• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبضہ سے پہلے سامان بیچنے سے متعلق سوالات

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کسی مال کو اس وقت تک بیچ نہیں سکتے جب تک کہ وہ ہاتھ میں نہ آجائے ،اس حدیث کی روشنی میں میرے کچھ سوالا ت ہیں جن کا جواب درکار ہے ۔
(1) جو لوگ فلیٹ، بنگلے اور ٹاورز کی تعمیر اتی تجارت میں لگے ہیں وہ لوگ صرف اس کا پلان دکھاکر ہی لوگوں کو بیچ دیتے ہیں اور پھر ان کے پیسوں سے مکان تعمیر کرتے ہیں ۔
(2) جو پرائیویٹ ٹور والے حج پہ لوگوں کو لے جاتے ہیں وہ ایک سال پہلے کی اڈوانس بکنگ بھی لیتے ہیں ، ابھی 2017 میں 2018 کی اڈوانس بکنگ چالو ہے جبکہ ابھی تک 2018 کے حج کا نہ سعودی گورنمنٹ نے گوٹہ ایشو کیا ہے ،نہ ہی ویزا ایشو کیا ہے ،پھر یہ لوگ کیسے اڈوانس بکنگ کرسکتے ہیں ؟
(3) بعض مدارس والے اجتماعی قربانی کا انتظام کرتے ہیں اور لوگوں سے حصہ کا پیسہ وصول کرتے ہیں ،اس کے بعد جانور خریدتے ہیں یعنی جانور پیسہ ملنے کے بعد خریدا جاتا ہے ۔جب جانور ابھی خریدا ہی نہیں گیا تو اس کے حصے کا پیسہ پہلے سے کیسے جمع کرسکتے ہیں؟
سائل : قمرخان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ بات صحیح ہے کہ نبی ﷺ نے اس چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جس پر قبضہ نہیں ہوا ہو ۔ اس سلسلے میں متعد احادیث وارد ہیں ۔

ابن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ:
نَهَى النبيُّ صلّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أنْ يُبَاعَ الطعامُ حيثُ اشْتَرَاهُ حتى يستَوْفِيَهُ .(صحيح البخاري:2123)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری طرح اپنے قبضہ میں کرنے سے پہلے اسے بیچنے سے منع فرمایاہے۔

ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
منِ ابتاع طعامًا فلا يبعْه حتى يستوفيَهُ (صحيح البخاري:2136)
ترجمہ: جو شخص بھی جب غلہ خریدے تو جب تک اسے پوری طرح قبضہ میں نہ لےلے ،نہ بیچے ۔

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لاَ تبع ما ليسَ عندَكَ.(صحيح الترمذي:1232)
ترجمہ: جو تیرے پاس نہیں ہے وہ مت بیچ ۔

ابن عمر رضی اللہ عنما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
كنا في زمانِ الرسولِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ نبتاعُ الطعامَ . فيَبعثُ علينا من يأمرُنا بانتقالِه من المكانِ الذي ابتعْناه فيه إلى مكانٍ سواه . قبل أن نبيعَه .(صحيح مسلم:1527)
ترجمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غلہ خریدتے تھے، تو آپ ہمارے پاس ( کسی شخص کو ) بھیجتے جو ہمیں اس غلے کو اپنے گھروں ميں منتقل کرنے سے پہلے فروخت کرنے سے منع کرتے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں :
لقَدْ رأيتُ الناسَ في عهدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يبْتَاعُونَ جُزَافًا ، يعنِي الطعامَ ، يُضْرَبُونَ أنْ يَبِيعُوهُ في مَكَانِهِم ، حتى يُؤْوُوهُ إلى رِحَالِهِمْ .(صحيح البخاري:2137)
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دیکھا کہ لوگوں کو اس پر تنبیہ کی جاتی جب وہ غلہ کا ڈھیر خرید کر کے اپنے ٹھکانے پر لانے سے پہلے ہی اس کو بیچ ڈالتے۔ یعنی غلہ تو اس بات پر انہیں سزا دی جاتی تھی کہ وہ اس کو اپنے ٹھکانے پر لانے سے پہلے اس کو بیچ ڈالیں۔
یہ ساری احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو سامان ابھی قبضے میں نہیں آیا ہے اس کوکسی دوسرے سے نہیں بیچ سکتے ہیں ۔
ان احادیث کی روشنی میں آپ کے تینوں سوالوں کے جواب مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) جو لوگ فلیٹ اور عمارت وغیرہ صرف پلان دکھاکر اسے بیچ دیتے ہیں اور پھر ان پیسوں سے مکان بناتے ہیں ۔ یہ صورت جائز ہے اور اوپر بیان کردہ ممانعت والی حدیث سے مستثنی ہے ۔ اسلامی تجارت کی ایک قسم ،بیع سلم ہے جو آج کل بعض اسلامی بنکوں میں بھی رائج ہے جس میں قیمت تو پہلے ادا کردی جاتی ہے مگر سامان بعد میں فراہم کیا جاتا ہے ۔ اسے بیع سلم یا بیع سلف کہتے ہیں ۔ عمارتوں کے پلان دکھاکر پہلے رقم وصول کرلینا اور مقرر میعاد پہ مطلوبہ صفات کی عمارت فراہم کرنا بھی بیع سلم کے قبیل سے ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
إنا كنا نُسلِفُ على عهدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم وأبي بكرٍ وعُمَرَ : في الحِنطَةِ والشعيرِ والزَّبيبِ والتمرِ . (صحيح البخاري:2242)
ترجمہ: ہم رسول اللہ ﷺ ، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ کے دور میں گندم ،جو ،کھجور اور منقیٰ میں بیع سلم کرتے تھے۔
قرآن کی اس آیت : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ۔(البقرۃ : 282)(اے ایمان والو!جب تم آپس میں مقررہ وقت تک اُدھار کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو) کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے ۔
قال ابنُ عبَّاسٍ : أشهَدُ أنَّ السَّلفَ المضمونَ إلى أجلٍ مُسمًّى قد أحلَّهُ اللَّهُ في كتابِهِ وأذِنَ فيهِ ، ثمَّ قرأَ : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ( إرواء الغليل:1369)
ترجمہ: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ مقررہ مدت تک ضمانت دی گئی سلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب جائز قرار دیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے۔ پھر اُنہوں نے قرآن حکیم کی یہ آیت تلاوت فرمائی ، ترجمہ ۔اے ایمان والو!جب تم آپس میں مقررہ وقت تک اُدھار کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔
اس بیع میں بھی اسلامی بیع کی تمام شرطیں ملحوظ رکھنی ہوگی نیز بیع سلم کی کچھ خاص شرطیں بھی ہیں جن کی عدم رعایت سے بیع سلم فاسد ہوجائے گی ۔
٭ جس سامان کے متعلق بیع سلم کیا جارہاہے اس کے اوصاف، اس کی مقداراور اس کی مالیت طرفین کے نزدیک پہلے طے ہوجائیں ۔
٭ جو سامان بیچا رہاہے وہ ایسی تجارت سے متعلق نہ ہو جس پر فوری ملکیت کی شرط ہے مثلا سونا بسونا، چاندی بچاندی
٭ جس وقت معاہدہ کیا جائے اسی وقت فورا سامان کی مکمل قیمت ادا کردی جائے ورنہ ادھار کی بیع ادھار سے جائز نہیں ہوگی۔
٭ سامان کی حوالگی کی مدت بالکل واضح ہو ورنہ بیع فاسد ہوجائے گی اور حوالگی کی جس مدت پہ فریقین کا اتفاق ہوجائے جائز ہے ۔
٭ اسی طرح سامان خرید نے والا بطور ضمانت فروخت کنندہ سے رہن کا مطالبہ کرسکتا ہے ۔
ان شرطوں اور اوصاف کی روشنی میں بیع سلم بننے والی چیزوں میں آدمی کسی چیز کی قیمت پہلے لے سکتا جس کی حوالگی بعد میں ہوالبتہ خریدار اس وقت تک نہیں بیچ سکتا ہے جب تک سامان پر قبضہ نہ ہوجائے کیونکہ پہلے ہی ایک بیع ہوچکی ہے جس کی قیمت خریدار نے ادا کردی ہے اور فروخت کنندہ کی طرف سے سامان کی حوالگی باقی ہے لہذا خریدار سامان پہ قبضہ کرنے کے بعد ہی کسی دوسرے سے بیچ سکتا ہے۔
(2) ٹورس والوں کو حج کے اخراجات معلوم ہوتے ہیں مثلا حج کے موسم میں ٹکٹ ، ویزہ فیس اور دیگر امور اس لحاظ سے سارا پیسہ جوڑ کر وہ پہلے سے بکنگ کرتے ہیں تو یہ معلوم شی ہے ، اس میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے ٹراولس والے کچھ زیادہ ہی رقم وصول کرتے ہیں تاکہ انہیں نقصان نہ اٹھانا پڑے ۔ رہا حج کا کوٹہ اور ویزے کا ایشو تو ہرملک کے لئے حج کا کوٹہ مخصوص ہے شاید ٹورس والے اپنے ملک کی حج کمیٹی یا کسی دوسرے ذریعہ سے کچھ کوٹہ پہلے سے طے کررکھا ہو اس کی بنیاد پر اڈوانس بکنگ کرتے ہیں ۔اگر اس کام میں فراڈ نہ ہو تو میرے خیال سے اس میں حرج نہیں ۔
(3) مدارس والوں کا اجتماعی قربانی کرنا بھی ایک طرح سے طے شدہ معاملہ ہے ۔ منڈیوں میں جانوروں کی قیمت متعین ہوتی ہے ، آپ کسی منڈی سے ایک ہی مرتبہ بات کرسکتے ہیں کہ مجھے اتنے قیمت کا سو جانور چاہئے وہ آپ کو فراہم کردے گا ۔ اس بنیاد پر آپ جانور وں کی خرید سے پہلے ہی لوگوں سے ان کے حصے کی رقم وصول کرسکتے ہیں بشرطیکہ پہلے کسی منڈی سے جانور کی فراہمی کے لئے معاہدہ کرلیا گیا ہوورنہ منڈیوں میں قیمت کا فرق ہونے یا قلت جانور کی وجہ سے جو رقم لوگوں سے لی گئی تھی اس میں فرق پڑجائے گا۔

واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی​
 
Top