• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قانون میں قرائن کی حجیت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرائن کے ساتھ حقوق مالیہ کا اثبات :

اس سے قبل بتایا جاچکا ہے کہ قرائن کےساتھ حقوق مالیہ کا اثبات جائز ہے اس پر جمہور فقہاء کا اتفاق ہے۔ حقوق مالیہ پھر دو قسم کے ہیں بعض وہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ اور بعض وہ ہیں جن کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے وہ حقوق مالیہ جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے دراصل ان میں بھی انسانوں کا اجتماعی فائدہ مضمر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت تو محض تکریم اور اہمیت بتانے کے لئے ہے جیسے زکوٰۃ اور صدقات واجبہ وغیرہ۔ وہ حقوق جن کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے وہ ہیں نفقہ زوجہ یا نفقہ والدین و اقارب وغیرہ یا وراثت اور ہبہ وغیرہ۔

اقوال فقہاء کرام :
اکثر فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کوئی قوی تر دلیل (یعنی گواہ اور اقرار) موجود نہ ہو تو حقوق مالیہ کا اثبات قرائن کے ساتھ جائز ہے مگر بعض فقہاء بعض صورتوں میں اختلاف کرتے ہیں۔ پہلے ہم آپ کے سامنے وہ مثالیں پیش کرتے ہیں جو متفق علیہ یں۔
مثال اوّل :
دو آدمی ایک سواری پر سوار ہیں، دونوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سواری میری ہے اس صورت میں فیصلہ اس شخص کے بارے میں کیا جائے گا جس کے ہاتھ میں لگام ہے کیونکہ اس کا قبضہ زیادہ قوی ہے بنسبت دوسرے شخص کے ۔[43]
مثال دوم :
ایک چیز دو شخصوں کے ہاتھ میں ہے اورکسی کے پاس گواہ نہیں ہیں تو وہ چیز دونوں کے درمیان نصف نصف تقسیم کی جائے گی کیونکہ اس میں دونوں کا قبضہ ہے اس پر نص شرعی بھی موجود ہے۔

عن ابي موسيٰ رضي اللهعنه ان رجلين اختصما في دابة وليس لواحد منھما بينة فقضيٰ بھا رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم بينھما نصفين۔[44]
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ دو شخص ایک جانور کا جھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ا ور ان کے پاس گواہ نہ تھے تو آپﷺ نے وہ جانور دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم فرما دیا۔
مثال سوم :
ایک اونٹ میں اختلاف ہوا اور اس پر سامان بھی لدا ہوا ہے تو سامان والے کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ اس کا قبضہ زیادہ قوی ہے۔[45]
مثال چہارم :
رکاز (مدفون خزانہ) ملا اگر اس پر علامات کفر ہیں اور اشارات جاہلیت جاری ہوگا یعنی اس میں سے خمس بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی چار حصے پانے والے کو ملیں گے اور اگر اس پر اسلامی علامات ہیں یعنی اس پر آیات قرآنیہ یا خلفاء راشدین یا مسلمانوں کے نام کندہ ہیں تو اس پر لُقطہ کا حکم جاری ہوگا کیونکہ ان علامات و قرائن کے اعتبار سے ہم یہی سمجھیں گے کہ یہ مال کسی مسلمان کا ہے جس نے اس کو دفن کیا ہے یا مال گم شدہ ہے۔[46]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لُقطہ کا حکم :

لُقطہ (گری پڑی چیز کے ملنے) کا حکم عندالاحناف یہ ہے کہ لُقطہ کا دو سال تک اعلان کیا جائے اگر اس کا مالک مل جائے تو اس کو دے دیا جائے ورنہ اگر پانے والا غنی ہے تو وہ بیت المال میں جمع کرایا جائے یا فقراء پر تقسیم کردیا جائے اور اگر پانے والا فقیر ہے تو اپنے تصرف میں لاسکتا ہے۔[47]
مثال پنجم :
مفقود (گمشدہ شخص)فالمفقود الذي غاب عن وطنه وانقطع خبره وجھل حاله فلم يعلم مكانه ولم تعرف حياته ولا وفاته فاذاجاء اولاده و زوجته يطالبون بحقوقھم منه فان القاضي يستند الي موت اقرانه و يجعلھا قرينة قاطعة علي وفاته فتعتد زوجته و توزع تركته۔[48]
ترجمہ: گمشدہ شخص جو اپنے وطن سے ایسا غائب ہوا کہ اس کی خبر ہی نہ چلے اور نہ ہی اس کی حالت کا علم ہو نہ اس کی جگہ معلوم ہو اور نہ زندہ ہونا اور مرنا معلوم ہو اور قاضی کے پاس اس کے بیوی بچے آئیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں تو اس صورت میں تمام فقہاء نے متفقہ فیصلہ یہ کیا ہے کہ قاضی اس کے ہم عمروں کو دیکھے اگر وہ مرچکے ہیں تو اس مفقود کے بارے میں بھی مرنے کا حکم صادر کرے اس عورت کو عدت کا حکم دے اور اس کا ترکہ تقسیم کردے۔لیکن فقہاء کرام کا وقت میں اختلاف ہے۔
فعند ابي حنيفة ھو وقت انقراض اقرانه جميعا وفي قول تسعون سنة وقضيٰ عمر رضي الله عنه بمضي اربع سنوات وھو راي عثمان و مذھب المالكية وعند احمد يكفي مضي المدة التي يعيش لمثلھا وقال الربيع تلميذ الشافعي لا تتزوج امراته حتي تتيقن مرته۔ [49]
ترجمہ: امام ابوحنیفہ کا ایک قول یہ ہے کہ جب اس کے سب ہم عمر ختم ہوجائیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ جب اس کی عمر نوے سال ہوجائے تو اس کی وفات کا فیصلہ کیا جائے گا لیکن حضرت عمرؓ حضرت عثمان غنیؓ اور مالکیہ کا مذہب یہ ہے کہ جب چار سال گزر جائیں تو اس کے مرنے کا حکم دیا جائے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس مفقود کی عمر کے لوگ جب مرجائیں یا حاکم اپنے اجتہاد سے مدت قائم کرے۔ امام شافعی کے شاگرد حضرت ربیع فرماتے ہیں کہ اس کی بیوی شادی اس وقت تک نہ کرے جب تک مکمل یقین نہ ہوجائے کہ وہ مرچکا ہوگا۔
وجہ دلالت :
اس صورت میں موت اقران (ہم عمروں کا مرنا) کو قرینہ بنایا گیا ہے اور موت مفقود کا حکم دیا گیا ہے موجودہ حالات میں مذہب مالکیہ پر فتویٰ دیا جاتا ہے یعنی چار سال گزرنے کے بعد وفات (موت) مفقود کا حکم دے کر اس کی بیوی کو عدت گزارنے کا حکم دیا جائے اور ترکہ تقسیم کردیا جائے۔
مثال ششم :
اتفق الفقھاء علي ان وجود شخص في دارالمسلمين قرينة عليٰ علمه باحكام الشريعة وانه مؤاخذبھا فان ادعي الجھل باحكام الشريعة فلا يقبل ادعاؤه اوعذره....... الخ[50]
ترجمہ:فقہاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کسی شخص کا اسلامی ممالک میں موجود اور ساکن ہونا قرینہ ہے اس با ت کا کہ وہ احکام شریعت سے واقف ہے۔ اگر وہ ان پر عمل نہ کرے تو اس پر مؤاخذہ ہوگا اگر وہ احکام شریعت سے عدم واقفیت کا دعویٰ کرے تو اس کا یہ دعویٰ اور عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ جدید قوانین میں بھی اسی پر عمل ہے عدالتیں قانون سے عدم واقفیت کے عذر کو قبول نہیں کرتیں۔ اگر کوئی شخص ملکی قانون کی خلاف ورزی کرے اور یوں کہے کہ مجھے علم نہیں تھا تب بھی اس کو مجرم قرار دے دیا جاتا ہے اس لئے کہ اگر عدم واقفیت کے عذر کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہر مجرم یہی عذر پیش کرکے بری ہوجائے گا۔
مثال ہفتم :
واذا وجد ميت في دارالاسلام يغسل و يكفن و يصلي عليه و يدفن في مقابر المسلمين........... الخ
ترجمہ : جب کوئی لاوارث میّت دارالاسلام میں ملے تو اسے غسل اور کفن دیا جائے گا اور نماز جنازہ پڑھ کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ ہاں اگر اس کے گلے میں زنار ہو یا وہ غیر مختون (ناختنہ شدہ) ہو تو اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا اور نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں بھی دفن نہیں کیا جائے گا۔[51]
مثال ہشتم :
ایک دیوار میں دو شخصوں کا جھگڑا ہوا اورکسی کے پاس گواہ بھی نہیں ہیں تو جس کی عمارت اس دیوار سے متصل ہے یا کڑیاں اور شاہتیر اس پر رکھے ہوئے ہیں تو اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ عرف عام میں یہی رواج ہے اور اگر دونوں کی عمارت متصل ہے یا کڑیاں وغیرہ رکھے ہوئے ہیں تو پھر دونوں کے درمیان نصف نصف کی جائے گی۔ بہرحال جیسے وہاں کے لوگوں میں عادت ہے عرف عام کی وجہ سے اسی طرح کا حکم ہوگا۔لان المعروف عرفا كالمشروط شرطا۔ کیونکہ جو عرفاً مشہور ہے وہ مشروط کے قائم مقام ہوتا ہے۔
مثال نہم :
مشتری کسی سامان کا بھاؤ طے کرتا ہے یا کوئی شخص دوسرے شخص کے ساتھ زمین مزارعت پر حاصل کرتا ہے لیکن بعد میں وہ شخص اس سامان یا زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ دعویٰ قبول نہ کیا جائے گا کیونکہ بھاؤ طے کرنا اور مزارعت قرینہ ہے غیر کی ملکیت کا۔ کیونکہ اگر وہ مالک ہوتا تو غیر سے ملکیت کا دعویٰ کرتا سودے بازی اور مزارعت کیوں کرتا۔
مثال دہم :
ایک شخص اپنا سامان بیچنے کے لئے کسی کو وکیل بنایا ہے تو وکیل کو اس کی قیمت قبض کرنے کا بھی اختیار حاصل ہوگا کیونکہ عرفاً قیمت وصول کرنا بھی اسی کے ذمہ ہوتا ہے جو سامان بیچتا ہے۔ تلك عشرة كاملة۔[52]
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرائن مختلف فیہ کی مثالیں:

اب ہم آپ کے سامنے قرائن کی چند ایسی مثالیں تحریر کرتے ہیں جن میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے۔
مثال اوّل :
قال الحنفية بوجوب كامل المھر بالخلوة فاذاخلا الرجل بامراته وارخي السترثم طلق يحكم عليه بالصداق وان كان منكرا للوطي........ الخ۔ [53]
ترجمہ: احناف کے نزدیک جب مرد اپنی بیوی سے خلوت کرے اور پردہ ڈال دے پھر اس کو طلاق دے دے تو اس پر مکمل حق مہر کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اگرچہ وہ وطی سے انکاری ہو کیونکہ شب عروس میں مرد کو خلوت ملے اور وہ بیوی سے اتصال نہ کرے یہ عرف اور عادت کے خلاف ہے۔ اس مسئلے میں مالکیہ بھی احناف کے مطابق فیصلہ دیتے ہیں۔ بقیہ ائمہ کا اس میں اختلاف ہے وہ کہتے ہیں جب تک وطی نہ کرے حق مہر واجب نہیں ہوتا۔
مثال دوم :
بيع بالتعاطي (یعنی۔ بالفعل عقد کرنا) اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص قیمت دے دیتا ہے اور دوسرا سامان دے دیتا ہے لیکن زبان سے ایجاب و قبول نہیں کرتے تو یہ بیع منعقد ہوجائے گی۔ کیونکہ مشتری کا مقررہ قیمت دے دینا اور بائع (دوکاندار) کا سامان سپرد کردینا ایجاب و قبول کے قائم مقام ہے اور رضا کی علامت ہے اس میں مالکیہ اور حنابلہ صحت معاملہ کےقائل ہیں لیکن احناف کہتے ہیں اگر مال قلیل اور حقیر (ادنیٰ) ہے تو بیع منعقد ہوجائے گی اور اگر مال کثیر یا مہنگا ہے تو بیع منعقد نہ ہوگی۔ بلکہ زبان کے ساتھ ایجاب و قبول ضروری ہوگا۔ اور شوافع اور شیعہ بیع بالتعاطی کے عدم جواز کے قائل ہیں۔[54]
مثال سوم:
ایک شخص خاموشی کے ساتھ اپنا مال یا کوئی چیز دوسرے کے پاس رکھ دیتا ہے اور دوسرا بھی منع نہیں کرتا اور خاموشی کے ساتھ اپنے پاس رکھ لیتا ہے تو یہ ودیعت (امانت) کی صورت بن جائے گی وہ چیز دوسرے کے پاس امانت سمجھی جائے گی اگرچہ زبان کے ساتھ انہوں نے امانت کے الفاظ نہیں کہے کیونکہ سکوت رضا کا قرینہ ہوتا ہے۔ اب اگر وہ چیز از خود ضائع ہوگئی تو اس پر تاوان نہیں آئے گا یہ احناف کا مسلک ہے دوسرے ائمہ کہتے ہیں کہ تاوان آئے گا۔[55]
مثال چہارم :
وقال الحنفية ان قبض الھبة والصدقة بحضرة المالك مع السكوت يعتبر اذنا بالقبض كما ان سكوت البكر اوضحكھا قرينة علي الرضاء۔[56]
ترجمہ: احناف کہتے ہیں کہ مالک کی موجودگی میں صدقہ یا ہبہ کا قبول کرنا مالک کی طرف سے اجازت تصور ہوگا جیسے کہ کنواری لڑکی کا خاموش رہنا یا ہنسنا رضا کا قرینہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ چیز جس کو صدقہ دی گئی وہ مالک بن جائے گا۔
مثال پنجم :
وقبول التھنيئة في ولادة المولود ايام التھنيئة قرينة عليٰ ثبوت النسب ۔[57]
بچے کی ولادت پر مبارکبادی قبول کرنا ثبوت نسب کا قرینہ ہے یعنی وہ بچہ اسی کا متصور ہوگا۔ بعد میں اگر وہ انکار کرتا ہے تو وہ انکار قابل قبول نہ ہوگا۔
مثال ششم :
و عملوا بالقرائن في السفينة المحملة بالدقيق اذا تنازع فيھا ملاح و تاجر دقيق فالسفينة للملاح والدقيق للتاجر۔[58]
ترجمہ: ایک کشتی آٹے سے لدی ہوئی ہے اس میں ملاح اور تاجر کا تنازع ہوا تو کشی کا فیصلہ ملاح کے حق میں کیا جائے گا اور آٹے کا فیصلہ تاجر کے حق میں کیونکہ قرائن کا تقاضا یہی ہے کہ کشی ملاح کی ہوگی اور آٹا تاجر کا ۔ یہ چند مثالیں ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں جن سے معلوم ہوا کہ قرائن پر عمل کرنا جائز ہے اور تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ قرائن حجت ہیں اور قرائن کے ساتھ اثبات حق مشروع ہے۔

موجودہ دور :
آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے جس قدر ترقی کی ہے اس سے قرائن میں بہت سی چیزوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ پوسٹ مارٹم، ہاتھ کے نشانات۔ تحریر کی شناخت۔ فوٹو سٹیٹ۔ کیمیکل ایگزامی نیشن۔ فارنیز کی جانچ پڑتال۔ کیمرے۔ ٹیلی سکو پ۔ ایکسرے اور کئی دوسری چیزیں اثبات یا ردّ دعویٰ میں مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔
خلاصہ :

بہر حال ثبوت دعویٰ کا یہ طریق کبھی تو نامکمل اور ناقابل یقین ہوتا ہے اورکبھی مکمل اور پورا ذریعہ ثبوت ہوتا ہے لہٰذا اس پر انحصار کرنے میں مکمل احتیاط لازمی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات



[1] ۔ وسائل الاثبات، ص488
[2] ۔ وسائل الاثبات ، ص 489
[3] ۔ حجیت القرآئن، ص8
[4] ۔التعریفات للجرجانی، ص117
[5] ۔ وسائل الاثبات ، ص489
[6] ۔ وسائل الاثبات، ص490
[7] ۔ المدخل الفقہی العام، ج2 ص275، وسائل ج1 ص490
[8] ۔ احکام الشریعہ ص 309 ،وسائل الاثبات 491
[9] ۔ وسائل الاثبات ، ص491
[10] ۔ وسائل الاثبات ، ص495
[11] ۔نفحۃ العرب ، ص240
[12] ۔ تبصرۃ الحکام، ج1 ص202 ، الطرق الحکمیہ ص 97 معین الحکام ص161 وسائل الاثبات ص501۔
[13] ۔ تکملہ رد المختار ج7 ص437 البحرالرائق ج7 ص205
[14] ۔وسائل الاثبات، ص502
[15] ۔تفسیر قرطبی ، ج9 ص 3163
[16] ۔سورۃ یوسف آیت 26۔ 28
[17] ۔ تفسیر ابن کثیر، ج2 ص470، تفسیر الطبری ج13 ص195
[18] ۔ کتاب الاحکام للآمدی، ج3 ص190
[19] ۔سورۃ النحل آیت :16
[20] ۔ وسائل الاثبات ، ص503
[21] ۔بخاری ج3 ص163، مسلم ج1 ص209، ترمذی ج2 ص240
[22] ۔ ابوداؤد ج2 ص278، سنن نسائی ص218
[23] ۔ ایضاً: وسائل الاثبات ص508
[24] ۔ تحفۃ الاحوذی ج4 ص366
[25] ۔ مسلم ج1 ص27، نسائی ص102
[26] ۔وسائل الاثبات ص509
[27] ۔ ابن ماجہ ج2 ص855، نیل الاوطار ج 7 ص109
[28] ۔ فتح الباری ج12 ص28
[29] ۔ الاصول القضائیہ ص275
[30] ۔سورۃ النجم الایہ 28
[31] ۔ بخاری ج3 ص42، مسلم ج1 ص118
[32] ۔ وسائل الاثبات ص511، قواعد الاحکام ص66
[33] ۔ وسائل الاثبات ص512
[34] ۔ وسائل الاثبات ص516
[35] ۔ بخاری ج2 ص163، مسلم شرح نووی ج2 ص18
[36] ۔ وسائل الاثبات ص518
[37] ۔وسائل الاثبات ص519
[38] ۔بخاری ج3 ص121، ابوداؤد ج3 ص457، نیل الاوطار ج7 ص111، تحفۃ الاحوذی ج4 ص700
[39] ۔ نیل الاوطار ،ج7 ص146: نووی ج2 ص216
[40] ۔ اعلام الموقعین ج2 ص9 المختصر الناس ص 302، وسائل الثبوت ص529
[41] ۔ تحفۃ الاحوذی ج4 ص688۔ المستدرک ج4 ص383
[42] ۔ قواعد الاحکام ج2 ص141۔ بدائع الصنائع ج6 ص255۔ البحر الذخار، ج3 ص392
[43] ۔قواعد الاحکام ج2 ص141۔ بدائع الصنائع ج6 ص255۔ البحر الذخار، ج3 ص392
[44] ۔ معالم السنن ج5 ص231
[45] ۔ بدائع الصنائع ج6 ص256
[46] ۔ معین الحکام ص162۔ الطرق الحکمیہ ص214
[47] ۔ معین الحکام ص162۔ الطرق الحکمیہ
[48] ۔ وسائل الاثبات ص535
[49] ۔ وسائل الاثبات ، ص535
[50] ۔ قواعد الاحکام ج2 ص50
[51] ۔ قواعد الاحکام ج2 ص50
[52] ۔ وسائل الاثبات ص 536
[53] ۔ تبصرۃ الحکام ج1 ص211 ۔ درر الحکام ج1 ص342۔ وسائل الاثبات ص538
[54] ۔ المجموع النووی ج9 ص172
[55] ۔المدخل الفقہی ج1 ص322۔ وسائل 538
[56] ۔ رد المحتار ج5 ص565
[57] ۔ ایضاً
[58] ۔ ایضاً
 
Top