• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قاضی شریح رحمة اللہ علیہ کی بیوی :-

شمولیت
ستمبر 14، 2011
پیغامات
114
ری ایکشن اسکور
576
پوائنٹ
90
ایک دن قاضی شریح رحمة اللہ علیہ کی اامام شعبی رحمةاللہ علیہ سے ملا قات ہوئی تو امام شعبی رحمة اللہ علیہ نے ان سے گھر یلو حالات کے بارے میں سوال کیا ۔ قاضی شریح نے انہیں بتایا کہ شادی ہوئے بیس سال گزر چکے ہیں لیکن میں نے اپنی بیوی سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہوتے نہیں دیکھی جس پر میں اسے غصے ہوا ہو ں ۔ امام شعبی رحمة اللہ علیہ نے کہا یہ کیسے ؟
قاضی شریح نے کہا کہ جب میری شادی ہوئی اور پہلی رات میں بیوی کے پاس گیا تو میں نے اسے نہایت حسین و جمیل پایا۔ میں نے دل میں کہا کہ مجھے وضو کر کے دو نفل شکرانے کے پڑھنے چاہییں ۔ چنانچہ جب میں نے دوگانے سے سلام پھیرا تو دیکھا کہ میری بیوی بھی میری اقتداء میں نماز پڑھ کر سلام پھیر رہی ہے۔ جب میرا گھر مہمانوں اور دوستوں سے خالی ہوا تو میں اپنی بیو ی کی طرف گیا اور جب خلوت میں میں نے اپناہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو وہ کہنے لگی :
”ذرا ٹھہر جایئے پھر اس نے خطبہ پڑھا اور بات شروع کی کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جو اپنے وطن سے دور ہوں ۔ مجھے آپ کے اخلاق اور آپ کی عادات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ لہٰذا آپ مجھے وہ تمام کام بتادیں جو آپ کو اچھے لگتے ہیں تاکہ میں وہی کروں اور جو کا م آپ ناپسند کرتے ہیں ، وہ بھی بتادیں تاکہ میں وہ نہ کروں ۔پھر اس نے کہا کہ آپ کی قوم میں کئی عورتیں تھیں جن سے آپ شادی کر سکتے تھے اور میری قوم میں بھی کئی مرد میرے ہم پلہ تھے جن سے میں شادی کرسکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ جب کو ئی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ ہو کر رہتا ہے۔ اب آپ میرے مالک ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ کر یں۔ اگر میں آپ کو پسند ہوں تو اچھے طریقے سے مجھے رکھیے ورنہ مجھے اچھے طریقے سے رخصت کر دیجیے ۔ اسی کے ساتھ میں اپنی بات ختم کر تی ہوں اور اپنے اللہ سے اپنے اور آپ کے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں۔“
قاضی شریح رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے شعبی (رحمة اللہ علیہ) !اللہ کی قسم اس نے مجھے اس مقام پر خطبہ پڑھنے پر مجبور کر دیا چنانچہ میں نے بھی اللہ کی حمد و ثنا کا خطبہ پڑھا اور پھر میں نے کہا کہ ”اے میری بیوی!بلاشبہ تو نے بہت اچھی بات کہی ہے، اگر تو اس پر ثابت قدم رہیگی تو یقیناً تو خوش نصیب رہے گی اور اگر تو ایسا نہیں کرے گی تو یہ تیرا خطبہ پڑھنا تیرے خلاف دلیل بن جائے گا۔ سنو، فلاں فلاں کا م پسند ہیں اور فلاں فلاں کام ناپسند ہیں ۔اگر تو میری کوئی خوبی دیکھے تو اس کو بیان کر دے اور اگر کوئی عیب دیکھے تو اس پر پردہ ڈال دے۔“
پھر اس عورت نے کہا کہ آپ کس حد تک پسند کرتے ہیں کہ میرے گھر والے آپ کے ہاں آیا کریں؟ تو میں نے کہا کہ میں یہ پسند نہیں کر تا کہ میرے سسرال والے مجھے اکتاہٹ میں ڈالیں ۔
پھر اس نے کہا کہ آپ اپنے پڑوسیوں میں سے کس کے بارے میں پسند کر تے ہیں کہ وہ آپ کے گھر آئیں تاکہ میں انہیں آنے کی اجازت دوں اور کن کا آپ کے گھر آنا آپ کو ناپسند ہے تاکہ میں بھی ان سے احتیاط کروں ۔ تو میں نے اسے بتایا کہ فلاں قبیلے کے لوگ نیک ہیں اور فلاں قبیلے کے لوگ اچھے نہیں ہیں۔
قاضی شر یح رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس عورت کے ساتھ وہ پہلی رات بہت اچھی گزاری ۔ اس طرح اس کے ساتھ زندگی بسر کرتے مجھے ایک سال گزر گیا ، اور اس دور ان میں میں نے اس میں کوئی ناپسندیدہ بات نہ دیکھی ۔ شادی سے ٹھیک ایک سال بعد کی بات ہے کہ ایک روز میں اپنے عدالتی کاموں سے فارغ ہو کر جب گھر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بوڑھی عورت گھر میں ہے۔ میں نے پوچھا :یہ کون ہے؟ میری بیوی نے بتایا کہ یہ آپ کی ساس ہے ۔ میری ساس نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا:
”اے شریح! تونے اپنی بیوی کو کیساپایا؟“
میں نے کہا کہ میں نے اسے بہت اچھاپایاہے۔ تو اس نے کہا:
شریح! دوحالتوں کے علاوہ عورت کی حالت کبھی نہیں بگڑتی ،یعنی :
(۱)…ایک یہ کہ جب عورت بچے کی ماں بن جائے۔
(۲)…دوسری یہ کہ اس کا خاوند اس کے حد سے بڑھے ہو ئے نازونخرے دیکھتارہے اور اسے کچھ نہ کہے ۔اللہ کی قسم !ناز و نخرہ والی عورت جیسا بڑاشر کبھی بھی کسی نے اپنے گھر جمع نہیں کیا ۔ لہٰذا میری بیٹی کو جتنا چاہے موٴدب و مہذب بنا، تجھے کو ئی روک ٹوک نہیں۔
پھر قاضی شریح رحمة اللہ علیہ نے کہا:”یہ عورت میرے ساتھ بیس سال سے رہ رہی ہے میں نے کبھی بھی اس میں قابل اعتراض کو ئی بات نہیں دیکھی ۔ ہاں اتنی زندگی میں صرف ایک دفعہ میں نے اس پر اعتراض کیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر بھی یہ بے قصور تھی،اور غلطی میری تھی۔
 
Top