• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم توحید

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
خوف

تعریف:
یہ ایسی حالت سے متاثر ہونے کا نام ہے جس میں کسی ہلاکت،نقصان یا تکلیف پہنچنے کا اندیشہ اور خدشہ ہو۔
خوف کی اقسام:

اس کی درج ذیل قسمیں ہیں:
شرک اکبر:
اس کی دلیل اللہ عزوجل کا یہ فرمان ہے:
فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ(آل عمران:۱۷۵)
’’تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو اگر تم مومن ہو‘‘
حرام:
اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان لوگوں کے ڈر سے کسی واجب کو ترک کر دے یا کسی حرام کا ارتکاب کرے۔
اس کی دلیل اللہ رب العزت کا یہ فرمان ہے:
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ(المائدہ:۴۴)
’’لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو‘‘
جائز:
یہ طبعی خوف ہےجیسے کسی درندے(مثلاً شیر)دشمن یا ظالم حکمران سے خائف ہونا۔
اس کی دلیل باری تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
فَاَصْبَحَ فِي الْمَدِيْنَةِ خَآىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ(القصص:۱۸)
’’(موسی علیہ السلام) صبح ہی صبح ڈرتے اندیشہ کی حالت میں خبریں لینے کو شہر میں گئے‘‘
عبادت:
اس سے مراد اللہ وحدہ لا شریک کا خوف ہے،اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(الرحمن:۴۶)
’’اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں‘‘
خوف باری تعالیٰ کی اقسام:

اس کی دو قسمیں ہیں:
محمود:
اس سے مراد وہ خوف ہے جو انسان اور معصیت کے درمیان رکاوٹ بن جائے۔اسے فرائض وواجبات کی ادائیگی پر آمادہ کرے اور محرمات کو ترک کرنے پر ابھارے۔
مذموم:
یہ وہ خوف ہے جو انسان کو رحمت ایزی سے مایوس اور ناامید کر دے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
امید

تعریف:
الرجاء(امید)کے معنی کسی پسندیدہ اور محبوب شئے کی توقع،خواہش،آرزو اور انتظار کے ہیں۔
اقسام:

اس کی تین قسمیں ہیں:
1:رجاءعبادت:
اس سے مراد یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ ہی سے امید رکھی جائے۔اس کی دو قسمیں ہیں:
رجاء محمود:
یہ وہ امید ہےجو عمل صالح اوراطاعت الہیٰ کی بنا پر رکھی جائے۔
رجاءمذموم:
اس کے معنی یہ ہیں کہ بغیر عمل کے اللہ سے لمبی لمبی امیدیں باندھ لی جائیں،یہ دراصل جھوٹی آرزوؤں اور خود فریبی کا دوسرا نام ہے۔
2:رجاءشرک:
اس کا مفہوم یہ ہے کہ غیر اللہ سے ایسی شے کی امید رکھی جائےجس پر صرف باری تعالیٰ ہی قدرت رکھتا ہے۔
3:رجاء طبعی:
اس سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص سے ایسے معاملے کی توقع کی جائے جو اس کے اختیار و قدرت میں ہو،جیسے آپ کسی دوسرے سے کہتے ہیں:مجھے امید ہےکہ آپ تشریف لائیں گے۔
رجاء کی دلیل:
فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدً(الکھف:۱۱۰)
’’پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے‘‘

توکل

تعریف:
لغت کی رو سے اس کے معنی یہ ہیں:کوئی شے کسی کے سپرد کر دینا اور اعتمادو بھروسہ کرنا۔
شرعی اعتبار سے اس کا مفہوم یہ ہے:’’اِعْتِمَادُ الْقَلْبِ عَلی اللَّہ وَحْدَہ‘‘یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی پر دلی بھروسہ رکھنا۔
توکل شرعی:
شریعت کی رو سے صحیح تو کل وہ ہےجس میں درج ذیل تین امور جمع ہوں:
1:اللہ تعالیٰ پر سچا اور حقیقی اعتماد ہو
2:اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین ہواور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ تمام معاملات اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔
3:وہ اسباب و ذرائع اختیار کیے جائیں،جن کی شرعاً اجازت ہے۔
توکل کی اقسام:

اس کی تین قسمیں ہیں:
توکل عبادت:
یعنی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور اسی کا سہارا لینا۔
توکل شرک:
ایسے امورومعاملات میں غیر اللہ پر اعتماد کرنا جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہیں،یااسباب و وسائل کو حقیقتاً موثرٔ سمجھتے ہوئے ان پر کلی یا جزوی اعتماد کرنا۔
توکیل:
اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی شخص کو اپنا نائب مقرر کردیں اور وہ آپ کی نیابت میں کوئی ایسا عمل سرانجام دے جو اس کی قدرت میں ہے اور شرعاً جائز ہے۔
توکل اور توکیل میں فرق:

ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ توکل ایک قلبی عمل ہےجو باطن سے تعلق رکھتا ہےجبکہ توکیل ایک ظاہری عمل ہے۔
توکل کی دلیل:
وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ(المائدہ:۲۳)
’’اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تم صاحب ایمان ہو‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
دعا

دعا عبادت ہے:
دعا عبادت کی ایک اہم ترین قسم ہے۔رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے:
((اَلدُّعَاءُ ھُوَالْعِبَادَۃُ))جامع ترمذی،ابواب التفسیر عن رسول اللہﷺ باب و من سورۃ البقرۃ،ح:۲۹۶۹
’’دعا ہی عبادت ہے‘‘​
اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًاۙ(الجن:۱۸)
’’اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لیے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو‘‘
دعا کی اقسام:

دعا کی دو قسمیں ہیں:
دعائے عبادت:
اس سے ہر وہ عمل مقصود ہےجسے انسان بطور عبادت اپنے پروردگار کے لیے سر انجام دیتا ہے۔مثلاً نماز،روزہ،حج اور صدقہ وغیرہ
عبادت کو دعا اس لیے کہا گیا ہےکہ اس میں طلب کے معنی پائے جاتے ہیں۔گویا جب یہ انسان اعمال بجا لاتا ہےتو وہ اللہ سے رحمت اورجنت میں داخلے کا طلبگار ہوتا ہے۔
دعائے مسئلہ:
اس سے مراد وہ دعا ہے جس میں سوال اور طلب ہو۔
مثلا یہ کہنا’’اَللَّھُمَّ ارْحَمْنَیْ،رَبِّ اغْفِرْلِیْ‘‘
’’بار الہٰا!مجھ پر رحم فرما،میرے رب میری بخشش فرما‘‘
دعائے غیر اللہ:
دعائے عبادت ہے اس لیے اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور سے دعا کرنے والا شخص مشرک اور کافر ہے۔
اس کی دلیل اللہ رب العزت کا یہ ارشاد ہے:
وَ مَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ(المومنون:۱۱۷)
’’اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے ، جس کے لیے اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اِس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے ۔ (لاریب) ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
دم اور جھاڑ پھونک(الرُّقیٰ)

تعریف:
لغوی اعتبار سے لفظ رقیٰ،رقیۃ کی جمع ہےجس کے معنی جھاڑپھونک اوردم کے ہیں۔ازروئے شریعت اس سے مراد وہ آیات و اذکار اور دعائیں ہیں جو مریض پر پڑھ کر پھونکی جاتی ہیں۔
دم کی اقسام:
اس کی دو قسمیں ہیں:
1:جائزدم جھاڑ وپھونک
2:ناجائز دم
ان کی وضاحت درج ذیل ہے:
جائزدم:

اہل علم کا اجماع ہےکہ جس دم میں درج ذیل تین شرائط پوری ہوں وہ جائز ہے۔
۱:وہ واضح عربی زبان میں ہواور اسکے معنی معلوم ومعروف ہوں۔
۲:دم اللہ تعالیٰ کے کلام یا اس کے اسماءوصفات پر مشتمل ہو۔
۳:اس پر کلی اعتماد نہ کیا جائےبلکہ یہ اعتقاد رکھا جائےکہ دم بذاتِ خود موثر نہیں بلکہ تقدیر الہٰی کے تابع ہے۔
ممنوع جھاڑ وپھونک:

جس میں جائز دم کی مندرجہ بالا شرائط میں سےکوئی ایک شرط بھی کم ہوتووہ دم ناجائز اور حرام ہے۔
سنت سے دم اورجھاڑ پھونک کی دلیل:
رسول اللہﷺ کافرمان ہے:
((إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ))مسند احمد:۱/۳۸۱،وسنن ابی داؤد،کتاب الطب،باب تعلیق التمائم،ح:۳۸۸۳
’’بے شک جھاڑپھونک(دم)،تعویذ گنڈے اور باہمی عشق و محبت پیدا کرنے کے لیے تیار کی جانے والی چیزیں ،یہ سب شرک ہیں‘‘
ان تینوں امور میں سے دم کی رخصت ہے بشرطیکہ شرکیہ کلمات پر مشتمل نہ ہو۔
رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے:
((اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ))صحیح مسلم،السلام،باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک،ح:۲۲۰۰۔
’’اپنے دم میرے سامنے پیش کرو،جس دم میں شرکیہ کلمات شامل نہ ہوں،ان میں کوئی حرج نہیں‘‘
مطلب یہ کہ ایسا دم جائز ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
تعویذ گنڈے(التَّمَائِم)

تعریف:
لغوی اعتبار سے التمائم لفظ تمیمۃ کی جمع ہےجس کے معنی تعویذ کے ہیں۔
اصطلاحی پہلو سےاس سے مراد وہ چیز ہےجو نظر بد سے حفاظت کے پیش نظر بچوں کے گلے میں لٹکائی جاتی ہے۔
تعویذ کی اقسام:
اس کی دو قسمیں ہیں:
1:قرآن کریم اور نبویﷺدعاؤں پر مشتمل تعویذ
ان کے بارے میں صحیح بات یہ ہےکہ درج ذیل تین وجوہ کی بنا پریہ ممنوع ہے۔
۱:شریعت میں تعویذوں کی عمومی ممانعت موجود ہے،لہٰذا یہ بھی اسی عموم میں داخل ہیں کیونکہ ان کی خصوصیات پر کوئی دلیل نہیں
۲:یہ سد الذریعہ کے طور پر جائز نہیں،اس لیے کہ ان قرآنی تعویذوں سے حرام تعویذ گنڈے کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
۳:اس سے قرآن مجید کی اہانت اور بے ادبی کا اندیشہ ہےکیونکہ قرآنی تعویذ پہننے والا لا محالہ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا میں جائے گا جو توہین قرآن کا باعث ہے۔(١)
2
:غیر قرآنی اور غیر مسنون امور پر مشتمل تعویذ
مثلا ان میں جنوں اور شیطانوں کے نام لکھے ہوں یا لکیریں اور اعداد کے نقوش بنائے گئے ہوں،جن کا کوئی مطلب سمجھ میں نہ آتا ہو،تویہ قطعی طور پر حرام ہیں نیز ایسے تعویذ پہننا شرک ہےکیونکہ اس میں غیر اللہ سے تعلق کا اظہار ہے۔
خلاصہ:

ہر قسم کے تعویذ حرام اور ممنوع ہیں خواہ وہ قرآنی ہوں یا غیر قرآنی۔نیر غیر قرآنی اور غیر مسنون تعویذ حرام ہونے کے ساتھ ساتھ شرک بھی ہیں۔
اس کی دلیل رسول اللہﷺکا یہ فرمان ہے:
((إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ))مسند احمد:۱/۳۸۱،وسنن ابی داؤد،کتاب الطب،باب تعلیق التمائم،ح:۳۸۸۳
’’بے شک جھاڑپھونک(دم)،تعویذ گنڈے اور باہمی عشق و محبت پیدا کرنے کے لیے تیار کی جانے والی چیزیں ،یہ سب شرک ہیں‘‘
ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)((قرآنی اور مسنون اذکار و ادعیہ پر مشتمل تعویذات کے بارے میں اہل علم کے ہاں تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں،ایک جواز،دوسرا ممانعت،تیسرا توقف
۔1:قائلین جواز میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص،ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا،سیدنا سعید بن المسیب،سیدنا عطا،سیدنا ابو جعفر الباقر اور سیدنا امام مالک رحمہا اللہ شامل ہیں۔اسی طرح علامہ ابن عبدالبر،امام بیہقی اور امام قرطبی رحمہا اللہ اسی مسلک کے قائل ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ،علامہ ابن القیم اور علامہ ابن حجر رحمہا اللہ کا ظاہر قول بھی یہی ہے۔
2:مانعین میں سیدنا عبداللہ بن مسعود،ابن عباس،سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہم اور سیدنا ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔سعودی عرب کے اکثر علماءمثلاً:سلیمان بن عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب،علامہ عبدالرحمن بن سعدی،شیخ ابن باز اور علامہ البانی رحمہا اللہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔
3:تعویذ کے بارے میں توقف کا موقف ماضی کے قریب جلیل القدر عالم دین الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہےان کے بقول قرآنی تعویذ کا ترک اولیٰ ہے،لیکن اسے مطلقاً حرام کہنے میں انھیں تامل ہے۔
بنظر غائر دیکھا جائےتو قائلین جواز کا قول ہی راجح معلوم ہوتا ہےکیونکہ مانعین نےجن تین وجوہ کی بنا پر ممانعت کا موقف اپنایا ہے،ان میں سے آخری دو وجہیں(شرکیہ تعویذات کی راہ کھلنے کا خطرہ اور اہانت قرآن کا اندیشہ)اضافی نوعیت کی ہے۔گویا اگر قرآنی تعویذات شرکیہ تعویذوں یا قرآن کی بے آدبی کا ذریعہ نہ بنیں تو اصلاً یہ جائز ہیں۔رہی یہ بات کہ حدیث شریف میں تعویذات کی عمومی ممانعت آئی ہےاور قرآنی تعویذ بھی اس عموم میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہیں تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہےکہ ام المومنین حضرت عائشہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے طرز عمل سے ان کی تخصیص ہوجاتی ہے۔نیز مسئلہ کی نوعیت سے معلوم ہوتا ہےکہ اسمیں اجتہاد کو دخل نہیں،فلہذا ان صحابہ کے آثار حکما مرفوع شمار ہوں گے۔مسئلہ زیر بحث پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو:مغنی المرید الجامع لشروح کتاب التوحید،تالیف عبدالمنعم ابراہیم،ج۲/ص۹۱۵تا۹۲۴فاضل مؤلف نے اس مسئلہ پر مفصل کلام کیا ہےاور تمام گروہوں کے دلائل پیش کرکے ان کا تجزیہ کرتے ہوئے قرآنی اور مسنون دعاؤں پر مشتمل تعویذوں کے جواز ہی کو راجح قرار دیا ہے۔بحث انتہائی مفید اور قابل مطالعہ ہے۔یہ تو تھا مسئلہ کی توجیہہ وتاویل کا ایک علمی رخ،تاہم
مفسرقرآن شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس قضیے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ان کی رائے میں قرآنی یا مسنون دعاؤں پر مشتمل تعویذوں کے جواز یا عدم جواز کی بحث تو اس صورت میں ہوسکتی ہے،جبکہ اس کے سنت ہونےکا اعتقاد رکھا جائےلیکن اگر ان کو بذریعہ علاج کے طور پر دیکھا جائےتو یہ بحث سرے سے ختم ہوجاتی ہے،کیونکہ علاج معالجہ کے دیگر طریقوں کی طرح یہ تعویذ بھی علاج کے زمرے میں آتے ہیں،جنہیں کسی طور پر ممنوع قرار نہیں دیا جاسکتا،کیونکہ تجربات سے ان کی افادیت ثابت ہو چکی ہے۔واللہ اعلم(مترجم)))
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
تبرک

لغت کی رو سے تبرک کے معنی ہیں:’’کَثْرَۃُ الشَّیًٔ وَ ثُبُوْتُہٗ‘‘یعنی کسی شے کی کثرت اور اس کا ثبوت ودوام۔
شرعی اعتبار سے اس کا مفہوم ہےکہ کسی شےسے برکت طلب کی جائے،اس کی امید کی جائے اوراس کا اعتقاد رکھا جائے۔
تبرک کی اقسام:

اس کی دو قسمیں ہیں:
1:مشروع تبرک
2:ممنوع تبرک
مشروع تبرک:

اس میں درج ذیل امور شامل ہیں:
1:نبی مکرمﷺاورآپﷺکے جسم مبارک سے جداہونے والی اشیاء سے تبرک لینا،یہ آپﷺکی حیات طیبہ کے ساتھ خاص تھا اور آپﷺکی حیات مبارکہ ہی میں ممکن تھا۔(١)
2:مشروع اقوال و افعال سے تبرک لینا،یعنی اگر انسان انھیں بجا لائے تواسے خیروبرکت حاصل ہوتی ہے۔
مثلاً تلاوت قرآن،ذکر الہٰی اور علم و حکمت کی مجلسوں میں شریک ہونا۔
3:ان مقامات سے تبرک لینا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بابرکت بنایا ہے۔مثلاً مساجد اور مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور ملک شام کے مقدس و متبرک مقامات۔ان سے حصول برکت کے یہ معنی ہیں کہ وہاں خیر وبھلائی کے کام کئے جائیں اور شریعت کے مقرر کردہ اعمال کے ذریعے باری تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔یہ مقصود نہیں کہ ان کی دیواروں اورستونوں کو چھوا اور چوما چاٹا جائے۔
4:ان اوقات و لمحات سے برکت حاصل کرنا جنہیں اللہ تعالیٰ نے فضل وبرکت کی زیادتی کے ساتھ خاص کیا ہےمثلاًماہ رمضان المبارک،عشرہ ذی الحجہ،شب قدر اور ہر رات کا آخری تہائی حصہ۔
ان اوقات میں طلب خیر وبرکت کا طریقہ یہ ہےکہ زیادہ سے زیادہ اعمال صالحہ کے ذریعے اللہ کی بندگی کی جائے۔
5:کھانے پینے کی جن اشیاء میں باری تعالیٰ نے برکت رکھی ہے،ان سے تبرک حاصل کیا جائے۔مثلاًزیتون کا تیل،شہد،دودھ،کلونجی اور آب زمزم۔(فائدہ:آب زمزم کے بارے میں صحیح بات یہ ہےکہ اسے ایک جگہ سے دوسرے مقام پر منتقل کرنے سے اس کی خیروبرکت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی)
ممنوع تبرک:

اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1:مختلف مقامات اور جمادات سے تبرک ،اس کی کئی صورتیں ہیں:
۱:جن جگہوں کا مبارک ہونا شرعاً ثابت ہےوہاں کی دیواروں کو چھونا،کھڑکیوں اور ستونوں کو چومنا اور ان مقامات کی مٹی سے حصول شفا کا اعتقاد رکھنا۔
۲:نیک او صالح لوگوں کی قبروں اور مزاروں سے برکت کا طالب ہونا۔
۳:ان مقامات سے تبرک لیناجو بعض تاریخی واقعات کے حوالے سے معروف ہیں۔مثلاًرسول اکرمﷺکی جائے ولادت(مولد)،غار حرا اور غار ثور وغیرہ
2:مختلف اوقات اور زمانوں سے تبرک،اس میں درج ذیل امور شامل ہیں:
۱:جن اوقات اور لمحات کی فضیلت اور برکت شرعاً ثابت ہے،ان میں غیر مشروع اعمال اوربدعت پر مبنی عبادات بجا لانا۔
۲:ان اوقات اور زمانوں سے خیر وبرکت کا حصول چاہنا،جن کا متبرک ہونا شریعت سے ثابت ہی نہ ہو۔
مثلاً میلاد النبیﷺکے دن عید منانا،شب معراج،شب براءت اور دیگر ایسی راتوں میں خصوصی عبادت کرنا جومختلف تاریخی حوادث و واقعات کے حوالے سے مشہور ہیں۔
3:صالحین اور ان کے آثار سے تبرک،واضح رہے کہ رسول اللہﷺکی ذات مقدسہ اور آپﷺکے آثار کے سوا کسی انسان کی ذات یا آثار سے تبرک لینا ممنوع ہے اور نبی کریمﷺکا معاملہ بھی آپﷺکی حیات طیبہ کے ساتھ خاص تھا۔(٢)
تبرک سے متعلق چند اہم قواعد و ضوابط:

1:تبرک،عبادت ہے اور عبادات میں اصل ممانعت ہےحتیٰ کہ اس کی مشروعیت اور جواز کی دلیل مل جائے۔
2:برکت سراسر اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوتی ہے۔وہی اس کا مالک اور عطا کرنے والا ہےلہذا کسی غیر سے برکت کا طلب کرنا درست نہیں۔
3:جن اشیاء کا متبرک ہونا شرعاً ثابت ہے،ان سے صرف اس شخص کو برکت حاصل ہوسکتی ہےجو توحید پر کاربند ہو اور اللہ اور رسول اللہﷺپر پختہ ایمان رکھتا ہو۔
4:جن چیزوں کی برکت ازروئے شریعت ثابت ہےان سے تبرک لینے کے لیےجائز طریقے اپنانے چاہئیں اور ایسے طور طریقوں سے اجتناب کرنا چاہیے،جو سلف صالحین سے ثابت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)((فاضل مؤلف کا یہ کہنا محل نظر ہےکہ رسول اللہﷺکےآثار سے تبرک محض آپﷺکی حیات مبارکہ میں ہی ممکن تھا۔کتب احادیث میں ایسی بہت سی روایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین نبی کریمﷺکی وفات کے بعد بھی آپﷺکے آثار سے حصول برکت کے خواہاں رہتے تھے۔ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا محمد بن سیرین رحمہ اللہ نےسیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے پاس نبی مکرمﷺکے کچھ بال ہیں جو ہمیں صحابی رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ یان کے اہل خاندان کی جانب سے ملے ہیں۔اس پر سیدنا عبیدہ کہنے لگےکہ اگر میرے پاس ان بالوں میں سےایک بال ہی بھی ہوتو وہ میرے لیے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز سے عزیز ہے(صحیح بخاری،کتاب الوضوءباب الماءالذی یغسل بہ شعر الانسان،ح:۱۶۸)
اسی طرح مسلم شریف میں روایت ہے کہ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضور پاکﷺکا ایک جبہ مبارک تھا،حضرت عائشہ کی وفات ہوئی تو وہ جبہ سیدنا اسماء رضی اللہ عنہا نے لے لیا اور ان کا بیان ہےکہ ہم شفا پانے کے لیے اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے تھے۔(صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ،باب تحریم استعمال آینۃ الذھب والفضۃ علی الرجال،ح:۲۰۶۹)
صحیح بخاری کی ایک اور حدیث کے مطابق ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول معظمﷺککے کچھ بال مبارک تھےچنانچہ جب کوئی بیمار ہوجاتاتو وہ پانی کا برتن ام المومنین کے ہاں بھیجتا۔سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہانبی کریمﷺکے بابرکت بالوں کو دو کر ان کا پانی دے دیتیں،جس سے بیمار شفا پاتے(صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب مایذکر فی الشیب،ح:۵۸۹۶)
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی روایات و آثار مروی ہیں جنھیں طوالت سے بچتے ہوئے بیان نہیں کیا گیا۔تاہم مندرجہ بالا روایات صحیحہ سےیہ امر روزروشن کی طرح واضح ہوجاتا ہےکہ آثار نبویﷺسے تبرک محض نبی کریمﷺکی حیات طیبہ ہی سے خاص نہیں بلکہ آپﷺکی وفات کے بعد بھی ان سے خیر وبرکت حاصل کی جاسکتی ہےجیسا کہ صحابہ و سلف کا طریق کار تھا۔
البتہ یہاں ایک نقطہ قابل توجہ ہےکہ اہل علم کے مطابق آج کے دور میں رسول اللہﷺ کے آثار(لباس،بال مبارک وغیرہ)کا وجود کسی حتمی و قطعی دلیل سے ثابت نہیں کیا جاسکتا،لہذٰا اس باب میں کوئی یقینی بات کہنا ممکن نہیں۔(التوسل انواعہ و احکامہ،علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ،ص:۱۴۶)))
مترجم۔
(٢)((علماء کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ اولیاء و صالحین سے تبرک ممنوع ہےکیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے نبی مکرمﷺکے علاوہ کسی کے آثار سے یہ معاملہ نہیں کیا۔ان میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر ہستی موجود تھی جسے انبیاءکرام کے بعد افضل البشر ہونے کا اعزاز حاصل ہےلیکن کسی صحابی سے یہ ثابت نہیں اس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات یا آپ کے آثار سے تبرک لیا ہو۔اسی طرح دیگر کبار صحابہ مثلاًسیدنا عمر فاروق،سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی کسی کے تبرک لینے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
امام شاطبی رحمہ اللہ کے مطابق اس طرح کے تبرک کے ترک پر صحابہ کرام کا اجماع ہے(الاعتصام للشاطبی ۲/۸)۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے بھی تصریح کی ہے کہ رسول اکرمﷺکے علاوہ کسی سے تبرک لینا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا تابعین سے ثابت نہیں۔دلیل کی قوت کے علاوہ شرکیہ خرافات کے سدباب کے حوالے سے بھی یہ نقطہ نگاہ مناسب ہے،کیونکہ اولیاءاکرام اور مشائخ عظام کے تبرکات کی اجازت دے دی جائےتو پھر معاملہ ایک حد پر نہیں رکتا،بلکہ غلو اور مبالغہ امیزی کی زد میں آکر صریح شرک تک پہنچ جاتا ہے،جیسا کہ فی زمانہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
البتہ بعض اہل علم اولیاء و صالحین کو رسول مکرمﷺپر قیاس کرتے ہوئے ان سے حصول تبرک کو جائز قرار دیتے ہیں۔تبرک کے مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو۔
(التبرک انواعہ و أحکامہ،ڈاکڑ ناصر بن عبدالرحمن بن محمد الجدیع۔التبرک المشروع والتبرک الممنوع،ڈاکڑ علی بن نافع العلیانی۔مؤخر الذکر کتاب کا ترجمہ بنام’’جائز اور ناجائز تبرک‘‘مولانا عمر فاروق السعیدی حفظہ اللہ کے قلم سے شائع ہو چکا ہے)))مترجم۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
تبرک سے متعلق چند اہم قواعد و ضوابط:

1:تبرک،عبادت ہے اور عبادات میں اصل ممانعت ہےحتیٰ کہ اس کی مشروعیت اور جواز کی دلیل مل جائے۔
2:برکت سراسر اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوتی ہے۔وہی اس کا مالک اور عطا کرنے والا ہےلہذا کسی غیر سے برکت کا طلب کرنا درست نہیں۔
3:جن اشیاء کا متبرک ہونا شرعاً ثابت ہے،ان سے صرف اس شخص کو برکت حاصل ہوسکتی ہےجو توحید پر کاربند ہو اور اللہ اور رسول اللہﷺپر پختہ ایمان رکھتا ہو۔
4:جن چیزوں کی برکت ازروئے شریعت ثابت ہےان سے تبرک لینے کے لیےجائز طریقے اپنانے چاہئیں اور ایسے طور طریقوں سے اجتناب کرنا چاہیے،جو سلف صالحین سے ثابت نہیں
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اسباب کے بارے میں چند اہم ضابطے

1:وسائل و ذرائع اختیار کرنے والے کو چاہیےکہ اللہ عزوجل ہی پر حقیقی بھروسہ کرے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہی مسبب الاسباب اور ان کا موجد ہے۔
2:یہ علم ہونا چاہیےکہ یہ اسباب اللہ تعالیٰ کے قضا ءوقدرسے مربوط ہیں۔
3:کسی چیز کے سبب ہونے کا اثبات دو طریقوں سے ہو سکتا ہے،جو درج ذیل ہیں:
1:ازروئے شرع:
مثلاً شہد سببِ شفا ہے،اس کی دلیل اللہ رب العزت کا یہ فرمان ہے:
فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ(النحل:۶۹)
’’اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے‘‘
2:ازروئے تجربہ:
مثلاً اشیاء کو آگ جلانے کا سبب ہےلیکن اس طریقے میں ضروری ہےکہ کسی شے کے سبب ہونے کا ثبوت ظاہر ہواور اسی چیز کا براہ راست نتیجہ ہوکیونکہ غیر ظاہر اور مخفی ثبوت حتمی اور یقینی نہیں ہوتا بلکہ عموماً محض دعوی اور وہم کی حیثیت رکھتا ہےمثلاً یہ گمان رکھنا کہ چھلہ پہننا نظر بد سے حفاظت اور بچاؤ کا سبب ہے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
توسل و وسیلہ

تعریف:
لغت کی رو سے توسل کا لفظ وسیلہ سے نکلا ہے،جس سے مراد وہ شے ہےجس کے ذریعے کسی دوسری چیز تک پہنچا جاتا ہےاوراس کا قرب حاصل کیا جاتا ہے
۔
اقسام:
اس کی دو قسمیں ہیں:
1:توسل مشروع
2:توسل ممنوع
ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
مشروع توسل:

اس کی تین اقسام ہیں:
1:اللہ عزوجل کے اسماءوصفات میں سے کسی اسم وصفت کا وسیلہ پکڑنا۔
2:اپنے نیک عمل کے ذریعے سے توسل۔
3:کسی زندہ صالح شخص کی دعا کا وسیلہ پکڑنا۔
ممنوع توسل:

مندرجہ بالا امور ثلاثہ کے علاوہ ہر قسم کا توسل ممنوع ہے،اس کی کئی صورتیں ہیں:مثلاً
1:جناب باری تعالیٰ میں دیگر اشخاص کے حق یا جاہ کا وسیلہ پکڑنا یا بحق فلاں یا بجاہ فلاں کہہ کر سوال کرنا۔
2:اولیاء و صالحین سے دعا مانگنا اور ان کے لیے نذر مانگنا۔
3:اولیاء کی روحوں کے لیے جانور ذبح کرنا اور ان کی قبروں کے گرد چکر لگانا اور وہاں حلقے بنانا
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا

ذبح کی تعریف:
لغت کی رو سے ذبح چیرنے پھاڑنے اور کاٹنے کے ہم معنی ہے۔
اصطلاحی زبان میں کسی ہستی کی تعظیم اور اس کے تقرب کی نیت سے کسی جاندار کو مخصوص طریقے سے ہلاک کرنا اور خون بہانا ذبح کہلاتا ہے۔
اقسام ذبائح:

یہ تین قسموں میں منقسم ہے:
مشروع ذبائح
مباح ذبائح
شرکیہ ذبائح
مشروع ذبائح:

مثلاً
1:قربانی کرنا۔
2:اللہ کے نام پر نذر کا جانور ذبح کرنا۔
3:ہدی(حرم میں بھیجا جانے والا قربانی کا جانور)ذبح کرنا
4:حج و عمرہ میں فدیہ کی صورت میں جانور ذبح کرنا
5:بچوں کی ولادت پر عقیقہ کا جانور ذبح کرنا
6:قرب خداوندی کے حصول کی خاطر صدقہ کا جانور ذبح کرنا
7:مہمانوں کے اکرام و خدمت کے لیے جانور ذبح کرنا
مباح ذبائح:

مثلاً
فروخت کے لیے قصاب کا جانور ذبح کرنا
عمومی طور پر کھانے کے لیے جانور ذبح کرنا
شرکیہ ذبائح:

مثلاً
۱:بتوں کے نام پر جانور ذبح کرنا
۲:جنوں کے لیے جانور ذبح کرنا
۳:مشاہد،قبوں اورقبروں میں مدفون ہستیوں کی خاطر جانور ذبح کرنا
۴:نئے گھر میں رہائش سے قبل اس نیت سے جانور ذبح کرنا کہ جنوں سے حفاظت ہو سکے
۵:نئے شادی شدہ جوڑے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے جانور ذبح کرنا اور ان دونوں کا اس جانور کے خون پر چلنا
۶:اللہ کے لیے ذبح کرنا لیکن ذبح کرتے وقت اس پر غیر اللہ کانام لینا
خلاصہ بحث:
1:ذبح عبادت ہےلہٰذا اسے غیراللہ کی طرف پھیرنا شرک ہے،
اس کی دلیل باری تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ(الانعام:۱۶۲)
’’آپﷺفرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادات اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہےجو سارے جہاں کا مالک ہے‘‘
2:غیر اللہ کے لیے ذبح کو شرک اکبر قرار دیا جائے گا اور ایسا کرنے والا ملعون ہوگا
اس کی دلیل رسول اللہﷺکا یہ فرمان ہے:
((لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ))صحیح مسلم،کتاب الاضاحی،باب تحیریم الذبح لغیر اللہ تعالیٰ ولعن فاعلہ،ح:۱۹۷۸)
’’جو شخص غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے‘‘​
 
Top