• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں اب بھی اس موقف پر قائم ہوں کہ تروایح مروجہ طریقہ سے پڑھنا سنت نبوی نہیں ہے ۔
اب آپ ایسی باتیں کریں گے تو یہ باتیں ہیں ہی بھاڑ میں پھنکنے کے قابل؛
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث دیکھیں:
جس طرح نمازِ وتر، جس کا تعلق قیام الیل سے ہے، اور اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اول وقت میں پڑھنے کی رخصت دی، اسی رخصت میں تراویح کو بھی اول وقت میں ادا کرنا شامل ہے!!
حدیث ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ ، فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ ، فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ "
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جس آدمی کو یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا تو اسے چاہیے کہ وہ شروع رات ہی میں وتر پڑھ لے اور جس آدمی کو اس بات کی تمنا ہو کہ رات کے آخری حصہ میں قیام کرے تو اسے چاہیے کہ وہ رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ اس کے لئے افضل ہے
صحيح مسلم» كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا» بَاب مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ

وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " أَيُّكُمْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ ، ثُمَّ لِيَرْقُدْ ، وَمَنْ وَثِقَ بِقِيَامٍ مِنَ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِهِ ، فَإِنَّ قِرَاءَةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ "
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے جس آدمی کو اس بات کا ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہ اٹھ سکے گا تو اسے چاہیے کہ وتر پڑھ لے پھر سو جائے اور جس آدمی کو رات کو اٹھنے کا یقین ہو تو اسے چاہیے کہ وہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصہ میں قرات کرنا ایسا ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔
صحيح مسلم» كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا» بَاب مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ

جو بعینہ اسی طریقہ پر پڑھتا ہے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے وہ حدیث کے مطابق قیام الیل ادا کر تا ہے۔
تراویح قیام الیل کو ہی کہتے ہیں!
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وتر ہی قیام الیل ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم
میں نے بار بار مروجہ طریقہ کے الفاظوں کا استعمال کیا ہے۔ آپ کے علم میں یقینا ہوگا کہ فقہ حنفی کے مطابق تروایح سنت مؤکدہ ہے ۔ جب یہ قیام الیل ہے اور تہجدکی نماز ہے جو نفل ہے تو سنت مؤکدہ کیسے اور اس کا چھوڑنے والا گناہ گار کیوں۔

آپ سے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ اگر میں رمضان میں تروایح کی نماز اب وہ 8 ہوں یا بیس نہ پڑھوں تو کیا گناہ گار ہوں گا۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
میں نے آپ سے ذکر کیا تھا انسانی ذہن میں سوال آنے ایک فطری عمل ہے اور صاحب علم لوگوں کی ذمہ داری ہے وہ عامیوں کو ہر طرح سے مطمئن کریں
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، انہوں نے عقیل بن خالد سے بیان کیا ، انہوں نے ابن شہاب سے ، انہوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک ؓ نے خبر دی کہ (نبی کریم ﷺ کے مرض وفات میں) مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے ، اچانک رسول اللہ ﷺ نے عائشہ ؓ کے حجرہ سے پردہ ہٹایا ۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو دیکھا ۔ سب لوگ صفیں باندھے ہوئے تھے ۔ آپ ﷺ (خوشی سے) خوب کھل کر مسکرائے اور ابوبکر ؓ نے (آپ ﷺ کو دیکھ کر) پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ صف میں مل جائیں ۔ آپ نے سمجھا کہ نبی کریم ﷺ تشریف لا رہے ہیں ۔ صحابہ (آپ ﷺ کو دیکھ کر خوشی سے اس قدر بےقرار ہوئے کہ گویا) نماز ہی چھوڑ دیں گے ۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور پردہ ڈال لیا ۔ اسی دن چاشت کو آپ ﷺ نے وفات پائی ۔

اب اس حدیث کو پڑھ کر ایک کر سوال ذہن میں آتا ہے کہ نماز میں کسی کی طرف دیکھا جاسکتا ہے اور اس سے نماز نہیں ٹوٹتی لیکن علماء نماز کسی طرف دیکھنے کو نماز کا ٹوٹنا قرار دیتے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم
میں نے بار بار مروجہ طریقہ کے الفاظوں کا استعمال کیا ہے۔ آپ کے علم میں یقینا ہوگا کہ فقہ حنفی کے مطابق تروایح سنت مؤکدہ ہے ۔ جب یہ قیام الیل ہے اور تہجدکی نماز ہے جو نفل ہے تو سنت مؤکدہ کیسے اور اس کا چھوڑنے والا گناہ گار کیوں۔
یہ سوال تو آپ حنفیوں سے پوچھیں!
آپ سے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ اگر میں رمضان میں تروایح کی نماز اب وہ 8 ہوں یا بیس نہ پڑھوں تو کیا گناہ گار ہوں گا۔
نہیں گنہگار نہیں ہوں گے!
بس اس کا خیال رکھیئے گا کہ کہیں اس حدیث کے مصداق نہ ہو جائیں؛
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ، کہا ہم کو حمید بن ابی حمید طویل نے خبر دی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات ( علی بن ابی طالب ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی ا للہ عنہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیامقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروںگا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوںگا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوںگا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروںگا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میںعورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
صحيح البخاري»» كِتَابُ النِّكَاحِ»» بَابُ التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
جب یہ احادیث عام آدمی کی سمجھ کیلئے نہیں ہیں تو ان کا ترجمہ کرنے اور ان کے سوفٹ وئیر بنانے کی ضرورت کیا ہے ِ
معذرت سوالات کی لسٹ طویل ہوگئ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے بار بار مروجہ طریقہ کے الفاظوں کا استعمال کیا ہے۔ آپ کے علم میں یقینا ہوگا کہ فقہ حنفی کے مطابق تروایح سنت مؤکدہ ہے ۔ جب یہ قیام الیل ہے اور تہجدکی نماز ہے جو نفل ہے تو سنت مؤکدہ کیسے اور اس کا چھوڑنے والا گناہ گار کیوں۔
اس کی تھوڑی تفصیل بیان کر دیتا ہوں،(فقہ حنفی اور حنفیوں کے مؤقف سے قطع نظر)
نماز کی اصل میں دو اقسام ہیں، ایک صلاة مکتوبہ یعنی فرض نمازیں، دوسری صلاة غیر مكتوبہ یعنی وہ نمازیں کو فرض نہیں، یہ تمام نمازیں نفل ہی ہیں، اب ان میں جس نماز کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تاکید ثابت ہوتی ہے، وہ سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں، اور جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہیں، لیکن ان کی ایسی تاکید نہیں ہوتی، وہ سنت غیر مؤکدہ کہلاتی ہیں، اور ان کے علاوہ اگر کوئی شخص مزید بھی صلاة پڑھتا ہے تو انہیں نوافل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ فقہ کی اصطلاحیں ہیں،
وگرنہ یہ تمام نمازیں نوافل یعنی صلاة غیر مكتوبہ میں شامل ہیں!
 
Top