• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قانون میں قرائن کی حجیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قانون میں قرائن کی حجیت


مولانا مبشر احمد ،جامعہ مدینہ لاہور

قرائن کے لغوی معنوی :
قرائن جمع ہے قرينة کی بروزن فعلية: بمعنی امتصل ہونا:
يقال قرنت الشئ بالشئ و صلته به:
میں نے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملایا
وھي الامر الدال علي الشئ من غير استعمال فيه بل بمجرد المقارنة والمصاحبة:
قرینہ وہ امر ہے جو کسی چیز پر دلالت کرے جس میں وہ استعمال نہ ہو، بلکہ محض اس کا اس کے ساتھ اتصال اور مصاحبت و مقارنت ہو۔ (1)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرائن کی اصطلاحی تعریف:
" عرف الفقھآء القرينة بمعنی الامارة وھي مايلزم من العلم به الظن بوجود المدلول"
فقہاء نے قرینہ کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ قرینہ بمعنی امارۃ و علامۃ ہے جس کے علم سے وجود مدلول کا ظنی علم حاصل ہوتا ہے جیسے بادل کو دیکھ کر بارش کا علم حاصل ہوتا ہے ، دھوئیں کو دیکھ کر آگ ک علم حاصل ہوا ہے، یعنی بادل اور دھواں وجود مطر اور وجود نار پر دال ہوتے ہیں۔
لیکن فقہاء کی یہ تعریف تعریف بالمرادف ہےنہ کہ تعریف کا ملہ: تو معلوم ہوا کہ قرائن وہ (علامات) امارات معلومہ ہیں جو امور مجہولہ پر دلالت کریں۔
استاد مصطفیٰ الزرقاء قرینہ کی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
" القرينة كل امارة ظاھرة تقارن شيئا خفيا فتدل عليه۔"
قرینہ ہر وہ ظاہری علامت ہے جو کسی خفیہ چیز سےملی ہو اور اس پر دلالت کرے۔(2)
علامہ سید فتح اللہ قرینہ کی تعریف کرتے ہیں:
ھي الامارة التي نص عليه الشارع او استنبطها ائمة الشريعة با جتھادھم۔ الخ
قرینہ اس علامت کو کہتے ہیں جس کو شارع ﷤ نے بیان کیا ہو یا ائمہ شریعت نے اجتہاد و استنباط کیا ہو۔(3)
علامہ جرجانی نےکہا ہے :
القرينة في الاصطلاح امر يشير الي المطلوب۔
یعنی قرینہ اصطلاح میں اس امر کو کہتے ہیں جو مطلوب و مقصود کی طرف اشارہ کرے۔ (4)
ڈاکٹر محمدمصطفیٰ الزحیلی فرماتے ہیں:
ہمارےنزدیک سب سےممتاز تعریف استاد مصطفیٰ الزرقا کی ہے۔ (5)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شرائط قرینہ :

نمبر1۔
ان يوجد امر ظاھر و معروف و ثابت یعنی جس قرینہ کو ہم استدلال کی بنیاد بنارہے ہیں وہ معروف ہو اور ثابت اور ظاہر ہو۔
كالغيم للمطر: جیسے بادل بارش کے لئے معروف اور ظاہر قرینہ ہے۔

نمبر2۔
ان توجد الصلة بين الامر الظاھر الثابت والقرينة التي اخذت منه في عملية الاستنباط والاستنتاج۔ یعنی امر ظاہری اور قرینہ کے مابین اتصال حالی یا قالی موجود ہواتصال لفظی و معنوی پایا جائے قرینہ سےمراد وہ قرینہ ہے جس سے ہم استنباط و استنتاج کررہے ہیں (یعنی نتیجہ نکال رہے ہیں)
ولٰكن يشترط ان تكون العلاقة قوية بينھما۔
اور یہ بھی شرط ہے کہ وہ تعلق قوی و مضبوط ہو ھُن وہم و خیال و علاقہ ضعیفہ نہ ہو ورنہ اس کو استدلال کی بنیاد نہیں بنایا جاسکے گا۔(6)

اس بناء پر قرائن کی دو قسمیں بن جاتی ہیں:
1۔ قرائن قویّہ
2۔ قرائن ضعیفہ

کیونکہ قرائن کی دلالت مدلولات پرقوۃ و ضعف کے اعتبار سے متفاوت ہوتی رہتی ہے بعض اوقات قوت میں درجہ قطعیہ کو پہنچ جاتی ہے او رقرینہ قاطعہ ہوجاتا ہے او رکبھی اتنی کمزور ہوتی ہے کہ محض احتمال کے حدتک رہ جاتی ہے تو قرینہ ضعیفہ بن جاتا ہے۔ (7)

قضا میں قرائن ضعیفہ سے اثبات کاکوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ بلکہ اس قرینہ قویہ کااعتبار ہوتا ہے جو مفید ظن قوی ہواور راجح ہو زیادہ تر قرائن ان امور باطنہ میں مؤثر ہوتے ہیں جن پر اطلاع پانا متعذر ہوتا ہے لہٰذا دلائل کو ان کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے اور انہیں دلائل و قرائن پر احکام کا وجود و عدم مربوط ہوتا ہے جیسے آلہ قتل کا استعمال دلیل ہے قصد قتل پر۔

دوسری مثال مثالُ متاع البیت ہے۔ اس مثال کی وضاحت یوں ہے کہ زوجین نے گھر کے سامان میں اختلاف کیا اور ہر ایک نے دعویٰ کیاکہ یہ سامان میرا ہے لیکن گواہ نہ پیش کرسکے اب اس تنازع و اختلاف کا فیصلہ قرائن کے مطابق ہوگا کہ وہ سامان جو مردوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے مثلاً پگڑی اور کتابیں اور تلوار وہ مردوں کو دیا جائے گا اور وہ سامان جوعورتوں کے لئے استعمال ہوتا ہے وہ عورتوں کو دیا جائے گا مثلاً زیورات، زنانہ لباس و کپڑے وغیرہ۔

کیونکہ قرینہ اور عرف عام اس پر دال ہے کہ مردوں کو مردانہ چیزیں ملنی چاہئیں اور عورتوں کو زنانہ اشیاء۔ یہاں قبضے کا اعتبار نہ ہوگا۔ یہی قول احناف و مالکیہ وغیرہ کا ہے۔ (8)

سوال :
وہ سامان جو مردوں اور عورتوں دونوں کے مناسب ہوتا ہے اور دونوں کے استعمال میں آتا ہے اس کے متعلق کیا فیصلہ کیا جائے گا، جیسے برتن اور زمین اور صندوقیں و چارپائیاں وغیرہ۔

جواب :
احناف و مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ ایسے سامان کے بارے میں مردوں کے حق میں فیصلہ ہوگا کیونکہ عرف عام میں بیت۔بیت الرجل یعنی مرد کاگھر ہی کہلاتا ہے اور عورت تو خاوند کےماتحت ہوتی ہے اور قبضہ قرینہ و دلیل ظاہر یہ ہے مالک کے لئے۔ لیکن حنابلہ اور دیگر ائمہ فرماتے ہیں کہ ایسے اشیاء کو دونوں میں مشترکہ تقسیم کیا جائے گا کیونکہ قبضہ دونوں کا ہوتا ہے۔

راجح قول :
اس مسئلے میں احناف کے قول کو راجح قرا ردیا گیا ہے کیونکہ اس میں تین قرینے جمع ہوگئے ہیں۔
1۔ قبضہ
2۔ صلاحیت
3۔ عرف عام و عادت الناس ۔ یعنی لوگوں کا رواج۔

شوافع کا مذہب:
اس مسئلے میں شوافع اور امامیہ اور ظاہریہ کا قول یہ ہے کہ گھر کے جملہ متاع کو نصف نصف تقسیم کیا جائے گا کیونکہ قبضہ سب سےبڑا قرینہ ہوتا ہےملکیت کے لئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نسبت کے اعتبار سے قرینہ کی تقسیم :

نسبت کے اعتبار سے قرائن کی دو قسمیں ہیں:
1۔ قرینہ عقلیہ۔
2۔ قرینہ عرفیہ۔
کیونکہ قرینہ اور معلولات کے درمیان نسبت کبھی عقلی ہوتی ہے اور کبھی عُرفی۔

قرینہ عقلیہ کی تعریف:
فالقرآئن العقلية ھي التي تكون النسبة بينھا و بين مدلولاتھا ثابتة يستنتجھا العقل دائما كجود المسروقات عند المتھم بالسرقة ووجود الجراح في جسم الميت دلالة عليٰ قتله بالٰة حادة۔
ترجمہ: قرآئن عقلیہ وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق مدلولات کے مابین ثابت ہو اور عقل ان سے نتیجہ نکالے۔ جیسے ایک شخص پر چوری کی تہمت لگی اور اس کے بعد مسروقہ چیز اس سے برآمد ہوگئی اور میت کے جسم پر زخم دلالت کرتے ہیں کہ اس کو کسی دھار دار آلہ سے قتل کیاگیا ہے۔
قرینہ عرفیہ کی تعریف :
والقرائن ُ العرفية ھي التي تكون النسبة بينھا و بين مدلوتھا قائمة علي عرف اوعادة .....الخ۔
ترجمہ: قرائن عرفیہ وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق مدلولات کے ساتھ عرف عام یا عادت او ررسم و رواج کی بنا پرقائم ہو۔
یعنی لوگوں کا رواج اور عادت کی تبدیلی سے اس کی دلالت بھی بدل جائے مثلاً ایک شخص قسم کھاتا ہے کہ گوشت نہیں کھاؤں گا اب اگر وہ مچھلی کھا لیتا ہے تو حانث نہ ہوگا کیونکہ عرف عام اور لوگوں کی عادت میں مچھلی پر گوشت کا اطلاق نہیں ہوتا۔کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ میں نےمچھلی کا گوشت کھایا بلکہ کہا جاتا ہے کہ میں مچھلی کھائی یامچھلی پکائی۔ اسی طرح کوئی شخص سامان خریدتا ہے بغیر قیمت مقرر کرنے کے تو اس سے مراد وہ ریٹ ہوتا ہے جو بازار میں مستعمل ہے اور چل رہا ہے اسی طرح کوئی مسلمان عیدالاضحٰی کے روز یا اس سےایک دو روز قبل بکری خرید کرتا ہے تو یہ اس بات پر قرینہ ہے کہ وہ قربانی کے لئے خرید رہا ہے۔ (9)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مصادر و مأخذ کے اعتبار سے قرائن کی تقسیم :

مصادر اور مأخذ کے اعتبار سے قرائن کی تین قسمیں ہیں:
1۔ قرائن نصیہ
2۔ قرائن فقہیہ
3۔ قرائن قضائیہ۔

قرائن نصیّہ وہ ہیں جن پر کتاب اللہ یا سنت رسول اللہﷺ سے کوئی نص وارد ہوئی ہو اور شارع نے اسے کسی معین چیز پر علامت بنایا ہو۔ جیسے قصّہ یوست ﷤ میں خون کو قتل پر قرینہ بنایا گیا ہے۔
''وَجاءو عَلىٰ قَميصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ '' (سورۃ یوسف، آیت 18)
یعنی اس کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لائے۔
کپڑے کا پھٹنا مباشرت و صحبت پر قرینہ بنایا گیا ہے۔
'' إِن كانَ قَميصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَت وَهُوَ مِنَ الكـٰذِبينَ ﴿٢٦﴾ وَإِن كانَ قَميصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ‌ فَكَذَبَت وَهُوَ مِنَ الصّـٰدِقينَ ﴿٢٧﴾'' (سورۃ یوسف، آیت 26۔ 27)
اگر قمیص آگے سے پھٹی ہوئی ہے تو زلیخا سچی اور یوسف جھوٹا ہے اور اگر قمیص پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو یوسف سچا اور زلیخا جھوٹی ہے۔
2۔ وہ علامات جن کو اللہ تعالیٰ نے راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
'' وَبِالنَّجمِ هُم يَهتَدونَ ﴿١٦﴾'' (سورۃ النحل، آیت 16)
یعنی ستاروں کے ساتھ وہ راستہ معلوم کرتے ہیں۔
3۔ کنواری لڑکی سے اجازت نکاح لیتے وقت اس کے خاموش رہنے کو رضا کی علامت بنایا گیا ہے۔

4۔ عورت کا خاوند کے بستر پر سونا کوعلامت بنایا گیا ہے بچے کی خاوند کی طرف نسبت کی۔ وہ بچہ اس کا بیٹا متصور ہوگا۔ الولد للفراش

5۔ وہ اعمال جن کو مؤمن اور منافق اور کافر کے درمیان فرق و تمیز کی علامات قرار دیا گیا ہے۔ یہ سب قرائن نصیّہ کہتے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسری قسم قرائن فقہیہ :
قرائن فقہیہ وہ ہیں جنہیں فقہاء کرام نےمستنبط کیا ہو اور انہیں دوسرے امور پردلائل بنایا ہو اور قاضی ان قرائن کی بنیاد پر فیصلے کرے۔


تیسری قسم قرائن قضائیہ :
قرائن قضائیہ وہ ہیں جنہیں قاضیوں نے وضع کیا ہو کیونکہ بعض قاضی و جج ایسےبھی ہوتے ہیں جنہیں احکام شرعیہ میں ملکہ تامہ حاصل ہوتا ہے وہ اپنی فطانت و ذہانت اور فراست سے ایسی علامات کااستخراج کرلیتے ہیں کہ جن پر دعاوی میں استدلا ل کیا جاسکتاہے لیکن یہ اس وقت قبول ہوں گے جبکہ وہ قرائن قواعد شرعیہ و ضوابط فقہیہ کے مطابق ہوں۔(10)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایک واقعہ :

قاضی ایاس کا ایک واقعہ کتب ادب میں مذکور ہے کہ دو شخص ایک کمبل کا جھگڑا لے کر قاضی ایاس کے پاس آئے ایک نےکہا کہ میں نےنہر کے کنارےاپنا کمبل اتار کر رکھا اور نہانے لگا یہ شخص آیا اس نے بھی اپنا کمبل اتار کر میرے کمبل کے پاس رکھ دیا اور نہانے لگا اور یہ جلدی جلدی نہاکر نہر سے نکلا اور میرا کمبل اٹھا کر جانے لگا میں نے اس کو پکڑ لیا ہے اور یہ کہتا ہے کہ یہ میرا کمبل ہے۔ قاضی نے پوچھا تیرے کمبل کا کیا رنگ تھا۔اس نے کہا میرے کمبل کا رنگ سرخ ہے اور اس کے کمبل کا رنگ سیاہ ہے۔ قاضی ایاس نے کنگھا منگوایا اور دونوں کے سروں پر پھیرا جس کے سر سے سرخ بال نکلا اس کو سرخ کمبل دے دیا اور جس کے سر سے سیاہ بال نکلا اس کو سیاہ کمبل دے دیا۔ اس قسم کے ذہین و فطین قاضی بھی ہوتے ہیں جو اپنی ذکاوت سے ایسے قرائن تلاش کرلیتے ہیں جو حق فیصلے تک پہنچ جاتے ہیں اورصحیح وغلط میں تمیز کرلیتے ہیں۔(11)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرائن کی حجیت:

قضاء و فیصلے کے لئے سب سے اہم ثبوت تو شہادت اور اقرار اور قسم اور تحریر ہے لیکن جب ان دلائل میں سے کوئی نہ ہو تو پھر دوسرے وسائل کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ ان وسائل کا نام قرائن اور قیافہ ہے ان وسائل کو اصل ثبوت یعنی شہادت و اقرار وغیرہ کے قائم مقام سمجھ کر دعووں میں مدد لی جاتی ہے اور فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اسی بناء پر فقہاء کرام کا قرائن کی مشروعیت میں اختلاف واقع ہوا ہے۔

قول اوّل :
جواز القضآء بالقرائن یعنی قرائن کےساتھ قضا و فیصلہ کرنا جائز ہے یہ قول حنابلہ میں سے ابن تیمیہ و ابن القیم کا ہے او راحناف میں سے بدرالدین اور ابن العرس اور زیلعی اور ابن عابدین کا ہے او رمالکیہ میں سے ابن فرحون اور عبدالمنعم بن الفرس کا ہے۔ (12)

قول ثانی :
منع القضاء بالقرائن۔ قرائن کے ساتھ قضاء و فیصلہ منع او رناجائز ہے۔ یہقول خیرالرملی او رابن نجیم اور صاحب تکملہ رد المختار کا ہے۔ (13)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مجوزین کے دلائل :

قرائن کے ساتھ قضا اور فیصلے کی مشروعیت اور حجیت پر کتاب اللہ و سنۃ رسول اللہﷺ دونوں سے ثبوت موجود ہیں۔

دلیل اوّل:

''وَجاءو عَلىٰ قَميصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ '' (سورۃ یوسف، آیت 18)
ترجمہ: او ران کے قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگا لائے۔

وجہ دلالت
1۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ یوسف ﷤ کے بھائیوں نے قمیض پر خون کو اپنی سچائی کی دلیل بنایا اور کہا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔ کپڑے کا خون میں لت پت ہونا قرینہ ہے قتل کا۔

2۔ اسی بات سے یعقوب ﷤ نے ان کے کاذب ہونے کی دلیل پکڑی اور کہا کہ اگر یوسف ﷤ کوبھیڑیا کھا جاتا تو قمیص بھی پھٹ جاتی اور فرمایا:

كان الذئب حليما ياكل يوسف ولا يخرق قميصه۔
بھیڑیا کتنا بردبار او رمہربان تھا کہ یوسف کو تو کھا گیا مگر قمیص کو خراچ تک بھی نہ دی۔
'' بَل سَوَّلَت لَكُم أَنفُسُكُم أَمرً‌ا ۖ فَصَبرٌ‌ جَميلٌ ۖ وَاللَّهُ المُستَعانُ عَلىٰ ما تَصِفونَ ﴿١٨﴾ '' (سورہ یوسف :18)
ترجمہ: بلکہ تم نے اپنے دل سے ایک بات بنا لی ہے سو صبر ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کررہے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔
تو یعقوب ﷤ نے قمیص کے صحیح و سالم ہونے کو قرینہ بنایا ۔إخوان یوسف کے کاذب ہونے پر ڈاکٹر المصطفیٰ الزحیلی فرماتے ہیں:

فالاية دليل عليٰ مشروعية القرآئن و جواز الاعتماد في القضاء۔
ترجمہ: یہ آیت قرآئن کی مشروعیت پر دلیل ہے اور قضا میں ان پر اعتماد کرنا جائز ہے۔ (14)


وقال القرطبي استدل العلمآء بھذه الاية في اعمال الامارات في مسائل الفقه الخ۔
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ مسائل فقہیہ میں علامات (قرائن) کا عمل و دخل ہوتا ہے۔
لہٰذا قاضی اور جج پر لازم ہوتا ہے کہ امارات و علامات (قرائن) میں سے جو زیادہ راجح قرینہ ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے۔جیسا کہ یعقوب ﷤ نے قصہ یوسف میں دو قرینوں (یعنی قمیص کا خون سے آلودہ ہونا اور قمیص کا صحیح سالم ہونا) میں سے دوسرے قرینے کو راحج قرار دیتے ہو ئے اخوان یوسف کے کاذب ہونےکا فیصلہ دیا۔ (15)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دلیل ثانی :


''وَشَهِدَ شاهِدٌ مِن أَهلِها إِن كانَ قَميصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَت وَهُوَ مِنَ الكـٰذِبينَ ﴿٢٦﴾ وَإِن كانَ قَميصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ‌ فَكَذَبَت وَهُوَ مِنَ الصّـٰدِقينَ ﴿٢٧﴾ فَلَمّا رَ‌ءا قَميصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ‌ قالَ إِنَّهُ مِن كَيدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيدَكُنَّ عَظيمٌ ﴿٢٨﴾'' (16)
ترجمہ: اور اس (عورت) کے خاندان سے ایک گواہ نےگواہی دی کہ ان کا پیراہن اگر آگے سے پھٹا ہو تو وہ سچی ہے اور یہ جھوٹے۔ اور اگر ان کا پیراہن پیچھے سے پھٹا ہو تووہ جھوٹی اور یہ (حضرت یوسف﷤) سچے۔ سو جب اس(عزیز مصر) نے ان کا پیراہن پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو بول اٹھا بے شک یہ تم عورتوں کا چرتر ہے۔ بے شک تم عورتوں کا چرتر غضب کا ہوتا ہے۔

وجہ دلالت :
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کپڑے کے پھٹنے کو دلیل اور قرینہ بنایا ہے ان دونوں میں سے ایک کے صدق پر۔ اور کپڑے کے پھٹنے کو علامت و سبب بنایاگیا ہے قضا و حکم کے لئے: ھٰذادليل علي مشروعية القرآئن۔ یہ قرائن کی مشروعیت و حجیت پر دلیل ہے اگر قرائن حجت نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ قمیص کے پھٹنے کو دونوں کے صدق و کذب پردلیل نہ بنایا۔ (17)


ایک سوال :
اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو تم نے دو دلیلیں پیش کی ہیں وہ تو سابقہ شریعتوں کی باتیں ہیں وہ ہمارے لئے کیسے حجت ہوسکتی ہیں؟

جواب :
علماء اصول نے سابقہ شرائع کی باتوں کو ہمارے لئے بھی قابل حجت بتایا ہے اور فرمایا ہےکہ جب وہ ہماری شریعت کے اصول و قواعد کے مناسب اورمطابق ہوں تو ہمارےلئے بھی قابل تقلید ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

شَرَ‌عَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّىٰ بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ ........الخ۔ (سورۃ الشوریٰ:13)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے (حضرت) نوحؑ کو دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کیا ہے۔
نیز ان باتوں کوقرآن مجید میں ذکر کرنا ہماری راہنمائی کے لئے ہے مکمل قرآن مجید ہمارے لئے مشعل راہ ہے اس لئے ہم ان باتوں سے اپنے قواعد و ضوابط وضع کرسکتے ہیں۔ (18)


دلیل ثالث :
'' وَعَلـٰمـٰتٍ ۚ وَبِالنَّجمِ هُم يَهتَدونَ ﴿١٦﴾ '' (19)
ترجمہ: اور (اللہ نے بنائیں) علامتیں اور ستاروں سے بھی (لوگ)راہ پاتے رہتے ہیں۔

وجہ دلالت :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مادی چیزوں کو لوگوں کی ہدایت وراہنمائی کا ذریعہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہےکہ ان علامات کو دیکھ کر بھی تم ہدایت وراہ حق پاسکتے ہو یا ان چیزوں کو دیکھ کر تم اپنا دنیاوی راستہ متعین کرسکتے ہو۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا ہے۔ علامات سے مراد پہاڑ، نہریں، ہوائیں وغیرہ مراد ہیں اور نجوم ستاروں کوکہتے ہیں۔ اسی طرح کی بہت سی آیات قرآن مجید میں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ قرائن یعنی علامات اور امارات ہمارے دعووں اور فیصلوں میں مُمد و معاون ہوسکتے ہیں اور حجت بن سکتے ہیں۔ (20)
 
Top