• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قتل کی حرمت اور ممانعت !!!!

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
الحمدللہ الذی احدہ والصّلاۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ۔ اما بعد
بسم اللـه الرحمن الرحيم
من أجل ذلك كتبنا على بني إسرائيل أنه من قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الأرض فكأنما قتل الناس جميعا ومن أحياها فكأنما أحيا الناس جميعا ولقد جاءتهم رسلنا بالبينات ثم إن كثيرا منهم بعد ذلك في الأرض لمسرفون (سورة المائدة ۳۲)
ترجمہ: اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا اور جو شخص کسی انسان کی جان بچالے ۔ اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر لوگ زمین میں ظلم وزیادتی اور زبردستی کرنے والے ہے۔
اس آیت کریمہ کے سیاق و سباق سے ہمیں یہ عندیہ ملتا ہے کہ بنی اسرائیل کو جو خون ناحق سے گریز کرنے کی تلقین فرمامئی گئی تھی ، اس تلقین سے قبل انہیں کسی اور ایسے واقعہ کی خبر دی گئی تھی جو خون ناحق سے عبارت تھا۔ اس حقیقت کا واضح اظہار اس آیت کریمہ سے ماقبل چیند آیت میں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہابیل اور قابیل کا واقعہ بیان فرمایا ہے اور اسی واقعہ کے تناظر میں بنی اسرائیل کو ایسے قدم سے گریز کرنے کی تلقین اور تنبیہہ فرمائی گئی تھی ۔ اور اس تنبیہہ اور تلقین سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ کے ہاں انسانی جان کی کیا قدر ومنزلت ہے اور انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے۔ یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ اسلام کی تعلیمات کے تناظر میں یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے۔
سلیمان بن ربعی رحمہ اللہ کہتے ہے کہ میں نے حسن بصری رحیمہ اللہ سے پوچھا ،‘‘ یہ آیت ہمارے لئے بھی ہے جس طرح بنواسرائیل کے لئے تھی؟’’ انہونے فرمایا‘‘ ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہین۔ بنواسرائیل کے خون اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے۔( تفسیر جونا گڑھی بحوالہ تفسیر ابن کثیر )
مندرجہ آیات کریمہ کا آخری جز’’ ثم ان کثیرا منھم بعد ذالک فی الارض لمسرفون‘‘ لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں سے اکثر لوگ زمین میں ظلم وزیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی ہے۔
یہود کی فطرت و خصلت کا غمازہے ۔ اور یہ بات قران میں بصراحت موجود ہے کہ بنی اسرائیل میں سے یہود کی کارستانیاں ہمیشہ پرفتن اور شرانگیز رہی ہیں۔‘‘ان کے پاس انبیاء دلائل وبراہین لے کر آتے رہے لیکن ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تضاوز کرنے والا ہی رہا ’’۔(ایضا)۔
یہود کی فتنہ انگیز اور شرپسندی کوئی قصہ پارینہ ہی نہیں بلکہ ان کی شرارتیں موجودہ دور میں بھی بالکل واضح اور عیاں ہیں۔ عالمی سطح پر عالم انسانیت کو جو برے دن دیکھنے کو مل رہے ہیں سب یہودی مکارانہ چالاکی اور شرارت انگیز سے عبارت ہیں ۔ عالمی سطح پر جنگ وجدل کا بازار گرم ہے اور اس میں جو آتش وآہن کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس سب کے پیچھے یہود کا شاطرانہ دماغ کار فرما ہے ؁
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہزیب
کہ روح اس مرنیت کی رہ نہ سکی عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیالِ بلند و ذاقِ لطیب​
اس یہودی خصلت کی پرچھائیاں اب دنیا کی دیگر اقوام وملل میں بھی بہر دور سے نظر آجاتی ہیں۔ کون سا معاشرہ ایسا ہے کہ جہاں یہود خصائل کے مناظر دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں۔ عالمی سطح پر تمام معاشروں کے سارے عالم کا ایک عالم ہے۔ انسان انسانیت کی روح سے عاری ایک درندہ کی صورت میں انسان ہی کے خون کا پیاسا اور رسیا نظر آتا ہے ۔
ابھی تک آدمی صید زبونِ شہر یاری ہے
قیامت سے کہ انسان نوع انسان کا شکاری
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہزیب حاضر کی
یہ ضاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو!
ہوس کے پنجئہ خونین میں تیغ کارزاری ہے
تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدّن کی بنا سرمایہ داری ہے​
دراصل یہ مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے کہ جس نے ایک انسان کو مادہ پرست اور مادیت کا غلام بنا کے رکھ دیا ہے۔ لفظ انسان عربی لفظ انس سے مستخرج اور انس کے معنی محبت اور حمدردی کے ہیں۔ لیکن دنیا کی جاہ پرستی نے انسان کو اس انسانی صفت سے خالی کرکے رکھ چھوڑا ہے۔ عالمگیری سطح پر انسان اب زر،زمین اور زن کا دیوانہ نظر آتا ہے۔ اس دیوانگی کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ اختیار کرنے کی دوڑ دھوپ میں سماج میں بددیانتی،بے ایمانی،رشوت ستانی اور حرام خوری کی ہر شاخ پنپ رہی ہے تو دوسری طرف نان شبینہ کی محتاج اس نوع انسانی کی ایک کثیر تعداد کبھی اس رئیسانہ ٹھاٹھ باٹھ کی مخلوق کو دیکھتی ہے تو کبھی چیتھڑں میں ملبوس اور جھونپڑوں میں مکین اپنی حالت زار کو۔ غرض دونوں صورتوں میں مجرمانہ اقدام کے تصوّرات اور خیالات انسانی جزبات کو برانگیختہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ نتیجہ یہ کہ چوری چکاری،ڈاکہ زنی،لوٹ مار،زنا،لواطت،جوا،رشوت خوری جسم فروشی،قتل وغارت وغیرہ انسانیت سوز واقعات روز اخبارات ورسائل کی زینت بن کر انسانی غیرت کو پکارتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ دور میں انسان کے ہاتھوں انسانیت کی قباچاک ہونے کے مناظر اور داستانیں اتنی عام ہیں کہ اس پر یہ صادق آتا ہےکہ
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش​
حقیقت میں اس فکر معاش کے پیچھے اس نظام تعلیم کا ہاتھ ہے جو یہود و نصاریٰ کا وضع کردہ ہے اور جس میں مادہ پرستی اور مادیت کی غلامی کے قوائد کی بڑی بھرمار ہے۔ یہ یہودی نظام تعلیم اسی نطام جمہوریت کا آئینہ دار ہے کہ جس نے دنیا کے لگ بھگ تمام اور بالخصوص افریقہ اور ایشیاء کے اکثر ممالک کو یورپ اور امریکہ کا گرویدہ اور غلام بنا کے رکھا ہے۔ تاریخ کے آئینے میں بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ نو آبادیاتی نظام (Colonialism) کے دوران یورپی کمپنیوں نے اس تجارت کو فروغ دیا جو (Drain Theory) پر مبنی تھا ۔ یعنی یورپی بالواسط ڈاکہ زنیکے زریعہ افریقہ اور ایشیا کے قدرتی ذرایع کو اپنے مفاد خصوصی کے لئے استعمال کرنے کے دلدادہ تھے ۔ اس طرح سے انہوں نے افریقہ اور ایشیاء کے کئی ممالک میں ان اشیاء کی کاشت بڑے پیمانے پر کروائی جو ان کے مفادات کی تکمیل کرتی تھیں مثلا کپّاس،پٹ سن،تمباکو وغیرہ ۔ ان اشیاء کی کاشت کرا کے خام مال کو مولی کے دام خرید کر ہورپ سے ان سے جو مضوعات تیار کی جاتی تھیں انہیں انتہائی مہنگے داموں بیچ کر ان ممالک کی دولت کو یورپ میں سمیٹنے کے تمام حربے آزمائے جارہے تھے ۔ اور اسی تھیوری کا نام ان لٹیروں نے(Drain Theory) رکھا تھا اس تھیوری سے منسلک ایک نعرہ بھی تھا کہ ( What it is yours that is mine, what it is mine that is my own )
آج کے نئے نوآبادیاتی نظام کے تحت انہوں نے دنیا کے لگ بھگ تمام ممالک کو نظام جمہوری کے ذریعے اپنا غلام اور گرویدہ بنا کے رکھ چھوڑا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ نوآبادیاتی نظام (Colonialism) میں ان غلام ممالک کی حکمرانی پر یورپی حکمران (Lords) کی صورت میں مسلط تھے لیکن جدید نوآبادیاتی نظام (Neo-Colonialism) کے تحت حکمران تو ان ممالک پر ان ہی کے لوگوں میں سے چنیدہ ہیں لیکن حکومت کے اصول اور قوانین ان ہی یہود ونصاریٰ کے وضع کردہ ہیں جن کی تاریخ قتل وغارت گری سے عبارت ہے۔ عصر حاضر میں بھی یہود ونصاریٰ کی فتنہ انگیزی اور خونریزی کے مناظر کس جادستیاب نہیں ۔ مشرق ومغرب میں آتش و آہن کی بوچھاڑ ہورہی ہے ۔ ہر طرف لہو اور لوہے کی داستانیں آنکھوں میں آب بھرتے نظر آرہی ہیں۔ بستیوں سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں اور گرد وغبار کے بادل ، کھنڑرات میں ڈھلتی بستیاں انسانی دل میں جب ایک ارتعاش پیدا کردیتی ہیں تو دل یہ چیخنے پر مجبور ہوجاتا ہے
دیو استبدار جمہوری قبا میں پانے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری​
غرض یہود ونصاریٰ کی سفّا کی کا یہ عالم ہے کہ اس کے اثرات عالم گیر سطح پر انسان کی سماجی زندگی پر مرّتب اور ثبت ہیں۔ نتیجہ یہ کہ عالمی سطح پر اس وقت انسان انسان کا شکاری نظر آتا ہے اور نہ انسانی خون کی کوئی قدرومنزلت رہی ہے اور نہ عورتوں کی عصمت وعفّت کا کہیں تحفظ ہے۔ اسلام کے ظہور کے بعد دنیا کو یہودی خون خرابہ سے نجات ملی تھی لیکن جب سے مسلمان اسلام سے مہجوری اور فرار حاصل کرتے ہوئے فرنگی ابلیسیت کے جھانسے میں اکر دنیا پرستی میں محو ہونے لگے ، دنیا پھر سے آماجگاہ قتل وغارت بنتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ مسلمان اسلامی تعلیمات سے ناآشنا اور یہودی نظریات کے پرستار بننے کی پاداش میں فیملی پلاننگ کے نام پر اپنی اولاد تک کو بالواسطہ قتل کرنے کے جرم میں گرفتار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ولا تقتلوا أولادكم خشية إملاق ۖ نحن نرزقهم وإياكم ۚ إن قتلهم كان خطئا كبيرا (سورة الإسراء ۳۱)‘‘ ’’ اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مارڈالو ،انکو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ یقینا ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
یہ ایک غور طلب بات ہے کہ جب انسانی معاشرہ اپنی اولاد تک کو قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے تو پھر اس معاشرے میں دوسرے کسی کا خون کتنا محفوظ ہوگا،واضح اور عیاں ہے۔
قتل ناحق کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اور اس کی حرمت اور ممانعت اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ اس کی حرمت کی تعلیم اور ممانعت نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جارہا ہے’’قل تعالوا أتل ما حرم ربكم عليكم ۖ ألا تشركوا به شيئا ۖ وبالوالدين إحسانا ۖ ولا تقتلوا أولادكم من إملاق ۖ نحن نرزقكم وإياهم ۖ ولا تقربوا الفواحش ما ظهر منها وما بطن ۖ ولا تقتلوا النفس التي حرم اللـه إلا بالحق ۚ ذلكم وصاكم به لعلكم تعقلون (سورة الأنعام ۱۵۱)آپ کہئیے کہ آؤ میں تم کو وہ پڑھ کر سناؤإ جن (کی مخالفت ) کو تمہارے رب نے تم پو حرام فرمادیا ہے، وہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ، ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں اور بے حیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس بھی مت جاؤ خواہ وہ علانیہ ہوں خواہ پوشیدہ، اور جس کا خون کرنا اللہ تعلیٰ نے حرام کردیا ہے اس کو قتل مت کرو ، ہاں مگر حق کے ساتھ ۔ان (باتوں) کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو ۔
ماعتبرو آیٰاولی الالباب​

مدرسة التوحید والسنة عمر کالونی لعل بازار سرینگر کشمیر
 
Top