• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قتال فی سبیل اللہ کے دن میدانِ جنگ سے فرار ہونے پر اللہ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قتال فی سبیل اللہ کے دن میدانِ جنگ سے فرار ہونے پر اللہ کا غضب

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں:
{یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَo وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ فَقَدْ بَآئَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَمَاْوٰیہُ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُo} [الانفال:۱۵]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا، ایک لشکر کی صورت میں ملو تو ان سے پیٹھیں نہ پھیرو۔ اور جو کوئی اس دن ان سے اپنی پیٹھ پھیرے، ماسوائے اس کے جو لڑائی کے لیے پینترا بدلنے والا ہو، یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو تو یقینا وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔''
یہاں اس آیت کریمہ میں مذکور لفظ ''زَحْفًا'' کا معنی ہے: کافروں سے جنگ اور دشمن کی طرف پیش قدمی کرنا اور ''اَلتّوَلِّي'' کا مطلب ہے: کسی چیز سے پھر جانا۔ یعنی پیٹھ موڑ کر مڑنا اور یہاں اس کا معنی ہے: جہاد و قتال فی سبیل اللہ سے فرار اختیار کرنا۔
ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ادبار، دُبر کی جمع ہے اور اس آیت کریمہ میں ''دبر'' سے مراد اس فعل شنیع کی فصاحت کو بیان کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ کام ایک بڑے جرم کی مذمت کو بیان کر رہا ہے۔
دشمن کی طرف پیش قدمی کے دن راہِ فرار اختیار کرنا کیا ہے؟1
دشمن کی طرف پیش قدمی اور حملے والے دن پیٹھ دکھا کر راہِ فرار اختیار کرنے والا وہ شخص ہوتا ہے جو کافر سپاہ کا سامنا کرنے سے گھبرا کر میدان قتال سے بھاگ اٹھے۔ اس معاملے میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہوگا جو کافروں کو مسلمانوں کے اموال و اسلحہ اور ان کی عورتوں اور بچوں کے بارے میں خبر دے اور اسے معلوم ہو کہ وہ عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں گے یا انہیں قیدی بنالیں گے۔
اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو دشمن سے آمنا سامنا کے دن اور معرکہ والے دن میدانِ قتال سے کافروں کے سامنے سے فرار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب جہاد فی سبیل اللہ اور کافروں سے قتال کو فرض کیا تو اہل ایمان مجاہدین اور مسلم سپاہ پر اس جرم شنیع کو حرام قرار دیا۔ یعنی جب تم کافر دشمنوں کے قریب ہوجاؤ تو پھر انہیں اپنی پشتیں نہ دکھاؤ اور نہ ہی اپنے مسلمان ساتھیوں کو چھوڑ کر ان سے فرار ہوجاؤ۔ جو کوئی شخص ایسا کرے گا وہ اللہ کا غضب لے کر پلٹے گا اور قیامت والے دن اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جو کہ سب سے برا ٹھکانا ہے۔ الا یہ کہ بندہ خلوص دل سے معافی مانگ لے اور اللہ عزوجل اپنی عفو و درگزر کے ساتھ اس پر اپنا فضل کردے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
((مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوْبُ إِلَیْہِ، غُفِرَ لَہُ وَإِنْ کَانَ فَرَّ مِنَ الزَّحْفِ۔))2
''جس شخص نے (اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہوئے خلوص دل سے) یہ کہا: میں اُس اللہ کریم سے مغفرت طلب کرتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ازل سے تاابد زندہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہے اور میں اُسی رب کریم کی طرف رجوع کرتا ہوں۔'' تو اسے معاف کردیا جائے گا، اگرچہ اُس نے دشمن پر حملہ والے دن راہِ فرار کیوں نہ اختیار کی ہو۔''
اللہ عزوجل نے اس ضمن میں ایک حالت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور وہ اس طرح کہ دشمن کو دھوکہ دینے کی خاطر یا جنگی چال اختیار کرنے کے لیے مسلمان سپاہی پیچھے کی جانب دوڑنے والی کیفیت پیدا کرے۔ تاکہ وہ دشمن پر بھرپور طریقے سے حملہ کرسکے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَمَنْ یُّوَلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ... مگر جو کوئی کترا کر ایک طرف چلے لڑنے کے لیے یا مسلمانوں کی دوسری جماعت (یونٹ،کمپنی یا بریگیڈ، کور وغیرہ) میں شامل ہونے کے لیے۔'' (تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے)
یا مسلمانوں کی دوسری فوج، جماعت یا گروہ سے مدد طلب کرنے کے لیے پیچھے ہٹتا ہے تاکہ وہ اس کے ساتھی مجاہدین کی آکر مدد کریں تو یہ بھی درست ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تفصیل کے لیے: (۱) ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر القرآن العظیم جلد نمبر ۲، ص ۳۲۹، (۲) تفسیر قرطبی جلد نمبر ۷ ص ۲۴۱، جلد نمبر ۸، ص ۱۷
2 صحیح سنن أبي داود، رقم ۱۳۴۳۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اگر ان اسباب کے علاوہ کسی بھی وجہ سے معرکہ والے دن میدان قتال سے فرار اختیار کرے گا تو وہ ان سات ہلاک کرنے والے بڑے جرائم میں سے ایک جرم کا ارتکاب کرے گا جن کے بارے میں سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((إِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا ھُنَّ؟ قَالَ: ''اَلشِّرْکُ بِاللّٰہِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَکْلُ الرِّبَا، وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ، وَالتَّوَلِّي یَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ۔))1
''سات ہلاک کردینے والی چیزوں (کبیرہ گناہوں) سے بچو۔'' صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! یہ سات ہلاک کرنے والی چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: (۱)... اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ (۲)... جادو۔ (۳)... حق شرعی کے سوا کسی بھی جان کو قتل کرنا کہ جس کا قتل اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے۔ (۴)... سود کھانا۔ (۵)... ناحق یتیم کا مال کھاجانا۔ (۶)... معرکہ والے دن پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (۷)... غفلت کا شکار (سادہ طبیعت والی بیاہی ہوئی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔''
میدانِ قتال سے فرار ایک کبیرہ گناہ اور جرم ہے کہ جس کے ساتھ دوسرے سپاہیوں اور لڑنے والوں کو فرار کا موقع ملتا ہے اور وہ بھی اس مفرور کی تقلید میں راہِ فرار اختیار کرنے لگتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ لشکر اسلامی کی صفوں میں خلل واقع ہوکر بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات یہ فرار جنگ و قتال میں شریک باقی لوگوں کے حوصلوں کو پست کردیتا ہے اور لوگ لڑنے میں کمزوری دکھانے لگتے ہیں۔ نتیجتاً اس جرم کی وجہ سے اس جنگ میں ناکامی اور شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ نے معرکہ اور قتال والے دن میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر راہِ فرار اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے وہاں اُس نے کافروں سے لڑائی کے وقت ثابت قدمی اور صبر و استقامت اختیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ نہی اور امر دونوں کو برابر بیان کرکے دشمن کے مقابلے میں اہل ایمان مجاہدین کو ڈٹ جانے کی تاکید فرما دی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اللہ کریم نے اپنے مومن مجاہدین کو اپنے کافر دشمنوں پر نصرت اور فتح حاصل کرنے کے لیے انہیں اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرتے رہنے اور اُس سے نصرت و فتح کی بکثرت دعا مانگتے رہنے کا بھی حکم فرمایا ہے۔ تاکہ وہ اثبات و دعا کے ساتھ اپنے دشمنوں پر فتح یاب ہوسکیں اور اللہ رب العالمین ان کی مدد فرمادے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح البخاري، کتاب الحدود، حدیث : ۶۸۵۷۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چنانچہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo}[الانفال:۴۵]
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم کسی گروہ کے مقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پائو۔ ''
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کو دشمن سے آمنے سامنے کے وقت کی تعلیم اور دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت شجاعت اور دلیری کے لیے راہنمائی ہے۔
سیّدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا:
(( یَا اَیُّھَا النَّاسُ! لَا تَمَنَّوا لِقَائَ الْعَدُّوِ وَسَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ، فَإِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوْا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ۔ ثُمَّ قَالَ: اَللّٰہُمَّ مَنْزِلَ الْکِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَھَازِمَ الْأَحْزَابِ، اھْزِمْھُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْھِمْ۔))1
''لوگو! دشمن سے مڈبھیڑ کی خواہش نہ کیا کرو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ سے عاقبت کا سوال کیا کرو اور جب تمہارا اُن سے آمنا سامنا ہوجائے تو پھر صبر سے کام لیا کرو۔ جان لو کہ جنت (کا حصول) تلواروں کے سائے تلے ہے۔''
پھر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ سے عرض گزار ہوئے:
''اے کتاب عظیم کو اتارنے والے اللہ! بادلوں کو چلانے والے خالق کائنات! فوجوں کو شکست سے دو چار کرنے والے اللہ! ان کو شکست سے دو چار کر اور ہمیں ان پر فتح عطا فرما۔''
مومن آدمی پر اللہ رب العالمین کی اطاعت و فرمانبرداری، دشمنوں سے لڑائی اور ان سے جنگ کے وقت صبر و استقامت واجب ہے۔ پس نہ ہی تو مسلمان مجاہد راہِ فرار اختیار کرے اور نہ ہی بزدلی، کمزوری سے کام لے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الجھاد، باب: لا تمنوا لقاء العدو۔ ۳۰۲۵۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان ، نئی آن​
گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان​
قہاری و غفاری، قدوسی و جبروت​
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان​
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم​
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان​
اے شیخ! بہت اچھی مکتب کی فضا ، لیکن​
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی​
صدیوں میں کہیں پیدا ہوتا ہے حریف اس کا​
تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی​
مسلمان آدمی پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ حالت جنگ میں اللہ کے ذکر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے، اس سے یہ کبھی غافل نہ ہو۔ بلکہ اس کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرے اور رب کریم پر توکل کرے۔ اپنے دشمنوں پر اللہ عزوجل سے اس کے ذکر (نماز، روزے، قرآن کی تلاوت اور صبح و شام کے اذکار) کے ذریعے مدد طلب کرے۔ اپنے اور اہل ایمان مجاہدین کے ذریعے کسی تنازعہ کو کھڑا نہ کرے کہ اس سے کہیں ان میں پھوٹ نہ پڑجائے اور اس حالت میں کہیں ان کی اجتماعی قوت، جرأت و شجاعت اور کافروں پر اُن کا رعب ختم نہ ہوجائے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
{وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَo} [الانفال:۴۶]
''اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں مت جھگڑو، ورنہ بزدل ہو جائو گے اور تمھاری ہوا چلی جائے گی اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا غزوات میں شجاعت و بہادری، اللہ عزوجل اور اس کے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و اوامر کی تعمیل اور جس عظیم تر ہدف و مقصد کی طرف نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی راہنمائی کی تھی اسے بجالانے میں جو کردار و عمل تھا وہ سابقہ امتوں میں سے کسی کے اندر بھی کسی بھی زمانے دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی ان کے بعد کسی اور کا نصیب ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ بلاشبہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر اور آپ کی اطاعت کی برکت سے دلوں کو بھی فتح کیا اور ایک نہایت مختصر عرصہ میں مشرق و مغرب کے تمام ملکوں کو بھی فتح کرلیا تھا۔ حالانکہ دنیا کی تمام اقالیم کے لشکروں کی نسبت ان کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ ان اللہ کے مومن، متقی اور مجاہد بندوں نے تمام اعداء اللہ پر غلبہ حاصل کرکے اللہ کے کلمہ کو بلند کردیا اور یوں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین دنیا جہان کے سارے ادیان پر غالب آگیا۔ تیس سالوں کی قلیل مدت میں اسلامی سلطنت کی سرحدیں زمین کے مشارق و مغارب تک پھیل گئیں۔ یوں اللہ عزوجل ان سے راضی ہوگیا اور وہ اپنے رب سے راضی ہوگئے۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top