• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن، کائنات اور انسان

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پیش لفظ
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ ان کی آنکھ کھلی تو وقت دیکھا۔ تین بج رہے تھے، "اس وقت فون! یا اللہ خیر!" بے اختیار ان کے منہ سے نکلا۔ وہ جوتا پہنے بغیر اپنے کمرے سے نکلے۔ فون لاؤنج میں رکھا تھا۔ یہ کھٹکا بھی ذہن میں تھا کہ کہیں فون بند ہی نہ ہو جائے۔ وہ جلدی سے فون تک پہنچے۔ رسیور اٹھایا۔ السلام علیکم سے بات کا آغاز کیا، مگر جواب میں انھیں وہ کچھ کہا گیا جس کی ان کو ہرگز ہرگز توقع نہ تھی۔ وہ سمجھ گئے کہ انھیں محض تنگ کرنے کے لیے فون کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا پہلا رد عمل غصے ہی کا تھا لیکن وہ ان لوگوں میں سے تھے جو سوچ سمجھ کر کام کرتے ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ اگر میں نے ان لوگوں کو ڈانٹا، برا بھلا کہا تو ان کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ تنگ ہونے والے کی جھڑکیوں، گالیوں اور جھنجھلاہٹ سے لطف اندوز ہوں۔ چنانچہ انھوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ان کا مقصد ہرگز پورا نہیں کریں گے۔ لمحوں میں کیے گئے اس فیصلے پر وہ ڈٹے رہے۔ فون کرنے والے نوجوان تھے۔ وہ باری باری ان سے بات کرتے، انھیں چڑانے کی کوشش کرتے مگر وہ ان کے سامنے برف کی چٹان بن گئے تھے۔ وہ ان کی ہر بات کا انتہائی شائستگی سے جواب دیتے۔ ان کے اس رویے نے نوجوانوں کے ضمیر کو جگا دیا۔ اب ان کے لہجے میں بھی شائستگی اور احترام آ چکا تھا اور پھر یہ گفتگو ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ اس دوران میں انھوں نے نوجوانوں سے ہر موضوع پر بات کی۔ نوجوانوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ وہ میڈیکل کے طالب علم ہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد اپنی تھکن اتارنے کے لیے انھوں نے کچھ "انجوائے" کرنے کا پروگرام بنایا اور اب تک وہ انیس آدمیوں کو جگا کر خوب "انجوائے" کر چکے ہیں۔ تب ان صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں کی تفریح کچھ مہنگی قسم کی نہیں ہے؟ نوجوان ذہین تھے، ان کی بات سمجھ گئے اور کہنے لگے: "ہاں آپ کی بات درست ہے، ان انیس لوگوں میں کچھ ضعیف بھی تھے، بیمار بھی اور دن بھر کے تھکے ہوئے بھی!" ایسا کہتے ہوئے ان کی آواز میں پچھتاوا اور شرم ساری صاف ٹپک رہی تھی۔ مزید خفت سے بچاتے ہوئے انھوں نے نوجوانوں سے کہا کہ مجھے نماز کے لیے اٹھنا ہی تھا، آپ نے احسان کیا جو مجھے بر وقت اٹھا دیا۔ اس جملے سے فون کرنے والے بالکل ہی ڈھے پڑے، آخر میں انھوں نے ان صاحب کے دفتر کا پتا پوچھا اور فون بند کر دیا۔ اگلے روز وہ چاروں نوجوان دفتر میں موجود تھے اور انھیں یہ بتا رہے تھے کہ انھوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انھیں زندگی گزارنے کا ایک نیا ڈھنگ معلوم ہوا ہے۔
بدی کو نیکی، شر کو خیر اور غصے کی چنگھاڑ کو دل آویز مسکراہٹ میں تبدیل کرنے والے ان صاحب کا نام پرویز ہاشمی ہے جن کی یہ مختصر کتاب آ پ کے ہاتھوں میں ہے۔
اقبال نے کہا تھا:
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم
ہاشمی صاحب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے دل کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔ہاشمی صاحب جدید تعلیم اور اخلاقی تعلیم و تربیت کے ایک خوب صورت امتزاج کے حامل مصعب اسکول سسٹم کے چیئرمین ہیں۔ ادارہ علم و تحقیق، المورد کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر ہیں۔ دنیوی تعلیم کے اعتبار سے سول انجینئر اور ایک کنسٹرکشن کمپنی، Enpar Group کے چیف ایگزیکٹیوہیں۔ وہ دین کے بھی بہت سنجیدہ طالب علم ہیں۔ بہت وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور اپنے فہم دین، حاصل مطالعہ اور اپنے نتائج فکر کو دوسروں کے سامنے سوچ بچار (food for thought) کے لیے رکھنے میں بہت سرگرم رہتے ہیں۔ ان کی یہ مختصر مگر بہت اہم کتاب اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
المورد کے ساتھ الحاق شدہ ہماری مشترکہ کاوش اردو ویب سائٹ "ہم سب دوست" (humsubdost.org) کے ایک سیکشن "دانش ور نوجوانوں کے لیے" سے حاصل کر کے، دعوتی تاثیر کی حامل یہ فکر انگیز تحریر کتابی صورت میں شائع کی جا رہی ہے۔ نعیم احمد بلوچ / محمد بلال
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دیباچہ
یہ محض اندھا عقیدہ (Blind Faith) نہیں کہ قرآن مجید، الہی کلام ہے، بلکہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے، جسے عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس مختصر کتاب میں کچھ ایسے ہی دلائل بیان کیے گئے ہیں، جنھیں پیش کرنے کا مقصد محض یہ ہے کہ ہمارے اندر زندگی کے اعلی حقائق کے بارے میں سوچ بچار کا عمل (Thought Process) شروع ہو جائے اور ہم ذہنی طور پر اللہ تعالی کے آخری Reminder کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کرنے لگیں۔
اس کتاب کو بہتر بنانے کے لیے اگر قارئین اپنے مشوروں سے نوازیں تو میں بے حد شکر گزار ہوں گا۔
پرویز ہاشمی ::: A12 شادمان I لاہور فون: 7586238 - 75867937​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرآن، کائنات اور انسان
قرآن مجید تقریباً پندرہ سو سال پہلے نازل ہوا۔ اس کے نزول کا مقصد موجودہ عارضی زندگی میں انسان کی بحیثیت فرد اور معاشرہ رہنمائی کرنا ہے۔ انسان کو چونکہ ہمیشہ ہی سے ہدایت کی ضرورت رہی ہے اور رہے گی، اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے اس آخری پیغام کو ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ کر لیا ہے:
"بے شک ہم نے ہی اس پیغام کو نازل کیا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔" (الحجر15:9)
اگرچہ قرآن مجید کے Reader کو اس میں حیرت انگیز طور پر متعدد ایسی آیات ملیں گی جو کسی نہ کسی طرح سائنسی مظاہر سے متعلق ہیں، تاہم ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید اصلاً کوئی سائنس کی کتاب نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد سائنس کی Promotion ہے۔ اس کا بنیادی پیغام آیندہ آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی یاددہانی اور منادی ہے۔ وہ اس حقیقت کی جانب مختلف اسالیب میں توجہ دلاتا ہے۔ اسی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے وہ انسان کو خود اس کے اپنے اندر موجود نشانیوں اور کائنات میں پھیلے ہوئے مختلف مظاہر پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ان سائنسی مظاہر کے متعلق قرآن مجید کا بیان مختصر اور جامع ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ ان اشاروں کو مشعل راہ بنا کر تحقیق کریں اور حقائق کی تہ تک پہنچیں۔ یہ عمل نہ صرف ان کے آخرت کے متعلق موروثی عقیدے کو یقین میں بدلنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ علم اور ایجادات کی دنیا میں بھی انھیں سب سے ممتاز بنا سکتا ہے۔
ابتداً عرب کے مسلمانوں نے قرآن کی اسی ہدایت پر عمل کیا اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ جدید سائنسی علوم کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ انھی سے اہل یورپ نے یہ علم سیکھا اور اسے آگے بڑھایا اور اس طرح وہ دنیا کے لیڈر بن گئے۔
اکیسویں صدی میں انسانی علم کی سطح بہت بلند ہو چکی ہے۔ جدید سائنس نے ایسے ایسے انکشافات کیے ہیں، جن کے متعلق انسان پہلے تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب تک کے تمام دریافت شدہ مسلمہ حقائق (Established Facts) بغیر کسی استثنا کے قرآن مجید میں درج بیانات کے عین مطابق ہیں۔ اسی حقیقت کو مشہور فرنچ سرجن سائنس دان موریس بکائی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب The Bible, The Quran and Science میں بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق جدید سائنس نے قرآن مجید کی بیشتر ایسی آیات کو سمجھنا آسان کر دیا ہے جن کی صحیح تشریح سائنسی علوم کی کمی کی وجہ سے پہلے ممکن نہ تھی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رحم مادر میں تخلیق کے مدارج
رحم مادر میں بچے کی تخلیق کے مدارج (Embryology) کا علم جس تفصیل اور صحت کے ساتھ ہمیں اب حاصل ہے، وہ پہلے ممکن نہ تھا، کیونکہ رحم مادر کے اندر کا عمل فلمانے والے Microscopic Cameras ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کیمروں کی مدد سے جو حقائق سامنے آ رہے ہیں، وہ قرآنی بیانات کے عین مطابق ہیں۔ دنیا کے مشہور ترین Embryologist ڈاکٹر کیتھ مور کے مطابق قرآن مجید اس علم یعنی Embryology میں وقت سے بہت آگے ہے۔
قرآن مجید Embryo کے دوسرے مرحلے کو "علقہ" یعنی جونک کہتا ہے۔ اس بیان کی حقیقت پہلے کسی بھی انسان کی سمجھ سے باہر تھی۔ دو مسلمان ڈاکٹروں نے اس علم یعنی Embryology کے ماہر ترین انسان ڈاکٹر کیتھ مور سے رابطہ کیا اور انھیں تحقیق پر آمادہ کیا، تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔ تحقیق کے نتیجے میں ڈاکٹر کیتھ مور پر حیرت ناک انکشاف ہوا کہ واقعی حمل کے تقریباً چوتھے ہفتے میں Embryo کی شکل ہو بہو جونک جیسی ہوتی ہے اور وہ جونک ہی کی طرح Uterus کی دیوار سے چپک کر ماں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔
ڈاکٹر مور نے کینیڈین ٹیلی ویژن پر انٹرویو میں اپنی ریسرچ کی تفصیل بتائی اور کہا:
"آج سے پہلے کسی انسان کو اس حقیقت کا علم ہونا قطعاً ناممکن ہے کیونکہ Micer Lenses ایجاد ہی اب ہوئے ہیں۔ چنانچہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس کا علم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ چودہ سو سال پرانی کتاب میں اس کے ذکر کی صرف اور صرف ایک ہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اس نے Reveal کیا ہے جو ہر چیز کا خود بنانے والا ہے۔"
ڈاکٹر مور نے اپنی کتابThe Developing Human" 3rd Edition 1982" میں Embryo کی اس Stage "علقہ" کو بیان کیا ہے اور جونک اور علقہ کی تصاویر ساتھ ساتھ دی ہیں جنھیں دیکھ کر پہچاننا محال ہے کہ ان میں Embryo کون سا ہے اور جونک کون سی ہے۔ دیکھیے قرآن مجید دوسری زندگی پر دلیل دیتے ہوئے کس خوبی سے Embryo کے مراحل بیان کر رہا ہے:
"اے لوگو! اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو دیکھو کہ ہم نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر پانی کے ایک قطرے سے، پھر جونک سے، پھر لوتھڑے سے، (جس میں سے) کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص۔ ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کر دیں اور ہم رحموں میں ٹھیرا دیتے ہیں، جو چاہتے ہیں اور ایک مدت معین کے لیے۔ پھر ہم تم کو ایک بچے کی شکل میں برآمد کرتے ہیں، پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے بعض پہلے مر جاتے ہیں اور بعض بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں، حتی کہ وہ کچھ جاننے کے بعد کچھ بھی نہیں جانتے۔" (الحج22:5)
"اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا، ہم نے پانی کی ایک بوند کو جونک کی شکل میں ایک محفوظ مستقر میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو جونک کی شکل دی، پھر جونک کو گوشت کا لوتھڑا بنایا۔ پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ پس بڑا ہی با برکت ہے، اللہ بہترین پیدا کرنے والا، پھر ان سب کے بعد لازماً مرنا ہے۔ پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔" (المومنون 23:12-16)
"پڑھ اپنے مالک کے نام سے جس نے تخلیق کیا انسان کو ایک جونک کی سی چیز سے۔" (العلق96:1-2)
قرآن مجید ایک ایسے زمانے میں نازل ہوا جب انسان کی افزائش نسل سے متعلق معلومات نہایت محدود تھیں۔ قرون وسطی میں اور جدید زمانے تک بھی اس موضوع کو ہر قسم کی بے سروپا کہانیاں گھیرے ہوئے تھیں۔ اس ضمن میں صحیح معلومات کا آغاز خوردبین کی ایجاد کے بعد شروع ہوا۔ لہذا علم جنین (Embryology) کے بنیادی تصورات سے متعلق معلومات نزول قرآن اور اس کے بعد کی صدیوں تک نا معلوم تھیں، مگر حیرت انگیز طور پر قرآن افزائش نسل کے مراحل کو نہ صرف واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے، بلکہ کسی ایک مقام پر بھی ان کے غیر صحیح ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ قرآن میں ان مدارج سے متعلق ہر بات آسان لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے، جو آسانی سے انسان کی سمجھ میں آنے والی ہے اور صدیوں بعد دریافت ہونے والے حقائق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ مثلاً بار آوری کا عمل رقیق مادے کی نہایت قلیل مقدار سے انجام پانا، مرد کے مادہ منویہ کا بچے کی جنس کا ذمہ دار ہونا، بار آور شدہ بیضہ کا استقرار تین پردوں کے اندر ہونا اور رحم کے اندر Embryo کا ارتقا۔ ڈاکٹر موریس بکائی کے بقول پندرہ سو سال پرانی کتاب کے ان بیانات اور جدید سائنس سے حاصل شدہ ان حقائق میں مطابقت کے نتیجے میں آدمی مکمل طور پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تمام اجرام فلکی کا حرکت پذیر ہونا
قرآن مجید کے نزول کے وقت یونانی مفکر بطلیموس (Ptolemy) کا نظریہ کائنات مانا جاتا تھا جس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز (Centre) ہے اور اس کے علاوہ تمام اجرام فلکی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ چاند ایک Hollow Ball میں Fixed ہے جو شیشے جیسی کسی شے سے بنا ہوا ہے۔ دیگر سیارے (Planets) اور سورج بھی Hollow Ball میں ہیں، جس میں ستارے Fixed ہیں۔ اس نے تمام نظام کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ستاروں کا ظاہر ہونا اور ڈوبنا بھی اسی Ball کی حرکت کی وجہ سے ہے۔
اہل یورپ پندرھویں صدی تک ان نظریات کو درست سمجھتے رہے۔ اس کے بعد یورپ میں سائنسی ریسرچ کے دور کا آغاز ہوا۔ سولہویں صدی میں پولینڈ کے ماہر فلکیات Copernicus نے اپنا انقلابی نظریہ پیش کیا جس کے مطابق مرکز زمین نہیں، بلکہ سورج ہے۔ زمین اور دیگر سیارے اپنے اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے، دائروں میں سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ ایک اور ماہر فلکیات Kepler Johannes نے سترھویں صدی میں بتایا کہ سیارے دائرے میں نہیں، بلکہ Ellipse میں گردش کر رہے ہیں۔ اطالوی سائنس دان گلیلیو نے اپنی بنائی ہوئی دوربین سے مشاہدہ کرکے ان حقائق کی تصدیق کی۔ یہ سائنسی نتائج، چونکہ بائیبل کے بیانات سے مطابقت نہ رکھتے تھے، اس لیے کلیسا (Church) نے ان تحقیقات کو نہ صرف مذہب کے خلاف قرار دیا، بلکہ فتوی لگا دیا کہ جو کوئی انھیں تسلیم کر ے گا، وہ کافر تصور ہوگا اور اسے سخت ترین سزائیں دی جائیں گی۔ جب بھی کوئی اہل علم ان تحقیقات کے حق میں آواز بلند کرتا تو اسے کافر قرار دے کر سخت ترین سزائیں دی جاتیں اور اسے بائیبل میں موجود نظریات ماننے پر مجبور کیا جاتا۔ اسی سبب سے مغرب میں اہل علم مذہب سے باغی ہو گئے۔ بعض وجوہ کے باعث ہمارے ہاں کا تعلیم یافتہ طبقہ چونکہ ذہنی طور پر اہل مغرب کے پیچھے چلتا ہے، لہذا ان کی تقلید میں اس نے بھی اپنے دین سے باغیانہ روش اختیار کر لی اور مذہب اور سائنس کو جدا تصور کیا۔ انھوں نے یہ زحمت ہی نہ کی کہ قرآن کا خود مطالعہ کرتے اور دیکھتے کہ کیا اس میں بھی ایسے ہی غلط نظریات موجود ہیں؟
ہم نے قرآن مجید پر ملاؤں کا قبضہ تسلیم کر لیا۔ ان کی بے سروپا کہانیاں سن کر تصور کر لیا کہ شاید قرآن بھی اسی قسم کی حکایتوں اور قصوں کا مجموعہ ہے۔ چونکہ ملا کو جدید تعلیم اور قرآن حکیم پر غور و فکر اور تدبر سے کوئی سروکار نہ تھا، لہذا ہم لوگوں تک یہ بات پہنچ ہی نہ سکی کہ قرآن حکیم کے بیانات نہ صرف ثابت شدہ سائنسی تحقیقات کے عین مطابق ہیں، بلکہ محققین کی آیندہ تحقیق کے لیے بھی اس میں Guide Line موجود ہے۔
گلیلیو کے بعد آئزک نیوٹن نے 1668ء میں بہتر دوربین بنائی اور اپنے مشہور قانون Law of Gravitational Attraction کے ذریعے سے اجرام فلکی کی حرکات کے اصول وضع کیے۔ انسانی علم کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا گیا اور امریکہ کے Edmin Hubble نے بیسویں صدی کی اہم ترین دریافت یہ کی کہ ساری کہکشائیں (Galaxies) بڑی تیزی سے ایک دوسرے سے پرے ہٹ رہی ہیں، تمام اجرام فلکی تیر رہے ہیں اور کوئی شے بھی ساکن نہیں ہے۔
Ptolemy سے لے کر Hubble تک تقریباً دو ہزار سال کی سائنسی ترقی کے بعد انسان اس چیز کو معلوم کرنے میں کامیاب ہوا ہے کہ ہر شے اپنے اپنے مدار میں حرکت پذیر ہے اور کوئی چیز بھی ساکن نہیں ہے۔ یہی حقیقت تقریباً انہی الفاظ میں قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ اگر اہل علم نے قرآن سے رہنمائی لی ہوتی تو انھیں ان حقائق کو دریافت کرنے میں اتنا وقت صرف نہ کرنا پڑتا:
"اور وہی ہے جس نے رات اور دن، سورج اور چاند بنائے۔ ان میں سے ہر ایک ایک خاص مدار (Orbit) کے اندر گردش کر رہا ہے۔" (الانبیاء21:33)
"نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات اور دن پر سبقت کر سکتی ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے خاص دائرے میں گردش کر رہا ہے۔" (یسین36:40)
"اور سورج اپنے ایک معین مدار پر گردش کر رہا ہے۔ یہ خدائے عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے۔" (یسین36:38)
"اس نے آسمانوں اور زمین کو ایک مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ رات کو دن پر ڈھانکتا ہے اور دن کو رات پر۔ اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک چل رہا ہے، ایک خاص مقرر شدہ مدت تک کے لیے۔" (الزمر39:5)
"وہ داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے۔ ہر ایک گردش کر رہا ہے، ایک معین مدت کے لیے۔" (فاطر35:13)
برسوں کی تحقیق کے بعد انسانی علم اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ اس کائنات میں موجود کوئی شے ہمیشہ کے لیے نہیں ہے، خواہ وہ سورج ہو، کوئی اور ستارہ ہو یا کہکشاں، ایک مدت کے بعد انھیں ختم ہو جانا ہے۔ ہم غور کریں تو مذکورہ آیات قرآنی سے جہاں یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ ہر چیز حرکت میں ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ یہ حرکت ہمیشہ کے لیے نہیں، بلکہ ایک مقرر شدہ مدت تک ہی کے لیے ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کائنات کا ازلی نہ ہونا
قرآن مجید کے مطابق موجودہ زمین و آسمان یعنی کائنات ازلی نہیں، بلکہ اسے ایک خاص لمحے (Particular instant) میں تخلیق کیا گیا ہے اور ایک مقررہ مدت کے بعد یہ ختم کر دی جائے گی۔ اس کائنات کا واحد مقصد قرآن مجید کے مطابق انسانوں اور جنوں (Intelligent Beings) کی درجہ بندی یعنی Gradingہے۔
قرآن مجید کے تصور کے برعکس مدتوں سے انسان کا خیال تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، مگر جدید سائنس نے بیسویں صدی کے اختتام پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ ازلی نہیں، بلکہ ایک خاص لمحے ایک زبردست دھماکے (Big Bang) سے اس کا آغاز ہوا ہے۔ اگرچہ George Lemaitreنے اس نظریے کو 1927ء میں پیش کیا تھا، لیکن سائنس دانوں کی تائید اسے مدتوںFalsification Tests سے گزرنے کے بعد اس صدی کے آخر ہی میں پہنچ کر حاصل ہوئی ہے۔
کائنات کے اختتام کے بارے میں اگرچہ سائنس دان ابھی یک سو نہیں، مگر وہ دن دور نہیں جب اس معاملے میں بھی قرآن مجید کے بیانات کی تصدیق ہو جائے گی:
"وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا (Originator)ہے اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس کے لیے فرما دیتا ہے ہو جا، تو وہ ہو جاتا ہے-‘‘(البقرہ2:117)
"اور وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔"(ہود11:7)
"اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے، تاکہ بدلہ دیا جائے، ہر جان کو، اس کے کیے کا اور ان کے ساتھ کوئی نا انصافی نہیں ہو گی۔"(الجاثیہ45:22)
"ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جواس کے مابین ہے، با مقصد اور ایک معین مدت تک کے لیے بنایا ہے۔" (الاحقاف46:3)
"کیا انھوں نے اپنے دلوں میں غور نہیں کیا، اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، نہیں پیدا کیا، مگر ایک مقصد کے ساتھ اور ایک مدت مقررہ تک کے لیے۔ اور لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔" (الروم 30:8)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہاڑوں کا زمین کو متوازن رکھنا
جدید تحقیق سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پہاڑ اصل میں زمین کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ جدید جغرافیائی اصطلاح میں اس توازن کو Isostasy کہا جاتا ہے، جس کے مطابق زمین کی سطح پر جو ہلکا مادہ تھا، وہ پہاڑوں کی شکل میں ابھر آیا اور جو بھاری مادہ تھا، وہ گہری خندقوں کی صورت میں دب گیا جن میں اب سمندر کا پانی بھرا ہوا ہے۔ اس طرح ابھار اور دباؤ نے مل کر زمین کا توازن برقرار رکھا ہے۔
آئیں دیکھیں کہ اس ضمن میں پندرہ سو سال قبل نازل ہونے والی عظیم کتاب کیا فرماتی ہے، جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اس کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے:
"اور ہم نے زمین میں پہاڑ گا ڑ دیے کہ وہ ان کو لے کر لڑھک نہ جائے اور ان پہاڑوں کے اندر ہم نے راستے کے لیے درے بنائے، تاکہ وہ راہ پائیں۔"(الانبیاء 21:31)
"اس نے بنایا آسمانوں کو، بغیر ایسے ستونوں کے جو تمھیں نظر آئیں اور زمین پر پہاڑ گاڑ دیے کہ و ہ تمھارے سمیت لڑھک نہ جائے۔" (لقمان 31:10)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شہد اور شہد کی مکھی
قرآن مجید میں شہد کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس میں شفا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
"اور تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر القا کیا کہ تو پہاڑوں، اور درختوں، اور لوگ جو چھتیں اٹھاتے ہیں، ان میں چھتے بنا، پھر ہر قسم کے پھلوں سے رس چوس، پھر اپنے پروردگار کے ہموار راستوں پر چل۔ اس کے پیٹ سے مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ بے شک اس کے اندر بڑی نشانی ہے، ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔"(النحل 16:28-29)
مسلمانوں نے اس آیت کی روشنی میں، شہد کے طبی پہلوؤں پر بہت زور دیا اور ان کے ہاں دوا سازی کے فن میں اسے غیر معمولی درجہ حاصل رہا، جبکہ مغربی دنیا اس کے اس پہلو سے اس صدی تک ناواقف رہی۔ ان کے ہاں یہ محض Liquid Food تھا، لیکن اس صدی میں یورپ کے سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ شہد میں واقعی Antiseptic Properties موجود ہیں۔
شہد ہی کے ضمن میں قرآن حکیم کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوراک کی تلاش میں نکلنے والی مکھیاں نر (Drones) نہیں، بلکہ مادہ ہوتی ہیں، کیونکہ قرآن مجید نے یہاں ان کے لیے مونث کے صیغے(Female Gender) استعمال کیے ہیں۔ یہ فرق ماضی قریب تک کسی کو معلوم نہیں تھا، کیونکہ اس موضوع پر اتنی تحقیق Microscopic Lenses کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔ نر اور مادہ مکھی کا یہ فرق آج بھی کوئی Expert ہی جان سکتا ہے، لیکن قرآن مجید نے چودہ صدیاں پہلے ہی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top