- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
قرآن جلتا رہا اورقوم کرکٹ کھیلتی رہی!
" قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کی ناپاک جسارت اور قوم کا رویہ "
پروفیسرمسز ثریا علوی
بارِ الٰہ! یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ مسلمان اس قدر مجبور و لا چار بنا کے رکھ دئیے جائیں گے یا خود ہی اس قدر بے حس ہو جائیں گے۔ ڈیڑھ ارب مسلمان دنیا میں موجود ہوں اور ایسے ایسے واقعات پیش آئیں کہ دل کی دھڑکن بند ہوتی محسوس ہو۔ یہ تیسری ہزاری کیا شروع ہوئی ہے کہ یکے بعد دیگرے فتنے اور بلائیں نازل ہوتی جا رہی ہیں کہ غالب کے الفاظ میں: حیران ہوں روؤں دل کو، کہ پیٹوں جگر کو میں۱۹۹۸ء، ۱۹۹۹ء میں دنیا بھر میں اک شور برپا تھا کہ اب ہم تیسری ہزاری میں داخل ہو رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا استقبال ہم کس طرح کریں گے؟ دنیا کی تمام قومیں اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے لیے اپنے اپنے انداز میں تیاریاں کر رہی تھیں۔ مگر کیا معلوم تھا کہ ان تیاریوں کا مقصد دراصل اسلام اور اہلِ اسلام کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنا تھا۔ چنانچہ یہ اکیسویں صدی اپنے پہلے سال ہی سے مسلمانوں کے لیے انتہائی خون آشام ثابت ہوئی ہے۔ پے در پے حادثے اور ان حادثوں میں اہلِ اسلام کے لیے اتنی ذہنی و جسمانی اذیتیں پنہاں ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ عقل حیران ہے کہ کس کس کا ماتم کرے!
دل یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ قتل کرنیو الے مسلمان، جن کو وہاں سے نکالا گیا وہ ان سے بہت اچھے پابندِ شریعت مسلمان، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان، پھر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی پاکستانی فوج کے ہاتھوں زخم کھاکر مہاجر کیسے بنے؟ ان کے لیے مظلوموں کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا پاکستانی فوج نے ان پر ظلم نہیں کیا کہ امریکہ کو راضی کرنے کے لیے اپنے بھائی بندوں پر اسلحہ اُٹھایا۔ اور اُن کو بری طرح سے دربدر کر کے امریکہ کو خوشخبریاں سنائیں کہ شدت پسندوں سے ہم نے اچھی طرح نبٹ لیا ہے۔ حالانکہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کے نزدیک جو شدت پسند تھے دراصل ان کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ اپنے علاقے میں اسلام کا نظامِ عدل نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔1-مسلمانوں ملکوں کو ویزے اور پاسپورٹوں کے چکروں میں ڈال کر ایک دوسرے سے بے انتہا دور کر دیا گیا ہے تا کہ ان کے مالی وسائل پر امریکہ کا قبضہ رہے۔ ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی پالیسیاں سب کچھ امریکی احکام کی روشنی میں ان کی منشا کے مطابق طے پاتی رہیں۔ اب تمام مسلمان ممالک اللہ اور رسول کی بجائے اپنے آپ کو یواین او اور امریکہ کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں۔
2- ۲۰۰۱ء کا آغاز ہوتے ہی نائن الیون کا ڈرامہ خود ہی امریکی یہودیوں نے رچایا اور پھر اس کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، مسلمان سر نہیں اُٹھا سکے۔ پاکستان کو ڈرا دھمکا کر اس کے بھر پور تعاون سے افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ بعد ازاں مختلف جھوٹے خود ساختہ حیلوں بہانوں سے ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ دونوں ملکوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا اور سارے مسلمان صرف تماشا دیکھنے پر مجبور ہو کر رہ گئے۔
3-مشرف دور میں پاکستان پر بے انتہا ثقافتی یلغار کی گئی۔ اس پر مختلف معاشی پابندیاں بھی لگائیں گئیں۔ اس کے ایٹمی اسلحہ کو تباہ کرنے کی بھر پور تیاریوں کے ساتھ امریکی فوج دندناتی ہوئی پاکستان میں گھس آئی۔ پاکستان پر ڈرون حملے، قبائلی علاقوں پر مسلسل بمباری،سوات، باجوڑ ایجنسیوں میں مختلف آپریشن ہوئے۔ اور پھر اخباروں میں سرخیاں لگتی رہیں: ’’اہل پاکستان نے سوات سے آنے والے مہاجرین کی مدد کرتے ہوئے انصار کی یاد تازہ کر دی۔ ‘‘
4-اس کے بعد پاکستانی فوج اسلام آباد کی مسجدوں کو’فتح‘ کرنے لگی کہ یہ شاہراہِ عام پر واقع ہونے کی وجہ سے رکاوٹ بنتی ہیں۔ حالانکہ مسجدوں کو گرا کر ان کی زمینوں کو کسی اور کام میں لانا شرعاً ممنوع ہے۔ چار ہزار دین کا علم حاصل کرنے والی، حافظِ قرآن اور طالباتِ قرآن و سنت، فاسفورس بموں کے ذریعے قتل کر دی گئیں، ان کی لاشوں کو پگھلایا اور پھر اجتماعی قبروں میں ان کو نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔ لواحقین مطالبہ کرتے ہی رہ گئے کہ ہمارے بچوں کی میت ہی ہمیں دکھادو۔ مگر وہاں کون جواب دینے والا تھا؟ ۱۹۹۲ء میں جب ہندوستان میں جنونی ہندوؤں نے بابری مسجد گرائی تھی، تو اہل پاکستان نے اس پر کتنا احتجاج کیا تھا؟ لیکن اب پاکستان کی اسلامی ریاست کا صدر خود اسلام آباد کی مساجد کو اور قرآن و حدیث کی طالبات کو امریکہ کی خوشنودی کے لیے تہ تیغ کر رہا تھا اور اسے عین وطن کی خدمت باور کرایا جانے لگا۔
5۔پاکستان میں پاکستانی حکومت کی سرکردگی میں میڈیا کے شور و غل میں ویلنٹائن ڈے، میراتھن دوڑ اور بسنت جیسے مغربی اور ہندوانہ تہوار اس جوش و خروش سے منائے گئے کہ خود ہندو اور اہلِ مغرب عش عش کر اُٹھے۔ اپنی عیدیں پاکستان کی نوجوان نسل کو پھیکی اوربور لگنے لگیں۔ محرم و غیر محرم اور حلال و حرام سے بے نیاز نو خیز طلبہ و طالبات اب مخلوط طور پر نیکریں پہن کر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ وہ 14 فروری کو یومِ محبت منا کر اپنے ’دوستوں‘کو پھول پیش کرتے نظر آنے لگے۔
6۔وہ پاکستان جو ’لا الہ الا اللہ‘کے نام پر وجود میں آیا تھا، وہاں اب ۲۰۰۹ء میں کراچی میں این جی اوز نے ’سیکس ورکرز کی کامیاب ورکشاپ‘ منعقد کر کے مطالبہ کیا کہ طوائفوں کی آمدنی کو جائز اور قانونی سمجھ کر اُنہیں ’ باقاعدہ اپنا پیشہ اختیار کر کے روزی کمانے کا حق‘ دیا جائے۔ اور پھر اسلام آباد میں خود امریکی سفارتخانہ میں ۲۶ جون ۲۰۱۱ء کو اس نے ہم جنس پرستوں کا پروگرام بھی کروا ڈالا۔ اور پھر ان کے حقوق کی انہیں یقین دہانی کروائی تھی۔ کیا ایسے لچر اور فضول پروگرام پاکستان ہی میں ہونا تھے؟
7۔مغربی نیو ورلڈ آرڈر کے ناخداؤں کا اصرار ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے محبتِ رسول نکالنا ضروری ہے۔ اس غرض کے لیے وہ منظم طور پر سازش کے تحت ۲۰۰۵ء سے ہمارے پیارے پیغمبرﷺ کی کردار کشی کرنے کے لیے غلیظ اور گستاخانہ خاکے چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ وہ اس کو اپنی ’رائے کا ظہار‘کہتے ہیں کہ ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اور مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا تمام مغربی ممالک یکے بعد دیگرے دل پسند مشغلے کے طور پر خاکے چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق:
’’۸ جنوری ۲۰۱۰ء کو ناروے کے اخبار آفتن پوسٹن (Afton Poston) نے رسول پاک کے توہین آمیز خاکے دوبارہ شائع کر دئیے۔ ساتھ ہی اخبار کی چیف ایڈیٹر Hilde Haugrjerd نے ڈیڑھ اَرب مسلمانوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے یقین ہے کہ خاکوں کی اشاعت سے کوئی مضبوط ردِ عمل سامنے نہیں آئے گا۔‘‘ (گویا نعوذ باللہ اس کے نزدیک مسلمانوں نے ناموسِ رسول کی کوئی خاص قدر نہیں کی۔ وہ اب اس توہینِ رسالت کے عادی ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اب جو چاہو، کرو ) تو پھر اے مسلمانو! اٹھو اور اب اپنا بھر پور ردِ عمل دو۔‘‘(ماہنامہ ’الصفت‘ لاہور: آخری صفحہ مارچ ۲۰۱۰ء)