دلیل ثانی :
''وَشَهِدَ شاهِدٌ مِن أَهلِها إِن كانَ قَميصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَت وَهُوَ مِنَ الكـٰذِبينَ ﴿٢٦﴾ وَإِن كانَ قَميصُهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ فَكَذَبَت وَهُوَ مِنَ الصّـٰدِقينَ ﴿٢٧﴾ فَلَمّا رَءا قَميصَهُ قُدَّ مِن دُبُرٍ قالَ إِنَّهُ مِن كَيدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيدَكُنَّ عَظيمٌ ﴿٢٨﴾'' (16)
ترجمہ: اور اس (عورت) کے خاندان سے ایک گواہ نےگواہی دی کہ ان کا پیراہن اگر آگے سے پھٹا ہو تو وہ سچی ہے اور یہ جھوٹے۔ اور اگر ان کا پیراہن پیچھے سے پھٹا ہو تووہ جھوٹی اور یہ (حضرت یوسف) سچے۔ سو جب اس(عزیز مصر) نے ان کا پیراہن پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو بول اٹھا بے شک یہ تم عورتوں کا چرتر ہے۔ بے شک تم عورتوں کا چرتر غضب کا ہوتا ہے۔
وجہ دلالت :
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کپڑے کے پھٹنے کو دلیل اور قرینہ بنایا ہے ان دونوں میں سے ایک کے صدق پر۔ اور کپڑے کے پھٹنے کو علامت و سبب بنایاگیا ہے قضا و حکم کے لئے:
ھٰذادليل علي مشروعية القرآئن۔ یہ قرائن کی مشروعیت و حجیت پر دلیل ہے اگر قرائن حجت نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ قمیص کے پھٹنے کو دونوں کے صدق و کذب پردلیل نہ بنایا۔ (17)
ایک سوال :
اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو تم نے دو دلیلیں پیش کی ہیں وہ تو سابقہ شریعتوں کی باتیں ہیں وہ ہمارے لئے کیسے حجت ہوسکتی ہیں؟
جواب :
علماء اصول نے سابقہ شرائع کی باتوں کو ہمارے لئے بھی قابل حجت بتایا ہے اور فرمایا ہےکہ جب وہ ہماری شریعت کے اصول و قواعد کے مناسب اورمطابق ہوں تو ہمارےلئے بھی قابل تقلید ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
شَرَعَ لَكُم مِنَ الدّينِ ما وَصّىٰ بِهِ نوحًا وَالَّذى أَوحَينا إِلَيكَ ........الخ۔ (سورۃ الشوریٰ:13)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے (حضرت) نوحؑ کو دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کیا ہے۔
نیز ان باتوں کوقرآن مجید میں ذکر کرنا ہماری راہنمائی کے لئے ہے مکمل قرآن مجید ہمارے لئے مشعل راہ ہے اس لئے ہم ان باتوں سے اپنے قواعد و ضوابط وضع کرسکتے ہیں۔ (18)
دلیل ثالث :
'' وَعَلـٰمـٰتٍ ۚ وَبِالنَّجمِ هُم يَهتَدونَ ﴿١٦﴾ '' (19)
ترجمہ: اور (اللہ نے بنائیں) علامتیں اور ستاروں سے بھی (لوگ)راہ پاتے رہتے ہیں۔
وجہ دلالت :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مادی چیزوں کو لوگوں کی ہدایت وراہنمائی کا ذریعہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہےکہ ان علامات کو دیکھ کر بھی تم ہدایت وراہ حق پاسکتے ہو یا ان چیزوں کو دیکھ کر تم اپنا دنیاوی راستہ متعین کرسکتے ہو۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا ہے۔ علامات سے مراد پہاڑ، نہریں، ہوائیں وغیرہ مراد ہیں اور نجوم ستاروں کوکہتے ہیں۔ اسی طرح کی بہت سی آیات قرآن مجید میں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ قرائن یعنی علامات اور امارات ہمارے دعووں اور فیصلوں میں مُمد و معاون ہوسکتے ہیں اور حجت بن سکتے ہیں۔ (20)