• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم توحید

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
غیر اللہ کی نذر و نیاز

تعریف:
لغوی اعتبار سے نذر کے معنی’’الزام‘‘یعنی کوئی شے لازم کرنے کے ہیں۔
شرعی اصطلاح میں اس سے مراد ہے:
((اِلْزَامُ الْمکَلِّفِ نَفْسَہٗ طَاعَۃً غَیْرَ لَازِمَۃِِ تَعْظِیْمًا لِلْمَنْذُوْرِلَہٗ))
’’مکلف کا اپنے اوپر ایسا نیک عمل لازم کر لینا جو اس پر لازم نہ تھا،اس سے اس ہستی کی تعظیم و تکریم مقصود ہوتی ہےجس کےلیے یہ نذر مانی جا رہی ہے‘‘
نذر عبادت الہیٰ ہے:
یہ معلوم رہنا چاہیے کہ نذر عبادت ہےجس کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے،لہٰذا اللہ کے سواکسی اور کے لیے نذر نہیں ماننی چاہیے۔جو غیر اللہ کے نام پر نذر مانتا ہےوہ شرک اکبر کا مرتکب ٹھہرتا ہے،اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ(الدھر:۷)’’جو نذر پوری کرتے ہیں‘‘
اگر کسی نے غیر اللہ کے لیے نذر مانی تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔
نذر،شرک کب ہو گی؟
جب انسان غیر اللہ کی تعظیم و تقرب کے لیےاپنے اوپر کوئی شے لازم کر لےتو یہ نذر،شرک کہلائے گی
۔
مثلاً
1:کوئی یو ں کہے کہ اگر اللہ نے میرے مریض کو شفا دی تو فلاں ولی کی قبر پر اتنی بکریاں یا مال دوں گا۔
2:اگر میرے ہاں اولاد ہوئی تو میں فلاں ولی کے لیےاس کی قبر پر جانور ذبح کروں گا۔
3:فلاں ولی یاجن کی نذر مجھ پر لازم ہےکہ میں تین جانور ذبح کروں۔
4:بتوں کے نام پر نذر ماننا
5:سورج اورچاند کے نام پر نذر ماننا
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
استعانت،استغاثہ اور استعاذہ

معنی و مفہوم:
1:استعانت کے معنی اعانت طلب کرنے کے ہیں۔
2:استغاثہ فریاد کرنے کو کہتے ہیں،یہ غوث سے نکلا ہےجس کے معنی فریاد رسی کے ہیں یعنی کسی سخت نقصان اور ہلاکت سے بچانا۔
3:استعاذہ سے مراد ہےپناہ مانگنا۔
یہ تینوں امور عبادت ہیں،اس کے دلائل درج ذیل ہیں۔
استعانت
اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے:
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُؕ(الفاتحہ:۵)’’(اے اللہ)ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چا ہتے ہیں‘‘
استغاثہ
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ۠ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ(الانفال:۹)
’’(اور وہ وقت یاد کرو)جب تم اپنے رب سے(مدد کے لیے)فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرما لی‘‘
استعاذہ
اس کی دلیل اللہ عزوجل کا یہ ارشاد ہے:
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(الناس:۱)
’’فرما دیجیے میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں‘‘
غیر اللہ سے استعانت،استغاثہ اور استعاذہ کا حکم:
غیر اللہ سے مدد طلب کرنے،فریاد رسی چاہنے اور پناہ مانگنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔
جائز:
جب چار شرائط پوری ہو تو یہ امور غیر اللہ کی طرف پھیرے جا سکتے ہیں
استعانت،استغاثہ اور استعاذہ کے متعلق شرائط:
1:جس معاملے میں مدد و اعانت یا پناہ کی ضرورت ہے،وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہ ہو۔
2:مخلوق اس پر قادر ہو۔
ب:جس سے اعانت و مدد یا پناہ مانگی جا رہی ہے،اس سے متعلق شرائط:
1:وہ زندہ ہو(فوت شدہ نہ ہو)
2:موقعہ پر موجود ہو(غائب نہ ہو)
شرکیہ:
جب مذکورہ بالا چارشرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی کم ہو تو اس صورت میں غیر اللہ سے مدد مانگنا،اعانت چاہنا اور پناہ طلب کرنا شرک متصور ہوگا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
شفاعت

تعریف:
لغت کی رو سے لفظ شفاعۃ،شَفَعَ یَشْفَعُ کا مصدر ہےجس کے معنی جوڑا بنانے کے ہیں۔شفع،وتریعنی طاق کے بالمقابل آتا ہے۔
اصطلاحی اعتبار سے شفاعت کے معنی ہیں:حصول منفعت اور دفع مضرت کے لیے کسی غیر کو واسطہ بنانا یعنی اس سے سفارش کروانا۔
شفاعت کی اقسام:

اس کی دو قسمیں ہیں
1:شفاعت منفیہ(غیر مقبولہ)
2:شفاعت مثبتہ(مقبولہ)
ان کی وضاحت درج ذیل ہے
شفاعت منفیہ:

اس میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:
تعریف:
منفی اور غیر مقبول شفاعت سے مراد ہےکہ غیر اللہ سے ایسے امور و معاملات میں سفارش کی درخواست کی جائے،جن پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا۔
دلیل:
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ذی ذیشان ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(البقرہ:۲۵۴)
’’اے ایمان والو جو ہم نے تم کو دے رکھا ہےاس میں سے خرچ کرتے رہواس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہےنہ دوستی اور نہ شفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں‘‘
شفاعت مثبتہ:

اس سلسلے میں درج ذیل امور مستحق غور ہیں:
تعریف:
مقبول سفارش وہ ہےجو اللہ تعالیٰ ہی سے طلب کی جائے۔
مقبول شفاعت کی شرائط:
اس کی دو شرائط ہیں:
1:شفاعت کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کی اجازت۔
2:شفاعت کرنے والے اور جس کے حق میں سفارش کی جائے،دونوں کے لیے اللہ کی رضا اور خوشنودی۔
دلیل:
اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ(البقرہ:۲۵۵)
’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کر سکے‘‘
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَيْـًٔااِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَرْضٰى (النجم:۲۶)
’’اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں سے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہےکہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اجازت دے دے‘‘
زندہ اور صاحب قدرت شخص سے سفارش کرانے کا حکم:
1:اگر آپ اس سے ایسے معاملے میں سفارش کی درخواست کرتے ہیں جو مشروع اور مباع ہےاور وہ اس پر قدرت بھی رکھتا ہےتو یہ جائز اور خیر وبھلائی میں تعاون کے قبیل سے ہے۔
2:اگر غیر اللہ سے ایسی شے طلب کی جائے جس پر سوائے اللہ کے اور کوئی قادر نہیں تو یہ شرک ہے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
زیارتِ قبور

قبروں کی زیارت تین قسموں پر ہے:
1:زیارت شرعیہ:
اس سے مراد یہ ہےکہ قبروں کی زیارت درج ذیل مقاصد کے پیش نظر کی جائے:
۱:آخرت کی یاد دہانی
۲:قبروں میں مدفون افراد کو سلام کرنا۔
۳:ان کے لیے دعا کرنا
2زیارت بدعیہ:
یہ کمال توحید کے منافی اور ذرائع شرک میں سے ایک وسیلہ ہے۔اس میں کئی امور شامل ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
۱:اللہ تعالیٰ کی عبادت کی نیت سے قبر کے پاس جانا۔
۲:قبر سے حصول خیر وبرکت چاہنا یعنی اس سے تبرک لینا۔
۳:قبر پر ایصال ثواب کے لیے جانا۔
کسی قبر کے لیے بطور خاص سفر کرنا
3زیارت شرکیہ:
یہ عقیدہ توحید کے منافی ہے اوراس سے مراد ہے:صاحب قبر کے لیے کوئی ایسا عمل بجا لانا جو عبادت کی اقسام میں شامل ہے مثلاً:
۱:اللہ کی بجائے اسے پکارا جائےاور اسے دعا مانگی جائے۔
۲:اس سے اعانت طلب کی جائےاور فریاد رسی چاہی جائے۔
۳:اس کے نام کی نذر مانی جائےیا اس کے لیے جانور ذبح کیا جائے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
جادو

تعریف:
لغت کی رو سے جس چیز کے وجوہ واسباب پوشیدہ اورانتہائی لطیف و دقیق ہوں،اسے’’سحر‘‘یعنی جادو کہتے ہیں۔
اصطلاحی اعتبار سے اس سے مراد وہ دم،جھاڑ پھونک،منتر،تعویذ،دوائیں اور جڑی بوٹیاں ہیں جو باذنِ الہٰی قلب و بدن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
جادو کی اقسام:
اس کی دو قسمیں ہیں:
1:شرک اکبر:
جو جادو جن اور شیاطین کے ذریعے کیا جائے وہ شرک اکبر میں شامل ہے۔اس میں جن اور شیطانوں کی عبادت کی جاتی ہے۔نیز انہیں سحر زدہ شخص پر مسلط کرنے کے لیے ان کا قرب حاصل کیا جاتا ہےاوران کے سامنے سربسجود ہوا جاتا ہے۔
2:فسق و عدوان:
اس سے مراد وہ جادو ہے جو ادویات یا جڑی بوٹیوں کے ذریعے کیا جائے۔ہاتھ کی صفائی اور نظروں کا دھوکہ دینا بھی اس میں شامل ہے۔
جادوگر کا حکم:
1:اگر اس کا جادو پہلی قسم (شرک اکبر) سے تعلق رکھتا ہےتو وہ کافر ہےاور اسے مرتد ہونے کی بنا پر قتل کر دیا جائے گا۔
2:اگر جادوگرکا سحر دوسری قسم سے ہے تواسے کافر تو قرار نہیں دیا جائے گا البتہ اسے فاسق و نافرمان کہا جائے گا اور اگر حاکم اور ذمہ دار اتھارٹی مناسب سمجھے تو اس کے جادوئی حربوں اور حملوں سے بچنے کے لیے اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔
جادو کفر ہے:
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
وَ مَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ(البقرہ:۱۰۲)
’’دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ کہہ دیتے کہ ہم تو محض آزمائش(کے لیے)ہیں سو تم کافر نہ بنو‘‘
لہذا جو شخص جادو کرے،اس کی تعلیم حاصل کرے،اسے سیکھنے کی کوشش کرے یا اس پر اظہار پسندیدگی کرے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
نُشرہ کا حکم:
جس شخص پر جادو کا اثر ہو اس سے جادو اتارنے کونشرہ کہتے ہیں۔
اس کی دو قسمیں ہیں:
۱:پہلی یہ ہےکہ جادو کا علاج جادو ہی سے کیا جائے۔یہ حرام اور شیطانی عمل ہے۔
۲:دوسری قسم وہ علاج معالجہ ہےجو دم ،تعویذ شرعی اور جائز ادویات سے کیا جاتا ہےیہ جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
لوگوں کو جادوگر سے باخبر اور محتاط رہنے کی تلقین کرنا:
یہ امر لاز م ہےکہ لوگوں کو معاشرے میں موجود ساحروں اور جادوگروں سے باخبر رکھا جائےاور انہیں ان سے محتاط رہنے کی تاکید کی جائےاس لیے یہ انکار منکر اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا اہم تقاضہ ہے۔
جادوگر کو پہچاننے کی علامات:
جب کسی معالج میں درج ذیل علامتوں میں سے کوئی ایک علامت بھی نظر آئےتو بے شک و شبہ وہ جادوگر ہوگا:
۱:مریض سے اس کا اور اس کی والدہ کا نام پوچھے۔
۲:مریض کی کوئی چیز طلب کرے مثلاً،کپڑا،رومال،قمیص یا چوغہ وغیرہ
۳:اعداد یا مختلف لکیریں کھینچ کر نقش تیار کرے۔
۴:مختلف قسم کے منتر اور ناقابل فہم کلمات پڑھے۔
۵:ذبح کرنے کے لیے مخصوص اوصاف کا حامل جانور طلب کرےاور ذبح کرتے ہوئے اس پر اللہ کا نام نہ لے۔پھر اس کا خون ان جگہوں پر چھڑک دے جو مریض کے لیے باعث تکلیف ہیں یا اس جانور کو کسی ویران مقام پر پھینک دے۔
۶:مریض کو ایسا حجاب یا پردہ دےجو مربع شکل کے چوکور خانوں پر مشتمل ہو اور ان میں مختلف حروف اور اعداد لکھے ہوں۔
۷:منہ ہی منہ میں ایسے الفاظ بولےجن کے معنی معلوم نہ ہو سکیں۔
۸:مریض کو کچھ اوراق دے کہ وہ انہیں جلا کر ان کی دھونی لے۔
۹:مریض کو زمین میں دفن کر نے کے لیے کچھ اشیاء دے۔
(ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے عاملوں،جادوگروں اور بنگالی بابوں میں یہ تمام علامات پائی جاتی ہیں،لیکن اس کے باوصف لوگ ان کے دام تزویر میں پھنس کر متاع دین و دنیا لٹائے جا رہے ہیں۔اعاذنا اللہ منہ۔مترجم))
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
غیب دانی اور علم نجوم(الْکَھَانَۃُ وَ الْعَرَافَۃ)

کاہن کی تعریف:
جو شخص جنوں اورشیطانوں کے ذریعے زمانہ مستقبل میں ہونے والے کسی کام کی خبر دے،اسے کاہن کہتے ہیں
عرّاف(نجومی)کی تعریف:
اس سے مراد وہ شخص ہےجو خفیہ طریقوں سے امور حاضرہ کی معرفت کا دعوی کرے مثلاً جائے سرقہ اور گمشدہ چیز کی نشاندہی کرے۔
غیب دانی کا دعوی کفر ہے:
کیونکہ یہ قرآن مجید کی تکذیب کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ(النمل:۶۵)
’’ان سے کہو ، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا‘‘
غیب کی خبریں بتانے والوں کی اقسام:
۱:جو شخص جنوں کے ذریعے غیب کی باتیں بتائے،اسے ’’کاہن‘‘کہا جاتا ہے
۲:زمیں میں لکیریں کھینچ کر غیبی امور کی خبر دینے والا’’رمال‘‘کہلاتا ہے
۳:جو ستاروں کے ذریعے غیب کی خبر دے اسے ’’منجم‘‘کہتے ہیں۔
۴:پوشیدہ ذرائع سے گمشدہ اور مسروقہ چیزوں کا پتہ بتانے ولے شخص کو عراف کا نام دیا جاتا ہے۔
کاہنوں،نجومیوں اور جادوگروں کے پاس جانے کا حکم:
اس کی دو صورتیں ہیں:
1:پہلی یہ کہ کوئی ان کے پاس جاکر باتیں پوچھے لیکن ان کی تصدیق نہ کرے۔اس کا حکم یہ ہےکہ یہ حرام اور کبیرہ گناہ ہےاور ایسا کرنے والے کی نماز چالیس روز تک قبول نہیں ہو گی۔
اس کی دلیل رسول معظمﷺکا یہ فرمان ہے:
مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً(صحیح مسلم،کتاب السلام،باب تحریم الکھافۃ واتیان الکھافۃ،ح:۲۲۳۰)
’’جس نے کسی نجومی کے پاس جا کر کچھ دریافت کیا تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہو گی‘‘
اس سے مراد یہ ہےکہ اسے اپنی نماز کا کوئی اجر نہیں ملے گا،اگرچہ فرض ادا ہو جائے گا۔
2:دوسری صورت یہ ہےکہ ان سے کوئی چیز دریافت کرےاورپھر اسے سچا سمجھے۔
اس کا حکم یہ ہےکہ یہ محمدﷺپر نازل شدہ دین سے کفر ہے۔
اس کی دلیل رسول اللہﷺکا یہ فرمان ہے:
مَنْ أَتَى كَاهِنًا أَوْ عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ ﷺ "
’’جو شخص کسی نجومی اور کاہن کےپاس جائےاوراس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے شریعت محمدﷺکا انکار کر دیا‘‘
(مسند احمد:۲/۴۲۹،والمستدرک حاکم:۱/۸۔و سنن الکبری للبیہقی:۸/۱۳)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
بدفالی اور بد شگونی

تعریف:
لغوی اعتبار سے یہ التَّطَیُّرْ سے نکلا ہےجس کے معنی کسی چیز سے نیک فال یا بد شگونی لینے کے ہیں۔
اصطلاحی طور پر اس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسی شے سے بد فالی لی جائےجسے دیکھا،سنا یا معلوم کیا جا سکے۔
بدشگونی کا حکم:
بدفالی توحید کے منافی ہےاور اس کی دو وجوہ ہیں:
1:
بدشگونی لینے والااللہ تعالیٰ پر اپنا بھروسہ ختم کرکےغیر اللہ پر اعتماد کرتا ہے۔
2:
وہ ایک ایسے معاملہ میں مبتلا ہوا ہےجس کی کوئی حقیقت نہیں،بلکہ وہ محض وہم وتخیل پر مبنی ہے۔
بدفالی کی ممانعت کی دلیل:
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا طٰٓىِٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ(الاعراف:۱۳۱)
’’در حقیقت ان کی فال بدتو اللہ کے پاس تھی،مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے‘‘
رسول اللہﷺنے فرمایا:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ‘‘(صحیح بخاری،کتاب الطب،باب لا ھامۃ،ح:۵۷۵۷ ،وصحیح مسلم،کتاب اسلام،ح:۲۲۲۰)
’’کوئی بیماری متعدی نہیں،بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔نہ الو کا بولنا(کوئی برا اثر رکھتا ہے)اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے‘‘
نیز نبی کریمﷺکا یہ ارشاد ہے:
’’الطِّيَرَةُ شِرْكٌ‘‘(سنن ابی داؤد،کتاب الکھانۃ و التطیر،باب فی الطیرۃ،ح:۳۹۱۹)
’’بدفالی شرک ہے‘‘
بد شگونی لینے والے کی مختلف حالتیں:

ایسا کرنے والا دو حال سے خالی نہیں:
۱:
ایک تو یہ ہےکہ وہ بدشگونی کا اثر قبول کرتے ہوئےکسی کام سے باز آجائےاور اس سے رک جائےیا کسی عمل کو چھوڑ دے۔یہ پرلے درجے کی بدفالی اور بدشگونی ہے۔
۲:
دوسری صورت یہ ہےکہ وہ کام جاری رکھےلیکن انتہائی اضطراب و بے چینی،رنج والم اور غم و پریشانی کا شکار ہو جائےاور بدشگونی والی شے کی نحوست کے اثر سے ڈرتا رہے،یہ بھی اگرچہ بدفالی ہی ہےلیکن پہلی حالت سے قدرے ہلکی ہے۔
یہ دونوں رویےتو حید میں نقص اور انسان کے لیے ضررونقصان کا باعث ہیں۔
بد فالی کے خیالات و وساوس سے بچنے کی دعا:
جس شخص کے دل میں بدشگونی وغیرہ کا احساس اور خیال پیدا ہواسے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
((اللَّهُمَّ لَا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ))
(سنن ابی داؤد،کتاب الکھانۃ و التطیر،باب فی الطیرۃ،ح:۳۹۱۰،جامع ترمذی،کتاب السیر،باب ماجاء فی الطیرۃ،ح:۱۶۱۴)
’’اے اللہ تیرے سوا کوئی بھلائی نہیں لاتا اور تیرے سوا کوئی برائی دور نہیں کر سکتا اور تیری مدد کے بغیر ہمیں نہ بھلائی کی طاقت ہےاور نہ برائی سے بچنے کی ہمت‘‘
نیز یہ دعا بھی پڑھے:
اَللَّھُمَّ لَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَ لَا اِلَہٰ غَیْرُکَ(مسند احمد:۲/۲۲۰۔البانی نے صحیح کہا ہے)
’’یا اللہ تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیرے شگون کے سوا کوئی شگون نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں‘‘
ان امور کا بھی اہتمام کر نا چاہیے:
1:بد شگونی کے نقصان سے آگاہی
2:اپنے نفس کے خلاف جہاد
3:الل عز وجل سے حسن طن
4:استخارہ کا عمل
ممنوع بد شگونی کونسی ہے:
نبی مکرمﷺکا فرمان ہے:
إنَّما الطِّيَرَةُ ما أمضاكَ أو ردَّكَ(مسند احمد:۱/۹۲۱۳)
’’فال بد وہ ہےجو ،تجھے کسی کام کے کرنے پر آمادہ کرے یا اس سے روک دے‘‘
نیک فال:
اس سے مراد یہ ہےکہ انسان اچھی بات سن کراظہار مسرت کرےاور اس پر خوش ہو۔
نیک شگونی کی مثال یہ ہےکہ کوئی شخص سفر کا ارادہ کرےاوراس سے کہا جائے:یا سالم(تو محفوظ و مامون رہے)تو وہ یہ بات سن کر خوشی کااظہار کرے۔
اس کا حکم یہ ہےکہ یہ جائز اور درست ہے۔
نیک فال کی دلیل رسول اللہﷺکا یہ فرمان ہے:
’’مجھے فال پسند ہے‘‘(صحیح بخاری،کتاب الطب،باب لا عدوی،ح:۵۷۷۶)
بد فالی اورنیک شگونی میں فرق:
ا:
بدشگونی اللہ تعالیٰ سے بدگمانی اور اس کا حق غیر اللہ کی طرف منتقل کرنے کے مترادف ہے۔اس میں انسان اپنا دل مخلوق کی طرف متوجہ کرتا ہےجسے نہ نفع دینے کی قدرت ہےاورنہ نقصان پہنچانے کا اختیار۔
ب:
نیک فال،اللہ سے حسن ظن رکھنے کا نام ہےیہ انسان کو اس کے امور و مشاغل سے روکنے کا باعث نہیں بنتی
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
علم نجوم

تعریف:
ازروئے لغت یہ نَجَّمَ یُنَجَّمُ کا مصدر ہےاس کا مطلب ہےعلم نجوم سیکھنا یا ستاروں کی تاثیر کا اعتقاد رکھنا۔
علم نجوم کی اقسام:

اس کی دو قسمیں ہیں:
1:علم الاحکام و التاثیر
2:علم الاسباب و التسییر
ان کی تو ضیح درج ذیل ہے:
علم الاحکام و تاثیر:
یہ تین قسموں میں منقسم ہے:
۱:یہ اعتقاد رکھنا کہ ستارے از خود فاعل اور موثر ہیں یعنی زمینی حوادث اور فتنہ و فساد یہی تخلیق کرتے ہیں یہ شرک اکبر ہے۔
۲:ستاروں کو سبب قرار دے کر ان کی بنیاد پر علم غیب کا دعوی کرنا،یہ کفر اکبر ہے۔
۳:یہ عقیدہ رکھنا کہ خیر و شر کے وقوع پذیر ہونے کا سبب یہی ستارے ہیں،اگرچہ فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے،یہ حرام اور شرک اصغر ہے۔
علم اسباب و تسییر:
اس کی دو قسمیں ہیں:
1:ستاروں کی رفتار و حرکات سے دینی مصالح میں فائدہ اُٹھانا۔
یہ مطلوب و مستحسن ہے۔مثال کے طور پر قبیلے کے تعیین میں ستاروں سے مدد لینا
2:دنیاوی معاملات میں ستاروں سے فائدہ اُٹھانا
اس کی دو صورتیں ہیں:
۱:مختلف جہات اور سمتیں معلوم کرنا،یہ جائز اور درست ہے۔
۲:ان کی مدد سے مختلف اوقات اور زمانوں کا تعین کرنا،اس باب میں صحیح بات یہ ہےکہ اس میں کوئی کراہت یا ناپسندیدگی نہیں بلکہ یہ درست ہے۔
تخلیق نجوم کی حکمتیں:
اللہ عزوجل نے ستاروں کو تین مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے:
1:آسمانوں کی زینت کے لیے
2:شیطانوں کو مارنے اور بھگانے کی خاطر
3:بحر وبر میں راستے معلوم کرنے کی غرض سے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
ستاروں کے اثر سے بارش برسنے کا عقیدہ

الاستقاءبالانواء:
استسقاء کے معنی ہیں:طلب السقیا یعنی پانی اور سیرابی کی طلب و خواہش
انواء جمع ہے،اس کا واحد نوء آتا ہے۔اس سے ستاروں کی منزلیں مراد ہیں،جن کی تعداد آٹھائیس ہے۔
استسقاءبالانواء کا مطلب ہےبارش کو ستاروں کی مختلف منزلوں کی جانب منسوب کرنا۔
اس کی اقسام:
استسقاء بالانواء کی تین اقسام ہیں:
1شرک اکبر:
اس کی دو صورتیں ہیں:
۱:پہلی یہ ہےکہ ستاروں سے بارش برسانے کی درخواست کی جائے۔
مثلاً یو ں کہا جائےکہ اے فلاں ستارے ہمیں سیراب کریا ہم پر پانی برسا یا اس سے ملتی جلتی بات کہی جائے۔
۲:دوسری صورت یہ ہےکہ بارش کا حصول ستاروں کی ان منزلوں کی طرف منسوب کیا جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائےکہ اللہ کی بجائےیہی ستارے از خود فاعل ہیں۔خواہ ان ستاروں کو پکارا نہ بھی جائےجیسا کہ پہلی صورت میں تھا۔
2شرک اصغر:
اس سے مراد یہ ہےکہ ستاروں کو بارش برسنے کا محض سبب قرار دیا جائے۔
3جائز:
اگر ستاروں کی مختلف منازل کو موئژ حقیقی یا سبب قرار دینے کی بجائے محض علامت سمجھا جائےتو یہ درست ہے،اس میں کوئی حرج نہیں۔
بارش کو ستاروں کی طرف منسوب کرنا حرام ہے۔
اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ(الواقعہ:۸۲)
’’اور(اس نعمت میں)اپنا حصہ تم نے یہ رکھا ہےکہ اسے جھٹلاتے ہو‘‘
مجاھد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مشرکین کے اس عقیدے کی طرف اشارہ ہےکہ((مُطِرْنَا بِنَوْء کَذَا بِنُوْءِکَذَا))یعنی ہم پر فلاں ستارے کی وجہ سے نازل ہوئی۔
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ : " أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ
(صحیح بخاری،کتاب الستسقاء،باب قولہ تعالیٰ(و تجعلون رزقکم انکم تکذبون)ح:۱۰۳۸)

’’کیا تمھیں معلوم ہےکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپﷺنے فرمایا:اللہ فرماتا ہےکہ آج صبح میرے بہت سے بندے مومن ہوگئے اور بہت سے کافر،جس نے کہاکہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہےتو وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں سے اس نے کفر کیا اور جس نے یہ کہا کہ ہم پر یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی ہے،اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
ریاکاری

تعریف:
عربی زبان کی رو سے الریاء کے معنی ہیں((اِظْھَارُ الَّشْیٔ لِلْغَیْرِ لِیَرَاہٗ))یعنی’’کسی کو دکھانے کے لیے کوئی شے ظاہر کرنا‘‘
شرعی اعتبار سے اس کا مطلب ہےکہ نیکی کا عمل کرتے ہوئےیہ نیت رکھی جائےکہ لوگ اس کو دیکھ لیں اور نیکی کرنے والے کی تعریف کریں۔
نیکی کا حکم:
اس کی دو صورتیں ہیں:
1:معمولی قسم کی ریا
یہ شرک اصغر ہے۔
2:تمام یا اکثر اعمال ریا پر مبنی ہوں
یہ شرک اکبر ہے۔مومن ایسی ریاکاری کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ یہ منافقوں کی علامت ہے۔
ریا کی سنگینی:
اس باب میں نکات لائق ذیل توجہ ہیں:
۱:یہ شرک اصغر ہے
رسول اکرمﷺکا ارشاد ہے:
اَخْوَفُ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمْ الشِّرْکُ الْاصْغَرُ
’’مجھے تم پر سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ شرک اصغر ہے‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یارسول اللہﷺشرک اصغر کیا ہے؟فرمایا
’’الِّریَاءُ‘‘
’’ریاکاری‘‘(مسند احمد:۵/۴۲۱،۴۲۸،مجمع الزوائد:۱/۱۰۲)
۲:ریا بغیر توبہ کے معاف نہ ہوگی۔
کیونکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ(النساء:۴۸)
’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا ، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے‘‘
یہ آیت شرک اکبر اور شرک اصغر ہر دو کو شامل ہے۔
ریا سے عمل ضائع ہوجاتا ہے۔
جس عمل کی بنیاد ریاکاری پر ہو وہ عمل تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔رسول معظمﷺکا ارشاد گرامی ہے:
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى : أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ
(صحیح مسلم،کتاب الزھد والرقائق،باب الریاء،ح:۲۹۸۵)
’’اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہےکہ میں تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے مستغنی ہوں،جو شخص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو شریک کرے تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں‘‘
ریا فتنہ دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے:
أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَيْكُمْ عِنْدِي مِنْ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ "، قَالَ : قُلْنَا : بَلَى، فَقَالَ : " الشِّرْكُ الْخَفِيُّ، أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ يُصَلِّي فَيُزَيِّنُ صَلَاتَهُ لِمَا يَرَى مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ(سنن ابن ماجہ،کتاب الزھد،باب الریاء والسمعۃ،ح:۴۲۰۲)
’’میں تمھیں اس چیز کی نشاندہی نہ کروں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوفناک ہے؟صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہﷺکیوں نہیں(ضرور بتا دیجیے)آپﷺنے فرمایا:وہ ہے شرک خفی کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے‘‘
 
Top