• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبول حدیث میں عقل اور مشاہدہ کا مقام !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10418373_729736953748387_8803986845212569815_n.jpg




منکر حدیث کی زبان پر احادیث کو پرکھنے کے لئے چند معیارات ہوتے ہے ان میں سے ایک یہ کہ حدیث حقائق ، عقل اور مشاھدہ پر پورا اترنی چاھئے ورنہ حدیث قابل رد ہوں گی مگر سوال یہ ہے کہ آیا ان معیارات پر قرآن بھی پورا اترتا ہے یا نہیں اگر نہیں اترتا تو کیا ان معیارات سے کوئی قرآن کی ایت کو بھی رد کر دینگا اگر نہیں تو وہی معیارات کافی شافی ہے جو محدثین رحمھم اللہ نے قائم کئے ورنہ ان معیارات کو لے کر حدیث پر تبراء کرنا سرا سر نا انصافی ہے۔ ان معیارات کا جائزہ اگلے سطور میں ملاحظہ کی جئے ۔

حقائق کو نیہ کے خلاف ہونا

ان حضرات کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث حقائق کونیہ کے خلاف ہوگی، وہ موضوع ہوگی، اس سلسلہ میں چند آیات قرآنی پیش کر رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{ یَا نَارُکُوْنِی بَرْدًا وَسَلَاماً عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ } (الانبیاء)

اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا، اور سلامتی والی بن جا۔


آگ کا کام جلانا ہے، اس کی خصوصیت گرم ہونا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کونیہ کے خلاف ٹھنڈی ہو، اور جلائے نہیں، لہٰذا یہ آیت معیار پر پوری نہیں اترتی۔

{ اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ } (الطلاق)

اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور ان ہی کے مثل (سات) زمینیں۔


چونکہ زمین صرف ایک ہے اور یہ ایک کرہ ہے جو سورج کے گرد گردش کرتا ہے، لہٰذا سات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


{ ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنٰہَا ۔ رَفَعَ سَمْکَہَا فَسَوّٰہَا۔ وَاَغْطَشَ لَیْلَہَا وَاَخْرَجَ ضُحٰہَا } (النازعات{خَلَق سَبْعَ سَمٰوَاتٍ طِبَاقًا } (ملک)

اللہ نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔

بلحاظ جدید سائنس آسمان کوئی چیز نہیں، محض حد نگاہ ہے، لہٰذا اس کا سات ہونا، کیا معنی رکھتا ہے۔

{ وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ } (الصافات)

اور ستاروں کو سرکش شیاطین سے بچاؤ کا سبب بنایا۔


کیا جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے:

موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا:

{ اٰتِنَا غَدَاءَنَا } (الکھف)

ہمارا ناشتہ لاؤ


ان کے ساتھی نے جواب دیا:

{ وَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِیْ الْبَحْرِ عَجَبًا } (الکھف)

بڑا عجیب و غریب واقعہ ہوا کہ وہ بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی۔


{ وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ }(البقرۃ)

اور بعض پتھر ایسے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔


کیا پتھروں میں احساس ہوتا ہے، کیا پتھر کا ڈرنا حقیقت کونیہ ہے؟

نتیجہ

اب اگر معیار کو صحیح مانیں تو بڑی مشکل ہوتی ہے کہ قرآنی آیات مشکوک ٹھہرتی ہیں، لہٰذا یہ معیار ہی غلط ہے، اگر آیات کی تاویل کی جائے تو پھر یہی چیز حدیث کے سلسلہ میں بھی قابل عمل ہونی چاہیے، خواہ مخواہ فرضی معیاروں پر کسنا نامناسب ہے۔

عقل، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف

آپ کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث عقل تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو، وہ موضوع ہوگی، اس سلسلہ میں چند آیات بینات ملاحظہ ہوں:

{ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ } (النمل)

اس شخص نے جس کو کتاب کا کچھ علم تھا، کہا کہ میں ملکہ سبا کا تخت اتنی دیر میں لا دوں گا، جتنی دیر میں آپ کی نگاہ واپس آئے اور اتنی دیر میں وہ آگیا، تو اس کو اپنے پاس دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا یہ میرے رب کا فضل ہے۔


یہ عقل و تجربہ کے خلاف ہے کہ پلک جھپکنے میں ہزاروں میل دور سے ایک وزنی چیز منتقل ہو جائے گویا یہ آیت بھی مجوزہ معیار پر پوری نہیں اترتی، اب اس کے متعلق کیا کہا جائے۔

{ وَ اِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْٓ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللہَ } (الانفال)

جب شیطان نے کافروں کے اعمال ان کو مزین کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، اور میں تمہارا ساتھی ہوں، دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہو ئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوگیا، اور کہا میں تم سے بیزار ہوں، میں وہ چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔


شیطان کا سامنے آنا، اور بات کرنا ، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہے، پھر اس کا اللہ سے ڈرنا بھی حیرت انگیز ہے، اس کو تو قیامت تک کے لیے ازروئے قرآن مہلت دے دی گئی ہے لہٰذا اس کا خوف الٰہی سے ڈر کر بھاگنا خلاف عقل ہے اور کافروں سے اس کا بیزار ہونا بھی خلاف عقل ہے، اس کے اصلی دوست تو کافر ہی ہوتے ہیں۔

{ وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَ اَشْھَدَھُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْن} (الاعراف)

اور جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا، اور ان سے ان پر گواہی طلب کی کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، سب نے کہا کیوں نہیں بے شک تو ہمارا رب ہے، ہم گواہ ہیں، یہ اس لیے کیا کہ کہیں روز قیامت تم یہ نہ کہہ دو کہ ہم تم اپنے رب سے غافل تھے۔


یہ بالکل خلاف عقل ہے کہ پیدائش سے پہلے اقرار کرلیا، اس اقرار سے کیا فائدہ؟ یہ اقرار کس کو یاد ہے، پھر یہ بھی خلاف عقل ہے کہ اولاد آدم جو ابھی وجود میں نہیں آئی تھی ان کی پیٹھیں کہاں سے آگئیں، کہ ان کی پیٹھوں سے تمام اولاد کو نکال لیا۔

{ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ } (الانفال)

اور اگر تم دیکھو جس وقت فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں، اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جلنے کا مزہ چکھو۔


یہ آیت بھی مشاہدہ کے خلاف ہے، نہ کبھی یہ آواز سنائی دیتی ہیں، نہ فرشتے دکھائی دیتے ہیں، اگر وہ مارتے تو کیا آواز نہیں آتی، مارا جائے اور آواز نہ ہو، یہ خلاف عقل و تجربہ ہے۔

نتیجہ

یہ قرآنی آیات ہیں، جو اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار غلط ہے نہ کہ قرآنی آیات ہماری عقل اور ہمارا تجربہ حقیقت میں کوئی چیز نہیں، جو شخص جانتا ہے، وہ جانتا ہے، اور جو نہیں جانتا، اس کی سمجھ میں اس جاننے والے کی بات نہیں آسکتی، بذریعہ لاسلکی جوہزاروں میل کی بات ہم سن لیتے ہیں، کیا ہمارے اجداد کی عقل میں یہ بات آسکتی تھی، کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے اور آج بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں، جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں، مثلاً پانی کے ایک قطرہ میں کروڑوں جراثیم کا ہونا یہ عقل میں آنے والی بات نہیں، نہ اس کا ہم نے کبھی مشاہدہ کیا، لہٰذا یہ عقل کے بھی خلاف ہے اور مشاہدہ کے بھی خلاف ہے، محض چند فضلا پر اعتبار کرکے ہم یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی ایسا ہوگا اور جب فضلاء کے علم و فضل پر اعتبار کرکے ہم ان کی خلاف عقل و مشاہدہ عجیب و غریب بات تسلیم کرلیتے ہیں، تو پھر اس رسول کی کوئی بات، جس رسول پر ہم ایمان لاتے ہیں، اگر ہماری عقل و تجربہ کے خلاف ہو، تو کیوں نہ تسلیم کریں، ہوسکتا ہے کہ ہماری عقل کی رسائی وہاں تک نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ ہم مشاہدہ کر ہی نہ سکتے ہوں، ہوسکتا ہے کہ ہمارا تجربہ غلط ہو، لہٰذا صرف ان باتوں کی بنا پر حدیث کی یا رسول کی تکذیب نہیں کرسکتے، نہ پانی کے ایک قطرہ میں لا تعداد جراثیم کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے نہ ہماری عقل میں آتا ہے، لیکن پھر بھی ہم اسے صحیح تسلیم کرتے ہیں، یہ بھی ایک قسم کا ایمان بالغیب ہے، اور جب کسی حکیم یا سائنسدان کی بات پر ایمان بالغیب ہوسکتا ہے، تو پھر رسول کی بات پر ایمان بالغیب کیوں نہ لایا جائے، کیوں اس کی بات کو عقل و تجربہ کی میزان میں رکھ کر تولنے لگیں، کیا یہ انصاف ہے؟ رسول پر ایمان بالغیب ہی ذریعہ ہدایت و نجات ہے، اور یہی اللہ تعالیٰ کا ہم سے مطالبہ ہے،

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

{ ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ } (البقرۃ)

اللہ کی کتاب متقی لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت و نجات ہے، اور یہ وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

اب سنیے مشاہدہ کی بات ہم ریل میں سفر کرتے ہیں، تو نزدیک کی چیزیں ایسی معلوم ہوتی ہیں گویا ہماری مخالف سمت میں بھاگ رہی ہیں، یہ نظر کا دھوکہ ہے، پھر دور کی چیزیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری ہی سمت جا رہی ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ بھی ہماری مخالف سمت میں ہی جاتی ہوتی ہیں لیکن مشاہدہ حقیقت کے خلاف ہے، اب اگر کوئی سائنسدان ہم سے یہ کہے کہ وہ دور کی چیزیں بھی مخالف سمت میں جا رہی ہیں، تو کیا ہم اس کی تکذیب کریں، کیونکہ ہمارے مشاہدہ کے خلاف ہے، نہیں بلکہ حقیقت کو جاننے والے کی بات ماننی چاہیے، مشاہدہ غلط ہوسکتا ہے، آنکھیں خطا کرسکتی ہیں، لہٰذا ہم رسول کی خلاف مشاہدہ بات کو بھی تسلیم کریں گے اور ایمان اسی کا نام ہے اس کے علاوہ کفر ہی کفر ہے۔

اسی طرح جب ہم کہیں جاتے ہیں تو ہمیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چاند بھی ہمارے ساتھ چل رہا ہے، یہ بھی آنکھ کی خطا ہے اسی طرح جب بادل چاند کے نیچے سے گزرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چاند دوڑ رہا ہے، اور بادل ساکن ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہوتی ہے، دو مساوی خطوط علیحدہ علیحدہ کچھ فاصلے پر کھینچے جائیں اور پھر ان میں سے ایک کے پاس ایک بہت لمبا خط کھینچا جائے، تو یہ خط اپنے دوسرے مساوی خط سے چھوٹا معلوم ہوگا، حالانکہ یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے، ریگستان میں سراب کا نظر آنا بھی محض دھوکا ہے، غرض یہ کہ اس قسم کی کئی خطائیں ہیں جو آنکھ سے سرزد ہوتی ہیں ، مشاہدہ غلط ہوتا ہے، لہٰذا محض مشاہدہ کی خاطر ہم رسول جیسے مخبر صادق کی خبر پر شبہ کرنے لگیں یہ کسی طرح بھی ایمان کی شان نہیں، اس تمام بحث سے ثابت ہوا کہ یہ معیار بھی غلط ہے۔
 
Top