• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قئربانی کے جانور کےمتعلق ایک صورت حال کا جواب مطلوب ہے

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
اسسلام علیکم
جناب میرے ایک دوست نے قربانی لی تھی. وہ جانور ابھی شدید بیمار پڑ گیا ہے اور مشکل ہے کہ بچ جائے. اگر یہ جانور مر جاتا ہے. تو پھر کیا ہوگا؟ کیا اسکو دوسرا جانور خریدنا پڑے گا؟ اسنے یہ جانور ٧١٠٠٠ ہزار کا لیا تھا- اور اسکی مالی حالت دوسرے جانور لینے کی بلکل نہی نہیں ہے. ایک مفتی سے پوچھا ہے اس نے جس نے ان سے کہا ہے کہ اگر یہ جانور مر جائے تو جسطرح بھی ہو قربانی کرنی پڑے گی- کیونکے یہ تم پڑ فرض ہے. اب کیا کیا جائے. برائے مہربانی جلدی جواب دیجیے.
 

مشوانی

رکن
شمولیت
ستمبر 06، 2012
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
312
پوائنٹ
44
ایسا لگ رہا ہے کہ جب تک اس فورم میں کسی اختلافی مسلے کے بارے میں نا پوچھا جائے تو کوئی بھی جواب دینے کی زحمت نہی کرتا. اور جب کوئی اختلاف کی بات چھیڑ دی جائے تو ہر کوئی دلیل دینے کے لئے تیار. لیکن اگر کسی کو روزمرہ زندگی میں کوئی مسلہ درپیش آ جائے اور یہاں پڑ سوال پوچھ لے. تو اللہ مسلہ حل بھی کر دیگا لیکن ادھر کوئی کان نہیں درے گا.
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایسا لگ رہا ہے کہ جب تک اس فورم میں کسی اختلافی مسلے کے بارے میں نا پوچھا جائے تو کوئی بھی جواب دینے کی زحمت نہی کرتا. اور جب کوئی اختلاف کی بات چھیڑ دی جائے تو ہر کوئی دلیل دینے کے لئے تیار. لیکن اگر کسی کو روزمرہ زندگی میں کوئی مسلہ درپیش آ جائے اور یہاں پڑ سوال پوچھ لے. تو اللہ مسلہ حل بھی کر دیگا لیکن ادھر کوئی کان نہیں درے گا.
لنک
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
محترم بھائی،
چونکہ آپ نے سوال ایسے سیکشن میں پیش کیا ہے جہاں صرف اہل علم ہی کا جواب دینا ضروری نہیں۔ اس لئے یہاں اہل علم سے کچھ جوابات نقل کرتا ہوں۔ اسے فتویٰ مت سمجھئے گا۔ فقط میری ذاتی رائے ہے کہ :

1۔ قربانی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہےکہ آیا یہ واجب ہے یا سنت موکدہ۔
2۔ جو علماء اسے واجب سمجھتے ہیں۔ وہ بھی فقط اسی شخص پر واجب کہتے ہیں جو قربانی کی استطاعت رکھتا ہو۔
3۔ اگر قربانی خرید لینے کے بعد جانور مر گیا۔ اور اب اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قربانی کے لئے صاحب استطاعت نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔

اسلام کیو اے ویب سائٹ سے اس مسئلے پر سعودی علماء کے درج ذیل فتاویٰ کا مطالعہ کارآمد رہے گا، ان شاء اللہ۔

قربانی : واجب یا سنت:
لنک

قربانی سے کیامراد ہے ؟ اورکیا قربانی کرنا واجب ہے یا سنت ؟

الحمد للہ
الاضحيۃ : ایام عید الاضحی میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بھیمۃ الانعام میں سے کوئي جانورذبح کرنے کوقربانی کہا جاتا ہے ( بھیمۃ الانعام بھیڑ بکری اونٹ گائے کوکہتے ہیں )
قربانی دین اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار ہے اس کی مشروعیت کتاب اللہ اورسنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے ، ذيل میں اس کی مشروعیت پردلائل پیش کیے جاتے ہيں :

کتاب اللہ الکریم :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

1 - { اللہ تعالی کے لیے ہی نماز ادا کرو اورقربانی کرو }

2 – اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

{ آپ کہہ دیجیے یقینا میری نماز اورمیری ساری عبادت اورجینا میرا مرنا یہ سب خالص اللہ تعالی ہی کا ہے جوسارے رب کا مالک ہے ، اس کا کوئي شریک نہيں اورمجھ کواسی کا حکم ہوا ہے اورمیں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں } ۔

3 - اورایک تیسرے مقام پراللہ تعالی نےاس طرح فرمایا :

{ اورہر امت کےلیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پراللہ تعالی کا نام لیں جواللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہيں ، سمجھ لوکہ تم سب کا معبود والہ برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ اورعاجزی کرنے والوں کوخوشخبری سنا دیجیے } ۔

سنت نبویہ سے دلائل :

1 - صحیح بخاری اورمسلم کی روایت ہے کہ انس بن مالک رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سیاہ وسفید مینڈھوں کی قربانی دی انہيں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور( ذبح کرتے ہوئے ) بسم اللہ اللہ اکبر کہا اوراپنا پاؤں ان کی گردن پررکھا ۔

دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5558 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1966 ) ۔

2 - عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ :

( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شریف میں دس برس قیام کیا اورہر برس قربانی کیا کرتے تھے ) ۔

مسند احمد حدیث نمبر ( 4935 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1507 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے مشکاۃ المصابیح ( 1475 ) میں اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے ۔

3 - عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کے مابین قربانیاں تقسیم کیں توعقبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حصہ میں جذعہ آیا تووہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے حصہ میں جذعہ آیا ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کوہی ذبح کردو ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5547 ) ۔

4 - براء بن عازب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس نے بھی نماز ( عید ) کے بعد ( قربانی کا جانور ) ذبح کیا تواس کی قربانی ہوگئي ، اوراس نے مسلمانوں کی سنت پرعمل کرلیا ) ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5545 ) ۔

تواس طرح معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اورصحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم بھی قربانی کرتے رہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بتایا کہ قربانی کرنا مسلمانوں کی سنت یعنی ان کا طریقہ ہے ۔

لھذا مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پراجماع ہے ، جیسا کہ کئي ایک اہل علم نے بھی اس اجماع کونقل بھی کیاہے ۔

اوراہل علم کااس میں اختلاف ہے کہ آیا قربانی کرنا سنت موکدہ ہے یا کہ واجب جس کا ترک کرنا جائز نہيں ؟

جمہورعلماءکرام کا مسلک یہ ہے کہ قربانی کرنا سنت موکدہ ہے ، امام شافعی کا مسلک بھی یہی ہے اورامام مالک اورامام احمد سے بھی مشہور مسلک یہی ہے ۔

اوردوسرے علماء کرام کہتے ہیں کہ قربانی کرنا واجب ہے ، یہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ کا مسلک ہے اورامام احمد کی ایک روایت یہ بھی ہے ، اورشیخ الاسلام ابن تمیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے
:

یہ مسلک مالکی مذھب کا ایک قول ہے یا امام مالک کے مذھب کا ظاہر ۔ انتھی ۔

دیکھیں : احکام الاضحیۃ والذکاۃ تالیف ابن عثیمین رحمہ اللہ ۔

شیخ محمد بن عثيمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

جوشخص قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہواس کے لیے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے ، لھذا انسان اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے ۔

دیکھیں : فتاوی ابن عثیمین ( 2 / 661 ) ۔

واللہ اعلم .
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
كيا قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض ليا جا سكتا ہے ؟

كيا قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض حاصل كرنا ضرورى ہے ؟

الحمد للہ:


شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" شرعى دلائل ميں كوئى ايسى دليل نہيں جو اس كے وجوب پر دلالت كرتى ہو، اور قربانى كے وجوب كا قول ضعيف ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 18 / 36 ).

پھر جو علماء قربانى كے وجوب كے قائل ہيں انہوں نے بھى قربانى كے واجب ہونے كے ليے غنى اور مالدار ہونے كى شرط لگائى ہے.

ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 9 / 452 ).

لہذا دونوں قولوں۔ واجب اور مستحب قول ، كى بنا پر قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض لينا واجب نہيں، كيونكہ قربانى مالدار ہونے كے بغير قربانى واجب نہيں ہوتى اس پر علماء كا اتفاق ہے.

يہاں ايك سوال باقى ہے كہ آيا كيا قرض حاصل كرنا مستحب بھى ہے يا نہيں ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض حاصل كرنا مستحب ہے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اگر اسے اميد ہو كہ وہ قرض واپس كر سكےگا، مثلا اگر كوئى شخص ملازم ہے اور اپنى تنخواہ آنے تك قرض حاصل كرلے، ليكن اگر اسے قرض كى ادائيگى كى اميد نہيں تو پھر اس كے ليے افضل و اولى يہى ہے كہ وہ قرض حاصل نہ كرے، كيونكہ وہ ايسى چيز كے ليے اپنے ذمہ قرض لے رہا ہے جو چيز اس پر واجب ہى نہيں ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:

اگر كوئى شخص قربانى كرنے كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو كيا وہ قرض لے سكتا ہے ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" اگر تو وہ قرض ادا كر سكتا ہو تو قرض حاصل كر كے قربانى كرے تو يہ بہتر اور اچھا ہے، ليكن اس كے ليے ايسا كرنا واجب اور ضرورى نہيں " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 26 / 305 ).

اور شيخ الاسلام قربانى كے وجوب كے قائل ہيں.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:

كيا استطاعت نہ ركھنے والے شخص پر قربانى كرنى واجب ہے ، اور كيا تنخواہ كى وجہ سے وہ قربانى كرنے كے ليے قرض حاصل كرسكتا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" قربانى كرنا سنت ہے واجب نہيں.... مسلمان شخص كو اگر علم ہو كہ وہ قرض كى ادائيگى كى استطاعت ركھتا ہے تو قربانى كے ليے قرض لينے ميں كوئى حرج نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 1 / 37 ).

واللہ اعلم .
 
Top