• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم توحید

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
جب عمل میں ریا شامل ہو جائے

اس کی تین صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
اصل باعث ہی لوگوں کو دکھانا ہو۔
یہ شرک ہے اور ایسی عبادت باطل ہے
دوسری صورت:
رضائے الہی کی نیت ہو،بعد میں ریا پیدا ہو جائے
اس کی دو حالتیں ہیں:
1:ایسا شخص اگر اپنے نفس کے خلاف مزاحمت کرےاورریا کے وسوسے کی رو میں بہتا نہ چلا جائےاورنہ ہی اس پر مطمئن ہوتو ریاکاری کا یہ خیال اس پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
2:وہ ریا کے تصور کو دور کرنے کی بجائے اس پر مطمئن ہوجائےاوراس کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔
مذکورہ صورت میں عبادت کا حکم:

اس کی دو حالتیں ہیں۔جن کی وضاحت درج ذیل ہے:
۱:اگر عبادت ایسی ہوکہ اس کا آخری حصہ پہلے کی بنیاد پر قائم نہ ہواور اس سے الگ ہو سکتا ہوتو اتنی عبادت درست سمجھی جائے گی جس میں ریا شامل نہ تھی اور ریا کی آمیزش کے بعد والی عبادت باطل ہو گی۔
مثال:
ایک شخص خلوص نیت سے 100روپے صدقہ کرتا ہےبعدازاں وہ کسی شخص کو دیکھتا ہےاوراسے دکھانے کی خاطر مزید 100روپے صدقہ کر دیتا ہےتو پہلے والا صدقہ مقبول ہوگا اور دوسرا ضائع اور اکارت ہوجائے گا۔
۲:اگر عبادت کا آخری حصہ بھی پہلے ہی پر قائم ہواور اسے جدا نہ کیا جاسکےتو ا س صورت میں ساری عبادت باطل ہوجائے گی۔
مثال:
کوئی شخص رضائے الہیٰ کے لیے دو رکعتیں پڑھنے کے لیے کھڑا ہواوردوسری رکعت کے دوران نیت میں ریا کا عنصر پیدا ہو گیا،اس نے اس کی مدافعت نہ کی اور اسی کی رو میں بہتا چلا گیاتو اس کی ساری نماز باطل ہو گئی۔
تیسری صورت:
عبادت کے بعد ریا ء کا جذبہ پیدا ہو جائے۔
ایسی صورت میں ریا کاری عبادت پر اثر انداز نہیں ہوگی،وہ شخص گنہگار ہوگا اور نہ ہی عبادت میں کوئی نقص واقع ہوگا۔
مسئلہ:
جو لوگوں سے اپنی تعریف و ستائش سنے اور اس پر اظہار فرحت و مسرت کرےتو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ ازروئے حدیث نبویﷺ
((تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُوْمِنِ))
’’یہ مومن کی فوری بشارت ہے‘‘(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ،ح:۲۶۴۲)​
ریا اور سمعۃ کا فرق
ریا کا تعلق حاسئہ بصر یعنی آنکھ سے ہےیعنی اس نیت سے عمل کیا جائےکہ لوگ اسے دیکھ کراس شخص کی تعریف و توصیف کریں۔
السمعۃ کا تعلق حاسئہ سمع کے ساتھ ہےیعنی عمل سے لوگوں کو سنانا اور ان سے حصول ستائش مقصود ہو۔
ریاکا علاج:
اخلاص کی فضلیت اور اجر وثواب ذہن میں مستحضر کرنا چاہیے۔
ریا کی سنگینی سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور اس امر پر متنبہ رہنا چاہیے کہ اس سے عمل ضائع اور برباد ہوجاتا ہے۔
قیامت اور آخرت کو یاد کرنا چاہیے۔
اس حقیقت سے آگاہ رہنا چاہیےکہ لوگ کسی قسم کے نفع و نقصان کی قدرت نہیں۔
اللہ کے حضور اس سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔درج ذیل دعا بھی اسی سے متعلق ہے:
((اللَّهُمَّ إِنِّی اَعُوذُ بِكَ أَنْ اُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا وَاَنَااَعْلَمُ واَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا اَعْلَمُ))
’’الہٰی میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ جانتے بوجھتے تیرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤں اوران کوتاہیوں کی بخشش چاہتا ہوں جو لاعلمی میں مجھ سے سرزد ہو جائیں‘‘
(الحلیۃ لا ابی نعیم:۷/۱۱۲،والادب المفرد للبخاری:۳/۳۶)
نوٹ مترجم:
اس دعا میں مولٔف نے شیئا کا لفظ بھی نقل کیا ہےجو تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکا۔واضح رہے کہ بعض اہل علم نے دعا کا ماخذ مسند احمد اور الترغیب و الترہیب بتلایا ہے(ملاحظہ ہو حصن المسلم)لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ دعا ان کتابوں میں موجود نہیں ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
حصول دنیا کی خاطر عبادت کرنا

مراد و مفہوم:
اس کے معنی یہ ہیں انسان ایسا کوئی عمل جو محض عبادت سے ہو،اس لیے کرےکہ اس سےبراہ راست دنیوی مفادات حاصل کر سکے۔
مثالیں:
1:اس نیت سے حج کرنا کہ مال و دولت حاصل ہوگی۔
2:مال غنیمت کے حصول کی نیت سے جہاد میں شریک ہونا
3:تنخواہ لینے کی غرض سے آذان کی ڈیوٹی سنبھالنا۔
4:دین کا علم محض اس لیے حاصل کرنا کہ ڈگری اور وظیفہ یا الاؤنس مل جائے۔
حکم:

اس کی دو قسمیں ہیں اور دونوں کا حکم الگ ہے۔
۱:
تمام یا اکثر اعمال محض دینوی غرض کے پیش نظر کیے جائیں۔یہ شرک اکبر ہے۔
۲:
کوئی معین عمل کسی دینوی مفاد کے حصول کی نیت سے کیا جائے،یہ شرک اصغر ہے اور اس معین عمل کو باطل کر دیتا ہے۔
نیک عمل سے طلب دنیا پر انتباہ:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَيْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِيْهَا وَ هُمْ فِيْهَا لَا يُبْخَسُوْنَ۔اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِيْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(ھود:۱۵،۱۶)
’’جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کارگزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ )جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہوگیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے‘‘
رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہے:
مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
(سنن ابی داؤد،کتاب العلم،باب فی طلب العلم لغیر اللہ،ح:۳۶۶۴۔سنن ابن ماجہ،کتاب السنہ:ح:۲۵۲)
’’جس نے علم دینوی اغراض کی خاطر حاصل کیا جس سے صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے(یعنی علم دین)تو ایسا شخص روز قیامت جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
غیر اللہ کی قسم کھانا

حلف کی تعریف:
لغت کی رو سے حلف سے مراد ہے:الملازمۃ جس کے معنی دائمی وابستگی،رفاقت اورمصاحبت کے ہیں۔
اصطلاحی زبان میں اس سے مراد یہ ہے
کہ کلام میں تاکید پیدا کرنے کے لیےحروف قسم کے ساتھ کسی لائق تعظیم شخصیت کا ذکر کیا جائے۔
حروف قسم واؤ،با اور تا ہیں۔
حلف کے دوسرے نام:
اسے یمین اور قسم بھی کہا جاتا ہے۔
یمین مشروع(جائز قسم):

اس سے مراد وہ قسم ہے جو
اللہ کے نام اٹھائی جائے مثلاً وَاللَّہِ،تَاللَّہِ،بِاللَّہ یعنی اللہ کی قسم کے الفاظ بولے جائیں۔
یا اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے کسی نام کی قسم کھائی جائے جیسے والرحمن(رحمن کی قسم)،والعظیم(عظیم کی قسم) والسمیع(سمیع کی قسم)
یا اللہ کی صفات کی قسم اٹھائی جائے،مثلاً بعزۃ اللہ(اللہ کی عزت کی قسم) و رحمۃ اللہ(رحمت باری کی قسم) وعلم اللہ( علم الہیٰ کی قسم)
غیر اللہ کی قسم کھانے کا حکم:

اس کی دو صورتیں ہیں:
1:
اگر قسم کھانے سے غیر اللہ کی تعظیم درجۂ عبادت تک پہنچ جائے مثلاً اس سے ایسی تعظیم کی جائے جیسی اللہ کے لائق ہےیا اس سے بڑھ کر کی جائے،تو یہ شرک اکبر ہے۔
2:
اگر یہ تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے برابر اور مساوی نہ ہو تو یہ شرک اصغر ہے۔
دلیل:
رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ(سنن الترمذی،کتاب الایمان و النذور،باب ما جا ء ان من حلف بغیر اللہ فقد اشرک۔ح:۱۵۳۵)
’’جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا‘‘
غیر اللہ کی قسموں کی مثالیں:

۱:اولیاء کے نام کی قسم اٹھانا
۲:جاہ نبیﷺیا جاہ اولیاء کی قسم اٹھانا۔
۳:کسی شخص کی زندگی کی قسم اٹھانا
۴:امانت اور شرف و عظمت کی قسم اٹھانا
احکام حلف کا خلاصہ:
1:غیر اللہ کی قسم کھانا حرام اور شرک ہے۔
2:اللہ کے نام کی جھوٹی قسم اٹھانا حرام ہے،اسے یمین غموس کہتے ہیں
3:بلاوجہ زیادہ قسمیں کھانا حرام ہےخواہ ایسا کرنے والا سچا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس میں اللہ کی اہانت و بے ادبی ہے۔
4:اگر انسان سچا ہو تو ضرورت کے وقت اس کے لیے قسم کھانا جائز ہے۔
غیر اللہ کی قسم کھانے کا کفارہ:

جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم اٹھا لے اسے ’’لا الہ الا اللہ‘‘پڑھنا چاہیے۔
دلیل:
رسول اللہﷺکا فرمان ہے:
مَنْ حَلَفَ فَقَالَ فِي حَلِفِهِ وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ تَعَالَ أُقَامِرْكَ فَلْيَتَصَدَّقْ( صحیح البخاری،کتاب التفسیر،ح:۴۸۶۰،سنن ابی داؤد،کتاب الایمان و النذور،ح:۳۲۴۸)
’’جس نے قسم کھاتے ہوئے یوں کہہ دیا کہ لات کی قسم،عزی کی قسم تو اسے چاہیے کہ وہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘کہے‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
واؤ یا اور کے ذریعے مخلوق کو اللہ کا شریک بنانا

مراد و مفہوم:
اس سے مقصود یہ ہےکہ کسی ایسے معاملے میں،جس کے وقوع میں مخلوق کو دخل ہو حرف عطف’’واؤ‘‘استعمال کرتے ہوئےاس مخلوق کو اللہ کے ساتھ شریک کردیا جائے۔
مثالیں:
مَا شَاءَ اللَّہُ وَ شِئْتَ’’وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ چاہے اورجو آپ چاہیں‘‘
اَرْجُو ا اللَّہَ وَ اَرْجُوْکَ’’مجھے اللہ سے امید ہے اور آپ سے امید ہے‘‘
اِسْتَعَنْتُ بِا للَّہِ وَ بِکَ’’میں اللہ تعالیٰ اور آپ سے پناہ چاہتا ہوں‘‘
مَالِیْ اِلاَّ اللَّہُ وَاَنْتَ’’میرا سوائے اللہ کے اور آپ کے کوئی نہیں
لَوْ لاَ اللہ وَفُلَانٌ لَھَلَکْتُ’’اگر اللہ اور فلاں نہ ہوتے تو میں ہلاک اور تباہ و برباد ہو جاتا‘‘
یا ان سے ملتے جلتے کلمات کہنا۔
حکم:
یہ کلمات کہنے کی دو صورتیں ہیں:
1:جب اللہ اور مخلوق میں برابری کا عقیدہ ہو۔
یہ شرک اکبر ہےخواہ واؤ(اور)کی بجائےثم(پھر)ہی کیوں نہ کہا جائے۔
2:جب برابری مقصود نہ ہو۔
اس صورت میں یہ شرک اصغر ہے۔
درست طریقہ:
اس کے دو مرتبے ہیں:
1:اللہ اور مخلوق میں برابری کا اعتقاد رکھے بغیر لفظ ثم(پھر)استعمال کیا جائے۔
مثلاً یو ں کہنا چاہیے:مَاشَاءَ اللہ ثُمَّ شَئتَ’’جو اللہ چاہے اور پھر جو آپ چاہیں‘‘
استعنت باللہ ثم بک’’میں اللہ تعالیٰ سے مدد کا طلبگار ہوں اور پھر آپ سے اعانت چاہتا ہوں‘‘
2:سارے کا سارا معاملہ اللہ کی طرف منسوب کیاجائے۔
چنانچہ یو ں کہنا چاہیے:
مَاشَاءَ اللہ وَحْدَہٗ’’جو اللہ اکیلا چاہیے‘‘
اِسْتَعَنْتَ بِاللہِ وَحْدَہٗ’’میں صرف اللہ ہی سے مدد چاہتا ہوں‘‘
یہ اسلوب زیادہ بہتر اور افضل ہے۔
واو اور ثم میں فرق:
واؤ کے ذریعے عطف دو چیزوں میں مقارنت اور برابری کا متقاضی ہے۔
عطف بذریعہ ثم تابع اور ماتحت ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اگر(لَوْ)کا استعمال

اس لفظ کے استعمال کی تین حالتیں ہیں:
1:جواز
جب اس سے صرف خبر دینا مقصود ہو۔
مثال:
لَوْ حَضَرْتَ الدَّرْسَ لَاسْتَفَدْتُ’’اگر میں سبق میں حاضر ہوتا تو مستفید ہوتا‘‘
اس کی دلیل رسول اللہﷺکا یہ فرمان ہے:
لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْهَدْيَ وَلَحَلَلْتُ مَعَ النَّاسِ حِينَ حَلُّوا(صحیح البخاری،کتاب التمنی،ح:۷۲۲۹)
’’اگر مجھے اپنا حال پہلے سے معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہواتو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور (عمرہ کرکے)دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی احرام کھول دیتا‘‘
2:استحباب
لفظ اگر کے استعمال کا مقصد کسی بھلائی کی آرزو اور تمنا ہو تو یہ مستحب ہے۔
مثال:
لَوْ کَانَ عِنْدِی مَالٌ لَتَصَدَّقْتُ بِہِ’’اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں صدقہ کرتا‘‘

اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نبی کریمﷺنے دنیا کی مثال چار قسم کے لوگوں کے ذریعے سمجھائی ہےان میں سے ایک وہ ہےجس کے پاس علم تو ہےلیکن وہ دولت سے نوازا نہیں گیا،وہ یہ خواہش کرتا ہےکہ کاش میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں شخص کی طرح خرچ کرتا۔اس کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ(جامع ترمذی،ابواب الزھد،بَاب مَا جَاءَ مَثَلُ الدُّنْيَا مَثَلُ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ،ح:۲۳۲۵)
’’اس کو اس کی نیت کے مطابق ثواب ملے گااور یہ دونوں اجر میں برابر ہوں گے‘‘
3:ممانعت
مندرجہ ذیل تین صورتوں میں ’’اگر‘‘کا استعمال ممنوع ہے۔
1:شریعت پر اعتراض:
اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے:
لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا(آل عمران:۱۶۸)
’’(منافقوں نے کہا)اگر یہ (مسلمان)ہماری بات مان لیتے تو یوں مارے نہ جاتے‘‘
2:تقدیر پر اعتراض:
اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے:
لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْا(آل عمران:۱۵۶)
’’(منافق کہنے لگے)اگر ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے‘‘
3:شر اور برائی کی خواہش:
اس کی دلیل وہی حدیث ہی جو اوپر گزری ہے۔اس میں یہ ہےکہ جو شخص نہ مال رکھتا ہےاورنہ اسے علم عطا ہوا ہےلیکن اس کی آرزو یہ ہےکہ کاش مجھے دولت مل جائےتو میں اسے فلاں فاسق و فاجر کی طرح اللہ کی نافرمانی میں خرچ کروں اس کے بارے میں رسول معظمﷺنے فرمایا:
فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ
’’اس کو اس کی نیت کے مطابق ثواب ملے گااور یہ دونوں اجر میں برابر ہوں گے‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
زمانے کو برابھلا کہنا(سَبُّ الدَّھْر)

مراد ومفہوم:
اس سے مقصود یہ ہےکہ دہر یعنی زمانےاوروقت کو گالی دی جائے،اس کی مذمت کی جائے اور اسے برابھلا کہا جائے۔
حکم:
اس کی تین صورتیں ہیں اور تینوں کا حکم الگ الگ ہے:
1:بغیر الزام کے خبر دینا مقصود ہو یہ جائز ہے
مثال:تَعِبْنَا مِنْ شِدَّۃِ حَرِّ ھٰذَا الْیَوْمِ’’آج کی سخت گرمی نے ہمیں شدید مشقت میں مبتلا کر دیا ہے‘‘
اسی طرح سیدنا لوط علیہ السلام نے فرمایا تھا:
هٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ(ھود:۷۷)
’’آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے‘‘
2:زمانے کو فاعل سمجھ کر گالی دینا
مثلاً یہ اعتقاد رکھا جائےکہ زمانہ ہی خیر و شر کی مختلف حالتوں کا مختار و ذمہ دار ہےیہ شرک اکبر ہے۔
3:وقت کو برے کام کا محل سمجھتے ہوئے برا بھلا کہنا
یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو فاعل حقیقی سمجھا جائے لیکن زمانے کو ناپسندیدہ امور کا محل گردانتے ہوئےاسے برابھلا کہا جائے،یہ حرام اور کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
زمانے پر سب و شتم،اللہ تعالیٰ کو اذیت دینے کے مترادف ہے۔
رسول اللہﷺکا ارشاد گرامی ہےکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ(صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۃ حم الجاثیہ،باب ما یھلکنا الا الدھر،ح:۳۸۲۶،وصحیح مسلم۔کتاب الالفاظ و الادب و غیرھا، باب النھی عن الدھر،ح:۲۲۴۶)
’’ابن آدم زمانے کو گالی دے کر مجھے تکلیف دیتا ہےکیونکہ میں ہی زمانہ ہوں۔دن اور رات میں تبدیلی میں ہی کرتا ہوں‘‘
اس حدیث کے الفاظ’’انا الدھر‘‘سے مراد ہےکہ اللہ ہی زمانے کی تدبیر کرتا اور اس میں تصرف فرماتا ہے۔
تنبیہ:

الدھر اللہ عزوجل کے آسمائے حسنیٰ میں شامل نہیں ہے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
الفاظ کے متعلق دو مفید ضابطے

1:زبان کو حرام گفتگو سے محفوظ رکھنا لازم ہے:
مثلاً غیبت،چغلی اور جھوٹ سے اجتناب کرنا چاہیے،اسی طرح شرکیہ کلام مثلاً غیر اللہ کی قسم کھانے سے بھی بچنا بھی ضروری ہےکیونکہ انسان کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کا محاسبہ کیا جائے گا۔
ارشاد ربانی ہے:
مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ(ق:۱۸)
’’(انسان) منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان(لکھنے کے لیے)تیار ہوتا ہے‘‘
ایسا بھی ہوتا ہےکہ انسان اپنے کسی ایک کلمے کی بنا پر دائرہ اسلام ہی سے خارج ہو جاتا ہے۔لہذا الفاظ و کلمات اور کلام و گفتگو میں محتاط رہنا از بس ناگزیر ہے۔
2:موہم شرک الفاظ و کلمات کا استعمال ممنوع ہے:
جن الفاظ میں شرک کا شائبہ ہو ان کا استعمال جائز نہیں کیونکہ اس سے شرک کے ارتکاب کا خطرہ ہےیا یہ شرک کا ذریعہ و وسیلہ اور چور دروازے بن سکتے ہیں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
بدعت

تعریف:
لغت کی رو سے بدعت کے معنی ایسی چیز کے ہیں جسے بغیر کسی مثال سابق کے گھڑ لیا جائے۔
شرعی اصطلاح کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ دین میں بغیر کسی دلیل کے کوئی نئی بات گھڑ لی جائے۔
بدعت کی عمومی اقسام:
اس کی دو قسمیں ہیں:
1:عادات میں بدعت:
جیسے موجودہ زمانے کی جدید ایجادات ہیں،یہ مباح اور جائز ہیں کیونکہ عادات میں اصل اباحت یعنی جواز ہے۔
2دین میں بدعت:
یہ حرام ہےاس لیے کہ دین میں اصل’’توقیف‘‘ہےیعنی دینی امور میں جب تک کسی شے کی دلیل نہ ہو۔اس میں توقف کیا جائے گا۔
دینی بدعت کی اقسام:

یہ تین قسموں میں منقسم ہے۔
۱:اعتقادی بدعت
اس سے مراد یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺنے جن امور کی خبر دی ہے،ان کے برعکس عقیدہ اپنا لیا جائے۔
جیسے تمثیل(اللہ کی صفات کو مخلوق کے مثل قرار دینا)تعطیل(صفات باری تعالیٰ کی نفی)اور تقدیر کے انکار جیسی بدعات ہیں۔
۲:عملی بدعت
اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسے طریقے سے اللہ کی عبادت کی جائے جو شریعت میں مقرر نہیں کیا گیا۔اس کی کئی صورتیں ہیں۔
1:کوئی نئی عبادت ایجاد کر لینا،جن کا شریعت میں کوئی ثبوت موجود نہ ہو۔
2:کسی مشروع عبادت میں کمی یا اضافہ کر لینا۔
3:شریعت کی مقرر کردہ عبادت کو کسی خود ساختہ طریقے سے بجا لانا۔
4:شریعت سے ثابت شدہ کسی عبادت کے لیے کوئی مخصوص وقت مقرر کر لینا،جبکہ شرع نے ایسی کوئی تحدید نہ کی ہو۔
مثالیں:
قبروں پر عمارتیں بنانا،نت نئی عیدیں ایجاد کرنا اور رنگ برنگی محفلیں منعقد کرنا۔یہ تمام امور عملی بدعات میں شامل ہیں۔
3:بدعت ترکیہ
اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت اور ثواب کی نیت سے کسی مباح اور جائز یا ایسے فعل کو ترک کر دیا جائے جو شرعاً مطلوب ہے۔مثلا حصول اجر کی نیت سے گوشت نہ کھانا یا شادی نہ کرنا
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
حکم کے اعتبار سے بدعت کی قسمیں

شرعی حکم کے پہلو سے بدعت کی دو قسمیں ہیں۔
1:بدعت مکفرہ
اس کا مرتکب دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔
مثالیں:جیسے رفض اور قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے کی بدعت۔
بدعت مفسقہ:
اس بدعت کا اپنانے والا گنہگار ہوتا ہے لیکن وہ مسلمان ہی رہتا ہے،دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔
مثالیں:
حلقہ ذکر اجتماعی اور پندرھویں شعبان میں خصوصی عبادت کی بدعت
بدعت کی تردید اور ان پر انتباہ:

اس سلسلے میں مندرجہ ذیل آیت اور دو حدیثیں کافی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا(المائدہ:۳)
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘
رسول اللہﷺنے فرمایا:
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ(صحیح البخاری،کتاب الصلح، بَاب إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،ح:۲۶۹۷،صحیح مسلم،کتاب الاقضیہ،ح:۱۷۱۸)
’’جو ہمارے دین میں ایسی بات نکالےجو اس میں نہیں وہ مردود ہے‘‘
مسلم شریف میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ(صحیح مسلم ،کتاب الاقضیہ،با ب نقض الاحکام الباطلہ و رد محدثات الامور،ح:۱۷۱۸)
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ ناقابل قبول ہوگا‘‘
نبی مکرمﷺکا ارشاد گرامی ہے:
وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ(سنن النسائی،کتاب صلاۃ العیدین،باب کیف خطبۃ،ح:۱۵۷۱)
’’سب سے بدترین کام وہ ہیں جو نئے ایجاد کر لیے جائیں اور ہر نیا کام بدعت ہےاور ہر بدعت گمراہی ہےاور ہر گمراہی کا انجام آتش دوزخ ہے‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم:

بعض لوگ بدعت کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں:
1:بدعت حسنہ
2:بدعت سیئہ
لیکن وہ خطا اور غلطی پر ہیں اور رسول اللہﷺکے اس فرمان ذی شاں کی مخالفت کے مرتکب ہوتے ہیں:
’’بلاشبہ ہر بدعت،گمراہی ہے‘‘
کیونکہ رسول معظمﷺنے تمام بدعات کو ضلالت اور گمراہی قرار دیا ہےجبکہ ان کا کہنا ہےکہ ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ بعض بدعات ایسی بھی ہیں جو حسنہ یعنی اچھی ہوتی ہیں!!
ظہور بدعات کے اسباب و وجوہ:

بدعات کی ترویج و اشاعت کی بعض وجوہات درج ذیل ہیں:
1:احکام شریعت سے جہالت و ناواقفیت
2:خواہشات نفس کی پیروی
3:من پسند نظریات و شخصیات کے حق میں تعصب کا مظاہرہ
4:اہل کفر سے مشابہت
5:من گھڑت اور بے اصل روایات پر اعتماد
6:ایسی عادات و خرافات کا اپنا لینا جن کی تائید شریعت سے ہوتی ہےنہ ہی عقل ان کی تصویب کرتی ہے۔
بدعت کی پہچان اور ترید کے دو اہم اصول:

پہلا یہ کہ عبادات میں اصل ضابطہ منع اور توقف کا ہے،یہاں تک کہ اس کے جواز اور مشروعیت کی دلیل مل جائے۔
دوسرا کہ ہر وہ عبادت جو بظاہر اپنائے جانے کے لائق ہےاور نبی کریمﷺکے عہد مبارک میں اس کا سبب و محرک بھی موجود تھالیکن اس کے باوجودآپﷺنے وہ عبادت کی اور نہ ہی صحابہ کرام نے اسے اپنایاتو یہ اس کی ممانعت اور عدم مشروعیت کی دلیل ہے۔
دو ضروری تنبیہات:
۱:امام دارالہجرۃ مالک بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے کہ:
من ابتداع فی الاسلام بدعۃ یراھا حسنۃ فقد زعم انَّ محمداً رسول اللہﷺ خان الرسالۃ لان اللہ یقول:الیوم اکملت لکم دینکم۔فمالم یکن یو مئذ دینا فلا یکون الیوم دینا۔
’’جو شخص اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے اور اسے حسنہ قرار دیتا ہےگویا اس کا یہ گمان ہےکہ معاذاللہ محمدﷺنےتبلیغ و رسالت میں خیانت کی ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے،لہذا جو شے اس دن دین میں شامل نہیں تھی،اسے آج دین قرار نہیں دیا جا سکتا ‘‘
۲:شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمیں یہ لازماً معلوم ہونا چاہیےکہ دین میں کسی شخص کی طرف سےہلکی سی بدعت بھی حرام ہی ہوتی ہےاس لیے کہ بدعات میں سےکوئی بدعت بھی محض مکروہ درجے کی نہیں ہوتی جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں‘‘
 
Top