بدفالی اور بد شگونی
تعریف:
لغوی اعتبار سے یہ
التَّطَیُّرْ سے نکلا ہےجس کے معنی کسی چیز سے نیک فال یا بد شگونی لینے کے ہیں۔
اصطلاحی طور پر اس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسی شے سے بد فالی لی جائےجسے دیکھا،سنا یا معلوم کیا جا سکے۔
بدشگونی کا حکم:
بدفالی توحید کے منافی ہےاور اس کی دو وجوہ ہیں:
1:
بدشگونی لینے والااللہ تعالیٰ پر اپنا بھروسہ ختم کرکےغیر اللہ پر اعتماد کرتا ہے۔
2:
وہ ایک ایسے معاملہ میں مبتلا ہوا ہےجس کی کوئی حقیقت نہیں،بلکہ وہ محض وہم وتخیل پر مبنی ہے۔
بدفالی کی ممانعت کی دلیل:
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ(الاعراف:۱۳۱)
’’در حقیقت ان کی فال بدتو اللہ کے پاس تھی،مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے‘‘
رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ‘‘(صحیح بخاری،کتاب الطب،باب لا ھامۃ،ح:۵۷۵۷ ،وصحیح مسلم،کتاب اسلام،ح:۲۲۲۰)
’’کوئی بیماری متعدی نہیں،بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔نہ الو کا بولنا(کوئی برا اثر رکھتا ہے)اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے‘‘
نیز نبی کریمﷺکا یہ ارشاد ہے:
’’الطِّيَرَةُ شِرْكٌ‘‘(سنن ابی داؤد،کتاب الکھانۃ و التطیر،باب فی الطیرۃ،ح:۳۹۱۹)
’’بدفالی شرک ہے‘‘
بد شگونی لینے والے کی مختلف حالتیں:
ایسا کرنے والا دو حال سے خالی نہیں:
۱:
ایک تو یہ ہےکہ وہ بدشگونی کا اثر قبول کرتے ہوئےکسی کام سے باز آجائےاور اس سے رک جائےیا کسی عمل کو چھوڑ دے۔یہ پرلے درجے کی بدفالی اور بدشگونی ہے۔
۲:
دوسری صورت یہ ہےکہ وہ کام جاری رکھےلیکن انتہائی اضطراب و بے چینی،رنج والم اور غم و پریشانی کا شکار ہو جائےاور بدشگونی والی شے کی نحوست کے اثر سے ڈرتا رہے،یہ بھی اگرچہ بدفالی ہی ہےلیکن پہلی حالت سے قدرے ہلکی ہے۔
یہ دونوں رویےتو حید میں نقص اور انسان کے لیے ضررونقصان کا باعث ہیں۔
بد فالی کے خیالات و وساوس سے بچنے کی دعا:
جس شخص کے دل میں بدشگونی وغیرہ کا احساس اور خیال پیدا ہواسے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
((اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ))
(سنن ابی داؤد،کتاب الکھانۃ و التطیر،باب فی الطیرۃ،ح:۳۹۱۰،جامع ترمذی،کتاب السیر،باب ماجاء فی الطیرۃ،ح:۱۶۱۴)
’’اے اللہ تیرے سوا کوئی بھلائی نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائی دور نہیں کر سکتا اور تیری مدد کے بغیر ہمیں نہ بھلائی کی طاقت ہےاور نہ برائی سے بچنے کی ہمت‘‘
نیز یہ دعا بھی پڑھے:
اَللَّھُمَّ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَ لَا اِلَہٰ غَیْرُکَ(مسند احمد:۲/۲۲۰۔البانی نے صحیح کہا ہے)
’’یا اللہ تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیرے شگون کے سوا کوئی شگون نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘
ان امور کا بھی اہتمام کر نا چاہیے:
1:بد شگونی کے نقصان سے آگاہی
2:اپنے نفس کے خلاف جہاد
3:الل عز وجل سے حسن طن
4:استخارہ کا عمل
ممنوع بد شگونی کونسی ہے:
نبی مکرمﷺکا فرمان ہے:
إنَّما الطِّيَرَةُ ما أمضاكَ أو ردَّكَ(مسند احمد:۱/۹۲۱۳)
’’فال بد وہ ہےجو ،تجھے کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرے یا اس سے روک دے‘‘
نیک فال:
اس سے مراد یہ ہےکہ انسان اچھی بات سن کراظہار مسرت کرےاور اس پر خوش ہو۔
نیک شگونی کی مثال یہ ہےکہ کوئی شخص سفر کا ارادہ کرےاوراس سے کہا جائے:یا سالم(تو محفوظ و مامون رہے)تو وہ یہ بات سن کر خوشی کااظہار کرے۔
اس کا حکم یہ ہےکہ یہ جائز اور درست ہے۔
نیک فال کی دلیل رسول اللہﷺکا یہ فرمان ہے:
’’مجھے فال پسند ہے‘‘(صحیح بخاری،کتاب الطب،باب لا عدوی،ح:۵۷۷۶)
بد فالی اورنیک شگونی میں فرق:
ا:
بدشگونی اللہ تعالیٰ سے بدگمانی اور اس کا حق غیر اللہ کی طرف منتقل کرنے کے مترادف ہے۔اس میں انسان اپنا دل مخلوق کی طرف متوجہ کرتا ہےجسے نہ نفع دینے کی قدرت ہےاورنہ نقصان پہنچانے کا اختیار۔
ب:
نیک فال،اللہ سے حسن ظن رکھنے کا نام ہےیہ انسان کو اس کے امور و مشاغل سے روکنے کا باعث نہیں بنتی