• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہم قرآن

شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
15
یہ باور کرایا جاتا ہے کہ قرآن ظنی الدلالہ ہے، یعنی اس کی ایک ہی عبارت کے مختلف مطالب ہو سکتے ہیں)۔ چنانچہ کسی ایک مفہوم کے تعین کے لیے حدیث (خبرِ احاد) سے فیصلہ کرایا جانا ضروری قراد دے دیا گیا۔ جب کہ خود احادیث سے علمِ ظنی (یعنی احتمالی، غیر یقینی علم) حاصل ہوتا ہے۔ گویا ظنی سے ظنی کی قطعیت طے کی جائے گی۔
یہ قرآن کو کالعدم قرار دینے کے مترادف ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
یہ باور کرایا جاتا ہے کہ قرآن ظنی الدلالہ ہے، یعنی اس کی ایک ہی عبارت کے مختلف مطالب ہو سکتے ہیں)۔ چنانچہ کسی ایک مفہوم کے تعین کے لیے حدیث (خبرِ احاد) سے فیصلہ کرایا جانا ضروری قراد دے دیا گیا۔ جب کہ خود احادیث سے علمِ ظنی (یعنی احتمالی، غیر یقینی علم) حاصل ہوتا ہے۔ گویا ظنی سے ظنی کی قطعیت طے کی جائے گی۔
یہ قرآن کو کالعدم قرار دینے کے مترادف ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ :
مطلقاً ۔۔قرآن ظنی الدلالہ۔۔
اور ۔۔تمام احادیث ’’ ظنی ‘‘ ہیں
یہ کس کا عقیدہ ۔۔یا۔۔نظریہ ہے ؟؟

اور درج قرآنی حکم کی دلالت کس نوع سے ہے ؟
{حُرِّمَتْ عَلَيكُمُ الْمَيتَةُ} (المائدة:3)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ باور کرایا جاتا ہے کہ قرآن ظنی الدلالہ ہے،
یہ کس نے کہا ہے کہ قرآن ظنی الدالہ ہے؟ یا یہ اپنی ظن ِ باطل سے اخذ کیا ہے؟ معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ یہ بات ظنِ باطل سے اخذ کی گئی ہے۔ اگر ایسا نہیں تو بتلائیے کس نے یہ کہا ہے؟ اور ثبوت پیش فرمائیں!
بات دراصل یہ ہے کہ قرآن کی آیت کا اطلاق کرنے میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ جو مفہوم کسی نے اخذ کیا ہے! یاد رہے ممکن ہو سکتا ہے، لازم نہیں!
یعنی اس کی ایک ہی عبارت کے مختلف مطالب ہو سکتے ہیں)
یہ بات تو قرآن میں ہے، کیا اس سے آپ کو کوئی اختلاف ہے؟ قرآن عربی زبان میں ہے، اور عربی زبان میں ایک لفظ کا مختلف معنی و مطالیب و مفہوم میں استعمال ہونا بہت عام و معروف ہے، بلکہ دنیا کی ہر زبان میں ایسا ہوتا ہے، فتدبر!
چنانچہ کسی ایک مفہوم کے تعین کے لیے حدیث (خبرِ احاد) سے فیصلہ کرایا جانا ضروری قراد دے دیا گیا۔
اب جو تعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیت کا بتلایا ہے اسے کیوں قبول نہ کیا جائے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلایئے ہوئے مفہوم کو چھوڑ کر کسی کا اپنے ظن سے بالکل یہاں تو ظنِ باطل سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے مفہوم کو چھوڑ کر ہے، اپنا مفہوم اخذ کرنا یہ یہ بھی ظن ہی ہے، اور وہ بھی ظنِ باطل!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے مفہوم کو تو صاحب نے اگے ظنی قرار دے دیا، اور اپنے اٹکل پچّو کو کیا وہ اللہ کی نازل کردہ وحی سمجھتے ہیں! کہ ان کا ظنِ باطل سے اخذ کردہ مفہوم معتبر سمجھا جائے!
جب کہ خود احادیث سے علمِ ظنی (یعنی احتمالی، غیر یقینی علم) حاصل ہوتا ہے۔
جب کوئی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے، اور پھر بھی کوئی اسے یقینی علم نہ سمجھتا ہو، تو اس شخص کا ایمان ضرور غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے!
باقی احادیث سے استدلال کا وہی معاملہ ہے جو قرآن کا ہے!
گویا ظنی سے ظنی کی قطعیت طے کی جائے گی۔
اسے کہتے ہیں، علم الکلام میں بے لگام گھوڑے دوڑانا!
اب کوئی پوچھے کہ زنا کی سزا میں چار گواہوں میں سے ہر ایک کی الگ الگ گواہی تو کفایت نہیں کرتی! زنا کے معاملے میں ایک شخص آکر گواہی دے تو اس کی گواہی تو نا قابل قبول ٹھہرے گی، اور اسی تین گواہی بھی اجائیں تو وہ سزا دینے کے لئے نا قابل قبول ہوں گی، اور جب گواہی مل جائے تو زنا کی سزا قائم کر دی جائے گی!
یہاں یہ اٹکل پچّو کے گھوڑے دوڑانے والے کہیں گے کہ ''گویا ناقابل قبول گواہی نے تین نا قابل قبول گواہیوں کو قابل قبول ٹھہرا دیا'' ۔ فتدبر!!
یہ قرآن کو کالعدم قرار دینے کے مترادف ہے۔
یہ قران کو کالعدم قرار دینے کے مترادف نہیں، بلکہ قرآن سے ظنِ باطل ، اور اٹکل پچّو کے گھوڑے دوڑا کر باطل مفہوم کو کا لعدم قرار دینا ہے!!
 
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
15
قرآن کو ظنی الدلالہ میں نے نہیں امام رازی نے قرار دیا تھا۔ بلکہ وہ الفاظ کی دلالت کی قطعیت کے ہی قائل نہیں۔ حدیث سے علمِ ظنی حاصل ہوتا ہے یہ بھی میں نے نہیں کہا علمِ حدیث کی متفقہ تعریف ہے۔ نخبۃ الفکر دیکھیئے۔ صحیح حدیث بھی علمِ ظنی کا فائدہ دیتی ہے کیونکہ روایت بالمعنی ہوتی ہے اس لیے اس میں احتمال آ جاتا ہے۔ پھر تفسیری روایات کا حال تو اہلِ علم سے مخفی نہیں۔ اس حال میں قرآن پر حدیث کو حکم بنانے سے احتمالات کا ایک جہاں کھل جاتا ہے جہاں جس کا جو جی چاہے مطلب اخذ کرے۔ قرآن نہ فرقان رہتا ہے نہ میزان۔ عملا یہ قرآن کو کالعدم کرنا ہی ہے۔ اسی لیے ہر کوئی اپنے فرقے اور مطلب کی دلیل قرآن سے نکال لاتا ہے۔
اس کا حل قرآن کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھنے میں ہے۔ قرآن کے نظم، ربطِ آیات اور سوَر اس کا حل ہے جو الفاظِ قرآن اور آیات کے مفہوم متعین کر دیتا ہے اور فاسد اور فالتو مطالب نکالنے کی گنجائش نہیں رہتی۔
یہ ہوائی باتیں نہیں۔ اسی اصول پر ایک پوری تفسیر، تدبرِ قرآن کے نام سے لکھی جا چکی ہے۔ جس نے فہمِ قرآن کے دروازے کھول دیئے ہیں اور آج ہم اعتماد کے ساتھ قرآن کو کسی بھی مسئلے میں فرقان اور میزان کی حیثیت سے پیش کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قرآن کو ظنی الدلالہ میں نے نہیں امام رازی نے قرار دیا تھا۔ بلکہ وہ الفاظ کی دلالت کی قطعیت کے ہی قائل نہیں۔
حدیث سے علمِ ظنی حاصل ہوتا ہے یہ بھی میں نے نہیں کہا علمِ حدیث کی متفقہ تعریف ہے۔ نخبۃ الفکر دیکھیئے۔ ص
اگر علمی گفتگو کرنی ہے تو جناب عبارت پیش کریں!
اس کے بعد آپ کے مراسلے پر عرض کرتے ہیں!
 
شمولیت
ستمبر 19، 2015
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
15
الخبر إما أن يكون له
فأقول: الخبر إما أن يكون له:
* طرق بلا عدد معين.
* أو مع حصر بما فوق الاثنتين.
* أو بهما.
* أو بواحد.
فالأول: المتواتر المفيد للعلم اليقيني بشروطه [وهي عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذاب رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء وكان مستند انتهائم الحسن وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه] .
والثاني: المشهور وهو المستفيض على رأي. [ويطلق المشهور على ما اشتهر على الألسنة]
والثالث: العزيز، وليس شرطاً للصحيح خلافاً لمن زعمه.
والرابع: الغريب.
وكلها - سوى الأول - آحاد.
وفيها المقبول [وهو ما يجب العمل به عند الجمهور] والمردود لتوقف الاستدلال بها على البحث عن أحوال رواتها دون الأول، وقد يقع فيها ما يفيد العلم النظري بالقرائن على المختار
(دار الحديث - القاهرة، ص 721)
میں نے جو عرض کیا وہ علمی بدیہات ہیں۔ اس میں حوالہ کی ضرورت تو نہیں تھی۔ تاہم آپ نے فرمایا تو حوالہ پیش ہے۔
قرآن کی محکم آیات کے علاوہ سارے قرآن کو محتمل الوجوہ مانا جاتا ہے جس سے اس کی قطعیت کی نفی ہوتی ہے۔ میرا موقف ہے کہ قرآن کی آیات قطعیت کے ساتھ اپنا ایک ہی مفہوم رکھتی ہیں۔ اور اب یہ بات نظریے سے بڑھ کر علمی بنیادوں پر ثابت ہو چکی۔ تفصیل کے لیے تدبر قرآن دیکھی جا سکتی ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
قرآن کو ظنی الدلالہ میں نے نہیں امام رازی نے قرار دیا تھا۔ بلکہ وہ الفاظ کی دلالت کی قطعیت کے ہی قائل نہیں۔
اس کا اصل حوالہ چاہیئے ۔۔۔یعنی وہ عبارت ۔۔اور ۔۔کتاب ۔دونوں بتائیں ؛
دوسری بات یہ کہ آپ نے ’’ نخبہ ‘‘ کا حوالہ دیا لیکن اس کی عبارت پیش نہیں فرمائی ۔۔
حدیث سے علمِ ظنی حاصل ہوتا ہے یہ بھی میں نے نہیں کہا علمِ حدیث کی متفقہ تعریف ہے۔ نخبۃ الفکر دیکھیئے۔
نخبہ سے اس کی عربی عبارت سامنے لائیں ؛
تاکہ ہم طالب علموں کو بات سمجھ آسکے ،
شکریہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
لخبر إما أن يكون له
فأقول: الخبر إما أن يكون له:
* طرق بلا عدد معين.
* أو مع حصر بما فوق الاثنتين.
* أو بهما.
* أو بواحد.
فالأول: المتواتر المفيد للعلم اليقيني بشروطه [وهي عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذاب رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء وكان مستند انتهائم الحسن وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه] .
والثاني: المشهور وهو المستفيض على رأي. [ويطلق المشهور على ما اشتهر على الألسنة]
والثالث: العزيز، وليس شرطاً للصحيح خلافاً لمن زعمه.
والرابع: الغريب.
وكلها - سوى الأول - آحاد.
وفيها المقبول [وهو ما يجب العمل به عند الجمهور] والمردود لتوقف الاستدلال بها على البحث عن أحوال رواتها دون الأول، وقد يقع فيها ما يفيد العلم النظري بالقرائن على المختار
(دار الحديث - القاهرة، ص 721)
آپ کی پیش کردہ عبارت میں ملون الفاظ سے آپ کیا سمجھے ہیں( اقتباس دیکھیں)!!
یقینا یہ بحث قرآن کے کی محکم آیات کے علاوہ ہے۔
قرآن کی یہ آیت کیا بیان کرتی ہے:
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّ‌اسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿سورة آل عمران08﴾
قرآن میں دو طرح کی آیات ہیں، ایک محکمات دوسری متشابہات، اور اور بقول آپ کے یہ بحث آیات محکمات کے متعلق نہیں، باقی رہی متشابہات!
اور ان متشابہات کے متعلق آپ نے فرمایا کہ:
میرا موقف ہے کہ قرآن کی آیات قطعیت کے ساتھ اپنا ایک ہی مفہوم رکھتی ہیں۔
اور اللہ تو فرماتا ہے کہ :
وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ
اس آیت کا اطلاق آپ پر ہو گا یا نہیں؟ کہ آپ ان متشابہات کی تاویل کے پیچھے لگ کر فتنہ چاہنے والوں میں سے ہو!
ذرا اس بات کی وضاحت فرمائیے گا!
تفصیل کے لیے تدبر قرآن دیکھی جا سکتی ہے۔
تدبر قرآن ایک شخص کی اپنی فہم اور اخذ شدہ مفہوم ہے یا قرآن کی طرح نازل شدہ وحی؟
قرآن کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ہمیں تدبر قرآن کا پابند کیوں کیا جا رہا ہے؟
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
تدبر قرآن ایک شخص کی اپنی فہم اور اخذ شدہ مفہوم ہے یا قرآن کی طرح نازل شدہ وحی؟
قرآن کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ہمیں تدبر قرآن کا پابند کیوں کیا جا رہا ہے؟
یہ دونوں سوال بالکل بجا ۔۔بلکہ ضروری ہیں !
 
Top