• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن فہمی کا صحیح طریقہ

ابو شحمہ

مبتدی
شمولیت
نومبر 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
11
قرآن فہمی کا صحیح طریقہ :

امت مسلمہ میں روز اول سے ہی یہ قانون متفق علیہ رہا کہ قرآن مجید کی تشریح اور منشاء کی اصل حقیقت رسول اللہ ﷺ کی سیرت، آپ کے اقوال و افعال ہی سے جڑی ہوئی ہے۔جسے بطریق احسن اصحاب پیغمبر علیھم الرضوان نے امت تک پہنچادیاہے قرآنِ مجید میں ناسخ و منسوخ کی ایک لمبی چوڑی فہرست موجود ہے، بسا اوقات کئی مقامات پر بظاہر تعارض بھی نظر آتا ہے اور مختلف اوقات میں ایک ہی مسئلے پر دو مختلف آیات جو کہ عمل کا تقاضا کر رہی ہوتی ہیں۔ مگر ایک ہی وقت میں ان پر عمل مشکل ہوتا ہے۔ بالغرض ایسے کئی مقامات اور کٹھن مراحل کا سامنا قاری کو کرنا پڑتا ہے مگر ان تمام مسائل اور الجھنوں کو رسول اللہ ﷺ ہی کی احادیث کے ذریعےبذریعہ اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین دور کرنا منشاء الہٰی اور حق کے مطابق ہے۔
تاھم جب قرآن مجید کا نزول ہو رہا تھا اس وقت بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کئی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے اپنی من مانی تاویل اور تشریحات کو ایک طرف کر کے صحیح اور معتبر احکامات کی طرف رجوع فرمایا جسے ہم احادیث رسول اور صحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم میں سے مفسر صحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کی تفسیری راۓکہتے ہیں۔ الغرض !قرآن مجید کی صحیح تعبیر اور اس کی اصل تشریح رسول اللہ ﷺ کے فرامین میں ہی ذم ہی جس کے افہام کے لیۓ اقوال صحابہ معاون ہیں۔

اس سب کے باوجودصحابہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم قرآن فہمی کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ہی طرف رجوع فرماتےتھےآپ ﷺکی طرف رجوع نہ فرمانے سےکبھی منشاءقرآنی سمجھنےسےقاصررہ جاتےتھے ملاحظہ فرمائیں

امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں

''عن عدی رضی اللہ عنہ قال: اخذ عدی ۔۔۔۔۔۔کان الخیط الابیض والاسود وسارک''
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، رقم الحدیث، ۴۵۰۹ ۔ ۴۵۱۰)
''عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ''کھاؤ اور پیو جب تک کہ صاف نظر آئے تم کو دھاری سفید صبح کی جدادھاری سیاہ سے پھر پورا کرو روزے کو رات تک) میں نے دو دھاگے سیاہ اور سفید پاس رکھے اور رات کو دیکھتا رہا اور جب تک اس میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا کھاتا رہا۔ صبح کو رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے رات کو ایسا کیا کہ دو سیاہ اور سفید دھاگے اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیے تھے آپ نے عدی رضی اللہ عنہ کی بات سن کر ہنستے ہوئے فرمایا کہ تمہارا تکیہ بہت بڑا ہے کہ صبح کی سفید دھاری اور رات کی کالی دھاری اس کے نیچے آگئی۔ ''

حاصل کلام:

غور طلب بات ہے کہ قرآن مجید کی آیت کی صحیح منشاء سیدنا عدی رضی اللہ عنہ سے مخفی رہی اور انہوں نے آسمانی سفیدی اور سیاہی کو دھاگوں سے تعبیر دے کر اپنے تکیے کے نیچے بھی رکھ دیا۔ اگر عدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع نہ فرماتے تو ہمیشہ سیاہ دھاگے اور سفید دھاگے کی غلط تعبیر ہی کرتے۔
معلوم ہوا کہ قرآن مجید کو خود ہی سمجھنے(بغیر علماء)کانعرہ لگاناسراسر گمراہی اورخرابی پرمبنی ہےاور جگہ جگہ غلطی کاامکان اور منشاء ربانی کےافہامم میں پھسلنےکایقینی اندیشہ ہے اس لیۓاس سےخودبھی بچیں اوروں کوبھی بچائیں علماءپراعتمادکرکےتفاسیراورعلماء کی طرف رجوع فرمائیں۔
 
Top