• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فیض عالم کون تھا؟؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کنا جالسین مع الشیخ زبیر علی زئی فی المسجد النبوی فسأله بعض الحاضرين ما تقولون في الشيخ الحافظ عبد المنان النورفوري ، فأثنى عليه خيرا و أجاب بأنه " صدوق " ۔ فتعجب بعض الحاضرين و قال : أليس هو أعلى من مرتبة الصدوق ، فأعاد الشيخ بأنه " صدوق " عندي ۔
أقول : ولعل بعض من ليس له إلمام بمصطلحات الجرح والتعديل و مراتبهما ، فهم بأن الشيخ الزبير يريد تضعيف الشيخ النورفوري ۔ و حاشاه من ذلك - والله أعلم بالصواب -
کنا جالسین مع الشیخ زبیر علی زئی فی المسجد النبوی فسأله بعض الحاضرين: ما تقولون في الشيخ الحافظ عبد المنان النورفوري ، فأثنى عليه خيرا و أجاب بأنه "صدوق" ۔ فتعجب بعض الحاضرين وقال: أليس هو أعلى من مرتبة الصدوق، فأعاد الشيخ بأنه " صدوق " عندي ۔
أقول : ولعل بعض من ليس له إلمام بمصطلحات الجرح والتعديل ومراتبهما ، يفهم بأن الشيخ الزبير يريد تضعيف الشيخ النورفوري ۔ وحاشاه من ذلك-والله أعلم بالصواب-
17/07/1436هـ
وأقول الآن: لا يطلق مثل هذه الأحكام على المتأخرين أو المعاصرين فإن هذه المصطلحات وضعت لتحديد مراتب الرواة في زمن الرواية. والله أعلم.
5/8/1440هـ.
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ضیاءاللہ شاہ بخاری اور انجینئر محمد علی مرزا کی ہفوات: کیا حکیم فیض عالم صدیقی شہید ناصبی تھے؟
تحریر: محمد فھد حارث

دوست نے سوال کیا کہ کیا حکیم فیض عالم صدیقی شہید ناصبی تھے کیونکہ اپنی اہلحدیث عالم ضیاءاللہ شاہ بخاری کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات کی تفاصیل سے ویڈیو لیکچر میں اگاہ کرتے ہوئے انجینیر مرزا محمد علی کا یہ کہنا ہے کہ ضیاءاللہ شاہ بخاری بھی مرزا کی تائید میں حکیم فیض عالم صدیقی کو ناصبی قرار دیتے ہیں۔ محمد علی مزرا اور ضیاء اللہ شاہ بخاری جیسے رفض نواز اصحاب سے پہلے یہی کام جناب عبدالمنان راسخ صاحب اپنی کتاب "شان حسن ؓ و حسینؓ" میں کرچکے ہیں جو کہ اس قدر نامعقول طریق پر لکھی گئی تحریر ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ کسی رافضی کے ہاتھ میں قلم تھما دیا گیا ہوجس میں سیدنا حسن و حسینؓ کی منقبت میں موجود ضعیف سے ضعیف روایت درج کرکے خلفاء اور عمال بنو امیہ پر ڈھکے چھپے الفاظ میں خوب طعن کیا گیا ہے۔ خیر ان کی اس کتاب پر تو ان شاءاللہ پھر کبھی مفصل تبصرہ کرکے اس کے منھج کی غلطیاں واضح کرینگے، فی الحال ضیاء اللہ شاہ بخاری اور مرزا صاحب کی ہفوات کا ابطال اور حکیم فیض عالم صدیقی شہید کی بابت جمہور اہلحدیث علماء کا موقف پیش کئے دیتے ہیں۔
حکیم صاحب پر موجودہ زمانے میں چند تنگ نظر اور متشدد لوگوں نے ان کی کتب کے چند اقتباسات پڑھ کر بغیر انکا علمی مزاج جانے ناصبیت کی تہمت لگادی ۔ جبکہ جس شخص نے حکیم فیض عالم صدیقی شہید کی جملہ کتب از اول تا آخر پڑھی ہوں ان کو ان کے مزاج سے کماحقہ آگاہی حاصل ہوجاتی ہے اور اس کو اندازہ ہوتا ہے کہ حکیم صاحب نے کون سی بات کس پیرائے میں فرمائی ہے۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ حکیم فیض عالم صدیقی صاحب کے چند تفردات بھی ہیں اور اس بابت ہمیں ان سے اختلاف بھی ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ حکیم صاحب ان تفردات میں تنہا نہیں بلکہ کئی اور اکابر اس بابت ان کے ہمنوا ہیں البتہ ان اکابر پر اس تفرد کی بابت کوئی حرف شکایت اس لئے نہیں آیا کہ انہوں نے اپنی بات بڑے سلیقے سے نفیس انداز میں حکمت سے پیش کی جبکہ حکیم فیض عالم صدیقی شہید رحمہ اللہ نے وہی بات دو ٹوک پیش کردی۔ اس کی سب سے بین مثال امام زہری پر تشیع کا میلان رکھنے کی جرح ہے۔ حکیم صاحب نے امام زہری کی بابت اس میلان کو اپنی بعض کتب میں بہت مختصر لیکن دو ٹوک انداز میں پیش کیا ہے جبکہ امام زہری کے اس میلان کی بابت مولانا محمد نافع، علامہ قمر الدین سیالوی وغیرہم نے اپنی کتب میں دلائل کے انبار لگادیئے ہیں لیکن حکیم صاحب کو دو ٹوک بات پیش کرنے کے جرم میں منکر حدیث جبکہ موخر الذکر حضرات کو متبع سنت مانا جاتا ہے جبکہ اس احقر کی نظروں میں یہ تمام حضرات ہی متبع سنت اور حدیث کی حجیت پر پختہ یقین رکھنے والے لوگ تھے۔
جس کسی نے حکیم فیض عالم صدیقی شہید کی تمام کتب کا بالاستعیاب مطالعہ کررکھا ہے وہ جانتا ہے کہ حکیم فیض عالم صدیقی شہید سیدنا علیؓ و حضرات حسنین ؓکے بھی ویسے ہی شیدائی ہیں جیسے کہ کسی اور صحابی کے۔ البتہ وہ سیدنا علیؓ اور حضرات حسنین ؓ کومعصوم عن الخطا کا درجہ دینے کو کسی صورت تیار نہیں ہوتے اور ان کی بابت بھی اجتہاد ی خطاؤں کے اسی طور کے قائل ہیں جس طور کے جمہور اہلسنت سیدنا معاویہؓ اور دیگر صحابہؓ کے لئے قائل ہیں۔ اور یہی وہ حد فاصل ہے جہاں تشیع کے جراثیم سے متاثر بعض اہلسنت اکابر حکیم صاحب کو ناصبی قرار دیتے ہیں اور ان حضرات کی دیکھا دیکھی تشیع سے بیزار ہمارا دینی طبقہ بھی حکیم صاحب کی طرف اس تہمت کو درست جانتا رہا حالانکہ راقم اپنے تجربہ سے جانتا ہے کہ کتنے ایسے علماء جنہوں نے حکیم صاحب کی کتب کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں کررکھا وہ بھی اپنے ویڈیو لیکچرز میں ان کی کتب کے بعض اقتباسات سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرکے حکیم صاحب پر ناصبیت کےفتوی لگاتے ہیں حالانکہ ان حضرات کے پاس حکیم صاحب کی کتب موجود بھی نہیں ہوتیں بلکہ یہاں وہاں سے پکڑ کے ان کے چند اقتباسات حاصل کرکے اس طرح کی کرم فرمائیاں فرماتے ہیں۔
خیر یہ مبحث تو ضمنی طور پر آگیا، بات ہورہی تھی حکیم فیض عالم صدیقی شہید کی ۔ آپ کی جملہ کتب آپ کے تبحر علمی پر شاہد ہیں۔ اہلحدیث حضرات میں علامہ احسان الہیٰ ظہیر کے بعد اگر کسی عالم نے رد تشیع پر جامع کام کیاہے تو وہ حکیم فیض عالم صدیقی شہید ہیں۔ حکیم صاحب نے حقیقت مذہب شیعہ لکھ کر نہ صرف شیعہ مذہب کی اصل حقیقت کو آشکارہ کیا، بلکہ سادات بنی رقیہ، عترت رسولؓ، امہات المومنین، صدیقہ کائنات، سیدنا حسن ؓ بن علیؓ، وغیرہ جیسی کتب لکھ کر شیعیت کے زیر اثر اصحاب رسولﷺاور خاندان رسولﷺ کی بابت جو غلط داستانیں امت میں رواج پذیر ہوگئی تھیں، ان کا ابطال کیا اور درست حقیقت سے لوگوں کو روشناس کروایا۔ حکیم صاحب کا اصل کام رد شیعیت نہیں تھا، بلکہ شیعیت کے زیر اثر اہلسنت میں جو غلط نظریات رواج پاگئے تھے انکا ابطال کرکے درست حقائق سے امت کو روشناس کروانا تھا اور بلاشبہ اس بابت حکیم صاحب نے اپنا مقدمہ پوری حقانیت سے ثابت کردیا ہے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ حکیم فیض عالم صدیقی سے بعض سہو بھی سرزد ہوئے لیکن سہو سے کون سا عالم مبرا رہ سکا، کہیں کہیں انکا قلم رد عمل کی نفسیات کے تحت سیدنا علی و حضرات حسنینؓ کے لئے سخت بھی ہوا لیکن یقین جانئے یہ سختی اس سختی سے کئی گنا کم رہی جو کہ ہمارے بعض جید اور قابل احترام بزرگوں کی جانب سے سیدنا عثمانؓ، سیدنا معاویہؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ کی شان میں سرزد ہوئی ہے ۔اگر کسی کو یقین نہ ہو تو وہ سید مودودی، ملک غلام علی اور قاضی مظہر حسین وغیرہم کی کتب کا مطالعہ کرسکتا ہے۔جب موخر الذکر تحاریر کے تحت یہ حضرات ’’رافضی‘‘ نہیں قرار دیئے جاسکتے اور نہ ہی ان کی جملہ مساعی کو ناقابل اعتبار ٹھہرایا جاسکتا ہے تو پھر حکیم فیض عالم صدیقی شہید کو کس برتے پر ’’ناصبی‘‘ قرار دیکر ان کی شاندار تحقیق خدمات کو ناقابل اعتبار قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ حکیم صاحب کی صلوٰۃ المیت مولانا عبدالواحد ہزاروی آف پشاور نے پڑھائی۔ مختلف اضلاع فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، لاہور، سیالکوٹ، پشاور، لالہ موسیٰ، ساہیوال اور وزیر آباد سے کثیر تعداد نے صلوٰۃ المیت میں شرکت کی جن میں جناب میاں فضل الحق صاحب، مولانا محمد مدنی فاضل مدینہ یونیورسٹی، سید یونس شاہ بخاری ایڈووکیٹ، حکیم عبدالرحمٰن آزاد، مولانا عبدالعظیم آف پشاور اور مولانا سلیمان انصاری جیسے اہل علم شامل تھے۔ اسکے علاوہ دعائے مغفرت اور تعزیت کرنے والوں میں مولانا محمد ادریس ہاشمی سیکرٹری غرباء اہلحدیث پنجاب، شیخ محمد یحییٰ صاحب امیر جماعت غرباء اہلحدیث لاہور، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ناظم تبلیغ مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری، مولانا محمد افضل، مولوی محمد ابراہیم، شیخ محمد منشاء، مولوی عبدالجبار بھٹی، جمیعت شبان اہلحدیث کے جنرل سیکرٹری نیر اقبال شجاع اور سیکرٹری نشرو اشاعت اقبال اسد وائیں، جامعہ اہلحدیث کوٹلی لوہاراں مغربی کے مہتمم حافظ محمد مسعود سلفی، انجمن شبان اہلحدیث کے مولانا طارق محمود ثاقب خطیب جامع مسجد بیت المکرم اہلحدیث راجکوٹ، مرکزی جماعت اہلحدیث کے امیر مولانا فضل کریم عاصم اور ناظم اعلیٰ مولانا محمود احمد، جمعیت اہل حدیث کے علاقائی امیر عمر فاروق سعیدی اور جمیعت طلباء اہلحدیث کے آرگنائزر صبغۃ اللہ عاصم وغیرہ جید اہل حدیث علماء شامل تھے۔ اسکے علاوہ جامع مسجد اہلحدیث پرانا شہر شیخو پورہ کے مولانا عبدالحمید صاحب نے تو بروز جمعہ مورخہ ۹ ستمبر یعنی حکیم صاحب کی شہادت کے دو دن کے بعد ان کی غائبانہ صلوٰۃ المیت تک ادا کروائی۔
المختصر حکیم فیض عالم صدیقی رحمہ اللہ ایک جید اہلحدیث عالم تھے جو ساری عمر شرک و بدعت کے خلاف نبرد آزما رہے اور رد شیعیت و درست تاریخی حقائق پر ان کتب سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ان کے اوپر لگائے گئے الزامات کی حقیقت صرف تعصب پر مبنی اور ان کی کتب کے بالاستعیاب مطالعہ نہ کرنے کا نتیجہ ہیں۔ جس کسی نے ان کی کتب کا بالاستعیاب مطالعہ کررکھا ہو اور ان کے علمی و تحقیق مزاج سے واقف ہو وہ انکی ہرسطر کا درست مفہوم جان سکتا ہے۔ ذیل میں ہم حکیم فیض عالم صدیقی شہید کی شہادت کے موقع پر ان سے متعلق جمہور اہلحدیث علماء کی آراء کے اسکین اور اخبارات میں چھپنے والے تعیزیتی بیانات لگارہے ہیں جن کی بابت قارئین خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ چند علماء کو چھوڑ کر جمہور اہلحدیث علماء نہ صرف حکیم فیض عالم صدیقی کو ایک جید اہلحدیث عالم مانتے تھے بلکہ ان کے انتقال پر ان سب علماء نے تعزیتی بیان تک جاری کئے اور ان کی وفات کے بعد تک ان کو جید اہلحدیث عالم مانتے آئے ۔
امید کرتے ہیں کہ ان اسکین پر غور کرنے کے بعد ضیاء اللہ شاہ بخاری اور مرزا کے متبعین کی حکیم شہید کی بابت غلط فہمی رفع ہوجائے گی۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !

محترمی !

جس طرح یہود و مجوس نے ابتداء میں” شیعت و رافضیت“ کا لبادہ اوڑھ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ بالکل اسی” نہج“ پر آج کل یہ کام ”سنیت“ کا شان دار لباس پہن کر کیا جا ر ہا ہے۔

کیا عجیب ماجرا ہے جو شخص امیر المؤمنین وخلیفۃ المسلمین معاویہ رضی اللہ تعالٰی کی رائے کو” اجتہادی غلطی “ کا مرتکب اور ” باغی“قرار دے تو یہ” نیم رافضی سنی“ اسے بلاثبوت قبول کر لیتے ہیں ۔ لیکن اس کے مقابلے میں اگر کوئی پورے” ثبوت و دلائل“ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی کو ” غیر معصوم“ قرار دے اور ان کی رائے کو” خطا “کہے تو یہی نیم رافضی سنی فوراً اسے ” ناصبی“ کا تمغہ تھما دیتے ہیں۔

تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ موجودہ دور میں دفاعِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم بشمول امیر معاویہ اور امیر یزید رحمہ اللہ تعالٰی پر کام کرنے والے ان” نیم رافضی سنیوں“ کے نزدیک ” ناصبی “ جبکہ سنیت کی لبادے میں صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم بشمول امیر معاویہ اور امیر یزید رحمہ اللہ تعالٰی پر ” مخفی تبراء“ کرنے والے” اہل سنت والجماعت“ ہیں۔

نوٹ :-سوچنے کی بات ہے کہ ان لوگوں کو حضرات عمر، عثمان، امیر معاویہ، عمرو ابن العاص اور امیر یزید رضی اللہ تعالٰی عنہم جیسے مدبرو منتظم حکمرانوں سےایسی کیا پرخاش ہے جو ان پر دن رات لعن طعن کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ آخر کچھ تو ہے جس کی ”پردہ داری“ ہے کہ ان ”نیم رافضی سنیوں“ کو سادات بنو امیہ اور انکی فتوحات و کرم فرمایاں ایک نظر نہیں بھاتیں۔
 
Top