• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قال متی الساعه قال ما المسئول باعلم من السائل

شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
نبی صلی الله علیه وسلم کی مشهور ومعروف حدیث جو که بخاری کتاب الایمان میں موجود هے. جب جبرئیل علیه السلام انسانی شکل وصورت میں آکر رسول الله صلی الله علیه وسلم سے کئ سوالات کئے تهے جن میں سے ایک سوال یه بهی تها که:
"متی الساعه قال ما المسئول عنهما باعلم من السائل وساخبرک خبرک عن اشراطها".(صحیح بخاری کتاب الایمان ح ۵۰. مسلم کتاب الایمان ح ۹۷, ابن ماجه باب فی الایمان ح ۶۴.)
"سوال کیا قیامت کب آگی گی آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا جس سے یه بات پوحپهی جارهی هے وه خود سائل سے زیاده اس کو نهیں جانتا البته میں تم کو اس کی کپھ علامتیں بیان کر دیتا هوں."

.
یه روایت اهل بدعت پر ایک پهاڑ هیں مگر کپھ لوگوں نے اپنا عقیده ثابت کرنے کیلئے اس میں جو من رنگ آمیزش کی هے وه دیکھے
عمر احپهروی کهتے هیں:
"اور وهابی صاحت اگر ماالمسئول عنهاباعلم من السائل کے معنی معاذ الله بے علم هونے کے هی کرو گے تو ساخبرک عن اشراطها اذا ولدت الامه ربتها اور اذا اتطاول رعاۃ الابل البهم فی البنیان کے مکذب ثابت هوں گے, یعنی نبی صلی الله علیه وسلم کے ایک جملے کے معنی الٹنے سے آپ کے تین جملوں کا انکار لازمی هوگا کیونکه ماالمسئول عنها باعلم من السائل کے تمهارے مطلب سمجھنے سے اگلے تین جملوں سے اس کا تناقض لازم آئے گا."
(مقیاس حنفیت ص ۴۳۱.)

حالانکه یه نه کوئی تناقض هے نه کوئی تعارض اگر هے تو وه ان کے ذهنوں میں هے. اس لئے که ایک هے نفس قیامت کا علم که کب آئے گی اور ایک هے اسکئ بعض علامات اور نشانیوں کا علم یه دونوں الگ الگ چیزیں هیں اور جو چیزیں اگۓ بیان هوئی وه قیامت کی علامات اور نشانیاں هیں نفی کسی اور چیز کی هے اثبات کسی اور چیز کا, مگر همارے مهربان تو اسکو تناقض کهتے هیں.

پهر کپھ آگے جاکر جناب کهتے هیں
:
"پهلے جملے میں "ما المسئول عنهاباعلم من السائل کے معنی صاف واضح کر رهے هیں که آپ نے فرمایا که مسئول یعنی محمد صلی الله علیه وسلم قیامت کے اظهار سے متعلق سائل سے یعنی جبرئیل سے زیادۂ جاننے والا هوں یعنی تو بهی قیامت کو جتنا جانتا هے جانتا هے اور میں بهی جتنا جانتا هوں, جانتا هوں, نه تو اپنے علم کے مطابق اپنی خبر کو ظاهر کر سکتا هے اور نه اپنے علم کے مطابق میں ظاهر کرسکتا هوں اسکے پوشیده رکهنے کا حکم هے اسلئے بیان بهی فرمایا تو اشارۃ اور پوشیده هی ظاهرا بیان نهیں فرمایا.
(مقیاس حنفیت ۴۳۲.)

اس هی طرح ایک اور صاحب کهتے هیں:
"اس میں رسول الله صلی الله علیه وسلم نے اپنے جاننے کی نفی نهیں کی بلکه زیادتی علم کی نفی کی ورنه فرماتے لا اعلم میں نے جانتا. اتنی دراز عبارت کیوں ارشاد فرمائی؟ اسکا مطلب یه هوسکتا هے که اے جبرئیل اس مسئله میں میرا اور تمارا علم برابر هے که مجھ کو بهی خبر هے اور تم کو بهی اس مجمع میں یه پوحپھ کر راز ظاهر کرانا مناسب نهیں.
(جاء الحق وزهق الباطل ج ۱ ص ۱۱۳.)


آپ حیران نه هوں یه کوئی نئی تحقیق یا جواب نهیں بلکه بهت وقت پهلے بهی ایسے منگهڑٹ عقیده رکهنے والوں لوگ موجود تهے جن کا ذکر ابن القیم نے المنار المنیف فی الصحیح والضعیف میں کیا هے. وه هم ان شاءالله ذکر کرتے هیں مگر اس سے پهلے اس حدیث کی کر متعلق علماء کی تصراحات دیکھے.

حافظ ابن حجر کهتے هیں: اس حدیث کے دو معنی هیں

اول: یه که سائل اور مسئول عنه دونوں نفی علم میں مساوی هیں چنانجه کهتے هیں
"فان المرادایضا: التساوی فی عدم العلم به."
(فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۱.)
اس سے مراد یه بهی هے که وه دونوں نفی علم میں برابر هیں.


اور قسطلانی کهتے هیں:
"والمراد نفی علم وقتها لا علم جبیئھا مقطوع به فهوعلم مشترک وهذا وان اشعربالتساوی فی العلم الا ان المراد التساوی فی العلم بان الله استاثر بعلم وقت مجیئھا لقوله بعد فی خمس لا یعلمن الا الله."
(ارشاد الساری ج ۱ ص ۱۴۰.)
"کهتے هیں اس سے مراد وقت قیامت کے علم کی نفی کرنا هے کیونکه اس کے آنے کا علم قطعی هے لهذا وه مشترک هے اور اگرچه بظاهر اس علم میں مساوات مفهوم هوتی هے لیکن دراصل مراد یه هے که اس بات کے جاننے میں برابری جتلانا هے که الله تعالی نے اس کے خاص وقت کا علم اپنے ساتھ مخصوص کر لیا کیونکه اس کے بعد یه قول موجود هے که قیامت ان پانچ چیزوں میں سے هے جن کا علم الله تعالی کے سوا کسی اور کو نهیں هے."

آپ نے دیکھا که قسطلانی اور عسقلانی کیا کهتے هیں اور جناب صاحب مقیاس حنفیت اور جاالحق والے کیا کهتے هیں.!

دوسرا معنی: اسکا یه علماء نے کیا که قیامت کے بارے میں علم که کب آئی گی, سائل مسئول دونوں اس کے جاننے میں برابر هیں که قیامت کا علم صرف رب عزت کے علاوه اور کسی کو نهیں.

اس هی لئے جناب علامه طیبی لکهتے هیں:
"انا متساویان فی انا نعلم ان للساعه مجیئا فی وقت ما من الاوقات وذلک هو العلم المشترک بیننا ولا مزید للمسئول علی هذا العلم یتعین عند المسئول عنه وهو الوقت المتعین الذی یتحقق فیه مجیئ الساعه."
(الکاشف عن حقائق السنن ج ۲ ص ۴۳۳.)

اور
ابن حجر کهتے هیں:

"وهذاو ان کان مشعرا بالتساوی فی العلم لکن المراد التساوی فی العلم بان الله تعالی استاثر بعلمھا لقوله بعد خمس لا یعلمھا الا الله."
(فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۱.)
"یعنی که قیامت کے معاملے میں سوال کرنے والے اور جواب دینے والے کا علم برابر هے, اس لئے که حدیث میں لفظ "السائل" اور "السؤول" آیا هے تو ان دونوں لفظوں میں جو الف لام شروع میں هے اس میں دو احتمال هیں. اول تو یه که اس الف لام سے مراد حضرت جبرائیل علیه السلام اور آپ صلی الله علیه وسلم مراد هوں, تو اس صورت میں سوال پوحپهنے والے (یعنی حضرت جبرائیل) اور جواب دینے والے دونوں علم میں برابر هوں گے یعنی معنی یه هوں گے که دونوں هی اس کے بارے میں کپھ نهیں جانتے.

الثانی: یه که اس الف لام سے مراد الف لام جنسی هو, تو اس صورت میں لفظ کے لحاظ سے معنی عام هو جائیں گے. یعنی وقوع قیامت کا علم پوری دنیا میں کسی بهی سوال پوحپهنے والے اور جواب دینے والے کو نهیں هے.
(النهایه لفتن لابن کثیر ج ۱ ص ۲۵۴, ۲۵۵ ومترجم مفتی ثنا الله محمود ص ۱۶۵.)
اور
ابن رجب کهتے هیں:
"قیامت کے وقت کے بارے میں تمام مخلوقات کا علم برابر هے اور یه اشاره هے که قیامت کے علم الله نے صرف اپنے پاس هی رکها هے."
(جامع العلوم والحکم ج ۱ ص ۱۳۵.)


یه تهی الائمه دین کی تصراحات اس صحیح حدیث کے متعلق, اب جس کا وعده هم نے اوپر کیا تها اب وه ابن القیم سے سنئے, هم اختصار کی وجه سے عربی عبارت حذف کر دے گۓ.
حافظ ابن القیم کهتے هیں:
"همارے زمانه کے بعض مدعیان علم نے جو درحقیقت علم سے متصف نهیں بلکه نرے جعل ساز هیں یه کھلا هوا جهوٹ کها هے که رسول الله صلی علیه وسلم کو وقت قیامت ساعت معلوم تها, جب اسکو کها گیا که حدیث جبرئیل میں تو مذکور هے که مسئول عنه سائل سے زیاده علم نهیں رکھتا تو اس محرف نے اس حدیث کے معنی میں یوں تحریف کی که اس کا معنی یه هے که میں اور تم دونوں قیامت کا علم رکھتے هیں اور یه عظیم ترین جهل اور قبیح ترین تحریف هے اور نبی الله تعالی کی شان کو سب سے زیاده جانتے هیں, وه بھلا ایسے شخص کو جسکو وه دیهاتی اور اعرابی سمجھتے تهے یه کیسے کهه سکتے تهے که میں اور تم قیامت کا علم رکهتے هیں الا یه که یه جاهل دعوی کرے که نبی اس وقب جبرئیل کو جانتے تهے مگر اس کا کیا کریں که رسول الله جو اپنے اس قول میں بالکل سچے هیں که الله کی قسم جبرئیل جب بهی میرے پاس آئے میں کو پهچان لیتا رها مگر میں اب کی بار اس صورت میں اسکو نه پهچان سکا اور ایک روایت میں هے که جبرئیل مجھ پر کبهی مشتبه نه هوئے مگر اس مرتبه اور ایک روایت میں هے که اس اعرابی کو واپس بلا لاو جب صحابه گئے تو وهاں کپھ بهی نه تها. رسول الله صلی الله علیه وسلم کو کپھ عرصه کے بعد اسکا علم هوا تها که یه تو جبرائیل تهے. چنانچه آپ نے سیدنا عمر سے کپھ عرصه بعد فرمایا که اے عمر تم جانتے هو که سائل کون تها اور یه محرف کهتا هے که آپ سوال کے وقت هی جانتے تهے که سوال پوحپهنے والا جبرائیل هے حالانکه آپ نے صحابه کرام کو ایک عرصه کے بعد بتادیا تها که سائل کون تها. پهر ما المسئول ومسئول عنها باعلم من السائل کا عنوان اختیار کرنے میں یه فائده هے که قیامت کے بارے میں هر سائل ومسئول کا یهی حکم هے که اس کا علم بجز الله کے کسی اور کو نهیں."
(المنار المنیف ۸۲, ۸۱.)
اور
اس هی بات کو ملا علی قاری حنفی نے اپنی کتاب میں بغیر کسی چوں چراں ابن القیم کی عبارت کو من وعن نقل هی نهیں کیا بلکه اس پر مهر تصدیق ثبت کی هے.
(الاسرار المرفوعه فی الاخبار الموضوعه ۴۳۱ فصل ۱۵ منهیه ۱۳.)
 
Top