• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، ۔ ۔ ۔ قران کی تلاوت پر ثواب ثابت ہے ۔اسے کسی صورت میں بدعت نہیں کہا جاسکتا ۔اب وہ چاہے اجتماعی ہو یا انفرادی
1۔ کوئی زندہ شخص قرآن کی تلاوت انفرادی طور پر کرے یا اجتماعی طور پر ۔ ۔ ۔ ہر پڑھنے والے کو اس تلاوت قرآن کا ثواب ملتا ہے ۔ ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ اس بات پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔

2۔ ایک یا بہت سے لوگ مل کر تلاوت قرآن کریں (عرف میں اسے ہی ”قرآن خوانی“ کہتے ہیں) اور اس کے بدلہ انہیں جو ثواب ملے ۔ کیا یہ ”حاصل شدہ ثواب“ ۔کسی مرحوم شخص کو ”ایصال“ کیا جاسکتا ہے ؟ یہ ایک ”اختلافی مسئلہ“ ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کیا جاسکتا ہے۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں کیا جاسکتا۔ جو یہ کہتے ہیں کہ نہیں کیا جاسکتا وہ اس کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ کسی صحیح حدیث سے ایسا ثابت نہیں ہے ۔ نہ ہی ادوار رسالت و صحابہ میں ایسا ”رواج“ موجود تھا۔

3۔ قرآن مجید کی تلاوت کوئی زندہ شخص کرے اور اس کا ثواب کسی مرحوم شخص کو ملے، ایسا بھی ہوسکتا ہے، مگر صرف ذیل کے مطابق۔ (مروجہ ”قرآن خوانی“ کے ذریعہ نہیں)

(الف) ۔ کسی مرحوم شخص نے اپنی زندگی میں مصحف قرآن چھپوا کر مدارس، مساجد، یا عام لوگوں میں تقسیم کردیا۔ مرحوم کی طرف سے تقسیم شدہ مصحف قرآنی کی جو بھی تلاوت کرے گا۔ اس تلاوت کا ثواب (قاری کو ملنے کے ساتھ ساتھ) مرحوم کو بھی ملتا رہے گا

(ب) اگر کسی مرحوم شخص نے اپنی زندگی میں کچھ لوگوں کو قرآن پڑھنا سکھلایا ۔ تو اس مرحوم شخص کے یہ شاگرد جب بھی قرآن کی تلاوت کریں گے، انہیں تو ثواب ملے گا ہی۔ ساتھ ساتھ ان کے مرحوم استاد کو بھی ثواب ملتا رہے گا۔ ان شا ء اللہ

(ج) اگر کوئی مرحوم صالح اولاد چھوڑ گیا ۔ تو یہ صالح اولاد جو بھی نیک کام کرے (بشمول تلاوت قرآن پاک) تو ان تمام نیک کاموں، بشمول تلاوت قرآن پاک کا ثواب صالح اولاد کو تو ملے گا ہی، یہ ثواب ان کے مرحوم والد کو بھی ملے گا

واللہ اعلم بالصواب
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم
ا
پنے نیک عمل کا وسیلہ دینا بھی کہاں کی عقلمندی ہوگا
۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ حدیث بھی ہے ۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کے تین اعمال اسے نفع پہنچاتے ہیں جو علم ، نیک اولاد اور ثواب جاریہ کے کام ہیں جو اس نے مرنے سے پہلے کیے۔ یہ بھی ایصال ثواب کی ایک مثال ہے ۔
پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹہنیاں رکھیں اور کہا کہ اللہ ان کے عذاب میں تخفیف کرے گا تو یہ بھی ایک ایصال ثواب کی صورت بن گیا ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا“۔

قران کی تلاوت پر ثواب ثابت ہے ۔اسے کسی صورت میں بدعت نہیں کہا جاسکتا ۔اب وہ چاہے اجتماعی ہو یا انفرادی ۔

@محمد علی جواد
محترم نسیم صاحب -

آپ نے جو فرمایا کہ : مرنے کے بعد انسان کے تین اعمال جو اسے نفع پہنچاتے ہیں اس ضمن میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ اپنی جگہ بلکل صحیح ہے- اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلَُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ اِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ (مسلم ؍ کتاب الوصیۃ)-

لیکن اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک مرنے والے انسان کے ان تین اعمال صالح کا تعلق ہے تو یہ اس کا اپنا کسب تھا جن کے عملی نمونے وہ دنیا میں چھوڑ گیا اور اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کی اقتداء میں ویسے ہی نیک عمل بجا لاتے ہیں اور اس کا فائدہ اس شخص کو مرنے کے بعد ملتا رہتا ہے -کیوں کہ اس نے اپنے عمل کے ذریے ہی معاشرے میں ایک اچھی روایت ڈالی- جب کہ اگر کسی دوسرے کے اعمال کا ثواب اس کو پہنچانے کی کوشش کی جائے اور اس کو ایصال ثواب سے موسوم کردیا جائے تو اس کے بدعت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے - جیسا کہ ہمارے ہاں عام فہم لوگوں اور نام نہاد علماء کو شدید غلط فہمی ہے- کہ ان کے نزدیک مروجہ "ایصال ثواب " کا تو مقصد و مصرف ہی یہی ہے - ان کے نزدیک ایک زندہ انسان اپنے مرنے والے بھائی یا رشتہ دار کو جو اپنا نیک عمل ایصال کرنے کی لاحاصل سعی کرتا ہے وہ لازمی اس مردہ انسان تک یا اس کی روح تک پہنچتا ہے - جو کہ قرآن کی صریح نص کے ہی خلاف ہے - الله کا تو قرآن کریم میں واضح فرمان ہے کہ :

قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ سوره البقرہ ١٣٩
کہہ دو کیا تم ہم سے الله کی نسبت جھگڑا کرتے ہو حالانکہ وہی ہمارا اور تمہارا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں اور تمہاری لئے تمہارے عمل- اور ہم تو خا لص اسی کی عبادت کرتے ہیں-

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ سوره البقرہ ١٤١
یہ ایک امّت تھی جو گزر چکی ان کے لیے ان کے عمل ہیں اور تمہارے لیے تمہارے عمل ہیں اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا-

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ سوره البقرہ ١٢٣

اوراس دن سے ڈرو جس دن کوئی بھی کسی کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ اسے کوئی سفارش نفع دے گی اور نہ وہ مدد دیے جائیں گے

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ -وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ سوره النجم ٣٩-٤٠

اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے- اور عنقریب اس کی اس کوشش کو پرکھا جائے گا -

ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ سوره ال عمران ١٨٢

یہ اس چیز کے بدلے میں ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور الله اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا-

وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سوره القصص ٤٧

اور ایسا نہ ہو کہ جو اعمال ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ان کی وجہ سے ان پر کوئی مصیبت پڑے (دنیا یا آخرت میں )تو کہنے لگیں کہ اے ہمارے پروردگار! آپ نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم آپ کے احکام (آیات)کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں ہوتے۔

وَاِذَآ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَۃً فَرِحُوْا بِہَا ۰ۭ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَيِّئَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ اِذَا ہُمْ يَقْنَطُوْنَ سوره الروم ٣٦

اور جب ہم لوگوں کو اپنی رحمت (کا مزہ)چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں ۔ اور اگر ان کے عملوں کے سبب جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں ان کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ ناامید ہوکر رہ جاتے ہیں۔

وَلَا يَتَمَنَّوْنَہٗٓ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْہِمْ ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ سوره سورۃ الْجُمُعَة -٦٢

اور یہ کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے بوجہ ان اعمال کے جو اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکے ہیں۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتے ہیں۔

ان آیات مبارکہ سے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مرنے کے بعد انسان کو اسی چیز کا سامنا کرنا پڑے گا جو کچھ وہ اپنے ہاتھوں سے آگے بھیج چکا- ناکہ کسی دوسرے انسان کا عمل اس کو فائدہ پہنچاے گا- یہ قرانی آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کسی ایک زندہ انسان کا عمل کسی مرنے والے کے کام نہیں آ سکتا- بشرط ہے کہ اس میں اس مرنے والے کا اپنا حصّہ ہو- جیسا کہ اوپر حدیث نبوی میں صدقہ جاریہ کے طور پر مرنے والے انسان کے تین اعمال ذکر کیے گئے ہیں جن کا مرنے کے بعد بھی ثواب ملتا ہے لیکن یہ مرنے والے کے اپنے اعمال کا ثمر ہے جو اس کو مل رہا ہے یعنی (۱)صدقہ جاریہ۔ (۲) علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ (۳) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔‘‘

باقی رہا کسی انسان کا دوسرے انسان کے لئے دعا مغفرت کرنا - تو یہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ یہ دعا درحقیقت الله کی بارگاہ میں ایک فریاد ہے ایک مسلمان کی طرف سے دوسرے مسلمان کے لئے کہ : اے الله تو فلاں کے گناہ بخش دے اور اس کے درجات کو اپنی بارگاہ اقدس میں مقبول کر- اب یہ الله پر منحصر ہے کہ وہ اس درخواست کو قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے- اور یہ دعا بھی صرف مردوں (میت) تک محدود نہیں جیسا کہ اہل بدعت اور قرآن خوانی کے دلداہ لوگوں نے سمجھا ہوا ہے اور اس عمل کو ایصال ثواب پر محمول کیا ہوا ہے - اگر دعا مغفرت کا مطلب "ایصال ثواب " ہی ہے جیسا کہ یہ ہمارے ہاں عوام الناس میں مقبول ہے تو پھر اصولی طور پر اس کے پہلے حقدار زندہ انسان ہیں ناکہ مردہ انسان- خود الله کے مقرب فرشتے زندہ انسانوں (مومنین) کے لئے ہر وقت دعا مغفرت کرتے رہتے ہیں-

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ{ [غافر.

عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے (7)

رہی آپ کی یہ بات کہ "قرآن کی تلاوت پر ثواب ثابت ہے" تو یہ اسی وقت ممکن ہے جب قرآن کی تلاوت سنّت رسول کے مطابق اپنے لئے کی جائے- اگر مرنے والوں کے لیے تلاوت قرآن جائز ہوتی تو نبی اکرم صل الله علیہ و آ له وسلم اور آپ کے تربیت یافتہ اصحاب رضوان الله اجمین سے ضرور ثابت ہوتی- لیکن صحیح روایات سے ایسا کہیں ثابت نہیں- نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں آپ کی ازواج مطہرات اور اصحاب بھی فوت ہوے لیکن کسی ایک کے لئے بھی قرآن خوانی کی محافل کا اہتمام نہیں کیا گیا- نہ ہی اجتمائی طور پر نہ ہی انفرادی طور پر- ویسے بھی کسی کے عمل پر ثواب کا مرتب ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ عمل سنّت نبوی یا سلف و صالحین (یعنی اصحاب رسول ) سے ثابت ہے یا نہیں - اگر ثابت نہیں تو اس پر ثواب بھی ممکن نہیں- قرآن میں الله رب العزت کا واضح فرمان ہے -

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا سوره النساء ٥٩
ا

ے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیردو- اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو- یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے-

جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں پر ٹہنیاں رکھنے کے واقعہ کا معامله ہے اور آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی اللہ سے یہ فریاد کرنا کہ اے اللہ ان کے عذاب میں تخفیف کردے - تو یہ واقعہ صرف آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی ذات تک محدود ہے- کیوں کہ صرف آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو ہی معجزہ کے طور پر اس بات کا ادرک ہوا تھا کہ ان دو قبروں میں اصحاب قبر کو عذاب ہو رہا ہے - بعد میں انے والوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ قبروں میں مدفون لوگوں کے حالات جان سکیں - اس لئے نہ تو نبی کریم نے اس بات کا حکم دیا کہ قبروں پر ٹہنیاں لگائی جائیں اور نہ آپ کے بعد اپ کے اصحاب نے ایسا کوئی کام کیا - اس لئے اس عمل کو ایصال ثواب سے تشبیہ دینا بدعت کو فروغ دینے کی مترادف ہے -

الله رب العزت ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا کرے اور بدعتی اعمال سے محفوظ فرماے (آمین)-
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم جواد بھائی
قران پاک کے سپارے الگ الگ چھاپنا بھی بدعت ہوگا۔کیونکہ صحابہ نے تو قران کو ایک جگہ جمع کیا تھا۔الگ الگ پارے کرنا کیسے ثابت ہوگا۔جب آپ حصول دین کیلئے جدید ذرائع اختیار کر تے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ذریعہ مقصد نہیں بلکہ حصول دین ثواب ہے۔اسی طرح علم حدیث کی پہچان کے اصول بھی حدیث کو پہچاننےکا ذریعہ ہیں اب یہ اصول صحابہ کے دور میں تو نہیں تھے تو کیا ان کو حاصل کرکے صحیح حدیث کی پہچان کرنا بھی بدعت ہوگا۔
یعنی ان اصول کا سیکھنا کچھ ثواب نہیں ہے۔ ؟

اسی طرح قران خوانی ایک ذریعہ ہے قران کی تلاوت کرنے کا۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
اوراس دن سے ڈرو جس دن کوئی بھی کسی کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ اسے کوئی سفارش نفع دے گی اور نہ وہ مدد دیے جائیں گے
قران کی آیت برحق ہے۔ لیکن اس میں مطلقاً سفارش کا انکا ر نہیں ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم جواد بھائی
قران پاک کے سپارے الگ الگ چھاپنا بھی بدعت ہوگا۔کیونکہ صحابہ نے تو قران کو ایک جگہ جمع کیا تھا۔الگ الگ پارے کرنا کیسے ثابت ہوگا۔جب آپ حصول دین کیلئے جدید ذرائع اختیار کر تے ہیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ذریعہ مقصد نہیں بلکہ حصول دین ثواب ہے۔اسی طرح علم حدیث کی پہچان کے اصول بھی حدیث کو پہچاننےکا ذریعہ ہیں اب یہ اصول صحابہ کے دور میں تو نہیں تھے تو کیا ان کو حاصل کرکے صحیح حدیث کی پہچان کرنا بھی بدعت ہوگا۔
یعنی ان اصول کا سیکھنا کچھ ثواب نہیں ہے۔ ؟

اسی طرح قران خوانی ایک ذریعہ ہے قران کی تلاوت کرنے کا۔
میرے بھائی -

بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جس کا دین اسلام میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کے حکم سے نفاذ اس وقت کی ضرورت و سہولت کے پیش نظر ممکن تھا- لیکن آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے نہ تو اپنے اصحاب کو اس کا حکم دیا اور نہ اپ نے بذات خود اس کو سر انجام دیا (یعنی شریعت کا حصّہ نہیں بنایا) - اور مردے کے لئے قرآن خوانی اسی ضمن میں آتی ہے- یعنی اس کا نفاذ اس دور میں بھی ممکن تھا لیکن الله اور اس کے نبی نے اس کو شریعت کا حصّہ نہیں بنایا - اب اس پر عمل کرنا بدعت ہی کہلاۓ گا -

نبی کریم کے دور میں قرآن کریم بتدریج نازل ہو رہا تھا اس لئے سپارے وغیرہ بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی. بعد ازاں وہ لوگ جن کی زبان عربی نہیں تھی اور ان میں قرآن حفظ کرنے کا شوق پیدا ہوا تو ان کی آسانی کے لئے قرآن کو سپاروں میں تقسیم کردیا گیا - اسی طرح قرانی آیات پر اعراب لگانے کا معامله ہے - تاکہ غیر عرب (عجمی) قرآن کی صحیح طور تلاوت کر سکیں - ورنہ عربی لوگ تو آج بھی بغیر اعراب کے قرآن پڑھ لیتے ہیں- اس لئے اس کو بھی بدعت سے موسوم کرنا صحیح نہیں -

اصول احادیث کا معامله بھی یہی ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وآ له وسلم اور آپ کے بعد آپ کے اصحاب کے دور میں لوگوں کا حافظہ تیز تھا اور تمام اصحاب رسول کی ثقاہت بھی ثابت تھی اس لئے ان احادیث رسول کو پرکھنے کے لئے خاص اصولوں کے وضع کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی- دوسری و تیسری ہجری میں جب راویوں کا اپنے من سے احادیث نبوی گھڑنے کا سلسلہ شروع ہوا تو محدثین کو احدیث کو پرکھنے کے اصول وضع کرنے پڑے- یہ سب عمل ضرورت کے پیش نظر سر انجام دیے گئے ہیں اس لئے ان پر بدعت کا اطلاق کرنا یا ان کی مثال دینا دانشمندی نہیں -
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
پھر تو اس قانون کے تحت مروجہ تروایح بھی بدعت کے زمرے میں آئے گی ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک رمضان پڑھی۔ اور ہم ہر رمضان پڑھتے ہیں۔ یعنی عملاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف جاتے ہیں۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
عرف عام میں جس کو تراویح کہا جاتا ہے وہ " قیام اللیل " ہے اور اس پر ہمیشگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور وہ آٹھ رکعت ہیں ۔ بیس نہیں ۔ آپ ﷺ نے صرف اس لئے جماعت تین تک کی کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے ، اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد چونکہ یہ امر مانع نہ تھا تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو جماعت سے قائم کیا (وہ بھی آٹھ رکعت ہی تھیں ) ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
پھر تو اس قانون کے تحت مروجہ تروایح بھی بدعت کے زمرے میں آئے گی ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک رمضان پڑھی۔ اور ہم ہر رمضان پڑھتے ہیں۔ یعنی عملاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف جاتے ہیں۔
جناب
اگرچہ تراویح یہاں موضوع نہیں ، ولکن تراویح کے موضوع پر اس فورم پر کئی تهریڈس موجود ہیں جو علم حاصل کرنے کی خاطر پڑهے جانے چاہیئں ۔
محترم جواد بهائی نے سمجهانے کی کوشش کی ، اللہ انہیں جزائے خیر دے اور علم و عمل میں برکت عطاء فرمائے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
قران کی آیت برحق ہے۔ لیکن اس میں مطلقاً سفارش کا انکا ر نہیں ہے۔

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے۔
محترم -

پہلی بات یہ کہ اس روایت سے کہیں بھی قرآن خوانی کا حجت ہونا ثابت نہیں ہوتا-

دوم یہ کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مشرک کی نجاعت کسی صورت نہیں ہو گی -چاہے کوئی نبی ہی الله کے حضور اپنے رشتہ دار کی سفارش کیوں نہ کرے- جیسا کہ روایت میں ہے کہ اس (سفارش) کی وجہ سے وہ (ابو طالب) صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہے- لیکن جہنم سے نجاعت پھر بھی ممکن نہیں -

سوم یہ کہ اس کی سفارش بھی صرف اس کے اس عمل کے بنا پر کی گئی تھی- کہ اس نے نبوت کے اولین اور مشکل ترین دور میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی اعانت اور مدد کی تھی - اگر وہ ایسا نہ کرتا تو شاید آپ صل الله علیہ و آ له وسلم بھی الله کے حضور اس کے عذاب میں کمی کی سفارش نہ کرتے - یعنی (کسی حد تک) اس کا اپنا عمل ہی اس کے کام آیا-
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
عرف عام میں جس کو تراویح کہا جاتا ہے وہ " قیام اللیل " ہے اور اس پر ہمیشگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور وہ آٹھ رکعت ہیں ۔ بیس نہیں ۔ آپ ﷺ نے صرف اس لئے جماعت تین تک کی کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے ، اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد چونکہ یہ امر مانع نہ تھا تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو جماعت سے قائم کیا (وہ بھی آٹھ رکعت ہی تھیں ) ۔
محترم
میں نے لفظ مروجہ استعمال کیا۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت 20 پڑھتی ہے اور اسے قیام الیل سے الگ نماز سمجھتی ہے۔ اب اگر اس کو رائج ہی نہ کیا جاتا تو عوام ایک بڑی بدعت سے بچ جاتے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے لئے حجت صرف حدیث و قران ہے کبھی کہا جاتا ہے صحابہ کی تشریح حجت ہے ۔
یہ حدیث پڑھیں اور مجھ کو بتائیں کہ میں اگر اس حدیث کو حجت بناؤں تو تروایح مروجہ طریقے سے کیسے جائز ہوگی۔
حدیث نمبر: 824 --- حکم البانی: صحيح الإسناد... ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا ، وہ عبداللہ بن عمر ؓ سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا ، تو عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا : یہ جائز ہے ۔ اس پر شامی نے کہا : آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے ؟ عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا : ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ ﷺ نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ ﷺ کے حکم کی ، تو اس نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے حکم کی ، تو انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہے ۔

یعنی عمل صحابہ بھی کلی حجت نہیں ہے۔
 
Top