• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن اگر مخلوق نہیں تو پھر کیا ہے ؟

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
قرآن اللہ کا کلام ہے اور کلام اللہ کی صفت ہے جس طرح اللہ کی ذات مخلوق نہیں اسی طرح اسکی صفات بھی مخلوق نہیں۔ اسی لیے قیامت قرآن پر نہیں آییگی بلکہ مخلوق پر آییگی قیامت سے پہلے قرآن کے حروف اڑالیے جاییں گے ۔واللہ اعلم بالصواب
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
گو کہ اس موضوع پر بات کرنا بعض نواحی سے خطیر ہے لیکن اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اہل کلام اور اہل فلسفہ اور اہل منطق کے پھیلائے ہوئے اسی طرح کے شکوک و شبہات نے بہت سے سادہ اور عام مسلمانوں کو گمراہ کیا ہے لہذا سب سے پہلے تو بنیادی عقیدہ ذہن میں دہرا لیا جائے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے
البتہ اسی سے کچھ اور مسائل بھی نکلتے ہیں جنہیں سمجھ لیا جائے تو بہتر ہے جیسا کہ لازمی ہے کہ ہم تین کیفیات میں فرق کریں
تلاوت، مقروءو مکتوب
ان تینوں کیفیات میں جو کلمات استعمال ہو رہے ہیں وہ اللہ کا کلام ہیں البتہ ان کلمات کو ضبط کرنے کے لیے جو بھی ممکنہ وسائل ہیں وہ سب مخلوق ہیں جیسا کہ شروع میں خود آپ نے بتایا سیاہی، کاغذ، اور آج کل موبائل، کمیپوٹر ریکارڈنگ وغیرہ
ایک چھوٹی سی مثال سے بات واضح ہو جائے گی آواز بذاتہ خود مخلوق ہے، لیکن صاحب آواز جب انہی کلمات کو ادا کرے گا تو وہ کلمات جو ایک آواز کی صورت میں ہم تک پہنچ رہے ہیں وہ کلمات اللہ کا کلام ہیں اور جو آواز ہے وہ مخلوق ہے

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [الرعد:16]
یہ آیت ایسے بہت سے مسائل میں اصل اصیل کی حیثیت رکھتی ہے لفظ شئ نکرہ ہے اور اس کے باوجود کل کے ساتھ مزید تاکید بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے علاوہ کائنات میں ہر چیز مخلوق ہے یعنی اس عموم میں اللہ تعالی شامل نہیں ہیں اسی طرح اس کی صفات بھی اس عموم میں شامل نہیں ہیں
أَلا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ [الأعراف: 54]
اور تخلیق کا تعلق اللہ تعالی کے امر سے ہے
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ [يـس:82]
پس اللہ تعالی حکم دیتا ہے تو تمام اشیاء اسی کن کے زمرے میں آجاتی ہیں کیونکہ تخلیق وتدبیر اسی کو زیب دیتی ہیں

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام جو العقیدہ الواسطیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ منہ بدا والیہ یعود تو اس سے مراد پوری کائنات میں قرآن مجید کے کلمات جہاں جہاں بھی ہوں گے خواہ وہ کسی مصحف میں ہوں یا کسی کتاب میں وہ سب اٹھا لیے جائیں گے کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ ان کلمات کے ساتھ وہ سیاہی یا اوراق ، موبائل، سی ڈیز وغیرہ کو بھی اٹھایا جائے گا اس سے ظاہر ہوتا ہے ان وسائل کی حیثیت صرف وسائل کی ہی ہے اور مخلوق ہونے کے ناطے فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے
اللہ تعالی اور اس کا کلام سب کی حیثیت اس آیت سے واضح ہو جاتی ہے
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورۃ الحدید ۳)
اور حرف اخیر کے طور پر یہ ذہن میں بٹھا لیا جائے کہ اس طرح کے معاملات میں اگر صرف نصوص پر ہی اعتماد کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ تاریخ مسلمان میں ایسے جتنے بھی شکوک و شبہات کا اظہار ہوا ہے ان کے پیچھے مخصوص ذہانتیں ہیں جن کا تعلق یہود اور ابناء الیہود سے ہے اور ان کا موقع واردات منطق، کلام، فلسفہ جیسے امور ہیں بلکہ عقل مطلق کو مطمئن کرنا اس میں ضروری ہے جبکہ مومن کے لیے عقل کو مطمئن کرنا ضروری نہیں کہ اس کے لیے ممکن ہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو کما حقہ سمجھ سکے غالبا یومنون بالغیب کا ایک مطلب یہ بھی ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمت الله -

خیر القرون یعنی نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم اور صحابہ کرام کے مبارک دور کے بعد مسلمانوں کی اکثریت ایسے لایعنی عقائد و نظریات کے پیچھے پڑ گئی کہ جن کی وجہ سے وہ گمراہی کے دھانے پر پہنچ گئے - انہی میں سے ایک خلق قرآن کا مسلہ ہے -جب کہ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر یہ کوئی اتنا ہی اہم معامله یا عقیدہ تھا تو نبی کریم صل الله لیہ و آ له وسلم اس کی ضرور وضاحت فرماتے یا صحابہ کرام رضوان الله اجمین اس پر اپنے اجتہاد سے ضرور کوئی رائے قائم کرتے لیکن ان کے دورمیں اس کی ایک بھی مثال نہی ملتی

ایسے معاملات میں انسان کے گمراہ ہونے کا اتنا احتمال ہوتا ہے کہ انسان کو پتا بھی نہیں چلتا اور وہ کفر کی حد پر پچنچ جاتا ہے-نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم تو ان معاملات میں اتنی احتیاط کرتے کہ اگر آپ کے صحابہ کسی ایسے نظریہ یا عقیدے پر کوئی بات کرتے جو انسان کی عقل و فہم سے ماورا ہوتا تو اسی وقت ٹوک دیتے- احادیث میں ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام تقدیر کے مسلے میں بحث کررہے تھے - نبی کریم صل اللہ علیہ و آ لہ وسلم وہاں سے گزرے جب آپ نے سنا تو آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کا چہرہ مبارک غصّہ سے سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس بارے میں بحث کر رہے ہو جس کا علم صرف الله کو ہے اور تم کو اس کا ذرا بھی علم عطا نہیں کیا گیا - `

لہذا ایسے نظریات پر بحث و مباحثہ صرف گمراہی کے دروازے`تک ہی لے جاتا ہے- اس سے اجتناب کرنا اپنے ایمان کو بچانے کے لئے ضروری ہے -

الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آ مین)
 

123456789

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
88
پوائنٹ
43
محترم فیض الابرار بھائی آپکا بہت شکریہ۔ وقت دیا اور سمجھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور محمد علی جواد بھائی نے بھی زبردست بات کہی ہے۔ یقینا ہمیں ان غیر ضروری ، غیر مطلوب اور لایعنی باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے تاوقتیکہ کوئی فتنہ گر اس فتنہ کو پھیلانے کی سعی نا کرے۔ خلق قرآن کے مطالعہ کے دوران یہ بات بھی نظروں کے سامنے سے گزری کہ کلام اللہ کی صفت ہے جو عین ذات ہے نا غیر ذات اس سے مسئلہ کی نوعیت سمجھنے میں بہت مدد ملی۔
 
Top