• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فیضانِ امیر معاویہ میں امیر معاویہ کے فضائل میں بیان کی جانے والی ایک حدیث کی تحقیق

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
فیضان امیر معاویہ جو کہ مجلس المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی) نے شائع کروائی ہے میں ایک روایت ہے:

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرؓ روایت فرماتے ہیں:
ایک روز نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ابھی تمہارے درمیان ایک شخص آئے گا وہ جنتی ہے تو حضرت سیدنا معاویہؓ داخل ہوئے ۔ پیارے آقا ، مدینے والے مصطفےٰﷺ نے فرمایا: معاویہ میں تم سے ہوں اور تم مجھے سے ہو ۔پھر آپﷺ نے دو انگلیاں (درمیان اور اس کے ساتھ والی) ملا کر فرمایا:تم جنت کے دروازے پر میرے ساتھ اس طرح ہو گے۔
فیضان امیر معاویہ صفحہ 171
صاحب کتاب نے اس روایت کے مندرجہ ذیل حوالے دیے ہی جن کی اسناد کی تحقیق بھی ساتھ ہی پیش کی جا رہی ہے۔

الشریعہ جلد 23 کتاب فضائل معاویہ
آجری نے اسے مندرجہ ذیل طریقے سے روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ , وَالْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ يَزِيدَ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ بَحْرٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ [عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ مِنْ هَذَا الْبَابِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ» . فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ مِثْلَ ذَلِكَ , ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ مِثْلَ ذَلِكَ , فَطَلَعَ مُعَاوِيَةُ. فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ هَذَا؟ قَالَ: «نَعَمْ هُوَ ذَا»
محقق نے اس کے حاشیے میں لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اسماعیل بن عیاش اپنے وطن کے علاوہ دوسری کی روایات خلط ملط
کردیتا ہے اور اس میں وہ مدنی راوی سے روایت لے رہا ہے۔
اس روایت کی سند میں اسماعیل بن عیاش نے عبدالرحمان بن عبداللہ بن دینار سے یہ روایت لی ہے۔ اسماعیل بن عیاش شام کے
محدثین میں سے ہے ، جمہور اس بات پر متفق ہیں کہ اگر وہ اپنے وطن (یعنی شام) کے لوگوں کی روایت بیان کرے گا تو ثقہ ہے ، اگر
یہ اپنے وطن کے علاوہ کسی کے حوالے سے روایت بیان کرتا ہے تو وہ ضعیف شمار ہو گی۔
مسند الفردوس ، باب الیا 5/393ح8530
مسند الفردوس میں یہ روایت کچھ اس طرح سے بیان کی گئی ہے:
8530 - ابْن عمر

يَا مُعَاوِيَة أَنْت مني وَأَنا مِنْك وَإنَّك تزاحمني على بَاب الْجنَّة كهاتين
چونکہ اس روایت کی کوئی سند بیان نہیں کی گئی اس لیے یہ قابل احتجاج ہی نہیں ہے۔

لسان المیزان 4/379ح5211
ابن حجر نے اس روایت کو عبدالعزیز بن بحر کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے ، اس روایت کو عبدالعزیز بن بحر نے اسماعیل بن عیاش اور اس
نے عبداللہ بن دینار سے روایت کیا ہے۔ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اسماعیل بن عیاش اپنے وطن (یعنی شام) کے لوگوں کی روایت
بیان کرے گا تو قابل استدلال ہے ، اگر یہ اپنے وطن کے علاوہ کسی کے حوالے سے روایت بیان کرتا ہے تو وہ ضعیف شمار ہو گی۔

تاریخ دمشق 59/98
ابن عساکر نے اس روایت کو اپنی سند کے ساتھ مندرجہ ذیل طریقے سے پیش کیا ہے:
أخبرنا أبو منصور عبد الرحمن بن محمد بن عبد الواحد أنا أبو بكر الخطيب أنا أبو الحسن بن رزقويه أنا أبو الخير فاتن بن عبد الله مولى أمير المؤمنين المطيع لله أنا أبو مروان عبد الملك بن محمد بن عبد الملك بن سلام ببيت المقدس نا أبو محمد جعفر بن محمد البردعي نا محمد بن عبيد الهاشمي عن عبد العزيز بن بحر نا إسماعيل بن عياش عن عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار عن أبيه عن عبد الله بن عمر قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يطلع عليكم من هذا الباب رجل من أهل الجنة فطلع معاوية فلما كان من الغد قال مثل ذلك فطلع معاوية فلما كان بعد الغد قال مثل ذلك فطلع معاوية قال رجل هو هذا قال نعم هو هذا ثم قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) يا معاوية أنت مني وأنا منك لتزاحمني على باب الجنة كهاتين.
صاحب کتاب نے اس روایت کے آخر میں خود ہی کہہ دیا ہے کہ خطیب بغدادی نے کہا ہے کہ اس کی سند میں عبدالعزیز بن بحر
ضعیف ہے اور اس کے علاوہ بھی اس میں مجہول راوی ہیں۔
اس روایت کی سند میں اسماعیل بن عیاش نے عبدالرحمان بن عبداللہ بن دینار سے یہ روایت لی ہے۔ اور پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ
اسماعیل بن عیاش اپنے وطن (یعنی شام) کے لوگوں کی روایت بیان کرے گا تو قابل استدلال ہے ، اگر یہ اپنے وطن کے علاوہ کسی
کے حوالے سے روایت بیان کرتا ہے تو وہ ضعیف شمار ہو گی۔
مزید برآں ابن عساکر نے اسے تین اور طرق سے بھی ذکر کیا ہے (تاریخ دمشق 59/99-100) ان کی اسناد میں بھی عبدالعزیز
بن بحر نےاسماعیل بن عیاش اور اس نے عبدالرحمان بن عبداللہ بن دینار سے روایت کی ہے۔ اس لیے یہ روایات بھی بھی اوپربیان
کی گئی وجوہات کی وجہ سے ضعیف ہیں۔


السنۃ للخلال، 1/454 ح704
خلال نے اس روایت کو کچھ یوں پیش کیا ہے:
أَخْبَرَنِي حَرْبٌ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصَفَّى، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مُعَاوِيَةُ، أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، لَتُزَاحِمَنِي عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ»
محقق نے اس کے حاشیہ میں لکھا ہے "اسنادہ لا یصح"، اس کی اسناد صحیح نہیں۔
اس کی سند میں ضعف کی وجہ مندرجہ ذیل ہے:
اوّل: عبدالرحمان بن عبداللہ بن دینار صدوق خطاکار راوی ہے۔
دوم: اسماعیل بن عیاش شام کے محدثین میں سے ہے ، جمہور اس بات پر متفق ہیں کہ اگر وہ اپنے وطن (یعنی شام) کے لوگوں کی
روایت بیان کرے گا تو ثقہ ہے ، اگر یہ اپنے وطن کے علاوہ کسی کے حوالے سے روایت بیان کرتا ہے تو وہ ضعیف شمار ہو گی۔
سوم: محمد بن مصفیٰ مدلس ہے اور تدلیس تسویہ بھی کرتا ہے۔ یہ روایت معنعن ہے ۔

اس روایت کو ابن جوزی نے اپنی مشہور کتاب "علل المتناہیہ " میں ایک مکمل باب کے تحت ذکر کیا ہے ۔(علل المتناہیہ 1/278 )
ابن جوز ی اس کے تمام طرق پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے تمام طریق کے تحت صحیح نہیں ہے اور اس سے قبل ہم
نے ذکر کر دیا کہ عبدالرحمان قابل ِ احتجاج نہیں اور عبداللہ بن یحییٰ مجہول ہے، اسماعیل بن عیاش ضعیف ہے، ابن حبان نے کہا کہ
اس کی حدیث میں بہت زیادہ غلطیاں ہیں اور وہ نہیں جانتا پس وہ قابل استدلال ہونے کی حد سے نکل گیا ہے۔

خلاصہ تحقیق
اوپر دیئے گئے حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ روایت کسی طرح بھی قابل استدلال نہیں ہے ۔ بلکہ امام ذہبی اور ابن جوزی کے نزدیک یہ موضوع روایت ہے۔ نبیﷺ سے ایسے الفاظ جان بو جھ کر منسوب کرنا جو آپﷺ سے ثابت نہیں ، ایک نہایت قبیح فعل ہے ، جس کی سزا نبیﷺ کے اپنے فرمان کی روشنی میں دوزخ کی آگ ہے۔
واللہ اعلم۔

راویوں کا تفصیلی حال

اسماعیل بن عیاش
روى عن : اسحاق بن عبد اللہ بن ابو فروہ المدنی ،اسید بن عبد الرحمن الخثعمی ،بحیر بن سعد الكلاعی ،تمام بن نجیح الاسدی ،تمیم بن عطیہ العنسی ،ثابت بن عجلان الانصاری ،ثعلبہ بن مسلم الخثعمی ،ثور بن یزید الرحبی ،حبیب بن صالح الطائی ،حجاج بن ارطاۃ الکوفی ،حرام بن عثمان الانصاری المدنی ،حمید بن ابو سوید( ابن ابو سویہ بھی کہا جاتا ہے) ،راشد بن داود الصنعانی ،رزیق ابو عبد اللہ الالہانی ،زید بن اسلم ،سعید بن یوسف الرحبی ،سفیان الثوری ، سلیمان بن سلیم الكنانی ،سلیمان الاعمش ،سہیل بن ابو صالح ،شرحبیل بن مسلم الخولان ،صالح بن كیسان ،صفوان بن عمرو السكسكی ،ضمرہ بن ربیعہ ،ضمضم بن زرعہ الحضرمی،عاصم بن رجاء بن حیوہ الكندی ،عباد بن كثیرالثقفی ،عبد اللہ بن بشر الحبرانی ،عبد اللہ بن دینار ،عبد اللہ بن زیاد بن سمعان المدنی ،عبد اللہ بن سلیمان ،عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابو حسین المكی ، عبد اللہ بن عبد الرحمن ابن معمر الانصاری ،عبد اللہ بن عثمان بن خثیم ،عبد ربہ بن سلیمان بن زیتون ،عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر الحضرمی ،عبد الرحمن بن الحارث بن عیاش ،عبد الرحمن بن زیاد ابن انعم الافریقی ،عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعی ،عبد العزیز بن عبید اللہ بن حمزہ بن صہیب ،عبد العزیز بن عمر بن عبد العزیز ،عبد الملك بن عبد العزیز بن جریج المكی ، عبید اللہ بن عبید الكلاعی ،عبید اللہ بن عمد العمری ،عبید اللہ بن الولید الوصافی ،عتبہ بن حمید الضبی ،عطاء بن عجلان ،عقیل بن مدرك ،عمار بن غزیہ الانصاری ،عمر بن محمد بن زید بن عبد اللہ بن عمر العمری ،عمرو بن قیس السكونی ،عمرو بن المہاجر الانصاری ،لیث بن ابو سلیم ،محمد بن زیاد الالہانی ،محمد ابن طلحہ بن مصرف ،محمد بن عبد الرحمن بن عرق،محمد بن عبید اللہ العرزمی ،محمد بن عمرو بن علقمہ بن وقاص اللیثی ،محمد بن مہاجر الانصاری ،محمد بن الولید الزبیدی ،معدان بن حدیر الحضرمی ،موسى بن عقبہ ،ہشام بن عروہ ،ہشام ابن الغاز ،ولید بن عباد الازدی ،یحییٰ بن سعید الانصاری ،یحییٰ بن ابو عمرو الشیبانی ، یحییٰ بن یزید الرہاوی ،یزید بن ایہم الشامی ،یزید بن حجر الشامی ،ابو بكر بن عبد اللہ بن ابو مریم الغسانی ،ابو بكر الہذلی .
روى عنہ: ابراہیم بن شماس السمرقندی ، ابراہیم بن العلاء الزبیدی ،ابو ض بن الاغر بن الصباح المنقری ، اسماعیل بن ابراہیم الترجمانی ، اسماعیل بن ابراہیم الہذلی القطیعی ، بقیہ بن الولید ،جعفر بن حمید الکوفی ،حجاج بن محمد الاعور ،حسن بن حدان الرازی ، حسن بن سوار ،حسن بن عرفہ العبدی ،حسن بن علی بن مسلم السكونی ، حكم بن موسى ، حكم بن نافع البہرانی ،حیوہ بن شریح الحمصی ،خطاب بن عثمان الفوزی ،داود بن رشید ،داود بن عمرو الضبی ، ربیع بن نافع الحلبی ، زہیر بن عباد الرؤاسی ،سعید بن عمرو الحضرمی ،سعید بن منصور ،سفیان الثوری (یہ ان کے شیخ بھی تھے) ، سلم بن قتیبہ ، سلیمان بن ایوب الحمصی ، سلیمان ابن داود الطیالسی ،سلیمان بن عبد الرحمن الدمشقی ،سلیمان الاعمش (یہ ان کے شیخ بھی تھے) ،شبابہ بن سوار ،شجاع ابن الاشرس ،شجاع بن مخلد ،شجاع بن الولید ،ضمرہ بن ربییعہ ،عبد اللہ بن صالح العجلی ،عبد اللہ بن عبد الجبار الخبائری ،عبد اللہ بن المبارك ،ابو بكر عبد اللہ بن محمد بن ابو شیبہ ،عبد اللہ بن وہب المصری ، عبدالاعلى بن مسہر الغسانی ،عبد الرحمن بن عبید اللہ الحلبی ، عبد الرحمن بن واقد الواقدی ،عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی ،عبد العزیز بن بحر البغدادی ،ابو صالح عبد الغفار بن داود الحرانی ،عبد الوہاب بن الضحاك العرضی ،عبد الوہاب بن نجدہ الحوطی ، عبید بن رزین الالہانی ،عتبہ بن سعید بن الرخص ،عثمان بن محمد بن ابو شیبہ، علی بن حجر السعدی المروزی ، علی ابن عیاش الحمصی ،عمرو بن عثمان بن سعید بن كثیر بن دینار الحمصی ،غسان بن الربیع ،فرج بن فضالہ ، قاسم بن سلام ،قاسم بن یحییٰ الہلالی،ا كثیر بن الولید ،لیث بن سعد ،مالك بن سلیمان الالہانی ،محمد بن اسحاق ابن یسار المدنی ، محمد بن اسماعیل بن عیاش (بیٹا) ،محمد بن بكار بن الریان ،محمد بن حمیر السلیحی ،محمد بن سلام البیكندی ،محمد بن عبید المحاربی ، محمد بن عثمان التنوخی ،محمد بن عیسى ابن الطباع ،محمد بن المبارك الصوری ،مروان بن محمد الطاطری ،معتمر بن سلیمان ،منصور بن ابو مزاحم ،موسى بن اعین الجزری ،ہارون بن معروف البغدادی ،ہشام بن عمار السلمی ،ہناد بن السری ،ہیثم ابن خارجہ ،ولید بن مسلم ،یحییٰ بن حسان التنیسی ،یحییٰ بن صالح الوحاظی ،یحییٰ بن معین ،یحییٰ بن یحییٰ نیشاپوری ،یزید بن ہارون ت ،یوسف بن عدی ۔یہ شام کے بڑے جید عالم ہیں ۔جب ان کا انتقال ہوا تو انہوں نے اپنے پیچھے اپنی مانند کوئی شخص نہیں چھوڑا۔
انہوں نے بطور طالب علم شرحبیل بن مسلم سے استفادہ کیا جو ان کے سب سے جلیل القدر استاد ہیں۔
یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ شام اور عراق میں میں نے اسماعیل بن عیاش سے محفوظ کوئی نہیں دیکھا۔
ابو الیمان کہتے ہیں کہ ان کا گھر میرے پڑوس میں تھا۔یہ رات کے وقت نوافل ادا کیا کرتے تھے۔ بعض اوقات یہ تلاوت کرتے ہوئے تلاوت درمیان میں منقطع کردیتے تھے۔
ایک دن میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟ میں نے جواب دیا میں اس کی حقیقت جانناچاہتا ہوں تو وہ بولے میں نماز کے دوران قرات کررہا ہوتا پھر مجھے کسی موضوع سے متعلق کوئی حدیث یاد آاجاتی ہےجو میں نےسنی ہوئی ہوتی ہے تو میں نمازکو درمیان میں چھوڑ کر جا کر اس حدیث کو نوٹ کرتا ہوں پھر واپس آکر نماز ادا کرتا ہوں۔
یحییٰ وحاظی کہتے ہیں کہ میں نے اسماعیل بن عیاش سے زیادہ بڑے دل کا مالک اور کوئی شخص نہیں دیکھا۔جب ہم ان کی زرعی زمین پر آتے تھے تووہ ہمیں میوہ جات اور قیمتی پھل کھلایا کرتے تھے۔ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنے والد کی طرف سے وراثت میں چار ہزار دینا رملے تھے جو میں نے علم کے حصول میں خرچ کئے۔
عثمان بن صالح سہمی کہتے ہیں کہ حمص کے رہنے والے لوگ حضرت علیؓ کی شان میں تنقیص کیا کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے درمیان اسماعیل بن عیاش آئے تو انہوں نے حضرت علیؓ کے فضائل کے بارے میں ان لوگوں کو بتایا تو وہ اس عمل سے باز آئے۔
داود بن عمر و ضبی کہتے ہیں کہ میں نے اسماعیل بن عیاش کے پاس کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی۔
یحییٰ بن معین نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
امام احمد بن حنبل نے ان سے دریافت کیا کہ انہیں کتنی روایات یاد تھیں؟ تو انہوں نے جواب دیا بہت زیادہ۔پھر دریافت کیا کہ دس ہزار تو انہوں نے جواب دیا دس ہزار اور دس ہزار اور دس ہزار۔احمد بن حنبل نے کہا کہ اس کی اہل عراق اور اہل حجاز کی روایات میں کچھ مسئلہ ہے البتہ اہل شام کی روایات میں یہ ثبت ہے۔
تو امام احمد بن حنبل بولے پھر یہ وکیع کی مانند ہوئے۔
فسوی کہتے ہیں کہ میں نے علماء کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ شام کا علم اسماعیل بن عیاش اور ولید کے پاس ہے۔میں نے ابو الیمان کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے وہ دوست جو علم حدیث کی طلب میں انتہائی دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بہت کوشش کی اور مشقت برداشت کی،سفر کیا لیکن ہم جب بھی کسی محدث کے پاس پہنچے تو ہمیں اس سے وہی روایات ملیں جو ہم اسماعیل بن عیاش کے پاس نوٹ کر چکے تھے۔کچھ لوگوں نے اسماعیل کے بارے میں کلام کیا ہے حالانکہ یہ ثقہ اور عادل ہیں اور یہ اہل شام کی روایات کے سب سے بڑے عالم ہیں، جن لوگوں نے اس کے بارے میں کلام کیا ہے ان میں سے زیادہ تر نے یہی کہا ہے کہ انہوں نے حجاز کے ثقہ راویوں کے حوالے سے غریب روایات نقل کی ہیں۔
ہیم بن خارجہ کتہے ہیں کہ میں نے یزید بن ہارون کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اسماعیل بن عیاش سے بڑا حافظ الحدیث نہیں دیکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ثوری کیا چیز ہے۔
عباس دوری یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں۔ ابن ابو خیثمہ ، یحییٰ بن معین کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اہل شام میں سے اسمیں کوئی حرج نہیں۔
دحیم کہتے ہیں کہ یہ اہل شام کی روایات میں انتہا ہیں تاہم اہل مدینہ کی روایات میں مختلط ہوجاتے ہیں۔
امام بخاری کہتے ہیں کہ اگر یہ اپنے شہر کے لوگوں کے حوالے سے روایات نقل کریں تو وہ مستند ہوں گی،لیکن اگر اپنے شہر کے علاوہ دوسروں سے روایات نقل کریں تو وہ محل نظرہ ہوں گی۔
امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ یہ کمزور حیثیت کے مالک ہیں۔میرے علم کے مطابق صرف ابو اسحاق فزاری نے ان پر تنقید نہیں کی۔
ابو زرعہ رازی کہتے ہیں کہ صدوق ہے الا یہ کہ حجازیوں اور عراقیوں کی روایت میں غلطی کرتا ہے۔
امام نسائی نے کہا کہ یہ ضعیف ہے۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس کی نقل کردہ روایات میں بکثرت غلطیاں پائی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے یہ مستند ہونے کی حد سے باہر نکل گئے ہیں۔
ابن شاہین نے اس کی توثیق کی ہے۔
ابو صالح الفراء کہتے ہی کہ میں نے ابو اسحاق فزاری سےکہا کہ میں مکہ جانا چاہتا ہون میرا ارادہ ہے کہ میں حمص سے بھی گزروں گا اور اسماعیل بن عیاش سے بھی احادیث کا سماع کرلوں گا۔تو ابو اسحاق فزاری بولے وہ کیسا شخص ہے جسے پتہ ہی نہیں کہ اس کے سر سے کیا نکل رہا ہے۔
محمد بن مثنیٰ کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمان بن مہدی کو اسماعیل بن عیاش کے حوالے سے کبھی کوئی روایت نقل کرتے ہوئے نہیں سنا۔
عبداللہ بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل شام کی روایات کا اسماعیل بن عیاش سے بڑا اور کوئی عالم نہیں ہے۔ اگر وہ اہل شام کی راویات پر ثابت رہتا تو ٹھیک تھا لیکن اس نے اہل عراق کے حوالے سے جو روایات نقل کی ہیں ان میں اختلاط کا شکار ہوگیا۔پھر انہون نے عبدالرحمان کے حوالے سے ہمیں وہ روایت سنائی اور اسکی نقل کردہ روایت کو ایک طرف رکھ دیا تو میرے نزدیک یہ ضعیف ہے۔
شیخ عبداللہ بن احمد فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کے سامنے یہ روایت پیش کی جو انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عمرؓ کے حوالے سے نقل کی ہے۔
"حیض والی عورت اور جنبی شخص قرآن کا کوئی حصہ نہیں پڑھ سکتے "۔
تو میرے والد نے جواب دیا کہ یہ روایت جھوٹی ہے یعنی اس روایت میں اسماعیل نامی راوی کو وہم ہوا ہے ۔میرے والد سے اسماعیل اور بقیہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ بقیہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔
عبداللہ بن احمد فرماتے ہیں ، ابو اسحاق فزاری کہتے ہیں کہ بقیہ معروف راویوں کے حوالے سے جو روایات تمہارے سامنے بیان کریں انہیں لکھ لولیکن جو غیرمعروف راویوں کے حوالے سے بیان کریں انہیں مت لکھو۔البتہ اسماعیل بن عیاش کے حوالے سے تم کوئی بھی روایات نوٹ نہ کرو خواہ اس نے معروف راوی کے حوالے سے اسے نقل کیا ہو یا غیر معروف راوی کے حوالے سے۔
اسماعیل بن عیاش نے یہ روایت مرسل حدیث کے طور پر نقل کی ہے:
"اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نمازکے دوران عبث کام کرنے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور روزے کے دوران بیہودگی کرنے کو اور قبرستان میں ہنسنے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے"۔
یہ روایت عبداللہ بن مبارک نے نقل کی ہے۔
انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو درداء کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
اے آدم کے بیٹو! تم دن کے وقت میرے لیے چار رکعت ادا کرومیں اس کے آخری حصے میں تہمارے لیے کفایت کروں گا"۔
یہ روایت حسن اور اس کی سند قوی ہے۔
انہوں نےسیدہ عائشہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے:
"جو شخص قے کرے یا اس کی نکسیر پھوٹ جائے اور نماز کے دوران اسے حدث لاحق ہو جائے تو وہ جائے جا کر وضو کرے اور پھر اپنی نماز پر بنا قائم کرے"۔
امام احمد کہتے ہیں کہ درست ہے یہ روایت مرسل ہے۔
یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اسماعیل ، بقیہ، اور فرج بن فضالہ سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ اسماعیل نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو امامہؓ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے:
"سربراہ ذمہ دار ہوتا ہے"۔
ابن عدی کہتے ہیں کہ شعبہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عوف بن مالکؓ سے یہ روایت نقل کی ہے۔
"نبیﷺ کی نماز جنازہ ادا کی گئی"
یزید نامی راوی کہتے ہیں کہ بعد میں اسماعیل نامی راوی ہمارے پاس آئے اور انہوں نے ہمیں یہ حدیث سنائی۔
امام ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں کہ شام میں اوزاعی، سعید بن عبدالعزیز کے بعد اسماعیل سے زیادا بڑا حافظ الحدیث اور کوئی نہیں ہے۔
انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو ایوبؓ کے حوالے سے بیان کیا ہے :
"تم لوگ اپنے اناج کو ماپ لیا کرو اس میں تہمارے لیے برکت ہوگی"۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے حوالے سے یہ روایت اس نے کی ہے:
"آپس میں ہی حدود کے متعلق جرم کو معاف کردہ جب کوئی حد مجھ تک پہنچ جائے تو اسے جاری کرنا لازم ہو جائے گا"۔
ایک روایت حضرت ابو ہریرہؓ کے حوالے سے اس نے ایک اور روایت بیان کی ہے:
"جب کوئی شخص کوئی خط تحریر کرے تو اسے مٹی میں ملادے، کیونکہ یہ مقصد کے حوالے سے زیادہ فائدہ مند ہو گا"۔
یہ تمام روایات ابن عدی نے نقل کی ہیں۔
مضرس کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین سے اسماعیل بن عیاش کے بارے میں دریافت کیا تو وہ بولے کہ اس نے اہل شام کے حوالے سے جو روایات نقل کی ہیں وہ درست ہیں۔لیکن جب یہ اہل عراق یا اہل مدینہ کے حوالے سے روایات نقل کرتا تو اس میں اختلاط کا شکار ہو جاتا ہے۔
انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عمرؓ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے:
"اس امت میں ایک ایسا شخص ہو گا جس کا نام ولید ہوگا اور یہ اس امت کے لیے اس سے زیادہ ضرر رساں ہو گا جتنا فرعون اپنی قوم کے لیے نقصان دہ تھا"۔
امام ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی روایت ہے۔
انہوں نے اپنی سند کے ساتھ عبدالرحمان بن شبلؓ سے یہ روایت نقل کی ہے۔
"نبیﷺ نے گوہ کھانے سے منع کیاہے"۔
یہ روایت منکر ہے۔
انہوں نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے حوالے سے نقل کیا ہے:
"قاتل کو وراثت سے کچھ نہیں ملے گا"۔
انہوں نے اسی طرح بیان کیا ہے تام محدثین کی ایک جماعت نے یہ روایت عمرو بن شعیب کے حوالے سےحضرت عمرؓ کے قول کے طور پر مرسل روایت کے طور پر نقل کی ہے۔
ایک روایت انس ؓ کے حوالے سے بیان کی ہے:
"تمہاری خواتین میں سے سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جو پاکدامن اور شدید شہوت والی ہو"۔
عباس دوری کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے ایک مرتبہ میں اسماعیل بن عیاش کے پاس گیا تو میں نے جوہری کے گھر کے پاس ایک بالاخانے میں ان کو پایا ان کے ساتھ دو آدمی تھے جو ایک تحریر کو غور سے دیکھ رہے تھے۔اس دن اسماعیل بن عیاش نے ان لوگوں کو پانچ سو کے لگ بھگ روایات سنائیں۔ وہ لوگ نیچے موجود تھے اور اس کی تحریر کو لکھتے جارہے تھے اور صبح سے رات تک نقل کرتے رہے ، یہ دیکھ کر میں واپس آگیا اور میں نے اس سے احادیث کا سماع نہیں کیا۔پھر میں ایک مرتبہ اس کے پاس گیا تو وہ اس وقت املاء کروارہا تھا تو میں نے اس کے حوالے سے ا ن روایات کو لکھ لیا۔
امام ترمذی نے اسماعیل کی نقل کردوہ اس روایت کو بھی صحیح قرار دیا ہے جسے اس نے بطور خاص اپنے شہر کے لوگوں سے نقل نہیں کیا۔ان میں سے ایک روایت یہ بھی ہے:
"والد کے لیے وصیت نہیں ہوتی"۔
اسی طرح یہ روایت ہے:
"آدم کے بیٹے کے لیے چند لقمے کافی ہوتے ہیں جو اس کی پشت کو سیدھا رکھیں"۔
اسماعیل بن عیاش نے اپنی سند کے ساتھ مالک بن یسار کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ:
"نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو تو ہتھیلی کے اندرونی حصے کے ذریعے دعا مانگو اس کے باہر والے حصے کے ذریعے دعا نہ مانگو"۔
یزید بن یسار کے علاوہ یہ روایت کسی او رسند سے معلوم نہیں ہوسکی۔
ذہبی نے الکاشف میں انہیں شام کا عالم کہا ہے۔
ابن حجر نے کہا کہ آٹھویں طبقہ کا اپنے شہر والوں سے اپنی روایات میں صدوق اور ان کے علاوہ روایات کو خلط مطل کردینے والا راوی ہے۔

(تاریخ الکبیر 1/369ح1169، الجرح والتعدیل 2/191ح650، ثقات ابن شاہین ص 27 ح9،مجمع الزوائد،تاریخ بغداد7/186ح3229،تاریخ دمشق 9/35ح756، تہذیب الکمال3/163ح472، الکاشف1/248ح400، میزان الاعتدال1/400ح924(اردو1/326ح924)، سیر اعلام النبلاء7/312، تذہیب التہذیب1/376ح474، تہذیب التہذیب1/301ح585، تقریب التہذیب1/184ح544(اردو1/78ح473))
صدوق۔ اپنے شہر والوں سے اس کی روایت ثبت ہے، اس کے علاوہ دوسروں کی روایات میں اس کی متابعت دیکھی جائے گی۔

عبدالرحمان بن عبداللہ بن دینار
روی عن:اسید بن ابی اسید البراد، زید بن اسلم، سلمہ بن دینار، عبداللہ بن دینار (والد)، عمرو بن یحییٰ بن عمارہ المازنی، محمد بن زید بن المہاجر بن قنفذ، محمد بن عجلان، موسیٰ بن عبیدہ الربذی۔
روی عنہ: اشعث بن شعبہ المصیصی، بہلول بن حسان التنوخی، حسن بن موسیٰ الاشیب، سلم بن قتیبہ، سلمہ بن رجاء، عبداللہ بن مبارک، عبدالصمد بن عبدالوارث، عثمان بن عمر بن فارس، علی بن الجعد، عمرو بن مرزوق، قرہ بن حبیب الغنوی، محمد بن زیاد بن زبار الکلبی، مسلم بن ابراہیم، معن بن عیسیٰ، نعمان بن عبدالسلام الاصبہانی، ہاشم بن قاسم، یحییٰ بن سعید القطان، ابو علی الحنفی، ابو الولید الطیالسی۔
عباس دوری نے یحییٰ بن معین نے کہا کہ میرے نزدیک اس کی حدیث میں ضعف ہے، یحییٰ بن سعید القطان نے اس سے روایت کی ہے۔
عمرو بن علی کہتے ہیں کہ میں نے نہیں سنا کہ عبدالرحمان بن مہدی اس سے کوئی بھی حدیث لیتے تھے۔
ابو حاتم رازی نے کہا کہ اس میں کمزوری ہے، اس کی حدیث لکھی جائے گی مگر قابل احتجاج نہ ہو گی۔
ابو قاسم البغوی نے کہا کہ صالح الحدیث ہے۔
ابو احمد الحاکم نے کہا کہ بخاری نے وضو اور جہاد کے موضوعوں میں اس سے دلیل پکڑی ہے۔
ابن خلفون نے کہا کہ علی بن مدینی سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ صدوق ہے۔
ابن عدی نے اس کے حوالے سے متعدد احادیث نقل کی ہیں پھر یہ بات بیان کی ہے یہ ان ضعیف راویوں میں سے ایک ہے جن کی نقل کردہ احادیث کو لکھا جائے گا۔عبدالعظیم بن حبیب نے اس راوی کے حوالے سے اس کی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر کا یہ بیان نقل کیا ہے:
"نبیﷺ جب جنازے کے پیچھے چل رہے ہوتے تھے تو جاتے ہوئے بھی اور واپس آتے ہوئے بھی ہم آپﷺ کی زبانی صرف لا الہ الا اللہ پڑھنے کی آواز سنتے تھے"۔
عبدالصمد بن عبدالوارث نے اس راوی کے حوالے سے زید بن اسلم کا یہ بیان نقل کیا ہے:
"سکندریہ میں میری ملاقات ایک شخص سے ہوئی جس کا نام سرق تھا، میں نے دریافت کیا یہ کیسا نام ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:نبیﷺ نے میرا یہ نام رکھا ہے"۔
اس راوی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہؓ کا یہ بیان نقل کیا ہے:
"نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رحم ایک ٹکڑا ہے جو رحمٰن کے دونوں کندھوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے، رحمٰن نے اس سے فرمایا جو تمہیں ملا کر رکھے گا میں اسے ملا کر رکھوں گا اور جو تمہیں منقطع کر ے گا ، میں اسے کاٹ دوں گا"۔
امام بخاری نے یہی روایت ایک سند کے ہمراہ نقل کہے ، جبکہ یہی روایت ایک جماعت نے دیگر اسناد کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہؓ کے حوالے سے نقل کی ہے ، وہ نبیﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:
"جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مخلوق کی پیدائش سے فارغ ہو گیا تو رحم کھڑا ہو گیا اور اس نے رحمٰن کے ازار کو پکڑ لیا ،رحمٰن نے دریافت کیا : کیا ہے؟ اس نے عرض کی ،قطع رحمی سے تیری پناہ حاصل کرنے والے کا مقام ہے تو پروردگر نے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ جو تمہیں ملا کر رکھے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تمہیں منقطع کرے گا میں اسے منقطع کردوں گا تو اس نے عرض کی: جی ہاں! اے میرے پروردگار، تو پروردگار نے فرمایا: ایسا ہی ہو گا"۔(بخاری 5987)
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں : اگر تم زمین میں حکمران بن گئے تو تم زمین میں فساد کرو گے قطع رحمی کرو گے"۔
ابن مبارک، حااتم بن اسماعیل نے معاویہ نامی راوی کے حوالے سے اسے نقل کرنے میں متابعت کی ہے۔
یہ صالح الحدیث ہے اسے ثقہ قرار دیا گیا ہے۔یحییٰ بن سعید نے رجال کے بارے میں شدت پسند ی کے باوجود اس کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔
ذہبی نے کہا کہ اس کی توثیق کی گئی ہے، صالح الحدیث ہے، ضعفاء میں سے ہے جس کی حدیث لکھی جاتی ہے، اس میں کمزوری ہے۔
ابن حجر نے کہا کہ ساتویں طبقہ کا صدوق خطاء کار راوی ہے۔
(طبقات ابن سعد7/601ح2267(اردو5/316)، تاریخ یحییٰ بن معین بروایت الدوری2/350، تاریخ الکبیر 5/649ح999، ابو زرعہ رازی 443، آجری 3/108، ضعفاء العقیلی2/375ح936، الجرح والتعدیل 5/254ح1204، المجروحین 2/16ح572، الکامل ابن عدی5/485ح1126، تہذیب الکمال 17/208ح3866، الکاشف1/632ح3234، دیوان الضعفاء ص243ح 2459، المغنی 1/604ح3586، میزان الاعتدال4/296ح4906(اردو 4/272ح4906)، من تکلم فیہ ص 334ح214 ، تذہیب التہذیب6/5ح3935، تہذیب التہذیب4/73ح4572، تقریب التہذیب 3/291ح3938)
صدوق خطا کار راوی ہے۔

عبدالعزیز بن بحر
روی عن: اسماعیل بن جعفر،اسماعیل بن عیاش،تلید بن سلیمان، رشدین بن سعد،سلیمان بن ارقم، عطاف بن خالد وغیرہ۔
روی عنہ: ابراہیم بن اسماعیل السوطی،عبداللہ بن ابی سعد الوراق، محمد بن سوید الطحان،محمد بن علی السرخسی، موسیٰ بن محمد الختلی، ابو بکر ابن ابی الدنیا۔

اس نے اسماعیل بن عیاش کے حوالے سے ایک جھوٹی روایت نقل کی ہے۔ عباس دوری نے اس کے بارے میں طعنہ زنی کی ہے۔ اور روایت کے یہ الفاظ اسی سے منقول ہیں۔ جبکہ عبداللہ بن احمد اوعر دیگر حضرات نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمرؓکا یہ بیان نقل کیا ہے:
"نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ابھی تمہارے سامنے اہل جنت سے تعلق رکھنے والا ایک شخص آئے گا۔ تو حضرت معاویہ آگئے۔ نبیﷺ نے فرمایا: معاویہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں جنت کے دروازے پر تم میرے ساتھ یوں ہو گے"۔ نبی ﷺ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کرکے یہ بات ارشاد فرمائی۔
ذہبی نے اس پر کذب کی تہمت لگائی ہے۔
(طبقات ابن سعد9/367ح4437(اردو7/343)، تاریخ بغداد12/211ح5559،میزان الاعتدال4/358ح5090(4/324ح5090)، المغنی1/628ح3723، لسان المیزان5/194)

محمد بن مصفی
روی عن:احمد بن خالد الوہبی، احمد بن عبداللہ بن یونس، آدم بن ابی ایاس، اسحاق بن ابراہیم الفرادیسی، انس بن عیاض ، بقیہ بن ولید، حفص بن عمر العدنی، حکم بن نافع، سفیان بن عیینہ، اسلم بن میمون الخواص، سلیمان بن عبدالرحمان، سوید بن عبدالعزیز، شریح بن یزید الحضرمی، عباس بن اسماعیل، عباس بن ولید (صاحب شعبہ)، عبدالاعلیٰ بن مسہر، عبدالرھیم بن سلیمان، عبدالقدوس بن الحجاج، عبیداللہ بن موسیٰ، عتبہ بن سعید بن الرخص، عثمان بن عبدالرحمان، عصام بن خالد، عصام بن المثنیٰ بن وائل، علی بن عیاش، محمد بن اسماعیل بن عیاش، محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک، محمد بن حرب الخولانی، محمد بن حمیر، محمد بن شعیب بن شاپور، محمد بن عثمان التنوخی، محمد بن مبارک الصوری، مروان بن محمد الطاطری، مصفیٰ بن بہلول القرشی، معافیٰ بن عمران الظہری، معاویہ بن حفص، منبہ بن عثمان اللخمی، موسیٰ بن اسماعیل، ہاشم بن عمرو الحمصی، ہشام بن عمار، ولید بن مسلم ، یحییٰ بن سعید العطار الحمصی، یسرہ بن صفوان اللخمی، یوسف بن السفر۔
روی عنہ:ابو داود، نسائی ، ابن ماجہ، ابراہیم بن دحیم، ابراہیم بن محمد بن عرق الحمصی، احمد بن ابراہیم البسری، احمد بن سیار المروزی، احمد بن محمد بن علی بن رزین، احمد بن محمد بن فضالہ الحمصی، احمد بن المعلیٰ بن یزید ، احمد بن یحییٰ بن جابر البلاذری، احمد بن یحییٰ الانطاکی، اسحاق بن ابراہیم بن نصر البشتی، اسحاق بن ابراہیم البستی، انس بن سلم الخولانی، بقی بن مخلد، جعفر بن احمد بن عاصم الدمشقی، حسن بن احمد بن ابراہیم بن فیل، حسین بن ابراہیم السکونی، حسین بن محمد الحرانی (ابو عروبہ)، حمید بن محمد بن النضر البعلبکی، خالد بن روح الثقفی، زکریا بن یحییٰ السجزی، سعید بن عبدالعزیز الحلبی، سلیمان بن محمد الخزاعی، عباس بن احمد بن حسان الشامی، عبداللہ بن ابی داود، عبداللہ بن سلم المقدسی، عبدالصمد بن عبداللہ بن عبدالصمد، عبدالغافر بن سلامہ الحمصی، عبدان بن احمد الاہوازی، عمر بن سعید بن سنان المنبجی، عمران بن موسیٰ بن فضالہ الموصلی، محمد بن ادریس بن ابی حمادہ، محمد بن برکہ برداعس، محمد بن تمام بن صالح، مھمد بن جابر الرملی، محمد بن الحسن بن قتیبہ العسقلانی، محمد بن العباس بن الدرفس، محمد بن عبداللہ بن عبدالسلام مکحول البیروتی، محمد بن عبداللہ بن محمد الطائی، محمد بن عبیداللہ بن الفضیل الکلاعی، محمد بن محمد بن سلیمان الباغندی، محمد بن یحییٰ بن رزین العطار، محمد بن یوسف بن بشر بن مامویہ، مرار بن حمویہ الہمذانی، موسیٰ بن جمہور التنیسی، موسیٰ بن العباس الجوینی، ابو بشر الدولابی، ابو حاتم الرازی، ابو زرعہ الدمشقی، ابو علی بن قیراط۔
ابو حاتم نے کہا کہ صدوق ہے۔
نسائی نے کہا کہ صالح ہے۔
ابو زرعہ دمشقی نے کہا کہ تدلیس تسویہ کرتا ہے۔
مسلمہ بن قاسم نے کہا کہ ثقہ مشہور ہے۔
صالح بن محمد البغدادی نے کہا کہ حدیث کو مخلط کرتا ہے ،منکر روایات بیان کرتا ہے۔ صدوق ہے۔
بزّار نے کہا کہ ثقہ ہے اس پر کلام کیا گیا ہے جو مضر نہیں۔
ابن حبان نے اس کا ذکر الثقات میں کیا ہے اور کہا ہے کہ خطاء کرتا ہے۔ ابن حبان نے اپنے مقدمۃ الضعفاء کےآخر میں کہا کہ صفوان بن صالح اور محمد بن مصفی تدلیس تسویہ کرتے تھے۔
ابن عساکر نے کہا کہ صدوق ہے ایک اور جگہ کہا کہ صالح ہے۔
ذہبی نے کہا کہ حافظ امام ، صالح انسان اور اہل حص کے عالم ہیں ،ثقہ ہیں اور غریب روایات بیان کرتے ہیں۔
ابن حجر نے کہا کہ دسویں طبقہ کا صدوق اوہام والا راوی ہے جو تدلیس کرتا تھا۔ ابن حجر نے اس کا ذکر اپنی کتاب تعریف اہل التقدیس میں بھی کیا اور کہا کہ تدلیس کرتا تھا۔
ابن طلعت نے اسے اپنی معجم المدلسین میں ذکر کیا ہے۔
حافظ زبیر نے کہا کہ یہ مدلس ہے ۔ اور ابن حبان کے حوالے کی سند کو صحیح قرار دیا۔
(تاریخ الکبیر 1/246ح782،ضعفاء العقیلی4/145ح1710،الجرح والتعدیل 8/104ح446،الثقات 9/100،معجم المشتمل ص 271ح957، طبقات الحنابلہ1/325ح456، تہذیب الکمال26/465ح5613 ،الکاشف2/222ح5157، میزان الاعتدال،سیر اعلام النبلاء 12/94،المغنی ص ح 5988،تذہیب التہذیب8/292ح6349،تہذیب التہذیب6/59ح7447،تقریب التہذیب4/499ح6344،تعریف اہل التقدیس ص 42ح 103، مجمع الزوائد5/316 اور 6/250،معجم المدلسین ابن طلعت ص 420ح146،الفتح المبین ص 122)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اتنی محنت آپ کر رہے ہیں، اللہ تعالی جزائے خیردے۔
جن کو عربی سمجھ نہیں آتی، اور آپ ان کے لیے یہ سب کچھ اردو میں کر رہے ہیں، انہیں ذرا اپنی درج ذیل عبارتیں پڑھائیں، اور پوچھیں کہ کیا سمجھے ہیں؟
صدوق خطا کار راوی ہے۔
عباس دوری نے اس کے بارے میں طعنہ زنی کی ہے۔
علم حدیث و رجال کو حتی الامکان اردو میں آنا چاہیے، لیکن آپ کا کام دیکھ کر تو یہ ایک فتنہ ہی محسوس ہورہا ہے۔
خطا کار ہمارے اردو محاورے میں گناہ گار کے معنی میں ہوتا ہے۔ جبکہ کسی پر طعنہ زنی کرنا، کسی کو طعنے مارنے کے معنی میں ہوتا ہے۔
جس تہذیب الکمال کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں، اس کے مقدمہ میں امام مزی نے طالب حدیث کی اہلیت کے لیے کچھ چیزیں بیان کی ہیں۔
جو عربی بھی نہیں جان سکتا اور وہ اردو ترجمے سے اس فن کو جانے گا، وہ خاک اہلیت رکھتا ہے؟
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
اتنی محنت آپ کر رہے ہیں، اللہ تعالی جزائے خیردے۔
جن کو عربی سمجھ نہیں آتی، اور آپ ان کے لیے یہ سب کچھ اردو میں کر رہے ہیں، انہیں ذرا اپنی درج ذیل عبارتیں پڑھائیں، اور پوچھیں کہ کیا سمجھے ہیں؟


علم حدیث و رجال کو حتی الامکان اردو میں آنا چاہیے، لیکن آپ کا کام دیکھ کر تو یہ ایک فتنہ ہی محسوس ہورہا ہے۔
خطا کار ہمارے اردو محاورے میں گناہ گار کے معنی میں ہوتا ہے۔ جبکہ کسی پر طعنہ زنی کرنا، کسی کو طعنے مارنے کے معنی میں ہوتا ہے۔
جس تہذیب الکمال کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں، اس کے مقدمہ میں امام مزی نے طالب حدیث کی اہلیت کے لیے کچھ چیزیں بیان کی ہیں۔
جو عربی بھی نہیں جان سکتا اور وہ اردو ترجمے سے اس فن کو جانے گا، وہ خاک اہلیت رکھتا ہے؟
السلام علیکم جب رجال کے حوالے سے ایسی عبارتیں آئیں گی تو ان کا مطلب رجال کے حوالے سے ہی لیا جائے گا. جہاں تک میری ذاتی غلطیوں اور ترجمے میں غلطیوں کی بات ہے تو ان شاء اللہ آپ اور آپ جیسے بہت سارے لوگ ٹھیک کر دیں گے...

Sent from my QMobile ENERGY X2 using Tapatalk
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
السلام علیکم جب رجال کے حوالے سے ایسی عبارتیں آئیں گی تو ان کا مطلب رجال کے حوالے سے ہی لیا جائے گا. جہاں تک میری ذاتی غلطیوں اور ترجمے میں غلطیوں کی بات ہے تو ان شاء اللہ آپ اور آپ جیسے بہت سارے لوگ ٹھیک کر دیں گے...

Sent from my QMobile ENERGY X2 using Tapatalk
مزید برآں کوشش کیا کریں تحقیق میں کریٹیکل غلطیوں کی نشان دہی کیا کریں...اس طرح کی غلطیاں نکالنے کا کوئی فائدہ نہیں..جسے رجال میں دلچسپی ہے وہ سمجھ ہی جاتا ہے...اگر ہمارے علماء لوگوں کی باتوں کے رد اور تعاقب کی بجائے اور زبان درازیوں کی بجائے یہ کام کرتے تو ہمیں ضرورت پیش نہ آتی...جزاک اللہ

Sent from my QMobile ENERGY X2 using Tapatalk
 
Top