• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
قرآن خوانی کی شرعی حیثیت
تحریر : غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

قریب الموت، میت اور قبر پر قرآن پڑھنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ صحابہ ، تابعین اور ائمہ مسلمین کی زندگیوں میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔
قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ زندوں کی دعا فوت شدگان کو فائدہ دیتی ہے۔ قرآن خوانی کے ثبوت پر شرعی دلیل نہیں، لہٰذا یہ دین میں ایک نئی اختراع ہے۔اس پر دلائل جوپیش کئے جاتے ہیں ، ان کا سقم ملاحظہ ہو :
دلیل نمبر1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا، انہیں عذاب ہو رہا تھا، ان میں سے ایک اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔
ثُمَّ أَخَذَ جَرِیدَۃً رَطْبَۃً، فَشَقَّہَا بِنِصْفَیْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِی کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃً، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، لِمَ صَنَعْتَ ہَذَا؟ فَقَالَ: لَعَلَّہُ أَنْ یُخَفَّفَ عَنْہُمَا مَا لَمْ یَیْبَسَا .
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک تازہ ٹہنی لی، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، اورہر قبر پر ٹہنی کا ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ فرمایا:شاید کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کر دے۔''
(صحیح البخاری:1361؛ صحیح مسلم:292)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَاسْتَحَبَّ الْعُلَمَاءُ قِرَاء َۃ الْقُرْآنِ عِنْدَ الْقَبْرِ لِہٰذَا الْحَدِیْثِ ؛ لِ
ـأَنَّہُ إِذَا کَانَ یُرْجَی التَّخْفِیْفُ بِتَسْبِیحِ الْجَرِیْدِ فَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ أَوْلٰی.وَاللّٰہُ أَعْلَم .
''اس حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ قبر کے پاس تلاوت مستحب ہے، کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہے تو قرآن کریم کی تلاوت بالاولیٰ ایسے ہو گی۔ واللہ اعلم۔''
(شرح صحیح مسلم:141/1)
تبصرہ:
اس حدیث سے قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال درست نہیں، کیونکہ خیر القرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، نہ ہی اس میںکہیں ذکر ہے کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی وجہ سے ہوئی۔ لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔ عذاب میں تخفیف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا و شفاعت کی وجہ سے ہوئی، سیدنا جابر بن عبداللہwبیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّی مَرَرْتُ بِقَبْرَیْنِ یُعَذَّبَانِ، فَأَحْبَبْتُ، بِشَفَاعَتِی، أَنْ یُرَفَّہَ عَنْہُمَا، مَا دَامَ الْغُصْنَانِ رَطْبَیْنِ .
''میں دو قبروں کے پاس سے گزرا، جن کے مردوں کو عذاب دیا جا ریا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ عذاب ہلکا ہو جائے، جب تک ٹہنیاں تَر رہیں۔''
(صحیح مسلم:3012)
ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے، اسی طرح کا ایک تیسرا واقعہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
(صحیح ابن حبان:824؛وسندہ حسن)
نیز دیکھیں:
(مصنف ابن ابی شیبۃ:376/3؛ مسند الامام احمد:441/2؛ عذاب القبر للبیہقی:123؛وسندہ حسن)
فائدہ:
مورق العجلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَوْصَی بُرَیْدَۃُ الْ
ـأَسْلَمِیُّ أَنْ تُوضَعَ فِی قَبْرِہِ جَرِیدَتَانِ، فَکَانَ مَاتَ بِأَدْنَی خُرَاسَانَ، فَلَمْ تُوجَدْ إِلَّا فِی جَوَالِقِ حَمَّارٍ .
''سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں رکھی جائیں، آپ رضی اللہ عنہ خراسان کے علاقے میں فوت ہوئے، وہاں یہ ٹہنیاں صرف گدھوں کے چھٹوں سے ملیں۔''
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد:8/7؛ وسندہ صحیح ان صح سماع مورق عن بریدۃ)
بشرط صحت یہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی اپنی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے کہ انہوںنے قبر پر دو ٹہنیاں رکھنے کا حکم دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عذاب سے تخفیف کی غرض سے گاڑنے کا حکم نہیں دیا۔
فائدہ:
سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ والی روایت (تاریخ بغداد للخطیب:182/1،183) ضعیف ہے۔ اس کے دو راویوں شاہ بن عمار اور نضر بن منذربن ثعلبہ عبدی کے حالات نہیں مل سکے، دوسرے یہ کہ قتادہ مدلس ہیں۔ ان کا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل للحافظ العلائی :255)
دلیل نمبر2
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اقْرَء ُوا عَلٰی مَوْتَاکُمْ یٰس .
''قریب المرگ لوگوں پر سورت یٰس کی قراء ت کرو۔''
(مسند الامام احمد:26/5؛ سنن ابی داؤد:3121؛ السنن الکبریٰ للنسائی:10914؛ سنن ابن ماجۃ:1448)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3002)نے صحیح کہا ہے۔
سند ضعیف ہے۔ ابو عثمان کے مجہول والد کی زیادت ہے۔ یہ المزید فی متصل الاسانید ہے۔ ابو عثمان نے سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی۔ لہٰذا سند ضعیف ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَرَادَ بِہِ مَنْ حَضَرَتْہُ الْمَنِیَّۃُ لَا أَنَّ الْمَیِّتَ یُقْرَأُ عَلَیْہِ وَکَذَلِکَ قَوْلُہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ
''اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب المرگ مراد لیا ہے۔ نہ کہ میت پر قرآن پڑھا جانا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ مردوں کو لا الٰہ الا اللہ کی تلقین کرو(یہ بھی قریب المرگ کے لئے ہے، میت کے لئے نہیں)۔''
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
(الروح لابن القیم ص:11)
فائدہ:
قَالَ صَفْوَانُ، حَدَّثَنِی الْمَشْیَخَۃُ، أَنَّہُمْ حَضَرُوا غُضَیْفَ بْنَ الْحَارِثِ الثُّمَالِیَّ، حِینَ اشْتَدَّ سَوْقُہُ، فَقَالَ: " ہَلْ مِنْکُمْ أَحَدٌ یَقْرَأُ یٰس؟ قَالَ: فَقَرَأَہَا صَالِحُ بْنُ شُرَیْحٍ السَّکُونِیُّ، فَلَمَّا بَلَغَ أَرْبَعِینَ مِنْہَا قُبِضَ، قَالَ: وَکَانَ الْمَشْیَخَۃُ یَقُولُونَ: إِذَا قُرِئَتْ عِنْدَ الْمَیِّتِ خُفِّفَ عَنْہُ .
''صفوان کہتے ہیں :مجھے بوڑھوں نے خبر دی کہ وہ غضیف بن حارث ثمالی کے پاس حاضر ہوئے، جب ان کی روح نکلنے میں دشواری ہوئی تو کہنے لگے:آپ میں کس نے سورت یٰس پڑھی ہے؟اس پر صالح بن شریح سکونی یٰس پڑھنے لگے چالیسویں آیت پر پہنچے تو غضیف کی روح قبض ہو گئی، اس وقت سے وہ بوڑھے کہتے ہیں کہ جب تو میت کے پاس یٰس کی تلاوت کرے گا تو اس کی وجہ سے میت کے عذاب میں تخفیف ہو گی۔''
(مسند الامام احمد:105/4)
یہ بوڑھے نہ معلوم ہیں۔ لہٰذا سند مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:187/3)کا اس کی سند کو حسن قرار دینا درست نہیں۔
فائدہ نمبر:
سیدنا ابو الدرداء اور سیدنا ابو ذر غفاریwبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ مَیِّتٍ یَمُوتُ فَیُقْرَأُ عِنْدَہُ یٰس إلَّا ہَوَّنَ اللَّہُ عَلَیْہِ
''جو آدمی فوت ہوتا ہے اور اس کے پاس سورت یٰس کی تلاوت کی جاتی ہے، اللہ اس پر آسانی کر دیتے ہیں۔''
(مسند الفردوس:6099؛ التلخیص الحبیر لابن حجر:104/2)
سند من گھڑت ہے۔ مروان بن سالم غفاری متروک و وضاع ہے۔
دلیل نمبر3
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ مَرَّ عَلَی الْمَقَابِرِ فَقَرَأَ فِیہَا إِحْدَی عَشَرَ مَرَّۃٍ (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) ثُمَّ وَہَبَ أَجْرَہُ الأَمْوَاتَ أُعْطِیَ مِنَ الأَجْرِ بِعَدَدِ الأَمْوَاتِ .
''جو قبرستان سے گزرے اور سورئہ اخلاص گیارہ بار پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخش دے تو اسے تمام مردوں کی گنتی کے برابر ثواب دیا جائے گا۔''
(تاریخ قزوین:297/2)
تبصرہ:
روایت سخت ضعیف ہے۔ داؤد بن سلیمان غازی کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق ثابت نہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَذَّبَہ، یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ، وَلَمْ یَعْرِفْہُ أَبُو حَاتِمٍ، وَبِکُلِّ حَالٍ؛ فَہُوَ شَیْخٌ کَذَّابٌ، لَہ، نُسْخَۃٌ مَّوْضُوعَۃٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی الرَّضٰی، رَوَاھَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدُ بْنُ مِہْرَوَیْہِ الْقَزْوِینِيُّ الصَّدُوقُ عَنْہُ .
''امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کذاب(پَرلے درجے کا جھوٹا)کہا ہے، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے مجہول قرار دیا ہے، یہ ہر حال میں کذاب ہے، اس کے پاس علی بن موسیٰ رضی کی سند سے موضوع روایتوں پر مشتمل ایک نسخہ تھا، اس سے علی بن محمد بن مہرویہ قزوینی صدوق بیان کرتا ہے۔ ''
(میزان الاعتدال:8/2؛ ؛لسان المیزان لابن حجر:417/2)
دلیل نمبر4
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأَ سُورَۃَ یٰس خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَکَانَ لَہُ بِعَدَدِ مَنْ فِیہَا حَسَنَات .
''جو قبرستان میں داخل ہواور سورت یٰس تلاوت کرے تو اس قبرستان والوں سے اللہ عذاب میں تخفیف کرتاہے اور پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر نیکیاں ملتی ہیں ۔''
(شرح الصدور للسیوطی ص:404)
تبصرہ:
جھوٹ کا پلندہ ہے۔البانی رحمہ اللہ نے اس کی یہ سند ذکر کی ہے:
أَخْرَجَہُ الثَّعْلَبِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِہٖ(3/161/2)مِنْ طَرِیْقِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الرِّیَاحِیْ: حَدَّثَنَاأَبِیْ: حَدَّثَنَا أَیُّوْبُ بْنُ مُدْرَکٍ عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسَ بْنِ مَالِکٍ .
1 ایوب بن مدرک کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کذاب، امام ابو حاتم رازی، امام نسائی اور امام دارقطنی رحمہم اللہ نے متروک، امام ابو زرعہ رازی، امام یعقوب بن سفیان فسوی،حافظ جوزجانی، امام صالح بن محمد جزرہ اور امام ابن عدی رحمہم اللہ وغیرہم نے ضعیف کہا ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رَوٰی أَیُّوْبُ بْنُ مُدْرَکٍ عَنْ مَکْحُوْلٍ نُسْخَۃً مَوْضُوْعَۃً وَلَمْ یَرَہ، .
''ایوب بن مدرک نے امام مکحول سے ایک من گھڑت نسخہ روایت کیا ہے، انہیں دیکھا نہیں۔''
(لسان المیزان لابن حجر:488/1)
اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق ثابت نہیں۔
2 احمد بن ابی العوام ریاحی اور ابو عبیدہ کی توثیق مطلوب ہے۔
3 امام حسن بصری رحمہ اللہ مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی ۔
دلیل نمبر5
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ ثُمَّ قَرَأَ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ وَ(قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ) و (أَلْھَاکُمُ التَّکَاثُرُ) ثُمَّ اللَّہُمَّ إِنِّی جَعَلْتُ ثَوَابَ مَا قَرَأْتُ مِنْ کَلَامِکَ لِأَہْلِ الْمَقَابِرِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ کَانُوا شُفَعَاءَ لَہُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالَی .
''جو قبرستان جا کرسورت فاتحہ، سورت اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے، پھر یوں کہے:یااللہ!جو میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب اس قبرستان والے مومن مردوں، مومن عورتوں کو پہنچاتووہ تمام اللہ کے ہاں اس کی سفارش کریں گے۔
(فوائد لابی القاسم سعد بن علی الزنجی، بحوالہ: شرح الصدور للسیوطی ص:404)
تبصرہ:
بے سند ہونے کی وجہ سے رد کی جائے گی ۔
دلیل نمبر6
حماد مکی نے بیان کیا ہے :
خَرَجْتُ لَیْلَۃَ إِلٰی مَقَابِرِ مَکَّۃَ فَوَضَعْتُ رَأْسِی عَلٰی قَبْرٍ فَنُمْتُ فَرَأَیْتُ أَہْلَ الْمَقَابِرِ حَلْقَۃً حَلْقَۃً فَقُلْتُ قَامَتِ الْقِیَامَۃُ؟ قَالُوْا لَا وَلٰکِنْ رَجُلٌ مِنْ إِخْوَاننَا قَرَأَ(قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ)وَجَعَلَ ثَوَابَہَا لَنَا فَنَحْنُ نَقْتَسِمُہ، مُنْذُ سَنَۃٍ .
'' ایک رات میں مکہ کے قبرستان گیا اور ایک قبر پر سر رکھ کر سو گیا، میں نے خواب دیکھا کہ قبروں والے حلقوں میں کھڑے ہیں۔ پوچھا :کیا قیامت قائم ہو گئی ہے؟ انہوں نے کہا:نہیں۔ ایک ہمارے کسی بھائی نے سورئہ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخش دیا۔ ہم ایک سال سے اسے تقسیم کر رہے ہیں۔''
(شرح الصدور للسیوطی ص:404)
تبصرہ:
بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع اور باطل ہے۔ حماد مکی نامعلوم ہے۔ نامعلوم راویوں کے خوابوں سے دلیل لینا دین نہیں ہے۔
دلیل نمبر7
حسن بن ہیثم کہتے ہیں:
کَانَ خِطَابُ یَجِیئُنِی وَیَدُہُ مَعْقُودَۃٌ، وَیَقُولُ:إِذَا وَرَدْتَ الْمَقَابِرَ فَأَقْرَأْ: (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ)، وَاجْعَلْ ثَوَابَہَا لِأَہْلِ الْمَقَابِرِ .
'' خطاب بن بشر میرے پاس آئے، ان کے ہاتھ بندھے تھے اور مجھے کہا: قبرستان جاؤ تو سورت اخلاص پڑھ کرثواب قبرستان والوں کو بخش دیجئے ۔''
(الامر بالمعروف والنہی عن المنکر للخلال:252، وسندہ حسن)
تبصرہ:
یہ ان کی اجتہادی خطا ہے، قرآن و حدیث اور سلف امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے قبول نہیں، نیز اس میں مروجہ قرآن خوانی کا ثبوت نہیں۔
دلیل نمبر8
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَا بَأْسَ بِقِرَاء َۃِ الْقُرْآنِ فِی الْمَقَابِرِ .
'' قبرستان میں قرآن پڑھنے میں حرج نہیں۔''
(الامر بالمعروف والنہی عن المنکر للخلال:245)
تبصرہ:
سخت ضعیف ہے۔
1 شریک بن عبداللہ قاضی مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔
2 الری کی تعیین و توثیق مطلوب ہے۔
دلیل نمبر9:
حسن بن عبد العزیز جروی کہتے ہیں:
مَرَرْتُ عَلَی قَبْرِ أُخْتٍ لِيْ، فَقَرَأْتُ عِنْدَہَا: تَبَارَکَ، لِمَا یُذْکَرُ فِیہَا، فَجَاء َنِی رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنِّی رَأَیْتُ أُخْتَکَ فِی الْمَنَامِ تَقُولُ: جَزَی اللَّہُ أَخِی عَنِّی خَیْرًا، فَقَدِ انْتَفَعْتُ بِمَا قَرَأَ .
''میری ہمشیرہ کی قبر کے پاس سے میرا گزرا ہوا، میں نے سورت تبارک الذی کی فضیلت مدنظر رکھتے ہوئے قبر پر تلاوت کی۔ ایک شخص آیا اور کہا کہ میں نے آپ کی ہمشیرہ کو خواب میں دیکھا کہہ رہی تھیں کہ اللہ میری طرف سے میرے بھائی کو جزائے خیر دے ۔ جو اس نے پڑھا تھا، میں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ''
(الامر بالمعروف والنہی عن المنکر للخلال:246، وسندہ صحیح)
تبصرہ:
امتیوں کے خواب شرعی حجت نہیں ہوتے۔
دلیل نمبر10:
حسن بن صباح کہتے ہیں:
سَأَلْتُ الشَّافِعِیَّ عَنِ الْقِرَاء َۃِ، عِنْدَ الْقُبُورِ؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِہِ
''میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے پوچھا قبروں پر قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا:حرج نہیں۔''
تبصرہ:
اس میں قرآن پڑھ کر بخشنے کا ذکر نہیں۔ گو کہ قبرستان میں قرآن کی تلاوت بھی شرعی حوالے سے جائز نہیں۔
دلیل نمبر!:
خیثم نے وصیت کی تھی کہ جب انہیں قبرستان میں دفن کیا جائے تو ان کی قوم ان پر قرآن پڑھے۔
(الزہد للامام احمد:2122)
تبصرہ:
سند ضعیف ہے۔
1 سفیان ثوری مدلس ہیں،سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔
2 اس میں رجل مبہم موجود ہے۔
عباس دوری رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا :
تَحْفَظُ فِی الْقِرَاء َۃِ عَلَی الْقُبُورِ شَیْئًا، فَقَالَ: لَا.
''کیا آپ کو قبرپر قرا ء ت کے حوالے سے کچھ یاد ہے، فرمایا نہیں۔''
(القراء ۃ عند القبور لابی بکر الخلال :ص، 87)
الحاصل:
قرآن خوانی شرعی دلائل سے ثابت نہیں ہے۔ سلف صالحین سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں، بلکہ یہ دین میں اضافہ ہے۔
 
Top