• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قانون میں قرائن کی حجیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرائن کی حجیت پراحادیث سے دلائل


دلیل اوّل :

عن ابي ھريرة رضي الله عنه ان رسول الله صلي الله عليه وآله سلم قال لا تنكح الايم حتيٰ تستامر ولا تنكح البكر حتيٰ تستاذن قالوا يارسول الله فكيف اذ نھا قال ان تسكت وفي رواية عند مسلم والنسائي عن ابن عباس الايم احق بنفسھا من وليھا والبكر تستاذن واذنھا صماتھا۔ (21)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اَیم (یعنی بیوہ بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کے اس کا حکم حاصل نہ کرلیا جائے اسی طرح باکرہ (یعنی کنواری بالغہ) عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے یہ سن کر صحابہ(﷢) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اس کنواری کی اجازت کیسے ہوگی؟ تو آپﷺ نے فرمایا اس کا خاموش رہنا بھی اجازت ہے۔
او رمسلم و نسائی کی روایت میں ہے حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ بالغہ عورت اپنے نکاح کے معاملے میں اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے او رکنواری لڑکی بھی اسکی حقدار ہے کہ اسکے نکاح کی اس سے اجازت حاصل کی جائے او راس کی اجازت خاموش رہنا ہے۔

وجہ دلالت :
وجہ دلالت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےکنواری لڑکی کے خاموش رہنے کو علامت بنایا اس کی رضا پر:
والصمات او السكرت قرينة ولذالك يجوز الاعتماد علي القرائن۔
ترجمہ: ''اور خاموشی قرینہ ہے اسی بناء پر قرائن پر اعتماد کرنا جائز ہے۔''
ابن فرحون فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قرائن کی حجیت پر اقویٰ دلیل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دلیل دوئم :

عن ابي موسيٰ رضي الله عنه ان رجلين اختصما في دابة وليس لواحد منھما بينة فقضيٰ بھا رسو ل الله صلي الله عليه وآله وسلم بينھما نصفين۔ (22)
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰؓ فرماتے ہیں کہ دو شخص ایک جانور کا جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کسی کے پاس گواہ نہ تھے تو آپ نے ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا جانور تقسیم فرما دیا۔

وجہ دلالت :
وجہ دلالت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں کے درمیان نصف نصف کا فیصلہ صادر فرمایا ان کے قبضے کی بنا پر :

وليد قرينة و علامة علي الملك وھٰذا يدل علي مشروعية القرينة۔ (23)
ترجمہ : قبضہ ملک کی علامت و قرینہ ہوتا ہے اور یہ قرائن کی مشروعیت کی دلیل ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دلیل سوم :

فقال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اذا رايتم الشاب يرتار المساجد فاشھد واله بالايمان۔ (24)
ترجمہ: ارشاد فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے جب تم کسی نوجوان کو مسجد میں آتا جاتا دیکھو تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو۔
وجہ دلالت :
مساجد میں آنے جانے کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دلیل چہارم:
اية المنافق ثلاثة اذا حدث كذب و اذا ائتمن خان و اذاعاھد غدر۔(25)
ترجمہ: منافق کی تین علامتیں ہیں۔ جب بولے جھوٹ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے اور جب وہ وعدہ کرے تو دھوکہ کرے۔
وجہ دلالت :
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے منافق کی پہچان ان تین باتوں کو قرار دیا جو حدیث میں مذکور ہیں اور یہی علامات ہی قرینہ کہلاتی ہیں جن کی بنا پر ہم مؤمن اور منافق میں تمیز کرسکیں گے۔
وھناك امثلة كثيرة جداً تدل علي مشروعية القرائن فھذه الاحاديث الصحيحة كافية في الاستدلال علي مشروعية الاثبات بالقرائن وانھا حجة في القضآء۔[26]
ترجمہ : ڈاکٹر المصطفیٰ زحیلی فرماتے ہیں: قرائن کی مشروعیت پر دلائل بہت ہیں۔ پس یہی صحیح احادیث قرائن کے اثبات حق کی مشروعیت پر کافی اور وافی اور شافی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مانعین کے دلائل :

جو ائمہ قرائن کو حجت نہیں مانتے وہ اپنے قول کی تائید میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
عن ابن عباس قال قال رسول الله صلي عليه وآله وسلم لو كنت راجما احدا بغير بينة لرجمت فلانه.......... الخ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے روایت کی ہے کہ ارشاد فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے اگر میں کسی کو بغیر گواہوں کےسنگسار کرتا تو فلانی عورت کو سنگسار کرتا مگر چونکہ اس کی گفتگو اور حالت اور اس پر داخل ہونے والے کےبارے میں شک پیدا ہوچکا ہے اس لئے میں اس پر حد جاری نہیں کرتا۔[27]
وجہ دلالت :
دیکھو رسول اکرم ﷺ نے اس عورت پر حد جاری نہیں فرمائی باوجودیکہ وقوع زنا کی علامات موجود تھیں: تو اگر قرائن اور علامات حجت ہوتیں تو آپ ضرور بالضرور اس عورت پر حد رجم جاری فرماتے۔

جواب نمبر 1:
اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے جواز کےقائلین نےکہا ہےکہ پیغمبر ﷤ نے اس عورت پراس لئے حد جاری نہ فرمائی کہ اس کا جرم قرائن قطعیہ سے ثابت نہ ہوا تھا اور قرائن میں شبہ پیدا ہوگیا تھا۔ والحدود تدرا بالشبھات۔ اور حدود شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں۔

جواب نمبر 2:
فتح الباری میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہوا ہے کہ یہ واقعہ لعان کا ہے نہ کہ زنا کاری کا اور لعان کی صورت میں حد جاری نہیں ہوتی۔[28]

الزامی جواب نمبر 3 :
خود اسی حدیث میں صراحت ہے :لوكنت راجما احدا بغير بينة۔ کہ میں کسی پر بغیر بینۃ اور ثبت کےحد جاری نہیں کرتا۔ والقرآئن بينة اور قرائن تو بینۃ ہوتے ہیں یعنی قرائن تو قوی ثبوت ہوتے ہیں یہاں چونکہ قرائن موجود ہی نہیں ہیں تو حد جاری کیسے کی جاتی۔معلوم ہوا یہی حدیث تمہارے خلاف حجت ہے یہ حدیث ہمارے قول کی تائید کرتی ہے نہ کہ تمہارے قول کی۔

جواب نمبر 4:
چونکہ اس واقعہ میں قرائن ضعیفہ تھے اور قرائن ضعیفہ سے حد کا حکم ثابت نہیں ہوتا اس لئے حد جاری نہ کی گئی۔[29]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دلیل دوم:
قرائن کی بنیاد ظن و تخمین پر ہوتی ہے اورظن دلیل نہیں بن سکتا۔ ارشاد خداوندی ہے:
'' وَإِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا ﴿٢٨﴾''[30]
ترجمہ: او ربیشک گمان حق بات میں مفید نہیں ہوتا۔
اور ارشاد نبویﷺ ہے :
اياكم والظن فان الظن اكذب الحديث [31]
ترجمہ: اپنے آپ کو ظن و گمان سے بچاؤ کیونکہ ظن بڑا جھوٹ ہے۔
جواب نمبر 1 :
ظن کی دو قسمیں ہیں: (1) قوی (2) ضعیف جس ظن سے منع کیا گیا ہے وہ ظن ضعیف ہے۔

جواب نمبر 2:
ان الظن المنھي عنه وھو الظن في العقائد والعقيدة لاتثبت بالظن عن سوء الظن۔
ترجمہ: جس ظن سے منع کیا گیا ہے وہ عقائد میں ہے اور عقیدہ ظنی باتوں سے ثابت نہیں ہوتا۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:
ما لَهُم بِهِ مِن عِلمٍ إِلَّا اتِّباعَ الظَّنِّ ۚ (نساء: آيت ١٥7)
کہ ان کے پاس علم نہیں وہ صرف ظن اور گمان پر چلتے ہیں۔
نیز حدیث شریف میں جس ظن سے نہی وارد ہوئی ہے وہ بُرا ظن ہے یعنی کسی کے بارےمیں بدگمانی نہ کرو۔

جواب نمبر 3:
عز بن عبدالسلام فرماتے ہیں:
ان النھي في الاية ليس عن كل الظن وانما النھي عن بعضه۔
ترجمہ: آیت میں ہر ظن سے منع نہیں کیا گیا بلکہ بعض ان ظنوں سے منع کیا گیا ہے جن پر عقلاً و نقلاً عمل محال ہو۔[32]
راجح قول :
يبدو من عرض الادلة ترجيح ادلة القول الاول لصحتھا وقوتھا في اثبات مشروعية القرائن........... الخ۔
ترجمہ: ڈاکٹر مصطفیٰ الزحیلی فرماتے ہیں ۔ ان دونوں قولوں میں سے قول اوّل زیادہ راجح ہے قرائن کی مشروعیت و حجیت کےبارے میں اور قرائن وسائل اثبات میں سے ایک وسیلہ شرعیہ ہے فقہ کی کوئی کتاب اس سے خالی نہیں ہے اور نہ ہی کسی فقیہہ نے اس کو بعید سمجھا ہے اور اس پر تمام فقہاء کا اجماع ہے علامہ عز بن عبدالسلام فرماتے ہیں کہ قرائن صراحۃ النص کے قائم مقام ہوتے ہیں تخصیص عموم میں اور تقیید مطلق میں۔[33]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مشروعیت قرائن کی حکمت :

یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھئے کہ شریعت اسلامی نے جس قدر حقوق انسانی کی حفاظت کی اتنی کسی قانون میں نہیں ہے ہر اسراہ اور سوراخ کو بند کیا ہے جہاں سے ذرہ برابر بھی ظلم و تعدی کےداخل ہونے کا امکان تھا تو اب اگر ہم قرائن کے استنباط اور ان پر اعتماد کی اجازت نہ دیں تو پھر بہت سے ایسے حیلے تلاش کر لئے جائیں گے جن سے حقوق العباد کو غصب کیا جاسکے گا اور ظالم کو اپنی براءت کی راہ مل جائے گی۔
یہ بالکل حقیقت ہے کہ جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تو مدعیٰ علیہ حلف اٹھائے لیکن بعض اوقات مدعی کو پورا وثوق ہوتا ہے کہ یہ میرا حق ہے مگر وہ گواہ قائم کرنے سے عاجز ہوتا ہے یا گواہ مدعیٰ علیہ کے صاحب اثر شخصیت ہونے کی وجہ سے مرعوب ہرکوئی گواہی سے انکاری ہوجاتے ہیں اور مدعیٰ علیہ کے قلب سے خوف خدا نکل چکا ہوتا ہے تو وہ جھوٹی قسم کھانے پر تیار ہوجاتا ہےتاکہ اس مال کو ہڑپ کرسکے اور قرائن و علامات سے مدعیٰ علیہ کا کذب و دروغ واضح ہورہا ہوتا ہے تو اب قاضی و جج اسلام کے عادلانہ نظام و قانون کی موجودگی میں ظالم کو ظلم کرنے کی کیسے اجازت دے گا جبکہ وہ سمجھ چکا ہو کہ حق مدعیٰ کا ہے مدعیٰ علیہ صریح جھوٹا ہے اب اگر قاضی ظالم کی کذب بیانی پر اس کے حق میں فیصلہ فرما دیتا ہے تو روح اسلامی نکل جائے گی اور حقوق انسانی کبھی بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ ظالموں اور غاصبوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ بن جائے گا کہ جس کا مال چاہیں گے جھوٹی قسموں سے بٹورتے رہیں گے۔
آپ اگر قضاۃ کی تاریخ پر نظر ڈلیں تو حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اور قاضی شریح و ایاس و قاضی کعب بن سوار وغیرہ کے ایسے بہت سے فیصلے ملیں گے جو قرائن کی بنیاد پر کئے گئے ہیں۔ یہ تو اس خیرالقرون کے فیصلے ہیں جبکہ لوگوں کے اندر خوف خداوندی اور فکر آخرت پایا جاتاتھا اب جبکہ حالات بہت بدل چکے ہیں حُب مال وحُب جاہ انسان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے حرص و طمع و لالچ ہر انسان کی جبلت بن چکی ہے لوگ حلال و حرام جائز و ناجائز حق و باطل کی تمیز بالکل نہیں کرتے تو یہ کیسے باور کیا جائے گا کہ مدعی اورمدعی ٰ علیہ بالکل سچے ہیں لہٰذا ان سے حلف لے کر قطعی فیصلہ کردیا جائے نہیں نہیں بلکہ ایسے حالات میں جج پر لازمی ہوگا کہ واقعے کی مکمل چھان بین کرے اور حدود متنازعہ کا بچشم خود معائنہ کرے قرائن و علامات دیکھے اور اس کے بعد بغیر جانبداری کے حکم نافذ کرے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سُرخرو ہو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرائن کا حکم :

قرائن کا حکم مختلف ہوتا ہے ۔ جیسا قرینہ ہوگا ویسا حکم ہوگا۔ اگر قرینہ قوی ہے اور شارع نے اس پر نص وارد کی ہے تو قاضی پر اس کے مطابق حکم کرنا واجب ہوتا ہے

پہلی مثال:
مثلاً جب قاضی کے پاس کسی مرد اور عورت کے درمیان عقد زواج ثابت ہوجائے لیکن خاند بچے کی ولدیت سے انکار ہو تو قاضی وجج اس کی بات کو نہیں سنے گا بلکہ بچے کے ثبوت نسب کا فیصلہ کردے گا اور اس بچے کو اس کا وارث قرار دے گا۔ کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے۔
وان الولد للفراش واللعاھر الحجر ''یعنی بچہ صاحب بستر کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے۔''
اسی طرح اگر عورت انکاری ہے اور کہتی ہے بچہ زنا کا ہے تو اس کی بات بھی قبول نہ کی جائے گی اور نسب خاوند کا ہی ثابت رہے گا۔ کیونکہ غیر شرعی مخالطت سے حکم شرعی مرتب نہیں ہوتا بلکہ غیر شرعی مخالطت (زنا) کے مرتکب کو سزا دی جاتی ہے تو اس فیصلے میں قرینہ شرعیہ منصوصہ فراش صحیحہ ہے۔ اگر ہم فراش صحیحہ کوتسلیم نہ کریں تو ثبوت نسب کا دوسرا کوئی وسیلہ اور ذریعہ نہیں ہے۔ ہاں لعان کی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے اور لعان سے تو میاں بیوی کے درمیان تفریق ہوجاتی ہے۔''گئے تھے نماز بخشوانے اور روزے گلے پڑے'' والی مثال صادق آجائے گی کہ میاں بیوی کے درمیان تفریق بھی ہوجائے گی اور نفی ولد بھی ہوجائے گی لہٰذا وہی پہلی صورت زیادہ بہتر ہے کہ فراش صحیحہ کو قرینہ تسلیم کرکے ثبوت نسب کا فیصلہ کریں۔[34]

دوسری مثال:
ایک شخص کسی خالی گھر سے نکلا۔ اس کے ہاتھ میں چھری یا تلوار ہے اور وہ تلوار خون کےساتھ لت پت ہے جب اس گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا ایک شخص قتل شدہ پڑا ہے تو اب ان قرائن کے مطابق یہی فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کا قاتل یہی شخص ہے اور اس سے قصاص لیا جائے گا۔ اگرچہ وہ شخص حلف بھی اٹھا دے کہ میں قاتل نہیں ہوں تب بھی اسی کو قاتل گردانا جائے گا۔ یہ احناف کا قول ہے بعض دیگر فقہاء کہتے ہیں کہ اس صورت میں اہل محلہ پر قسامت یعنی دیت کا فیصلہ کیاجائے گا۔

تیسری مثال:
شادی کی رات ایک عورت کود کر دولہا کے بستر پر آئی اور اس عورت پر علامات دولہن بھی موجود ہیں تو یہ اس بات کا قرینہ ہوگا کہ وہ اس کی عورت (بیوی) ہے لہٰذا اس سے وطی جائز ہوگی۔ یہ تو تھیں قرائن شرعیہ و فقہیہ کی چند مثالیں:
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرائن قضائیہ کی مثالیں:

قرائن قضائیہ وہ ہوتے ہیں جن سے قاضی استنباط کرتاہے اور دونوں دعویداروں میں سے جو اس کے غالب گمان میں سچا اور صحیح ہوتا ہے اس کے حق میں فیصلہ صادر کرتا ہے بعض اوقات حلف لے کر اور بعض اوقات بغیر حلف کے۔ جب تک اس کے خلاف کوئی اقویٰ ثبوت موجود نہ ہو اس وقت تک انہیں قرائن قضائیہ کو ترجیح دی جائے گی۔

مثال نمبر 1:
بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ دو عورتیں حضرت داؤد ﷤ کے پاس اپنے بیٹے کا جھگڑا لے کر پیش ہوئیں انہوں نے اپنا واقعہ یوں سنایا کہ ہم دونوں نے اپنے اپنے بیٹیوں کو ایک جگہ پر لٹایا اور ہم کسی کام کے لئےدور چلی گئیں تو بھیڑیا آیا اور ایک لڑکے کو اٹھا کر لے گیا۔ اب ہمارا جھگڑا ہوا ہے کہ یہ کہتی ہے کہ تیرے بیٹے کو بھیڑیا لے گیا اور یہ میرا بیٹا ہے اور میں کہتی ہوں میرا لڑکا ہے آپ فیصلہ فرمائیے۔ حضرت داؤد﷤ نے دونوں کی باتیں سن کر بڑی کے حق میں فیصلہ کردیا تو پھر وہ وہاں سے حضرت سلیمان بن داؤد﷤ کے پاس فیصلہ لے گئیں اور ان کو اپنا قصہ سنایا۔ حضرت سلیمان﷤ نے فرمایا چُھری لاؤ میں تمہارے درمیان اس کو دو ٹکڑے کرکے تقسیم کردیتا ہوں تو چھوٹی نے کہا اے اللہ کے نبی آپ پر اللہ تعالیٰ رحم کرے آپ ایسا نہ کریں بلکہ یہ لڑکا اسی بڑی کو ہی دے دیں تو حضرت سلیمان﷤ نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ کردیا۔
وجہ دلالت :
امام نووی فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان ﷤ کا ارادہ بھی دو ٹکڑے کرنے کا نہ تھا بلکہ وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ان دونوں میں سے کس کو بچے پرشفقت آتی ہے تو جب دیکھا کہ بڑی اس کے دو لغت کرنے پرراضی ہوگئی ہے تو اس سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ اس کا دعویٰ جھوٹا ہے اور محبت بھی جھوٹی ہے اور چھوٹی کا اس کے دو ٹکڑے کرنے سے انکار اس کی دلیل ہے کہ وہ اس کی حقیقی ماں ہے اور ماں ہی ہمیشہ اپنے بچے پر اتنی مہربان ہوتی ہے تو اس کی یہ عاطفت اور محبت اس بات کا قرینہ اور علامت ہے کہ یہ بچہ چھوٹی کا ہی ہے تو سلیمان﷤ نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ کردیا۔
تو اس واقعہ میں حضرت سلیمان﷤ نے جب دیکھا کہ دونوں کے پاس گواہ نہیں ہیں تو آپ نے کسی سے حلف نہیں لیا بلکہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کیا۔ جس کی تائید خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی ۔ ارشاد خداوندی ہے :

'' فَفَهَّمنـٰها سُلَيمـٰنَ ۚ وَكُلًّا ءاتَينا حُكمًا وَعِلمًا ۚ ''[35] (الانبيا:٢١)
ہم نے اس کا صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا۔ ہاں ہر ایک کو ہم نے حکم وعلم دے رکھا تھا-

دوسری مثال :
دو آدمیوں نے ایک مکان میں جھگڑا کیا اورکسی کے پاس گواہ یا تحریری ثبوت نہیں ہے تو قاضی اس شخص کے حق میں فیصلہ کرے گا جس کا قبضہ ہے ، قبضہ باعتبار ظاہر کے ملک کا قرینہ ہوتا ہے۔

تیسری مثال :
حکام اور حکومت کے کارندوں کے پاس بہترین اورعمدہ محلات کا ہونا اور ان کے پاس دولت کا زیادہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے رشوت لی ہوگی یا بیت المال میں خیانت کی ہوگی تو جب تک وہ اپنی آمدنی کے ذرائع کا ثبوت پیش نہ کریں گے ان کی جملہ املاک بھی ضبط کرلی جائے گی اور ان کو معزول بھی کردیا جائے گا جیسے کہ سیدنا حضرت عمرؓ نے کیا۔[36]

خلاصہ :
خلاصہ یہ ہوا کہ قرائن قضائیہ کا درجہ ترجیحات اولیہ کا درجہ ہوتا ہے۔ اس کے خلاف اگر کوئی اقویٰ قرینہ یا راجح دلیل مل جائے تو وہ فیصلہ باطل ہوجاتا ہے کیونکہ قرائن احتیاطی وسیلہ ہیں قاضی قرائن کی طرف اسی وقت محتاج ہوتا ہے جب اس کے سامنے کوئی مضبوط دلائل اور راجح ثبوت پیش نہ کئے جائیں بلکہ بعض اوقات تو قرائن اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ دلیل شرعی کو بھی باطل کردیتے ہیں۔
1۔ مثلاً ایک شخص فقیر اور مفلس ہے اس کے پاس اپنے بچوں کی روٹی کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں وہ ایک شخص پر دعویٰ کردیتا ہے کہ میں نے اس کو دو لاکھ روپیہ قرض دیا ہے اور اس کے ثبوت میں وہ گواہ یاقسم پیش کردیتا ہے تو اس کا یہ دعویٰ قبول نہ کیا جائے گا۔ کیونکہ قرض دینے کے لئے تو دولت مند ہونا ضروری ہے تو اس کی حالت اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں کاذب ہے۔لہٰذا دعویٰ خارج کردیا جائے گا۔

2۔ کوئی شخص اپنے دعویٰ میں کسی قریبی رشتہ دار کو گواہ کے طور پر پیش کرتا ہے تو اس گواہی کورد کردیا جائے گا کیونکہ قرابت محبت کی علامت ہے تو اس گواہ پر تہمت آئے گی کہ اس نے محض رشتہ داری اور قرابت کی وجہ سے اپنے قریبی رشتہ دار کے حق میں گواہی دی ہے، اس لئے ایسے دعویٰ کو بھی خارج کردیا جائے گا۔ اس کی سماعت نہیں کی جائے گی تو آپ نے دیکھ لیا کہ ان صورتوں میں دلیل شرعی موجود ہونے کے باوجود قرائن کو ترجیح دی گئی ہے۔[37]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرائن کے ساتھ حدود کا اثبات :


تمام فقہاء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرائن کےساتھ حقوق مالیہ کا اثبات جائز ہے۔ لیکن حقوق غیر مالیہ میں اختلاف ہے۔

قول اوّل :
مالکیہ اور حنابلہ اوربعض امامیہ کا قول یہ ہے کہ حقوق غیر مالیہ یعنی حدود کو قرائن کےساتھ ثابت کرنا جائز ہے۔

دلیل :

واستدلوا في ذٰلك عليٰ اثر سيدنا عمر و ھوما رواه الجماعة الاالنسائي عن ابن عباس قال قال عمر بن الخطاب كان فيما انزل اله آية الرجم فقرانا ھا وعقلنا ھاووعينا ھا ورجم رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ورجمنا بعده فاخشيٰ ان طال بالناس زمان ان يقول قائل والله ما نجد الرجم في كتاب الله تعاليٰ فيضل فريضة انزلھا الله تعاليٰ والرجم في كتاب الله حق علي من زنا اذا احصن من الرجال والنسآء اذا قامت البينة اوكان الحبل اوالاعتراف۔[38]
ترجمہ: جو لوگ قرائن کے ساتھ حدود کے اثبات کے قائل ہیں وہ اپنی دلیل میں سیدنا عمرؓ کا قول پیش کرتے ہیں جس کو نسائی کے علاوہ سب محدثین نے نقل فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت رجم نازل فرمائی ہے اور ہم نے اسے پڑھا بھی ہے اورسمجھا بھی ہے اور یاد بھی کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی سنگسار کیاہے اور ہم نےبھی آپ کے بعد رجم کیا ہے تو اب مجھے خوف ہےکہ اگر لوگوں پر بہت زمانہ گزر گیا تو کوئی کہنے والا کہے گا کہ اللہ کی قسم ہم تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں رجم کی سزا کو نہیں پاتے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اس فریضہ کو ترک کی وجہ سے گمراہ ہوجائے گا؟ خبردار غور سے سن لو رجم (سنگسار) کرنا شادی شدہ زانی مرد اور عورت کو کتاب اللہ میں ثابت ہے جبکہ ان کے اس فعل پر گواہ قائم ہوجائیں یا حمل ثابت ہوجائے یا وہ دونوں جرم کا اعتراف کرلیں۔
وجہ دلالت :
حضرت عمرؓ نے حمل کو قرینہ تسلیم کیا ہے اور فرمایا ہے کہ غیر شادی شدہ حاملہ بالزنا عورت کو حد زنا جاری کی جائے اور شادی شدہ حاملہ بالزنا عورت کو سنگسار کیا جائے۔ تو معلوم ہوا قرائن کےساتھ حدود کا اثبات جائز ہے۔

دوسری دلیل :

وقال المالكية والحنابلة باثبات حد الخمر علي من وجد منه رائحة الخمر او ثبت عليه انه قاء الخمرفان الرائحة قرينة علي الشرب وان قئ الخمر دليل عليٰ شربھا......... الخ [39]
ترجمہ: مالکیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ جس شخص کے منہ سے شراب کی بدبو آئے یا اس نے قئ کی اور اس سے شراب نکلی تو اس پر حد خمر جاری کی جائے کیونکہ شراب کی بدبو آنا یا قئ کرنا شراب پینے کی دلیل اور قرینہ ہے۔

تیسری دلیل :
جس شخص پر چوری کا الزام لگایا گیا اور اس کے بعد اس کے گھر سے مال مسروقہ کا برآمد ہوگیا تو اس پر بھی حد سرقہ جاری کی جائے کیونکہ مال مسروقہ کا برآمد ہونا چوری کی بہت بڑی دلیل ہے بلکہ علامہ ابن القیم نے فرمایا ہے
انھا اقويٰ من البينة والاقرار[40]
کہ مال مسروقہ کا برآمد ہونا تو گواہوں اور اقرار سے بھی اہم قرینہ ہے
تو معلوم ہوا حدود کا اثبات قرائن سے جائز ہے۔

دوسرا قول :
احناف اور شوافع اور بعض حنابلہ کا قول یہ ہے کہ حدود کا اثبات قرائن کے ساتھ جائز نہیں ہے۔کیونکہ حدود شبہات کے ساتھ ساقط ہوجاتی ہے۔

دلیل نمبر 1 :
لما رُوي عن ابن ماجة الرسول صلي الله عليه وآله وسلم انه قال لو كنت راجما احدا بغير بينة لرجمت فلانة فقد ظھر منھا الريبة في منطقھا وھياتھا ومن دخل عليھا۔[41]
ترجمہ: ابن ماجہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اگر میں کسی کو بغیر گواہوں کے سنگسار کرتا تو فلانی عورت کو کرتا چونکہ اس کی گفتگو اور حالت او راس پر داخل ہونے والے شخص میں شک پیدا ہوگیا ہے۔ اس لئے میں رجم نہیں کرتا۔

دلیل نمبر 2:

اخرج الترمذي والحاكم والبيھقي ان رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم قال ادرؤو ا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فان وجدتم لمسلم مخرجا فخلوا سبيله فان الامام ان يخطئ في العفو خير من ان يخطئ في العقوبة۔ [42]
ترجمہ: جس قدر ہوسکے مسلمانوں پر حدود جاری کرنے سے بچو اگر کوئی راستہ اس کی رہائی کا نکلتا ہو تو اس کو رہا کردو کیونکہ حاکم کا معافی میں غلطی کرنا سزا میں غلطی کرنے سےبہتر ہے۔
وجہ دلالت :
اس حدیث شریف سےمعلوم ہوا کہ جب تک حدود میں کوئی قوی تر ثبوت نہ ملے محض قرائن و علامات سے حدود نافذ نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس شخص کو حد سے بچانا چاہیے۔
 
Top