• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآنی آیات كا جواب دينے سے متعلق تمام احاديث كي تخريج وتحقیق

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
سورہ الشمس (91) کی آیت (8) {فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا} کے جواب سے متعلق روایات:

پہلی روایت:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا يحيى بن عثمان بن صالح، ثنا أبي، ثنا ابن لهيعة، عن عمرو بن دينار، وعطاء بن أبي رباح، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا مر بهذه الآية {ونفس وما سواها فألهمها فجورها وتقواها} [الشمس: 8] وقف، ثم قال: «اللهم آت نفسي تقواها أنت وليها ومولاها وخير من زكاها»
ابن عباس رضي الله عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت {ونفس وما سواها فألهمها فجورها وتقواها} [الشمس: 8] سے گذرتے تو ٹہرتے اور کہتے :«اللهم آت نفسي تقواها أنت وليها ومولاها وخير من زكاها»[المعجم الكبير للطبراني 11/ 106 رقم11191 ]

یہ روایت ضعیف ہے ۔ابن لھیعہ مشہور مختلط راوی ہے۔اور عثمان بن صالح کا ذکر ان کے قدیم شاگردوں میں نہیں ہے۔
نیزيحيى بن عثمان بن صالح بن صفوان القرشي پر بھی کلام ہے دیکھئے: [إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ص: 686]

دوسری روایت:
امام ابن أبي عاصم رحمه الله(المتوفى287)نے کہا:
حدثنا يعقوب بن حميد، حدثنا عبد الله بن عبد الله، حدثنا معن الغفاري، عن حنظلة بن علي الأسلمي، عن أبي هريرة، أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: {فألهمها فجورها وتقواها} قال: اللهم آت نفسي تقواها، زكها أنت خير من زكاها، أنت وليها ومولاها.
ابوہریرہ رضي الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں) یہ آیت:{فألهمها فجورها وتقواها} پڑھی اور کہا: «اللهم آت نفسي تقواها، زكها أنت خير من زكاها، أنت وليها ومولاها. »[السنة لابن أبي عاصم 1/ 227وأخرجه ابن أبي حاتم في تفسيره 10/ 3436 والقضاعي في مسند الشهاب 2/ 338 من طريق طريق يعقوب به وعندالقضاعي : ” وهو في الصلاة“ ]

یہ روایت درج ذیل اسباب کی بناپر ضعیف ہے۔
اول:
عبد الله بن عبد الله الأموي مجہول ہے ۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
مجهول ، یہ مجہول ہے [ديوان الضعفاء ص: 220]

اور مجہول ہونے کے ساتھ اس کی متابعت بھی نہیں کی جاتی ۔
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
لا يتابع على حديثه
اس کی حدیث کی متابعت نہیں کیا جاتی [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 3/ 261]

اور مجہول شخص جب ایسی روایت بیان کرے جس کی متابعت نہ ملے تو وہ سخت ضعیف ہوتا ہے۔
علامہ معلمي رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
والمجهول إذا روى خبرين لم يتابع عليهما، فهو تالف
مجہول شخص جب تو ايسي روايت بيان کردے جن پر اس کي متابعت نہ کي گئي ہے تو وہ تباہ برباد ہونے والا يعني سخت ضعيف ہے [الفوائد المجموعة ت المعلمي: ص: 299]
دوم:
يعقوب بن حميد بن كاسب بھی ضعیف ہے۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
بن كاسب ليس بشيء
یعقوب بن حمید بن کاسب کی کوئی حیثیت نہیں ہے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 173]
اورابن محرز کی روایت کے مطابق ابن معین رحمہ اللہ نے کہا:
كذاب خبيث عدو لله
یہ کذاب ، خبیث اور اللہ کا دشمن ہے[معرفة الرجال، رواية ابن محرز، ت القصار: 1/ 52]
لیکن ابن محرز نا معلوم التوثیق ہے۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ضعيف الحديث
یہ ضعیف الحدیث ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 9/ 206]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
يعقوب بن حميد بن كاسب ليس بشيء
يعقوب بن حميد بن كاسب کی کوئی حیثیت نہیں ہے[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 106]
تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط) نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے دیکھیں:[تحرير التقريب: رقم7815 ]
معلوم ہوا کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے اور ماقبل والی روایت میں بھی دو ضعف موجود ہے اس لئے ان دونوں کو ملا کر اسے حسن کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
سورہ التين (95) کی آخری{أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} کے جواب سے متعلق روایت:

پہلی اور دوسری روایت:
سورہ القيامة (75) کی آیت نمبر (27) {أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى}کے جواب سے متعلق ماقبل میں ابوہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہما کی جو روایت گذرچکی ہے اس میں سورہ التين کے اختتام پر بلى وأَنا على ذلِكَ منَ الشَّاهدينَ پڑھنے کی بات مذکور ہے لیکن یہ روایات ضعیف ہیں جیساکہ تفصیل گذرچکی ہے۔

تیسری روایت:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثنا ابن عبد الأعلى، قال: ثنا ابن ثور، عن معمر، قال: كان قتادة إذا تلا: {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} [التين: 8] قال: «بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين» أحسبه كان يرفع ذلك؛ وإذا قرأ: {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} [القيامة: 40] قال: «بلى» ، وإذا تلا: {فبأي حديث بعده يؤمنون} [المرسلات: 50] قال: «آمنت بالله، وبما أنزل»
قتادہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} کی تلاوت کرتے تو کہتے :«بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين» راوی کا گمان ہے کہ قتادہ اسے مرسلا بیان کرتے تھے ۔اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم {أليس ذلك بقادر على أن يحيي الموتى} پڑھتے تو کہتے :«بلى» اور جب {فبأي حديث بعده يؤمنون} [المرسلات: 50] کی تلاوت کرتے تو کہتے :«آمنت بالله، وبما أنزل»[تفسير الطبري ط هجر 24/ 526وأخرجه أيضا عبدالرزاق في تفسيره 3/ 442 واقتصر علي آية التين وجوابه۔وأخرجه الطبري ط هجر 24/ 525 أيضامن طريق سعيد عن قتاده ولفظه: {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} : ذكر لنا أن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قرأها قال: " بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين، وعزاه السيوطي الي عبد بن حميد انظر:الدر المنثور في التفسير بالمأثور 8/ 559]

چوتھی روایت:
امام سيوطي رحمه الله (المتوفى911)نے کہا:
وأخرج عبد بن حميد عن صالح أبي الخليل قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أتى على هذه الآية {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} يقول: سبحانك فبلى۔
صالح بن أبى مريم أبو الخليل البصرى رحمہ للہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت{أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} پرپہنچتے تو کہتے : سبحانك فبلى۔[الدر المنثور في التفسير بالمأثور 8/ 559]
یہ روایت منقطع ہونے کے سبب ضعیف ہے۔صالح بن أبى مريم ،أبو الخليل البصرى، صغار تابعین کے دور کے یعنی چھٹے طبقے کے ہیں اور ان کی ملاقات کسی صحابی سے بھی نہیں ہے دیکھئے: [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 2887]

پانچویں روایت:
أخبرنا أبو عبد الله بن أبي حفص العجلي، حدثنا أبو جعفر محمد بن محمد بن عبد الله، أخبرنا الحسن بن عبد الأعلى، أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن أيوب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس أنه كان إذا قرأ {أليس ذلك بقادر على أن يحيى الموتى} قال: اللهم سبحانك بلى وإذا قرأ {سبح اسم ربك الأعلى} قال: سبحان ربي الأعلى وإذا قرأ {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} قال: بلى.
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ جب {أليس ذلك بقادر على أن يحيى الموتى} پڑھتے تو کہتے اللهم سبحانك بلى اور جب {سبح اسم ربك الأعلى} پڑھتے تو کہتے :سبحان ربي الأعلى اورجب {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} تو کہتے بلى [فضائل القرآن للمستغفري 1/ 174وأخرجه أيضا الطبري ط هجر 24/ 526 من طريق أبي الوكيع عن أبي اسحاق عن سعيد به مختصرا بسورة التين ولفظه: «سبحانك اللهم، وبلى»، قلت: في إسناده عنعنة أبي اسحاق]

اسکی سند ضعیف ہے أبو عبد الله بن أبي حفص العجلي کاترجمہ اوراس کی توثیق مجھے کہیں نہیں ملی۔امام عبدالرزاق کی مصنف یا ان کی تفسیر میں بھی یہ روایت موجود نہیں ہے۔
طبری کی ایک روایت صرف سورہ تین کے جواب کے ساتھ ابواسحاق السبیعی سے سعید کی متابعت منقول ہے[ تفسیر الطبري ط هجر 24/ 526 ]
مگر اس کی سند ابواسحاق السبیعی کے عنعنہ کے سبب ضعیف ہے۔

علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب بے سند وبے حوالہ روایت:
اورامام القرطبي رحمه الله (المتوفى671) نے بغیر سند وحوالہ کے لکھا :
وكان ابن عباس وعلي بن أبي طالب رضي الله عنهما إذا قرأ: {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} قالا: بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين
ابن عباس اور علي بن أبي طالب رضي الله عنهما جب آیت {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} پڑھتے تو کہتے : بلى، وأنا على ذلك من الشاهدين ۔[تفسير القرطبي، ت أحمد: 20/ 117]

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے متعلق روایت تو اوپر گذرچکی ہے جو ضعیف ہے۔ رہی علی رضی اللہ عنہ سے متعلق روایت تو ایسی کوئی روایت حدیث یا تفسیر کی کسی بھی کتاب میں سند کے ساتھ نہیں ملی۔امام سیوطی نے بھی اپنی تفسیر میں یہ روایت ذکر نہیں کی ہے۔
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
سورہ (112)الإخلاص ، سورہ الفلق(113) اور سورہ الناس(114) کی آیات کے جواب سے متعلق روایت:
أبو عبيد القاسم بن سلام البغدادي (المتوفى224)نے کہا:
حدثنا أبو أحمد الزبيري، عن سفيان، عن عمر بن عطية، قال: سمعت أبا جعفر محمد بن علي يقول:" إذا قرأت {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} [الإخلاص: 1] فقل أنت: الله أحد الله الصمد. وإذا قرأت {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} [الفلق: 1] فقل أنت: أعوذ برب الفلق. وإذا قرأت {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ } [الناس: 1] فقل أنت: أعوذ برب الناس "
امام ابوجعفر الباقر رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:جب تم{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} پڑھو تو کہو:”الله أحد الله الصمد“۔اورجب {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} پڑھو توکہو: ”أعوذ برب الفلق“، اور جب {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ } پڑھو توکہو:”أعوذ برب الناس“[فضائل القرآن للقاسم بن سلام ص: 153 ،أبو أحمد الزبيري هو ”محمد بن عبد الله بن الزبير بن عمر بن درهم الأسدي“، وأبوجعفر هو ”محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب، أبو جعفر الباقر“ وعمر بن عطية هو ”الكوفي“ لم يؤثقه غير ابن حبان]

یہ روایت ضعیف عمر بن عطیہ الکوفی کو ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے ان کے علاوہ کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا ہے۔لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔

امام سیوطی کے بقول ابن الأنباري نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت کیا ہے ۔(الدر المنثور في التفسير بالمأثور: 8/ 686)لیکن اس کی سند دسیتاب نہیں ہے لہٰذا یہ ثابت نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
خلاصہ


قرآنی آیات کے جواب کے سے متعلق صحیح احادیث:
قرآنی آیات کے جواب سے متعلق وارد صحیح احادیث دوطرح کی ہیں ۔
پہلی قسم ان احادیث کی ہے جن میں عمومی طور پر تسبیح ، سوال اور تعوذ کی آیات کے جوابات دینے کا ذکر ہے اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک قولی حدیث ہے جس کا ماحصل ہے کہ بوقت تلاوت اللہ سے سوال کرنا چاہئے اور ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفلی نماز سے متعلق حدیث ہے کہ آپ نفل نماز میں تسبیح ، سوال اور تعوذ وغیرہ کی آیات پر گذرتے تو تسبیح کہتے ، دعا کرتے اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ۔
دوسری قسم ان احادیث کی ہے جن میں خاص خاص آیات کے جواب دینے کی بات ہے۔اس طرح کی احادیث کی تعداد کل سات (6) ہیں۔ان میں دو(2) احادیث مرفوع ہیں باقی چار(4) موقوفات ہیں۔
صحیح مرفوع احادیث:
1۔ سورہ فاتحہ کے اختتام پر آمین کہنا۔ یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے۔
2۔ سورہ الرحمن (55) کی آیات {فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ} کے جواب میں ” لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعْمَةِ رَبِّنَا نُكَذِّبُ“ ، یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے تفسیر طبری میں مروی ہے۔یہ نماز کے باہر عام تلاوت سے متعلق ہے۔

صحیح موقوف احادیث:
1۔سورہ الطور (52) کی آیت نمبر (27) {فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ } کے جواب میں اللهم من علي وقني عذاب السموم کہنا۔ یہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے موقوفا شعب الایمان میں مروی ہے،یہ نفل نمازسے متعلق ہے۔
2۔سورہ الحدید (57) کی آیت نمبر (16) { أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا۔۔۔} کے جواب بلى يا رب کہنا ۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفا الرقہ لابن ابی الدنیا وغیرہ میں مروی ہے۔یہ بھی نفل نمازسے متعلق ہے۔
3۔سورہ القيامة (75) کی آیت نمبر (27) {أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى} کے جواب میں سبحانك، وبلى کہنا ۔یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفا فضائل القرآن لابن الضريس وغیرہ میں مروی ہے یہ نماز کی صراحت کے بغیر قولی اثر ہے۔
4۔سورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} کے جواب میں سبحان ربي الأعلى کہنا ۔ یہ علی ، ابوموسی الاشعری ، ابن عمر ،ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے موقوفا مصنف ابن ابی شیبہ،سنن سعيد بن منصور اورفضائل القرآن لابن الضريس وغیرہ میں مروی ہے۔ابوموسی رضی اللہ عنہ کا یہ عمل نماز جمعہ کے اندر تھا باقی صحابہ کا عمل بھی نماز سے متعلق ہے لیکن فرض نماز کی صراحت نہیں ہے۔

قرآنی آیات کے جواب میں ضعیف ومردود روایات:
قرآن کی درج ذیل آیات کے جواب میں بعض کلمات کہنے کے سلسلے میں ضعیف ومردود روایات وارد ہوئی ہیں۔
1۔سورہ فاتحہ(1) کے بعد تین بار آمین کہنا یا (رب اغفر لي، آمين) کہنا ۔
2۔سورہ بقرہ (2) كي آيت نمبر(186) {وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ}
3۔سورہ بقرہ (2) کی آخري آيت {۔۔۔ فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ}
4۔سورہ آل عمران (3) کی آیت (18){شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ}
5۔سورہ آل عمران (3) کی آخری آیت {وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ }
6۔سورہ طه (20) کی آیت نمبر (114) {وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا}
7۔سورہ الزخرف (43) کی آیت نمبر (80) { أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ}
8۔سورہ ق (50) کی آیت نمبر (45) { فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ}
9۔سورہ الذاريات (51) کی آیت نمبر (22) {وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ }
10۔سورہ الرحمن (55) کی آیت نمبر (27) {وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ}
11۔سورہ الواقعة (56) کی آیت نمبر (58) {أفرأيتم ما تمنون۔۔۔}
12۔سورہ الواقعة (56) کی آیت نمبر(63) {أفرأيتم ما تحرثون۔۔۔}
13۔سورہ الواقعة آیت نمبر (68) {أفرأيتم الماء الذي تشربون۔۔۔}
14۔سورہ الملک (67) کی آیت نمبر (30) { إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ }
15۔سورہ القيامة (75) کی آیت نمبر (27) {أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى}
16۔سورہ الإنسان (76) کی آیت نمبر (1) { هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا }
17۔سورہ المرسلات(77) کی آخری آیت {فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ}
18۔سورہ الانفطار (82) کی آیت نمبر (6) {يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ }
19۔سورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}
20۔سورہ الأعلى (88) کی آخری آیت{ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ}
21۔سورہ الشمس (91) کی آیت (8){فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا}
22۔سورہ التين (95) کی آخری{أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ}
23۔سورہ (112)الإخلاص کی آیت نمبر (1) {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ}
24۔ سورہ الفلق(113) کی آیت نمبر (1){ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}
25۔سورہ الناس(114) کی آیت نمبر(1){ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ }
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
رسالہ” نماز میں قرآنی آیات کے جواب ۔۔۔“ کا مختصر جائزہ

بعض لوگوں نے ” نماز میں قرآنی آیات کے جواب دینے کا شرعی حکم “ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں بیشتر ضعیف ، موضوع اور من گھڑت روایات یکجا کردی ہیں اور سادح لوح عوام کو یہ رسالہ دیکر اس پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے ۔اس رسالہ میں مذکور تمام روایات سے متعلق ہم نے اپنی تحریر میں کردی ہے بلکہ بہت سی روایات جو اس رسالہ میں بھی نہیں ہیں ان کی حقیقت بھی ہم نے بیان کردی ہے۔والحمد للہ۔
اب اس رسالے کے بعض مقامات سے متعلق مختصرتبصرہ پیش خدمت ہے:

ص(3) سے رسالہ شروع ہوتا ہے اور سب سے پہلے ابوداؤد اور بیہقی کے حوالے سے سورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} کے جواب سے متعلق ایک ضعیف روایت درج کی گئی پھر علامہ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح اور ان کی تشریح پیش کی گئی ہے (رسالہ مذکورہ ص3-4)
عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں پوری تفصیل سے واضح کردیا گیا اور علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کا جائزہ بھی پیش کردیا گیا ہے ۔اورجب یہ روایت ضعیف ٹہری تو اس کی بنیاد پر اپنائے گئے موقوف کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

ص(5) پرسورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} ہی سے متعلق تفسیر قرطبی سے علی رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی گئی ہے ۔
عرض ہے کہ یہ سخت ضعیف ومردود ہے بلکہ اس کی سند کے ایک راوی کو حدیث چور اور جھوٹا بھی کہا گیا ہے جیساکہ ماقبل میں مفصل تحقیق پیش کردی گئی ہے ۔

ص(6) پرسورہ التين (95) کی آخری{أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} کے جواب سے متعلق روایت ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما موقوف روایت امام قرطبی کی تفسیر سے پیش کی گئی ہے۔
عرض ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر ضعیف ہے جیساکہ اس تحریر میں وضاحت موجود ہے اور علی رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام قرطبی رحمہ اللہ بے سند وبے حوالہ ذکر کیا گیا ہے اور کسی بھی کتاب میں باسند یہ روایت نہیں ملتی امام سیوطی نے بھی اپنی تفسیر میں اسے ذکر نہیں کیا ہے۔

ص(8) پر ابن عباس رضی اللہ کا ایک قولی اثر پیش کرکے اس سے مقتدی لئے جواب دینے پر استدلال کیا ہے ۔
عرض ہے کہ اس اثر میں سرے سے نماز ہی کا ذکر نہیں ہے اس لئے مقتدی تو درکنار امام کے لئے بھی اس سے استدلال درست نہیں اس کے ساتھ یہ روایت سخت ضعیف ومردود ہے جیساکہ تفصیل پیش کردی گئی ہے۔

ص(17) پر سورہ البقرہ (2) کیآخری آیت {۔۔۔ فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ} کے جواب میں آمین کہنے کی بات لکھ کر بغیر جلد وصفحہ لکھے بریکٹ میں صرف (مسلم شریف ) لکھا ہے۔
عرض ہے کہ صحیح مسلم میں ایسی کوئی روایت میں تلاش نہیں کرسکا البتہ بعض دیگر کتب میں اس تعلق سے کچھ روایات منقول ہے مگر سب کی سب ضعیف ہیں جیساکہ بیان کیا جاچکا ہے۔

ص(19) پرسورہ المرسلات(77) کی آخری آیت {فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ} کے جواب میں آمنا بالله یا آمنت بالله، وبما أنزل پڑھنے کے لئے بتاکر سب سے پہلے بغیر جلد وصفحہ تحریر کئے ہوئے (بخاری ) کا حوالہ دیا گیا ہے۔
عرض صحیح بخاری میں کسی بھی مقام پر یہ بات مجھے نہیں ملی البتہ بعض ضعیف روایات میں ایسا ہے جیساکہ ہماری اس تحریر میں تفصیل موجود ہے۔

ص (9 ، 10، 11 ، 15، 16) پر بعض اہل علم کے اقوال اور ان کے فتاوے پیش کئے گئے ہیں ۔
عرض ہے کہ اہل علم کے یہ اقوال و فتاوئے جن روایات پرمبنی ہیں وہ ضعیف یا غیرمتعلق ہیں جن کی تفصیل ہم نے اس تحریر میں مناسب مقامات پر بیان کردی ہے۔

ص(17 تا 20 ) پر ایک درجن (بارہ) آیات اور ان کے جواب میں کہے جانے والے کلمات درج کئے گئے اور بریکٹ میں جلد وصفحہ تحریر کئے بغیر مختصرا صرف کتب کے حوالے دئے گئے ہیں۔ہم نے اپنی اس تحریر میں ان تمام روایات کی حقیقت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ صاحب رسالہ کو ضعیف روایات ہی درج کرنی تھیں تو صرف بارہ آیات ہی کو کیوں منتخب کیا جب کہ کتب تفاسیر و احادیث میں راقم الحروف کے شمار کے مطابق پچیس (25) آیات ایسی ہیں جن کے جواب میں کچھ کلمات کہنے کی ضعیف روایات منقول ہیں۔یہ ساری روایات ہم نے اپنی تحریر کے اخیر میں متعلقہ آیات کی قرآنی ترتیب کے اعتبار سے دج کردی ہیں ۔

مقتدی کے لئے قرآنی آیات کے جواب سے متعلق رسالے میں جابجا جو شبہات پیش کئے گئے ان سب کا ازالہ ہم نے ایک ہی جگہ ”نماز میں مقتدی کے لئے قرآنی آیات کا جواب دینے کاحکم“ کے تحت پیش کردیا ہے۔



اس وضاحت کے ساتھ ہماری یہ تحریر ختم ہوتی ہے ۔قارئین اپنے ملاحظات واستدراکات سے ہمیں ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کرسکیں۔

ابوالفوزان کفایت اللہ سنابلی
3/ اگست 2017 م ، ممبئی​
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
رسالہ” نماز میں قرآنی آیات کے جواب ۔۔۔“ کا مختصر جائزہ

بعض لوگوں نے ” نماز میں قرآنی آیات کے جواب دینے کا شرعی حکم “ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں بیشتر ضعیف ، موضوع اور من گھڑت روایات یکجا کردی ہیں اور سادح لوح عوام کو یہ رسالہ دیکر اس پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے ۔اس رسالہ میں مذکور تمام روایات سے متعلق ہم نے اپنی تحریر میں کردی ہے بلکہ بہت سی روایات جو اس رسالہ میں بھی نہیں ہیں ان کی حقیقت بھی ہم نے بیان کردی ہے۔والحمد للہ۔
اب اس رسالے کے بعض مقامات سے متعلق مختصرتبصرہ پیش خدمت ہے:

ص(3) سے رسالہ شروع ہوتا ہے اور سب سے پہلے ابوداؤد اور بیہقی کے حوالے سے سورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} کے جواب سے متعلق ایک ضعیف روایت درج کی گئی پھر علامہ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح اور ان کی تشریح پیش کی گئی ہے (رسالہ مذکورہ ص3-4)
عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں پوری تفصیل سے واضح کردیا گیا اور علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کا جائزہ بھی پیش کردیا گیا ہے ۔اورجب یہ روایت ضعیف ٹہری تو اس کی بنیاد پر اپنائے گئے موقوف کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

ص(5) پرسورہ الأعلى (87) کی پہلی آیت{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى} ہی سے متعلق تفسیر قرطبی سے علی رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی گئی ہے ۔
عرض ہے کہ یہ سخت ضعیف ومردود ہے بلکہ اس کی سند کے ایک راوی کو حدیث چور اور جھوٹا بھی کہا گیا ہے جیساکہ ماقبل میں مفصل تحقیق پیش کردی گئی ہے ۔

ص(6) پرسورہ التين (95) کی آخری{أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} کے جواب سے متعلق روایت ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما موقوف روایت امام قرطبی کی تفسیر سے پیش کی گئی ہے۔
عرض ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر ضعیف ہے جیساکہ اس تحریر میں وضاحت موجود ہے اور علی رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام قرطبی رحمہ اللہ بے سند وبے حوالہ ذکر کیا گیا ہے اور کسی بھی کتاب میں باسند یہ روایت نہیں ملتی امام سیوطی نے بھی اپنی تفسیر میں اسے ذکر نہیں کیا ہے۔

ص(8) پر ابن عباس رضی اللہ کا ایک قولی اثر پیش کرکے اس سے مقتدی لئے جواب دینے پر استدلال کیا ہے ۔
عرض ہے کہ اس اثر میں سرے سے نماز ہی کا ذکر نہیں ہے اس لئے مقتدی تو درکنار امام کے لئے بھی اس سے استدلال درست نہیں اس کے ساتھ یہ روایت سخت ضعیف ومردود ہے جیساکہ تفصیل پیش کردی گئی ہے۔

ص(17) پر سورہ البقرہ (2) کیآخری آیت {۔۔۔ فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ} کے جواب میں آمین کہنے کی بات لکھ کر بغیر جلد وصفحہ لکھے بریکٹ میں صرف (مسلم شریف ) لکھا ہے۔
عرض ہے کہ صحیح مسلم میں ایسی کوئی روایت میں تلاش نہیں کرسکا البتہ بعض دیگر کتب میں اس تعلق سے کچھ روایات منقول ہے مگر سب کی سب ضعیف ہیں جیساکہ بیان کیا جاچکا ہے۔

ص(19) پرسورہ المرسلات(77) کی آخری آیت {فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ} کے جواب میں آمنا بالله یا آمنت بالله، وبما أنزل پڑھنے کے لئے بتاکر سب سے پہلے بغیر جلد وصفحہ تحریر کئے ہوئے (بخاری ) کا حوالہ دیا گیا ہے۔
عرض صحیح بخاری میں کسی بھی مقام پر یہ بات مجھے نہیں ملی البتہ بعض ضعیف روایات میں ایسا ہے جیساکہ ہماری اس تحریر میں تفصیل موجود ہے۔

ص (9 ، 10، 11 ، 15، 16) پر بعض اہل علم کے اقوال اور ان کے فتاوے پیش کئے گئے ہیں ۔
عرض ہے کہ اہل علم کے یہ اقوال و فتاوئے جن روایات پرمبنی ہیں وہ ضعیف یا غیرمتعلق ہیں جن کی تفصیل ہم نے اس تحریر میں مناسب مقامات پر بیان کردی ہے۔

ص(17 تا 20 ) پر بعض ایک درجن (بارہ) آیات اور ان کے جواب میں کہے جانے والے کلمات درج کئے گئے اور بریکٹ میں جلد وصفحہ تحریر کئے بغیر مختصرا صرف کتب کے حوالے دئے گئے ہیں۔ہم نے اپنی اس تحریر میں ان تمام روایات کی حقیقت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ صاحب رسالہ کو ضعیف روایات ہی درج کرنی تھیں تو صرف بارہ آیات ہی کو کیوں منتخب کیا جب کہ کتب تفاسیر و احادیث میں راقم الحروف کے شمار کے مطابق پچیس (25) آیات ایسی ہیں جن کے جواب میں کچھ کلمات کہنے کی ضعیف روایات منقول ہیں۔یہ ساری روایات ہم نے اپنی تحریر کے اخیر میں متعلقہ آیات کی قرآنی ترتیب کے اعتبار سے دج کردی ہیں ۔

مقتدی کے لئے قرآنی آیات کے جواب سے متعلق رسالے میں جابجا جو شبہات پیش کئے گئے ان سب کا ازالہ ہم نے ایک ہی جگہ ”نماز میں مقتدی کے لئے قرآنی آیات کا جواب دینے کاحکم“ کے تحت پیش کردیا ہے۔



اس وضاحت کے ساتھ ہماری یہ تحریر ختم ہوتی ہے ۔قارئین اپنے ملاحظات واستدراکات سے ہمیں ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کرسکیں۔

ابوالفوزان کفایت اللہ سنابلی
3/ اگست 2017 م ، ممبئی​
جزاك الله خير محترم شیخ میں نہایت علمی مضمون یے
 
Top