• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآنی آیات كا جواب دينے سے متعلق تمام احاديث كي تخريج وتحقیق

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
قرآنی آیات کے جواب کا حکم

(مقدمۃ)

قرآنی آیات کے جواب سے متعلق بہت سی روایات ہیں جن میں اکثر ضعیف وغیر ثابت ہے ۔بعض روایات ثابت ہیں لیکن وہ خاص طریقے اور خاص حالت سے ہی تعلق رکھتی ہیں ۔
لیکن آج کل دیکھا یہ جارہا ہے کہ بعض حضرات اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ فرض نمازوں میں قرآنی آیات کا جواب دیا جائے اور نہ صرف امام بلکہ مقتدی بھی قرآنی آیات کا جواب دے ۔اوراس سلسلے میں ہرطرح کی ضعیف ومردود روایات پیش کرکے اس پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ قرآنی آیات کا جواب دینا یہ ”اعمال“ سے تعلق رکھتا ہے ”فضائل اعمال“ سے نہیں ۔اس لئے اس معاملہ میں یہ کہنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے کہ بعض اہل علم کے یہاں ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پرعمل کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جن اہل علم نے یہ بات کہی ہے ان کا یہ مقصود نہیں ہے کہ فضلیت والی احادیث ہی کو ”عمل“ کی اصل بنیاد اور دلیل بنالیاجائے بلکہ ان کامقصود یہ ہے کہ جو ”عمل“ اپنی جگہ پر اصلا ثابت شدہ ہو پھر اس کی ”فضیلت“ میں کوئی ضعیف حدیث مل رہی ہو جس میں اس ثابت شدہ عمل کی ترغیب ہو یا اس کا خاص اجر وثواب مذکور ہو تو اس اجروثواب کی امید کے ساتھ اس ”عمل“ کو انجام دیا جاسکتا ہے۔یعنی ”عمل“ کی ادائیگی کی اصل دلیل یہ ضعیف حدیث نہیں ہوتی بلکہ ضعیف حدیث محض اس عمل کی ادائیگی کے لئے تحریک اور ترغیب کا کام کرتی ہے۔
مثلا یوم عاشوراء (دس محرم) کا روزہ رکھنا کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔اب اگر اس ثابت شدہ ”عمل“ کی ”فضیلت“ میں کوئی ضعیف حدیث مل جائے جس میں اس کا خاص اجروثواب ہو تو اس اجرو ثواب کی امید کے ساتھ اس عمل کو انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔چنانچہ کوئی شخص اگر اس فضیلت والی ضعیف حدیث کے پیش نظر عاشوراء کے روزہ پرعمل کرنا چاہئے تو اس کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس ضعیف حدیث پر عمل کرسکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق محض فضائل اعمال سے ہے۔ اور اصل عمل (یوم عاشوراء کاروزہ رکھنا) اپنی جگہ دیگر دلائل سے ثابت شدہ ہے۔
یہ ہے اہل علم کی اس بات کا مفہوم کہ ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاسکتا ہے۔اور ان اہل علم نے ”فضائل“ میں اس طرح کی بات اس لئے کہی ہے کیونکہ ”عمل“ تو اپنی جگہ پر ثابت شدہ ہوتا ہے لہٰذا اس کی فضیلت میں وارد ضعیف حدیث سامنے رکھ کر عمل کیا جائے تو اس میں خسارہ والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اگر یہ فضیلت صحیح ہے تو اسے حاصل ہوگی اور صحیح نہیں ہے تو اصل عمل کا نارمل ثواب تواسے ملے گا ہی، کیونکہ اصل عمل دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله (المتوفى728) اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإذا روي حديث في فضل بعض الأعمال المستحبة وثوابها وكراهة بعض الأعمال وعقابها : فمقادير الثواب والعقاب وأنواعه إذا روي فيها حديث لا نعلم أنه موضوع جازت روايته والعمل به بمعنى : أن النفس ترجو ذلك الثواب أو تخاف ذلك العقاب كرجل يعلم أن التجارة تربح لكن بلغه أنها تربح ربحا كثيرا فهذا إن صدق نفعه وإن كذب لم يضره
جب بعض مستحب (یعنی ثابت شدہ) ”اعمال“ کی ”فضیلت“ اور اس کے ”اجروثواب“ میں اسی طرح بعض اعمال کی کراہت اور اس کے عقاب میں کوئی (ضعیف)حدیث مروی ہو تو خاص مقدار میں ثواب وعقاب وغیرہ سے متعلق مروی حدیث کے بارے میں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ من گھڑت ہے (یعنی وہ صرف معمولی ضعیف ہو) تو اس کو بیان کرنا اوراس پر عمل کرنا اس معنی میں جائز ہے کہ اس سے دل کو اس ثواب کی لالچ ہوگی اور اس عقاب سے دھشت ہوگی ۔مثال کے طور پر کسی آدمی کو یہ معلوم ہو کہ تجارت اپنی جگہ پر نفع بخش ہے (یعنی اس کی نظر میں اتنی بات اپنی جگہ پر پہلے سے ثابت ہے کہ تجارت میں ”نفع“ ہوتا ہے) لیکن اسے کوئی یہ بتائے کہ تجارت میں ”بہت ہی زیادہ نفع“ ہے (تو یہ شخص اگراس کی بات قبول کرلے اور اس امید پر تجارت شروع کردے ) تو اگر یہ بات سچ ثابت ہوئی تو اس کا فائدہ اسے ملے گا اوراگر جھوٹ ثابت ہوئی تو اس بات سے اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ [مجموع الفتاوى،الباز المعدلة: 18/ 66 ]
یہی معاملہ ثابت شدہ ”اعمال“ کے ”فضائل“ میں مروی ضعیف احادیث کا ہے کہ ضعیف احادیث میں بیان کردہ خاص بات سچ ثابت ہوئی توعمل کرنے والے کو یہ خاص فائدہ مل جائے گا اور اگر جھوٹ ثابت ہوئی تو گرچہ یہ خاص فائدہ نہ ملے تو لیکن اصل عمل کا نارمل ثواب تو اسے ملے گا ہی ۔یعنی دونوں صورتوں میں کوئی خسارہ کی بات نہیں ہے ۔ لہٰذا ”فضائل اعمال“ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
الغرض یہ کہ اہل علم نے صرف ”فضائل اعمال“ میں ضعیف احادیث پر عمل کرنے کی گنجائش دی ہے نہ کہ ”اعمال“ میں۔افسوس ہے بہت سارے لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے اور ”فضائل اعمال“ کے بجائے ”اعمال“ ہی میں ضعیف حدیث قبول کرلیتے ہیں اور اس پر عمل شروع کردیتے ہیں حالانکہ اصل اعمال میں ضعیف حدیث قبول کرنے کی بات ائمہ و محدثین میں سے کسی ایک نے بھی نہیں کہی ہے بلکہ سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ اعمال کے ثبوت کے لئے ضعیف حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
ولم يقل أحد من الأئمة إنه يجوز أن يجعل الشيء واجبا أو مستحبا بحديث ضعيف ومن قال هذا فقد خالف الإجماع
ائمہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ بات نہیں کہی ہے کہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی عمل کو واجب یا مستحب بنانا جائز ہےاس لئے جو کوئی ایسی بات کرے وہ اجماع امت کا مخالف ہے۔[مجموع الفتاوى، الباز المعدلة:1/ 251]

اورفضائل میں بھی جن اہل علم نے ضعیف احادیث پرعمل کی بات کہی ہے انہوں نے علی الاطلاق یہ بات نہیں کہی ہے بلکہ اس کی کچھ شرطیں بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) ضعیف حدیث صرف ”اعمال کے فضائل“ میں بیان کی جائے نہ کہ ”اعمال کی مشروعت“ اوراس کے ثبوت میں۔(تدریب الراوی ص:196)
(2) ضعیف حدیث کا ضعف سخت وشدید نہ ہو۔(تبيين العجب لابن حجر ص: 2،القول البديع للسخاوي: ص: 255)
(3) ضعیف حدیث کا مضمون کسی آیت یا صحیح حدیث کے خلاف نہ ہو۔(تبيين العجب لابن حجر ص: 2 )
(4) ضعیف حدیث کے مضمون کی دیگر عام آیات یا احادیث سے تائید ہوتی ہو ۔( فتح المغيث1/ 351)
(5) ضعیف حدیث بیان کرتے وقت اس کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے۔(تبيين العجب لابن حجر ص: 2)
(6)ضعیف حدیث کو مشہور نہ کیا جائے تاکہ جاہل یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ عین یہی بات ثابت شدہ اور صحیح ہے۔(تبيين العجب لابن حجر ص: 2)
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں:[ تبيين العجب لابن حجر ص: 2 ، القول البديع للسخاوي: ص: 255 ،فتح المغيث للسخاوي 1/ 351،تدریب الراوی للسيوطي ص:196]

یہ شرائط ان اہل علم کی طرف سے ہیں جو فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پر عمل کی گنجائش دیتے ہیں ۔ان حضرات کاخیال ہے کہ ان شرائط کے ساتھ اگر ثابت شدہ اعمال کے فضائل میں ضعیف حدیث کو قبول کیا جائے تو اس سے اصل اعمال پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے جیساکہ ماقبل میں ان کا موقف واضح کیا گیا ہے۔
لیکن یہ موقف درست نہیں ہے کیونکہ گرچہ اس سے اصل اعمال پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اعمال کی فضیلت شریعت کا حصہ ہے یعنی جب یہ فضیلت بیان کی جاتی ہے تو اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت ہوتی ہے ۔ اور بغیرثبوت کے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کی نسبت کرنا بہت بڑا گناہ ہے اس پر جہنم کی وعید ہے۔یہی وجہ ہے کہ سلف سے خلف تک اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کہ ضعیف حدیث پر علی الاطلاق عمل ناجائز ہے نہ اعمال میں اس کی گنجائش ہے نہ فضائل اعمال میں ۔
یہی بات راجح ہے اس کی تفصیل ملاحظہ ہو:

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل قرآن کی روشنی میں:
اللہ کاارشاد ہے:
{ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ }
کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔[الشورى: 21]
اس آیت میں اللہ نے واضح کردیا کہ شریعت بنانا صرف اللہ کا کام ہے اور کسی عمل کی فضیلت بتلانا یہ بھی شریعت کاحصہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام، أو في الفضائل، إذ الكل شرع.
حدیث پر عمل کرنے میں احکام اور فضائل کا کوئی فرق نہیں ہے کہ سب شریعت ہیں [تبيين العجب ص: 2]۔
لہٰذا جب عمل کی فضیلت بھی شریعت کا حصہ ہے توشریعت کی طرف کوئی بات بغیر ثبوت کے منسوب نہیں کی جاسکتی ۔

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل احادیث کی روشنی میں:
امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273)نے کہا:
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا يحيى بن يعلى التيمي، عن محمد بن إسحاق، عن معبد بن كعب، عن أبي قتادة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على هذا المنبر: «إياكم وكثرة الحديث عني، فمن قال علي، فليقل حقا أو صدقا، ومن تقول علي ما لم أقل، فليتبوأ مقعده من النار»
ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منبر پر فرماتے سنا: ”تم مجھ سے زیادہ حدیثیں بیان کرنے سے بچو، اگر کوئی میرے حوالے سے کوئی بات کہے تو وہ صحیح اور سچی بات ہی کہے، اور جو شخص گھڑ کر میری طرف ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے“[سنن ابن ماجه 1/ 14 رقم 35 وإسناده حسن وهو في المصنف لابن أبي شيبه : 8/ 573 بهذ الطريق واللفظ ، وأخرجه أحمد في مسنده 5/ 297 من طريق محمدبن عبيد به وصرح ابن إسحاق عنده بالسماع ، وأخرجه جماعة بل تواترت الأخبار بمعناه وببعض لفظه]
ملاحظہ فرمائیں کہ اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صرف سچی اور صحیح بات ہی منسوب کی جائے ۔اورکسی عمل کی کوئی فضیلت بیان کرنا اس فضیلت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا ہے اس لئے یہ نسبت تب تک نہیں کی جاسکتی جب تک کہ یہ بات صحیح و سچ ثابت نہ ہو اورضعیف احادیث صحیح وسچ ثابت نہیں ہوتی ہیں اس لئے نہ تو ضعیف احادیث بیان کرسکتے ہیں اورنہ ہی اس پر عمل کرسکتے ہیں ۔

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر آثار صحابہ کی روشنی میں:
بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف اس وجہ سے احادیث بیان نہیں کرتے تھے کہ کہیں بھول سے کوئی غلط بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہوجائے چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا أبو الوليد، قال: حدثنا شعبة، عن جامع بن شداد، عن عامر بن عبد الله بن الزبير، عن أبيه، قال: قلت للزبير: إني لا أسمعك تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يحدث فلان وفلان؟ قال: أما إني لم أفارقه، ولكن سمعته يقول: «من كذب علي فليتبوأ مقعده من النار»
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے والد یعنی زبیررضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں،زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔[صحيح البخاري 1/ 33 رقم 107]
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا أبو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، عن عبد العزيز، قال أنس: إنه ليمنعني أن أحدثكم حديثا كثيرا أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من تعمد علي كذبا، فليتبوأ مقعده من النار»
انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔[صحيح البخاري 1/ 33 رقم 108]
ملاحظہ فرمائیں کہ بعض صحابہ کرام ضعیف تو درکنار صحیح احادیث اس ڈر سے بیان نہیں کرتے تھے کہ کہیں انجانے میں اس میں کوئی ایسی بات شامل نہ ہوجائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کاحصہ نہ ہو اور پھر جہنم کی وعید کا وبال سرپر آئے۔اور آج بعض حضرات کاحال یہ ہے کہ وہ صحیح نہیں بلکہ ضعیف احادیث اور وہ بھی عمدا اور جان بوجھ کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اس بات سے ذرا بھی نہیں ڈرتے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط بات منسوب ہوئی تو اس کا انجام کیا ہوگا۔
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حدثني أبو أيوب سليمان بن عبيد الله الغيلاني، حدثنا أبو عامر يعني العقدي، حدثنا رباح، عن قيس بن سعد، عن مجاهد، قال: جاء بشير العدوي إلى ابن عباس، فجعل يحدث، ويقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل ابن عباس لا يأذن لحديثه، ولا ينظر إليه، فقال: يا ابن عباس، مالي لا أراك تسمع لحديثي، أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تسمع، فقال ابن عباس: " إنا كنا مرة إذا سمعنا رجلا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ابتدرته أبصارنا، وأصغينا إليه بآذاننا، فلما ركب الناس الصعب، والذلول، لم نأخذ من الناس إلا ما نعرف "
‏‏‏‏ مجاہد سے روایت ہے بشیر بن کعب عدوی(تابعی) رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور حدیث بیان کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے“ ،”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے“ ۔توابن عباس رضی اللہ عنہما نےنہ یہ احادیث سنیں اور نہ ان کی طرف دیکھا ۔اس پر بشیر بن کعب نے کہا: ابن عباس ! آپ کو کیا ہوا جو میری بات نہیں سنتے۔ میں حدیث بیان کرتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ نہیں سنتے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک وہ وقت تھا جب ہم کسی شخص سے یہ سنتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا تو اسی وقت اس طرف دیکھتے اور کان لگا دیتے۔ پھر جب لوگ بری اور اچھی راہ چلنے لگے (یعنی غلط روایتیں شروع ہو گئیں) تو ہم لوگوں نے سننا چھوڑ دیا مگرصرف وہی احادیث جن کو ہم پہچانتے ہیں (یعنی جو صحیح وثابت ہوتی ہیں)[صحيح مسلم 1/ 13]
اس واقعہ میں تابعی نے صرف ایک واسطہ چھوڑ کر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کی، ایسی احادیث کو بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے قابل سماعت نہیں سمجھا اور غیر معروف کا حکم لگادیا اور آج حال یہ ہے کہ ایسی ضعیف احادیث بیان وعمل میں لائی جاتی ہیں جن میں نہ صحابی وتابعی کے بعد واسطے ساقط ہوتے یا غیرمعتبر ہوتے ہیں۔

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر ائمہ ومحدثین نظرمیں:
متقدمیں ائمہ حدیث میں کوئی بھی اس بات قائل نہیں ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جاسکتاہے۔یہ قول بہت بعد میں متاخرین کی طرف سے آیا ہے لیکن متاخرین میں بھی سب نے اسے قبول نہیں کیا ہے بلکہ کئی ایک نے اس کی تردید کی ہے ذیل میں چند اہل علم کے حوالے پیش خدمت ہیں:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) کے یہاں احادیث کی تحقیق کا جو معیار اورصحت کا جو التزام تھا اسے دیکھتے ہوئے کئی اہل علم نے صراحت کی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے یہاں ضعیف حدیث مطلقا قابل قبول نہیں ہے نہ اعمال میں نہ فضائل اعمال میں دیکھئے: [قواعد التحديث ص113 ]

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) محدثین کے منہج کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وإنما ألزموا أنفسهم الكشف عن معايب رواة الحديث، وناقلي الأخبار، وأفتوا بذلك حين سئلوا لما فيه من عظيم الخطر، إذ الأخبار في أمر الدين إنما تأتي بتحليل، أو تحريم، أو أمر، أو نهي، أو ترغيب، أو ترهيب
محدثین نے اپنے اوپر لازم کیا کہ رواۃ حدیث کے عیوب بیان کریں اورسوال کرنے پرانہوں نے یہ عیوب بیان کئے ہیں کیونکہ یہ بڑے خطرے والی بات تھی وہ اس طرح کی دین کے معاملے میں بیان کردہ احادیث میں کسی چیز کو حرام یاحلال کیا جاتاہے ،یا کسی چیز کاحکم ہوتا ہے یا کسی چیز سے ممانعت ہوتی ہے ، یا کسی بات کی ترغیب دلائی جاتی ہےیا کسی بات سے خوف دلایا جاتاہے۔[مقدمہ صحيح مسلم: 1/ 28]
امام ابن رجب رحمه الله فرماتے ہیں:
وظاهر ما ذكره مسلم في مقدمة كتابه يقتضي أنه لا تروى أحاديث الترغيب والترهيب إلا عمن تروى عنه الأحكام
امام مسلم نے اپنی کتاب (صحیح مسلم) کے مقدمہ میں جو ذکر کیا ہے اس کا مفاد یہ ہے کہ ترغیب و ترہیب (فضایل ووعید) کی احادیث بھی انہیں لوگوں سے لی جائیں گی جن سے احکام (اعمال) کی روایات لی جائیں گی[شرح علل الترمذي لابن رجب، ت همام: 1/ 372]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) ، امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) اور امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327) رحمہم اللہ بھی مرسل وضعیف احادیث سے مطلقا حجت پکڑنے کے قائل نہیں ابن ابی حاتم رحمہ للہ کہتے ہیں:
سمعت أبي وأبا زرعة يقولان: لا يحتج بالمراسيل، ولا تقوم الحجة إلا بالأسانيد الصحاح المتصلة, وكذا أقول أنا
میں نے اپنے والداور ابوزرعہ (رحمہماللہ) کو کہتے ہوئے سنا کہ: مراسیل سے دلیل نہیں لی جائے گی بلکہ صرف صحیح اورمتصل احادیث ہی سے دلیل لی جائے گی۔ اور میرا بھی یہ ماننا ہے[المراسيل لابن أبي حاتم ت الخضري: ص: 7]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)فرماتے ہیں:
ما روى الضعيف وما لم يرو في الحكم سيان
ضعیف راوی کا روایت کرنا اور روایت نہ کرنا حکم میں دونوں برابر ہے[المجروحين لابن حبان: 1/ 328]

قاضي أبو بكر بن العربي (المتوفى 543)فرماتے ہیں:
الحديث الضعيف لا يعمل به مطلقا
ضعیف حدیث پر مطلقا عمل نہیں کیا جائے گا (یعنی نہ اعمال میں نہ فضائل اعمال میں)[النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي 2/ 310 ، تدريب الراوي 1/ 351]

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
ولا يجوز أن يعتمد في الشريعة على الأحاديث الضعيفة التي ليست صحيحة ولا حسنة
ضعیف احادیث جو نہ صحیح ہوں نہ حسن ہوں ان پر شریعت میں اعتماد کرنا جائز نہیں ہے[قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة ص: 123]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)فرماتے ہیں:
ولا فرق في العمل بالحديث في الأحكام، أو في الفضائل، إذ الكل شرع
حدیث پر عمل کرنے میں احکام (اعمال) اور فضائل میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ یہ سب شریعت کا حصہ ہیں۔[تبيين العجب ص: 2]۔

مولانا عبد الحي اللكنوي (المتوفى1304)فرماتے ہیں:
ويحرم التساهل فيه سواء كان في الأحكام والقصص أو الترغيب والترهيب أو غير ذلك
ضعیف حدیث میں تساہل برتنا حرام ہے خواہ احکام و قصص کا معاملہ ہو یا فضائل ووعید وغیرہ کا معاملہ ہو۔[الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص: 21]

عصرحاضر کے محدثین میں علامہ معلمی ، علامہ احمد شاکر اور علامہ البانی رحمہم اللہ کا بھی یہی موقف ہے دیکھیں:[الأنوار الكاشفة للمعلمي ص: 88، الباعث الحثيث لأحمد شاكر: ص76، صحيح الجامع الصغير للألباني:1/45]

بعض شبہات کا ازالہ:
اولا:
بعض محدثین نے ضعیف رواۃ کی احادیث کو لکھنے اور روایت کرنے کی جواجازت دی ہے اس سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان محدثین نے ضعیف احادیث پر عمل کرنے اجازت دے دی ہے علامہ معملی رحمہ اللہ(المتوفى1386) اس غلط فہمی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
معنى التساهل في عبارات الأئمة هو التساهل بالرواية, كان مِنَ الأئمة مَنْ إذا سمع الحديث لم يروه حتى يتبين له أنه صحيح أو قريب من الصحيح أو يوشك أن يصح إذا وجد ما يعضده، فإذا كان دون ذلك لم يروه البتة. ومنهم مَن إذا وجد الحديث غير شديد الضعف وليس فيه حكم ولا سنَّة، إنما هو في فضيلةِ عَمَلٍ متفق عليه، كالمحافظة على الصلوات في جماعة ونحو ذلك، لم يمتنع من روايته. فهذا هو المراد بالتساهل في عباراتهم. غير أنَّ بعضَ مَن جاء بعدهم فهِم منها التساهل فيما يرد في فضيلةٍ لأمر خاصّ قد ثبت شرعه في الجملة، كقيام ليلة معينة، فإنها داخلة في جملة ما ثبت مِنْ شَرْع قيام الليل. فبنى على هذا جواز أو استحباب العمل بالضعيف، وقد بَيَّن الشاطبيّ في "الاعتصام" خطأ هذا الفهم
ائمہ حدیث کی عبارات میں (احادیث کے بارے میں) تساہل سے مراد ان احادیث کی روایت کرنے میں تساہل برتنا ہے ۔دارصل بعض ائمہ جب کوئی حدیث سنتے تھے تو تب تک اس کی روایت شروع نہیں کرتے تھے جب تک کہ ان کی نظر میں واضح نہیں ہوجاتا کہ وہ حدیث صحیح یا صحیح کے قریب ہے یا شواہد متابعات کے ملنے پراس کے صحیح ہونے کی امید ہے ۔لیکن اگر اس سے کم تردرجے کی حدیث ہوتی تو یہ ائمہ اسے سرے سے روایت ہی نہیں کرتے تھے ۔جبکہ ان کے برخلاف دیگرائمہ جب ایسی حدیث پاتے جو شدید ضعیف نہ ہوتی اوراس میں کسی حکم اور سنت کا ذکر نہ ہوتا بلکہ اس میں ثابت شدہ اور متفق علیہ بات کی فضیلت ہوتی جیسے پنجوقتہ نمازوں کی باجماعت پابندی کی فضیلت وغیرہ تو یہ ائمہ اس طرح کی احادیث کو روایت کرنے سے نہیں رکتے تھے، اسی کو ان کے یہاں روایات میں تساہل سے تعبیرکیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں متاخرین میں سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس تساہل کا تعلق ان روایات سے ہے جو کسی خاص ایسے امر کی فضیلت میں وارد ہو جو عمومی طور پر ثابت ہو مثلا کسی معین رات کاقیام کرنا کیونکہ عمومی طور راتوں کا قیام شرعا ثابت ہے۔ پھر اس غلط فہمی کی بنیاد پر یہ سمجھ لیا کہ ضعیف حدیث پرعمل جائز یا مستحب ہے، امام شاطبی رحمہ اللہ نے اعتصام میں (متاخرین کی )اس غلط فہمی کا رد کیا ہے۔[الأنوار الكاشفة للمعلمي ص: 88، آثار الشيخ العلامة المعلمي اليماني 12/ 118]

ثانیا:
امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ رائے اورقیاس کے مقابلے میں ضعیف حدیث پر عمل کرلیا جائے گا ،لیکن امام احمد رحمہ اللہ سے صراحتا بسند صحیح ایسی کوئی بات نہیں مل سکی، امام ابن القیم رحمہ اللہ نے امام احمد کے بیٹے عبداللہ کے واسطے نقل کیا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:
الحديث الضعيف أحب إلي من الرأي
ضعیف حدیث میرے نزدیک رائے سے زیادہ پسندیدہ ہے [إعلام الموقعين ت مشهور: 2/ 145]
اس قول کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کے یہاں رائے و قیاس پر ضعیف حدیث مقدم تھی لیکن امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول خاص پس منظر میں ہے امام احمد رحمہ اللہ کی جو بات ان کے بیٹے عبداللہ کے بیان میں ہے وہ یوں ہے :
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى 290)نے کہا:
سألت ابي عن الرجل يريد ان يسأل عن الشيء من امر دينه مما يبتلى به من الايمان في الطلاق وغيره وفي مصر من اصحاب الرأي ومن اصحاب الحديث لا يحفظون ولا يعرفون الحديث الضعيف ولا الاسناد القوي فلمن يسأل لاصحاب الرأي او لهؤلاء اعني اصحاب الحديث على ما قد كان من قلة معرفتهم قال يسأل اصحاب الحديث لا يسأل اصحاب الرأي ضعيف الحديث خير من رأي ابي حنيفة
امام احمد کے بیٹے عبداللہ بن احمد کہتے ہیں‌ میں نے والد محترم امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھاکہ کہ ایک آدمی دین کے سلسلے میں درپیش مسائل پوچھنا چاہتا ہے مثلا طلاق کی قسم وغیرہ کا مسئلہ اور شہرمیں اہل الرائے بھی ہیں اورایسے اہل الحدیث بھی ہیں جنہیں احادیث‌ صحیح‌ سے یاد نہیں‌ ہے انہیں ضعیف حدیث کا بھی علم نہیں ہے اورنہ ہی صحیح سند کا ۔دریں صورت سائل کس سے سوال کرے اہل الرائے سے؟ یا کم علم اہل حدیث سے ؟امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسی صورت میں سائل اہل حدیث ہی سے مسئلہ پوچھے اہل الرائے سے ہرگز نہ پوچھے، کیونکہ ضعیف حدیث‌ ابوحنیفہ کی رائے سے تو بہتر ہی ہے۔[مسائل أحمد، رواية عبد الله، ت زهير: ص: 438 وإسناده صحيح]
ملاحظہ فرمائیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے خاص پس منظر میں مذموم اور کمزور رائے کے سلسلے میں یہ بات کہی ہے وہ بھی بطور موازنہ کہی ہے یعنی مقصود صرف نسبتا موازنہ ہے کہ رائے کی بنسبت ضعیف حدیث زیادہ بہترہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ”موضوع حدیث“ اور ”سخت ضعیف حدیث“ کا آپس میں موازنہ کرکے کہا جائے کہ سخت ضعیف حدیث ، موضوع حدیث سے بہتر ہے ، اب اس کا یہ مطلب نکالنا غلط ہوگا کہ سخت ضعیف حدیث کو قابل قبول بتادیاگیا۔
اس سلسلے میں امام احمد کے جو دیگر اقوال پیش کئے جاتے ہیں وہ اس قبیل سے ہیں جس کی وضاحت علامہ معلمی رحمہ اللہ نے کی ہے جیساکہ اوپر نقل کیا گیا۔

ثالثا:
صاف پانی کے بارے میں ایک صحیح حدیث ہے کہ ”الماء طهور لا ينجسه شيء“ یعنی پانی پاک ہے، اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی [سنن أبي داود 1/ 17 رقم 66 وإسناده حسن]
اسی سلسلے کی ایک حدیث میں یہ اضافہ ہے :
”إن الماء لا ينجسه شيء إلا ما غلب على ريحه وطعمه ولونه“ ( پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر جو چیز اس کی بو، ذائقہ اور رنگ پر غالب آ جائے)[سنن ابن ماجه 1/ 174 رقم 521]
اس اضافہ کے ساتھ یہ حدیث ضعیف ہے اس کے ضعیف ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے لیکن اس اضافہ میں جو بات ہے تمام فقہاء نے وہی بات کہی ہے ۔اس سے کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ بعض ضعیف احادیث کوقبول کیا جاسکتا ہے اور مثال میں یہ حدیث پیش کی جاتی ہے کہ اسے ضعیف ہونے کے باوجود بھی اہل علم نے قبول کیا ہے۔
لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ جن اہل علم نے یہ بات کہی ہے وہ اس حدیث کی بناپر نہیں کہی ہے بلکہ دیگر عمومی دلائل کی وجہ یہ بات کہی ہے مثلا :
امام شافعي رحمه الله (المتوفى204) رحمہ اللہ نے کہا:
وما قلت من أنه إذا تغير طعم الماء أو ريحه أو لونه كان نجسا، يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم من وجه لا يثبت مثله أهل الحديث، وهو قول العامة، لا أعلم بينهم فيه اختلافا، ومعقول أن الحرام إذا كان جزأ في الماء لا يتميز منه، كان الماء نجسا، وذلك أن الحرام إذا ماس الجسد فعليه غسله، فإذا كان يجب عليه غسله بوجوده في الجسد لم يجز أن يكون موجودا في الماء، فيكون الماء طهورا والحرام قائم موجود فيه
اوریہ جو میں نے کہا کہ جب پانی کا ذائقہ ، اس کا رنگ اوراس کی بو بدل جائے تو پانی ناپاک ہوگا تو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بھی مروی ہے مگر اس کی سند ایسی ہے جس سے محدثین کے یہاں حدیث صحیح ثابت نہیں ہوتی ہے(یعنی یہ حدیث استدلال کے لائق نہیں ہے)۔لیکن عام اہل علم کا یہی قول ہے، میں ان کے درمیان اس میں اختلاف نہیں جانتا ۔اور یہ بات عام فہم ہے کہ حرام چیز جب پانی کا حصہ بن جائے اور اس سے الگ ہی نہ ہو تو پانی ناپاک ہوجائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حرام چیز جب جسم پر لگ جاتی ہے تو اس کا دھلنا ضروری ہوتا ہے، تو جب جسم پر حرام چیز کے پائے جانے سے اس کا دھلنا ضروری ہوجاتا ہے تو یہی حرام چیز پانی کے اندر موجود ہو تو پانی کیسے پاک رہ سکتا ہے جبکہ اس کے اندر حرام چیز موجود ہے[اختلاف الحديث (مطبوع ملحقا بالأم للشافعي): 8/ 612]
غور کریں کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ بیان کرکے صراحت کردی کہ اس سلسلے میں ایک صریح حدیث بھی مروی ہے مگروہ صحیح و ثابت نہیں ہے یعنی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا، پھر اس حدیث کو ناقابل استدلال بتا کر امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے اس قول کی دلیل یہ پیش کی کہ پانی کا رنگ ، ذائقہ اور بو بدل جانے کامطلب اس میں حرام چیز کا شامل ہوجانا ہے ، اورحرام چیز جب جسم پر لگ جائے تو اس بارے میں دلائل موجود ہیں کہ جسم سے اس حرام چیز کو صاف کرنا لازم ہے ۔ لہٰذا اسی طرح جب پانی میں حرام چیز کی آمیزش ہوجائے اور وہ حرام چیز پانی سے الگ نہ ہوسکے تو پھر یہ پانی بھی حرام ہی ہوگا۔

امام احمد رحمہ اللہ کے شاگرد حرب بن إسماعيل الكرماني (المتوفى 280) نے کہا:
سئل أحمدُ -وأنا أسمعُ- عن الماء إذا تغيَّرَ طعمُه وريحُه؟ قال: لا يتوضأ به ولا يشرب، وليس فيه حديث، ولكن الله تعالى حرم الميتة، فإذا صارت الميتة في الماء، فتغير طعمه أو ريحه فذلك طعم الميتة وريحها، فلا يحل، وقال: ذلك أمرٌ ظاهر
امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا اور میں سن رہا تھا کہ جب پانی کا ذائقہ اور اس کی بو بدل جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا: ایسے پانی سے نہ وضوء کیا جائے گا نہ اسے پیا جائے گا ،اس سلسلے میں کوئی (صریح وصحیح) حدیث نہیں ہے ، لیکن اللہ نے مردار کوحرام قراردیا ہے تو جب مردار پانی میں مل جائے اور اس پانی کا ذائقہ اور بول بدل جائے تو یہ ذائقہ اور بو مردار کا ہوگا لہٰذا یہ حلال نہ ہوگا امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا : یہ بالکل ظاہر بات ہے [مسائل حرب الكرماني ت عامر ص: 180،الجامع لعلوم الإمام أحمد 21/ 12]
غور کریں امام احمد رحمہ اللہ نے یہاں یہ بات قرآنی حکم سے استدلال کرتے ہوئے کہی ہے نہ کہ مذکورہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر بلکہ یہاں امام احمد رحمہ اللہ نے تو صراحت بھی کردی کہ اس سلسلے میں کوئی حدیث نہیں ہے یعنی کوئی صریح حدیث بسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
امام احمد کے قول کی تشریح میں أبو بكر أحمد الخلال (المتوفى311) سے منقول ہے:
إنما قال أحمد: ليس فيه حديث لأنَّ هذا الحديث يرويه سليمان بن عمر، ورشدين بن سعد، وكلاهما ضعيف،
امام احمد نے جو یہ کہا کہ اس سلسلے میں کوئی حدیث نہیں تو اس وجہ سے کیونکہ اس سلسلے کی حدیث کو سليمان بن عمر اور رشدين بن سعد نے روایت کیا ہے اوردونوں ضعیف ہے[الجامع لعلوم الإمام أحمد 5/ 192]
معلوم ہوا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کی بنیاد پر یہ بات نہیں کہی بلکہ دیگر دلائل سے اس کے لئے استدلال کیا ۔

امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
وأما إذا تغير لون الحلال الطاهر - بما مازجه من نجس أو حرام - أو تغير طعمه بذلك، أو تغير - ريحه بذلك، فإننا حينئذ لا نقدر على استعمال الحلال إلا باستعمال الحرام، واستعمال الحرام في الأكل والشرب وفي الصلاة حرام كما قلنا، ولذلك وجب الامتناع منه
جب حلال اور پاک پانی کا رنگ نجس اور حرام چیز کی آمیزش سے بدل جائے یا اس کا ذائقہ بدل جائے یا اس کی بو بدل جائے تو اس وقت ہم حرام کی آمیزش کے بغیرخالص حلال کا استعمال نہیں کرسکتے ، اور کھانے پینے اور نماز میں حرام کا استعمال ممنوع ہے جیساکہ ہم نے کہاہے لہٰذا اس طرح کے پانی کے استعمال سے بچنا ضروری ہوگا۔[المحلى لابن حزم، ت بيروت: 1/ 143]
یہاں امام ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی یہ بات کہی کہ پانی کا رنگ ، ذائقہ اور بو بدل جائے تو وہ ناپاک اور ناقابل استعمال ہے لیکن یہ بات کہنے کے لئے انہوں نے مذکورہ ضعیف حدیث کو بنیاد نہیں بنایا بلکہ یہ واضح کیا کہ پانی کا رنگ ، ذائقہ اور بو حرام چیز کی آمیزش سے بدل جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حرام چیز پورے پانی میں شامل ہوگئی ہے اورایسی صورت میں اس پانی کا استعمال اس حرام چیز کااستعمال ثابت ہوگا اور کھانے پینے اور نماز کے لئے حرام چیز کااستعمال کئی دلائل سے ممنوع ہے۔

ان اقوال سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اس سلسلے میں اہل علم نے جو مسئلہ بیان کیا ہے انہوں نے اس کے لئے مذکورہ ضعیف حدیث سے استدلال نہیں کیا ہے بلکہ اس کے برعکس کئی اہل علم مثلا امام شافعی اور امام احمدبن حنبل رحمہا اللہ نے یہ صراحت کردی ہے کہ اس مسئلہ میں ان کااستدلال اس ضعیف حدیث سے نہیں بلکہ دیگردلائل سے ہے۔
اس لئے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ فقہاء واہل علم نے مذکورہ ضعیف حدیث کی بناپر یہ بات کہی ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ فقہاء و اہل علم کی اسی بات ہی کو لیکرکسی ضعیف راوی نے حدیث میں شامل کردیا ہے اور پھر دوسرے کئی ضعیف رواۃ بھی اس حدیث میں یہ الفاظ شامل کرتے گئے ۔
اور یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے بلکہ حدیث کے طلاب بخوبی واقف ہیں کہ بہت سی احادیث میں ضعیف رواۃ نے وہم اور حافظے کی غلطی سے فقہاء واہل علم کے اقوال و فتاوی کو حدیث بناڈالا ہے یا کسی صحیح حدیث میں شامل کرڈالا ہے۔
بعض رواۃ پر محدثین نے جرح ہی اسی وجہ سے کی ہے کہ وہ صحابہ یا تابعین کے فتاوی کو مرفوع حدیث بنادیا کرتے تھے۔
یہی معاملہ مذکورہ ضعیف حدیث کا بھی ہے کہ اہل علم نے اس حدیث کی بنیاد پر فتوی نہیں دیا ہے بلکہ اہل علم کے فتوی ہی کو ضعیف رواۃ نے حدیث بنا ڈالا ہے۔
یہ چند شہبات تھے جن کا ازالہ ہم نے ضروری سمجھا تاکہ ضعیف حدیث پر عمل کے سلسلے میں صحیح موقف کے واضح ہونے میں کوئی تشنگی باقی نہ رہے ۔اس پوری بحث کا ماحصل یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر کسی بھی مسئلہ عمل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کا تو سلف و ائمہ میں کوئی بھی قائل نہیں ہے اورفضائل اعمال میں بعض حضرات بعض شرطوں کے ساتھ قائل ہیں مگریہ موقف بھی درست نہیں ہے قرآن وحدیث ، اقوال صحابہ اور ائمہ سلف کی تصریحات سے اس کی پرزور تردید ہوتی ہے۔
لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ اعمال ہوں یا فضائل اعمال سب میں صرف صحیح وثابت احادیث ہی کو بنیاد بنایا جائے۔
زیرنظر کتاب میں قرآنی آیات کے جواب کا مسنون طریقہ بیان کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں واردتمام ضعیف ومردود روایات کی وضاحت کردی گئی ہے تاکہ ہرعام وخاص اس سے آگاہ ہوجائے اور خود کو اور دوسروں کو ان ضعیف ومردود روایات پر عمل کرنے سے باز رکھے ۔
قارئین سے گذارش ہے کہ کتاب میں جہاں کہیں غلطی و کوتاہی نظر آئے راقم الحروف کو اس سے آگاہ کریں تاکہ شکریہ کے ساتھ اصلاح کرلی جائے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
قرآنی آیات کے جواب سے متعلق ثابت شدہ روایات

غیرنماز میں جواب

عام آیات کا جواب
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا أبو أحمد قال: حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن خيثمة، عن الحسن، عن عمران بن حصين، أنه مر على قارئ يقرأ، ثم سأل فاسترجع، ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من قرأ القرآن فليسأل الله به، فإنه سيجيء أقوام يقرءون القرآن يسألون به الناس»
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک قاری کے پاس سے گذرے جو قرآن پڑھ رہا تھا۔ پھر اس نے ان سے کچھ مانگا (یعنی بھیک مانگی) تو عمران رضی اللہ عنہ نے (اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیہ رَاجِعُون) پڑھا پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے جو قرآن پڑھے تو اسے اللہ ہی سے مانگنا چاہیئے۔ کیونکہ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں سے مانگیں گے۔[ سنن الترمذي ت شاكر 5/ 179 رقم 2917 والحديث حسن بالشواهد وحسنه الألباني]
اس حدیث کی سنن ترمذی والی سند ضعیف ہے مگر اس کے بکثرت صحیح شواہد موجود ہیں مثلا دیکھئے :[مسند أحمد ط الميمنية: 3/ 357 وإسناده حسن]۔لہذا یہ حدیث حسن ہے۔
اس حدیث میں صراحتا قرآنی آیات کا جواب دینے کی بات تو نہیں ہے لیکن اس میں بوقت تلاوت اللہ سے جو مانگنے کا حکم ہے اس کی تشریح بعض اہل علم نے آیات کے جواب دینے سے کی ہے ۔علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
أو المراد أنه إذا مر بآية رحمة فليسألها من الله تعالى أو بآية عقوبة فيتعوذ إليه بها منها
یااس سے یہ مراد ہے کہ قاری جب رحمت کی آیات پڑھے تو اللہ سے اس کا سوال کرے اور جب عقاب کی آیات پڑھے تو اس سے اللہ کی پناہ طلب کرے[تحفة الأحوذي 8/ 189 ]


مخصوص آیات کا جواب
سورہ الرحمن (55) کی آیات {فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ} کے جواب سے متعلق مرفوع روایت:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثنا محمد بن عباد بن موسى، وعمرو بن مالك النضري قالا: ثنا يحيى بن سليمان الطائفي، عن إسماعيل بن أمية، عن نافع، عن ابن عمر قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قرأ سورة الرحمن، أو قرئت عنده، فقال: «ما لي أسمع الجن أحسن جوابا لربها منكم؟» قالوا: ماذا يا رسول الله؟ قال: " ما أتيت على قول الله: فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ؟ إلا قالت الجن: ” لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعْمَةِ رَبِّنَا نُكَذِّبُ“
ابن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الرحمن کی تلاوت کی یا آپ کے سامنے کسی اور نے تلاوت کی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا بات ہے کہ میں جنوں کو پاتا ہوں کہ وہ اپنے رب کا جواب تم سے بہتر دیتے ہیں ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کیسے اے اللہ کے رسول ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جب میں نے اللہ کا قول ”فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ“ پر پہنچتا تو جن کہتے : ” لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعْمَةِ رَبِّنَا نُكَذِّبُ“ ” ہم اپنے رب کی کسی نعمت کا بھی انکار نہیں کرتے “ [تفسير الطبري ،ط هجر: 22/ 190، وإسناده حسن ، وله شاهد عن جابر رضي الله عنه أخرجه الترمذي برقم 3291 واسناده ضعيف لعنعنة الوليد بن مسلم في بعض طبقات السند ، ولفظه ” لا بشيء من نعمك ربنا نكذب فلك الحمد“ ]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاص سورہ رحمن کی آیت فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ سننے والے ” لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعْمَةِ رَبِّنَا نُكَذِّبُ“ کہہ کر جواب دے سکتے ہیں لیکن یادرہے کہ یہ معاملہ نماز کے باہر کا ہے لہٰذا نماز کے اندر اس پر عمل کرنے کے لئے یہ حدیث دلیل نہیں بن سکتی ۔

سورہ الحدید (57) کی آیت نمبر (16) { أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا۔۔۔} کے جواب سے متعلق موقوف روایت:
امام ابن أبي الدنيا رحمہ اللہ(المتوفى:281) نے کہا:
حدثني الحسن بن الصباح، قال: حدثنا أبو أسامة، عن عثمان بن واقد، عن نافع، عن ابن عمر، أنه: كان إذا أتى على هذه الآية {أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ} [الحديد: 16] بكى حتى يبل لحيته البكاء، ويقول: «بلى يا رب»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ جب اس آیت {أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ} پر پہنچتے تو روتے یہاں تک کہ آنسو ان کی داڑھی کو تر کردیتے اور وہ کہتے : ”بلى يا رب“ (کیوں نہیں اے رب) ۔[الرقة والبكاء لابن أبي الدنيا ص: 82 وإسناده حسن ، وأخرجه الشجري فی الأمالي 2/ 347 من طريق الحسن بن الصباح به ، وأخرجه أيضا أبونعيم في معرفة الصحابة 3/ 1710 من طريق الحسن بن حماد عن أبي أسامه به بعضه وعزاه السيوطي إلي ابن المنذر بلفظ:”بلَى يَا رب بلَى يَا رب“ ،وانظر: الدر المنثور 8/ 59 ]

سورہ القيامة (75) کی آیت نمبر (27) {أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى} اورسورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}کے جواب سے متعلق موقوف روایت:
ابن الضريس الرازي (المتوفى 294)نے کہا:
أخبرنا عمرو بن مرزوق، قال: أخبرنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال: سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس، أنه قال: " إذا قرأت: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} [الأعلى: 1] وإذا قرأت: { أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى} [القيامة: 40] فقل: سبحانك، وبلى "
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب تم {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} پڑھو تو کہو : ”سبحانك“ (اللہ توپاک ہے) اور جب { أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى} پڑھو تو کہو: ”وبلى“ ( کیوں نہیں )[فضائل القرآن لابن الضريس ص: 31وإسناده صحيح ، وأخرجه أيضا البيهقي في شعب الإيمان(3/ 440) من طريق عاصم بن علي ولفظه:”إذا قرأ حدكم۔۔۔ اللهم فبلى أو اللهم سبحان ربي، فبلى“ ،وكذا أخرجه المستغفري فی فضائل القرآن (1/ 173) من طريق يحيي ولفظه : ”إذا قرأت۔۔۔سبحانك اللهم فبلى“ ، كلاهما(عاصم ويحيي) من طريق شعبه ۔ وأخرجه المستغفري في فضائل القرآن 1/ 173من طريق سلام أبي الأحوص،كلاهما(شعبه وسلام أبوالأحوص) عن أبي إسحاق به]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
نماز میں جواب


نفل نماز میں جواب
عام آیات کا جواب
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن نمير، وأبو معاوية، ح وحدثنا زهير بن حرب، وإسحاق بن إبراهيم، جميعا عن جرير، كلهم عن الأعمش، ح وحدثنا ابن نمير، واللفظ له، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، عن سعد بن عبيدة، عن المستورد بن الأحنف، عن صلة بن زفر، عن حذيفة، قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فافتتح البقرة، فقلت: يركع عند المائة، ثم مضى، فقلت: يصلي بها في ركعة، فمضى، فقلت: يركع بها، ثم افتتح النساء، فقرأها، ثم افتتح آل عمران، فقرأها، يقرأ مترسلا، إذا مر بآية فيها تسبيح سبح، وإذا مر بسؤال سأل، وإذا مر بتعوذ تعوذ، ۔۔۔الحدیث
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ بقرہ شروع کی اور میں نے دل میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شاید سو آیتوں پر رکوع کریں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔ پھر میں نے خیال کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوگانہ میں پوری سورت پڑھیں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔ پھر میں نے خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری سورت پر رکوع کریں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نساء شروع کر دی اور اس کو بھی تمام پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ آل عمران شروع کر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے اور جب گزرتے تھے ایسی آیت پر جس میں تسبیح ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان اللہ! کہتے، اور جب دعا والی آیت سے گذرتے تو دعا کرتے اور جب پناہ والی آیت سے گذرتے تو اللہ کی پناہ طلب کرتے[صحيح مسلم 2/ 536 رقم 772]

اس حدیث سے نفل نمازوں میں تسبیح ، دعا اور تعوذ والی آیات کا جواب دینا ثابت ہے لہٰذا نفل نمازوں میں یہ سنت ہے ۔لیکن اس پر فرض نمازوں کو قیاس نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ فرض نمازوں میں بھی یہ مسنون ہوتا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے ۔
بعض حضرات کا یہاں یہ اصول پیش کرنا درست نہیں ہے کہ جو چیز نفل میں ثابت ہے وہ فرض میں بھی جائز ہے کیونکہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض میں بھی اس پر عمل کیا ہوتا تو بہت سے صحابہ کے علم میں یہ بات آتی اور کئی ایک صحابہ اسے نقل فرماتے ۔کیونکہ صحابہ فرض نماز میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معمولی سی معمولی باتوں کو بھی نقل فرماتے تھے حتی کی سری نمازوں میں کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آیت کو تعلیما جہر سے پڑھا تو اسے بھی صحابہ نے نقل کیا ۔اس اہتمام کے باوجود بھی کسی صحابی نے یہ نقل نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں میں بھی تسبیح و دعا و تعوذ کی آیات کا جواب دیا ہے اس کا مطلب صاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں میں یہ عمل نہیں کیا ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع فرض میں یہ عمل نہیں کیا جائے گا۔

علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
هذا إنما ورد في صلاة الليل كما في حديث حذيفة المذكور في الكتاب بعد قليل فمقتضى الاتباع الصحيح الوقوف عند الوارد وعدم التوسع فيه بالقياس والرأي فإنه لو كان ذلك مشروعا في الفرائض أيضا لفعله صلى الله عليه و سلم ولو فعله لنقل بل لكان نقله أولى من نفل ذلك في النوافل كما لا يخفى
یہ (تسبیح ، دعاء اور تعوذ والی آیات کا جواب دینا) رات کی نفل نماز میں ثابت ہے جیساکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے لہٰذا صحیح اتباع کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات جیسی ثابت ہے اس پر ویسے ہی عمل کیا جائے اور قیاس و رائے سے اس میں وسعت نہ دی جائے ۔کیونکہ اگر فرض نمازوں میں بھی یہ چیز مشروع ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پر عمل کرتے اور صحابہ اسے نقل فرماتے بلکہ نفل نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کی بنسبت فرض نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو صحابہ بدرجہ اولی نقل کرتے جیساکہ ظاہر ہے[تمام المنة ص: 185]


مخصوص آیات کا جواب
سورہ الطور (52) کی آیت نمبر (27) {فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ } کے جواب سے متعلق موقوف روایت:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، أخبرنا أبو بكر أحمد بن إسحاق الفقيه، أخبرنا محمد بن غالب، حدثنا عمرو بن مرزوق، أخبرنا شعبة، عن الأعمش، ح قال: وحدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن أبي عدي، عن سعيد، عن سليمان، عن أبي الضحى، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها أنها كانت إذا قرأت {فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ }قالت: ”اللهم من علي وقني عذاب السموم“
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا جب (نفل نماز میں جیساکہ ابونعیم کی روایت ہے) {فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ }(پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہمیں تیز وتند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچا لیا) پڑھتیں تو کہتیں :”اللهم من علي وقني عذاب السموم“(اے الله مجھ پرکرم فرما اور مجھے تیز وتند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچا لے) [شعب الإيمان 3/ 436وإسناده صحيح ، عنعنة الأعمش مقبولة إذا روي شعبة عنه۔وأخرجه ابن أبي الدنيا فی الرقة والبكاء ص: 92 من طريق شيبان عن الأعمش به ۔وأخرجه ابن أبي شيبه 2/ 25 وابن أبي حاتم في تفسيره 10/ 3316من طريق وكيع عن الأعمش به ولفظهما: ”اللهم من علينا، وقنا عذاب السموم، إنك أنت البر الرحيم“۔وأخرجه أحمد في الزهد 1/ 303 فقال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن سفيان ، عن الأعمش ، عن أبي الضحى قال : حدثني من سمع عائشة نحوه ، ومن طريق أحمد أخرجه كذا أبونعيم في حلية الأولياء 2/ 48 وعنده ” تقرأ في الصلاة“]

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:

حدثنا عبدة ، عن هشام بن عروة ، عن عبد الوهاب ، عن جده عباد بن حمزة ، قال : دخلت على أسماء وهي تقرأ : {فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ} قال : فوقفت عليها ، فجعلت تستعيذ وتدعو . قال عباد : فذهبت إلى السوق ، فقضيت حاجتي ، ثم رجعت ، وهي فيها بعد تستعيذ وتدعو
عبادبن حمزہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اسماء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ {فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ }(پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہمیں تیز وتند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچا لیا) کی تلاوت کررہی تھیں ، کہتے ہیں پھر میں کھڑا ہوگیا تو وہ استعاذہ و دعا کرنے لگیں ، عبادبن حمزہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پھر میں بازار چلا گیا اور اپنا کام کرکے واپس آیا تو اسماء رضی اللہ عنہا اسی طرح استعاذہ و دعا کررہی تھیں (امام احمد کی روایت میں کہ وہ نماز کی حالت میں تھیں یعنی نفل نماز) [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 211وإسناده حسن ، عبدالوهاب بن يحيي بن عباد وثقه ابن حبان وحسن له الترمذي وأخرجه أيضا أبوعبيد في فضائل القرآن ص: 147بسند ضعيف من طريق عبد الوهاب بن يحيى بن حمزة، عن أبيه، عن جده به فزاد عن أبيه ، وفي لفظه :” وهي في الصلاة “، وأخرجه ابن عساكر في تاريخه 69/ 20 من طريق هشام بن عروه وفي إسناده لون آخر وهو ضعيف وفي لفظه أيضا : ” وهي تصلي“، وأخرجه أيضا أحمد من طريق ابن نمير عن هشام بن عروه عن أبيه ،قال: ” دخلت على أسماء وهي تصلي۔۔۔“فذكره ، كما في حلية الأولياء 2/ 55 و تخريج أحاديث إحياء علوم الدين 2/ 706، وإسناده صحيح أيضا وقال صاحب تخريج الإحياء: يحتمل أن يكون لهشام فيه طريقان ، انظر:تخريج أحاديث إحياء علوم الدين 2/ 706]

سورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} کے جواب سے موقوف روایات:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
عن الثوري، عن السدي، عن عبد خير الهمداني قال: سمعت عليا، قرأ في صلاة: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}، فقال: «سبحان ربي الأعلى»
عبد خير الهمداني کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو ایک نماز کے اندر پڑھتے ہوئے سنا کہ انہوں نے جب {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}(اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر) پڑھا تو کہا ”سبحان ربي الأعلى“(میرا بلند اللہ بہت ہی پاک ہے) [مصنف عبد الرزاق الصنعاني 2/ 451 وإسناده حسن ، وأخرجه ابن ابي شيبه 2/ 508، والآجري فی الشريعة 3/ 1097من طريق هارون بن إسحاق ۔والبيهقي في سننه 2/ 311 من طريق أحمد بن عبد الجبار ۔ثلاثتهم (ابن أبي شيبه وهارون وأحمدبن عبدالجبار) من طريق وكيع ۔وأخرجه أيضا الشافعي في الأم 7/ 175وأبوعبيد في فضائل القرآن ص: 153والطبري في تفسيره 24/ 309 من طريق ابن بشار۔ثلاثتهم (الشافعي وأبوعبيد وابن بشار) من طريق ابن مهدي ۔كلاهما(وكيع وابن مهدي ) عن الثوري به۔ وأخرجه أيضا عبد بن حميد كما في فضائل القرآن للمستغفري 1/ 178 بإسناده من طريق المسيب بن عبد خير عن أبيه به وهذا إسناد حسن أيضا ]

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا عبدة ، عن هشام ، قال : سمعت ابن الزبير يقرأ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} فقال :” سبحان ربي الأعلى“ وهو في الصلاة.
ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کو پڑھتے ہوئے سنا ،انہوں نے جب {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}(اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر) پڑھا تو کہا ”سبحان ربي الأعلى“(میرا بلند اللہ بہت ہی پاک ہے) ایساانہوں نے نماز کے اندر کیا [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 509وإسناده صحيح ، وأخرجه ابن أبي شيبه 2/ 509 والآجري في الشريعة 3/ 1099من طريق هارون بن إسحاق ، و المستغفري في فضائل القرآن (1/ 178)من طريق يوسف ، ثلاثتهم (ابن أبي شيبه و هارون و يوسف)من طريق وكيع عن هشام به]

امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227) نے کہا:
نا هُشيم, حدثنا أبو بشر, عن سَعِيد بن جُبير, قال: سمعتُ ابن عمر يقرأ: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}: ”سبحان ربي الأعلى“
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو پڑھتے ہوئے سنا ،انہوں نے جب {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}(اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر) پڑھا تو کہا ”سبحان ربي الأعلى“(میرا بلند اللہ بہت ہی پاک ہے) [سنن سعيد بن منصور (التكملة)8/ 319 وإسناده صحيح وأخرجه أبوعبيد في فضائل القرآن ص: 154 وأخرجه الطبري في تفسيره 24/ 309 من طريق يعقوب بن إبراهيم ،والحاكم في المستدرك 2/ 567 من طريق يعقوب بن إبراهيم،وشريح بن يونس، وأخرجه الآجري في الشريعة للآجري3/ 1097 من طريق زياد بن أيوب،وأخرجه عبد بن حميد كمافي فضائل القرآن للمستغفري 1/ 180من طريق حجاج بن منهال ، كلهم (سعيد بن منصور ويعقوب وشريح وزياد بن أيوب و حجاج بن منهال) من طريق هشيم به ]
نوٹ : اس سلسلے کے بعض آثار ضعیف ہیں جن کی وضاحت آگے ضعیف روایات کے بیان میں آرہی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مؤخر الذکر آثار میں فرض نماز کی صراحت نہیں ہے اور یہ ذکر ہے کہ یہ صحابہ نماز میں سورہ اعلی کی قرات کرتے ہوئے پہلی آیت کے جواب میں تسبیح پڑھتے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نفل نمازوں میں منفرد کی حیثیت سے ان صحابہ نے سورہ اعلی کی قرات کی اور پہلی آیت کے جواب میں تسبیح پڑھی ۔اوراس مسئلہ میں نفل نمازوں پر فرض نمازوں کو قیاس نہیں کرسکتے جیساکہ گذشتہ سطور میں مرفوع روایت پر بات کرتے ہوئے وضاحت کی جاچکی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
فرض نماز میں جواب
فرض نمازوں میں صرف اور صرف سورہ فاتحہ کے اختتام پر امام و مقتدی کا آمین کہنا ثابت ہے ۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، وأبي سلمة بن عبد الرحمن، أنهما أخبراه، عن أبي هريرة: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إذا أمن الإمام، فأمنوا، فإنه من وافق تأمينه تأمين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام «آمين» کہے تو تم بھی «آمين» کہو۔ کیونکہ جس کی «آمين» ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہو گئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔[صحيح البخاري 1/ 156 رقم 780]

اس کے علاوہ فرض نمازوں میں امام یا مقتدی کے لئے کسی اور آیت کا جواب دینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت نہیں ہے ۔لہٰذا ایساکرنا غیرمسنون ہے۔

فرض نماز میں سورہ اعلی کی پہلی آیت کا جواب اور ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ کا اثر
صحابہ میں صرف ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے متعلق صراحت کے ساتھ یہ بات ملتی ہے کہ انہوں نے جمعہ کی نماز میں جب {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}پڑھا تو کہا ”سبحان ربي الأعلى“ چناچہ :

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا عبدة بن سليمان، عن مسعر، عن عمير بن سعيد، قال: صليت مع أبي موسى الجمعة، فقرأ: بـ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}، فقال: «سبحان ربي الأعلى» وهو في الصلاة
عمیر بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز جمعہ اداکی تو انہوں نے جب {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}(اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر) پڑھا تو کہا ”سبحان ربي الأعلى“(میرا بلند اللہ بہت ہی پاک ہے), ایسا انہوں نے نماز کےا ندر کیا [مصنف ابن أبي شيبة، ت الحوت: 2/ 247 وإسناده صحيح وأخرجه البيهقي في سننه 2/ 311 ووالمستغفري في فضائل القرآن 1/ 178من طريق وكيع وأخرجه عبدالرزاق في مصنفه 2/ 451من طريق الثوري ، كلاهما(وكيع والثوري) عن مسعربه، وأخرجه أيضا أبوعبيد في فضائل القرآن ص: 154 وسعيدبن منصور في سننه 8/ 321من طريق حجاج عن عمير به ]

اس اثر سے متعلق سب سے پہلے یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ نے خود قرات کرنے کے بعد سورہ اعلی کی پہلی آیت کا جواب دیا تھا یعنی امام کی صورت میں آپ نے اس پر عمل کیا تھا لہٰذااس اثر میں مقتدی حضرات کے لئے دور دور تک کوئی دلیل نہیں ہے۔
رہا امام اور منفرد کی صورت میں اس پر عمل کرنا تو زیادہ سے زیادہ اسے کبھی کبھار کے لئے جائز قرار دیا جاسکتا لیکن اسے مؤکد عمل اور سنت راتبہ کی حیثیت نہیں دی جاسکتی کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض میں ایسا کچھ ثابت نہیں ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس سلسلے کی ابوداؤد اور بیہقی کی ایک مرفوع روایت جو عام تھی اور ان کی تحقیق میں صحیح تھی اس کی بنیاد پر لکھا کہ :
ابوداؤد والبیھقی بسند صحیح ،وهومطلق، فيشمل القراءة في الصلاة وخارجها، والنافلة والفريضة.وقد روى ابن أبي شيبة (2/132/2) عن أبي موسى الأشعري والمغيرة: أنهما كانايقولان ذلك في الفريضة.ورواه عن عمر وعلي إطلاقاً} .
اسے ابوداؤد اور بیہقی نے بسند صحیح روایت کیا ہے اور یہ مطلق ہے لہٰذا نماز کے اندر اور باہر اسی طرح نفل اور فرض سب نماز کو شامل ہے اور ابن ابی شیبہ نے ابوموسی الاشعری اور مغیرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ یہ حضرات اسے فرض نماز میں پڑھتے تھے اور عمر وعلی رضی اللہ عنہا سے مطلق طور پر روایت کیا ہے[صفة صلاة النبي:ص 92 ،أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم 1/ 410 ]

عرض ہے کہ یہ مرفوع روایت جو اطلاق کے ساتھ مروی ہے یہ ضعیف ہے جیساکہ ضعیف روایات کے بیان میں اس کی مفصل تحقیق آرہی ہے لہٰذا اس روایت کی بنیاد پر قائم علامہ البانی رحمہ اللہ کا یہ موقف بھی درست نہیں ہے۔رہی بات ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے اثر کی تو چونکہ اس کی تائید میں مروی مرفوع روایت ضعیف ہے لہٰذا یہ بھی مسنونیت کی دلیل نہیں بن سکتی ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کے جس اثر کو ابن ابی شیبہ کی طرف منسوب کیا ہے تو یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کا وہم ہے مصنف ابن ابی شیبہ میں مغیرہ رضی اللہ عنہ کا ایسا کوئی عمل سرے منقول ہی نہیں ہے۔
البتہ عروة بن المغيرة الکوفی تابعی رحمہ اللہ کا ایسا عمل منقول ہے دیکھئے:[مصنف ابن أبي شيبة. إشبيليا: 5/ 395]
غالبا انہیں کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سمجھ لیا واللہ اعلم۔
اور رہی عمر رضی اللہ عنہ سے مطلق روایت تو یہ منقطع و ضعیف ہے جیساکہ کہ ضعیف روایات کے بیان میں اس کی تفصیل آرہی ہے ۔
اور رہا علی رضی اللہ عنہ کا اثر تو ماقبل میں وضاحت ہوچکی ہے کہ اس کا نفل نماز سے متعلق ہونا ہی قرین صواب ہے۔
واضح رہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہاں صرف امام کے بارے میں اس عمل کی مشروعیت کی بات کہی ہے لیکن مقتدی کے لئے اس عمل کو علامہ البانی رحمہ اللہ بھی مشروع نہیں قرار دیتے جیساکہ آگے مقتدی کی بحث میں ان کے الفاظ آرہے ہیں۔
الغرض فرض نماز میں قرآنی آیات کے جواب سے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آمین کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔اور صحابہ کرام میں صرف اور صرف ابوموشی الاشعری رضی اللہ عنہ سے امام کی صورت میں سورہ اعلی کی پہلی آیت کا جواب ثابت ہے جس سے زیادہ زیادہ فرض نماز میں امام کے لئے کبھی کبھار اس کے جواز کی گنجائش نکلتی ہے لیکن اسے سنت قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
نماز میں مقتدی کے لئے قرآنی آیات کا جواب دینے کاحکم

سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنے کے علاوہ مقتدی کے لئے نماز میں کسی آیت کا جواب دینا کسی بھی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ماقبل میں مذکور ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ کے اثر میں بھی صرف امام کی حیثیت سے سورہ اعلی کی پہلی آیت کے جواب کی بات ہے۔
مقتدی کے لئے آمین کے علاوہ دیگرآیات کا جواب دینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام یا تابعین عظام سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا آج جن مساجد میں مقتدی حضرات بھی قرآن کی عام آیات کا جواب دیتے ہیں وہ سنت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک نئی ایجاد کردہ بدعت پر عمل کرتے ہیں جس کی تائید میں صحیح تو درکنار کوئی ضعیف حتی کہ موضوع اور من گھڑت روایت بھی نہیں ہے ۔لہٰذا ایسے عمل سے اجتناب ضروری ہے ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ جنہوں نے ایک ضعیف مرفوع روایت کی بناپر فرض نماز میں بھی بعض خاص آیات کے جواب کو مشروع قرار دیا ہے انہوں نے بھی مقتدی حضرات کو اس سے مستثنی کیا ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قلت: الظاهر استحباب ذلك لكل مصلٍّ إلا للمؤتم، فإنه إذا قال: (سبحان ربي الأعلى) ؛ انشغل بذلك عن الإنصات المأمور به في قوله تعالى: {وَإِذَا قُرِئَ القُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} .
میں (علامہ البانی) کہتاہوں: بظاہر یہ عمل ہر نمازی کے لئے مستحب ہے سوائے مقتدی کے کیونکہ مقتدی اگر(سبحان ربي الأعلى) کہے گا تو وہ انصات (خاموشی اختیار کرنے) پر عمل نہیں کرسکے گا جس کا حکم اللہ نے اپنے اس قول میں دیا ہے:اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو(الأعراف: 204) [ أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم 1/ 408 ]

عرض ہے کہ مقتدی کو تو خود علامہ البانی رحمہ اللہ نے مستثنی کردیا ہے رہا امام کا مسئلہ تو اس تعلق سے علامہ البانی رحمہ اللہ کی مستدل مرفوع حدیث ضعیف ہے جیساکہ آگے تفصیلی تحقیق آرہی ہے۔
حیرت ہے کہ امام تک کے لئے اس عمل کے مسنون ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور بعض لوگ مقتدی حضرات کو بھی اس عمل کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے لئے عجیب و غریب شبہات پیش کرتے ہیں ،ذیل میں ان شبہات کاازالہ پیش خدمت ہے:

پہلا شبہ:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مقتدی کے لئے جواب دینے کی ممانعت ثابت نہیں ہے اس لئے وہ بھی اس پرعمل کرسکتے ہیں ۔
ازالہ :
عرض ہے کہ عبادات میں اصل ممانعت ہی ہے اس لئے منع کرنے والے کے لئے صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ عمل ثابت نہیں ہے۔اور نماز جیسی عبادت میں تو خصوصی حکم ہے کہ اس میں صرف اتنا ہی کیا جاسکتا ہے جتنا ثابت ہو، نماز شروع کرتے وقت پہلی تکبیر کا نام ہی تکبیر تحریمہ ہے جس کا مطلب ہے کہ نماز شروع ہونے کے بعد اب ساری چیزیں نمازی پر حرام ہوچکی ہیں صرف اتنا ہی کرنا ہے جتنا ثبوت ملے۔

دوسرا شبہہ :
یہ قاعدہ ہے کہ امام ‘ مقتدی ‘ اور منفرد اسی طرح متفترض اور متنفل سب کے لئے نماز کے احکام برابر ہیں ایک کے لئے کوئی عمل ثابت ہوگیا تو سب کے لئے مشروع ہوگا۔
ازالہ:
اولا:

اس قاعدہ کی رو سے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ منفرد کے لئے اپنی ذاتی قرات پر جواب دینا ثابت ہے لہٰذا ہرنمازی ہرطرح کی نماز میں اپنی ذاتی قرات پر جواب دے سکتاہے مثلا متنفل ہو یا مفترض ، منفرد ہو یا امام ہو یا مقتدی سب کے سب اپنی ذاتی قرات پر جواب دے سکتے ہیں ۔
لیکن رہا یہ مسئلہ کہ نماز میں قاری کوئی اور ہو اورجواب کوئی اور دے تو یہ صورت کسی بھی نمازی کے لئے کسی بھی نماز میں ثابت نہیں ہے نہ نفل میں نہ فرض میں ، نہ منفرد کے لئے نہ امام کے لئے نہ مقتدی کے لئے ۔اس لئے جب یہ صورت (دوسرے کی قرات پر جواب دینا) کسی بھی نماز میں کسی بھی نماز کے لئے سرے سے ثابت ہی نہیں تو خواہ مخواہ یہ قاعدہ بیان کرنے کی کیا تک ہے کہ نماز کے احکام سب کے لئے برابر ہیں ۔
دوم:
یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ان احکام سے ہے جن کے کسی ایک نماز یا نمازی کے ساتھ مخصوص ہونے کی دلیل نہ ملے ، لیکن جس عمل کے بارے میں دلیل مل جائے کہ یہ صرف کسی خاص نماز یا خاص نمازی کے لئے ہی ہے تو ایسے عمل میں اس طرح کے عموم کی بات نہیں کی جائے گی۔مثلا فرض نماز میں امام تکبیرات جہرا پڑھتا ہےلیکن امام پر قیاس کرتے ہوئے مقتدی ، ومنفرد اور نفل پڑھنے والے کے لئے بھی جہرا تکبیرات پڑھنا درست نہیں ، اسی طرح جہری نماز میں امام کی قرات کے وقت مقتدی کو مازاد علی الفاتحہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے لیکن یہ حکم منفرد کے لئے نہیں ہے ۔
نیز جس عمل کے بارے میں کوئی قرینہ مل جائے کہ یہ صرف کسی خاص نماز یا خاص نمازی کے لئے ہی ہے تو ایسے عمل میں اس طرح کے عموم کی بات نہیں کی جائے گی ، مثلا قرآنی آیات کے جواب میں مقتدی کے استثناء کا قرینہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ وتابعین وسلف میں کسی نے بھی مقتدی کو اس عموم میں شامل نہیں کیا ہے لہٰذا سلف کے متفقہ فہم وعمل کے خلاف عموم سے استدلال کی گنجائش نہیں ہے۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ فرض نماز میں جماعت بنانا ثابت ہے اسی طرح نفل نماز میں بھی جماعت بنانا ثابت ہے اسی طرح کچھ لوگ فرض پڑھنے والے ہوں کچھ نفل پڑھنے والے ہوں تو ان کے لئے بھی جماعت بنانا ثابت ہے ۔ لیکن نماز سے قبل اور بعد کی جو سنن رواتب ہیں ان کو جماعت سے پڑھنے کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ وتابعین وسلف میں کسی سے نہیں ملتا لہٰذا سلف کے متفقہ فہم وعمل کے خلاف عموم سے استدلال کرتے ہوئے سنن رواتب کو جماعت سے پڑھنا درست نہیں ہوگا۔
ٹھیک اسی طرح مقتدی کے لئے قرآنی آیات کا جواب دینا بھی سلف کے متفقہ فہم وعمل کے خلاف ہے لہٰذا عمومات سے اس پر بھی استدلال کی گنجائش نہیں ہے۔

تیسراشبہہ:
نماز کی بہت سی دعائیں مثلا دعائے ثنا ، رکوع و سجود کے اذکار اور جلسہ و تشہد کی دعائیں ان میں سے کسی کے تعلق سے یہ صراحت نہیں ہے کہ مقتدی بھی اس کو پڑھیں گے ۔پھر بھی یہ اذکار ودعائیں مقتدی کے لئے بھی مشروع ہے یہی معاملہ قرآنی آیات کے جواب کا بھی ۔
ازالہ:
اس شبہہ کے تین جوابات ہیں:
اول:
رکوع ، سجود ، جلسہ اور تشہد وغیرہ میں پڑھے جانے والے اذکار و ادعیہ کا ثبوت مرفوع احادیث میں مطلقا نماز کے لئے وارد ہے یہاں نفل ، فرض ، منفرد ، امام یا مقتدی میں سے کسی کی بھی تخصیص وارد نہیں ہے لہٰذا یہ چیزیں ہر نماز اورہرنمازی کے لئے مشروع ہیں ۔
لیکن قرآنی آیات کے جواب سے متعلق جو احادیث ہیں ان میں سے بعض میں نماز سے باہر جواب دینے کی صراحت ہے اور بعض میں نفل نماز کی صراحت ہے یعنی یہ احادیث خاص مواقع اور خاص نماز و نمازی سے متعلق ہی ہیں ۔لہٰذا اس خاص کو اپنی مرضی سے عام نہیں بنایا جاسکتا عام حکم بتانے کے لئے عام احادیث بھی ہونی چاہئیں جو قطعا موجود نہیں ہیں ۔لہٰذا عام اورخاص دونوں کے مسائل الگ الگ ہیں انہیں غلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔
دوم:
نماز میں اصل حکم خاموشی کا ہے زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
" كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ وَهُوَ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلَاةِ حَتَّى نَزَلَتْ {وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} [البقرة: 238] فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ
ہم (پہلے ) نماز میں کلام کیا کرتے تھے، ایک شخص نماز میں اپنے بغل والے شخص سے بات کرلیا کرتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی {وقوموا لله قانتين} [البقرة: 238]اس کے بعد ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا اور بات چیت سے روک دیا گیا '' [ مسلم : کتاب المساجد: باب تحریم الکلام فی الصلوة...رقم539]۔

اس حدیث میں ہے ''فأمرنا بالسكوت ''یعنی ہمیں نماز میں خاموش رہنے اور کسی بھی طرح کا کلام نہ کرنے کا حکم دیا گیا ، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نماز کی اصلی حالت سکوت اور خاموشی کی ہے ، لہٰذا نماز کا کوئی بھی رکن ہو کوئی بھی جزء ہو ہر جگہ خاموشی ہی اپنائیں گے اور کہیں پر کچھ بھی پڑھنے کے لئے دلیل درکار ہوگی ۔ اورنماز کےاندر قرآنی آیات کا جواب دینے کے لئے مقتدی کا امام کے لئے بھی کوئی دلیل موجود نہیں ہے لہٰذا یہ عمل درست نہیں ۔
سوم:
امام کی قرات کے وقت مقتدی کو خاموشی رہنے کا تاکیدی حکم ہے اور آمین اور قرات فاتحہ کے علاوہ مقتدی کو قرات امام کے وقت کچھ بھی پڑھنے سے منع کردیا گیا ہے ۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
ثنا يحيى بن يوسف، قال: أنا عبيد الله، عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بأصحابه، فلما قضى صلاته أقبل عليهم بوجهه، فقال: "أتقرؤون في صلاتكم والإمام يقرأ؟ " فسكتوا، فقالها: "ثلاث مرات"، فقال قائل أو قائلون: إنا لنفعل قال: "فلا تفعلوا ليقرأ أحدكم بفاتحة الكتاب في نفسه"
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی اور جب نماز ختم کی تو ان کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا : کیا تم لوگ اپنی نماز امام کی قرات کے دوران پڑھتے ہو؟ صحابہ خاموش رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی سوال کیا تو بعض صحابہ نے جواب دیا: ہم ایسا کرتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کرو البتہ تم میں سے ہرکوئی سورہ فاتحہ کو اپنے دل میں پڑھ لے[القراءة خلف الإمام للبخاري ص: 275 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]
اس حدیث میں امام کی قرات کے دوران مقتدی کو کچھ بھی پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ،صرف سورہ فاتحہ پڑھنے کی اجازت دی ہے وہ بھی دل میں یعنی آہستہ ۔ لہٰذا امام کی قرات کے دوران مقتدی کو سورہ فاتحہ مع آمین پڑھنے کے علاوہ مزید کچھ پڑھنے کی اجازت نہیں ہے ۔معلوم ہوا کہ مقتدی کا قرآنی آیات کا جواب دینا اس حدیث کے بھی خلاف ہے ۔علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہی بات قرآن کی آیت انصات پیش کرکے کہی ہے کمامضی۔

چوتھا شبہہ:
حدیث میں ہے کہ : إنما جعل الإمام ليؤتم به یعنی امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ۔[صحيح البخاري 1/ 85 رقم 378]
اس لئے جب امام قرات کا جواب دے تو مقتدی کو بھی دینا چاہے۔
ازالہ:
اول تو امام کے لئے یہ سنت ثابت نہیں پھر اقتداء کا سوال ہی نہیں رہا۔ دوسرے یہ کہ مقتدی کو امام کی قرات کے وقت سورہ فاتحہ مع آمین کے علاوہ کچھ اور پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور خاموشی رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔جیساکہ تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔

پانچواں شبہہ :
ایک حدیث میں ہے فليصنع كما يصنع الإمام یعنی مقتدی بھی ویسا کرے جیسا امام کرتا ہے۔(ترمذی)
ازالہ:
یہ حدیث ضعیف ہے۔
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حدثنا هشام بن يونس الكوفي قال: حدثنا المحاربي، عن الحجاج بن أرطاة، عن أبي إسحاق، عن هبيرة، عن علي، وعن عمرو بن مرة، عن ابن أبي ليلى، عن معاذ بن جبل، قالا: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا أتى أحدكم الصلاة والإمام على حال فليصنع كما يصنع الإمام»
علی اور معاذ بن جبل رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ` نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے آئے اور امام جس حالت میں ہو تو وہ وہی کرے جو امام کر رہا ہو“[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 485 رقم 591، وأخرجه الطبراني في الكبير 20/ 132 والشاشي في مسنده 3/ 257 من طريق المحاربي به نحوه]

سند میں الحجاج بن أرطاة نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ چوتھے طبقے کے مدلس ہیں جن کا عنعنہ بالاتفاق مردود ہوتا ہے دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 49]
دوسرے راوی ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
ان کے مدلس ہونے کے بارے میں مزید تفصیل آرہی ہے۔
اس روایت کے ضعیف ہونے کے ساتھ اس کا تعلق کچھ پڑھنے سے نہیں ہے بلکہ امام کے ساتھ شامل ہونے سے ہے ۔ علاوہ ازیں مقتدی کو امام کی قرات کے وقت سورہ فاتحہ مع آمین کے علاوہ کچھ اور پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔جیساکہ تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔

چھٹا شبہہ:
أحمد بن محمد بن إبراهيم الثعلبي (المتوفى427 )نے کہا:
أخبرني ابن فنجويه قال: حدّثنا محمد بن إبراهيم الربيعي قال: حدّثنا إبراهيم بن عبد الله ابن أيوب المخزومي قال: حدّثنا صالح بن مالك قال: حدّثنا أبو نوفل علي بن سليمان قال:حدّثنا أبو إسحاق السبيعي عن سعيد بن جبير عن عبد الله بن عباس قال: من قرأ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى إماما كان أو غيره فليقل: سبحان ربي الأعلى، ومن قرأ: لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ فإذا انتهى إلى آخرها فليقل: سبحانك اللهم بلى ، إماما كان أو غيره.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جو {سبح اسم ربك الأعلى} پڑھے خواہ امام ہو یا اس کے علاوہ ہو تو وہ کہے : سبحان ربي الأعلى اور جو{لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ } پڑھ کرختم کرے تو کہے : سبحانك اللهم بلى خواہ وہ امام ہو یا کوئی اور [تفسير الثعلبي 10/ 92 وانظر:اللباب في علوم الكتاب 19/ 579]
ازالہ:
یہ روایت ضعیف ہے اس کے درج ذیل اسباب ہیں:
اول:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
ان کے مدلس ہونے کے بارے میں مزید تفصیل آرہی ہے۔
دوم:
إبراهيم بن عبد الله ابن أيوب المخزومي مجروح ہے۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ليس بثقة ، حدث عن قوم ثقات بأحاديث باطلة
یہ ثقہ نہیں ہے ، ایک جماعت سے اس نے جھوٹی احادیث روایت کی ہیں [سؤالات السهمي للدارقطني ط الفاروق ص: 136]
سوم:
محمد بن إبراهيم الربيعي بھی ضعیف ہے۔
الحافظ أبو الفتح بن أبي الفوارس (المتوفى: 412)نے کہا:
فيه نظر
اس میں نظر ہے[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 1/ 414 واسنادہ صحیح]
چہارم
ابواسحاق السبیعی ہی سے امام شعبہ نے اسی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے اورشعبہ کی سند میں ابواسحاق نے سماع کی صراحت بھی کی ہے لیکن ان کی روایت میں إماما كان أو غيره (خواہ امام ہو یا کوئی اور) کے الفاظ نہیں ہیں دیکھئے: [فضائل القرآن لابن الضريس ص: 31 واسنادہ صحیح ]
یہ روایت مع تخریج ماقبل میں گذرچکی ہے۔
معلوم ہوا ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ضعیف و منکر ہے لہٰذا مردود ہے۔علاوہ بریں اس حدیث میں قاری قرآن کے لئے جواب دینے کی بات کہی گئی ہے اور مقتدی قاری قرآن نہیں ہوتا۔

ساتواں شبہہ
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم البغدادي (المتوفى224)نے کہا:
حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: أخبرني عبد الله بن عثمان بن خثيم، عن يوسف بن ماهك، عن عبد الله بن السائب، قال: أخر عمر بن الخطاب كرم الله وجهه العشاء الآخرة فصليت، ودخل فكان في ظهري، فقرأت: {وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا} [الذاريات: 1] حتى أتيت على قوله: {وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ } [الذاريات: 22] فرفع صوته حتى ملأ المسجد: «أشهد»
عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ عشاء کی نماز میں تاخیر کی اور میں نے نماز ادا کی تو وہ میرے پیچھے آگئے پھر میں نے سورہ ذاریات پڑھی اور جب آیت {وفي السماء رزقكم وما توعدون} پر میں پہنچا تو انہوں نے آواز بلند کی یہاں تک مسجد گونج گئی اور کہا: میں گواہی دیتاہوں[فضائل القرآن لأبي عبيد القاسم بن سلام ص: 149 ومن طريق أبي عبيد أخرجه المستغفري في فضائل القرآن1/ 174،وأخرجه أيضا أبوعبيد في فضائل القرآن ص: 149من طريق جعفر بن اياس منقطعا ولفظه: ”وأنا أشهد“]

ازالہ:
یہ روایت ضعیف وغیرثابت ہے ۔سند میں موجود عبد الله بن عثمان بن خثيم کو گرچہ متعدد محدثین نے ثقہ کہا ہے مگر ایک جماعت نے اسے ضعیف بھی کہا ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقد ضعفه طائفة ، اسے ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے [مجموع الفتاوى 22/ 431]
حافظ ابن حجر رحمه الله نے بھی لکھا:
مختلف فيه ، اس کے ثقہ اور ضعیف ہونے میں اختلاف ہے[مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 457]
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
أحاديثه ليست بالقوية
اس کی احادیث قوی نہیں ہیں[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي ت عادل وعلي: 5/ 266 واسنادہ حسن]

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)نے کہا:
ابن خثيم منكر الحديث
ابن خیثم منکرالحدیث ہے [سنن النسائي 5/ 247]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
ابن خثيم ليس بالقوي في الحديث
ابن خیثم حدیث میں قوی نہیں ہے [سنن النسائي 5/ 247]
نیزکہا:
لين الحديث، یہ لین الحدیث ہے [ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 2/ 460 ونقله من كتابه]

أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
رجل مطعون في روايته منسوب إلى سوء الحفظ , وإلى قلة الضبط ورداءة الأخذ
یہ آدمی اپنی روایت میں مطعون ہے اورسوئے حفظ ، قلت ضبط اور بداخذی سے منسوب ہے[شرح مشكل الآثار 7/ 370]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے :
وكان يخطىء ، اور یہ غلطی کرتا تھا [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 5/ 34]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا :
ابن خثيم ضعيف
ابن خیثم ضعیف ہے[الإلزامات والتتبع للدارقطني: ص: 352]

ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
عبد الله لا يحتج به
عبداللہ(بن خیثم) سے حجت نہیں پکڑی جائے گی[التحقيق في مسائل الخلاف 2/ 258]

امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
وليس بالقوي ۔ یہ قوی نہیں ہے[فتح الباري لابن رجب: 6/ 402]

اس راوی کی توثیق اور اس پر جرح کے اختلاف کے سبب بعض محققین اسے صدوق مانتے ہیں جبکہ بعض محققین اسے ضعیف مانتے ہیں چانچہ زیربحث روایت ہی کی سند سے مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی ایک روایت ہےجس پر مصنف کے محقق أسامة إبراهيم حاشہ لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
إسناده ضعيف فيه عبدالله بن عثمان بن خيثم اختلف علي ابن معين والنسائي فيه وقال ابن المديني منكر الحديث
اس کی سند ضعیف ہے عبد الله بن عثمان بن خثيم کے بارے مین ابن معین اور نسائی دونوں سے دو طرح کے اقوال مروی ہے جبکہ ابن المدینی نے کہا ہے: منکر الحدیث[مصنف ابن أبي شيبة/الفاروق 5/ 358]

اور بعض محققین اس کے بارے میں توقف کرتے ہیں چنانچہ شیخ عبد الله بن ضيف الله الرحيلي امام ذہبی کی ایک کتاب میں مذکور اس راوی پر حاشیہ لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
الحاصل أنه مختلف فيه، ولم يظهر لي فيه وجه توثيقه على جرحه أو العكس، فأنا متوقف فيه
خلاصہ یہ کہ یہ راوی مختلف فیہ ہے اور میرے لئے جرح کے بالمقابل اسے ثقہ قرار دینے یااس کے برعکس فیصلہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی اس لئے میں اس کے سلسلے میں توقف کرتا ہوں[من تكلم فيه وهو موثق ت الرحيلي ص: 303]

عرض ہے کہ چونکہ اس پر حافظہ کے لحاظ سے جرح ہے اور اسے منکر الحدیث بھی کہا گیا ہے اس لئے اگر کسی روایت کو اگر صرف یہی نقل کررہا ہے اور اس میں غرابت و عجوبہ ہو تو اسے قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اس روایت کا متن دیکھیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے خلیفہ وقت باجماعت نماز میں اور مسجد میں اس قدر جہر سے جواب دیتے ہیں کہ پوری مسجد گونج جاتی ہے لیکن اس واقعہ کو صرف امام نے بیان کیا اور مقتدی حضرات میں کسی نے بیان نہیں کیا حتی کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دائیں و بائیں موجود مقتدی حضرات نے بھی بیان نہیں کیا ہے یہ بات کم عجیب و غریب نہیں ہے۔لہٰذا سندو متن کے لحاظ اس غریب روایت کی نقل میں ابن خیثم پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا جسے امام ابن المدینی جیسے ماہر علل نے منکر الحدیث قرار دیا ہے اور امام دارقطنی جیسے عظیم ناقد نے ضعیف کہاہے اور دیگر کی محدثین نے سوء حفظ و غیرہ کی جرح کی ہے۔
خلاصہ بحث یہ کہ مقتدی کے لئے قرآنی آیات کا جواب دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ یا تابعین سے ثابت نہیں ہے اس لئے یہ عمل درست نہیں ہے ۔

فائده :
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے كہا:
عن الثوري، عن ليث، عن مجاهد قال: «كره إذا مر الإمام بآية تخويف أو آية رحمة أن يقول من خلفه شيئا»
إمام قراءة و تفسير مجاہد بن جبیرتابعی رحمہ اللہ (المتوفی 102) فرماتے ہیں کہ جب امام خوف یا رحمت والی آیت سے گذرے توامام کے پیچھے مقتدی کا کچھ کہنا ناپسند کیا گیا ہے۔[مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 2/ 453، وأخرجه ابن أبي شيبه في المصنف 1/ 341 من طريق هشيم عن ليث به بمعناه، وفي بعض نسخ المصنف لإبن ابي شيبه وقع التصريح بسماع الليث من مجاهد]
لیکن اس کی سندليث بن أبى سليم کے سبب ضعیف ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
قرآنی آیات کے جواب سے متعلق ضعیف ومردود روایات و آثار

حق تلاوت سے متعلق ایک ضعیف روایت :

امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
حدثنا أبي ثنا إبراهيم بن موسى وعبد الله بن عمران الأصباهاني قالا ثنا یحيى بن يمان ثنا أسامة بن زيد عن أبيه عن عمر بن الخطاب: يتلونه حق تلاوته قال: إذا مر بذكر الجنة سأل الله الجنة، وإذا مر بذكر النار تعوذ بالله من النار.
عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ( يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ) کی تفسیر میں کہا کہ تلاوت کرنے والا جب جنت کے ذکر سے گذرے تو اللہ سے جنت کا سوال کرے اور جب جہنم کے ذکرسے گذرے تو جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرے [تفسير ابن أبي حاتم: 1/ 218]

اس کی سند ضعیف ہے ۔اس میں کئی علتیں ہیں ۔
اولا:
اسامہ کے والد زید بن اسلم ارسال کرنے والے راوی ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔دیکھئے :[جامع التحصيل للعلائي: ص: 27]
بلکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے ۔دیکھئے: [جامع التحصيل للعلائي: ص: 178]

ثانیا:
أسامة بن زيد بن أسلم القرشى العدوى ضعیف ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
أسامة بن زيد بن أسلم منكر الحديث، ضعيف
اسامہ بن زید اسلم منکرالحدیث ، ضعیف ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 2/ 285 واسنادہ صحیح]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ضعيف من قبل حفظه
یہ حافظہ کی وجہ ضعیف ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم315]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ فاتحہ(1) کے بعد تین بار آمین کہنے یا (رب اغفر لي، آمين)سے متعلق روایات:


پہلی روایت:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، حدثني أبي، ثنا سعد بن الصلت، عن الأعمش، عن أبي إسحاق، عن عبد الجبار بن وائل، عن أبيه قال: " رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل في الصلاة، فلما فرغ من فاتحة الكتاب قال: «آمين» ثلاث مرات "
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نماز میں داخل ہوئے اورجب سورہ فاتحہ کی قرات سے فارغ ہو ئے تو تین بار کہا : «آمين»[المعجم الكبير للطبراني 22/ 22]

یہ روایت درج ذیل اسباب کی بناپر سخت ضعیف ہے:
اول:
”عبدالجبار بن وائل“ کاان کے والد سے سماع ثابت نہیں ہے۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل بن حجر ثبت ولم يسمع من أبيه شيئا
عبد الجبار بن وائل بن حجر ، ثبت ہیں لیکن انہوں نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 11]
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل بن حجر لم يسمع من أبيه
عبد الجبار بن وائل بن حجر نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا[سنن الترمذي 4/ 55 واسنادہ صحیح]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل ۔۔۔روى عن أبيه، مرسل، ولم يسمع منه
عبدالجبار بن وائل نے اپنے والد سے مرسلا روایت کیا ہے اور ان سے کچھ نہیں سناہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 6/ 30]

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
عبد الجبار لم يسمع من أبيه
عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے نہیں سنا[سنن الترمذي ت شاكر 4/ 56]
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل لم يسمع من أبيه
عبد الجبار بن وائل بن حجر نے اپنے والد سے نہیں سنا[سنن النسائي الكبرى 1/ 308]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
من زعم أنه سمع أباه فقد وهم
جس نے یہ سمجھا کہ عبد الجبار بن وائل بن حجر نے اپنے والد سے سنا وہ وہم کا شکار ہے[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 7/ 135]

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
عبد الجبار بن وائل عن أبيه مرسل
عبد الجبار بن وائل کی اپنے والد سے روایت مرسل (منقطع) ہے[السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 1/ 397]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
ائمة الحديث متفقون علي ان عبد الجبار لم يسمع من ابيه شيئا
ائمہ حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا[المجموع 3/ 104]
دوم:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
ان کے مدلس ہونے کے بارے میں مزید تفصیل آرہی ہے۔
سوم:
سلیمان الاعمش نے بھی عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 640]
اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص393 تا 395۔
چہارم:
سعد بن الصلت کے علاوہ اعمش سے اسی حدیث کو کئی لوگوں نے آمین کے ذکر کے ساتھ روایت کیا ہے لیکن کسی نے بھی تین بار آمین کاذکر نہیں کیا ہے اسی طرح سند کے اوپری طبقات کے متابعین میں سے بھی کئی نے آمین کا لفظ روایت کیا مگر کسی نے تین بار آمین کا ذکر نہیں کیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے: الكلام على طرق حديث وائل بن حجر في صفة الصلاة .
لہٰذا ان الفاظ کو بیان کرنے میں سعد بن الصلت منفرد ہے اور امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
ربما أغرب
بسااوقات یہ غریب باتیں بیان کرتے ہیں[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 6/ 378]

دوسری روایت:
أبو جعفر محمد بن عمرو بن البختري لرزاز (المتوفى 339) نے کہا:
حدثنا أحمد: حدثنا أبي، عن أبي بكر النهشلي، عن أبي إسحاق، عن أبي عبد الله اليحصبي، عن وائل بن حجر: أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} قال: رب اغفر لي، آمين.
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا جب آپ نے {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} پڑھا تو کہا: رب اغفر لي، آمين [مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري ص: 309 ومن طريقه أخرجه البيهقي في السنن الكبرى ، ط الهند: 2/ 58 وأخرجه الطبراني في المعجم الكبير22/ 42 من طريق إحمدبن عبدالجبار به]

یہ روایت درج ذیل اسباب کی بناپر ضعیف ہے ۔
اول:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
ان کے مدلس ہونے کے بارے میں مزید تفصیل آرہی ہے۔
دوم:
أبو بكر النهشلي متکلم فیہ ہے اور اس کی یہ روایت دیگر رواۃ کے خلاف ہے۔
امام قسطلاني (المتوفى 923 ) اس حدیث کو اسی راوی کے سبب ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
في إسناده أبا بكر النهشلي وهو ضعيف
اس کی سند میں ابوبکر النھشلی ہے اور یہ ضعیف ہے [إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري 2/ 100 ]
سوم:
ابوجعفر کے استاذ احمد یہ احمد بن عبد الجبار العطاردي ہیں یہ بھی متکلم فیہ ہیں بلکہ بعض نے ان پر سخت جرح کی ہے چنانچہ:
محمد بن عبد الله الحضرمي المطین (المتوفی 297) نے کہا
احمد بن عبد الجبار العطاردي كان يكذب
احمد بن عبد الجبار العطاردي جھوٹ بولتاتھا[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 4/ 263 واسنادہ صحیح]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے بھی انہیں ضعیف کہا ہے دیکھئے: [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 64]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روای کے سبب بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے [أصل صفة الصلاۃ 1/ 382 ]
چونکہ اس کی یہ روایت اس حدیث کے دیگر رواۃ کے خلاف ہے لہٰذا غیر مقبول ہے۔

الغرض یہ کہ یہ سند کئی وجوہات کی بناپر ضعیف ہے ۔امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795) اس کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں:
وهذا الإسناد لا يحتج به
اس سند سے حجت نہیں پکڑی جائے گی [فتح الباري لابن رجب: 7/ 99]
معلوم ہوا درج بالا دونوں روایات سخت ضعیف ومردود ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ بقرہ (2) کی بعض آیات کے جواب سے متعلق روایات :

{وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ} [البقرة: 186] کے جواب سے متعلق روایت:
محمد بن عمر الأصبهاني المديني، أبو موسى (المتوفى 581 ) نے کہا:
أخبرنا السيد أبو القاسم عباد بن محمد بن المحسن الجعفري -رحمه الله- إذناً، أنا أبو أحمد محمد بن علي المعلم، ثنا أبو محمد بن حيان، ثنا إسحاق بن إبراهيم (ح) وأخبرنا إسماعيل بن الفضل، أنا أبو طاهر [بن] عبد الرحيم، أنا علي بن عمر، ثنا أبو عثمان سعيد بن محمد بن أحمد الحناط قالا: ثنا أبو هشام الرفاعي محمد بن يزيد، ثنا أبو بكر بن عياش، ثنا الكلبي عن أبي صالح، عن ابن عباس، حدثني جابر بن عبد الله رضي الله عنهم: أن النبي صلى الله عليه وسلم قرأ: { وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ} الآية، فقال: ((اللهم أمرت بالدعاء وتكفلت بالإجابة لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك، أشهد أنك ربي واحد صمد، لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفواً أحد، وأشهد أن وعدك حق، ولقاءك حق والجنة حق، والنار حق، وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن الله يبعث من في القبور)) .
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت { وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ} (جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے )کی قرات کی پھر کہا:((اللهم أمرت بالدعاء وتكفلت بالإجابة لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك، أشهد أنك ربي واحد صمد، لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفواً أحد، وأشهد أن وعدك حق، ولقاءك حق والجنة حق، والنار حق، وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن الله يبعث من في القبور)) .[اللطائف من دقائق المعارف لأبي موسى المديني ص: 31]

یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔اس کی سند میں موجود محمد بن السائب الکلبی سبائی اور کذاب تھا تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب انوار البدر فی وضع الیدین علی الصدر 467 ،468 ۔

آخری آیت {۔۔۔ فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ} کے جواب سے متعلق روایات:

پہلی روایت:
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم البغدادي (المتوفى224)نے کہا:
حدثنا ابن أبي مريم، عن ابن لهيعة، عن يزيد بن أبي حبيب، عن أبي إسحاق، عن أبي ميسرة، أن جبريل لقن رسول الله صلى الله عليه وسلم عند خاتمة القرآن أو قال: عند خاتمة البقرة: آمين
جبرئیل نے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن ختم کروایا یا سورہ بقرہ ختم کروایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : آمین ۔[فضائل القرآن للقاسم بن سلام ص: 233]
یہ روایت درج ذیل وجوہات کی بناپر ضعیف ہے:
اول:
أبو ميسرة عمرو بن شرحبيلالهمداني نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنی سند بیان نہیں کی ہے۔
دوم:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں ۔
سوم:
ابن لھیعہ مشہور مختلط راوی ہیں۔

دوسری روایت:
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى911)نے کہا:
وأخرج عبد بن حميد عن عطاء قال : لما نزلت هذه الآيات{رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا }فكلما قالها جبريل للنبي صلى الله عليه و سلم قال النبي صلى الله عليه و سلم : آمين رب العالمين
عطاء کہتے ہیں کہ جب یہ آیات{رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا }(اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا)نازل ہوئیں تو جب جب جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پڑھا یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :”آمین یا رب العالمین“(قبول فرما !ارے رب العالمين) [الدر المنثور 2/ 137]
اول تو عطاء رحمہ اللہ سے لیکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سند موجود نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ اس روایت کی پوری سند بھی کہیں دستیاب نہیں لہٰذا یہ روایت بھی ثابت نہیں ۔

تیسری روایت:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا ابن مهدي ، عن سفيان ، عن أبي إسحاق ، عن رجل ، أن معاذا كان إذا قرأ آخر البقرة {فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ } قال : آمين.
معاذ رضی اللہ عنہ جب سورہ بقرہ کی آخری آیت {فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ }( ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما ) پڑھتے تو کہتے : آمین۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 427، وأخرجه أيضا أبوعبيد في فضائل القرآن ص: 234 من طريق ابن مهدي به ، ومن طريق أبي عبيد أخرجه المستغفري في فضائل القرآن 2/ 530 به]

یہ روایت دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے ۔
اول:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
ان کے مدلس ہونے کے بارے میں مزید تفصیل آرہی ہے۔

دوم:
ابواسحاق اور معاذ کے درمیاں رجل یہ مبہم و مجہول ہے ۔
واضح رہے کہ اسی روایت کو سفیان ثوری سے امام ابونعیم نے بھی نقل کیا ہے لیکن ان کی سند میں ابواسحاق کے بعد رجل کا واسطہ ساقط ہے چنانچہ:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310) نے کہا:
حدثني المثنى بن إبراهيم قال، حدثنا أبو نعيم قال، حدثنا سفيان، عن أبي إسحاق: أن مُعاذًا كان إذا فرغ من هذه السورة: {فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ }، قال: آمين.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جب اس سورہ (کی آخری آیت) {فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ }( ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما ) کوپڑھ کرفارغ ہونے تو کہتے : ”آمين“ [تفسير الطبري ت شاكر 6/ 146 وأخرجه ابن المنذر في تفسيره 1/ 106من طريق أبی أحمد محمد بن عبد الوهاب عن أبي نعيم به]
لیکن ابونعیم کی بیان کردہ یہ سند غیر محفوظ ہے کیونکہ ان سے اوثق محدث عبدالرحمن بن مھدی نے واسطے کے ساتھ اسے بیان کیا ہے۔کمامضی ۔
نیز اگر اس سند کا اعتبار کرلیں تو پھر معاذ رضی اللہ عنہ سے ابو اسحاق السبعی کی روایت منقطع قرار پائے گی کیونکہ معاذ رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات 18 ہجری میں ہوئی ہے دیکھئے :[تهذيب الكمال للمزي: 28/ 113]
جبکہ ابو اسحاق السبیعی کی پیدائش 28 ہجری میں ہوئی ہے دیکھئے:[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 5/ 177]

تنبیہ بلیغ:
فيصل بن عبد العزيز (المتوفى 1376) کی کتاب توفيق الرحمن في دروس القرآن میں ہے:
وكان معاذ رضي الله عنه إذا فرغ من هذه السورة قال: (آمين) . وعن ابن مسعود رضي الله عنه إذا فرغ من هذه السورة قال: (آمين) . وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔۔۔[توفيق الرحمن في دروس القرآن 1/ 368 ]

عرض ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت پر ماقبل میں بات ہوچکی ہے یہاں یہی بات ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھی ہے اور یہ کتابت کی غلطی ہے کاتب آگے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دوسری مرفوع روایت لکھ رہا تھا کہ لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لکھنے کے بعد غلطی سے اس نے ماقبل میں موجود معاذ والی روایت کے الفاظ درج کردئے اس کے بعد دوبارہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لکھ کر آگے ان کی مرفوع روایت لکھی جو دوسرے موضوع سے متعلق ہے ۔
اس کتاب کے محقق صاحب کتابت کی اس غلطی پر دھیان نہیں دے سکے اور خود یہ غلطی کربیٹھے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نام سے درج ان الفاظ کی تخریج میں ابن جریر طبری کا حوالہ دے دیا حالانکہ ابن جریر کی کتاب میں صرف معاذ رضی اللہ عنہ کی روایت ہی ہے بلکہ دنیا کی کسی بھی کتاب میں یہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نہیں ہے نہ ہی تفسیر وغیرہ کے کسی مؤلف نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایسی کوئی روایت ذکر کی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں کتابت کی غلطی ہے۔

چوتھی روایت:
أبو عُبيد القاسم بن سلاّم البغدادي (المتوفى224)نے کہا:
حدثنا يحيى بن صالح الحمصي، عن محمد بن عمر، قال: سمعت أبا المعلى، يحدث عن جبير بن نفير، أنه كان إذا قرأ خاتمة البقرة يقول: آمين آمين. حتى يركع، ويقول وهو راكع حتى يسجد
جبیر بن نفیر رحمہ اللہ جب سورہ بقرہ کی آخری آیت پڑھتے تو کہتے”آمین آمین“ یہاں تک کہ رکوع میں چلے جاتے اور رکوع میں بھی یہی کہتے یہاں تک سجدے میں جاتے [فضائل القرآن للقاسم بن سلام ص: 234]
اول تو یہ عمل ایک تابعی کی طرف منسوب ہے جو حجت نہیں ۔
دوم تابعی مذکور سے یہ ثابت بھی نہیں کیونکہ ان سے نقل کرنے والے ابوالمعلی نامعلوم ہیں ۔

پانچویں روایت:
امام ابن السني رحمه الله (المتوفى364)نے کہا:
أخبرني أبو عثمان، حدثنا إبراهيم بن نصر، ثنا أبو نعيم، ثنا حنظلة بن أبي المغيرة القاضي، عن عبد الكريم البصري، عن سعيد بن جبير، عن حذيفة، رضي الله عنه قال: صليت خلف النبي صلى الله عليه وسلم، فقرأ سورة البقرة، فلما ختمها قال: «اللهم ربنا لك الحمد» قلت لعبد الكريم: كم مرة؟ قال: سبع مرات. ثم قرأ التي بعدها، فلما ختمها قال نحوا من ذلك حتى بلغ سبعا
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ البقرہ کی قرات کی اور جب اسے ختم کیا تو کہا : “اللهم ربنا لك الحمد“(اے الله ! ارے ہمارے رب تمام تعریف تیرے لئے ہے)۔ میں نے عبدالکریم سے پوچھا : کتنی بار کہا؟ تو انہیں نے جواب دیا: سات بار ۔ پھر اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد والی سورہ (سورہ ال عمران) پڑھی اورجب اسے ختم کیا تو اسی طرح کہا یہاں تک سات کی تعداد پوری کی [عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 386]

یہ روایت درج ذیل اسباب کی بنا پر ضعیف ہے۔
اول:
عبد الكريم بن أبى المخارق البصرى ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
ضعيف
یہ ضعیف ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4156 ]
اوردوسرے مقام پر کہا:
متروك عند أئمة الحديث
ائمہ حدیث کے نزدیک یہ متروک ہے [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 421]
دوم:
حنظلة بن أبي المغيرة بھی ضعیف ہے۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ليس بشيء
اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 114]

امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
وهو ضعيف
یہ ضعیف ہے[المعرفة والتاريخ للفسوي: 3/ 238]

بعض نے لکھا ہے:
یہ راوی مجہول الحال ہے[القراءة خلف الإمام للبخاري ( مترجم) ص: 81]
عرض ہے کہ یہ مجہول الحال نہیں بلکہ ضعیف ہے جیساکہ حوالے پیش کئے گئے ۔

خلاصہ یہ کہ درج بالا ساری روایات ضعیف ومردود ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ آل عمران (3)کی بعض آیات کے جواب سے متعلق روایات :

سورہ آل عمران (3) کی آیت (18){شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ} کے جواب سے متعلق روایت:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا يزيد ، حدثنا بقية بن الوليد ، حدثني جبير بن عمرو ، عن أبي سعد الأنصاري ، عن أبي يحيى ، مولى آل الزبير بن العوام ، عن الزبير بن العوام ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بعرفة يقرأ هذه الآية : {شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ } وأنا على ذلك من الشاهدين يا رب.
زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ عرفہ میں یہ آیت تلاوت کررہے تھے {شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ } اس کے بعد کہا: وأنا على ذلك من الشاهدين يا رب[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 166]

یہ روایت ضعیف ہے ۔ سند میں موجود جبير بن عمرو ،أبو سعد الأنصاري، اور أبو يحيى مولى آل الزبير کی توثیق نہیں ملتی ۔
شعیب الارنووط اوران کے رفقاء فرماتے ہیں:
ثلاثة مجاهيل
یہ تینوں مجہول ہیں [تعلیق علی المسند لأحمد ط الرسالة 3/ 37]

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا أحمد بن رشدين المصري ، حدثنا محمد بن أبي السري العسقلاني ، حدثنا عمر بن حفص بن ثابت بن أسعد بن زرارة الأنصاري ، حدثنا عبد الملك بن يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن أبيه ، عن جده ، عن عبد الله بن الزبير ، عن الزبير بن العوام ، قال : ۔۔۔وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لأن يأخذ أحدكم حبلا فيحتطب على ظهره فيبيع ويأكل ، خير له من أن يسأل الناس أعطوه ، أو منعوه. وسمعت رسول صلى الله عليه وسلم يقول حين تلا هذه الآية : {شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ} إلى قوله : {الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} قال : وأنا أشهد أنك لا إله إلا أنت العزيز الحكيم.
زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت {شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ} تلاوت کرتے ہوئے سنا اور آپ جب {الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ} تک پہنچے تو کہا: وأنا أشهد أنك لا إله إلا أنت العزيز الحكيم.[المعجم الكبير للطبراني 1/ 124،وأخرجه أيضا ابن أبي حاتم في تفسيره 2/ 616 من طريق ابن ابي السري به وعنده عبدالملك عن أبيه عن جده قرأ ۔۔۔ ولفظہ: وأنا أشهد أي رب ۔ وأخرجه أيضا ابن السني في عمل اليوم والليلة من طريق ابن أبي السري وعنده عبدالملك حدثني أبي، عن جدي ، عن الزبير ۔۔۔ولفظه : وأنا أشهد أنك أي رب ]
یہ روایت ضعیف ہے ۔سند میں موجود عمر بن حفص بن ثابت اور عبد الملك بن يحيى کی کوئی توثیق نہیں ملتی ہے۔
امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807) فرماتے ہیں:
وفي أسانيدهما مجاهيل
اس کی سند میں مجہول رواۃ ہیں [مجمع الزوائد للهيثمي: 6/ 356]

طبراني کی ایک روایت میں تقریبا اسی طرح کا عمل امام اعمش رحمہ اللہ سے منقول ہے [المعجم الكبير للطبراني 10/ 199]
لیکن اس کی سند میں عمار بن عمر بن المختار ہے جس کے بارے میں امام ہیثمی رحمہ اللہ(المتوفى807) فرماتے ہیں:
وفيه عمر بن المختار وهو ضعيف
اس میں عمربن المختار ہے اوریہ ضعیف ہے[مجمع الزوائد للهيثمي: 6/ 357]


سورہ آل عمران (3) کی آخری آیت {وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ } کے جواب سے متعلق روایت:
سورہ بقرہ کی آخری آیت کے بعد (اللهم ربنا لك الحمد) پڑھنے سے متعلق جو روایت پیش کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ کو سورہ آل عمران کے اختتام پر بھی پڑھتے تھے۔اور ماقبل میں اس روایت کا ضعیف ہونا ثابت کیا جاچکا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سورہ طه (20) کی آیت نمبر (114) {وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا} کے جواب سے متعلق روایت:
ابوالعباس المستغفری (المتوفی 432) نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله محمد بن أحمد بن حامد، أخْبَرَنا محمد بن صالح بن محمود، حَدَّثَنا أبو البختري، حَدَّثَنا يحيى بن آدم، حَدَّثَنا سعيد بن صالح حدثني أبو إسحاق عن علقمة قال: طلبت عبد الله فوجدته في المسجد يصلي بين المغرب والعشاء فسمعته يقرأ طه فلما بلغ {رب زدني علما} قال: رب زدني علما رب زدني علما ثلاثا ثم ركع فقرأت الأعراف وهو راكع.
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو تلاش کیا تو انہیں مسجد میں مغرب وعشاء کے بیچ نماز پڑھتے ہوئے پایا تو میں نے سنا آپ نے سورہ طہ کی قرات کی اور جب {رب زدني علما} پر پہنچے تو تین بار کہا: رب زدني علما ، پھر رکوع کیا تو میں سورہ اعراف ختم کردی اور وہ رکوع ہی کی حالت میں تھے [فضائل القرآن للمستغفري 1/ 162]

یہ روایت ضعیف ہے ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ تیسرے درجے کے مدلس ہیں دیکھئے:[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
ان کے مدلس ہونے کے بارے میں مزید تفصیل آرہی ہے۔

تنبیہ :
تخريج أحاديث إحياء علوم الدين میں ہے:
وروى ابن أبي داود في كتاب الشريعة عن إبراهيم النخعي عن علقمة قال صليت إلى جنب عبد الله فافتتح سورة طه فلما بلغ رب زدني علماً قال رب زدني علماً رب زدني علماً
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بغل میں نماز پڑھی تو آپ نے سورہ طہ کی قرات شروع کی اور جب رب زدني علماً پر پہنچے تو کہا: رب زدني علماً رب زدني علماً[تخريج أحاديث إحياء علوم الدين 2/ 693]
عرض ہے کہ امام ابن ابی داؤد کی یہ کتاب مفقود ہے اس لئے اس کی مکمل سند نامعلوم ہے ۔
واضح رہے کہ اسی سلسلے کی بعض دیگرضعیف رواۃ میں یہ صراحت ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہاں آیت کا جواب نہیں دیا تھا بلکہ ایک ہی آیت کو بار بار دھرا کر پڑھ رہے تھے ۔
محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني (المتوفى 189)نے کہا:
اخبرنا أبو حنيفة، عن حماد، عن إبراهيم، قال أخبرنا من صلى إلى جانب عبد الله بن مسعود رضي الله عنه وحرص على أن يسمع صوته فلم يسمع غير أنه سمعه يقول: {رب زدني علما} يرددها مرارا، فظن الرجل أنه يقرأ في طه "
ایک شخص جس نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بغل میں نماز پڑھی اور کوشش کیا کہ ان کی آواز سن لے اس کا بیان ہے کہ وہ کچھ نہیں سن سکا سوائے اس کے کہ انہوں نے {رب زدني علما} کہا اور پھر اسی کو دہراتے رہے تو اس شخص کو پتہ چلا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سورہ طہ کی قرات کررہے تھے[الآثار لمحمد بن الحسن 1/ 138 واسنادہ ضعیف]
یہ روایت اصل راوی کے مجہول ہونے کی بناپر ضعیف ہی ہے تاہم اس میں یہ وضاحت ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت کا جواب نہیں دیا تھا بلکہ ایک ہی آیت کو باربار دہرا کر پڑھا تھا۔ ياسر عبد الرحمن صاحب نے بھی اس روایت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے دیکھئے: (موسوعة الأخلاق والزهد والرقائق 1/ 113)

اوراس سلسلے کی ایک صحیح و ثابت روایت میں صرف یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد نے انہیں یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا جس سے ان کو پتہ چلا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سورہ طہ کی تلاوت کررہے تھے چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا وكيع قال: حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة قال: " صليت إلى جنب عبد الله بالنهار، فلم أدر أي شيء قرأ حتى انتهى إلى قوله: {رب زدني علما} [طه: 114]، فظننت أنه يقرأ في طه "
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بغل میں دن کی نماز پڑھی تو مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ آپ نے کیا قرات کی ہے یہاں تک کہ آپ آیت {رب زدني علما} پر پہنچے تو مجھے پتہ چلا کہ آپ نے سورہ طہ کی قرات کی ہے [مصنف ابن أبي شيبة، ت الحوت: 1/ 320 واسنادہ صحیح عنعنہ الاعمش عن ابراہیم مقبولۃ واخرجہ ابن ابی شیبہ ایضا 1/ 321 من طریق منصور عن ابراہیم بہ واسنادہ صحیح ]

یعنی اس صحیح روایت کے مطابق آیت کا جواب دینے یا آیت کو بار بار پڑھنے کی بات نہیں بلکہ صرف ایک آیت کو قدرے جہر سے پڑھنے کی بات ہے جس سے شاگرد کو یہ معلوم ہوگیا کہ وہ کون سی سورہ تلاوت کررہے تھے۔
 
Top