• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قدیم مصاحف قرآنیہ … ایک تجزیاتی مطالعہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پاکستان میں قدیم مصاحف
نیشنل میوزم‘ کراچی میں ایک نادر نسخہ موجود ہے جس کی نسبت حضرت عثمان﷜ کے دور خلافت کی طرف کی جاتی ہے۔یہ مخطوطہ ہرن کے چمڑے پر خط کوفی میں لکھا ہو اہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امریکہ میں قدیم مصاحف
(١) ہارورڈ یونیورسٹی کے میوزم میں خط کوفی میں لکھا ہوا ایک نسخہ موجود ہے جو تیسری صدی ہجری کا ہے۔ علاوہ ازیں چوتھی صدی ہجری میں چمڑے پر لکھے ہوئے کئی ایک نسخے بھی یہاں موجود ہیں۔
(٢) بیئربونٹ مورگان لائبریری‘ نیویارک میں تیسری صدی کا ایک نامکمل نسخہ موجود ہے۔یہ خط کوفی میں چمڑے پر لکھا ہواہے اور اس کے ۱۱۱ صفحات موجود ہیں۔اس کانمبر 'M657' ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سعودی عرب میں قدیم مصاحف
مکتبہ عارف حکمت ‘ مدینہ منورہ میں شتر مرغ کے چمڑے پر لکھا ہوا ایک نسخہ موجود ہے جو۴۸۸ھ میں لکھا گیا ہے۔اب یہ نسخہ شاہ عبد العزیز لائبریری میں منتقل ہو گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فرانس میں قدیم مصاحف
نیشنل لائبریری‘ پیرس میں خط کوفی میں چمڑے پرلکھے ہوئے آٹھویں اور نویں صدی ہجری کے متعدد مصاحف موجود ہیں۔ یہ مصاحف '5179, 5178, 5124, 5123, 5122, 5103' نمبروں کے تحت موجود ہیں۔اس کے علاوہ بھی یہاں کئی ایک مصاحف موجود ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاہ عبد العزیز لائبریری کے قدیم مصاحف
شاہ عبد العزیز لائبریری کی بنیاد ۱۳۹۳ھ(۱۹۷۳ء) میں شاہ فیصل بن عبد العزیز آل سعود نے رکھی اور اس کا افتتاح ۱۴۰۳ھ(۱۹۸۲ء) میں شاہ فہد بن عبد العزیز نے کیا۔ یہ لائبریری مدینہ منورہ میں شارع ام المؤمنین خدیجہ﷜ پر واقع ہے۔یہ لائبریری بحث و تحقیق ‘ اسلامی کتب اور مخطوطات کے ذخائر کے اعتبار سے دنیاکی چند ایک لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے۔اس لائبریری میں ۱۴ہزار مخطوطے (manuscripts) موجود ہیں۔علاوہ ازیں مخطوطات کی فوٹو کاپیاں اور مائیکر وفلمز اس کے علاوہ ہیں۔اس لائبریری کا ایک ہال دنیا کی نادر کتابوں پر مشتمل ہے اور اس میں تقریباً ۲۵ ہزار کتب ہیں۔
اس لائبریری میں ’مکتبة المصحف الشریف‘ کے نام سے ایک ذیلی لائبریری موجود ہے جس میں قرآن کے ۱۸۷۸ نادر مخطوطے موجود ہیں۔ ان میں ۸۴ ایسے ہیں جو قرآن کی تدوین کے تاریخی مراحل کی کڑیوں کو ایک تسلسل کے ساتھ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔یہ مصاحف پانچویں صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک پھیلے ہوئے ہیں۔سب سے زیادہ مصاحف ۱۱ویں صدی ہجری کے ہیں۔ ان کی تعداد تقریباً ۷۰ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس لائبریری میں سب سے قدیم مصحف۴۸۸ھ کا ہے جو ہرن کے چمڑے پر لکھاہوا ہے۔ اس کے کاتب علی بن محمد بطلیوسی ہیں۔ اس کے بعد ۵۴۹ھ میں ابو سعد محمد اسمعیل بن محمد کے ہاتھ سے لکھا ہوامصحف بھی موجود ہے۔ جدید ترین مصحف ۱۴۰۵ھ کا ہے جو محمد صدیق فضل اللہ افغانی کے ہاتھ کا لکھا ہو اہے۔ اس لائبریری میں غلام محی الدین کے ہاتھ سے ۱۲۰۴ھ میں لکھا ہوا ایک بہت بڑ امصحف بھی موجو دہے جس کا وزن ۱۵۴ کلو گرام ہے۔ اس کا سائز '80*142.5 cm' ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصاحف عثمانیہ
مصحف عثمانی کس سن میں لکھا گیا تھا؟ اس بارے علماء کا اختلاف ہے۔ راجح قول کے مطابق اس کی تکمیل ۳۰ ہجری میں ہوئی تھی۔ اسی طرح حضرت عثمانt کے مصاحف کتنے تھے ؟اس بارے بھی علماء کا اختلاف ہے۔ امام دانی﷫ اور امام زرکشی﷫ کے قول کے مطابق ان کی تعداد چار تھی جن میں سے ایک حضرت عثمانt کے پاس مدینہ میں تھا جبکہ بقیہ تین کوفہ ‘ بصرہ اور دمشق میں بھیجے گئے تھے۔ ابن ابی داؤد﷫ اپنی کتاب میں ان کی تعداد کے بارے بعض قراء و علماء سے دو روایات لائے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ان کی تعداد چار تھی جبکہ دوسری روایت کے مطابق سات تھی جو مکہ ‘ شام‘ یمن‘ بحرین‘ بصرہ‘ کوفہ اور مدینہ کے لیے تھے۔تاریخ یعقوبی میں ان کی تعداد ۹ بھی بیان ہوئی ہے جبکہ ابن جزری﷫ نے ان کی تعداد آٹھ بیان کی ہے۔جمہور علماء کے قول کے مطابق ان مصاحف کی تعداد ۶ تھی۔جو مصحف حضرت عثمان ﷜ نے اپنے پاس روکا تھا اسے’ مصحف امام‘ کا نام دیا گیا۔
حضرت عثمان﷜ کے بارے تاریخی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب بلوائیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تو وہ اپنے گھر میں محصور ہو کر رہ گئے۔ جس دن اور جس وقت ان کی شہادت واقع ہوئی ہے ‘ اس وقت وہ قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے اور ان کے خون کے قطرے ان کے سامنے موجود مصحف میں سورہ بقرۃ کی آیت ’’فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ‘‘ (البقرۃ: ۱۳۷) پر گرے۔اس وقت سے ’مصحف امام‘ کے بارے کئی ایک اختلافات امت مسلمہ کی تاریخ میں چلے آ رہے ہیں۔ اس وقت بھی تقریباً پانچ مصاحف کے بارے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ ’مصحف امام‘ ہے اور ان میں سے ہر ایک پر خون کے قطرے بھی موجود ہیں۔
پہلا مصحف جس کے بارے یہ گمان ہے کہ وہ مصحف امام ہے‘ مصحف مصر ہے۔ اس پر خون کے قطرات کے نشانات بھی موجود ہیں۔ معروف مصری مؤرخ ابو العباس مقریزی (متوفی۸۴۵ھ) نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ مصحف ۵ محرم ۳۷۸ھ کو عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کے خزانے سے جامع عمرو بن العاص میں منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں یہ مصحف ’مدرسہ قاضی فاضل‘ میں پڑ ارہا۔ اس کے بعد یہ اس قبے میں منتقل کر دیا گیا جو سلطان غوری نے تعمیر کیا تھاجہاں یہ ۱۲۷۵ھ تک رہا۔ اور بالآخر مختلف مراحل سے گزرتا ہوا ۱۳۰۴ھ میں دیوان اوقاف‘ مصر میں پہنچ گیا۔اب یہ مصحف مسجد حسینی‘ مصرمیں موجود ہے۔ بعض محققین کا کہنا یہ ہے کہ اس مصحف کا مصحف امام ثابت ہونا ایک مشکل امر ہے۔ ہاں! اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ ان مصاحف میں سے ایک ہو جنہیں حضرت عثمان﷜ نے مختلف علاقوں کی طرف بھیجا تھا۔لیکن اس امکان کا بھی یوں رد کیا گیا ہے کہ حضرت عثمان﷜ نے مصر کی طرف کوئی مصحف بھیجا ہی نہیں تھا۔اس لیے بعض محققین نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ یہ ان مصاحف میں سے ہوسکتا ہے جو مصاحف عثمانیہ میں سے کسی مصحف کی نقل تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف بصرہ دوسرا مصحف ہے جس کے بارے مصحف امام ہونے کا گمان کیا جاتا ہے۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں اس کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے مسجد امیر المؤمنین‘ بصرہ میں حضرت عثمان﷜ کا وہ مصحف دیکھا ہے جس پر ان کے خون کے دھبوں کے نشانات موجود تھے۔ اس مصحف کی حفاظت پر سلاطین کی طرف سے ’بنو زیان‘ مقرر تھے ۔ ابو الحسن علی مرینی نے ۷۳۸ھ میں بنو زیان سے یہ مصحف واپس لے لیا تھا۔ اس کے بارے بھی محققین کی تحقیق ہے کہ جومصحف ابن بطوطہ نے بصرہ میں دیکھا ہے وہ مصحف امام نہیں تھا بلکہ ان مصاحف میں سے ایک تھا جن کو حضرت عثمان﷜ نے مختلف شہروں کی طرف بھیجا تھا۔
مصحف تاشقند کے بارے بھی یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ مصحف امام ہے۔ یہ مصحف تاشقند میں ’مکتبة الإدارة الدینیة‘ میں محفوظ ہے۔اس کے اوراق کی تعداد ۳۵۳ ہے اور یہ مصحف نقاط و اعراب وغیرہ سے خالی ہے۔ یہ مصحف تاشقند کیسے پہنچا؟ اس کے بارے دو آراء پائی جاتی ہیں۔ایک رائے کے مطابق مصر کے مملوک بادشاہ بیبرس نے یہ مصحف قبیلۃ ذہبیۃ کے سردار برکت خان کو ہدیہ دیا تھا اور یہ ۶۲۱ھ میں سمرقند پہنچا۔برکت خان کے بارے معروف ہے کہ وہ پہلا منگول سردار ہے جس نے اسلام قبول کیا تھا۔دوسری رائے کے مطابق یہ وہی مصحف ہے جسے ابن بطوطہ نے بصرہ میں دیکھا تھا اور تیمور لنگ اسے (۷۷۱۔۸۰۷ھ) سمرقند لے آیاتھا۔اس رائے کے قائلین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مصحف امام اور سمرقند کے مصحف کے رسم میں مشابہت بہت زیادہ ہے لہٰذا اس کے مصحف امام ہونے کے امکانات قوی ہیں۔
پہلی رائے پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ مصر کی طرف حضرت عثمان﷜ نے کوئی مصحف بھیجا ہی نہیں تھا تو مصر سے سمرقند یہ کیسے آ گیا؟ مصر کے مصحف کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ عبد العزیز بن مروان﷫ (متوفی بعد ۸۰ھ)نے مصر کے لیے حضرت عثمانt کے سرکاری نسخے کے مطابق پہلی مرتبہ ایک نقل تیار کروائی تھی جو مصحف مصر کے نام سے معروف ہوئی۔دوسری رائے پر یہ اعتراض سامنے آیا ہے کہ سمرقند کے مخطوطے کے رسم الخط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ دوسری یا تیسری صدی ہجری کے مصاحف میں سے ایک مصحف ہے لہٰذا اس کی نسبت حضرت عثمان﷜ کی طرف درست نہیں ہے۔اس مصحف کی سطریں اس قدر سیدھی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کسی پیمانے کی مدد سے اس کی سطریں قائم کی گئی ہیں۔تاشقند کا مصحف شیخ زاید بن سلطان آل نہیان کی سرپرستی میں مطبعہ المنار‘ دمشق سے شائع ہو چکا ہے۔ ذیل میں ہم اس مطبوع مصحف کا ایک صفحہ نقل کر رہے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مصحف حمص کے بارے بھی یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ مصحف امام ہے۔ شیخ اسماعیل بن عبد الجواد الکیالی نے حمص کے قلعے کی مسجد میں مصحف عثمانی دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کے بقول ا س مصحف میں انہوں نے خون کے آثار بھی دیکھے ہیں۔یہ مصحف خط کوفی میں ہے۔ رسم و خط کے ماہرین کی رائے ہے کہ مصحف حمص پہلی صدی ہجری کے بعد لکھا گیا ہے۔
مصحف استنبول پانچواں مصحف ہے جس کے بارے مصحف امام ہونے کے بارے گمان کیا جاتا ہے۔اس مصحف کے اوراق پر خون کے دھبوں کے نشانات آج تک واضح طور پر موجود ہیں۔بعض ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ سرخ نقاط خون کے قطروں کے نشانات نہیں ہیں۔
 
Top