• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قائد اعظم کی قرآن فہمی ..۔ڈاکٹر صفدر محمود

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ یوسف ثانی بھائی
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر میں نے بہت عرصے تک کھلے عام اپنے ساتھیوں سے بحث کی ہے اور بعض دیوبندی علماء کا رد کیا ہے (بوجہ احترام و خوف فتنہ ان کے سامنے نہیں)۔
اس موضوع پر ایک بہت ہی اچھی کتاب ہے قائد اعظم کا مذہب و مسلک کے نام سے۔ اس کے مصنف کا نام میں ہمیشہ بھول جاتا ہوں۔ ان کے نام کے شروع میں منشی اور آخر میں خاں آتا ہے۔ نیٹ پر مجھے یہ کتاب نہیں ملی۔ اگر اس میں دیے گئے روئیداد کے حوالے کوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے اور اسکین کر سکے تو شاید یہ انتہائی اہم پیش رفت ہو۔
اللہ پاک ہم سب کو سمجھ اور عقل سلیم عطا فرمائیں۔
حسین احمد مدنیؒ قیام پاکستان کے مخالف تھے لیکن جب بنا تو انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ایک مسجد کی طرح ہے جو بن گئی تو اس کی حفاظت ہر مسلمان پر لازم ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
قائداعظمؒ ۔ ادھورے سچ...​
ڈاکٹر صفدر محمود​

بعض سچ ادھورے ہوتے ہیں اور اگر انہیں مکمل نہ کیاجائے اوروضاحت نہ کی جائے تو وہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ فکری و نظریاتی ارتقا ہر انسان اورخاص طور مفکرین اور سیاستدانوں کی زندگی کاحصہ ہوتا ہے اورجب تک ان کی تمام تقاریر اور تحریروں کو اپنے پس منظر کے ساتھ نہ پڑھا جائے تو ان کا ویژن واضح نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال ؒ جوانی کے دور میں ہندوستانی قومیت پر نغمے لکھتے تھے لیکن جب ذہنی بلوغت ارتقائی منازل سے گزری تو وہ مسلم قومیت کے موثر علمبرداربن کر ابھرے۔ قائداعظمؒ سیاسی زندگی کے آغاز میں مسلمانوں کےلئے مخصوص کوٹہ کے خلاف تھے، پھروہ مسلمانوں کو اقلیت کہتے تھے لیکن ذہنی و سیاسی ارتقا کے نتیجے کے طور پر وہ اس منزل پر پہنچ کر قائداعظمؒ بن گئے جب وہ اس حقیقت کےقائل ہوئے کہ مسلمان اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم ہیں۔ وہ کبھی کانگریس کے رکن تھے پھر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور پھرکانگریس سے مستعفی ہو کر صرف مسلم لیگ کے ہو کر رہ گئے۔ لکھنو پیکٹ کے وقت وہ ہندو مسلم اتحادکے سفیر کہلائے لیکن نہرو رپورٹ کے بعد انہوں نے ببانگ دہل اعلان کر دیا کہ آج سے ہمارے راستے جدا جدا ہیں۔ بیدار مغز انسان جوں جوں زندگی کا سفر طے کرتا ہے اسی رفتار سے مطالعے، مشاہدے اورتجربے کی بنیاد پر اس کی فکر، سوچ اورسیاسی ویژن بھی ارتقا کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔

مثلاً یہ کہنا کہ محمد علی جناحؒ نے لنکنز اِن میں داخلہ لیا۔ سچ ہے لیکن محمد علی جناح کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا بھی ضروری ہےکہ انہوں نے بیرسٹری کیلئے کئی دوسرے اداروں کو چھوڑ کر لنکز اِن کا انتخاب کیوں کیا ورنہ یہ سچ ادھورا رہے گا۔ خود قائداعظمؒ نے جنوری 1948 میں کراچی بار ایسوسی ایشن کو عید میلاد النبیؐ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ انہوں نےلنکز اِن کا انتخاب اس لئے کیا کہ اس ادارے میں دنیا کے عظیم قانون سازوں (Law Givers) کے اسمائے گرامی میں نبی کریمﷺ کا نام بھی موجود تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمد علی جناح کے باطن میں حب رسولؐ کی روشنی موجود تھی کہ انہوں نےنبی کریمﷺ کے اسم گرامی کی وجہ سے لنکزاِن میں داخلہ لے لیا۔

سطحی نظر سے جذبے نظرنہیں آتےانہیں سمجھنے کیلئے گہرا مطالعہ اور غورو خوض ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً آپ کو حیرت ہوگی کہ انگلستان سے واپس بمبئی پہنچ کر نوجوان قائداعظمؒ نے پہلی بار جس تقریب میں شرکت کی وہ عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب تھی۔ اس وقت کوئی محمدعلی جناح کو جانتا بھی نہیں تھا۔اگلے سال بھی وہ اس تقریب میں موجود تھے۔ کیایہ سمجھنا مشکل ہے کہ بظاہر ولایتی سوٹ پہننے والے جناح کے باطن میں حب رسولﷺ کی روشنی موجود تھی جو انہیں ان تقریبات میں کھینچ لائی۔یہ کہنا کہ قائداعظمؒ نے سر ڈنشاکی بیٹی رتی سے پسند کی شادی کی، آدھا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ پہلے رتی نے اسلام قبول کیا اپنا نام مریم رکھا اور پھراگلے دن محمد علی جناح نے ان سےشادی کی۔ پسند کی شادی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ رتی ڈنشا نے کس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ محمدعلی جناح فیشن ایبل مسلمان ہوتے تو بلوغت پر رتی سے شادی کرلیتے لیکن انہوں نے شادی کیلئے دائرہ اسلام میں آنے کی شرط رکھی۔ جب رتی نے یہ شرط مان لی تو وہ اسے بمبئی کی جامع مسجد کے امام و خطیب مولانا نذیر صدیقی کے پاس لے گئے جنہوں نے رتی کو مشرف بہ اسلام کیا۔ مولانا نذیر صدیقی مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا تھے۔ بس اتنا ہی کہنا کافی ہے اوراس سے ادھورا سچ پورے سچ میں بدل جاتا ہے۔

ہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ قائداعظمؒ نہ مولوی تھے نہ مذہبی شخصیت اور نہ ہی صوفی۔ وہ ایمان کے حوالے سے پکے سچے مسلمان تھے۔ وہ یقیناً سوٹ پہنتے تھے کہ یہ غیر اسلامی لباس ہرگز نہیں لیکن پورا سچ یہ ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان سے چند برس قبل انگریزی لباس تقریباً ترک کردیا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ انہوں نے فروری 1935میں قانون سازاسمبلی میں مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کی بات کی لیکن پورا سچ یہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے بار بار اسلام کو مکمل ضابطہ حیات قراردیااور موت تک کہتے رہے کہ اسلام میں سیاست مذہب سے الگ نہیں کی جاسکتی۔یہ ارتقا ان کی قرآن فہمی، اسلامی قوانین اور مذہب کے گہرے مطالعے کا نتیجہ تھا۔

کالم کا دامن تنگ ہے گزشتہ کالموں میں ان کے بہت سے حوالے دے چکا ہوں۔ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ رہا جسٹس منیر کی کتاب میں قائداعظمؒ کی تقریر کاحوالہ تو اس کا تجزیہ سلینہ کریم اپنی کتاب ''سیکولر جناح'' میں کرکے ثابت کرچکی ہے کہ جسٹس منیر نے جھوٹ بولا اور اپنے الفاظ قائداعظمؒ کے منہ میں ڈال دیئے۔ جہاں تک اتاترک اورترکی کا تعلق ہے قائداعظمؒ اسے خالصتاً سیکولر نہیں سمجھتے تھے۔ قائداعظم ؒ کے انٹرویو کے ان چند فقروں کو غور سے پڑھئے تو قائداعظمؒ کی سوچ واضح ہوجائے گی ۔

سوال: ترک حکومت تو ایک مادی ریاست اور حکومت ہےاس سے اسلامی حکومت مختلف ہوتی ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
قائداعظمؒ کا جواب: ترک حکومت پر میری نظر میں سیکولر اسٹیٹ کی سیاسی اصطلاح اپنے پورے مفہوم میں منطبق نہیں ہوتی۔ اسلامی حکومت کے تصور کا بنیادی امتیازہے کہ اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے اس لئے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں''

مطلب یہ کہ قائداعظمؒ اتاترک کی ترک حکومت نہ خالصتاً سیکولر اور نہ ہی اسلامی سمجھتے تھے ۔ 1935کی تقریر سے قطع نظر قائداعظمؒ نے 10جون 1938کو میمن چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''مسلمانوں کےلئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کے پاس تیرہ سو سال سے مکمل پروگرام موجود ہے اوروہ ہے قرآن حکیم... تعلیمات قرآنی ہی میں ہماری نجات ہے اورانہی کے ذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کرسکتے ہیں۔'' 1938 کی یہ تقریر اور اس کے بعد قائداعظمؒ کی کئی تقاریر قرآن حکیم کو مکمل پروگرام قرار دیتی ہیں اور سیاست کو قرآنی تعلیمات کے تابع سمجھتی ہیں۔

درست کہ مولانا حسین احمد مدنی نظریہ وطنیت کے قائل نہیں تھے۔ انہوں نے اور مجلس احرار نے پاکستان کی مخالفت کی لیکن یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مولانا اشرف تھانوی اور ان کے خانوادے، مولانا شبیر عثمانی، پیر جماعت علی شاہ (امیر طریقت) پیر آف مانکی شریف جیسی اہم مذہبی اور روحانی شخصیات نے کھل کر قائداعظمؒ کی حمایت کی۔ علامہ اقبال جیسے مفسر قرآن انہیں اپنا لیڈر قرار دیتے تھے۔ مولانا مدنی کی عظمت ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نےقیام پاکستان کے بارے میں ایک سوال کا جواب ان الفاظ میں دیا ''ایک صاحب نےمجلس میں پوچھا حضرت پاکستان کیلئے آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا ''مسجد جب تک نہ بنے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن جب بن گئی تو وہ مسجد ہے'' (حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی واقعات و کرامات مرادآباد صفحہ 136) یہ بھی درست ہے کہ نوزائیدہ ریاست کا نظام چلانے کے لئے تجربہ کار انگریز افسران کی ضرورت تھی۔

لیکن مت بھولئے کہ قائداعظمؒ کے اے ڈی سی مسلمان تھے اور صوبوں کے تمام وزرا اعلیٰ جو اصل حاکم تھے ان کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ پہلی کابینہ میں نہ کوئی مذہبی رہنما شامل تھا اور نہ مذہبی وزارت ہی قائم کی۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے قائداعظمؒ کے ان بیانات کو پڑھئے جن میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تھیو کریسی یعنی مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ ویسے مذہبی ریاست کا تصور اسلام میں بھی موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ اگریہ اضافہ بھی کردیا جائے تو بات واضح ہو جائے گی کہ پاکستان کے پہلے یوم آزادی کے موقع پر قائداعظمؒنے کراچی میں پاکستان کے جھنڈے کی پرچم کشائی مولانا شبیر احمد عثمانی سے کروائی اورڈھاکہ میں قائداعظمؒ کے حکم پر پرچم کشائی مولانا ظفر احمد عثمانی نے کی جو مولانا اشرف تھانوی کے خواہر زادے تھے۔ مولاناشبیر عثمانی مولانا اشرف تھانوی کے رشتے دار نہیں تھے عقیدت مند تھے یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ قائداعظمؒ نے ایسا کیوں کیا اور کیاپیغام دیا۔

اقلیتوں پر ہندوستان اور پاکستان دونوں میں مظالم ڈھائےجارہے تھے اس لئے انہیں حوصلہ دینا سربراہ مملکت کا فرض تھا چنانچہ قائداعظمؒ نے 17اگست کو چرچ کا دورہ کیا لیکن 18اگست کو کراچی میں نماز عید ادا کی جس کی تصویر تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ اکتوبر 1947 میں قائداعظمؒ نےپاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا تو پھر اس امر کی بار بار تصدیق کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ایک سال زندہ رہے جن میں تین چار ماہ علالت لے گئی اس کے باوجود قائداعظمؒ نے چودہ بارکہا کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ 25جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں کہا کہ ''یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں شریعت نافذ نہیں ہوگی۔ یہ شرارتی عناصر کا پروپیگنڈہ ہے... نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کوبھی خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔''

فروری 1948 میں امریکی عوام کے نام براڈکاسٹ میں کہا کہ پاکستان پریمیئر اسلامک اسٹیٹ ہوگی اورجولائی 1948 میں اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''مغرب کے معاشی نظام کی بجائے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر معاشی نظام وضع کیا جائے'' حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ کا تصور ِ پاکستان ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست کا تصور تھا نہ کہ مذہبی ریاست کا میرا مقصد کسی بحث میں الجھنا نہیں بلکہ قائداعظمؒ کے بارے میں ادھورے سچ کی وضاحت کرنا تھا جو میں نے مختصر الفاظ میں کردی۔ قار ئین اپنے نتائج خود اخذ کرلیں اور مجھے اجازت دیں۔

(نوٹ اتوار والے کالم بعنوان قائداعظمؒ کی قرآن فہمی میں مولانا غلام مرشد کا ذکر تھا جسے کمپوزر نے غلام رشد بنا دیا۔ قارئین نوٹ فرمالیں)
 
Top