۱۔امام سیوطی کی کتاب جامع الصغیر باب الام۔۔۔نیز میں نے عرض کی کہ وہ آپکا اس حدیث کا جو راوی ہے وہ خانہ کعبہ پر پتھر برساتا رہا ہے ملاحظ ہو تہذیب التہذیب۔۔۔اب آپ اس جیسے کی حدیث کو مانیں تو اللہ کی پناہ ہی ہے۔۔۔
امام سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب الجامع الصغير و زيادته جو میرے پاس ہے اس کی عبارت کچھ یوں ہے :
لو كان بعدي نبي لكان عمر ابن الخطاب ( حم ت ك - عن عقبة بن عامر ، طب - عن عصمة بن مالك )
(الفتح الكبير في ضم الزيادة إلى الجامع الصغير ص 46 دار الكتاب العربي ، بيروت)
راوی پر جرح اگر واقعتا آپ تحقیقی بنیادوں پر کر رہے ہیں تو حدیث کی پوری سند پیش کرکے اس میں مجروح راوی کی تعیین کردیں ۔ سند میں ایک سے زیادہ راوی ہیں پتہ نہیں آپ کس کی بات کر رہے ہیں ۔ اور اگر اس مجروح راوی کے بارے میں آئمہ کے اقوال پیش کرکے اس کو نا قابل اعتبار ثابت کردیں پھر تو کیا ہی بات ہے۔
بہرصورت چونکہ بہت بڑے بڑے آئمہ فن نے اس حدیث کو ’’ صحیح یا حسن ‘‘ قرار دیا ہے جیسا کہ ذہبی اور ابن شاہین کا حوالہ اوپر میں ذکر کر چکا ہوں ، اس لیے ہمارے نزدیک تو یہ حدیث قابل قبول ہے اگر آپ واقعتا دلائل کے ساتھ آئمہ فن سے اس حدیث کا ضعیف ہونا ثابت کردیں تو بات آگے چل سکے گی ابھی تک تو آپ نے صرف ایک سیوطی کا حوالہ دیا ہے اور وہ بھی غیر درست ہے ۔ اگر آپ مضعفین حدیث کی تلاش میں کامیاب ہو گئے تو پھر اگلا مرحلہ شروع ہوگا کہ کچھ علماء نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور کچھ نے اس کو ضعیف ۔ آپ حدیث کو ضعیف قرار دینے والوں کی بات کو کس بنیاد پر ترجیح دے رہے ہیں ؟
سر دست ہم ایک اور روایت نقل کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آپ اس پر کیا رد عمل کا اظہا رکرتے ہیں :
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن أبي صالح، عن أبي هريرة رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن " مثلي ومثل الأنبياء من قبلي، كمثل رجل بنى بيتا فأحسنه وأجمله، إلا موضع لبنة من زاوية، فجعل الناس يطوفون به، ويعجبون له، ويقولون هلا وضعت هذه اللبنة؟ قال: فأنا اللبنة وأنا خاتم النبيين " ( صحیح البخاری رقم 3535)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی نے ایک گھر بنایا اس کی تزیین و آرائش کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ۔ لوگ اس کو دیکھتے اور تعجب کا اظہار کرتے کہ ( اتنا خوبصورت گھر بنایا ہے ) یہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی ؟
پھر حضور نے فرمایا میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں ۔
اب اس نبوی مثال سے ختم نبوت کا مسئلہ روز روش کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ
حضور کے تشریف لانے سے پہلے صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی بچی تھی جب حضور آئے تو مکان مکمل ہوگیا اور اب مزید کسی کی کوئی گنجائش نہیں رہی ۔
اور نزول عیسی فی آخر الزمان کو لے کر یہاں اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے ۔
ہاں بحیثیت نبی وہ اس نبوت کی عمارت کا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے بن چکے ہیں ۔
بلکہ یہاں اہم بات یہ ہے کہ آخری زمانے میں مسیح علیہ السلام وہ آئیں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عمارتِ نبوت کا حصہ بن چکے ہیں ۔
نہ کہ مرزا قادیانی یا کوئی دوسرا تیسرا ۔
۲۔جناب قرآن تو فرما رہا کہ عیسی فوت ہوگیا۔۔۔نیز آپکے یہ ۳۰ دجال حضرت اقدس مرزا صاحب کے دعوی سے پہلے گزر گئے۔۔۔بلکہ اکمال الاکمال نے 500سال پہلے یہ لکھا کہ یہ تعداد پوری ہوچکی۔۔نیز نواب صدیق خان صاحب نے بھی ایسا ہی لکھا۔۔الحججہ الاکرمۃ۔۔
قرآن کی کس آیت میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہوگئے ؟ قرآن تو کہتا ہے کہ و ما قتلوہ و ما صلبوہ و لکن شبہ لہم ۔۔۔ و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ إلیہ ۔
رہا یہ مسئلہ کہ متنبیوں کی تعداد (30 ) ایک خاص زمانے تک پوری ہو چکی ہے لہذا اب جو بھی دعوی نبوت کرے گا وہ جھوٹا نہیں ہوگا تو یہ بات بالکل جہالت پر مبنی ہے
پہلی بات : حضور نے یہ بشارت دی ہے کہ تیس لوگ آئیں گے یہ کہیں نہیں کہا کہ 30 سے زیادہ نہیں آئیں گے ، یعنی 30 کا اثبات ہے اس سے زیادہ کی نفی نہیں ہے ۔
اگر قاعدہ و اصول یہی ہے تو آپ ان لوگوں پر کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے مرزا قادیانی کے بعد بھی دعوی نبوت کیا ہے ؟ کیا وہ بھی پھر سچے نبی ہوں گے ؟ کیونکہ تیس کے عدد سے تو وہ بھی اوپر ہیں آپ کے مطابق ۔
اس حدیث کی ایک توجیہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یوں بیان فرماتے ہیں :
وليس المراد بالحديث من ادعى النبوة مطلقا فإنهم لا يحصون كثرة لكون غالبهم ينشأ لهم ذلك عن جنون أو سوداء وإنما المراد من قامت له شوكة وبدت له شبهة كمن وصفنا وقد أهلك الله تعالى من وقع له ذلك منهم وبقي منهم من يلحقه بأصحابه وآخرهم الدجال الأكبر وسيأتي بسط كثير من ذلك في كتاب الفتن إن شاء الله تعالى ۔ ( فتح الباری ج 6 ص 617 )
بفرض محال اگر قاعدہ و اصول یہی ہے جو آپ نے بیان فرمایا تو آپ ان لوگوں پر کیا حکم لگائیں گے جنہوں نے مرزا قادیانی کے بعد بھی دعوی نبوت کیا ہے ؟ کیا وہ بھی پھر سچے نبی ہوں گے ؟ کیونکہ تیس کے عدد سے تو وہ بھی اوپر ہیں آپ کے مطابق ۔
۳۔یہی حدیث عیسی علیہ السلام کے متعلق بھی ہے کہ لو کان موسی و عیسی حیین۔۔۔میں نے پہلے کہا کہ وہ فوت ہوگے۔۔۔میں نے پہلے بھی پوچھا تھا کہ محمدی شریعت انکو کون سکیھائے گا؟؟؟؟؟
جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائی تھی ۔ یہ اللہ کی قدرت ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی سے محمدی شریعت پر عمل کروانا ہے تو ان کو سکھائیں گے کیسے ؟ تمام تفصیلات سے ہمارا باخبر رہنا ضروری نہیں ۔
۴۔بالکل نبی تھے کیونکہ اب وہ وفات پا چکے۔جناب جب عیسی علیہ السلام آئیں گے اور کہیں گے کہ میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے آیا ہوں حلانکہ قرآن کہہ رہا ہوگا کہ و رسولا الی بنی اسرائیل تو کیا کرو گے؟ آیت منسوخ مانو گے؟؟۔۔میری بات سے تو نصاری کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ جیسے موسی ،سلیمان عہ یہود کی طرف تھے ویسے ہی عیسی بھی۔۔۔ہاں مگر یہ تمہارے عقیدہ انکو فائدہ دے گا ۔۔اگر نصاری یہ کہتے کہ جب عیسی نے واپس آجانا ہے تو پھر اپکو ماننے کا فائدہ؟؟اور ویسے بھی یہ انکا ہی عقیدہ ہے کہ عیسی واپس آئیں گے۔۔۔
سبحان اللہ ! جب ہم آپ سے مرزاقادیانی کے دعوی نبوت کے امکانات پر بات کرتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ امکان ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عیسی نبی اللہ آئے گا ۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو آئے گا اس کا نام عیسی ہے لہذا یہ قادیانی کہاں سے آ گیا ؟ تو آپ کہتے ہیں کہ عیسی تو فوت ہو گئے وہ کیسے آ سکتے ہیں ؟
ایک ہی حدیث میں دو باتیں : نبی کا آنا اور اس کا نام عیسی بن مریم ہونا ۔ آپ پہلی بات کو مانتے ہیں اور دوسری کا انکا رکرتے ہیں کیوں ؟
مجھے اس کی وجہ جو سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ دونوں کا انکا رکرنے سے بھی مرزا قادیانی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور دونوں کو ماننے سے بھی ۔ لہذا تؤمنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض والا شیوہ یہود صرف اس لیے اپنایا جا رہا ہے تاکہ جھوٹے کو سچا ثابت کیا جا سکے ۔
اور ساتھ آپ نے ایک اور شوشہ یہ چھوڑ دیا ہے کہ عیسی علیہ السلام کا آنا یہ قرآن کی آیت ’’و رسولا إلی بنی إسرائیل ‘‘کے خلاف ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جب حضرت عیسی بنی إسرائیل کی طرف آئے تھے اور آپ کے استمرار والے قاعدہ (یہ الگ بات ہے کہ یہ بھی آپ کے سوء فہم کا نتیجہ ہے ) سے اب بھی وہ بنی اسرائیل کے لیے ہی ہیں امت محمدیہ میں نہیں آسکتے تو پھر آپ کے قادیانی کی گنجائش کہاں سے نکلتی ہے ؟
دلیلیں آپ کی بنی إسرائیل کے بنی والی ہیں اور نبی امت محمدیہ میں ثابت کر رہے ہیں آپ سے گزارش ہے کہ آپ عیسائیوں میں جا کر کوشش کر لیں شاید وہاں آپ کو کوئی کامیابی حاصل ہو جائے ۔ ( لا سمح اللہ )
میں نے پہلے کہا کہ مردہ واپس نہیں آ سکتا۔۔جب عیسی کی موت ہو گئی تو ثابت ہوا کہ کوئی دوسرا آئے گا۔
آپ کو یہ پتہ چل گیا کہ مردہ واپس نہیں آ سکتا لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ نہیں چلا کہ جو فوت ہو جائے وہ واپس نہیں آ سکتا پھر احادیث میں جس نبی کے آنے کا ذکر ہے اس کا نام عیسی بن مریم کیوں ہے ؟
اگر کسی دوسرے نے آنا ہوتا تو نام بھی اسی کا ہوتا ۔
لہذا احادیث میں عیسی بن مریم کا نام ہونا یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ حضرت عیسی زندہ ہیں ( کیونکہ بقول آپ کے مردہ تو آ ہی نہیں سکتا ) اور وہ ہی تشریف لائیں گے ۔
جب عیسی کی موت ہو گئی تو ثابت ہوا کہ کوئی دوسرا آئے گا۔۔جناب یہ کس نے کہا کہ وہ جوانی میں کہیں چلے گئے تھے۔۔حوالہ؟؟ اور عرض ہے کہ کہل کہتے ہیں ۳۰ سے ۴۰ سال کے عرصہ کو اور یہ تو آپ کا اپنا عقیدہ ہے کہ انکا رفع ۳۳ سال مین ہوا تو کہل میں کلام بھی کر لیا۔۔واپس لانے کی کیا ضرورت؟۔۔۔جبکہ حدیث صاف کہہ رہی کہ انہوں نے ۱۲ہ کی عمر پائی۔۔
کہل کے حوالے سے میں نے جو بات کی تھی یہ قول ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت نقل کیا ہے :
قال الحسن بن الفضل: وكهلا يعني ويكلم الناس كهلا بعد نزوله من السماء وفي هذه نص على أنه سينزل من السماء إلى الأرض ويقتل الدجال.
اور اس قول کی کی تائید ان متواتر احادیث سے ہوتی ہے جن میں نزول عیسی کی پیشین گوئی ہے ۔