١٥٩ - حدثنا ابن أبي زائدة، عن ابن أبي خالد، عن فراس [ص: ٢١٦] ، عن الشعبي قال: «لا بأس بالتعويذ من القرآن يعلق على الإنسان»
الكتب » حديث يحيى بن معين رواية أبي بكر المروزي »۔
کیا یہ روایت ٹھیک ہے۔
وفي كتاب معرفة العلل وأحكام الرجال عن عبد الله بن أحمد بن حنبل قال:{ حدثني أبي, قال: حدثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة, قال: أخبرني إسماعيل بن أبي خالد, عن فراس, عن الشعبي قال: لا بأس بالتعويذ من القرءان يعلق على الإنسان}. اهـ
اس کی سند بالکل صحیح ہے ،
لیکن صحیح بات یہی ہے کہ :
گر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی تو ہم بلا جھجک کہتے کہ قرآنی تعویذ درست ہیں ۔ لیکن یہ امام شعبی کا قول ہے ، قرآنی تعویذ کے متعلق سلف میں اختلاف ہے ۔
سلف امت کا قرآن سے حقیقی عملی تعلق تھا ، وہ قرآن کے جملہ حقوق سے نہ صرف واقف تھے ،بلکہ ان حقوق قرآنیہ کو شب و روز ادا کرتے تھے ،
جب کہ بعد میں آنے والوں نے قرآن مجید کو صرف ورد و وظیفہ اور دم تعویذ کی کتاب بنا کر رکھ دیا ؛
بلکہ بڑے عرصہ سے اس سے فال نکالنے کا دھندا بھی جاری ہے ؛
سچ کہا ہے :
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھودھو کے پلایا جاتا ہوں
جزدان حریر وریشم کے ، اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے ، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطے مینا کو ، کچھ بول سکھاے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں ، اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول وقسم لینے کے لیے ، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں ، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہے کو میں اک اک جلسہ میں ، پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے ، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں ، سو بار رولا یا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے ، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں ، کس عُرس میں میری دُھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں ، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
ماہر القادریؒ