عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,869
- پوائنٹ
- 157
جب عمل میں ریا شامل ہو جائے
اس کی تین صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
اصل باعث ہی لوگوں کو دکھانا ہو۔
یہ شرک ہے اور ایسی عبادت باطل ہے
دوسری صورت:
رضائے الہی کی نیت ہو،بعد میں ریا پیدا ہو جائے
اس کی دو حالتیں ہیں:
1:ایسا شخص اگر اپنے نفس کے خلاف مزاحمت کرےاورریا کے وسوسے کی رو میں بہتا نہ چلا جائےاورنہ ہی اس پر مطمئن ہوتو ریاکاری کا یہ خیال اس پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
2:وہ ریا کے تصور کو دور کرنے کی بجائے اس پر مطمئن ہوجائےاوراس کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔
مذکورہ صورت میں عبادت کا حکم:
اس کی دو حالتیں ہیں۔جن کی وضاحت درج ذیل ہے:
۱:اگر عبادت ایسی ہوکہ اس کا آخری حصہ پہلے کی بنیاد پر قائم نہ ہواور اس سے الگ ہو سکتا ہوتو اتنی عبادت درست سمجھی جائے گی جس میں ریا شامل نہ تھی اور ریا کی آمیزش کے بعد والی عبادت باطل ہو گی۔
مثال:
ایک شخص خلوص نیت سے 100روپے صدقہ کرتا ہےبعدازاں وہ کسی شخص کو دیکھتا ہےاوراسے دکھانے کی خاطر مزید 100روپے صدقہ کر دیتا ہےتو پہلے والا صدقہ مقبول ہوگا اور دوسرا ضائع اور اکارت ہوجائے گا۔
۲:اگر عبادت کا آخری حصہ بھی پہلے ہی پر قائم ہواور اسے جدا نہ کیا جاسکےتو ا س صورت میں ساری عبادت باطل ہوجائے گی۔
مثال:
کوئی شخص رضائے الہیٰ کے لیے دو رکعتیں پڑھنے کے لیے کھڑا ہواوردوسری رکعت کے دوران نیت میں ریا کا عنصر پیدا ہو گیا،اس نے اس کی مدافعت نہ کی اور اسی کی رو میں بہتا چلا گیاتو اس کی ساری نماز باطل ہو گئی۔
تیسری صورت:
عبادت کے بعد ریا ء کا جذبہ پیدا ہو جائے۔
ایسی صورت میں ریا کاری عبادت پر اثر انداز نہیں ہوگی،وہ شخص گنہگار ہوگا اور نہ ہی عبادت میں کوئی نقص واقع ہوگا۔
مسئلہ:
جو لوگوں سے اپنی تعریف و ستائش سنے اور اس پر اظہار فرحت و مسرت کرےتو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ ازروئے حدیث نبویﷺ
((تِلْکَ عَاجِلُ بُشْرَی الْمُوْمِنِ))
’’یہ مومن کی فوری بشارت ہے‘‘(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ،ح:۲۶۴۲)
ریا اور سمعۃ کا فرقریا کا تعلق حاسئہ بصر یعنی آنکھ سے ہےیعنی اس نیت سے عمل کیا جائےکہ لوگ اسے دیکھ کراس شخص کی تعریف و توصیف کریں۔
السمعۃ کا تعلق حاسئہ سمع کے ساتھ ہےیعنی عمل سے لوگوں کو سنانا اور ان سے حصول ستائش مقصود ہو۔
ریاکا علاج:
اخلاص کی فضلیت اور اجر وثواب ذہن میں مستحضر کرنا چاہیے۔
ریا کی سنگینی سے آگاہی حاصل کرنی چاہیے اور اس امر پر متنبہ رہنا چاہیے کہ اس سے عمل ضائع اور برباد ہوجاتا ہے۔
قیامت اور آخرت کو یاد کرنا چاہیے۔
اس حقیقت سے آگاہ رہنا چاہیےکہ لوگ کسی قسم کے نفع و نقصان کی قدرت نہیں۔
اللہ کے حضور اس سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔درج ذیل دعا بھی اسی سے متعلق ہے:
((اللَّهُمَّ إِنِّی اَعُوذُ بِكَ أَنْ اُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا وَاَنَااَعْلَمُ واَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا اَعْلَمُ))
(الحلیۃ لا ابی نعیم:۷/۱۱۲،والادب المفرد للبخاری:۳/۳۶)’’الہٰی میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ جانتے بوجھتے تیرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤں اوران کوتاہیوں کی بخشش چاہتا ہوں جو لاعلمی میں مجھ سے سرزد ہو جائیں‘‘
نوٹ مترجم:
اس دعا میں مولٔف نے شیئا کا لفظ بھی نقل کیا ہےجو تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکا۔واضح رہے کہ بعض اہل علم نے دعا کا ماخذ مسند احمد اور الترغیب و الترہیب بتلایا ہے(ملاحظہ ہو حصن المسلم)لیکن ان الفاظ کے ساتھ یہ دعا ان کتابوں میں موجود نہیں ہے۔