‘‘مولانا عمر فاروق السعیدی حفظہ اللہ کے قلم سے شائع ہو چکا ہے)))
مترجم۔